khanqahi nizam

خانقاہی نظام Khanqahi Nizam


Rate this post

خانقاہی نظام(Khanqahi Nizam)

تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

Khanqahi Nizam.آج کے اس تیز رفتار سائنسی اورجدید ٹیکنالوجی کے دور میں انسان اس قدر ترقی کر گیا ہے کہ کائنات کے سربستہ رازوں سے پردے اٹھا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنی ذات کی حقیقت سے اس قدر غافل ہوتا جا رہا ہے کہ اپنی اصلاح، نفس کے تزکیہ، مقصدِ حیات اور اس کی تکمیل کی جانب دھیان کم ہی جاتا ہے۔ ہمیں دوسروں کی خامیاں اور کجیاں تو باآسانی نظر آجاتی ہیں لیکن اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں نظر نہیں آتیں۔ ہم اپنے بچوں کو دنیاوی علوم سے آراستہ  کرتے ہیں، دنیا کی مشکلات سے نبٹنے کے طریقے بھی بتاتے ہیں، لوگوں کو چکر دینا، مکر و فریب اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے والے کو ہی کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ جھوٹ کی صفائی اور دھوکہ دہی انسان کی خاص خوبی بن چکی ہے کہ اگر اپنے مفاد کے لیے کسی سے جھوٹ بھی بولناپڑے تو کوئی مضائقہ نہیں، اپنی ترقی اور خوشیوں کے لیے کسی کی خوشیوں کو غارت کرنا پڑے تو بھی حرج نہیں۔ کیا یہی ترقی ہے؟ خود سے اور اخلاقیات سے غافل اور اپنے خالق سے بے خبر۔۔۔ دنیاوی اور ظاہری ترقی کے لیے ہمہ وقت کوشاں لیکن روحانی و باطنی ترقی سے غافل۔

 ہم اپنے لیے بہتر سے بہترین کی تلاش میں رہتے ہیں لیکن اس بہترین کا معیار ہر کسی کے لیے مختلف ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بہترین طلب اللہ کی طلب کو قرار دیا ہے جبکہ ہمارے لیے بہترین مال و دولت کی فراوانی ہے۔ کیا اس ہنگامہ آرائی اور نفس پرستی کے دور میں اس امر کی ضرورت نہیں کہ ہم نوجوان نسل کی تربیت ان خطوط پر کریں جن خطوط پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تربیت کی۔ نوجوان نسل کو یہ نظریہ اور شعور دیں کہ قلبی سکون نعمتوں اور آسائشوں کی فراوانی میں نہیں بلکہ اللہ کے ذکر میں ہے۔ ان کو احساس دلائیں کہ دوسروں کے عیبوں اور خامیوں کی تشہیر سے قبل ہم اپنی اصلاح اور محاسبہ نفس کی طرف توجہ دیں کیونکہ ہم اپنی زندگی اور اس کے اعمال کے جوابدہ ہیں نہ کہ دوسروں کی زندگی کے۔ اس کے لیے ضرورت ہے ایک ایسے ماحول کی جو ا نسان کو یہ سب چیزیں مہیا کر سکے کہ انسان واقعی انسان بن جائے۔ جہاں محاسبہ نفس کے شعور کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس کی دولت بھی نصیب ہو۔ ظاہر کی اصلاح کے ساتھ ساتھ باطن کی بھی درستی ہو کیونکہ اگر روح و قلب پاکیزہ ہوں گے تو ہی ظاہر بھی اس کی متابعت میں نیک اور پاک اعمال و افعال سرانجام دے گا۔

Khanqahi Nizam.ایسا پاکیزہ اور روحانی ماحول کسی ولیٔ کامل کی بارگاہ میں ہی میسر آسکتا ہے۔ ایک مرشد کامل اکمل ہی وہ ہستی ہے جو اپنی نگاہِ کامل سے نفس کا تزکیہ کرتا ہے اور طالبِ مولیٰ کی تربیت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کرتا ہے۔ جس کے لیے وہ ایسی تربیت گاہ کی بنیاد رکھتا ہے جو کہ’’ خانقاہ‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے جہاں ظاہر کی پاکیزگی اور اصلاح سے پہلے نفس و باطن کی پاکیزگی اور اصلاح پر زور دیا جاتا ہے۔

 حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور میں بھی ایک ایسی ہی درسگاہ صفّہ کے چبوترے پر قائم تھی جہاں قیام کرنے اور تربیت پانے والے اصحابِ صفّہ کے نام سے معروف ہیں۔ جو اپنی دنیاوی فکروں اور الجھنوں کو بھلا کر اللہ کے ذکر میں مشغول رہتے تھے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دورِ حیات کے بعد بھی صوفیا کرام نے خانقاہوں کے قیام کی روایت کو برقرار رکھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی نگاہ میں خانقاہوں کا تصور بدلتا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ وہ عوامل تھے جن کے وقوع پذیر ہونے سے خانقاہوں کا معیار بدل گیا۔ خانقاہوں کے قیام کا مقصد لوگوں کو دعوت الی اللہ دینا تھا۔ دنیاوی آلائشوں اور لذتوں سے منہ موڑ کر ان کا دھیان اللہ کی جانب لگانا تھا لیکن جب خانقاہوں کی بنیاد رکھنے والے اولیا کرام اور فقرا کاملین اس دنیا سے پردہ کر گئے تو ان کی گدیوں پر مفاد پرستوں نے قبضہ کر لیا جن کی غیر شرعی اور بے لگام نفسانی امور کے باعث خانقاہوں کا مقام و مرتبہ اور عظمت لوگوں کی نگاہ میں ختم ہو گئی۔ بقول اقبالؒ:

اٹھا میں مدرسہ اور خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ

ذیل میں کچھ ایسے عوامل بیان کیے جا رہے ہیں جو خانقاہ میں قیام پذیر مریدین اور طالبانِ مولیٰ کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

خانقاہ کا نظامِ تربیت

Khanqahi Nizam.طالبانِ مولیٰ طلبِ حق اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے لیے مرشد کامل اکمل کی صحبت میں وقتاً فوقتاً حاضر ہوتے رہتے ہیں جہاں مرشد کی نورانی صحبت اور پُرتاثیر گفتگو طالبانِ مولیٰ کے باطن کو منور کر کے پاکیزگی اور نور بخشتی ہے لیکن طالب کی دینی و دنیاوی لحاظ سے اصل تربیت خانقاہ میں قیام سے ہی ممکن ہے جہاں بہت سے مریدین اور محبین اپنی تربیت کے لیے قیام پذیر ہوتے ہیں۔

جس طرح دنیاوی علوم کی تحصیل کے لیے کسی سکول، کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لینا ضروری ہے اسی طرح طالبِ مولیٰ کے لیے بھی اپنی باطنی تربیت کے لیے خانقاہ میں قیام کرنا ضروری ہے اگرچہ یہ قیام مختصر وقت اور چند روز کے لیے ہی ہو۔

خانقاہ کا ماحول سب سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے جہاں طالبِ مولیٰ دنیا کی رنگینیوں اور لذتوں سے دور ایک ایسی جگہ قیام پذیر ہوتا ہے جہاں اس کا دھیان غیر اللہ سے موڑ کر اللہ کی طرف مبذول کیا جاتا ہے۔

Khanqahi Nizam.خانقاہ میں مختلف ماحول اور علاقوں کے پروردہ لوگ تربیت کے لیے قیام پذیر ہوتے ہیں جن کے مزاج اور رہن سہن میں فرق بھی دوسرے لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے جہاں مل جل کر رہتے ہوئے مزاج کی ترشی اور بول چال کی سختی کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف بھائی چارے کی مثالیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ایک دوسرے کی محبت و نفرت کو بھی برداشت کرتا پڑتا ہے۔جس سے طالبانِ مولیٰ کی اخلاقی تربیت بھی ہو تی ہے۔

مختلف تعلیمی معیار اور روحانی مراتب کے اعتبار سے طالبانِ مولیٰ راہِ فقر و معرفت کے مختلف موضوعات زیرِ بحث لاتے ہیں جس سے طالبانِ مولیٰ کے ذہن کو ایک نئی طرزِ فکر عطا ہوتی ہے۔ انسانی ذہن جو دنیا میں رہ کر مال و دولت کے حصول کے لیے ہی سوچ بچار کرتا رہتا ہے خانقاہ میں قیام کے دوران سوچ کا رُخ ہی بدل جاتا ہے۔

خانقاہ میں قیام کے دوران طالبانِ مولیٰ کے ذمہ مختلف قسم کے فرائض کی انجام دہی بھی ہوتی ہے جیسا کہ خانقاہ کی صفائی ستھرائی، لنگرکی تیاری اور دیگر ترقیاتی امور جیسا کہ کتب و رسائل کی اشاعت اور دعوت و تبلیغ کی ادائیگی وغیرہ۔ ان امور کی صدقِ دل اور خلوصِ نیت سے ادائیگی سے طالبِ مولیٰ کے نفس کا تزکیہ بھی ہو جاتا ہے اور نفس پر جمی میل، دنیاوی خواہشات اور نفسانیت کے پردے بھی دور ہو جاتے ہیں۔

Khanqahi Nizam.خانقاہ میں طالبانِ مولیٰ کے لیے ناچ گانا، موسیقی اور تمباکو نوشی وغیرہ کی ممانعت ہے جو صرف اور صرف انسان کی سوچ اور خیالات کو پراگندہ کرتے ہیں۔ قیام کے دوران طالبانِ مولیٰ ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات میں مشغول رہتے ہیں کیونکہ خانقاہ میں ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کے مواقع فرصت سے میسر آتے ہیں اور روحانی ماحول کی برکت سے دیگر عبادات میں بھی سرور حاصل ہوتا ہے۔ اسمِ اللہ ذات کا ذکر اور تصور طالبانِ مولیٰ کو نہ صرف روحانی امراض سے نجات عطا کرتا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ صفاتِ الٰہیہ سے متصف کرتا ہے اور خلقِ محمدی جیسا کہ صبر و تحمل، محاسبہ نفس، تواضع و حیا، غنایت و جمعیت، تقویٰ، خشیت الٰہی،محبتِ الٰہی، اطاعتِ الٰہی وغیرہ سے بھی نوازتا ہے۔

خانقاہ میں قیام کے دوران طالبانِ مولیٰ کو اپنے نفس کے محاسبہ کے لیے غور و فکر کے لمحات کثرت سے میسر آتے ہیں جس کے باعث وہ اپنی ظاہری و باطنی اصلاح اور درستی کے لیے سوچ بچار کرتا ہے اور ایسے غیر اخلاقی امور کر ترک کر دیتا ہے جو اللہ پاک کے جلال اور ناراضی کا باعث ہوتے ہیں۔

Khanqahi Nizam.خانقاہ میں قیام کے دوران مرشد کامل اکمل سے ملاقات کے مواقع بھی میسر آتے ہیں اور مرشد کی نورانی صحبت سے طالبِ مولیٰ کے دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت عطا کی جاتی ہے۔ طالبِ مولیٰ اپنی طلب میں شدت اور عشق حاصل کرتے ہیں ان کے اندر اللہ اور اس کے رسول اور دینِ اسلام کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

خانقاہ میں دورانِ قیام بزرگوں اور اسلاف کی روایات سے آشنائی حاصل ہوتی ہے۔ دینِ حق کے لیے ان کی جدوجہد اور قربِ حق کے لیے کی گئی محنت سے واقفیت کی بنا پر طالبانِ مولیٰ کے اندر بھی وہی جذبہ اور عشق پیدا ہوتا ہے اور اللہ کے قرب و وصال کے لیے ان کی تڑپ میں اضافہ ہوتا ہے۔

Khanqahi Nizam.خانقاہ میں قیام کے دوران نفسانی و روحانی بیماریوں مثلاً بغض و کینہ، حسد و تکبر، جھوٹ و چغلی وغیرہ جیسے امراض سے بھی نجات حاصل ہوتی ہے اور ایک دوسرے کے متعلق پیدا ہونے والے برُے خیالات، وہمات اور وساوس سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے اور مثبت سوچ کی طرف رحجان پیدا ہوتا ہے۔

حاصل تحریر یہ کہ ان نام نہاد صوفیا کی بدنام حرکتوں کے باوجود ہر دور میں مرشد کامل اکمل خانقاہ کے قیام کی بنیاد رکھتے رہے ہیں اور حق کے متلاشی ان خانقاہوں تک پہنچ ہی جاتے تھے۔ سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل اور موجودہ امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمدنجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی زیرِنگرانی خانقاہی نظام اسی روح کے ساتھ آج بھی رواں دواں ہے جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں تھا اور جس طرح بعد میں آنے والے فقرا کاملین کے زمانے میں تھا۔

 سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے طالبانِ مولیٰ کی روحانی و باطنی تربیت کی غرض سے پہلے ایجوکیشن ٹاؤن وحدت روڈ لاہورمیں خانقاہ سروری قادری قائم کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مریدین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث یہ خانقاہ مریدین کے لئے ناکافی ثابت ہونے لگی۔ اس ضرورت کے پیشِ نظر بانی و سرپرستِ اعلیٰ تحریک دعوتِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے 2019 کے آخر میں رنگیل پور شریف براستہ ملتان روڈ لاہور میں ایک انتہائی وسیع و عریض اور کشادہ خانقاہ، خانقاہ سلطان العاشقین کی تعمیر کا آغاز کیا جو تقریباًایک سال کے قلیل عرصہ میں مکمل ہوئی۔ اس خانقاہ کی تکمیل پر یکم اگست 2020کو عید الاضحی کے پر مسرت موقع پر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے خانقاہ سلطان العاشقین سے ملحق ـ ’مسجدِ زہرؓا‘ کا سنگِ بنیاد رکھا جس کی تعمیر کا کام دن رات تیزی سے جاری ہے۔

Khanqahi Nizam.رنگیل پور شریف براستہ ملتان روڈ لاہور میں خانقاہ سلطان العاشقین کے قیام کے بعدخانقاہ سروری قادری تحریک دعوتِ فقر کے مرکزی دفاتر کے طور پر اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہے جبکہ خانقاہ سلطان العاشقین تحریک دعوتِ فقر کا روحانی مرکز بن گیا جہاں طالبانِ مولیٰ کی روحانی و باطنی تربیت مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنی پاکیزہ صحبت سے فرماتے ہیں۔ خانقاہ سلطان العاشقین میں بہت سے مریدین مستقل طور پر رہائش پذیر ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی راہِ حق کے لئے وقف کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں مقامی اور دور درازعلاقوں سے تعلق رکھنے والے مریدین بھی باطنی تربیت کی غرض سے خانقاہ سلطان العاشقین کا رُخ کرتے ہیں۔

 آئیے! آپ بھی اس خانقاہ میں قیام کی بدولت مرشد کامل اکمل کی صحبت سے مستفیض ہوں کیونکہ خانقاہ ہی وہ بابرکت اور روحانی جگہ ہے جہاں دلوں کی میل اور زنگ دور کر کے نورِ الٰہی بھرا جاتا ہے۔ خانقاہ میں قیام سے ہی انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی ممکن ہے۔ دنیاوی مال و متاع کے حصول اور کاروبار میں ملازمت کی غرض سے تو ہم دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں بھی پہنچ جاتے ہیں لیکن اپنی باطنی اصلاح اورروحانی تربیت کی غرض سے کسی مرشد کامل کی صحبت اختیار کرنا ہمارے لیے دشوار ہے۔ تو ہمت کریں اس مشکل کو آسان کرنے کی اور مرشد کی صحبت میں رہ کر اپنے باطن کو منور کریں اور اللہ کی پہچان اور قرب حاصل کریں کیونکہ دنیا و آخرت میں کامیابی کے لئے سیاست نہیں بلکہ روحانی تربیت کی ضرورت ہے۔

اہم اطلاع

Khanqahi Nizam.تحریک دعوتِ فقرکی انتظامیہ کمیٹی بہت جلد خانقاہ سروری قادری میں موجود تمام دفاتر کومستقل طور پر خانقاہ سلطان العاشقین میں منتقل کرنے کے لئے ایک مکمل اور جامع منصوبہ بندی تیار کرچکی ہے۔ اس منصوبے کے تحت تمام شعبہ جات کے دفاترخانقاہ سلطان العاشقین میں تعمیر کئے جائیں گے۔ یہ پراجیکٹ نائب سرپرست تحریک دعوتِ فقر صاحبزادہ سلطان محمد مرتضیٰ نجیب مدظلہ الاقدس کی زیرنگرانی پایۂ تکمیل کو پہنچے گاجس کیلئے باقاعدہ ایک کنسٹرکشن کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔ مخیرحضرات اور طالبانِ مولیٰ سے اپیل ہے کہ اس کارِ خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور تحریک دعوتِ فقر کے مشن ففروا الی اللّٰہ  ــ’دوڑو اللہ کی طرف ‘  کا حصہ بنیں۔

استفادہ کتب
۱۔خانقاہ سروری قادری:  ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۲۔عوارف المعارف:  مصنف حضرت شہاب الدین سہروردی

 

 

28 تبصرے “خانقاہی نظام Khanqahi Nizam

  1. خانقاہ کا ماحول سب سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے جہاں طالبِ مولیٰ دنیا کی رنگینیوں اور لذتوں سے دور ایک ایسی جگہ قیام پذیر ہوتا ہے جہاں اس کا دھیان غیر اللہ سے موڑ کر اللہ کی طرف مبذول کیا جاتا ہے۔

  2. خانقاہ سلطان العاشقین گمراہی کے اس دور میں نورِ ہدایت تقسیم کرنے والی واحد درسگاہ ہے

  3. اہل مغرب کا کہنا ہے کہ اسلام کو سیاسی زوال تو بہت بار آیا لیکن روحانی زوال کبھی نہیں آیا۔ لیکن روحانی زوال اپنوں کے ہاتھوں آیا اور آج ہم روحانی زوال کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں

  4. اٹھا میں مدرسہ اور خانقاہ سے غمناک
    نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ

  5. آج کے اس تیز رفتار سائنسی اورجدید ٹیکنالوجی کے دور میں انسان اس قدر ترقی کر گیا ہے کہ کائنات کے سربستہ رازوں سے پردے اٹھا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنی ذات کی حقیقت سے اس قدر غافل ہوتا جا رہا ہے کہ اپنی اصلاح، نفس کے تزکیہ، مقصدِ حیات اور اس کی تکمیل کی جانب دھیان کم ہی جاتا ہے۔

  6. دوسروں کے عیبوں اور خامیوں کی تشہیر سے قبل ہم اپنی اصلاح اور محاسبہ نفس کی طرف توجہ دیں

  7. ماشااللہ بہت ہی خوبصورت بیان ہے❤️❤️❤️❤️❤️

  8. جس طرح دنیاوی علوم کی تحصیل کے لیے کسی سکول، کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لینا ضروری ہے اسی طرح طالبِ مولیٰ کے لیے بھی اپنی باطنی تربیت کے لیے خانقاہ میں قیام کرنا ضروری ہے اگرچہ یہ قیام مختصر وقت اور چند روز کے لیے ہی ہو۔

  9. بقول اقبالؒ:
    اٹھا میں مدرسہ اور خانقاہ سے غمناک
    نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ

  10. اٹھا میں مدرسہ اور خانقاہ سے غمناک
    نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ

  11. اٹھا میں مدرسہ اور خانقاہ سے غمناک
    نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ

  12. خانقاہ میں قیام کے دوران طالبانِ مولیٰ کو اپنے نفس کے محاسبہ کے لیے غور و فکر کے لمحات کثرت سے میسر آتے ہیں جس کے باعث وہ اپنی ظاہری و باطنی اصلاح اور درستی کے لیے سوچ بچار کرتا ہے اور ایسے غیر اخلاقی امور کر ترک کر دیتا ہے جو اللہ پاک کے جلال اور ناراضی کا باعث ہوتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں