Adal ki Ahmiyat

عدل کی اہمیت Adal ki Ahmiyat


4.3/5 - (3 votes)

عدل کی اہمیت(Adal ki Ahmiyat)

تحریر: فقیہہ صابر سروری قادری  (رائیونڈ)

Adal ki Ahmiyat

عدل سے منہ موڑ کر جب منصفی ہونے لگے
سخت کافر جرم بھی اب مذہبی ہونے لگے

قلب تک پہنچی نہیں جن کے شرابِ معرفت
ایسے فرضی لوگ دعوے سے ولی ہونے لگے

حسرتیں پلنے لگی ہیں پھر نبوت کے لیے
کچھ دنوں میں کیا خبر پیغمبری ہونے لگے 

تشنگی کی آنکھ میں بے سمت تیور دیکھ کر
کتنے دریا دل سمندر بھی ندی ہونے لگے

(منتظر قائمی)

Adal ki Ahmiyat.اسلام میں عدل کی بڑی اہمیت ہے ۔کسی بھی معاشرے کے استحکام کے لیے نظامِ عدل کا قائم ہونا انتہائی ضروری ہے۔ جس معاشرے میں عدل کی بجائے ظلم عام ہوجاتا ہے اس معاشرے میں احساسِ محرومی، بے چینی اور بدامنی جنم لیتے ہیں۔معاشرے میں مختلف سوچ و فکر کے حامل لوگ پائے جاتے ہیں ان تمام لوگوں کو معاشرتی نظام میں پرونے کے لیے عدل کا ہونا نہایت ضروری ہے ۔

عربی زبان میں عدل برابر تقسیم کرنے،سیدھا کرنے اور دو چیزوں میں برابری قائم کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔عدل کی ضد ’ظلم و زیادتی‘ ہے۔ عدل کا مفہوم کسی چیز کو اسکے صحیح مقام پر رکھنا،حقدار کو اس کا پورا حق ادا کرنااور انفرادی و اجتماعی معاملات میں اعتدال اختیار کرنا ہے۔اردو میں کم و بیش اسی معنی میں ’’انصاف‘‘ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔انصاف کا لغوی معنی دو ٹکڑے کرنا، کسی چیز کا نصف کرنا، فیصلہ کرنا، حق دینا اور عدل کرنا ہے۔

Adal ki Ahmiyat.اسلام نے عدل و انصاف پر بہت زور دیا ہے لیکن جب بھی عدل وانصاف کی بات آتی ہے تو ہمارے ذہن میں ایک غلط فہمی جنم لیتی ہے کہ جب دو لوگ یا فریق آپس میں لڑیں تو انصاف کرنا ہے یا پھر عدل کو عدالتوں تک محدود رکھتے ہیں۔ اس سے زیادہ عدل کو سمجھا ہی نہیں جاتا حالانکہ بڑے سے بڑے معاملے سے لیکر چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں بھی عدل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسلام نے عدل کو زیادتی اور ظلم کی ضد اور اس کے مخالف معنی میں استعمال کیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کے ذریعہ کئی مقامات پر عدل اختیار کرنے کی تاکید فرمائی ہے مثلاً
’’بے شک اللہ عدل و احسان اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے‘‘۔ (سورۃنحل۔90)
 ’’اور جب تم فیصلہ کرو لوگوں کے درمیان تو عدل کے ساتھ کیا کرو‘‘۔ (سور ۃ النسائ۔58)

ایک آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عدل اختیار کرنے کی تاکید کے لیے فرماتا ہے:
 ’’(اے نبیؐ کہہ دیجئے)کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے ساتھ عدل کروں‘‘۔(سورۃ شوریٰ۔15)
مذکورہ بالا آیات سے ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ عدل کتنا ضروری ہے۔ عدل کرنے والے کو عادل جبکہ انصاف کرنے والے کو منصف کہتے ہیں۔عادل اللہ تعالیٰ کاصفاتی نام ہے ۔ یہی صفات خاتم النبیین شفیع المذنبین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی عطاکی گئیں اورپھر یہ تعلیم آپؐ نے اپنی پوری امت ِمسلمہ کو دی۔

آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کاارشادِ گرامی ہے:
’’قاضی جب تک ظلم نہ کرے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ ظلم کا ارتکاب شروع کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے نفس کے حوالے کر دیتا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ 2312)

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ قریب اور اللہ کو سب سے زیادہ پیارا’امام عادل‘ہو گا۔‘‘  (جامع ترمذی1329)

Adal ki Ahmiyat. یعنی اللہ کے حکم کے مطابق انصاف کے ساتھ حکمرانی کرنے والا حکمران۔
عدل کسی بھی قوم یا معاشرے کو استحکام عطا کرتا ہے اور بقا کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور عدل بھی ایسا ہو جو سب کے لیے یکساں ہو۔ یہ عدل نہیں کہ اگر کوئی امیر آدمی جرم کرے تو اسے چھوڑ دیا جائے جب کہ غریبوں کو سخت سزا دی جائے۔ سب سے زیادہ قانون شکنی صاحب جاہ و منصب اور مال دار لوگ کرتے ہیں حالانکہ اسلامی معاشرے میں ایک عام آدمی سے لیکر امیر تک سب احکامِ عدل کے پابند ہوتے ہیں۔ جرم کوئی بھی کرے اسے اس کی سزا ملنی چاہیے۔

Adal ki Ahmiyat.بخاری و مسلم میں ہے:
آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے ’’اے لوگو! تم سے پہلے لوگوں کو اس بات نے ہلاک کیا کہ ان میں سے جب کوئی بااثر فرد چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کم حیثیت والا چوری کرتا تو ا س پر حد قائم کرتے ۔‘‘ (بخاری 6787)

Adal ki Ahmiyat.جنگ بدر کے قیدیوں میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب بھی تھے جو اس وقت اسلام نہ لائے تھے۔ صحابہ کرام ؓ نے اس رشتہ کا پاس کیا اور ان کے ساتھ دوسرے قیدیوں کی نسبت نرمی کرنی چاہی تو حضورؐ نے ایساکرنے سے منع فرمادیا۔

امام کائنات نے دنیا کے سامنے عدل و انصاف کی وہ مثال قائم کی جو قیامت تک کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ مومن کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کرتا۔ اس کی انصاف پسندی کو دنیا کی کوئی خواہش و شہوت ڈگمگا نہیں سکتی اور انہی صفات کی وجہ سے وہ اللہ کی محبت،رضا، اعزازت و انعامات کا مستحق قرار پاتا ہے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے:
’’ انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک نور کے منبروں پر ہوں گے وہ جو اپنے فیصلوں اوراہل و عیال اور جن کے یہ ذمہ دارہیں ان کے معاملے میں عدل کرتے ہیں۔‘‘   (مسلم4721)

صحیح بخاری کی روایت ہے:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر ایک عورت نے چوری کی اور سزا اور بے عزتی کے ڈر سے قبیلے والوں نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو حضورؐ کے پاس سفارش کے لئے بھیجا ۔ اس پر آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
’’گزشتہ قومیں اسی وجہ سے تباہ ہو گئیں کہ وہ غربا پر بلا تامل حدجاری کر دیتے تھے اور امرا سے درگزر کرتے تھے۔ (یہ تو فاطمہ بنتِ اسود ہے) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر آج فاطمہ بنتِ اسود کی جگہ فاطمہ بنتِ محمدؐ ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘  (صحیح بخاری 3475)

اس حدیث پاک سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کے نظام ِعدل میں سفارش اور اقربا پروری کی کوئی گنجائش نہیں۔ عدل ہر کام کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنوں کی تخلیق کا صرف ایک ہی مقصد قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے: ’’ ہم نے انسانوں اور جنوں کو محض اپنی عبادت(معرفت) کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘ (سورۃ الذاریات ۔56)

Adal ki Ahmiyat.اب انسان کو یہ سوچنا چاہیے کہ میرے خالق نے مجھے اپنی عبادت یعنی معرفت کے لیے پیدا کیا ہے تو اس کی معرفت حاصل کیے بغیر عبادت کرنا عدل کے خلاف ہے یا نہیں۔ چنانچہ عبادت کو جو ہمہ گیریت حاصل ہے اس کو سمجھنے کی اشدضرورت ہے ۔اس کو نہ سمجھنا عبادت سے عدل نہیں۔ عبادت کو اس کے مروجہ معنوں تک محدود کر دینا یعنی اسے نماز، روزہ یا ارکانِ اسلام کی پابندی کا نام دے کر خود کو عبادت گزار سمجھ لینا عدل نہیں کیونکہ اس عبادت کو حقوق کے حوالے سے تقسیم کردیا گیا ہے۔ ان حقوق کی اللہ کے حکم اور رضاکے مطابق ادائیگی عبادت ہے۔حضرت علیؓ کا فرمان ہے:’’معاشرہ کفر کے ساتھ تو زندہ رہ سکتا ہے انصاف کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ۔‘‘ (اقوالِ زریں)

Adal ki Ahmiyat.حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں’’اگر اللہ تعالیٰ اپنی آخری کتاب قرآنِ مجید واپس لے لے اور انسانوں کے لیے صرف ایک لفظ رہنے دے ’اعدلوا‘یعنی عدل کرو تو بھی معاشرہ زندہ رہ سکتا ہے۔ (عدل کی اہمیت، ڈاکٹر اے آر خالد)

علما اکرام نے عدل کو انفرادی اور اجتماعی دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

انفرادی عدل

Adal ki Ahmiyat.اس سے مراد اپنی ذات کے ساتھ عدل و انصاف اختیار کرنا ہے ۔یہ بے حد اہم اور مشکل مرحلہ ہے کیونکہ ہر شخص دوسروں کے درمیان تو انصاف کر سکتا ہے مگر جب واسطہ اپنی ذات سے ہو تو اس وقت انصاف کرنا اس کے ایمان کی آزمائش ہے۔ اس مرحلے پر اپنی خواہشات کو نظر انداز کرنا اور صحیح فیصلہ دینا اعلیٰ اخلاق ہے۔یہی وجہ ہے کہ عبادت میں اتنا انہماک کہ کوئی اپنے جسم کے تقاضوں کی طرف توجہ نہ کرے، اسلام کے نزدیک درست نہیں بلکہ جسم کا بھی جو حق ہے اسے ادا کرنا انصاف ہے اسی لیے اسلام نے دنیا سے منہ موڑ کر ظاہری طور پرہر شے ترک کرنے اور رہبانیت کو پسند نہیں کیا۔یہاں ایک اہم نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ صوفیا کرام نے جو ترکِ دنیا کی تعلیمات دی ہیں اس سے مرادباطنی طو رپر دنیا اور اسکی خواہشات کو ترک کرنا ہے یعنی دل سے دنیا اور اسکی رنگینیوں کو نکال کر اللہ پاک کی محبت اور عشق سے لبریز کرنے کا نام ترکِ دنیا ہے نہ کہ بیوی بچے، بہن بھائی، ماں باپ غرض دنیا کے ہر رشتے ناتے سے قطع تعلق کرکے جنگلوں اور ویرانوں میں جا بیٹھنا ۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو جان لے کہ یہ رہبانیت ہے اوراللہ پاک نے شریعتِ محمدی کے ذریعے رہبانیت کو ختم کر دیا۔

  اجتماعی عدل

ایسا عدل جس کا تعلق معاشرہ کے مختلف حصوں سے ہو اجتماعی عدل کہلاتا ہے۔ اس کے بھی مختلف پہلوہیں۔

(i)  بیویوں کے درمیان عدل:

بعض معاشرتی اور تمدنی وجوہات کی بنا پر اسلام نے مرد کو اس کی اجازت دی ہے کہ وہ ایک سے زائد شادیاں کر سکتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ان کے درمیان ’’عدل‘‘ اختیار کرنے کی شرط رکھ دی ہے۔قرآنِ مجید میں ہے کہ :
’’اگرتمہیں اندیشہ ہو کہ تم ان کے درمیان عدل اختیار نہ کر سکو گے تو پھر ایک بیوی پر قناعت کرو۔ ‘‘ (سورۃ النسائ۔3)

(ii)  خریدو فروخت میں عدل :

اگر کوئی مسلمان کاروبار اور تجارت کرتا ہے تو اس کے لیے حکم ہے کہ تولنے اور ناپنے میں ’’عدل‘‘ اختیار کرے اور چیزوں کی فروخت کے وقت اگر اس میں کوئی نقص ہو تو ظاہر کردے۔حکمِ الٰہی ہے: ’’انصاف کے ساتھ پورا ناپ اور تول کیا کرو۔‘‘  (سورۃ انعام۔ 152)

اس فرمانِ الٰہی کو سامنے رکھا جائے تو معاشرے میں امن و سکون پید ا ہوجائے۔

iii) (  عدالتی معاملات میں عدل:

عدالتی معاملہ سب سے نازک ہے جس میں عدل اختیار کرنا نہایت ضروری ہے۔ دستاویزات اور معاہدات کے سلسلہ میں حکم ہے کہ:
’’تمہارے درمیان (معاہدہ) لکھنے والا انصاف کے ساتھ لکھے۔‘‘ (سورۃ البقرہ۔282)

دستاویزات کے بعد شہادت کی باری آتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں حکم فرمایا ہے: ’’شہادت کو نہ چھپاؤ۔‘‘ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:’’جب تمہیں شہادت کے لیے پکارا جائے تو انکار نہ کرو۔‘‘(سور البقرہ۔282)

اسی کے ساتھ یہ تاکید بھی کی گئی کہ شہادت دو تو ہر قسم کے تعصب سے بلند ہو کر دوخواہ وہ اپنے دوستوں، عزیزوں اور اقارب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اورجب بات کہو تو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو۔‘‘  (سورۃ انعام۔ 152)

iv) (  بات میں عدل:

یعنی انسان جھوٹ نہ بولے، کذب اور باطل سے پرہیز کرے۔حق اور سچائی کو تسلیم کرے اور خلافِ حقیقت باتوں کو دل میں جگہ نہ دی جائے۔

عدل اور حضرت عمر فاروقؓ

Adal ki Ahmiyat.عدل کی بات ہو اور خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کی بات نہ ہو تو یہ عدل کے ساتھ ناانصافی ہے۔ آپؓ نے عدل کی وہ مثال قائم کی کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت میں جسکی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ آپؓ کی زندگی عدل و انصاف کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ آپؓ کتنے بڑے عادل تھے اس واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب حضرت عمر فاروقؓ کا انتقال ہواتو آپؓ کی سلطنت کے دور دراز علاقے کا ایک چرواہابھاگتا ہوا آیا اور چیخ کر بولا ’’لوگو!حضرت عمرؓ کا انتقال ہوگیا۔‘‘

لوگوں نے حیرت سے پوچھا ’’تم مدینہ سے ہزاروں میل دور جنگل میں ہو، تمہیں اس سانحہ کی اطلاع کس نے دی ؟‘‘ چرواہا بولا ’’جب تک حضرت عمر فاروقؓ زندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرتی تھیں اور کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا لیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھا کر لے گیا ، میں بھیڑئیے کی جرأ ت سے جان لیا کہ آج دنیا میں حضرت عمر فاروقؓ موجود نہیں ہیں۔‘‘

حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’ کوئی نبی بھی ایسا نہیں گزرا جس کی امت میں ایک یا دو معلم نہ ہوں اور اگر ان میں سے میری امت میں کوئی ہے تووہ عمر بن خطابؓ ہے۔ بے شک حق عمرؓ کی زبان اور دل پر ہے۔‘‘  (ابن ابی عاصم، طبرانی)

حضرت عمر فاروقؓ کی زندگی عدل و انصاف کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ آپؓکی سیرت ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔

عدل اور مرشد کامل اکمل

Adal ki Ahmiyat.آج کے اس پرفتن دور میں حق دار کو حق ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہی ہے۔ نااہل شخص اپنی ظاہری گفتگو اور چالبازیوں سے وہ عہدہ حاصل کر لیتا ہے جو کسی اہل شخص کا حق ہوتا ہے۔ چونکہ عدل و انصاف سے منہ موڑنے والا شخص اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اس لیے اسے حق اور باطل کی پہچان ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن مرشد کامل اکمل کی بارگاہ ایسی جگہ ہے جہاں کمال کا عدل وانصاف ہوتا ہے چاہے مرشد کامل اکمل کے مرید ہزاروں میں ہوں یالاکھوں میں، مرشد کامل اکمل کی نظر سب پر یکساں ہوتی ہے مرید کی ترقی اس کے ظاہر پر نہیں بلکہ باطن پر منحصر ہوتی ہے اگر مرید اخلاص کے ساتھ اپنے مرشد کا ہر حکم مانتا ہے تو پھر چاہے وہ ظاہری طور پر دور ہی کیوں نہ ہو مرشد اس کو اللہ کی معرفت عطا کر کے قربِ خداوندی عطا کرتا ہے لیکن اگر مرید جاسوس طالب ہے اور اپنے مرشد کے ساتھ مخلص نہیں اوربے ادب ہے تو وہ چاہے ہر وقت مرشد کی بارگاہ میں بیٹھا رہے اس کو کچھ حاصل نہیں ہوگا کیونکہ سروری قادری مرشد کامل اکمل ظاہر نہیں بلکہ باطن کے لحاظ سے مرید کو فیض عطا فرماتا ہے کیونکہ انسان کی اصل اس کا باطن ہے۔میرے مرشدِ کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ ایسی بارگاہ ہے جہاں مکمل طور پر عدل تو کیا ہی جاتا ہے لیکن رحمت بھی کی جاتی ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر کوئی مرید(طالبِ مولیٰ)نفس کی چال میں آکر غلطی کر بیٹھے اور راہِ فقر پر ایک ہی جگہ پر رک جائے تو میرے مرشد کامل اکمل باطنی توجہ فرما کر اس کے نفس کا تزکیہ فرماتے ہیں اور اس کے راستے کی رکاوٹ کو دور فرماتے ہیں۔ سروری قادری مرشد کامل اکمل کی بارگاہ کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اگر ایک تعلیم یافتہ بندہ دین کی کوئی خدمت کر رہا ہوتا ہے، اپنے مرشد کے مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہا ہوتا ہے اور وہی کا م کرنے کا شوق اگر اَن پڑھ کے دل میں آئے اور ایک جذبہ اٹھے دین کی خدمت کا تو میرے مرشدِ کریم اپنی نگاہِ کیمیا سے ایسی باطنی توجہ فرماتے ہیں کہ اَن پڑھ شخص بھی  پڑھے لکھے کے برابر دین کی خدمت کرتا دکھائی دیتا ہے اور کوئی انجان بندہ محض دیکھ کر اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس شخص کے پاس بنیادی تعلیم و تربیت موجود نہ تھی۔بلاشبہ یہ میرے مرشد کریم کا ایک بہت بڑا باطنی تصرف ہے کہ آپ طالب کو وہ علوم بھی عطا کردیتے ہیں جس سے وہ یکسر لاعلم ہوتا ہے اور نہ صرف علم عطا کرتے ہیں بلکہ اس میں کمال بھی عطا کرتے ہیں تاکہ وہ شخص بہترین انداز سے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے فرائض سر انجام دے سکے۔

سروری قادری مرشد کامل اکمل چونکہ قدمِ محمدؐ پر ہوتا ہے اس لیے اس کی بارگاہ میں امیر و غریب ،اَن پڑھ و تعلیم یافتہ سب برابر ہوتے ہیں اور یہی عدل کا تقاضا ہے۔

حاصل تحریر

اسلام چاہتا ہے کہ معاشرہ میں درست عدل کے ذریعے امن قائم ہو اور بدحالی کا خاتمہ ہو جائے اس لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب ؐ نے عدل و انصاف پر بہت زور دیا ہے کیونکہ عدل سے ’’وصف عفت‘‘ کو جلا ملتی ہے جس کے نتیجے میں مسلمان حلال پر اکتفا اور حرام سے اجتناب کرنے کا عادی ہو جاتا ہے ۔ جب یہ وصف کسی قوم کا مجموعی مزاج بن جائے تو پھر انہیں دنیاوی لحاظ سے بھی عروج حاصل ہوتا ہے اور آخرت کی کامیابی و کامرانی بھی ان کا مقدر بنتی ہے۔عدل استقامت کی طرح انسان کے لیے بہت بڑی فضیلت اور کردار کی بلندی کی علامت ہے۔

آج ہم اپنے آقاؐ و مولاکی تعلیماتِ عدل و انصاف سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں اور نتیجتاً خسارے میں پڑتے چلے جارہے ہیں۔امتِ مسلمہ کا مداوا اسی میں ہے کہ ہم اپنے آقاؐ ومولاکی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تاکہ روزِ قیامت سرخرو ہو سکیں۔ چنانچہ روزِ قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے چار معروف صحابہ کرام حضرت انس بن مالکؓ ، حضرت سہل ابن سعدؓ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضوراکرمؐ نے فرمایا ’’ جب میں حوضِ کوثر پر کھڑا ہوں گا تو میرے امتی میری طرف آرہے ہوں گے مگر کچھ لوگوں کو فرشتے میری طرف آنے سے روک دیں گے کہ نہیں انہوں نے آپؐ کے بعد آپؐ کا طریقہ چھوڑ دیا تھا اور نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں، میں کہوں گا پھر انہیں اوردور لے جاؤ۔‘‘ (صحیح بخاری)

استفادہ کتب:
شمس الفقرا: سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقد س
رسالہ عدل و انصاف کا حکم:  مولانا حافظ عبدالرحمن سلفی
عدل کی اہمیت:  ڈاکٹر اے آر خالد
اقوال زریں

Adal ki Ahmiyat


31 تبصرے “عدل کی اہمیت Adal ki Ahmiyat

  1. ’بے شک اللہ عدل و احسان اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے‘‘۔ (سورۃنحل۔90)❤

  2. امتِ مسلمہ کا مداوا اسی میں ہے کہ ہم اپنے آقاؐ ومولاکی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تاکہ روزِ قیامت سرخرو ہو سکیں

  3. ’’بے شک اللہ عدل و احسان اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے‘‘۔ (سورۃنحل۔90)
    ’’اور جب تم فیصلہ کرو لوگوں کے درمیان تو عدل کے ساتھ کیا کرو‘‘۔ (سور ۃ النسائ۔58)

  4. سروری قادری مرشد کامل اکمل چونکہ قدمِ محمدؐ پر ہوتا ہے اس لیے اس کی بارگاہ میں امیر و غریب ،اَن پڑھ و تعلیم یافتہ سب برابر ہوتے ہیں اور یہی عدل کا تقاضا ہے۔

  5. بے شک اللہ عدل و احسان اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے‘‘۔ (سورۃنحل۔90)

  6. بے شک اللہ عدل و احسان اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے‘‘۔ (سورۃنحل۔90)

  7. اسلام میں عدل کی بڑی اہمیت ہے ۔کسی بھی معاشرے کے استحکام کے لیے نظامِ عدل کا قائم ہونا انتہائی ضروری ہے

  8. آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے ’’اے لوگو! تم سے پہلے لوگوں کو اس بات نے ہلاک کیا کہ ان میں سے جب کوئی بااثر فرد چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کم حیثیت والا چوری کرتا تو ا س پر حد قائم کرتے ۔‘‘ (بخاری 6787)

  9. ’’بے شک اللہ عدل و احسان اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے‘‘۔ (سورۃنحل۔90)

  10. آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کاارشادِ گرامی ہے:
    ’’قاضی جب تک ظلم نہ کرے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ ظلم کا ارتکاب شروع کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے نفس کے حوالے کر دیتا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ 2312)

  11. معاشرے کی ترقی کے لیے عدل و انصاف بہت ضروری ہے۔

  12. ماشااللہ بہترین آرٹیکل ہے اللہ پاک ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین 🤲❤❤❤

اپنا تبصرہ بھیجیں