Kaleed-ul-Tauheed Kalan

کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation


Rate this post

کلید التوحید (کلاں)Kaleed-ul-Tauheed Kalan

قسط نمبر 5                                                                    مترجم: احسن علی سروری قادری

Kaleed-ul-Tauheed Kalan.جان لے کہ دنیا کو بے حیا، منافق، بے ادب، کاذب اور ظالم کے سوا اور کوئی طلب نہیں کرتا کیونکہ دنیا ایسے ہی کمینوں کی پرورش کرنے والی ہوتی ہے اور دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ طالبِ دنیا نفس کا مرید اور مصاحبِ شیطان ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کے دن رات حرص و حسد کے سبب پریشانی میں گزرتے ہیں۔ فقیری و مفلسی، غنایتِ دل اور ہدایتِ معرفتِ الٰہی جل شانہٗ سنتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خاصہ ہیں۔ مال و دولت جمع کرنا اور اس پر فخرکرنا کفار، اہلِ زنار اور فرعون علیہم اللعنت کا طریقہ ہے۔ وہ مومن و مسلمان کیسے ہو سکتا ہے جو فقرِ محمدی سے حیا کرتے ہوئے اسے ترک کر دے اور دولتِ دنیا پر فخر کرے اور اسے حاصل کرے۔ ہاں یہ یقین ہے کہ دنیا اپنے طالب کو تب تک نہیں چھوڑتی جب تک اسے دوزخ میں نہ پہنچا دے۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰخِرَۃِ 
ترجمہ: دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔
مزید یہ کہ جو کوئی اپنی ایک دن کی روزی سے زیادہ کی طلب کرتا ہے اس کا انجام دوزخ میں ہے۔ فقر و معرفت طالبِ مولیٰ کا ساتھ تب تک نہیں چھوڑتے جب تک اسے جنت میں لقائے الٰہی سے مشرف نہ کر دیں۔ پس یہ فرضِ عین اور سنتِ عظیم ہے۔ فقرِ محمدی ؐپر صرف وہی قدم رکھتا ہے جو دل سے حبِ دنیا کو باہر نکال چکا ہو۔

شرح مجلسِ محمدی اور مراقبہ، ذکر، فکر، مکاشفہ، محاسبہ، مقامات اور درجات کا بیان

Kaleed-ul-Tauheed Kalan.جان لو کہ تصور اسمِ اللہ ذات سے حاصل ہونے والا استغراقِ معرفت و توحید اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری متبرک ہیں جوآیاتِ قرآن و حدیث کے عین مطابق اور تحقیق شدہ ہے اور نورِ تجلیاتِ ربانی (جو اسمِ اللہ ذات سے ظاہر ہوتی ہیں) باطن میں باطل کو داخل نہیں ہونے دیتیں لہٰذا خطراتِ شیطانی، وسوسہ و وہماتِ نفسانی، حوادثِ دنیا کی پریشانی مکمل طور پر دل سے ختم ہو جاتے ہیں اور یہ ناشائستہ غل و غش دوبارہ رُخ نہیں کرتے۔ راہِ راستی کا یہ سلک سلوک جو اللہ کے کرم، کلمہ شہادت اور صدق و ارادت پر مبنی ہوتا ہے، یہ ہے کہ جب طالبِ مولیٰ توجہ و استغراق سے اللہ کی ذات میں مشغول ہوتا ہے تو اپنی دونوں آنکھوں کو بند کر کے مراقبہ کرتا ہے اور اسمِ اللہ ذات کا تفکر (تصور) کرتا ہے اس وقت طالبِ مولیٰ کو چاہیے کہ مراقبہ شروع کرنے کے وقت راہِ شیطانی کو ظاہر و باطن میں بند کر دے اور خطرۂ نفسانیت کو خود سے جدا کر دے اور طالبِ مولیٰ کو چاہیے کہ تین مرتبہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھے اور تین مرتبہ درود شریف اور تین مرتبہ آیت الکرسی پڑھے اور تین مرتبہ سَلٰمٌ قف  قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ  پڑھے اور تین مرتبہ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَاتَصِفُوْنَ   پڑھے اور تین مرتبہ چاروں قل اور تین مرتبہ سورۃ فاتحہ پڑھے اور تین مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرْ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ    پڑھے اور ہزار مرتبہ استغفار پڑھے اور تین مرتبہ کلمہ شہادت اور تین مرتبہ کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  پڑھے اور خود پر دم کرے جس کے بعد اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمدؐ کو اپنے تصور میں لائے اور ان دونوں اسما کو نظر میں رکھے اور اس کے بعد توحید اور معرفتِ الٰہی کے سمندر میں غوطہ لگائے اور ذکرِ  اللہ کے غلبہ سے ایسے غرق ہو کر خود سے بے خود ہو جائے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا:
وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ  (سورۃ الکہف۔24)
ترجمہ: اور اپنے ربّ کا ذکر (اس قدر محویت سے) کریں کہ خود کو بھی فراموش کر دیں۔

Kaleed-ul-Tauheed Kalan.مطلب یہ کہ جب تک طالب کا وجود چار اذکار، چار مراقبوں اور چار فکروں سے پک کر پختہ نہیں ہو جاتا تب تک وہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لائق نہیں ہوتا۔ اوّل ذکرِ زوال، جسے شروع کرتے ہی اعلیٰ و ادنیٰ تمام مخلوقات ذاکر کی طرف رجوع کرتی ہیں۔ بے شمار طالب و مرید اس ذکر کو شروع کرتے ہیں۔ جب ذکر ِ زوال تکمیل کو پہنچتا ہے توتمام طالب و مرید رجعت کھا کر واپس پلٹ جاتے ہیں اور اس ذکر سے بیزار ہو کر کہتے ہیں اس ذکر فکر سے ہزار بار استغفار۔ صرف وہی صادق طالب مرید اپنے حال پر قائم رہتا ہے جو معرفت و وِصالِ الٰہی کی انتہا پر پہنچ چکا ہو۔ اس کے بعد ذکرِ دوام یعنی ذکرِکمال شروع ہوتا ہے۔ ذکرِکمال شروع کرتے ہی تمام فرشتے ذاکر کی طرف رجوع کرتے ہیں اور فرشتوں کے لشکر ذاکر کے اردگرد جمع ہو جاتے ہیں۔ کراماً کاتبین ذاکر کو نیک و بد کے متعلق الہام دیتے اور گناہوں سے باز رکھتے ہیں۔ جب ذکرِکمال مکمل ہو جاتا ہے تو تیسرا ذکر، ذکرِ وصال شروع ہوتا ہے۔ ذکرِ وصال شروع کرتے ہی باطن میں انبیا و اولیا اللہ کی مجلس حاصل ہو جاتی ہے اور طالب واصل ہو جاتا ہے۔ واصل جونہی مجلسِ انبیا و اولیا اللہ میں ذکرِ وصال ختم اور مکمل کرتا ہے اس کے بعد چوتھا ذکر‘ ذکرِ احوال شروع ہوتا ہے۔ ذکرِ احوال نورِ ذات کی تجلیات سے فنا فی اللہ بقا باللہ کے مراتب تک پہنچاتا ہے۔ جب طالب ان چاروں ذکروں سے گزر جاتا ہے تب اس کا وجود مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لائق بنتا ہے۔ 

Kaleed-ul-Tauheed Kalan.لائقِ تلقین و ارشاد سروری قادری جامع مرشد وہ ہے جو روزِ اوّل اسمِ اللہ ذات کے ذکر ِروحانی کے ذریعے طالب پر انتہا کھول دے اور اس کی نیت اور اس کے مطلوب و مقصود کے مطابق ہر مقام و مراتب پر اور ہر مجلسِ انبیا و اولیا اللہ میں پہنچا دے اور غلباتِ ذکر سے فنا فی اللہ بقا باللہ کے لانہایت مقام میں اس طرح محو کر دے کہ طالب کو نہ اپنی ذات یاد رہے نہ مقامات۔ یہ مراتب معرفتِ اِلَّا اللّٰہ  اور لازوال اور بے مثال توحیدِ ذات، جو نورِ الٰہی کی تجلیات ہیں، کی طے میں ہیں ۔ مطلب یہ کہ جب طالب اس کمال کی انتہا تک پہنچتا ہے تو وہ تصور، تصرف، ذکر، فکر، مراقبہ، کشف القلوب اور کشف القبور میں کامل ہو جاتا ہے اور ان قوتوں سے وہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری کا حامل ہو جاتا ہے جس کے بعد وہ ہر ایک صحابی اور انبیا و اولیا اللہ کی ارواح سے ہمکلام ہوتا ہے اور قرآن و حدیث کی آیات اور مذکور حضور سے متعلق علمِ کلام سے گفتگو کرتا ہے اور تمام علوم سے یگانہ و آشنا ہو جاتا ہے جس کے بعد بے حجاب اللہ کی حضوری میں ایسے آتا جاتا ہے کہ کوئی شیطانی پردہ اللہ اور بندے کے درمیان باقی نہیں رہتا۔ حصولِ وصل اور مقامِ علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین طے کرنے کے بعد وہ فقیر عارف باللہ کے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے۔ اس کے بعد صاحبِ باطن فقیر عارف باللہ کو کچھ بھی پڑھنے کی کیا ضرورت۔ اسکی ہرگز کوئی آرزو باقی نہیں رہتی کیونکہ وہ ظاہر و باطن کی حقیقت میں حق کو پا چکا ہوتا ہے۔ وہ حق سے واصل اور باطل سے آزاد ہو چکا ہوتا ہے کہ فقیر عارف باللہ آنکھوں سے اندھا نہیں ہوتا اور فقیر عارف باللہ سے راہِ معرفتِ الٰہی اور ظاہر و باطن کی کوئی شے پوشیدہ نہیں ہوتی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: 
مَنْ عَرَفَ اللّٰہَ لَا یَخْفٰی عَلَیْہِ شَیْئٌ 
ترجمہ: جو اللہ کو پہچان لے اس سے کوئی شے بھی پوشیدہ نہیں رہتی۔

Kaleed-ul-Tauheed Kalan.جان لو کہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خاص نو مقامات پر ہوتی ہے جو ہر مرتبہ اور ہر مقام کے لحاظ سے ایک مکمل اور جامع مجلس ہوتی ہے۔ اوّل مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مقامِ ازل پر ہوتی ہے، دوم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مقامِ ابد پر ہوتی ہے، سوم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ میں حرمِ روضہ مبارک میں ہوتی ہے، چہارم مجلسِ محمدی حرمِ کعبہ میں خانہ کعبہ کے اندر یا جبلِ عرفات پر ہوتی ہے جہاں حج کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، پنجم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بالائے عرش ہوتی ہے، ششم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مقامِ قابَ قوسین پر ہوتی ہے، ہفتم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مقامِ بہشت میں ہوتی ہے کہ اس مقام پر جو کچھ بھی کھایا پیا جاتا ہے اس سے تمام عمر بھوک اور پیاس نہیں لگتی اور نہ ہی نیند آتی ہے، ہشتم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مقامِ حوضِ کوثر پر ہوتی ہے جہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دستِ اقدس سے شرابِ طہور پلاتے ہیں جس کے پینے سے وجود پاک ہو جاتا ہے اور ترک و توکل کی صفات پیدا ہو جاتی ہیں اور مقامِ تجرید و تفرید سے گزر کر انسان مقامِ توحید تک پہنچ جاتا ہے اور حق کی رفاقت کی توفیق حاصل ہوتی ہے۔ نہم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس مقام پر ہوتی ہے جہاں طالب دیدار سے مشرف ہونے کے بعد انوارِ ربوبیت میں غرق ہوتا ہے۔ جو خود سے فنا ہو جائے وہ معرفت و فقر کی انتہا بقا باللہ پر پہنچ جاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ عَرَفَ رَبَّہٗ فَقَدْ کَلَّ لِسَانُہٗ 
ترجمہ: جس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا پس تحقیق اس کی زبان گونگی ہو گئی۔

Kaleed-ul-Tauheed Kalan. جو کوئی ان نو مقامات پر نو مجالسِ خاص میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دنیا طلب کرتا یا اہلِ دنیا کی کوئی غرض پیش کرتا ہے تو وہ مجلسِ محمود کے مرتبہ سے گر کر مرتبہ مردود پر پہنچ جاتا ہے۔ بیت:

جثہ ایں جا است جانم در حضور
ایں مراتب عارفاں از خاص نور

ترجمہ: میرا وجود اِس دنیا میں جبکہ جان حضوری میں ہوتی ہے۔ عارفین کو یہ مراتب خاص نور کی بدولت حاصل ہوتے ہیں۔

Kaleed-ul-Tauheed Kalan.مطلب یہ کہ عارف باللہ جب ان مراتب پر پہنچتا ہے تو اس کی روح سکون پاتی ہے اور اس کا نفس نیست و نابود ہو کر مر جاتا ہے۔ جان لو کہ سالکین، کاملین اور حق شناس عارفین کی راہ یہ ہے کہ کاملین کے لیے ابتدا اور انتہا ایک ہوتی ہے، ان کے لیے بھوک اور سیری ایک ہوتی ہے گویا ان کا کھانا مجاہدہ اور ان کی نیند حضورِ خاص کا مشاہدہ ہوتی ہے۔ وہ مستی میں بھی ہوشیار اور نیند میں بھی بیدار رہتے ہیں۔ بعض لوگوں کے خواب ان کے خیالات کے باعث ہوتے ہیں لہٰذا وہ خواب محض خام خیالی ہیں۔ بعض لوگوں کے خواب وصال کی بدولت ہوتے ہیں لہٰذا ان کو خواب میں وصال نصیب ہوتا ہے۔ ان مراتب کو مردہ دل اور بدخصلت کیا جانیں؟ راہِ معرفتِ الٰہی میں مستی سراسر خام مرتبہ ہے اور باسعادت بندگی و عبادت کاملیت کا مرتبہ ہے۔ مرد وہ ہے جو مستی اور نیند میں بھی باشعور اور ذکرِ الٰہی میں مشغول رہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
یَنَامُ عَیْنِیْ وَ لَا یَنَامُ قَلْبِیْ 
ترجمہ: میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔

Kaleed-ul-Tauheed Kalan.مرشد کامل صاحبِ تصور و تصرف طالبِ مولیٰ کو ذکر و فکر کے ذریعے حاضراتِ اسمِ اللہ ذات اور اسمِ اعظم کی برکت سے راہِ حضوری اور معرفتِ اِلَّا اللّٰہ  اور نو مقامات کی مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عطا کرتا ہے اوراور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ  کی کلید سے ہر ایک آیاتِ قرآن کی خاصیت اور تبرکات کھولتا ہے اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دکھاتا ہے۔ اعمالِ ظاہر پر مبنی راہِ سلوک چراغ کی مثل ہے اور اسمِ اللہ ذات کے تصور کی قوت سے حاصل ہونے والی حضوری کا راہِ سلوک آفتاب کی مثل ہے۔ جیسے ہی یہ آفتاب طلوع ہوتا ہے اور نورِ توحیدِ ذات کی تجلیات نازل کرتا ہے تو اس سے قلب مکمل طور پر روشن ہو جاتا ہے اور جب اسمِ اللہ ذات کی چمک لوحِ ضمیر پر نازل ہوتی ہے تو طالب کو علمِ معرفتِ الٰہی حاصل ہو جاتا ہے اور مقامِ حیّ و قیوم اور مقامِ معرفتِ توحید کا علم اس پر منکشف ہو جاتا ہے اور جو علوم لوحِ محفوظ پر تحریر ہیں وہ آئینہ کی مثل طالب کی لوحِ ضمیر پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کی برکت سے جو علم اور حقیقت لوحِ محفوظ پر لکھی ہوئی ہے وہ طالب کی لوحِ ضمیر پر واضح ہو جاتی ہے اور جو بھی کلامِ الٰہی لوحِ محفوظ پر تحریر ہے وہ بھی لوحِ ضمیر پر ظاہر ہو جاتا ہے اور طالب ان دونوں کا موازنہ کرتا ہے۔ اور اگر دونوں علوم ظاہر و باطن میں درست ہوں تو تحقیق شدہ ہیں اور فقیر کی لوحِ ضمیر پر مرقوم ہر حرف اللہ کی عظمت اور کرم کی بدولت شرف والا ہے بہ نسبت اس کے جو لوحِ محفوظ پر لکھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نظر عرش، کرسی اور لوحِ محفوظ پر نہیں ہوتی بلکہ لوحِ ضمیر پر ہوتی ہے۔ وہ صاحبِ لوحِ ضمیر جو نفس پر امیر اور دائمی طاعت و بندگی میں مشغول ہوتا ہے کیونکہ بندگی کے بغیر زندگی محض شرمندگی ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ  (سورۃ الذاریات۔56)  اَیْ لِیَعْرِفُوْنِ 
ترجمہ: اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی بندگی کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ یعنی اپنی معرفت کے لیے۔

Kaleed-ul-Tauheed Kalan.جو دل ذکرِ اللہ سے جنبش میں آکر مشاہدۂ نورِ الٰہی کرتا ہے وہ حضوری میں پہنچ جاتا ہے اس پر معرفتِ الٰہی کھل جاتی ہے۔ ایسا دل خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتا ہے یا پھر عرشِ اکبر کے گرد طواف کرتا ہے یا پھر اس دل کے گرد کعبہ اور عرشِ اکبر طواف کرتے ہیں اور یہ حال اس آیت کے مطابق ہوتا ہے:
   تَنْزِیْلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْاَرْضَ وَالسَّمٰوٰتِ الْعُلٰی۔ط اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی۔ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَھُمَا وَ مَا تَحْتَ الثَّرٰی۔ وَ اِنْ تَجْھَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَ اَخْفٰی۔ اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ط لَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی (سورۃ طہٰ4-8)
ترجمہ: یہ (قرآن) اس کا نازل کردہ ہے جس نے زمین اور بلند آسمان کو تخلیق کیا۔ وہ رحمن ہے جس نے عرش پر استویٰ فرمایا اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں یا ان کے درمیان یا تحت الثریٰ میں ہے سب اسی کی ملکیت ہے۔ اور اگر تو اسے بلند آواز سے پکارے تو (اللہ) وہ کچھ بھی جانتا ہے جو پوشیدہ اور مخفی ہے۔ وہ اللہ ہے اور اسکے سوا کوئی معبود نہیں اور تمام اسمائے حسنیٰ اسی کے لیے ہیں۔

Kaleed-ul-Tauheed Kalan.جو شخص ننانوے اسمائے باری تعالیٰ میں سے جس نام کو بھی اپنے تصور اور تصرف میں لاتا ہے تو اس نامِ باری تعالیٰ کی تاثیر سے دل کی سیاہی، کدورت اور زنگار دور ہو جاتا ہے۔ ایسا دل اس صفت کی تجلیات کی بدولت معرفتِ الٰہی سے روشن ہو جاتا ہے اور ہر شے اس پر واضح ہو جاتی ہے۔ ایسا زنگار سے پاک دل جو اللہ کے ذکر کی بدولت پرُنور ہو‘ وہ اللہ کی نگاہ کے لائق ہوتا ہے۔ وہ شخص صاحبِ روشن ضمیر بن کراِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ  کے  مرتبہ کا حامل فقیر ہو جاتا ہے یعنی وہ اللہ کی جانب سے الہام کے ذریعے ہر سوال کا درست جواب پاتا ہے۔ اے خام! اس مقام پر مغرور نہ ہو۔ یہ بھی ابتدائی مقام ہے۔ مصنف فرماتا ہے کہ مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو مقامِ فنا فی الشیخ پر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ مقامِ فنا فی الشیطان پر ہوتے ہیں یعنی شیخ کی ظاہری صورت پرستی سے مست ہو جاتے ہیں اور حسن و سرود میں مشغول راہِ تقلید میں دم کشی کرتے ہیں۔ وہ دم جو ذکر سے اثبات میں آ جاتا ہے وہ دم اور ذکر وحدتِ ذات کی حضوری اور مشاہدہ میں لے جاتے ہیں اور مکمل طور پر توحید میں غرق کر دیتے ہیں۔ یہ اہلِ سرود مقلد اور اہلِ تقلید ہرگز توحید میں غرق نہیں ہو سکتے خواہ ذکرِدم کریں یا ذکرِقلب، ذکرِروح کریں خواہ ذکرِسرّ، ذکرِیخفیٰ کریں خواہ ذکرِانا، ذکرِسلطانی کریں خواہ ذکر ِقربانی، ذکرِحامل کریں خواہ ذکرِعبہر، ذکرِمنور کریں خواہ ذکرِوجد، ذکرِغرق کریں خواہ ذکرِشوق، ذکرِجلالی کریں خواہ ذکرِجمالی، ذکرِ مشاہدہ کریں خواہ ذکرِحضوری، ذکرِقرب کریں خواہ ذکرِفنا یا ذکرِبقا، ذکرِحیّ کریں خواہ ذکرِ قیوم‘ کوئی بھی ذکر ذاکر کو اثبات عطا نہیں کرتا جب تک اسے قرب اور حضوری سے معرفتِ اِلَّا اللّٰہ اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مشرف نہ کر دے۔ ذکر ذاکر کے وجود کو پاک و خالص کر کے نفس و شیطان کی ناپاکی اور حوادثِ دنیا سے نجات دلا دیتا ہے اور حضوری میں پہنچا کر ذاتِ ربانی کے مشاہدہ کی بے پناہ لذت عطا کرتا ہے۔ جو ذاکر ان صفات کا حامل نہیں وہ جھوٹا اور مقلد ہے اور وہ مکمل طور پر ریاکار ہے۔ ذاکر کو سرود یا ریا سے کیا سروکار؟ جو اللہ کے پاک نام کا ذکر سرود اور بلند نعروں سے کرتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں وہ مطلق کافر ہو جاتے ہیں۔

مرشد شیخ صاحبِ شریعت ہوتا ہے جس کے متعلق کہا گیا ہے:
اَلشَّیْخُ یُحْیِ السُّنَّۃَ وَ یُمِیْتُ الْبِدْعَۃَ
ترجمہ: شیخ سنت کو زندہ کرتا ہے اور بدعت کو ختم کرتا ہے۔
اَلشَّیْخُ یُحْیِ الْقَلْبَ وَ یُمِیْتُ النَّفْسَ 
 ترجمہ: شیخ قلب کو زندہ کرتا اور نفس کو مارتا ہے۔

Kaleed-ul-Tauheed Kalan (جاری ہے)

 
 

30 تبصرے “کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation

    1. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
      مَنْ عَرَفَ اللّٰہَ لَا یَخْفٰی عَلَیْہِ شَیْئٌ
      ترجمہ: جو اللہ کو پہچان لے اس سے کوئی شے بھی پوشیدہ نہیں رہتی۔

      1. ذکر ذاکر کے وجود کو پاک و خالص کر کے نفس و شیطان کی ناپاکی اور حوادثِ دنیا سے نجات دلا دیتا ہے

  1. ماشا اللّٰہ ♥️♥️♥️♥️♥️
    بہت خوب انتخاب ہے

  2. کلید التوحید (کلاں) سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی اہم کتابوں میں سے ایک اہم کتاب ہے

  3. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: 
    مَنْ عَرَفَ اللّٰہَ لَا یَخْفٰی عَلَیْہِ شَیْئٌ 
    ترجمہ: جو اللہ کو پہچان لے اس سے کوئی شے بھی پوشیدہ نہیں رہتی۔

  4. دنیا اپنے طالب کو تب تک نہیں چھوڑتی جب تک اسے دوزخ میں نہ پہنچا دے۔

  5. فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
    وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (سورۃ الذاریات۔56) اَیْ لِیَعْرِفُوْنِ
    ترجمہ: اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی بندگی کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ یعنی اپنی معرفت کے لیے۔

  6. حضرت سخی سلطان باھو کی کتب پڑھتے ہوئے ایک سحر طاری ہو جاتا ہے

  7. ماشااللہ بہت ہی خوبصورت آرٹیکل ہے ❤💯🌹

  8. فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
    وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (سورۃ الذاریات۔56) اَیْ لِیَعْرِفُوْنِ
    ترجمہ: اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی بندگی کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ یعنی اپنی معرفت کے لیے۔

  9. بہت خوب انداز میں ترجمہ کیا گیا ہے ماشااللّہ

اپنا تبصرہ بھیجیں