Abu Bakr Siddique

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں اٹھنے والے فتنے | Syedna Abu Bakr Siddique First Caliph


Rate this post

حضرت ابوبکر صدیقؓ  Abu Bakr Siddiqueکے دورِ خلافت میں اٹھنے والے فتنے

(حصہ دوم)                                                                    تحریر: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری                       

لشکرِ اسامہؓ اور حضرت ابوبکرؓ Abu Bakr Siddique کی ہمت و بصیرت

Abu Bakr Siddique .حضرت ابوبکرؓ کا لشکرِاسامہؓ بھیجنے کا اہم فیصلہ نہ صرف آپ کی غیرمتزلزل ہمت کا پتا دیتا ہے بلکہ آپ کی اعلیٰ فہم و فراست بھی واضح ہوتی ہے۔ آپ کے اس فیصلہ کی طے تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس لشکر کی تیاری کے محرکات کا تجزیہ کیا جائے۔ محرکات سے فیصلہ کی نوعیت کا اندازہ ہو گا۔ 

لشکر کی تیاری کے محرکات

یہ لشکر نہ صرف وہ آخری لشکر ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تیار کیا بلکہ یہ پہلا لشکر بھی ہے جسے حضرت ابوبکرؓ نے خلافت سنبھالتے ہی روانہ کیا۔
اس لشکر کی تیاری آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود فرمائی اور اس کا امیر حضرت اسامہؓ کو مقرر کیا۔ جنگِ موتہ اور غزوہ تبوک کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں اسلام اور مسیحیت کے بڑھتے ہوئے اختلاف اور یہود کی فتنہ انگیزی کے باعث اہلِ روم عرب پر حملہ نہ کردیں۔ جنگِ موتہ اور غزوہ تبوک میں جو واقعات پیش آ چکے تھے ان سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ان خدشات کو مزید تقویت ملی۔ ان غزوات کے باعث رومیوں کے ارادے بہت خطرناک ہو گئے اور انہوں نے عرب کی سرحد پر پیش قدمی کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حکمتِ عملی یہ تھی کہ ہر قیمت پر رومیوں کو زیر کیا جائے اور عرب کی شمالی حدود کو ہرقل کی فوجوں سے محفوظ رکھا جائے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت اسامہؓ کو بطور پیش بندی شام روانہ ہونے کا حکم دیا۔ (سیرۃ خلفا الراشدین)

Abu Bakr Siddique .رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دور میں مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی کے فتنوں کے ساتھ ساتھ رومیوں اور ایرانیوں کی طرف سے مسلمانوں کو بہت سے خطرات تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ حکمتِ عملی اختیار فرمائی کہ پہلے رومیوں کا سدباب کیا جائے اور اگر اسلامی لشکر کو فتح نصیب ہوتی ہے تو نبوت کے یہ تمام جھوٹے دعویدار اپنی موت آپ مر جائیں گے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لشکرِاسامہ ترتیب دیا۔ (سیرت سیدّنا صدیقِ اکبرؓ)

غزوہ تبوک کے بعد رومیوں نے مسلمانوں کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور وہ سوچنے لگے تھے کہ عرب کی سرحدوں کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ ان کی اس پیش قدمی کو روکنے اور خود اہلِ روم کے علاقے شام پر حملہ کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لشکرِاسامہؓ کی تیاری کا حکم دیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیماری کی وجہ سے وہ لشکر آپ کی حیاتِ طیبہ میں شام کی طرف روانہ نہ ہوسکا۔ (حضرت ابوبکرؓ)

حقیقت یہ تھی کہ رومی دنیا کے بہت بڑے حصے پر قابض ہو چکے تھے اور ان کی طاقت بے حد بڑھ گئی تھی۔ مسلمان بھی صورتحال سے آگاہ تھے۔ اسی سال خیبر، تیما اور فدک میں مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کھا کر بہت سے یہودی فلسطین پہنچے تھے اور اس وقت ان میں مسلمانوں کے خلاف شدید جذبہ انتقام پایا جاتا تھا۔ انہوں نے نہایت غضبناک حالت میں رومیوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا اور کہا کہ اگر رومی اپنی طاقت کے بل پر ایران کی زبردست طاقت کو مغلوب کر سکتے ہیں تو مسلمانوں کو کیوں نہیں کر سکتے۔ (حضرت ابوبکرؓ)

یہ تھے وہ محرکات جن کے پیشِ نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے رومیوں پر حملے کے لئے لشکر تیار کیا۔ ان حالات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لئے رومیوں کو مغلوب کرنا ضروری تھا۔ لیکن یہ لشکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں روانہ نہ ہو سکا۔ اس سلسلے میں تاریخ طبری میں لکھا ہے:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی زندگی مبارک میں حضرت اسامہؓ بن زید کو ایک لشکر کا سپہ سالار مقرر کر کے شام کی جانب روانہ کیا تھا۔ لشکر ِاسامہ جرف کے مقام پر ہی پہنچ پایا تھا کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیماری کی خبر پہنچ گئی۔ لشکر اسی جگہ ٹھہر گیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال ہو گیا۔ (تاریخ طبری)

لشکر کی روانگی میں رکاوٹیں

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال مبارک کے بعد لشکر کی تیاری اور روانگی ایک کٹھن مرحلہ تھا جو صرف حضرت ابوبکر صدیقؓ ہی سرانجام دے سکتے تھے۔ اس لشکر کو روانہ کرنے کی راہ میں ہر طرح کی رکاوٹ آپ کے سامنے آئی۔ مختلف لوگوں نے مختلف حیلے اور بہانوں سے اس لشکر کو روکنے کی تدبیر کی۔ لشکر روکنے کے لیے مندرجہ ذیل وجوہات پیش کی جاتی تھیں:
1۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد عرب میں بغاوت اور ارتداد کی ہوا چل پڑی ہے اس لئے پہلے اندر کے خلفشار سے نمٹا جائے۔
2۔ مدعیانِ نبوت اور منکرینِ زکوٰۃ کا مدینہ پر حملے کا خطرہ ہے اس لئے اگر لشکر باہر بھیج دیا گیا تو مدینہ کا دفاع کمزور ہو جائے گا جس سے مسلمانوں کو شکست ہو گی۔
3۔ اگر لشکر چلا جاتا ہے توسب قبائل جان لیں گے کہ مسلمان کمزور ہو گئے ہیں جس کے باعث ارتداد کی لہر مزید سرعت سے پھیلے گی۔
4۔ اگر لشکر بھیجنا ناگزیر ہے تو سپہ سالار کو تبدیل کر دیا جائے یعنی حضرت اسامہؓ جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مقرر فرمایا تھا ان کو تبدیل کر دیا جائے کیونکہ وہ 20 سال کے نوعمر ہیں۔ سپہ سالار کو تبدیل کرنے کا نکتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں بھی اٹھایا گیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جلال کا اظہار فرما کر اس کو ردّ کر دیا۔ اس سے اندازہ لگائیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں یہ نکتہ اٹھایا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد کتنی شدت سے سامنے آیا ہو گا۔ لیکن سلام ہے حضرت ابوبکر صدیقؓ Abu Bakr Siddique کی اولوالعزمی کو کہ آپ کسی کے سامنے جھکے نہیں بلکہ فرمانِ نبوی کو آپؐ کے وصال کے بعد بھی پورا کیا۔

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس تحریر فرماتے ہیں:
  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ابھی بستر علالت پر تھے کہ اس وقت رومیوں کے خلاف سات سو افراد پر مشتمل ایک لشکر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہٗ کی قیادت میں روانگی کے لئے تیار کیا گیا تھا لیکن حضور  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد مسلمانوں کی صورتحال اس قدر نازک ہوچکی تھی کہ کسی قافلے کو مدینے سے باہر بھیجنا مسلمانوں کے لئے ممکن نہیں تھا۔اس پس منظر میں لوگوں نے مشورہ دیا کہ اس لشکر کی روانگی ملتوی کردی جائے لیکن حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہٗ نے لوگوں کی اس رائے سے اتفاق کرنے کی بجائے حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بھجوائے ہوئے لشکر کو واپس بلانا مناسب نہ سمجھا اور فرمایا ’’میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم کی بجاآوری کو نہیں روک سکتا۔‘‘ (خلفائے راشدین)

استاذعمرابوالنصر لکھتے ہیں:
عرب قبائل کی بغاوت کے نتائج سے نہ تو حضرت ابوبکرؓ  Abu Bakr Siddiqueبے خبر تھے اور نہ انصار و مہاجرین کا کوئی فرد۔ اب ان کے سامنے ایک ہی سوال تھا کہ آیا اس موقع پر سب سے پہلے ارتداد کے فتنے کو کچلا جائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے احکام کی تعمیل میں سرحدوں کی حفاظت کے لیے حضرت اسامہؓ کے لشکر کو شام روانہ کیا جائے۔ اگرچہ وہ وقت مسلمانوں کے لئے نازک تھا لیکن حضرت ابوبکرؓ نے تمام حضرات کو نظر انداز کرتے ہوئے بیعتِ خلافت لینے کے بعد پہلا حکم یہ صادر فرمایا کہ لشکرِاسامہؓ روانہ ہو جائے۔ یہ سن کر معترضین کی زبانیں پھر حرکت میں آ گئیں اور کوئی ایسا حیلہ تلاش کرنے لگیں جس کے ذریعہ حضرت ابوبکرؓ کو کم ازکم حضرت اسامہؓ کو امیر بنانے سے باز رکھ سکیں۔ انہوں نے خلافت کے بارے میں مہاجرین اور انصار کے اختلافات اور قبائل کی بغاوت کا سہارا لیا اور حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا کہ موجودہ دور مسلمانوں کے لئے سخت نازک اور پرخطر ہے۔ ہر طرف بغاوت کے شعلے بھڑک رہے ہیں اس موقع پر لشکر شام بھیج کر مسلمانوں کی جماعت کو منتشر کرنا مناسب نہ ہوگا لیکن حضرت ابوبکرؓ اپنے ارادے سے ٹس سے مس نہ ہوئے اور نہایت ثابت قدمی اور اولوالعزمی سے فرمایا:
’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر مجھے یقین ہو کہ جنگل کے درندے مجھے اٹھا کر لے جائیں گے تو بھی میں اسامہؓ کے اس لشکر کو نہیں روک سکتا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے روانہ ہونے کا حکم دیا تھا۔ اگر مدینہ میں ایک انسان بھی نہ رہے تو بھی اس لشکر کو ضرور روانہ کروں گا۔‘‘ (سیرۃ خلفا الراشدین)

جب لوگوں کو مایوسی ہوئی کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ ان کی بات ماننے سے انکار کر رہے ہیں تو وہ حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور کہا کہ ان کا پیغام حضرت ابوبکرؓ کے پاس لے جائیں۔ پھر جب حضرت اسامہؓ نے دیکھا کہ ان کی وجہ سے مسلمانوں میں انتشار اور اختلاف پیدا ہو رہا ہے تو انہوں نے بھی حضرت عمرؓ سے درخواست کی کہ حضرت ابوبکرؓ سے کہیں کہ فی الحال لشکر کو روک لیں۔ اس ضمن میں محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں:
جب حضرت اسامہؓ نے دیکھا کہ لشکر کے مسئلے پر انکی ذات ہدفِ اعتراض بنی ہوئی ہے تو وہ خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ کی خدمت میں گئے اور ان سے کہا کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ سے ملیں اور ان سے کہیں اس لشکر کی روانگی فی الحال معرضِ التوا میں ڈال دی جائے اور ہم یہیں رہ کر ان فتنوں کو دبانے کی کوشش کریں جو مختلف قبائل میں ارتداد اور زکوٰۃ کی ادائیگی روکنے کی صورت میں پیدا ہو گئے ہیں۔ ایک اور جماعت نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے کہا کہ وہ حضرت ابوبکرؓ سے کہیں اس لشکر کی روانگی منسوخ کر دی جائے۔ اگر اسے روانہ کرنا ضروری ہے تو اس کا قائد کسی ایسے شخص کو بنایا جائے جس کی عمر بھی حضرت اسامہ سے زیادہ ہو اور تجربہ بھی۔

حضرت عمرؓ نے سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ Abu Bakr Siddique کو  حضرت اسامہؓ کا پیغام دیا تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:
’’اگر جنگل کے کتے اور بھیڑیے مدینے میں داخل ہوکر مجھے اٹھا لے جائیں میں تب بھی وہ کام کرنے سے نہیں رکوں گا جس کے کرنے کا نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حکم دیا ہے۔‘‘

 اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے حضرت ابوبکرؓ سے دوسری جماعت کا نکتۂ نظر بیان کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ  Abu Bakr Siddique  نے اس پر خفگی کا اظہار فرمایا:
’’اے ابن الخطاب! اسامہؓ کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لشکر کا قائد مقرر کیا ہے میں نے نہیں کیا لیکن تم مجھے کہتے ہو کہ میں اسے منصب سے الگ کر دوں۔ (حضرت ابوبکرؓ)

حضرت عمرؓ نے یہ جواب جا کر اس جماعت کو بتا دیا۔ 

تاریخ طبری میں لکھا ہے:
کچھ لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ  Abu Bakr Siddiqueسے مسلمانوں کی تعداد کی قلت کی بنا پر کہا کہ وہ مسلمانوں کی جماعت کو (لشکر کے ساتھ روانہ کر کے) اپنے سے الگ نہ کریں۔ مگر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا:

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر میرے پاس ایک شخص بھی نہ رہے اور مجھے اندیشہ ہو کہ درندے مجھے اٹھا کر لے جائیں گے تب بھی میں اسامہؓ کی مہم کو اس کے کام پر روانہ کروں گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حکم دیا ہے۔ اگر تمام بستیوں میں میرے سوا اور کوئی نہ رہے تو میں تنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ارشاد کی تعمیل کروں گا۔ (تاریخ طبری)

لشکر کی روانگی

اس طرح حضرت ابوبکرؓ نے تمام اعتراضات کو ردّ کرتے ہوئے لشکر کی روانگی کا حکم صادر فرما دیا۔ سب کو حکم فرمایا کہ جرف کے مقام پر پہنچ کر لشکر میں شامل ہوں۔
Abu Bakr Siddique.حضرت ابوبکر صدیقؓ نے لشکر کو اس فہم و فراست سے روانہ فرمایا کہ سب اعتراضات لشکر کی روانگی سے پہلے ہی ختم ہو گئے۔ جب لشکر روانہ ہو رہا تھا تو حضرت اسامہؓ گھوڑے پر سوار تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ Abu Bakr Siddiqueحضرت اسامہؓ کے ساتھ پیدل چلنے لگے۔ لوگ حیران و پریشان ہوئے کہ اگر خلیفہ رسول سپہ سالار کو اتنی عزت سے نواز رہے ہیں تو پھر ہم اعتراض کیوں کریں۔ اس طرح سب اعتراضات کا قلع قمع کر دیا گیا۔ محمد حسین ہیکل یہ واقعہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
حضرت اسامہؓ سخت پریشانی کی حالت میں تھے کہ وہ گھوڑے پر سوار ہیں لیکن خلیفۂ رسول پیدل چل رہے ہیں۔ انہوں نے نہایت عاجزی کے ساتھ عرض کیا:
’’رسولؐ اللہ کے خلیفہ ذی احترام! یا تو آپ بھی گھوڑے پر سوار ہو جائیے یا پھر مجھے پیدل چلنے کی اجازت دیجئے۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیقؓ Abu Bakr Siddique  نے جواب دیا:
’’نہ میں سوار ہوں گا نہ تم گھوڑے سے اترو گے۔ اگر میں چند ثانیے پیدل چل کر اپنے قدم راہِ خدا میں غبار آلود کر لوں گا تو شاید یہی عمل میری مغفرت کا باعث بن جائے۔‘‘

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس تحریر فرماتے ہیں:
Abu Bakr Siddique.حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ اس لشکر کو روانہ کرنے کیلئے دیر تک اس لشکر کے ساتھ پیدل چلتے رہے۔ (خلفائے راشدین)

لشکر بھیجنے کے اثرات

ابھی تک جو واقعات و حالات بیان کیے گئے ہیں ان سے یہ ثابت ہوتاہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے لشکر کی روانگی میں پیش آنے والی ہر رکاوٹ کا احسن طریقے سے سدباب کیا۔ یہ امر بھی ضروری ہے کہ ان اثرات پر بھی روشنی ڈالی جائے جو اس لشکر کے روانہ کرنے سے ظاہر ہوئے۔ 

جب حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا لشکر روانہ ہوا تو جدھر سے بھی گزرتا انہیں دیکھ کر مرتد ہونے والے یا مرتد ہونے کا ارادہ رکھنے والے قبائل کہتے:
’’اگر ان کے پاس قوت نہ ہوتی تو یہ کبھی اپنا مرکز یعنی مدینہ چھوڑ کر باہر نہ نکلتے۔ ضرور اتنا مزید لشکر مرکزمیں ہوگا لہٰذا اس لشکر کو رومیوں کے پاس جانے دیا جائے۔ اگر یہ ان پر غالب ہوں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ ہو جائیں گے۔‘‘  (سیرۃ خلفا الراشدین)
اس طرح یہ لشکر جدھر جدھر سے گزرا ادھر ارتداد و بغاوت کی لہر میں کمی آگئی۔ 

علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:
جب یہ لشکر کسی ایسے قبیلے کے پاس سے گزرتا جو مرتد ہونا چاہتے تھے تو وہ لوگ آپس میں کہتے کہ اگر ان لوگوں کے پاس قوت نہ ہوتی تو ایسے نازک وقت میں یہ لشکر ان کے پاس سے علیحدہ نہ ہوتا۔ روم سے جنگ ہونے تک انہیں کچھ نہ کہو۔ جب مسلمانوں کے اس لشکر نے رومیوں کو شکست دی اور واپس آیا تو یہ قبائل اسلام پر ثابت رہے۔ (تاریخ الخلفا)
لشکرِاسامہؓ رومیوں پر غالب رہا اور سالم و غانم لوٹا جسے دیکھ کر کئی قبائل راہ راست پر آگئے۔ (سیرت سیدّنا صدیقِ اکبرؓ)
حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی جنگی کاروائیوں کے باعث متعدد قبیلوں نے دوبارہ مدینے کی اطاعت قبول کرلی اور دوبارہ اسلام بھی قبول کیا۔ (سیرۃ خلفا الراشدین)
حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی جنگی کاروائیوں کی بدولت نہ صرف عرب اور اس کے گردونواح میں ارتداد اور بغاوت کی لہر تھم گئی بلکہ جو لوگ مسلمانوں کے لیے ناپاک ارادے رکھتے تھے ان سب نے وہ ارادے ترک کردئیے۔
رومیوں پر مسلمانوں کا رعب طاری ہوچکا تھا اور انہوں نے سرزمین عرب کو اپنے گھوڑوں کی سموں سے روندنے کا خیال اپنے ناپاک ذہنوں سے نکال دیا تھا۔ (سیرۃ خلفا الراشدین)

لشکر کی روانگی سے لے کر اس کے کامیاب لوٹنے تک جو اثرات مرتب ہوئے ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1۔ قبائلِ عرب میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی جس سے وہ راہِ راست پر آ گئے۔
2۔ منکرینِ زکوٰۃ کے حوصلے پست ہو گئے۔
3۔ جھوٹے مدعیانِ نبوت کے خلاف مسلمان دوبارہ برسر ِپیکار ہو گئے۔
4۔ غیر ملکی طاقتیں مسلمانوں سے خوف کھانے لگیں۔
5۔ اتحادِ امت کی بنیاد مضبوط ہو گئی۔ 

ان تمام ثمرات کو دیکھتے ہوئے صحابہؓ کرام حضرت ابوبکر صدیقؓ کی فراست اور مدبرانہ سوچ کے قائل ہو گئے۔
سیدّنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ’’قسم ہے اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اگر ابوبکر صدیقؓ  Abu Bakr Siddique خلیفہ رسول نہ بنتے تو اللہ کی پرستش نہ ہوتی۔‘‘

استفادہ کتب:
۱۔ خلفائے راشدین، تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
۲۔ تاریخ ابنِ خلدون، تصنیف عبدالرحمن ابنِ خلدون
۳۔ ابوبکرؓ، تصنیف محمد حسین ہیکل
۴۔ تاریخ الخلفا، تصنیف علامہ جلال الدین سیوطیؒ 

 

’’حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں اٹھنے والے فتنے‘‘  بلاگ انگلش میں پڑھنے کے لیے اس ⇐لنک⇒   پر کلک کریں


31 تبصرے “حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں اٹھنے والے فتنے | Syedna Abu Bakr Siddique First Caliph

  1. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فہم و فراست اور غیر متزلزل قوتِ ارادی پر بہترین مضمون ہے۔بہت خوبصورت لکھا ہے۔

  2. متلاشیانِ حق کے لیے مشعلِ راہ ہے یہ مضمون ❤

    1. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے اور آپ کو مشورہ دیا گیا کہ حضرت اسامہ کی قیادت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منتخب شدہ لشکر کی روانگی ملتوی کر دیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
      ’’اگر جنگل کے کتے اور بھیڑیے مدینے میں داخل ہوکر مجھے اٹھا لے جائیں میں تب بھی وہ کام کرنے سے نہیں رکوں گا جس کے کرنے کا نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حکم دیا ہے۔

  3. ماشاء اللہبیت ہی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔

  4. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہہ کے متعلق ایک اہم نوعیت کا مضمون جسے بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے

  5. سیدنا ابو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلافت سنبھالتے ہی فتنوں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور یہ آپ کی ہمت اور قوت فیصلہ ہی تھے کہ دوسال کے عرصہ میں تمام فتنوں کا خاتمہ کرکے ایک مستحکم حکومت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حوالہ کی۔

  6. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کمال حکمت کے ساتھ فتنوں کا خاتمہ فرمایا

اپنا تبصرہ بھیجیں