حقیقت ِانسانیہ اور تزکیۂ نفس Haqiqat-e-Insania or Tazkia-e-Nafs


5/5 - (6 votes)

حقیقت ِانسانیہ اور تزکیۂ نفس
 ( Haqiqat-e-Insania or Tazkia-e-Nafs)

تحریر: سلطان حافظ محمد ناصر مجید سروری قادری

اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو نہایت پیچیدہ اور بہت وسیع بنایا ہے۔ مٹی سے بنا یہ پتلا اصل انسان یعنی روح کا لباس ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 
وَ بَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ (سورۃ السجدہ ۔ 7)
ترجمہ:اور اس نے انسانی تخلیق کی ابتدا مٹی(یعنی غیر نامی مادہ)سے کی۔
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّار (سورۃ الرحمن۔14)
ترجمہ:اسی نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتے ہوئے خشک گارے  سے بنایا۔

مزید ارشاد فرمایا:
ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ (سورۃالمومن۔67)
ترجمہ : وہی ہے جس نے تمہاری(کیمیائی حیات کی ابتدائی) پیدائش مٹی سے کی۔
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ (سورۃمؤمنون۔12)
ترجمہ : اور بیشک ہم نے انسان کی تخلیق (کی ابتدا) مٹی (کے کیمیائی اجزا)کے خلاصہ سے فرمائی۔
اِنَّا خَلَقْنٰھُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِب (سورۃالصافات۔11)
ترجمہ :بیشک ہم نے ا ن لوگوں کو چپکنے والے گارے سے پیدا کیا ہے۔
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ  (سورۃالحجر۔62)
ترجمہ: اور بیشک ہم نے انسان کی (کیمیائی)تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی جو(پہلے) سِن رسیدہ(اور دھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر)سیاہ بوُدارہو چکا تھا۔

ان سب آیات کا مفہوم ایک ہی ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ہر قسم کی مٹی جمع فرمائی گئی، پھر اسے پانی سے گوندھا گیا تو وہ مٹی ایسا سیاہ گارا بن گئی جس سے بوُ آتی تھی، اس سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کا جسم مبارک بنایا اورجب وہ مٹی خشک ہو گئی تو ہوا گزرنے کی وجہ سے ٹھیکری کی طرح بجنے لگی۔

اللہ تعالیٰ نے اس انسانی لباس(جو مٹی کا بنا ہوا ہے )کی سہولت کے لیے دنیا میں بے شمار چیزیں پیدا فرمائیں اور انسان کو صلاحیتیں دیں جن کی بدولت اس نے اپنی سہولت کے لیے بے شمار ایجادات کیں، ایجادات اور دریافتوں کایہ سلسلہ ہر لمحہ جاری ہے۔یہ زمانہ جو اتنی زیادہ ترقی کرچکا ہے اور کررہا ہے یہ عین اللہ تعالیٰ کی توفیق سے جاری ہے۔ 

اس مٹی کے جسم کے ہر عضو کے لیے علیحدہ علیحدہ ڈاکٹرز اور طبیب ہیں۔ اتنی ترقی اور اتنی تحقیق کے باوجود کوئی بھی انسانی جسم کا مکمل ادراک نہیں کرسکا تاہم انسانی جسم اور انسان سے متعلق دیگر شعبہ جات میں تحقیق و ترقی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ غور طلب بات ہے کہ انسانی جسم کی سہولت کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو مسخر کردیا ہے لیکن انسان میں ایسی کونسی چیزہے جس کی وجہ سے اشرف المخلوقات ہے اور پوری کائنات اس کے تابع کردی گئی ہے؟

بے شک اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات فرمایا تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ ظاہری جسم جو مٹی سے بنا ہے اور ظاہری آنکھ سے نظر آرہا ہے اور جس پر انسان اتراتا اور فخر کرتا ہے یہ اشرف المخلوقات ہے۔ اپنے آپ پر اِترانے اور فخر و غرور کرنے والے انسان کی اگر حقیقت پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنات کی وسعت لامحدود ہے جہاں تک عقل کی رسائی بھی نہیں اور نہ ہی ہو سکتی ہے، اس کائنات کا ایک سیارہ جس کا نام زمین ہے، اگر زمین کا پوری کائنات سے موازنہ کیا جائے تو اس کرۂ ارض یا زمین کی حیثیت ایک خوردبین سے بھی نظر نہ آنے والے ذرّے کے برابر بھی نہیں۔ یہ زمین جس کا ایک اندازے کے مطابق کل رقبہ تیرہ کروڑ مربع میل ہے اور اس زمین کے ایک ملک کے ایک شہر کے چند گز کے گھر میں بیٹھ کر انسان کس بات پر اترا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے کس طرح غافل ہو چکا ہے۔

اس ظاہری جسم کی مثال روبوٹ یا آٹومیٹک (خودکار) مشین کی ہے جسے جو ہدایات دی جاتی ہیں وہی کرتا ہے۔ اگر انسان سے کوئی اچھا یا برُا عمل سرزد ہوتا ہے تو ظاہری جسم کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں نہ ہی مرنے کے بعد اس سے کوئی سوال و جواب ہوگا۔ اس کی حقیقت کو مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر ایک کمرہ میں 20 لوگ بیٹھے ہیں یا آرام کررہے ہیں تو موسم کے لحاظ سے اس کمرہ میں لوگوں کے جمع ہونے سے ایک حرارت پیدا ہوگی خواہ اس کمرہ میں 10 دن قیام کریں اس کمرہ میں یا اس مخصوص جگہ پر ایک خاص جسمانی بو کے علاوہ کوئی تعفن وغیرہ پیدا نہیں ہوگا، اس کے برعکس اگر اسی کمرہ میں بیس Dead Bodies ہوں تو ان کی کوئی حرارت نہیں ہوگی اور جتنا وقت گزرتا جائے گا ان مردہ اجسام سے بدبوُ اور تعفن پیدا ہونا شروع ہوجائے گا۔ اگر ظاہری اعتبار سے دیکھا جائے تو جسمانی ساخت میں تو کوئی فرق نہیں آیا صرف ایک تبدیلی آئی ہے کہ اس میں سے روح نکل چکی ہے جس کی وجہ سے اس جسم میں نہ کوئی گرمی و حرارت ہے نہ کوئی احساسات و جذبات ہیں اور نہ ہی اس میں سننے، بولنے اور دیکھنے وغیرہ کی قدرت رہی ہے، اب بس یہ ایک مردہ جسم ہے یعنی جو اشرف المخلوقات تھا وہ جا چکا ہے۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے انسان جن رشتوں مثلاً ماں، باپ، بھائی، بہن، بیٹا، بیٹی، خاوند اور بیوی وغیرہ سے تعلق رکھتا ہے وہ صرف اس جسم کے رشتے ہیں نہ کہ اشرف المخلوقات انسان کے۔ وہ تو اللہ کی طرف سے، اللہ کے لیے ہے اور اسے ہی اللہ کی طرف لوٹ کر جاناہے تو انسان کیسے اللہ سے کئے ہوئے وعدے کو نظر انداز کرسکتا ہے۔ انسانوں سے وعدے کرتا ہے اور انہی کو ترجیح دیتا ہے تو اس وعدے کا کیا جو اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں یاد کروا رہا ہےوَ ذَکِّرْھُمْ بِاَیّٰمِ اللّٰہ  (سورۃ ابراہیم ۔5)
ترجمہ:’’اور انہیں اللہ کے ساتھ گزرے ہوئے دن یاد دلاؤ۔‘‘ یہ دنیا اور اسکی جتنی بھی چیزیں ہیں وہ اس جسم کی خاطر ہیں نہ کہ انسان یا اشرف المخلوقات کی خاطر۔ اصل انسان، روح یا اشرف المخلوقات کا اس دنیا یا اس کی چیزوں سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی یہ دنیا اوراس کی چیزیں اسے بہکانے کے سواکوئی فائدہ یا نقصان دے سکتی ہیں۔  اللہ تعالیٰ نے ظاہری جسم کوجو اتنی حرمت عطا کی ہے وہ اس کے اندر موجود روح یعنی انسان کی ہی بدولت ہے۔ اس میں روحِ قدسی اور اللہ کے راز کو اپنے اندر پوشیدہ کرنے کی اہلیت ہے تو اندازہ کریں کہ اس انسان اشرف المخلوقات یا روحِ قدسی کی اللہ کی بارگاہ میں کیا شان ہے۔

اصل انسان کون ہے؟

ایک بہت لطف کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور ابلیس کو حضرت آدم علیہ السلام کو تب تک سجدے کا حکم نہیں دیا جب تک مٹی کے بت میں اپنی طرف سے روح نہیں پھونکی کیونکہ غیراللہ کو سجدہ حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ (سورۃ الحجر۔29)
ترجمہ: اور پھر جب میں اس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درست حالت میں لاچکوں اور اس پیکر (بشری کے باطن) میں اپنی (نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس کے لیے سجدہ میں گر پڑنا۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ مٹی کے جسم کی اصل حقیقت روح ہے اور اسی کی وجہ سے ابن ِآدم’’ انسان‘‘ کہلانے کا حقدار ٹھہرا ہے۔
بقول شاعر:

فرشتہ مجھ کو کہنے سے میری تحقیر ہوتی ہے
میں مسجودِ ملائک ہوں مجھے انسان رہنے دو 

اور اسی انسان کے احسن اور خوبصورت ہونے کی اللہ تعالیٰ قسمیں کھا رہا ہے:
وَ التِّیْنِ وَ الزَّیْتُوْنِ۔وَ طُوْرِ سِیْنِیْنَ۔وَ ھٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْ۔ (سورۃ التین۔ 1-4)
ترجمہ:انجیر کی قسم اور زیتون کی قسم۔اور سیناکے(پہاڑ) طور کی قسم۔ اور اس امن والے شہر (مکہ)کی قسم۔بیشک ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا فرمایاہے۔

اللہ تعالیٰ حدیثِ قدسی میں فرماتا ہے :
میں نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔
بظاہر دیکھا جائے تو کوئی گورا ہے کوئی کالا، کوئی نابینا ہے کوئی معذور ہے۔۔ لہٰذا اللہ پاک ظاہری جسم کی بات نہیں کررہا بلکہ اللہ نے جو روح انسان کے اندر داخل کی اُسی کو انسان کہہ رہا ہے اور اُسی کے بہترین اور اپنے جیسا ہونے کی قسمیں کھا رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا، اس میں خیراور شردونوں کو رکھا اور اشرف ہونے کا اعلیٰ منصب اس کے تمام تر اختیارات کے ساتھ عطا فرما دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ خیر و شر میں فرق کرنے کے لیے نبی آخرالزماں حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ سے  قرآنِ پاک کی صورت میں مکمل ضابطۂ حیات عطا کر دیاتاکہ انسان خود انتخاب کرے کہ اس نے خیر کو اپنانا ہے یا شر کو۔ اللہ تعالیٰ انسان کی عظمت کو حدیثِ قدسی میں ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے:
اَلْاِنْسَانُ سِرِّیْ وَاَنَا سِرُّہُ 
ترجمہ:انسان میرا راز ہے اور میں انسان کا راز ہوں۔
حدیثِ مبارکہ ہے:
قَلْبُ الْمُؤْمِنِ عَرْشُ اللّٰہِ تَعَالٰی 
ترجمہ:مومن کا قلب اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔

اب ان سب سے مراد روحِ قدسی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نہایت حفاظت کے ساتھ بہت سے پردوں میں پوشیدہ رکھا جیسے انسان خزانے کو چھپا کر رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تخلیق کیا یا اللہ تعالیٰ نے اپنے عطا کردہ علم کے ذریعے انسان سے ایجاد کروایا، وہ سب کچھ اسی طریق پر ہے جیسا کہ اگر ہم غذائی اجناس کی بات کریں تو ہر چیز کے اوپر اللہ تعالیٰ نے ایک خول یا چھلکا چڑھایا اور اس کی حقیقت یعنی مغز یا گودہ اس کے اندر محفوظ کردیا۔ ایسے ہی اگر انسان کی ایجاد کی بات کریں تو ہمارے گھر، گاڑیاں، جہاز وغیرہ کاایک ڈھانچہ بنا ہوا ہے لیکن اس کو استعمال کرنیوالا یا اس کا مکین اس خول کے اندرہی موجود ہوتا ہے نہ کہ باہر۔ یہ سب کچھ صرف اور صرف انسان کو سمجھانے کی خاطر ہے کہ انسان اپنے ظاہر کی بجائے اپنے اندر یعنی باطن کی حفاظت کرے کیونکہ اس کی اصل حقیقت اس کے اندر موجود ہے۔

اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ

اب اسکا ہر گزہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر انسان اشرف المخلوقات ہے بلکہ صرف وہ انسان اشرف المخلوقات ہے جو اُس مقصد کو پورا کرتا ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتا ہے:
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن (سورۃ الذاریت۔56)
ترجمہ: اور میں نے جنات اور انسانوں کوصرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔

ارشاد فرمایاکہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف دنیا طلب کرنے اور ا س طلب میں منہمک ہونے کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ انہیں اس لئے بنایا ہے تاکہ وہ میری عبادت کریں اور انہیں میری معرفت حاصل ہو۔( صاوی، الذاریات، تحت الایتہ:56، 5 / 2026، خازن، الذّٰریٰت، تحت الایتہ:65، 4 / 185)
اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتا ہے کہ میں نے انسان کو کسی مقصد کے تحت پیدا فرمایا ہے۔ اگر اللہ کی تخلیق پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی چیز بے مقصد نہیں ہے۔ جب انسان کی اپنی بنائی ہوئی چیز بھی بے مقصد نہیں ہے تو انسان اپنے متعلق یہ کیسے گمان کرسکتا ہے کہ وہ بے مقصد پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُم عَبَثًا وَّ اَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تْرجَعْونَ (سورۃمومنون۔115)
ترجمہ: توکیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟

البتہ ہر انسان نے اپنے طورپر ہی ایک مقصد کا تعین کیا ہوا ہے اور یہ مقاصد ہیں کیا! کسی کا مقصد ہے اپنے مستقبل کو ہر حال میں بہتر سے بہترین بنانا، کسی کا مقصد زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنا، کسی کامقصد اعلیٰ سرکاری و حکومتی عہدے کو پانا، کسی کا مقصد زیادہ سے زیادہ زمین پر قابض ہونا تو کسی کا مقصد حکمرانی حاصل کرنا وغیرہ وغیرہ۔ تو اس میں وہ مقصد تو کہیں نہیں جس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا۔ اللہ تعالیٰ تو صاف صاف قرآن پاک میں فرمارہا ہے کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت(معرفت)کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اس آیت کے حوالہ سے اپنی تصنیف مبارکہ ’’شمس الفقرا‘‘ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ(جو کہ پہلے مفسر قرآن ہیں )کی تفسیر نقل فرماتے ہیں :
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ اَیْ لِیَعْرِفُوْنِیعن  یعنی اس آیت میں لِیَعْبُدُوْنِ  (عبادت کے لیے ) سے مراد لِیَعْرِفُوْنِ (معرفت کے لیے)ہے۔ صوفیا کے نزدیک بھی عبادت سے مراد معرفت ہی ہے کیونکہ تمام عبادات کا مقصد اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے۔ جو عبادت انسان کو اللہ کے قریب لے جا کر اس کی پہچان یعنی معرفت نہیں دلاتی وہ عبادت نہیں۔ چنانچہ اس آیت میں لیعبدون سے مراد عبادت کی اصل روح یعنی ’’معرفت‘‘ کا حصول ہے۔ محض عبادت کے لیے توفرشتے ہی کافی تھے۔ اللہ کسی انسان کے نماز روزے کا محتاج نہیں۔ ہاں وہ یہ ضرور چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے قرب، وصال اور معرفت کی طلب کریں جیسا کہ حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًا فَاَرَدْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِاُعْرَفَ 
ترجمہ: میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں پس میں نے مخلوق کو پیدا کیا تاکہ میری پہچان ہو۔
جو انسان اس مقصد کو پورا کرلیتا ہے وہ دنیا وآخرت میں کامیاب و کامران رہتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتاہے ’’میں نے انسان کو احسن صورت پر پیدا کیا۔‘‘ یہ وہ انسان ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرکے فلاح پا جاتا ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ انسان کو جانوروں سے بھی بدتر فرمارہا ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم بتاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
بے شک ہم نے کثرت سے ایسے جن اور انسان پیدا کیے جن کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ یہ اس لیے کہ ان کے پاس قلب (بمعنی روح) ہے لیکن یہ لوگ قلب کی تحقیق نہیں کرتے،ان کے پاس (روح) کی آنکھیں تو ہیں لیکن یہ ان آنکھوں سے دیکھتے نہیں،(روح) کے کان تو ہیں لیکن یہ ان کانوں سے سنتے نہیں۔ یہ لوگ چوپایوں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر گمراہ ہیں کہ یہ لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ (سورۃ الاعراف۔179)

مندرجہ بالا آیات کے تحت ایک وہ انسان ہے جو مقصد ِحیات پالیتا ہے، وہ اللہ کا راز، اس کاخلیفہ، اس کامظہر اور اس کا دوست ہے۔ اس کے برعکس وہ انسان جو مقصدِحیات کو چھوڑ کر نفس کی پیروی کرتا ہے اور اپنے متعین کردہ مقاصد کے لیے کوشاں رہتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی ادنیٰ مخلوق حیوانوں سے بھی بدترہے جس کا ٹھکانہ جہنم اور آگ ہے۔ 

ظاہری عبادات کی حقیقت

اگر انسان کی ظاہری عبادات کی بات کریں تو روح کو پاک کیے بنا اور آنکھ، کان اور قلب کوبیدار کیے بغیر عبادت کرنا ایسے ہے جیسے کوئی قرض اتارنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت کیسے کرسکتا ہے جبکہ اس نے اللہ کو دیکھا ہی نہیں اور نہ ہی اس کی معرفت حاصل کی ہے؟

سیدّناغوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں:
مَنْ لَمْ یَعْرِفُہٗ کَیْفَ یَعْبُدُہٗ 
ترجمہ: جو شخص اللہ کو پہچانتا ہی نہیں وہ اللہ کی عبادت کس طرح کر سکتا ہے!

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جو شخص اللہ کہنے میں اللہ کی ذات کی معرفت و حقیقت سے آگاہ و آشنا نہیں وہ اللہ کی حقیقی یاد سے غافل ہے۔ (سلطان الوھم)

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
اللہ کو دیکھ کر،پہچان کر عبادت کرنے میں جو خشوع و خضوع اور حضوریٔ قلب کی کیفیت حاصل ہوتی ہے وہ دیکھے بغیر حاصل ہونا ناممکن ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت اور عبادات کی فرضیت میں تیرہ سال کا وقفہ ہے۔اس دوران حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معرفتِ الٰہی کی تعلیم دی۔ جب یہ تعلیم مکمل ہوئی توظاہری عبادات فرض کی گئیں تاکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عبادات بے روح نہ ہوں۔

المیہ

ایک بہت بڑا المیہ اور دکھ کی بات ہے کہ ڈاکٹر، انجینئر، معیشت دان، ریاضی دان وغیرہ بننے کے لیے ہمیں سالہا سال مختلف اساتذہ سے سیکھنے اور پڑھنے کی ضروت ہے۔ دنیاوی علم حاصل کرنے کے لیے موٹی موٹی کتابیں سیکھنے کی ضروت ہے لیکن قرآنِ پاک جو اُمّ الکتاب ہے اور نماز جو سب سے افضل عمل ہے اسے حضورِقلب سے پڑھنے کے لیے کسی استاد کی ضرورت ہی نہیں محسوس کرتے۔ افسوس! نماز کا مقصد تو اللہ کی معراج یعنی دیدار حاصل کرنا ہے جیسے حدیث مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے ’’نماز مومن کی معراج ہے۔‘‘ آپ اس بات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ کسی ایسے انسان سے جوتیس چالیس سال سے نماز کا پابند ہو، پوچھیں کیا آپ کو نماز میں معراج حاصل ہوئی ہے توجواب خود ہی ملاحظہ فرمالیجئے گا۔ یہی حال دوسرے ارکانِ اسلام کا ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے:
لَاصَلٰوۃَ اِلَّا بِحُضُوْرِ الْقَلْبِ 
ترجمہ: حضورِقلب کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
چونکہ نمازی نماز میں اپنے ربّ کی مناجات کرتا ہے اور مناجات کا محل (مقام) قلب ہے۔ جب قلب غافل ہو جاتا ہے تو وہ باطنی نماز کو باطل کر دیتا ہے اور ظاہری نماز کو بھی، کیونکہ قلب اصل ہے اور باقی اعضا اس کے تابع ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اولادِ آدم کے جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے، جب وہ درست ہو جاتا ہے تو پورا جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے۔ خبردار وہ قلب ہے۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان جو بھی ظاہری عبادات مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور اس کے علاوہ جتنی بھی عبادات کرتا ہے ان کا انحصار دل یعنی قلب کی غفلت و بیداری پر ہے۔ اگر انسان کا قلب بیدار ہے تو انسان اللہ تعالیٰ کی رضا و قبولیت، قرب و محبت کو واضح محسوس کرتا ہے اور اگر قلب ہی بیدار نہیں تو اس کی مثال کوہلو کے بیل جیسی ہے کہ اتنے سال عبادات کرنے کے باوجود اسی جگہ پر کھڑا ہے۔ بلکہ اکثر تو عبادات و علم ریاضت پر تکبر کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے دور ہو جاتے ہیں اور منکرین بن جاتے ہیں جیسا کہ ابلیس۔

تزکیۂ نفس اور فلاح و کامیابی

نفس کی چار حالتیں ہیں جن کا قرآن پاک میں ذکر ہے:
 1 نفسِ امارہ
2 نفسِ لوامہ
3 نفسِ ملہمہ
4 نفسِ مطمئنہ 

نفس کی ان چار حالتوں کو میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس نے اپنی تصانیف شمس الفقرا، تزکیۂ نفس کا نبویؐ طریق اور نفس کے ناسور میں تفصیلاً بیان فرمایا ہے۔ ان چار حالتوں میں آخری اور چوتھی حالت نفس مطمئنہ میں اللہ تعالیٰ کی معرفت کی اہلیت ہوتی ہے اور اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک کی سورۃ الفجر میں فرماتا ہے:
یٰٓاَ یَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَنَّۃُ۔ارْجِعِیْٓ اِلیٰ رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً۔ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ۔وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۔ (سورۃالفجر۔ 27-30)
ترجمہ: اے نفسِ مطمئنہ! لوٹ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی حالت میں کہ وہ تجھ سے راضی ہے اور تو اس سے راضی ہے۔ پس تومیرے (کامل) بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت (قرب و دیدار) میں داخل ہوجا۔
اسکے بارے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پنجابی بیت میں فرماتے ہیں:

ایہو نفس اساڈا بیلی، جو نال اساڈے سدّھا ھوُ
زاہد عالم آن نوائے، جتھے ٹکڑا ویکھے تھدّا ھوُ
جو کوئی اس دی کرے سواری، اس نام اللہ دا  لدّھا ھوُ
راہ فقر دا مشکل باھوؒ، گھر ما نہ سیرا ردّھا ھوُ

اس بیت کی شرح میں میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
یہ نفس اب مطمئنہ ہوکر ہمارا دوست اور ساتھی بن چکا ہے اور اب ہمارے ساتھ صراطِ مستقیم پر ہے۔ جبکہ اسی نفس نے ’’امارہ‘‘ کی حالت میں کئی عالموں ، فاضلوں اور زاہدوں کو خواہشات کا غلام اور مال و دولت کاحریص بنا دیا ہے اور وہ جہاں سے مال و زر ملنے کی اُمید ہوتی ہے وہیں دین کے بدلے دنیا خرید لیتے ہیں۔ جس نے مرشد کامل اکمل سے اسمِ اللہ ذات حاصل کرلیا اور اس کا ذکر اور تصور اخلاص سے کیا، اس کا نفس امارہ سے مطمئنہ ہو گیا۔ فقر کے راستہ میں بڑے مشکل مراحل، منازل اور آزمائشیں ہیں۔ یہ کوئی اماں جی کا گھر میں پکا پکایا حلوہ نہیں ہے کہ آسانی سے کھا لیا جائے۔(ابیاتِ باھو کامل)

اب اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان نفسِ امارہ سے مطمئنہ تک کیسے پہنچ سکتا ہے جس کی بدولت اپنی ذات کو پہچان کر اللہ کی معرفت حاصل کرسکے؟اس کے بارے میں امام سلسلہ سروری قادری سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
ایسا پاکیزہ نفس انبیا اور اولیا کا ہوتا ہے۔ نفس کی یہ باطنی شخصیت بہت ارفع اور اعلیٰ ہوتی ہے۔ اور یہ تمام مراتب اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور اور صحبتِ مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ سے حاصل ہوتے ہیں ورنہ ظاہری عبادات سے نفس کو یہ مرتبہ اور مقام ہرگز حاصل نہیں ہوتا خواہ ساری عمر زہد و ریاضت سے کمر کبڑی ہوجائے اور سوکھ کر کانٹا ہو جائے۔ بلکہ ظاہری عبادات کی کثرت سے نفس سرکشی اختیار کرکے تکبر و انانیت کی گرفت میں آجاتا ہے۔ ابلیس کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ (تزکیۂ نفس کا نبویؐ طریق)

اب بظاہر نظر آنے والے انسانی وجودمیں تین بنیادی چیزیں ہیں:
1۔مٹی سے بنا ہوا انسانی جسم
2۔خواہشات سے بھرا ہوا نفسِ امارہ
3۔روحِ قدسی یعنی اصل انسان

جسم مٹی کا ہے اس کی غذا بھی مٹی ہے یعنی اس جسم کو تندرست اور صحت مند رکھنے کے لیے انسان جو بھی غذائیں استعمال کرتا ہے وہ سب مٹی سے ہی پیدا ہوتی ہیں جیسے پھل، اجناس، پانی وغیرہ اور کچھ چیزیں انسان بالواسطہ(indirect) حاصل کرتاہے۔تاہم اگران اشیا کے اجزائے ترکیبی (ingredients) کے بارے میں معلوم کریں گے تو ان کو مٹی سے حاصل کر کے خاص طریقہ کار سے انسان خود اس حالت میں لیکر آیاہے اور اس انسانی جسم کا انجام بھی مٹی ہے کہ اسے مٹی میں دفنا دیا جاتا ہے۔

دوسرے نمبر پر نفس ہے یعنی نفسِ امارہ جس کی غذا ہر وہ چیز ہے جو اللہ کو ناپسند ہے اور اللہ اور بندے کے درمیان حجاب پیدا کرنے والی چیزیں مثلاً غصہ، غیظ و غضب، شر انگیزی، لڑنا بھڑنا، تکبر کرنا، شہوات کی پیروی کرنا وغیرہ۔ جب تک انسان اس کے تابع رہتا ہے یہ پرسکون رہتا ہے اور جیسے ہی اس کے خلاف کچھ کرتا ہے، وہ ظالم درندے کی طرح انسان کے پیچھے پڑ جاتاہے ۔یہ بات انتہائی اہم اور ضروری ہے کہ اگر انسان اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے مرشد کی رہنمائی کے بغیر اس سے پاک ہونے کی کوشش کرتاہے تو یہ انسان کو گمراہ، کافر اور بے دین بنا دیتا ہے۔ کیونکہ مرشد کامل اکمل کی رہنمائی کے بغیر انسان اسے ایک بال برابر بھی پاک نہیں کرسکتا جس کی ماضی میں بے شمار مثالیں موجود ہیں اور اس نفس کا انجام بھی خواہشات کی تکمیل کرتے ہوجاتا ہے۔

تیسرے نمبر پر روحِ قدسی یا اصل انسان ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا نور ہے اور اس کی غذا بھی نور ہے ۔ وہ نور کیا ہے؟ وہ نوراسمِ اللہ ذات ہے۔ جب تک روحِ قدسی کو اس کی غذا نہیں دی جاتی یہ نہ ہی انسان میں بیدار ہوتی ہے اور نہ ہی نفس پر غالب آکر اللہ تعالیٰ کو اپنے اندر پہچان سکتی ہے جیسے یہ روح سوئی حالت میں انسان میں مقید ہوکر اس دنیا میں آئی ویسے ہی سوئی ہوئی حالت میں( بنا اللہ کی پہچان و دیدار کے) اس دنیا امتحان گاہ سے واپس چلی جاتی جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی  (سورۃ بنی اسرائیل۔72)
ترجمہ: اور جو شخص اس دنیا میں (لقائے الٰہی سے) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی (دیدار الٰہی کرنے سے ) اندھا رہے گا۔

اب اس نفس کے تزکیہ کے بغیر دیدار و معرفتِ الٰہی یعنی انسان کا مقصدِحیات کو پانا ناممکن ہے اور تزکیۂ نفس اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور کے بغیر حاصل کرنا ناممکن ہے۔تاہم یہ بھی یاد رہے کہ اسمِ اللہ ذات کے ذریعے نفس کا تزکیہ سروری قادری مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ کی صحبت و رہنمائی کے بغیر بالکل ناممکن ہے خواہ انسان اسمِ اللہ ذات کا ذکر و تصور ہزار سال کیوں نہ کرتا رہے اس کے نفس پر کچھ اثر نہ ہوگا الٹا اس کا نقصان اٹھائے گا۔ چونکہ اسمِ اللہ ذات ایک بہت بھاری امانت ہے جسے ہرکوئی نہیں اٹھا سکتا۔یہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص الخاص محبوب بندوں کی ملکیت میں دیتاہے اوروہ اپنے زمانہ کا مجدد انسانِ کامل، فقیرِکامل، کامل مومن، خلیفتہ اللہ اور مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ ہوتاہے۔ اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے اسمِ اللہ کا ذکرو تصور عطا کرنا اور طالبانِ مولیٰ کی رہنمائی کرنااور اپنی صحبت سے اُمتِ محمدیہ کو مستفید کرنا فرض ہوتا ہے۔ دور ِحاضر میں وہ ہستی،وہ ذاتِ مبارکہ میرے ہادی، میرے مرشد کریم مجددِ دین امامِ مبین سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی ذات بابرکات ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی ذات مبارکہ اتنی بے مثال و باکمال ہے کہ آپ ہر لمحہ اور ہر گھڑی اپنی سخاوت دیدار الٰہی، معرفتِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صورت میں بلا رنج و ریاضت نچھاور فرمارہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے بے شمار طالبانِ مولیٰ کے نفوس اور قلوب کو پاک فرما کر معرفت و دیدارِ الٰہی کی نعمتِ عظمیٰ عطا فرمائی اور فرمارہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس طالبانِ مولیٰ پر اپنی مہربانی سے اس طرح سایہ فگن ہیں جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

شور شہر تے رحمت وسے، جتھے باھوؒ جالے ھوُ
باغباناں دے بوٹے وانگوں، طالب نت سنبھالے ھوُ

 

13 تبصرے “حقیقت ِانسانیہ اور تزکیۂ نفس Haqiqat-e-Insania or Tazkia-e-Nafs

  1. شور شہر تے رحمت وسے، جتھے باھوؒ جالے ھوُ
    باغباناں دے بوٹے وانگوں، طالب نت سنبھالے ھوُ

  2. فرشتہ مجھ کو کہنے سے میری تحقیر ہوتی ہے
    میں مسجودِ ملائک ہوں مجھے انسان رہنے دو

  3. حدیثِ مبارکہ میں ہے:
    لَاصَلٰوۃَ اِلَّا بِحُضُوْرِ الْقَلْبِ
    ترجمہ: حضورِقلب کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔

  4. آج کی گمراہی کے دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے دِن رات محنت کرکے دنیا کو دینِ اسلام کی صحیح صورت دی ہے۔

  5. اسمِ اللہ ذات کے ذریعے نفس کا تزکیہ سروری قادری مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ کی صحبت و رہنمائی کے بغیر بالکل ناممکن ہے خواہ انسان اسمِ اللہ ذات کا ذکر و تصور ہزار سال کیوں نہ کرتا رہے اس کے نفس پر کچھ اثر نہ ہوگا الٹا اس کا نقصان اٹھائے گا۔

  6. فرشتہ مجھ کو کہنے سے میری تحقیر ہوتی ہے
    میں مسجودِ ملائک ہوں مجھے انسان رہنے دو

  7. آپ مدظلہ الاقدس کی ذات مبارکہ اتنی بے مثال و باکمال ہے کہ آپ ہر لمحہ اور ہر گھڑی اپنی سخاوت دیدار الٰہی، معرفتِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صورت میں بلا رنج و ریاضت نچھاور فرمارہے ہیں۔

  8. اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو نہایت پیچیدہ اور بہت وسیع بنایا ہے۔ مٹی سے بنا یہ پتلا اصل انسان یعنی روح کا لباس ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
    وَ بَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ (سورۃ السجدہ ۔ 7)
    ترجمہ:اور اس نے انسانی تخلیق کی ابتدا مٹی(یعنی غیر نامی مادہ)سے کی۔
    خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّار (سورۃ الرحمن۔14)
    ترجمہ:اسی نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتے ہوئے خشک گارے سے بنایا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں