Ameer ul kunain

امیر الکونین | Ameer-ul-Konain


Rate this post

امیر الکونین

قسط نمبر19

مدرسہ ٔ دیدار میں وہی طالب ِ مولیٰ سبق ِ الٰہی پڑھتا ہے جو دیدارِ الٰہی کی قدرت، عزت اور تعظیم جانتا ہے۔ دیدار کی قدر عارف ہی جانتا ہے جو لاھوت لامکان تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔ ابیات:
ہر کہ گوید دیدہ ام من غیب را
ہیچ کس باور نیارد جز خدا
ترجمہ: جو کوئی یہ کہتا ہے کہ میں نے غیب (یعنی ذاتِ حق تعالیٰ کو) دیکھا ہے تو خدا کے سوا کوئی اس کا یقین نہیں کرے گا۔
غیب بینی دیدہ بادیدار بین
نیست آنجا نفس نی شیطان لعین
ترجمہ: اگر تو غیب دیکھنا چاہتا ہے تو دیدار کرنے والی آنکھ سے دیکھ کہ جہاں دیدار ہوتا ہے وہاں نہ نفس ہے نہ شیطان لعین۔
ہر کہ می بیند بود بر خود گواہ
معرفت دیدار حاصل شد اِلٰہ
ترجمہ: جو غیب (ذاتِ حق تعالیٰ) کو دیکھتا ہے وہی خود پر گواہ ہوتا ہے کہ اسے معبود کی معرفت اور دیدار حاصل ہے۔
غیب دان داند بہ آنکس غیب دان
دیدنی دیدار باچشم ِ عیان
ترجمہ: غیب دان جانتا ہے کہ جو چشم ِ عیاں سے دیدار کرتا ہے وہی اصل غیب دان ہے۔
چشم سِرّ عینک دران شیشہ نگر
خوش بہ بین دیدار را صاحب ِ نظر
ترجمہ: چشم ِ سرّ عینک ہے اس کے شیشے سے صاحب ِ نظر آسانی سے دیدار کرتا ہے۔
ہم ناظرم ہم حاضرم ہم بالقا
ناظر و حاضر کنم طالب بیا
ترجمہ: میں صاحب ِ وصال ہوں اس لیے میں ہر جگہ حاضر بھی ہوں اور ہر شے کو دیکھنے والا بھی ہوں لہٰذا اے طالب آ تاکہ تجھے بھی ناظر و حاضر بنا دوں۔
جو رات د ن دیدار میں غرق رہتا ہے اور اس کا مرتبہ فقیر ولی اللہ کا ہے اور جو دیدار کا منکر ہے اس کا مرتبہ فَفِرُّوْٓا مِنَ اللّٰہِ  (یعنی بھاگو اللہ سے دور) ہے۔ ابیات:

کور مادر زاد طالب بی نظر
کور طالب کور رفتہ بی بصر
ترجمہ: مادر زاد (باطنی طور پر) اندھا طالب بے بصیرت ہوتا ہے اور اس دنیا سے بے بصیرت ہی جاتا ہے۔

کور را گر می نمایم آفتاب
کور بیند ہر طرف یابد حجاب
ترجمہ: میں اگر اندھے کو سورج بھی دکھاؤں تو بھی اس اندھے کو ہر طرف حجاب ہی دکھائی دیتا ہے۔
اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ ابیات:
اولاً موت است بعد از معرفت
و ز چہار بگذرد یکتا صفت
ترجمہ: پہلے مرتبہ موت ہے اور اس کے بعد اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ جو اربع عناصر (بشریت) سے آزاد ہو جاتا ہے وہ یکتا صفت یعنی حق کے ساتھ یکتا ہو جاتا ہے۔
پنج را با پنج دارد ہوشیار
نہ یکطرف یک یکطرف عارف شمار
ترجمہ: جو اپنی پانچوں حسیات کو اسلام کے پانچوں ارکان ہوشیاری سے ادا کرنے میں مشغول رکھتا ہے تو نو اعضا ایک طرف اور ایک‘ ایک طرف ہوتا ہے اور تب وہ عارف کہلاتا ہے۔
نہ گرسنہ میشود یک سیر تر
گر یک گرسنہ میشود نہ در امر
ترجمہ: نو اگر بھوکے ہوں اور ایک سیر ہوتا ہے اور اگر ایک بھوکا ہو تو نو اعضا فرمانبردار اور قابو میں رہتے ہیں۔
دہ دیو ِ خود در وجودے بند کن
بعد ازان ارشاد مردم پند کن
ترجمہ: اپنے وجود کے یہ دس شیطان قابو میں رکھ اور اس کے بعد لوگوں کو تلقین و نصیحت کر۔
معرفت توحید جملہ شد او را
ہر کہ یک را یافتہ عارف خدا
ترجمہ: جملہ معرفت ِ توحید اس کو حاصل ہوتی ہے جو وجود کے تمام اعضا کو عارفِ خدا بنا دے۔
علم ِ غیب کو اللہ کے خاص بندے ہی جانتے ہیں اور یہ خاص بندے جو کہ عارفِ خدا ہیں‘ وہی اس علم ِ غیب کو پڑھتے ہیں۔ اہل ِ ایمان وہی ہیں جو علم ِ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ اور جو کوئی علم ِ غیب پر ایمان نہیں لاتا تو وہ ہرگز صاحب ِ ایمان نہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
٭ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ لا۔الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ  (البقرہ۔2,3)
ترجمہ: اس (کتاب) میں کوئی شک و شبہ نہیں اور اس میں متقین کے لیے ہدایت ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔
اور وہ اس حدیث کے موافق ہوتے ہیں جس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
٭مَنْ عَرَفَ اللّٰہُ لَا یَخْفٰی عَلَیْہِ شَیْئٌ
ترجمہ: جو اللہ کو پہچان لیتا ہے اس سے کوئی شے مخفی و پوشیدہ نہیں رہتی۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
٭ اِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ لَھُمْ مَغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌکَبِیْرٌ (الملک۔12)
ترجمہ: اور جو اپنے ربّ سے غیب کے متعلق ڈرتے ہیں پس ان کے لیے مغفرت اور اجر ِ عظیم ہے۔

جو فقیر قرب و دیدارِ الٰہی کا عالم ہو‘ اسے توفیق ِ الٰہی سے ایسی تصدیق ِ قلب حاصل ہوتی ہے کہ وہ تمام علم ِ ظاہر و زبانی بھول جاتا ہے اور اسے حروفِ تہجی میں سے ایک بھی حرف یاد نہیں رہتا۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
٭ مَنْ عَرَفَ رَبَّہٗ فَقَدْ کَلَّ لِسَانَہٗ
ترجمہ: پس جو اپنے ربّ کو پہچان لیتا ہے تحقیق اس کی زبان گونگی ہو جاتی ہے۔

فقیر کو علم ِ دیدار سے قرب، عزت، عظمت، شرافت، کرامت، جمعیت، فخر، حکمت، امر، حکم، تصرف، توجہ، تفکر، تصور اور کونین پر غلبہ، روشن ضمیری، تجلیاتِ ذات کے انوار کا بے حجاب مشاہدہ اور اسرارِ قدرتِ سبحانی کے احوال سے واقفیت حاصل ہوتی ہے کہ فقرا کے لیے علم ِ دیدار کے سوا کوئی دوسرا علم پڑھنا مردار ہے اور فقیر کو ذکر، فکر، مراقبہ اور وردوظائف سے کیا سروکار؟ ابیات:
مرشد دیدار دیدارش نظر
بانظر ناظر کند موسیٰؑ خضرؑ
ترجمہ: صاحب ِ دیدار مرشد اپنی (باطنی) نظر سے طالبانِ مولیٰ کو دیدار عطا کرتا ہے اور انہیں موسیٰ ؑ اور خضر ؑکی صفت کا حامل بنا کر دیدار کرنے والا بنا دیتا ہے۔
این شرف شد امتی از مصطفیؐ
نَحْنُ اَقْرَبُ یافتہ قرب از اِلٰہ
ترجمہ: یہ شرف صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیروکاروں کو حاصل ہے جو اللہ کے قرب سے نَحْنُ  اَقْرَبُ  کی حقیقت حاصل کرتے ہیں۔

اے احمق و گمراہ! قربِ الٰہی کے یہ مراتب فقر سے حاصل ہوتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ طریقت کے راستے کے ہر مراتب کی ابتدا قربِ الٰہی ہے اور انتہا مجلس ِ محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پہنچنا ہے کیونکہ ان مراتب کی ابتدا اور انتہا کے درمیان دیدارِ الٰہی ہے جو اللہ کی عطا اور اس کا فیض و فضل ہے۔ ان مراتب کی ابتدا و انتہا حاصل کرنا بھی نامکمل ہے جب تک ابتدا اور انتہا ایک نہ ہو جائیں کیونکہ درحقیقت ابتدا و انتہا ایک ہی ہیں۔ جو کوئی نیند یا مراقبہ میں دیدارِ ربّ العالمین سے مشرف ہو جائے وہ تمام عمر نہیں سوتا بلکہ بیدار رہتا ہے اور اگر سو بھی جائے تو بے حجاب حضورِ حق سے مشرف ہوتا ہے۔ جسے دیدار حاصل ہو جائے اسے بدبودار اور مردار دنیا پسند نہیں آتی۔ جس کے پاس یہ دو گواہ (قربِ الٰہی اور مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری) نہیں اسے دیدار حاصل نہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
٭اَلنِّہَایَۃُ ھُوَ الرُّجُوْعُ اِلَی الْبِدَایَۃِ
ترجمہ: انتہا ابتدا کی طرف لوٹنے کا نام ہے۔

محبت قربِ الٰہی کی راہ ہے کہ اس کی انتہا پر قربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے۔ جو طالب قربِ الٰہی کی اس راہ کا متلاشی ہو وہ آخر قربِ الٰہی پا لیتا ہے۔ ذکر، فکر، ذوق، شوق، مراقبہ، مکاشفہ سب قربِ الٰہی کے لیے وسیلہ ہیں اور انتہا میں قربِ الٰہی عطا کرتے ہیں۔ تصور، تصرف، توجہ، تفکر، معرفت توحید تک پہنچنے کی راہ ہے جو دیدار عطا کرتی ہے اور آخر قربِ الٰہی تک پہنچاتی ہے اور (ہر شے کی حقیقت دیکھنے والی) نظر و نگاہ عطا کرتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ مرشد کامل مراتب ِ ابتدا میں ہی انتہا دکھاتا ہے اور جب دیدار سے مشرف کرتا ہے تو ابتدا اور انتہا بھی یاد نہیں رہتی۔ یہ حقیقت ِ حق کو آنکھوں سے دیکھنے کے مراتب ہیں۔ بیت:
گر بگویم دیدہ ام مدعی با دعویٰ در
کور چشمی کے بہ بیند سگ مثال خوک خر
ترجمہ: اگر میں یہ دعویٰ کروں کہ میں نے دیدار کیا ہے تو یہ سچ ہے کہ (باطنی آنکھوں سے) اندھے اسے کہاں دیکھ سکتے ہیں وہ تو کتے، خنزیر اور گدھے کی مثل جانور ہیں۔
دیدار، اس کی روشنی اور انوار طالب پر اس طرح غالب آتے ہیں جیسے پانی آگ پر۔ بیت:
با دمے دیدار ببرم شد حضور
شد مشرف بالقا در غرق نور
ترجمہ: میں ایک لمحہ میں حضوری میں لے جا کر دیدار کراتا ہوں اور نور میں غرق کر کے لقا سے مشرف کرتا ہوں۔
مرشد سب سے پہلے دل کے اندھے طالب کو بینائی کی دوا دے کر چشم ِ بصیرت عطا کرتا ہے اور اس کے بعد دائمی دیدار عطا کرتا ہے۔ جس کے پاس لازوال ایمان ہو وہ اولیا میں سے ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
٭ اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَاللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (یونس۔62)
ترجمہ:خبردار! بے شک اولیا اللہ کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ غم۔

عالم دیدار کے احکامات بیان کرتا ہے جبکہ مرشد کامل دیدار کرواتا ہے۔ کہنے اور دکھانے میں بہت فرق ہے۔ فقیر پر فرضِ عین ہے کہ جملہ خزانوں پر تصرف، ملک ِ سلیمانی، جملہ ارواحِ انبیا اور اولیا اللہ، تسبیح کرنے والے جملہ فرشتے اور کل و جز جو کچھ دنیا میں ہے‘ اسے اپنے قبضہ و قدرت میں لے آئے۔ یہ مراتب فقر ِ اختیاری سے حاصل ہوتے ہیں جن کو بعد میں توفیق ِ الٰہی سے ترک کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ فقیر تمام دنیا کو اپنے تصرف میں لے آتا ہے اور ایک ہی بار میں سب کچھ اللہ کی کی راہ میں خرچ کر کے ان سے الگ ہو جاتا ہے۔ فقر کو توکل، غنایت اور ہدایت کے احوال سے تحقیق کیا جا سکتا ہے۔ غنایت کے بغیر فقر اضطراری ہے جس میں طالب شکایت ہی کرتا رہتا ہے۔ بیت:
توحید سر عطا است کہ تقلید سر خطا است
از دست نارساست کہ مکارہ پارسا است
ترجمہ: توحید سراسر عطا جبکہ تقلید سراسر خطا ہے۔ اور جو گناہ نہ کر سکتا ہو وہ مکاری سے پارسائی کا دعویٰ کرتا ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
٭مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰی (النجم۔17)
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نظر نہ بہکی اور نہ حد سے بڑھی۔

جب تک طالب ِ دیدارِ الٰہی دونوں جہان کے نظارے سے بیزار نہ ہو جائے، اس سے ہزار بار استغفار کرتا رہے جب تک کہ دل کی سیاہی دور نہ ہو جائے اور وہ ہمیشہ کے لیے بیدار ہو کر یقین و اعتبار نہ حاصل کر لے۔ تب تک اس کے لیے معرفت ِ الٰہی اور وصال تک پہنچنا اور دیدارِ الٰہی سے مشرف ہونا نہایت مشکل، دشوار اور کارِ محال ہے۔
دیدۂ دیدار ما را از ازل
معرفت دیدار ما را شد فضل
ترجمہ: اللہ کے فضل سے ہمیں ازل سے ہی اس کی معرفت اور دیدار کرنے والی آنکھ حاصل ہے۔
اگر کوئی شخص تمام عمر مطالعہ ٔ علم میں گزار دے اور علم کے حصول سے عالم فاضل بن جائے اور وہ تمام علوم پڑھتا رہے تب بھی وہ باطن، توحید، معرفت، قرب اور حضوری سے بے خبر اور محروم رہتا ہے اور اگر کوئی اپنی تمام عمر ریاضت میں صرف کر دے اور ایک سو تیس سال ایک ٹانگ پر کھڑا رہ کر مجاہدہ کرتا رہے تو بھی اسے طریقت، معرفت، باطن، لقا، بقا اور فنا کی ذرا بھی خبر نہیں ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے جب تک مرشد کامل کی توفیق حاصل نہ ہو۔ سالہا سال کی عبادت اور اس کے ثواب سے مرشد کی توجہ بہتر ہے جو ایک لمحہ میں اللہ کا بے حجاب دیدار عطا کرتی ہے۔ ابیات:
مرشدی باشد ترا مراتب رہنما
طلب کن از مرشدی رویت خدا
ترجمہ: مرشد ہر مرتبہ پر تیرا رہنما ہے لہٰذا تو اس سے دیدارِ خدا کی طلب کر۔
حافظ شدی عالم شدی زندہ زبان
و ز بی خبر تصدیق وحدت بے عیان
ترجمہ: تو حافظ بن گیا ہو یا عالم اور تیری زبان میں تاثیر ہو لیکن تو وحدتِ حق کی تصدیق سے بے خبر ہے کیونکہ تو حجاب میں ہے۔
مجھے تو ان احمق لوگوں پر حیرت ہوتی ہے کہ بعض اہل ِ بدعت فرعون اور شیطان کے گروہ سے تعلق رکھنے والے، شرابی و نفسانی لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ رحمن کی معرفت اور دیدار حاصل ہے لیکن درحقیقت وہ کفار، اہل ِ ابلیس اور اہل ِ زنار کو (اپنے تصور میں)دیکھتے ہیں۔ ان اہل ِ بدعت کی بنیاد خلافِ طریقہ ہے اور ان کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔
ہر کہ می بیند بدیدار خدا
آن طالبان را بانظر ببرد لقا
ترجمہ: جس مرشد کو دیدارِ الٰہی حاصل ہو وہ طالبانِ مولیٰ کو بھی اپنی توجہ سے قرب و دیدارِ الٰہی بخشتا ہے۔
در معرفت دیدارِ حق ناظر کند
بانظر مجلس نبیؐ اللہ برد
ترجمہ: مرشد معرفت عطا کرتے ہوئے دیدارِ حق کراتا ہے اور نظر سے مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں لے جاتا ہے۔
دم دلم دیدار میبردہ حضور
روح را روحی برد اہل القبور
ترجمہ: میرا دل ہر لمحہ دیدار میں مشغول رہتا ہے اور لمحہ بھر میں حضورِ حق میں پہنچ جاتا ہے اور اپنی روح کو اہل ِ قبور کی ارواح تک لے جاتا ہے۔
لائق دیدار اوّل دیدہ کن
دیدہ دیدار را زان دیدہ کن
ترجمہ: سب سے پہلے اپنی آنکھوں کو دیدار کے لائق بنا اور پھر اس آنکھ سے اللہ کا دیدار کر۔
نیست منزل نیست آنجائے مقام
غرق فی التوحید فی اللہ شد تمام
ترجمہ: غرق فی التوحید کے مرتبہ پر نہ کوئی منزل ہے نہ مقام۔
طالبے موسیٰؑ طلب دیدار جو
باھُوؒ معرفت دیدار موسیٰؑ را بگو
ترجمہ: طالب کو موسیٰ علیہ السلام کی مثل دیدار کی جستجو کرنے والا ہونا چاہیے۔ تو موسیٰ علیہ السلام کی طرح اللہ سے اس کی معرفت و دیدار طلب کر۔
مرشد کے تصرف اور دیدار کے تصور کی بدولت طالب اعتبار حاصل کرتا ہے جبکہ مرشد کی خدمت کے دن، مہینے اور سال شمار کرنے سے اسے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ بیت:
باھوؒ طالب دیدار از خود خود جدا
از میان خود رفت می بیند لقا
ترجمہ: باھُوؒ! دیدار کے طالب کو اپنی خودی (انا) سے نجات حاصل کر لینی چاہیے کیونکہ جب وہ اپنی خودی سے جدا ہو جائے تب قرب و دیدار حاصل ہوتا ہے۔
عورت، بیٹے اور مال کی محبت اور ذکر، فکر، خیال، طمع اور مردار نفس اللہ کی معرفت اور دیدار سے روکتے ہیں۔ قرب و دیدار اس نماز سے حاصل ہوتا ہے جو معرفت اور نورِ حضور سے دائمی طور پر مشرف ہو۔ دیدارِ الٰہی ایک راز ہے۔ ابیات:
سر رود در سجدہ دل باشد باخدا
روح شد باحق مشرف اتحاد بالقا
ترجمہ: (نماز ایسی ہو کہ جب) سر سجدہ میں جائے تو دل خدا کے ساتھ مشغول ہو اور روح اللہ کے قرب و وِصال سے مشرف ہو۔
این نماز عارفان با دل حضور
فرض عین است این نماز بالضرور
ترجمہ: ایسی نماز عارفین ہی حضورِ قلب سے ادا کرتے ہیں اور یہی نماز فرضِ عین اور لازم ہے۔
(جاری ہے)


اپنا تبصرہ بھیجیں