مومن کی معراج۔نماز


4.8/5 - (393 votes)

مومن کی معراج۔نماز (Momin Ki Meraj Namaz )

تحریر: محترمہ مقدس یونس سروری قادری

معراج عربی لفظ عَرَجَ سے ہے جس کامطلب ہے بلند ہونا یا اونچا ہونا۔ معراج قربِ الٰہی کی وہ انتہائی منزل اور عروجِ انسانی کا وہ آخری مقام ہے جہاں بندے اور اللہ کے درمیان نہ کوئی حجاب رہتا ہے نہ فاصلہ۔ معراج روحِ انسانی کا عالمِ ناسوت (دنیا) سے واپس عالمِ لاھوت میں (اپنی ابتدا، اپنی حقیقت) ذاتِ حق تعالیٰ کی طرف عروج کا سفر ہے۔ (الرسالۃ الغوثیہ)

سرِ لامکاں سے طلب ہوئی، سوئے منتہیٰ وہ چلے نبیؐ
کوئی حد ہے ان کے عروج کیبلغ العلیٰ بکمالہٖ 

 

 معراجِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

معراج کمال معجزاتِ مصطفی ؐہے۔ شبِ معراج خاتم النبیین، صاحبِ لولاک ،فخرِموجودات، رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو زمان و مکان کی مسافتیں طے کروانے کے بعد خدائے لم یزل نے اپنے قرب و وصال کی بے پایاں نعمتیں عطا فرما دیں۔ مقامِ قَابَ قَوْسَیْن  پر اپنی ہمکلامی اور بے حجاب دیدار کا شرف اس طرح ارزانی فرمایا کہ ایک طرف خدا اپنے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا سمیع و بصیر تھا تو دوسری طرف حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اپنے خدا کا سمیع و بصیر تھا اور دونوں کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ تھا۔

ہوئی ہے کس قدر ارزانی میِ جلوہ
کہ مست ہے ترے کوچے میں ہر در و دیوار

 مومن کی معراج 

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبؐ کو معراج کی رات اپنے دیدار کی نعمت اور لذت عطا کرنے کے بعد اپنے محبوب ؐ کی امت کے لیے بھی اپنے دیدار اور قرب کا راستہ کھول دیا۔ اس مقصد کے لیے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نماز کا تحفہ عطا کیا گیا تاکہ امتِ محمدی بھی اپنے ربّ کا قرب و وصال اور دیدار حاصل کرسکے۔ حدیثِ مبارکہ ہے:
نماز مومن کی معراج ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے، مسلمان کی نہیں۔
مومن کون ہے؟ اور مسلمان ہونے کا کیامطلب ہے؟
ایک مرتبہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صحابہ کرامؓ میں مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ کچھ اعرابی لوگ آئے (جو نئے مسلمان ہوئے تھے)۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں عرض کیا ’’آقا! ہم بھی مومن ہیں اس لیے ہم پر بھی عنایت فرمائیں جو آپ دوسرے مومنین پر فرمارہے ہیں۔‘‘ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جواب بھی نہ دینے پائے تھے کہ وحی کا نزول شروع ہوگیا: 

 یہ اعرابی کہتے ہیں کہ ہم ایمان والے ہیں(یعنی مومن ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرمادیں کہ تم ایمان والے نہیں ہو (یعنی تم نے ابھی اقرار باللسان کیا ہے اور زبانی کلمہ پڑھا ہے) بلکہ یہ کہو کہ ہم مسلمان ہوئے ہیں ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا(یعنی تم ابھی تصدیق بالقلب کے مرتبہ پر نہیں پہنچے)۔ (سورۃ الحجرات۔ 14)

مندرجہ بالا آیت سے واضح ہوتا ہے کہ ظاہری طور پر کلمہ پڑھنے سے انسان دائرہ اسلام میں تو داخل ہوجاتا ہے مگر دائرہ ایمان میں نہیں۔ ایمان کا تعلق قلب (دل) سے ہے۔ جب تک ایمان قلب (دل) میں داخل نہیں ہوگا مومن نہیں بن سکتا۔

حدیثِ قدسی میں اللہ پاک نے فرمایا ہے:
نہ میں زمین میں سماتا ہوں اور نہ ہی آسمانوں میں لیکن بندۂ مومن کے دل میں سما جاتا ہوں۔ (مسلم)
یعنی مسلمان سے مومن کا سفر یہی ہے کہ مسلمان محض ظاہری طور پر اللہ تعالیٰ کی توحید اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کی گواہی دیتا ہے البتہ مومن ادراکِ قلبی سے مشاہدہ حق تعالیٰ کرتا ہے۔ مسلمان اللہ کو مانتا ہے اور مومن اللہ کی مانتا ہے۔ مسلمان کا نظریہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے جبکہ مومن کی یہ شان ہے کہ اللہ پاک اس کے قلب میں سما جاتا ہے اس لیے وہ اس نظریے کا مشاہدہ کرتاہے ’’جس طرف چہرہ پھیرو گے تم اللہ کو ہی پاؤ گے۔‘‘ (سورۃ البقرہ۔115) اسی لیے ایک مسلمان اور مومن کی نماز میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مسلمان کی نماز ظاہری خشوع و خصوع کا مجموعہ ہوتی ہے جبکہ مومن باطنی طور پر اپنے ربّ کی طرف متوجہ ہونے کے باعث عاجزی کا پیکر بن جاتا ہے۔

نماز عملی عبادات میں سرفہرست ہے جو بظاہر ایک عمل ہے لیکن نماز قربِ الٰہی کا موجب ہے۔ اللہ جل شانہٗ کے نزدیک تمام اعمالِ صالح میں نماز سب سے پسندیدہ عبادت ہے۔ نماز اور ایمان لازم و ملزوم ہیں۔ دین کی تکمیل نمازکی ادائیگی کے بغیر ناممکن ہے۔ جس طرح بغیر ستون کے عمارت کھڑی نہیں ہوسکتی عین اُسی طرح نماز کے بغیر دین ِاسلام کی عمارت کھڑی نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
نماز دین کا ستون ہے۔(سنن ابنِ ماجہ،مشکوٰۃ المصابیح)

نماز ۔۔ قرب و معرفت کا ذریعہ

نماز ذریعہ ہے عبد اور معبود کے درمیان رابطے اور راز و نیاز کا۔ اسی لیے قرآنِ مجید فرقانِ حمیدمیں بار بار نماز قائم کرنے کا حکم آیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 بیشک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ سو تم میری عبادت کیا کرو اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کرو۔ (سورۃطٰہٰ۔14)
حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
نماز ایسے ادا کیا کرو گویا اپنے محبوبِ حقیقی کو دیکھ رہے ہو۔
نماز ربّ کریم سے ملاقات کا وسیلہ ہے۔
قرآنِ مجید میں نماز کے لیے لفظ ’’الصلوٰۃ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ لغت میں ’’صلوۃ‘‘ کے معنی ذکر اور فرمانبرداری کے ہیں۔ فقہا کے نزدیک اس سے مرادوہ معروف عبادت جس میں اللہ تعالیٰ کی معرفت و قرب حاصل ہوتا ہے ’’نماز‘‘ ہے۔

الرسالۃ الغوثیہ میں سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانیؓ فرماتے ہیں:
میں نے اللہ ربّ العزت سے پوچھا ’’اے ربّ! کون سی نماز تیرے قریب ترہے؟‘‘ فرمایا ’’وہ نماز جس میں میرے سوا کچھ نہ ہو اور نمازی بھی اس نماز سے غائب ہو۔‘‘ (الرسالۃ الغوثیہ)

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
نماز اللہ تعالیٰ کی بندگی کا وہ ادب ہے جو بندے کو دائمی طور پر اطاعت ِالٰہی میں مشغول رہنے کا قرینہ سکھاتا ہے۔ (حقیقتِ نماز)

حضورِ قلب

قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فلاح پاگئے وہ مومن جو اپنی نماز خشوع (حضورِ قلب) سے ادا کرتے ہیں۔ (سورۃا لمومنون 1-2)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس حضورِ قلب کے بارے میں فرماتے ہیں:
حضورِ قلب یا حضوری کے معنی قلب کا خلق سے ہٹ کر حق تعالیٰ کے ساتھ حاضر ہونا ہے۔ اسے مقامِ وحدت بھی کہتے ہیں۔ حضورِ قلب سے مراد باطنی آنکھ سے اللہ کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ (سلطان العاشقین)

حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے دیدارِ الٰہی کے لیے نماز میں حضورِ قلب کی شرط کو یوں بیان فرمایا ہے:
حضورِ قلب کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
اس حدیثِ مبارکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ نماز کا مقصداللہ تعالیٰ کاقرب، دیدار اور معرفت حاصل کرنا ہے۔ اس مقصد میں انسان تب تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک نماز میں مکمل یکسوئی کے ساتھ غیر ماسویٰ اللہ (چاہے وہ کوئی بھی دنیاوی خواہش ہو یا کسی بھی انعام کا لالچ) سے بے نیاز ہو کر محض طلبِ مولیٰ کی خاطر اللہ کی طرف متوجہ نہ ہو۔
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

زاہد! کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے عقبیٰ بھی چھوڑ دے

چونکہ نمازی نماز میں اپنے ربّ کی مناجات کرتاہے اور مناجات کا محل (مقام) قلب ہے اور جب قلب غافل ہو جاتا ہے تو وہ(باطنی) نماز کو باطل کر دیتا ہے اور ظاہری نماز کو بھی۔ کیونکہ قلب اصل (یعنی بنیاد) ہے باقی (اعضا) اس کے تابع ہیں۔

حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اولادِ آدم کے جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے جب وہ درست ہوجاتا ہے تو پورا جسم درست رہتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے۔ بے شک وہ قلب ہے۔ (سرالاسرار)

لہٰذا وہی نماز اللہ سے قریب ہے جسے حضورِ قلب کی کیفیت حاصل ہو اور اللہ کے قرب کا احساس اس درجہ غالب ہو کہ نمازی نماز میں اپنے وجود کا احساس بھی کھو دے اور صرف یہ احساس باقی رہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی موجود ہے۔ ایسی نماز اس صورت میں ادا ہوسکتی ہے جب انسان لذات و شہواتِ نفسانی اور قلب کے خطرات سے نجات پا چکا ہو اور باطنی عروج حاصل کرکے عالمِ لاھوت لامکاں میں پہنچ چکا ہو یعنی اللہ کی ذات میں فنا ہو کر بقا پاچکا ہو کیونکہ انسان جب تک دوئی سے آزاد نہیں ہوتا تب تک ایسی کامل نماز ادا کرنا اس کے لیے ممکن نہیں۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
پس نماز قائم کرنے سے مراد اپنا چہرہ اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا ہے اور اس کا تعلق دل سے ہے۔ اہلِ قلب کی نماز یہ ہے کہ ان کے ظاہری اعضا تو رکوع اور سجود کی حالت میں ہوتے ہیں اور زبان سے قرآنِ پاک کی قرآت کرتے ہیں اور اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور دل سے حضورِ حق کا مشاہدہ ایسے کرتے ہیں کہ جب تک قیام کی حالت میں حضوری اور مشاہدہ حق تعالیٰ کا عین الیقین نہ کر لیں اس وقت تک رکوع میں نہیں جاتے۔ حالت ِرکوع سے اس وقت تک حالتِ سجدہ میں نہیں جاتے جب تک حالتِ رکوع میں حضورِ حق حاصل نہ کر لیں اور دیدارِ الٰہی کا عین الیقین سے مشاہدہ نہ کرلیں۔ اس وقت تک پہلے سجدہ سے دوسرے سجدہ کی طرف رخ نہیں کرتے جب تک وہ پہلے سجدہ میں اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھ لیں۔ (سلطان الوھم)

اور ایک مقام پر آپؒ فرماتے ہیں:
جس کو حالتِ نماز میں یا اس کے علاوہ اوقات میں اللہ کا دیدار نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اللہ کو پہچانتا ہے اور نہ ہی اسے حضوری حاصل ہے توپس وہ اصل مقصد تک نہیں پہنچا وہ طالب ہے عاشق نہیں۔ (سلطان الوھم)

شیخ ابو سعید خرازؒ سے دریافت کیا گیا کہ نماز کس طرح ادا کی جائے؟ انہوں نے فرمایا ’’نماز میں تم اللہ کے حضور اس طرح کھڑے ہو کہ تمہارے اور اس کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہو، اللہ کی ذات تمہارے سامنے ہو اور تم اس سے مناجات کررہے ہو۔ لیکن اس وقت یہ بات تمہارے پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ تم اس کے سامنے کھڑے ہو جو ایک عظیم الشان بادشاہ ہے۔‘‘ (عوارف المعارف)

معراج کا کمال یہ ہے کہ جب انسان مخلوقات میں سے کسی بھی شے کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور اپنے قلب کو غیر ماسویٰ اللہ ہر شے سے آزاد کر لیتا ہے تب وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی انتہاتک پہنچتا ہے۔ نماز کو بھی اسی لیے حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے معراج سے تشبیہ دی ہے کہ نماز عبد اور معبود کے درمیان رابطے اور ملاقات کا ذریعہ ہے۔ وہ رابطہ جس میں ظاہری حسیات عالمِ محسوسات سے منقطع ہوجاتی ہیں، باطنی حواس غالب آجاتے ہیں اور انسان ہر شے سے بلند ہو کر اللہ تعالیٰ کے دیدار میں محو ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اس کی نماز ہی نہیں ہوتی جس کی میرے نزدیک معراج نہ ہو بلکہ وہ نماز سے محروم ہوتاہے۔(الرسالۃالغوثیہ)

 بے حضور کی نماز اور قرآن میں وعید 

نماز مومن کی معراج کا وسیلہ ہے۔ جس نماز میں معراج (دیدارِ الٰہی) نصیب نہ ہو وہ بے حضوری والی نماز ہوتی ہے۔ ایسی نمازیں دنیوی اور اخروی زندگی میں ہلاکت کا سبب بنتی ہیں۔ یعنی ایسی نمازیں جن میں خشوع و خضوع نہ ہو وہ بندے کے لیے انفرادی طور پر محرومی اور اجتماعی طور پر وبال بن جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے نمازیوں کو وعید سنائی ہے جو حضورِ قلب سے محروم ہیں:
پس افسوس( اورخرابی)ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز (کی روح)سے بے خبر ہیں۔ وہ لوگ (عبادت میں) دکھاوا کرتے ہیں۔ (سورۃالماعون4-6)

یہ آیات ان نمازیوں کے لیے نازل ہوئی ہیں جو نماز پڑھتے ہیں نہ کہ بے نمازیوں کے لیے۔ ان میں صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے کہ ان نمازیوں کے لیے خرابی ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔ یعنی ان کو حضوری حاصل نہیں۔ (حقیقتِ  نماز)

جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

(اقبالؒ)

علامہ اقبالؒ بھی بے حضوری والی نماز کے بارے میں فرماتے ہیں کہ تجھے نماز میں معراج (دیدارِ الٰہی) کیسے نصیب ہوگی تیرا دل تو بتوں (دنیاوی خواہشات) سے بھرا ہوا ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:
کئی نماز میں کھڑے ہونے والے ایسے نمازی ہیں جن کو قیام میں تھکاوٹ اور تکلیف کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ (مکاشفۃ القلوب)
اس نماز سے مراد حضورِ قلب کے بغیر غافل کی نماز ہے جس کے صرف ظاہری اعضا نماز ادا کرتے ہیں اس لیے تھکاوٹ اور تکلیف ہوتی ہے۔ حضورِ قلب میں تو تھکاوٹ اور تکلیف کا دخل ہی نہیں کیونکہ اس میں لذتِ دیدار ہے۔
حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں ’’جس کی نماز خشوع و خضوع سے خالی ہے اس کی نماز ہی نہیں۔‘‘
سلطان الفقر دوم حضرت خواجہ حسن بصریؓ فرماتے ہیں ’’جس نماز میں دل حاضر نہ ہو وہ نماز عذاب سے قریب تر ہے۔‘‘

واضح ارشادات کے باوجود ہماری یہ حالت ہے کہ ہم بے حضوری کی نمازیں اور جلدی جلدی رکوع و سجود کو غلطی ہی نہیں گردانتے۔ نماز کی قدر و منزلت اور باطنی حقیقت ہمارے دلوں سے نکلتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ہر میدان اورہر مقام پر تنزلی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جس دن ہمیں نماز کی حقیقت معلوم ہوجائے گی اور ہم نماز کو ہر کام پر مقدم رکھنے لگیں گے‘ خلوصِ نیت، اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز قائم کرنے والے بن جائیں گے،اُس دن اللہ ربّ العزت کی خوشنودی اور رضا کے مستحق بن جائیں گے۔

علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: 

بے حضوری ہے تیری موت کا راز
زندہ ہو تُو بے حضور نہیں

 (بال جبریل)

یعنی قلب کے تاریک ہونے کی وجہ سے تیرا باطن مرچکا ہے۔ اگر تیرا باطن بیدار یا زندہ ہو جائے تو تُوبے حضور نہیں رہے گا۔

حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں: 

باجھ حضوری نہیں منظوری، توڑے پڑھن بانگ صلاتاں ھوُ
روزے نفل نماز گزارن، توڑے جاگن ساریاں راتاں ھوُ
باجھوں قلب حضور نہ ہووے، توڑے کڈھن سیَ زکاتاں ھوُ
باجھ فنا ربّ حاصل ناہیں باھوؒ، ناں تاثیر جماعتاں ھوُ

 حضورِ قلب کیسے حاصل کیا جائے؟ 

وہ سجدہ روحِ زمین جس سے کانپ جاتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب

(اقبالؒ)

قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وہ رحمن ہے سو پوچھ اس کے بارے میں اس سے جو اس کی خبر رکھتا ہے۔ (سورۃ الفرقان۔59)

وہ کون لوگ ہیں جو اللہ کو پہچانتے اور اس کی خبر رکھتے ہیں، جن کی نماز معراج ہوتی ہے اور انہیں حضورِ قلب حاصل ہوتا ہے؟

حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں: 

نماز معراج است می بیند خدا
عارفان را در نمازے شد لقا

ترجمہ: نماز معراج ہے جس میں نمازی خدا کا دیدار کرتا ہے اور عارفین کو نماز میں اللہ کا قرب اور دیدار حاصل ہوتا ہے۔ (امیر الکونین)

ان ہی فقرا کاملین کی نماز کے بارے میں سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
جاننا چاہیے کہ عارفین دائمی نماز میں مشغول ہوتے ہیں اور عارفین کا دل بھی ہمیشہ نماز میں غرق ہوتا ہے اور عارفین کی روح بھی مکمل طور پر نماز میں مشغول ہوتی ہے۔ عارفین کی نماز راز ہوتی ہے اور وہ نماز میں اسرار ہی بیان کرتے ہیں۔ (امیر الکونین)

سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
تم کسی ایسے شیخِ کامل کی صحبت اختیار کرو جو حکمِ خداوندی اور علم لدنیّ کا واقف کار ہو اور وہ تمہیں اس کا راستہ بتائے۔ جو کسی فلاح والے کو نہیں دیکھے گا فلاح نہیں پاسکتا۔ تم اس شخص کی صحبت اختیار کرو جس کو اللہ کی صحبت نصیب ہو۔ (الفتح الربانی۔مجلس61) 

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ اولیا اللہ کی نماز کی مزید وضاحت فرماتے ہیں:
ایک روز حضرت شیخ جنید بغدادیؒ اور حضرت ابوبکرشبلیؒ دونوں شہر سے نکل کر صحرا کی طرف چلے گئے۔ نماز کا وقت ہوا اور انہوں نے وضو کر کے نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو ایک لکڑہارا آگیا۔ اس نے سر سے لکڑیوں کا گٹھا اتارا، وضو کیا اور ان کی جماعت میں شامل ہوگیا۔ شیخ جنیدؒ کی باطنی فراست نے جان لیا کہ یہ ایک ولی اللہ ہے اور اسے نماز میں پیش امام بنالیا۔ انہوں نے نماز میں رکوع و سجود کو بہت طویل کیا اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ یا حضرت! کیا وجہ تھی کہ آپ نے رکوع و سجود کو اتنا طویل کیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں تسبیح پڑھتا تھا تو جب تک بارگاہِ حق سے لبیک عبدی (اے میرے بندے میں حاضر ہوں) کا جواب نہیں آتا تھا میں سجدے سے سر نہیں اٹھاتا تھا اس لیے دیر ہوجاتی تھی۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اولیا اللہ (مرشد کامل) ہی حضورِ قلب سے اللہ کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
جس نے ادراکِ قلبی سے اپنے وقت کے امام کو نہ پہچانابے شک وہ جہالت کی موت مرا۔
یہاں امام سے مراد وہ امام نہیں جس کے بارے میں علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کا امام

بلکہ آپؒ فرماتے ہیں:

تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر

علامہ اقبالؒ بھی ایسے امام کی پیروی کرنے کی تلقین کرتے ہیں جو حضورِ قلب رکھنے والا ہو اور اپنی نگاہِ کامل سے طالب کا تزکیہ نفس کرکے مسلمان سے مومن بنادے ۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: 
 انبیا اور اولیا اپنی قبروں میں (بھی ایسے ہی) نماز ادا کرتے ہیں جیسے اپنے گھروں میں نماز ادا کرتے تھے۔ 

یعنی اپنے زندہ قلوب کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مناجات میں مشغول رہتے ہیں۔ جب ظاہری و باطنی دونوں نمازیں جمع ہوجائیں تو نماز مکمل ہوجاتی ہے اور اس کا اجر عظیم روحانی طور پر قربِ حق اور جسمانی طور پر درجات(یعنی جنت) ہیں۔ ایسا نمازی ظاہر میں عابد اور باطن میں عارف ہوتا ہے۔ (سرالاسرار۔فصل 14)

ان تمام فرامین کا حاصل تحریر یہ ہے کہ مرشد کامل ہی وہ واحد ہستی ہے جو ذکر وتصور اسمِ اللہ ذات، اپنی صحبت اور نگاہ کے ذریعے طالب کا تزکیہ نفس کرکے حضوری قلب جیسی نعمت سے سرفراز کرتاہے۔ 

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
حضورِ قلب اسمِ اللہ ذات کے دائمی ذکر اور تصور سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ جب تک نفس نہیں مرتا، دل زندہ نہیں ہوتا اور جب تک دل زندہ نہ ہو حضورِ قلب ممکن نہیں۔ ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات سے ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ طالب کو دائمی حضورِ قلب حاصل ہو جاتا ہے اور پھر یہ حالت ہوجاتی ہے ’’جس طرف چہرہ پھیرو گے تم اللہ کو ہی پاؤ گے۔‘‘ (سورۃ البقرہ۔115)

تصور اسمِ اللہ ذات ہی وہ ذکر ہے جس سے حضوری اور دیدارِ پروردگار نصیب ہوتا ہے بشرطیکہ ذکر وتصور اسمِ اللہ ذات مرشد کامل اکمل سے حاصل کیا گیا ہو۔ وہ حضوری کی راہ جانتا ہوکیونکہ دنیا کی خواہشات اور ریاکاری میں کی گئی عبادت دنیا اور آخرت میں ہمارے کسی کام نہیں آئے گی۔ سوائے شرمندگی اور ندامت کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ 

آج ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر پہلے اپنے زوال کی اصل وجہ یعنی حضورِ قلب سے محرومی کو سمجھیں اور اس نعمت کو تلاش کریں۔ حضورِ قلب جیسی نعمت مرشد کامل اکمل سے حاصل ہوتی ہے جو اسمِ اللہ ذات کے ساتھ مشق مرقومِ وجودیہ عطا کرتا ہو۔ جو شخص بھی خلوصِ نیت سے مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ کی صحبت اختیار کرتا ہے اس کا دل نورِ الٰہی سے روشن ہوجاتا ہے اور اس کا ظاہر و باطن سنور جاتا ہے اور اس کی ہر عبادت حضورِ قلب کے ساتھ ادا ہوتی ہے۔ 

آج کے دور میں مرشد کامل اکمل اور وقت کے امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس ہی اس روئے زمین پر واحد ہستی ہیں جو اپنے طالب کو بیعت کے پہلے روز ہی باطنی پاکیزگی کے لیے اسمِ اعظم یعنی اسمِ اللہ ذات کا تصور اور سلطان الاذکار ’’ھوُ‘‘ عطا فرمادیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ظاہری و جسمانی پاکیزگی کے لیے مشق مرقومِ وجودیہ عطا کرتے ہیں تاکہ طالب کا ظاہر و باطن پاک ہو جائے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت اور نگاہِ کامل زنگ آلود قلوب کو پاک کر کے باطن کو دیدارِ الٰہی کے قابل بنادیتی ہے۔

ذکر تصور اسم اللہ دا، سلطان العاشقین کولوں جیہڑا پائے
ھوُ دے تصور وچ رہے ہمیشہ، ذاتی اسم کمائے
مشق مرقومِ وجودیہ دے نال، اپنے تن نوں او پاک کرائے
سلطان نجیب صادقاں عاشقاں نوں، اللہ دے نال ملائے

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس حضرت سخی سلطان باھوؒ کے ان الفاظ کی عملی تفسیر ہیں:
ان کی نظر سراسر وحدت اور کیمیائے عزت ہے۔ جس طالب پر ان کی نگاہ پڑ جاتی ہے وہ مشاہدہ ذاتِ حق تعالیٰ ایسے کرنے لگتا ہے گویا اس کا سارا وجود مطلق نور بن گیا ہو۔ انہیں طالبوں کو ظاہری ورد و وظائف اور چلہ کشی کی مشقت میں ڈالنے کی حاجت نہیں ہے۔ (رسالہ روحی شریف)

ان ہی اولیا اللہ کی صحبت کے بارے میں حدیثِ مبارکہ ہے:
یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا بدبخت نہیں رہتا۔ (مسلم)

دعوتِ عام ہے کہ آئیں مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی صحبت سے فیض یاب ہو کر اپنے قلب(باطن) کو سنواریں تاکہ ہمارا ہر عمل اور ہر عبادت اللہ کے ہاں منظور ہوکر اللہ کی معرفت اور قرب کا وسیلہ بنے۔(آمین)

استفادہ کتب:
الرسالۃ الغوثیہ:  تصنیفِ لطیف سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانیؓ
سر الاسرار:  ایضاً
سلطان الوھم:  تصنیفِ لطیف حضرت سخی سلطان باھوؒ
رسالہ روحی شریف:  ایضاً
امیر الکونین:  ایضاً
سلطان العاشقین:  ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز

 

27 تبصرے “مومن کی معراج۔نماز

  1. نماز مومن کی معراج کا وسیلہ ہے۔ نماز میں معراج (دیدارِ الٰہی) نصیب ہوتی ہے۔

  2. دعوتِ عام ہے کہ آئیں مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی صحبت سے فیض یاب ہو کر اپنے قلب(باطن) کو سنواریں تاکہ ہمارا ہر عمل اور ہر عبادت اللہ کے ہاں منظور ہوکر اللہ کی معرفت اور قرب کا وسیلہ بنے۔(آمین)

  3. باجھ حضوری نہیں منظوری، توڑے پڑھن بانگ صلاتاں ھوُ

  4. الرسالۃ الغوثیہ میں سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانیؓ فرماتے ہیں:
    میں نے اللہ ربّ العزت سے پوچھا ’’اے ربّ! کون سی نماز تیرے قریب ترہے؟‘‘ فرمایا ’’وہ نماز جس میں میرے سوا کچھ نہ ہو اور نمازی بھی اس نماز سے غائب ہو۔‘‘ (الرسالۃ الغوثیہ)

  5. سرِ لامکاں سے طلب ہوئی، سوئے منتہیٰ وہ چلے نبیؐ
    کوئی حد ہے ان کے عروج کی بلغ العلیٰ بکمالہٖ

  6. ان تمام فرامین کا حاصل تحریر یہ ہے کہ مرشد کامل ہی وہ واحد ہستی ہے جو ذکر وتصور اسمِ اللہ ذات، اپنی صحبت اور نگاہ کے ذریعے طالب کا تزکیہ نفس کرکے حضوری قلب جیسی نعمت سے سرفراز کرتاہے۔

  7. ذکر تصور اسم اللہ دا، سلطان العاشقین کولوں جیہڑا پائے
    ھوُ دے تصور وچ رہے ہمیشہ، ذاتی اسم کمائے
    مشق مرقومِ وجودیہ دے نال، اپنے تن نوں او پاک کرائے
    سلطان نجیب صادقاں عاشقاں نوں، اللہ دے نال ملائے

  8. زاہد! کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مراد
    دنیا جو چھوڑ دی ہے عقبیٰ بھی چھوڑ دے

  9. نماز معراج ہے جس میں نمازی خدا کا دیدار کرتا ہے اور عارفین کو نماز میں اللہ کا قرب اور دیدار حاصل ہوتا ہے۔ (امیر الکونین)

  10. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
    انبیا اور اولیا اپنی قبروں میں (بھی ایسے ہی) نماز ادا کرتے ہیں جیسے اپنے گھروں میں نماز ادا کرتے تھے۔

  11. معراج قربِ الٰہی کی وہ انتہائی منزل اور عروجِ انسانی کا وہ آخری مقام ہے جہاں بندے اور اللہ کے درمیان نہ کوئی حجاب رہتا ہے نہ فاصلہ۔ معراج روحِ انسانی کا عالمِ ناسوت (دنیا) سے واپس عالمِ لاھوت میں (اپنی ابتدا، اپنی حقیقت) ذاتِ حق تعالیٰ کی طرف عروج کا سفر ہے۔ (الرسال

  12. سرِ لامکاں سے طلب ہوئی، سوئے منتہیٰ وہ چلے نبیؐ
    کوئی حد ہے ان کے عروج کیبلغ العلیٰ بکمالہٖ

  13. زاہد! کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مراد
    دنیا جو چھوڑ دی ہے عقبیٰ بھی چھوڑ دے

  14. نماز مومن کی معراج ہے۔
    قابلِ غور بات یہ ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے، مسلمان کی نہیں۔
    مومن کون ہے؟ اور مسلمان ہونے کا کیامطلب ہے؟
    ایک مرتبہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صحابہ کرامؓ میں مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ کچھ اعرابی لوگ آئے (جو نئے مسلمان ہوئے تھے)۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں عرض کیا ’’آقا! ہم بھی مومن ہیں اس لیے ہم پر بھی عنایت فرمائیں جو آپ دوسرے مومنین پر فرمارہے ہیں۔‘‘ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جواب بھی نہ دینے پائے تھے کہ وحی کا نزول شروع ہوگیا:

  15. ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت مضمون ہے اللہ ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

  16. سرِ لامکاں سے طلب ہوئی، سوئے منتہیٰ وہ چلے نبیؐ
    کوئی حد ہے ان کے عروج کیبلغ العلیٰ بکمالہٖ

  17. معراج قربِ الٰہی کی وہ انتہائی منزل اور عروجِ انسانی کا وہ آخری مقام ہے جہاں بندے اور اللہ کے درمیان نہ کوئی حجاب رہتا ہے نہ فاصلہ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں