Kaleed-ul-Tauheed Kalan

کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation

Spread the love

5/5 - (2 votes)

کلید التوحید (کلاں)۔ قسط نمبر 10

مجتہدین بے مرشد اور بے پیر نہ تھے۔ انہوں نے فیضِ علمِ روایت اور ہدایت مرشد کی تعلیم و تلقین سے پایا۔ پس معلوم ہوا کہ علمِ روایت محض نفس کو مارنے اور ہدایت کی خاطر ہوتا ہے۔ جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باطنی مجلس اور حیات کا منکر ہو اور جو صاحبِ ہدایتِ الٰہی مرشد سے دست ِ بیعت کا منکر ہو وہ کافر ہو جاتا ہے۔ نعوذ باللہ منہا۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ  (سورۃ المائدہ۔35)
ترجمہ: اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور اس کے (قرب کے) لیے وسیلہ تلاش کرو۔

مراتبِ حضوری فنا فی اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

جو کوئی تصور اسمِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے تصرف میں لے آتا ہے (یعنی اس میں کامل ہو جاتا ہے) تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روح مبارک اسی وقت حاضر ہو جاتی ہے اور (صاحبِ تصور کو) تعلیم و تلقین کرتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ مرشد اسے کہتے ہیں جو علمِ قرآن کی دوستی عطا کرے کیونکہ ہر عبادت سے افضل قرآنِ پاک کی تلاوت ہے اور عالم کی دوستی بخشے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عالم ہیں اور اسمِ اللہ ذات کی حضوری کی راہ سے مشرف کر دے۔ توُ مرشد سے حاصل ہونے والی راہِ باطن کی انتہا دیکھ اور مرشد کی خامیوں پر نظر نہ رکھ جیسا کہ حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصہ سے پتا چلتا ہے جو کہ سورۃ الکہف میں بیان ہوا ہے۔ جو راہِ خدا سے غافل ہو جائے وہ حبِ دنیا، حرص اور حسد کا شکار ہو کر (ذاتِ حق تعالیٰ سے) جاہل بن جاتا ہے۔ جو حبِ الٰہی کی بدولت اللہ کی ذات میں غرق ہو جائے اور معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ  میں ہوشیار، باطن میں باشعور اور مجلسِ محمدی میں حاضر رہے وہ فقیر عالم و عامل ہوتا ہے۔ کراماً کاتبین کو کیا قدرت کہ اس کے گناہ تحریر کریں کیونکہ جو غرق فنا فی اللہ ہو جائے اور ابتدا و انتہا کے مراتب کو پا لے اس کے گناہ مٹ جاتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ اَحَبَّ الْعِلْمَ وَالْعُلَمَآئَ لَمْ تُکْتَبْ خَطِیْئَۃً 
ترجمہ: جو علم اور علما سے محبت رکھتا ہے اس کے گناہ نہیں لکھے جاتے۔
یہ یُحْیِ الْقَلْبَ وَیُمِیْتُ النَّفْسَ  کے مراتب ہیں جو فنا فی الشیخ، فنا فی اللہ، فنا فی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور فنا فی خلقِ محمد کے مراتب سے گزر کر حاصل ہوتے ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔ (سورۃ القلم۔4)
ترجمہ: اور بے شک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) خلقِ عظیم کے حامل ہیں۔ 

پس اس کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حلم اور علم حاصل ہونا چاہیے۔ پس مرشد کے دو گواہ ہیں اوّل خلقِ عظیم جو اسمِ اعظم (اسمِ اللہ ذات) کی تاثیر سے حاصل ہوتے ہیں دوم صفتِ کریم جو قلبِ سلیم کی تاثیر سے حاصل ہوتی ہے۔ طالبِ حق کے بھی دو گواہ ہیں اوّل طلبِ مولیٰ جو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اولیا اللہ کے قرب کی تاثیر سے حاصل ہوتی ہے دوم محبت، جمعیت اور دل میں دردِ حق۔ ابیات:

باھوؒ طالبِ حق را شناسد بانظر
گرچہ طالب حق بود مثل خضرؑ

ترجمہ: باھوؒ طالبِ حق کو اپنی نگاہ سے پہچان لیتا ہے اگرچہ طالبِ حق خضرؑ کی مثل ہو۔

نیم نظرش بہ بود مردِ خدا
زاں نظر حاضر شود بامصطفیؐ

ترجمہ: مردِ خدا کی آدھی نظر بھی کافی ہوتی ہے جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں حاضر کر سکتی ہے۔

جان لو کہ مرشد کامل وہ ہوتا ہے جو طالب کے ہر حال، ہر قول، ہر عمل، ہر فعل اور اس کی ہر حالتِ معرفت و قرب و وِصال اور اس کے خطرات، دلیل، اور وھم و خیال سے باخبر ہو۔ مرشد کو ایسا ہوشیار ہونا چاہیے گویا طالب کی گردن پر سوار ہو اور اس قدر ہوشیار ہو کہ طالب کی ہر بات اور ہر دم سے باخبر ہو۔ ایسے مرشد کا باطن آباد ہوتا ہے اور طالب اسمِ اللہ ذات کے حاضرات کے ذریعے اسے ظاہر و باطن میں حاضر سمجھتا اور اس پر اعتقاد رکھتا ہے۔ جان لو کہ شاعروں کا علم دانش و شعور کی بنا پر ہوتا ہے اور فقرا و عارفین کا علم قرب و حضوری کی بدولت علمِ لدنیّ ہوتا ہے۔ پس جو کوئی اہلِ حضور اولیا اللہ کی تصانیف کو ہمیشہ اپنے مطالعہ میں رکھے اس کی کوئی بھی بات حکمت سے خالی نہیں ہوتی اور ان تصانیف مبارکہ کی برکت سے ذکرِ واردات اس کے وجود میں جاری ہو جاتا ہے اور قلب زندگی پا کر بیدار رہتا ہے۔ قاضی حق دائمی ذکر سے دو گواہ طلب کرتا ہے اوّل معرفتِ  اِلَّا اللّٰہُ  کے نور میں غرق ہونا دوم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل ہونا۔ قاضی حق کامل فکر سے بھی دو گواہ طلب کرتا ہے اوّل فکر کے ذریعے فنائے نفس، دوم فرحتِ روح اور بقا۔ یہ کیسے احمق لوگ ہیں جو باطنی وجود، قلب، نفس اور روح سے بے خبر ہیں اور سینے میں گوشت سے بنے دل کو دل کہتے ہیں اور تفکر کے دوران سانس کے ذریعے دل کو قابو کرتے ہیں اور اس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ذکر ِقلب ہے اور اس گوشت کے دل کو سینہ میں سانس کے ذریعے کھینچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ذکر ِقربانی ہے اور اس گوشت کے دل کو آنکھوں کے سامنے لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ذکر نورِ حضور کا جوہر ہے اور اس گوشت کے دل کو سانس کے ذریعے کھینچتے ہیں اور تفکر کے ذریعے سر اور مغز میں لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ذکرِ سلطانی و روحانی ہے۔ وہ غلط کہتے ہیں کہ یہ سب وجود میں شیطانی وسوسے اور خطرات ہیں۔ ذکر کثرت اور تقلید سے تعلق نہیں رکھتا۔ ذکر توحید کی کلید ہے جو دل کے قفل میں لگتی ہے تو توجہ و تفکر کے بغیر ہر مرتبہ کو کھول دیتی ہے۔ اور ہر ایک احوال اور مشاہدات تصور اسمِ اللہ ذات کے حاضرات، آیاتِ قرآن اور ننانو ے متبرک اسمائے حسنیٰ کے حاضرات، اسمِ محمد اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  کے حاضرات سے دکھائی دیتے ہیں۔ جان لو کہ تصور اسمِ اللہ ذات اور مرشد کامل کی نظر سے وجود کے نو سوراخوں سے خون جاری ہو جاتا ہے یعنی دو سوراخ کانوں کے، دو سوراخ آنکھوں کے، دو سوراخ ناک کے، ایک سوراخ منہ کا اور دو سوراخ شرمگاہ کے‘ ان سب سے خون جاری ہو جاتا ہے۔ جب ذاکر طالب مکمل طور پر خون میں لت پت ہو جاتا ہے تو وجود کے ساتوں اندام پاک ہو جاتے ہیں۔ یہ ذکرِ قربانی، ذکرِ سلطانی، ذکرِ روحانی، ذکرِ خفی، ذکرِ یخفیٰ، ذکرِ نور اور ذکر ِ حضور کی تاثیر کا مجموعہ ہے۔ یہ دائمی ذکر اللہ کی نگاہ میں منظور ہوتا ہے۔ دیگر شرح یہ ہے کہ ذاکرِ ذکرِخفی ہمیشہ دل کی خلوت میں حق الیقین کے ساتھ مشاہدہ میں مشغول ہوتا ہے۔
ابیات:

ذکر خفیہ دم بدم شد حق رفیق
غوطہ خوردن رازِ رحمت حق غریق

ترجمہ: ذکرِ خفی ہر سانس کے ساتھ حق کا رفیق بنا دیتا ہے اور غوطہ خور کو حق تعالیٰ کی ذات میں غرق کر کے رازِ رحمت تک پہنچاتا ہے۔

اہلِ ذکرش را بود نفس فنا
لذتِ وحدت بیابد دل صفا

ترجمہ: ذکرِ خفی کرنے والے کا نفس فنا ہو جاتا ہے اور وہ دل کی صفائی کی بدولت وحدت کی لذت پاتا ہے۔

جان لو کہ احوال کے ساتھ کیا جانے والا ذکرِ اسمِ اللہ ذات اور مشقِ مرقومِ وجودیہ وجود کو حیات عطا کرتے ہیں اور دنیا و آخرت میں نجات کا باعث بنتے ہیں اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری عطا کرتے ہیں۔ اسمِ اللہ ذات کی تاثیر سے ذاکر کا وجود اور ظاہر و باطن آیاتِ قرآن و حدیث کے موافق پاک ہو جاتے ہیں کہ ذاکر کی زبان اللہ کی تلوار ہے اور ذاکر اس فرمان کے مطابق ہوتا ہے:
اَلْمُفْلِسُ فِیْ اَمَانِ
اللّٰہ 

ترجمہ: مفلس اللہ کی امان میں ہوتا ہے۔
ایسا ذاکر گنجِ الٰہی ہوتا ہے اور اس کا راز اللہ کا راز ہوتا ہے کیونکہ ذاکر شرک، کفر، بدعت اور خواہشات سے پاک ہوتا ہے۔ ذاکر کی آنکھ حق کا دیدار کرنے والی ہوتی ہے اور وہ باطل اور بے دین اہلِ دنیا سے بیزار ہوتا ہے۔ ذاکر کا سینہ علمِ معرفتِ توحید سے پرُ ہوتا ہے اور وہ ریا اور تقلید سے پاک ہوتا ہے۔ ذاکر کا ہاتھ صفتِ کریم کا حامل ہوتا ہے اور اس کے قدم شریعت اور صراطِ مستقیم پر قائم ہوتے ہیں اور وہ امر معروف کے ذریعے نفس کے خلاف جہاد کے لیے کمربستہ رہتا ہے۔ ذاکر کے لیے بس اللہ ہی کافی ہوتا ہے اس لیے اس کے وجود میں ہوس اور خواہشات باقی نہیں رہتیں۔ ذاکر کا وجود تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعے اصل تک پہنچ چکا ہوتا ہے اس لیے وہ جو کچھ دیکھتا ہے وہ معرفتِ الٰہی، تجلیاتِ نورِ ذات، مشاہدۂ حضوری اور وصال کا راز ہوتا ہے۔ ذاکر کے ساتوں اندام ذکرِ اللہ  کی بدولت اسمِ اللہ ذات میں غرق ہو کر مکمل نور ہو چکے ہوتے ہیں جس کی بدولت وہ ہمیشہ اللہ کی نظر اور حضوری میں ہوتا ہے اور اللہ کی ہر نظر سے اس پر بے شمار رحمت اور نور نازل ہوتا ہے اور اس کا دل انوار سے منور رہتا ہے جس کی وجہ سے ذاکر دنیا میں غیر مطمئن اور بیقرار رہتا ہے۔ ذاکر کا وجود مغفور ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ انبیا اور اولیا کی مجلس کی حضوری میں رہتا ہے۔  ابیاتِ باھوؒ:

ذکر کامل از مرشد کامل طلب
ذکر قلبش لازوال و لاسلب

ترجمہ: مرشد کامل سے ذکرِ کامل طلب کر کیونکہ ذکرِکامل کرنے والے قلب کے لیے زوال اور سلب نہیں ہے۔

بعد مردن قلب آید در خروش
مردہ قالب زندہ قلبش ذکر جوش

ترجمہ: جس کا قلب زندہ ہو تو مرنے کے بعد بھی اس کے مردہ وجود میں قلب ذکر کی بدولت جوش میں رہتا ہے۔

مردہ دل بے ذکر جن و باجہل
اہل ابلیس است باخطرہ خلل

ترجمہ: ذکر سے غافل لوگوں کا دل مردہ ہوتا ہے اور وہ جاہل رہتے ہیں اور خطرات و خلل کے باعث وہ ابلیس کے ساتھی بن جاتے ہیں۔

ہر کہ گوید نام اللہ یافتہ
خود رفیق نام اللہ ساختہ

ترجمہ: جو اسمِ اللہ ذات کا ذکر کرتا ہے وہ اس ذات کو پا لیتا ہے کیونکہ اس نے اپنا رفیق اسمِ  اللہ ذات کو بنایا ہوتا ہے۔ 

مردہ دل چو گفت اللہ شد نجات
از رضائے حق آں یابد برات

ترجمہ: مردہ دل جب اللہ کو پکارتا ہے تو نجات پا لیتا ہے اور حق تعالیٰ کی رضا پا کر (ہر دوسری فکر سے) چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے۔

باھوؒ اسم  اللہ ختم شد بر دل تمام
خاتمہ بالخیر شد دارالسلام

ترجمہ: اے باھوؒ! اسمِ اللہ ذات جب مکمل طور پر دل پر نقش ہو جائے تو طالب کا خاتمہ خیر پر ہوتا ہے اور وہ سلامتی پا لیتا ہے۔

اصل بر وصل است وصلش بر اصل
غرق ذاکر ذوقِ وحدت بی خلل

ترجمہ: وہ ذاکر جس کا حقیقی وجود وصال پا چکا ہو وہی اصل وصال ہے اور ایسا ذاکر بغیر کسی خلل کے ذوقِ وحدت میں غرق رہتا ہے۔

ذاکر ہمیشہ نفس پر قہر ڈالنے والا قلندر ہوتا ہے اس کے مراتب حضرت سلیمان علیہ السلام کے ملک اور سکندر بادشاہ کی بادشاہی سے بہتر ہوتے ہیں۔ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا نفس اس کے تابع رہے اگرچہ وہ طرح طرح کے کھانے کھائے اور سونے سے بنے شاہانہ لباس پہنے اور حوادثِ دنیا سے امن پا لے اور معصیتِ شیطان سے نجات پائے اور خناس‘ خرطوم‘ وسوسہ اور خطرات نابود اور خاکستر ہو جائیں تو اسے چاہیے کہ تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق کرے اور اسے دل پر نقش کرے۔ بے شک اس کا دل غنی ہو جائے گا اور وہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حضوری پائے گا اور شیطان لعین کو یہ قدرت حاصل نہیں کہ وہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں داخل ہو کر اسے راہِ حق سے روک سکے۔ جو اسمِ اللہ ذات کی دائمی مشق کرتا ہے اور خونِ جگر پیتا ہے وہ روز بروز کمزور تر ہوتا جاتا ہے، اس کی آنکھوں سے خون بہتا ہے اور جان بھنُ کر کباب ہو جاتی ہے اور اسمِ اللہ ذات کی مشق کرنے سے بعض کے وجود میں آگ اور تپش پیدا ہوتی ہے اور وہ اسمِ اللہ ذات کی اس گرمی میں جل کر مر جاتے ہیں۔ اور اگر نہ مریں تو نفس پر حکمران، روشن ضمیر اور صاحبِ تاثیر بن کر علمِ معرفت میں کامل، بے مثال اور صاحبِ تفسیر بن جاتے ہیں۔ یہ جامع کمال سروری قادری مرشد کامل مکمل اکمل کے مراتب ہوتے ہیں جو نر شیر پر سواری کرنے والا ہوتا ہے۔ لومڑی کی کیا مجال کہ شیر کے سامنے سر اٹھائے۔ دیگر تمام سلاسل کی انتہا اور کل و جز قادری سلسلہ کی ابتدا کو بھی نہیں پہنچ سکتے اگرچہ تمام عمر ریاضت کے پتھر سے سر ٹکراتے رہیں۔ سروری قادری مرشد جامع و مجمل ہوتا ہے۔ وہ باطن اور ظاہر میں ایسی کتاب ہوتا ہے جو طالبوں کے لیے کتب الاکتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ جس کے مطالعہ سے طالب فنا فی اللہ ہو جاتے ہیں اور اس ذات کو بے حجاب دیکھتے ہیں۔ 

(جاری ہے)

 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں