حضرت سخی سلطان باھُوؒ کا منفرد اندازِ بیاں
تحریر: ڈاکٹر سحر حامد سروری قادری ۔ لاہور
اندازِ بیاں یعنی اپنی بات کو بیان کرنے کا انداز۔ اب چاہے گفتگو کی شکل میں ہو یا تحریری شکل میں‘ جس قدر منفرد اور دلکش ہوگا اُسی قدر بات سننے یا پڑھنے والے کے دل میں گھر کر جائے گی۔ دنیا میں بولی جانے والی زبانوں پر تحقیق کرنے والے ادارے ایتھونولوگ (Ethonologue) کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 6800 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ بلاشبہ ان سب کا مقصد اپنی بات، اپنے خیالات اور نکتہ نظر دوسروں تک پہنچانا ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی زبان سے یکسر ناآشنا ہوتے ہیں اس کے باوجود بھی بیان کردہ بات ہمارے دلوں میں اُترتی جاتی ہے اگرچہ اس بات کا حقیقی مطلب ہم نہ سمجھ پا رہے ہوں لیکن اندازِ بیاں کی چاشنی سے اس کی اہمیت اور مفہوم کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ خالق ِ دو جہان اللہ ربّ العزت نے انسان کو جب عالم ِ ناسوت میں بھیجا تو اس کی رہنمائی کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے اور ان پیغمبروں پر صحائف اور کتب نازل فرمائیں جو عبرانی، سریانی اور عربی زبان میں تھیں۔ آخری الہامی کتاب قرآنِ مجید کے علاوہ دیگر تمام الہامی کتب تحریف کے باعث اپنی اصلی شکل میں موجود نہیں۔ صرف قرآنِ مجید ہی وہ واحد الہامی کتاب ہے جو تاقیامِ قیامت تمام امتوں کی ہدایت کے لیے اپنی اصل صورت میں موجود رہے گی کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود ربّ العزت نے لیا ہے۔ لہٰذا قرآنِ مجید کے متعلق ہی بات کریں گے۔ قرآنِ مجید کے منفرد اندازِ بیاں کی بنا پر اغیار نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یہ واقعی ہی کوئی الہامی کلام ہے اور کسی انسان کا کلام نہیں۔ جس ہستی پر یہ پاک کلام نازل کیا گیا وہ رحمت اللعالمین ختم الرسول، فخر ِ موجودات، باعثِ تخلیقِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ہے جو قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے سرچشمہ ہدایت ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں اللہ ربّ العزت نے گزشتہ تمام انبیا کرام کے اوصاف کو اکمل صورت میں ظاہر فرمایا۔ جہان یوسف ؑ کے حسن کو محمد ؐعربی کے روپ میں کاملیت ملی‘ ابراہیم ؑ خلیل اللہ کے عشقِ حقیقی کی چنگاری فقر ِ محمدیؐ کی صورت میں عشق کی جامع تصویر بنی، موسیٰ ؑ کی اپنے ربّ کے دیدار کی خواہش معراج النبیؐ کی صورت خالقِ دو جہان سے ملاقات پر تکمیل ہوئی وہیں دائودؑ کی پُرسوز، سریلی اور دیوانہ بنا لینے والی آواز اور دلکش اندازِ گفتگو کی صفت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وّآلہٖ وسلم کے منفرد اور دل موہ لینے والے اندازِ تخاطب پر مکمل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اندازِ بیاں اس قدر خوبصورت اور دلکش تھا کہ صحابہ کرامؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبانِ درِّ فشاں سے پھول جھڑنے کے منتظر رہتے یہاں تک کہ کفارِ مکہ بھی اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کلام میں ایک عجیب سحر ہے۔ جو بھی آپ سے ملاقات کے لیے آتا وہ آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امانت ِ فقر جس بھی ولی کامل کے سپرد ہوئی قدمِ محمدؐ پر قائم ہونے کے باعث وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دیگر اوصافِ حمیدہ کے مظہر ہونے کے ساتھ منفرد اندازِ بیاں کی صفت سے بھی متصف ہوئے ہیں۔ سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ لاکھوں افراد کے مجمع سے بیک وقت گفتگو فرماتے۔ آپؓ کے خطبات کا مشرق تا مغرب چرچا تھا۔ سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے بعد سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ کا نام سرِ فہرست ہے۔ حضرت سخی سلطان باھُوؒ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شروع ہونے والے سلسلہ فقر کے پچیسویں (25) امام اور سلطان الفقر پنجم کے مرتبہ پر فائز ہیں۔ آپؒ یکم جمادی الثانی 1039ھ (17 جنوری 1630ء) بروز جمعرات شاہجہان کے دورِ حکومت میں قصبہ شورکوٹ ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے۔ آپؒ مادر زاد ولی تھے اور آپؒ کا نام مبارک بھی حکم ِ خداوندی پر باھُو یعنی ھُو کے ساتھ رکھا گیا جو تاریخ میں پہلے کسی کا نام نہیں تھا۔ آپؒ نے محمدؐ عربی کی طرح کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کی بلکہ اُمیّ تھے اس کے باوجود 140 کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے صرف ایک پنجابی ابیات کی صورت میں ہے اور دیگر تمام کتب اس وقت کی مروجہ زبان فارسی میں ہیں۔ آپؒ فرماتے ہیں:
’’مجھے اور محمدؐ عربی کو ظاہری علم حاصل نہیں تھا لیکن وارداتِ غیبی کے سبب علم ِ باطن کی فتوحات اس قدر تھیں کہ کئی دفتر درکار ہیں‘‘۔ (عین الفقر)
آپؒ مزید فرماتے ہیں:
گرچہ نیست ما را علم ِ ظاہر
ز علمِ باطنی جاں گشتہ طاہر
ترجمہ: اگرچہ ظاہری علم میں نے حاصل نہیں کیا تاہم علمِ باطن حاصل کر کے میں پاک و طاہر ہو گیا ہوں اس لیے جملہ علوم میرے جسم میں سما گئے ہیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒکی تعلیمات اللہ تعالیٰ کی ذات کے قرب و وِصال کا اہم ذریعہ ہیں۔
آپؒ نے آیاتِ قرآن و حدیث کو اپنی تعلیمات کا خاصہ بنایا۔ اگر آپؒ کی تعلیمات میں سے آیاتِ قرآنی یا احادیثِ مبارکہ کو نکال دیا جائے تو بات ادھوری محسوس ہوتی ہے۔ آپؒ اپنی تصنیف ’رسالہ روحی شریف‘ میں فرماتے ہیں ’’جو کوئی اس کتاب کو اللہ کو پانے کی غرض سے پڑھے گا اس کے لیے یہ تصنیف سرچشمہ ہدایت ہو گی۔‘‘ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپؒ کا کلامِ اطہرعام نہیں بلکہ خاص الخاص ہے اور محض اللہ کی طرف سے ہے۔ آپؒ مزید فرماتے ہیں:
معاذ اللہ !اگر ایں وثیقہ لطیفہ را از زبان بندہ دانی الحق!
ترجمہ: ’’اللہ کی پناہ !اگر کوئی اس لطیف عہد نامہ کو بندہ کی زبان خیال کرے۔ یہ تو زبانِ حق ہے‘‘۔
آپؒ رسالہ روحی شریف میں فرماتے ہیں:
’’اگر کوئی ولی واصل عالم ِ روحانی یا عالم ِ قدس شہود میں رجعت کھا کر اپنے مرتبے سے گر گیا ہو تو وہ اس رسالہ کو وسیلہ بنائے تو یہ رسالہ اس کے لیے مرشد کامل ثابت ہو گا۔ اگر وہ اسے وسیلہ نہ بنائے تو اسے قسم ہے اور اگر ہم اسے اس کے مرتبے پر بحال نہ کریں تو ہمیں قسم ہے‘‘۔
آپؒ کا یہ اعلان آپؒ کی کتب میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔
بلاشبہ آپؒ کا کلام‘ اللہ کے کلام کی تفسیر ہے اور ویسی ہی تاثیر رکھتا ہے۔ آپؒ کا اندازِ بیاں اس قدر اثر رکھتا ہے کہ آج بھی لوگ آپؒ کی تعلیمات کا مطالعہ کر کے نہ صرف قلبی تسکین حاصل کرتے ہیں بلکہ اپنی اپنی مراد کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ کی معرفت اور اسکا قرب و وِصال حاصل کرتے ہیں۔
مصطفی ثانی و مجتبیٰ آخر زمانی
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کو آقائے نامدار سرورِ کونین حضرت محمد مصطفی ؐنے ’’مصطفی ثانی و مجتبیٰ آخر زمانی‘‘ کا خطاب عطا فرمایا تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپؒ کا اندازِ بیاں آقائے دو جہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت کی سنت پر نہ ہو۔ آپؒ رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے رہنمائے کامل ہیں کیونکہ آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جانتے تھے کہ آپؐ کی امت میں ایک وقت ایسا بھی آئے گا جہاںعلما قرآن و حدیث کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر کے لوگوں کو گمراہ کریں گے۔ اسی لیے آپؒ کو بارگاہِ نبویؐ سے ’’مجتبیٰ آخر زمانی‘‘ کا لقب عطا ہواکیونکہ ایسے حالات میں آپؒ کی تعلیمات ہی متلاشیانِ حق کے لیے مشعل ِ راہ ہیں۔
آپؒ فرماتے ہیں:
’’جب گمراہی عام ہو جائے گی، باطل حق کو ڈھانپ لے گا، فرقوں اور گروہوں کی بھرمار ہو گی، ہر فرقہ خود کو حق پر اور دوسروں کو گمراہ سمجھے گا اور گمراہ فرقوں اور گروہوں کے خلاف بات کرتے ہوئے لوگ گھبرائیں گے اور علمِ باطن کا دعویٰ کرنے والے اپنے چہروں پر ولایت کا نقاب چڑھا کر درباروں اور گدیوں پر بیٹھ کر لوگوں کو لوٹ کر اپنے خزانے اور جیبیں بھر رہے ہوں گے تو اس وقت میرے مزار سے نور کے فوارے پھوٹ پڑیں گے۔‘‘ (مجتبیٰ آخر زمانی)
اس قول میں نور کے فوارے سے مراد آپؒ کی تعلیمات ہی ہیں۔
آپؒ رسالہ روحی شریف میں فرماتے ہیں:
’’جب سے لطف ِ ازلی کے باعث حقیقت ِ حق کی عین نوازش سے سربلندی حاصل ہوئی ہے اور حضور فائض النور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تمام خلقت کیا مسلم، کیا کافر، کیا بانصیب، کیا بے نصیب، کیا زندہ، کیا مردہ، سب کو ہدایت کا حکم ملا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی زبانِ گوہر فشاں سے مجھے مصطفی ثانی اور مجتبیٰ آخر زمانی فرمایا ہے‘‘۔
عارف دی گل عارف جانے
آپؒ کی تصانیف کا یہ خاصہ ہے کہ اگر کوئی قاری خلوصِ دل سے باوضو ہو کر محض طلب ِ مولیٰ کی خاطر ان تصانیف کو پڑھے گاتو آپؒ کی تعلیمات اسے واصل باللہ کر دیں گی۔ جب ایک طالب مرشد کامل اکمل کی راہبری میں آپؒ کی تصانیف کا مطالعہ کرتا ہے تو یہ تعلیمات اس پر اس قدر اثر انداز ہوتی ہیں کہ وہ اپنے باطن میں خود تبدیلی محسوس کرتا ہے۔ چونکہ آپؒ سلطان العارفین ہیں اس لیے آپؒ کی تعلیمات بھی اہل ِ معرفت کے لیے خاص ہیں۔ آپؒ فرماتے ہیں:
عارف دی گل عارف جانے، کیا جانے نفسانی ھُو
آپؒ کا اندازِ بیاں اس قدر منفرد ہے کہ آپؒ کی کتب کے مطالعہ کے دوران ہر طالب اس میں سے اپنے باطنی مقام کے مطابق معرفت کے موتی سمیٹتا ہے۔ ایک بار پڑھنے کے بعد جب طالب اسے دوبارہ پڑھتا ہے تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے گویا پہلی بار آپؒ کی کتاب پڑھ رہا ہے کیونکہ آپؒ کی تصانیف میں علم و معرفت کے کئی معانی مخفی ہیں۔ آپؒ کا یہ انفرادی انداز قرآنِ مجید سے مماثلت رکھتا ہے۔ جس طرح قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھی ہے جتنی بار بھی پڑھا جائے قاری اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا بلکہ مزید پڑھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے بعینہٖ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ کی کتب بھی جتنی مرتبہ پڑھی جائیں ایک نئی تاثیر اور فیض کا سمندر قاری کے اندر منتقل کرتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے کلام یعنی قرآنِ مجید کا ایک معجزہ یہ بھی ہے ایک موضوع کی مکمل تفصیل ایک ساتھ بیان نہیں کی گئی بلکہ مختلف مقامات پر بیان کی گئی ہے اس کے باوجود تحریر میں ایک روانی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح فنا فی ھُو فقیر باھُوؒ نے بھی اپنی تصانیف میں کسی ایک موضوع پر طویل گفتگو نہیں فرمائی بلکہ آپؒ ہر موضوع کو اپنی کتب میں مختلف جگہوں پر دہراتے ہیں۔ جب بھی آپؒ کسی موضوع کو دہراتے ہیں تو ہر بار اس کے ساتھ نئے اسرار و رموز بھی بیان فرماتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپؒ کی تعلیمات کو سمجھنے کے لیے ان کا گہری نظر سے مطالعہ ضروری ہے کیونکہ آپؒ کی کہی گئی ہر عبارت اپنے اندر عشق و معرفت کا کثیر خزانہ چھپائے ہوئے ہے۔
آپؒ کے اندازِ بیان کو مزید منفرد آپؒ کے فارسی اشعار بناتے ہیں جن کا آپؒ اپنی کتب میں جابجا استعمال فرماتے ہیں۔ ہر موضوع کے متعلق یہ اشعار کوزے میں بند سمندر کی مثل ہیں جو نہ صرف آپ ؒ کے کلام کو مزید پرُ اثر بناتے ہیں بلکہ معرفت کے نئے نئے معانی بھی کھولتے ہیں۔ یہ انداز بھی اندازِ باری تعالیٰ سے عین مماثلت رکھتا ہے کہ جس طرح قرآن کی آیات میں جگہ جگہ آخری الفاظ ردیف کی مانند ملتے جلتے ہیں جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ نثر کے دوران شاعری کا استعمال کیا گیا ہو۔ بے شک یہ شان و مرتبہ آپؒ کے فنا فی ھُو اور بقا باللہ ہونے کی بدولت ہے جس کا آپؒ بارہا اپنی کتب میں تذکرہ فرماتے ہیں:
’’اگر بائے بشریت حائل نبودے، باھُوؒ عین یاھُو است‘‘۔
ترجمہ: اگر بشریت کی با درمیا ن میں حائل نہ ہو تو باھُوؒ عین یاھُو ہے۔
ابیاتِ باھُوؒ
ابیاتِ باھُوؒ حضرت سلطان باھُوؒ کا ایک ایسا خاص اور بے باک اندازِ تخاطب ہے جو اپنی مثل آپ ہیں۔ آپؒ نے اپنے ابیات میں ’ھُو‘ لفظ کو بطور ردیف استعمال کیا ہے۔ معرفت کے تمام چیدہ چیدہ پہلوؤ ں پر آپؒ کے ابیات موجود ہیں۔
ذاتی نال ناں ذاتی رلیا، سو کم ذات سڈیوے ھُو
نفس کتے نوں بنھ کراہاں، فہما فہم کچیوے ھُو
آپؒ ہی وہ عظیم ہستی ہیں جنہوں نے پہلی بار طالبانِ مولیٰ کو اسم ِاللہ ذات اور مرشد کامل کی اہمیت سمجھانے کے لیے شاعری کا استعمال فرمایا اور ایسے خوبصورت ابیات تصنیف فرمائے کہ آج تک اہل ِ عقیدت و معرفت حضرات کے زبان زدِ عام ہیں اور نہایت ذوق و شوق سے پڑھے اورسنے جاتے ہیں۔ بر ِصغیر سے فارسی زبان کے متروک ہوجانے کے بعد ابیاتِ باھُوؒ ہی برصغیر میں خصوصاًاور بین الاقوامی طور پر عموماً آپؒ کی آفاقی شہرت کا باعث بنے۔ ابیاتِ باھُو ؒ کی خاصیت اور کمال یہ ہے کہ یہ تمام سلاسل کی خانقاہوں، مزارات، محفلوں، مسجدوں اور درسگاہوں میں پڑھے اور سنے جاتے ہیں۔
الف اللہ چنبے دی بوٹی، میرے من وچ مرشد لائی ھُو
نفی اثبات دا پانی ملیس، ہر رگے ہر جائی ھُو
اندر بُوٹی مشک مچایا، جاں پھلاں تے آئی ھُو
جیوے مرشد کامل باھُوؒ، جیں ایہہ بوٹی لائی ھُو
آپؒ کی تعلیمات کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ آپؒ بطور مرشد کامل اکمل طالب ِ مولیٰ کواس دور کے سروری قادری مرشد ِ کامل اکمل تک پہنچا دیتے ہیں۔ آپؒ کا یہ ارشاد مبارک کچھ الفا ظ کی کمی بیشی کے ساتھ ہر کتاب میں موجود ہے کہ یہ کتاب ایک کامل مرشد کی طرح فیض رساں ہے۔ اگر کوئی صدق اور خلوص سے اس کتاب کا مطالعہ کرے گا تو وہ مشاہدئہ حق تعالیٰ اور مجلس ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف ہو گا۔
سلطان العاشقین اور تعلیماتِ باھُوؒ
آپؒ کی کتب علم ِ لدنیّ کا شاہکار ہونے کے باوجود انتہائی سادہ اور آسان فہم ہیں جسے ایک عام اور معمولی تعلیم یافتہ شخص بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے لیکن بظاہر عام اور سادہ سی باتوں میں پوشیدہ معرفت ِ الٰہی کے اسرار و رموز محض کسی مرشد کامل اکمل کی نگاہِ کامل اور صحبت سے ہی عیاں ہو سکتے ہیں۔
موجودہ دور میں حضرت سلطان باھُوؒ کی تعلیمات کا سا اثر سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخ ِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی تعلیمات میں موجود ہے۔ آپ مد ظلہ الاقدس کی تعلیمات بھی طالب ِ مولیٰ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ تعلیماتِ باھُوؒ کو جس قدر آپ مدظلہ الاقدس نے فروغ دیا اس کی مثال دینا ممکن نہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے سلطان باھُوؒ کی تمام تعلیمات پر مبنی ایک جامع کتاب ’’شمس الفقرا‘‘ اور حضرت سلطان باھُوؒ کی سوانح حیات پر مبنی کتاب ’’سلطان باھُوؒ‘‘ تصنیف فرمائی۔ شمس الفقرا میں آپؒ کی تمام ترکتب میں موجود تعلیمات کو ابواب کی شکل میں تقسیم کیا گیا ہے۔ صرف اس ایک کتاب کا مطالعہ قاری کو حضرت سلطان باھوؒ کی تمام کتب کے مطالعہ سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے ابیاتِ باھُوؒ کی بہترین شرح کی جو اَب سے پہلے موجود نہ تھی۔ اس کے علاوہ آپ مدظلہ الاقدس نے ’رسالہ روحی شریف ‘ کا آسان اُردو ترجمہ اور شرح فرما کر طالبانِ مولیٰ پر علم معرفت کا ایک اور دروازہ کھول دیا۔
بے شک حضرت سخی سلطان باھُوؒ کی تعلیمات اپنے منفرد اندازِ بیاں کی وجہ سے متلاشیانِ حق اور طالبانِ مولیٰ کی تعلیم و تربیت میں آج بھی موجود ہیں۔
تحریک دعوتِ فقر آپ کو حضرت سخی سلطان باھُو ؒ کی سنت سے آراستہ موجودہ دور میں آپؒ کے حقیقی وارث سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی صحبت اور ذکر و تصور اسم اللہ ذات کے حصول کی دعوت دیتی ہے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی پاکیزہ صحبت میں رہ کر تربیت حاصل کریں تب ہی ایک طالب حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کی کتب میں بیان کردہ اسرار و رموز کو سمجھنے کے قابل ہو سکے گا۔