عشق اور حضرت بلھے شاہ ؒ ISHQ AUR Hazrat BULLEH SHAH

Spread the love

4.3/5 - (32 votes)

 عشق اور حضرت بلھے شاہؒ 

 Ishq Aur Hazrat Bulleh Shah

تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری۔ لاہور

کہیں عشقِ حقیقی کائنات کے عظیم اسرار منکشف کرتاہے توکہیں باطن کے لازوال سفر پر گامزن کرتا ہے۔ کہیں عشق محبوب کی بارگاہ میں کامیابی دلاتا ہے تو کہیں عشق رضائے محبوب کی خاطر جان کی بازی لگواتا ہے۔ دراصل عشق ایک کیفیت کا نام ہے جو انسان کے تمام افعال کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ کئی صوفیا کرام نے اپنے عشق کے رنگ کو صوفیانہ کلام کے ذریعہ ظاہر کیا ہے۔ ان صوفیا کرام میں ایک معروف نام حضرت بلھے شاہؒ کا ہے۔ آپؒ کی صوفیانہ شاعری اور عشق کے انمول رنگ نے آپؒ کو بے مثال شہرتِ دوام عطا کی۔ آپؒ کا صوفیانہ کلام آفاق میں انسان کی حقیقت، دین کے حقیقی رموز، عشقِ مرشد اور عشقِ حقیقی جیسے دیگر منفرد موضوعات پر مبنی ہے۔ حضرت بلھے شاہؒ کی ولادت باسعادت 1680ء بمطابق 1091ھ میں ہوئی۔ آپؒ کے والدین نے آپؒ کا نام ’’عبد اللہ شاہ‘‘ رکھا۔ آپؒ کا آبائی وطن بہاولپور کا مشہور گاؤں اُچ گیلانیاں تھا۔ آپؒ کے والدنے سازگار روزگار کی تلاش میں ملکوال کے نواحی گاؤں تلونڈی جس کے قریب ہی ایک اور گاؤں ’پانڈوکے‘ نیا نیا آباد ہوا تھا، وہاں سکونت اختیار کی۔ بچپن سے ہی آپؒ کی طبیعت میں عشقِ الٰہی کی تڑپ،کشش اور سوز و مستی نمایاں تھی۔ 

حضرت بلھے شاہؒ نے مسجد کوٹ قصور میں درسی تعلیم حاصل کی ۔ آپؒ کے معلم خواجہ حافظ غلام مرتضیٰ قصوری تھے جو کہ ایک جید عالم و فاضل تھے ۔ آپؒ فارسی، عربی،ہندی اورپنجابی میں دسترس رکھتے تھے۔ 

مرشد کامل کی تلاش 

درسی تعلیم آپؒ کو مطمئن نہ کر سکی کیونکہ آپؒ کی نگاہِ بصیرت حقیقت کی متلاشی تھی اور آپؒ کسی مرشد کامل کا دامن تھامنا چاہتے تھے جوآپؒ کو  توحید کی مے سے سرشار کر دیتا۔ جب آپؒ مرشد کامل کی تلاش میں سر گرداں تھے تو ایک دن آرام کی خاطر درخت کے ٹھنڈے سایہ میں لیٹ گئے ۔ عالمِ خواب میں آپؒ کو آپؒ کی پا نچویں پشت کے بزرگ حضرت سید عبد الحکیمؒ  کی زیارت ہوئی۔ انہوں نے پیاس کی حاجت ظاہر کی۔ آپؒ نے دودھ کا بھرا پیالا پیش کیا۔ انہوں نے تھوڑا خود پیا باقی آپؒ کو پلایا جس سے آپؒ کا سینہ نورِ بصیرت سے بھر گیا۔ پھر آپؒ کے حق میں دعا فرمائی، نیز ہدایت کی کہ مرشد کامل کی اطاعت اختیار کرو۔ آپؒ جب بیدار ہوئے تو گھر آکر والد بزرگوار کی خدمت میں سارا ماجرا بیان کیا۔ انہوں نے فرمایا تمہیں انہی کا دامن پکڑ لینا چاہیے۔ رات کو پھر اسی بزرگ کی زیارت ہوئی۔ حضرت بلھے شاہؒ نے اپنا مدعا عرض کیا تو بزرگ نے حضرت شاہ عنایت قادریؒ کی بیعت کی بشارت دی۔  

اس زمانہ میں حضرت شاہ عنایت قادریؒ لاہور میں مسندِ ولایت پر جلوہ افروز تھے ۔ حضرت شاہ عنایت قادریؒ کے زہد و تقدس کا شہرہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ قلبی و روحانی سکون کے لیے طالب آپؒ سے فیض پاتے تھے۔ 

مرشد کامل سے بیعت کے لیے حضرت بلھے شاہ ؒ سفر پر روانہ ہوئے تو دل میں خیال گزرا کہ عالی نسب ہوں مرشد کو سایہ عاطفت میں جگہ دینے میں کیا عذر ہو گا؟ غرض لاہور پہنچ گئے اور حضرت شاہ عنایت ؒ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ آپؒ نے مرشد کی بارگاہ میں جب بیعت کی درخواست ظاہر کی تو انہوں نے فرمایا ’’تو خاندانی سیدّ ہے، میں باغبان کا بیٹا (آرائیں) ہوں، تمہیں کیا دے سکتا ہوں؟‘‘ حضرت بلھے شاہؒ اپنی سوچ پربہت نادم ہوئے اور تن من سب مرشد کی خدمت میں قربان کرنے کا فیصلہ کر لیا۔حضرت شاہ عنایتؒ نے آپ کو بیعت فرمایا اور اپنے فیض سے نوازا۔ (کلام بابا بلھے شاہؒ مع حالات و واقعات )

کلام حضرت بلھے شاہؒ 

حضرت بلھے شاہؒ  پنجابی زبان کے عظیم المرتبت شاعر تھے۔ ایک طرف ان کی ذات فیوض و برکات کا سرچشمہ تھی تو دوسری طرف ان کی شاعری اپنے اندر اثر و تاثیر اور سوز و گداز کا خزانہ سمیٹے ہو ئی تھی۔ ان کا ہر شعر روح کی گہرائیوں سے نکلتا اور دل کی پہنائیوں میں اتر جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پاکیزہ نغموں سے پنجاب کے گاؤں، قصبے اور شہر گونج اٹھے۔ ان کی شاعری کی شہرت دور دور تک پھیلی۔ بلھے شاہ ؒ کے کلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس سے تعلیم یافتہ طبقہ بھی لطف اندوز ہوتا ہے اور ناخواندہ طبقہ بھی ان کے اشعار کی لذت محسوس کرتا ہے۔

آپؒ میں عشقِ حقیقی کا سمندر موجزن تھا جس کا اظہار آپ ؒ نے بارہا اپنے کلام میں فرمایا ہے ۔ قارئین کے لیے آپؒ کے کلام سے چند نمونے پیش کیے جا رہے ہیں ۔ 

 ’’الف اللہ رتاّ دل میرا !‘‘

الف اللہ نال رتاّ دل میرا
مینوں ’’ب‘‘ دی خبر نہ کائی 

مفہوم: ’’الف‘‘ یعنی اسمِ اللہ ذات نے مجھے اللہ کی محبت میں اس قدر مستغرق کر دیا ہے کہ مجھے ’’ ب‘‘ کی کوئی خبر نہیں ہے ۔ 

ب پڑھیاں کجھ سمجھ نہ آوے
لذت الف دی آئی 

مفہوم: ’’ب‘‘ ( یعنی دیگر علوم) پڑھ کر کوئی حقیقت روشن نہیں ہوئی ۔ اسمِ اللہ ذات نے ہی ہر رمز سے واقف کیا اور لذت عطا کی۔ 

’’ع‘‘ تے ’’غ‘‘ دا فرق نہ جاناں
ایہہ گل الف سمجھائی

مفہوم: مجھے عین اللہ اور غیر اللہ کا فرق معلوم نہیں تھا لیکن اسمِ اللہ ذات نے مجھ پر یہ حقیقت آشکار کر دی ۔ 

بلھیا‘ قول الف دے پورے
جیہڑے دل کی کرن صفائی 

مفہوم: بلھیا! باطن کی پاکیزگی کے جتنے بھی قول ہیں سب اسمِ اللہ ذات نے پورے کیے ہیں ۔ 

’’اِک الف پڑھو!‘‘

اک الف پڑھو چھٹکارا اے
اک الفوں دو تن چار ہوئے
پھر لکھ کروڑ ہزار ہوئے
پھر اوتھوں باہجھ شمار ہوئے
ہک الف دا نکتہ نیارا اے
اک الف پڑھو چھٹکارا اے

مفہوم: ایک الف کا سبق ہی تیری نجات کے لیے کافی ہے۔ الف کے نقطہ یعنی نورِالٰہی سے نورِ محمدی ظاہر ہوا۔ نورِ محمدی سے تمام موجوداتِ عالم کی تخلیق ہوئی۔ یعنی ایک الف پہلے دو ہوا، تین ہوا پھر چار اور اسی سے لاکھوں، کروڑوں اور بیشمار مخلوقات ظاہر ہوئیں۔ یہ ایک الف کا نکتہ کتنا پیاراہے جو نجات کا بھی ذریعہ ہے اور ابتدائے آفرینش کا بھی۔  

کیوں پڑھنا ایں گڈ کتاباں دی
سرِ چاناں ایں پنڈ عذاباں دی
کیوں ہوئی اے شکل جلاداں دی
ایہہ پینڈا مشکل بھارا اے
اک الف پڑھو چھٹکارا اے

مفہوم:تو اتنی کتابیں کیوں پڑھتا ہے ۔ سر پر غموں کا بوجھ کیوں اٹھاتا ہے؟ تو نے سخت جلاد جیسی شکل کیوں بنا لی ہے؟ اگلے جہاں کا سفر بہت مشکل ہے ۔اسمِ اللہ ذات کا سبق پڑھنے سے تجھے ہر فکر و غم سے نجات مل جائے گی۔

بن حافظ حفظ قرآن کریں
پڑھ پڑھ کے صاف زبان کریں
پھر نعمت وچ دھیان کریں
من پھر دا جیوں ہلکارا اے
اک الف پڑھو چھٹکارا اے

مفہوم: توحافظ بنتا ہے اور قرآن پڑھ پڑھ کر اپنی زبان صاف کرتا ہے۔ دنیوی و اُخروی نعمتوں کے حصول کے لیے تمام تگ و دو کرتا ہے۔ تو ایک قاصد کی طرح مارا مارا پھرتا ہے ۔ جبکہ اسمِ اللہ ذات کا سبق پڑھنے سے تجھے نجات حاصل ہو جائے گی ۔ 

بلھا بی بوڑھ دا بویا سی
اوہ برچھ وڈا جا ہویا سی
جد برچھ اوہ فانی ہویا سی
پھر رہ گیا بی اکارا اے

مفہوم: حضرت بلھے شاہؒ انسان کی حقیقت کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ بلھے شاہ ! انسان کی حقیقت برگد کے درخت کی سی ہے جیسے برگد کا بیج بویا جاتا ہے بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود میں روح کا بیج ڈالا تھا ۔یہ بیج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب تن آور درخت بن گیا تو فنا ہو گیا۔ یعنی انسان نے اپنی زندگی کی تمام بہاریں دیکھ لیں تو اس دنیا سے رخصت ہو گیا اوروہ بیج جو روح کی صورت میں اس میں موجود تھابس وہی باقی رہ گیا، اس کا ظاہری جسم فنا ہو گیا۔

عشقِ مرشد اور حضرت بلھے شاہؒ 

حضرت بلھے شاہؒ سیدّ خاندان میں پیدا ہوئے تھے لیکن آپؒ کے مرشد شاہ عنایتؒ آرائیں تھے ۔ چنانچہ جب بلھے شاہؒ اپنے مرشد کے مرید ہوئے تو رشتہ داروں اور عزیز و اقارب نے طعنوں اور مخالفتوں کے تیر چلا دیے، آپؒ کی اونچی ذات کا واسطہ دیا اور مرشد سے دوری اختیار کرنے کا مشورہ دینے لگے۔ آپ ؒ کی کافیوں میں اس کا ذکر ملتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی باور کرواتے ہیں کہ عشق میں کوئی ذات اونچی یا نیچی نہیں ہوتی۔ بس محبوب کی رضا اور خوشی ہی سب سے اہم ہوتی ہے ۔ 

بلھے نوں سمجھاون آئیاں

بلھے نوں سمجھاون آئیاں ، بھیناں تے بھرجائیاں
من لے بلھیا ساڈا کہنا، چھڈ دے پلا رائیاں
آل نبیؐ اولاد علیؓ نوں توں کیوں لیکاں لائیاں 

مفہوم: بلھے شاہؒ کو قریبی عز یز و اقارب سمجھانے آئے ہیں ۔اے بلھے شاہ! ہمارا کہنا مان لے اور آرائیوں سے تعلق چھوڑ دے ۔آلِ نبی اور اولادِ علی کا نام تو کیوں خراب کر رہا ہے ۔ 

جیہڑا سانوں سیدّ سدے، دوزخ ملن سزائیاں
جو کوئی سانوں رائیں آکھے، بہشتیں پینگاں پائیاں

مفہوم: جو ہمیں سیدّ کہے اس کو دوزخ میں سزائیں ملیں اور جو کوئی ہمیں مرشد کی ذات کی نسبت سے آرائیں کہے وہ سیدھا جنت میں جائے۔ 

رائیں سائیں سبھناں تھائیں ، ربّ دیاں بے پروائیاں سوہنیاں پرے ہٹائیاں نیں تے، کوجھیاں لیَ گل لائیاں 

مفہوم: میرے لیے میرا مرشد ’’آرائیں سائیں‘‘ ہی سب کچھ ہے اور میں اس کی محبت میں باقی ہرایک سے بے نیاز ہو گیا ہوں ۔میرا مرشد کتنا مہربان ہے کہ اس نے اعلیٰ رتبہ والوں کو پیچھے کر دیا اور (مجھ جیسے) کوجھے یعنی کم تر کو گلے لگا لیا ہے۔ 

جے توں لوڑیں باغ بہاراں، چاکر ہو جا رائیاں
بلھے شاہ دی ذات کیہ پچھنیں، شاکر ہو رضائیاں 

مفہوم: اگر تو بہشتی باغ بہاروں کی طلب رکھتا ہے تو مرشد کا خدمت گار بن جا۔ بلھے شاہ ! محبوب کی ذات کیا پوچھتے ہو ، بس اس کی رضا پر شکر ادا کرو ۔

درج ذیل کافی میں آپؒ اپنے عشقِ مرشد کا اظہار فرماتے ہیں : 

اب لگن لگی کیہہ کرئیے

اب لگن لگی کیہہ کرئیے
نہ جی سکیے نہ مرئیے
تم سنوں ہماری بیناں
موہے رات دنے نہیں چیناں
ہن پی بن پلک نہ سرئیے
اب لگن لگی کیہہ کرئیے
نہ جی سکیے نہ مریئے 

مفہوم: اب مجھے محبت ہو گئی ہے ، اب میں کیا کروں ؟ میں نہ جی سکتا ہوں اور نہ مر سکتا ہوں ۔ تم میری دکھ بھری آواز سنو ۔ مجھے نہ رات کو چین ہے اور نہ دن کو سکون ہے۔ میں اب محبوب کے بغیر ایک پل بھی جی نہیں سکتا ۔

تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا

ایک دفعہ حضرت بلھے شاہ ؒ کے مرشد اُن سے ناراض ہو گئے۔یہ بات آپؒ کی جان پر بن آئی۔ آپؒ جدائی اور پشیمانی کے عالم میں ماہی بے آب کی مانند تڑپنے لگے۔ اپنے مرشد کو راضی کرنے کے لیے آپؒ نے یہ کلام پیش کیا:

تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا
تیرے عشق نے ڈیرا، میرے اندر کیتا
بھر کے زہر پیالہ، میں تاں آپے پیتا
جبھدے  بوہڑیں وے طبیبا، نہیں تے میں مر گئی آں
تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا 

مفہوم: اے محبوب! میرے دل میں تیری محبت نے ڈیرے ڈال دیے ہیں ۔یہ زہر کا پیالہ بھی میں نے خود ہی پیا ہے ۔ اب میری حالت اس طرح کی ہے اگر طبیب تونے میری خبر نہ لی تو میں مر جاؤں گا۔ میں اپنے محبوب کی محبت میں دیوانوں کی طرح رقص کر رہا ہوں۔ 

چھپ گیا وے سورج، باہر رہ گئی آ لالی
وے میں صدقے ہوواں، دیویں مڑ جے وکھالی
پیرا ! میں بھل گئی آں، تیرے نال نہ گئی آ
تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا 

مفہوم: میرا محبوب جوآفتاب کی مانند ہے اس نے مجھ سے منہ موڑ لیا ہے۔ جس طرح سورج غروب ہو جائے تو آسمان پر پیچھے صرف سرخی رہ جاتی ہے بالکل اسی طرح میرا دل بھی محبوب کے ہجر میں زخمی ہے اور شدتِ غم سے سرخ ہے۔ میں تجھ پر قربان جاؤں اگر تو اپنا دیدار مجھے عطا کر دے۔ میرے پیر! مجھ سے بھول ہو گئی کہ میں نے تیری اطاعت نہ کی۔ تیری محبت میں میں دیوانوں کی طرح رقص کر رہا ہوں ۔ 

ایس عشقے دے کولوں، مینوں ہٹک نہ مائے
لاہو جاندڑے بیڑے، کیہڑے موڑ لیائے
میری عقل جو بھلی، نال مہانیاں دے گئی آ
تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا 

مفہوم : میری ماں مجھے اس عشق سے نہ روک کیونکہ میں نے عشق کے سمندر میں غرق ہونے کا ارادہ کر لیا ہے اورڈوبتے ہوئے بیڑے   واپس نہیں آ تے ۔ میں نے عشق میں اپنی عقل کو ہار دیا ہے تبھی ملاحوں کے ساتھ جانے کا ارادہ کر لیا ہے ۔ اے محبوب میں تیری محبت میں دیوانوں کی طرح رقص کر رہا ہوں۔  

ایس عشقے دی جُھنگی وِچ مور بولیندا
سانوں قبلہ تے کعبہ، سوہنا یار دسیندا
سانوں گھائل کر کے، پھیر خبر نہ لئی آ
تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا 

مفہوم: میرے عشق کی جھنگی یعنی باطن میں مور بولتے ہیں(یعنی بہت خوبصورتی اور دلکشی پائی جاتی ہے )۔ ہمیں تو قبلہ و کعبہ پیارے محبوب میں ہی نظر آتا ہے۔ اس نے اپنی محبت سے مجھے گھائل تو کر دیا ہے لیکن دوبارہ میری خبر لینے کے لیے نہیں آیا۔ میں اپنے محبوب کی محبت میں دیوانوں کی طرح رقص کر رہا ہوں ۔ 

بلھا شوہ نے آندا، مینوں عنایتؒ دے بوہے
جس نے مینوں پوائے، چولے ساوے تے سو ہے
جاں میں ماری ہے اڈی، مل پیا ہے وہیا
تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا 

مفہوم: بلھے شاہؒ! یہ اللہ پاک کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھے میرے مرشد شاہ عنایتؒ کے در تک پہنچایاہے ۔اسی نے مجھے رنگ برنگے لباس پہنائے ہیں۔جب میں نے محبوب کو راضی کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا تب جا کر وہ مجھے ملا ہے۔ میں اپنے محبوب کے عشق میں دیوانوں کی طرح رقص کر رہا ہوں۔ 

رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھا ہوئی 

اپنے عشقِ مرشد اور مرتبۂ فنا فی الشیخ کا اظہار آپؒ اپنی مشہور کافی  میں فرماتے ہیں :

رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
سدو نی مینوں دھیدو رانجھا ہیر نہ آکھو کوئی
رانجھا میں وچ، میں رانجھے وچ، ہور خیال نہ کوئی
میں نہیں اوہ آپ ہے، اپنی آپ کرے دلجوئی
جو کوئی ساڈے اندر وَسے ذات اساڈی سوئی
ہتھ کھونڈی میرے اگے منگو، موڈھے بھورا لوئی
بلھا ہیر سلیٹی ویکھو، کتھے جا کھلوئی
جس دل نال میں نیو نہہ لگایا، اوہو جیہی ہوئی
تخت ہزارے لے چل بلھیا، سیالیں ملے نہ ڈھوئی 

مفہوم: رانجھے کا نام لیتے لیتے میں خود ہی رانجھا بن گئی ہوں۔ اب مجھے سب دھیدو رانجھا کہیں، ہیر کے نام سے کوئی نہ پکارے۔ عشق میں اس مقام پر پہنچ گئی ہوں کہ رانجھا مجھ میں ہے اور میں رانجھے میں، اب اس کی یاد کے علاوہ کوئی اور خیال نہیں۔ میں فناہو گئی ہوں، مجھ میں بس وہی باقی ہے، وہ اپنی آپ ہی دلجوئی کرتا ہے۔ جو محبوب میرے دل میں بستا ہے اس کی ذات میرا وجود ہے۔ میرے ہاتھ میں لاٹھی ہے اور آگے بھینسوں کا ریوڑ ہے، کندھے پر لوئی ہے۔ بلھے شاہ! دیکھو ہیر رانجھے جیسے بن گئی ہے۔ جس کے ساتھ میں نے عشق کیا، اس کی ہی ذات اور صفات کو اپنا لیاہے۔ بلھے شاہ مجھے تخت ہزارے (رانجھے کا وطن) لے چلو سیالوں (ہیر کا وطن اور اس کی قوم مراد دنیا دار لوگ ) میں میراٹھکانہ نہیں ۔

خودی کی تلاش 

جب سے انسان کو اس دنیا میں بھیجا گیا ہے اس کے ذہن میں ہمیشہ یہ سوالات جنم لیتے ہیں:میں کون ہوں ؟میری ابتدا کیاہے ؟ میری انتہا کیا ہے ؟میری پہچان کیاہے ؟ انسان کا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟ مجھے تخلیق کرنے والا کون ہے ؟ 

حضرت بلھے شاہؒ کے کلام ’’بلھا کی جاناں میں کون‘‘ میں خود شناسی کے موضوع کوبڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ آپؒ خود سے سوال کرتے ہیں میرے وجود کی کیا حقیقت ہے اور میں کون ہوں؟ لوگوں نے تو خود کو ذات پات، رنگ، نسل جیسے فرقوں میں بانٹ لیا ہے جبکہ میں نے اپنا دامن عشقِ حقیقی سے وابستہ کر لیا ہے ۔ اب میں خود کو کن لوگوں میں شمار کروں ؟ میرا وجود تو عشق کی آگ میں فنا ہو گیا ہے اس لیے اب میں کیا جانوں کہ میں کون ہوں ؟

بلھاؒ! کی جاناں میں کون
نہ میں مومن وچ مسیت آں
نہ میں وچ کفر دی ریت آں
نہ میں پاکاں وچ پلیت آں
نہ میں موسیٰ نہ فرعون
بلھا کی جاناں میں کون 

مفہوم: نہ تو میں مسجد میں مومن ہوں اور نہ ہی مجھ میں کفر کی کوئی ریت (رسم) پائی جاتی ہے۔ نہ میں پاکوں میں ہوں نہ پلیدوں میں۔ نہ میں موسیٰؑ کی طرح پارسا ہوں، نہ فرعون کی طرح نافرمان۔ بلھے شاہ! میں کیا جانوں کہ میری حقیقت کیا ہے؟ 

نہ میں اندر وید کتاباں
نہ وچ بھنگاں نہ شراباں
نہ وچ رِنداں مست خراباں
نہ وچ جاگن نہ وچ سون
بلھا کی جاناں میں کون 

مفہوم: نہ تو میں کتابوں کا عالم ہوں اور نہ میں نشے میں ہوں اور نہ شرابی ہوں۔ نشے کرنے والے مست خرابوں میں سے بھی نہیں ہوں۔ نہ جا گتا ہوں نہ سوتا ہوں۔ بلھے شاہؒ! میں کیا جانوں میری حقیقت کیا ہے ؟

اوّل آخر آپ نوں جاناں
نہ کوئی دوجا ہور پچھاناں
میتھوں ہور نہ کوئی سیانا
بلھا اوہ کھڑا ہے کون؟
بلھا کی جاناں میں کون 

مفہوم: جب سے میرے مرشد کی مہربانی سے مجھے اللہ کی معرفت حاصل ہوئی ہے میں اس کے علاوہ اور کسی کو نہیں پہچانتا۔ اوّل بھی وہی ہے اور آخر بھی وہی۔ میں نے اس حقیقت کو جان لیا ہے اس لیے مجھ سے زیادہ سمجھ دار اور کوئی نہیں۔ بلھا تیرے سامنے کون کھڑا ہے (یعنی اللہ کی ذات کس روپ میں جلوہ گر ہے)؟ بلھے شاہؒ تو کیا جانے تیری حقیقت کیا ہے؟ 

حضرت بلھے شاہؒ کا وصال 

آپ ؒ کا وصال1757ء بمطابق 1181ھ میں ہوااور آپؒ کو قصور میں دفن کیا گیا۔ آپؒ کا مزارِ اقدس قصور میں مرجع خلائق ہے۔ کتب سیر میں آپؒ کی تاریخِ پیدائش اور تاریخِ وصال میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ 

قارئین کرام! حاصل کلام یہ ہے کہ حضرت بلھے شاہؒ اور دیگر بزرگ ہستیوں کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ انہیں جو بھی مقام و مرتبہ ملا وہ محض عشقِ حقیقی کی بدولت ملا۔ اسی جذبۂ عشق کی بدولت ان پر باطن کے دَر وا ہوئے اور انہوں نے عرفانِ ذات کی منازل طے کرتے ہوئے بالآخر معرفتِ حق تعالیٰ کی لازوال نعمتِ عظمیٰ حاصل کی۔ یاد رہے معبود سے عبد کے تعلق کو استوار کرنے کے لیے جس وسیلہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ وسیلہ مرشد کامل اکمل ہی ہے جو اپنے مرید کو دستِ بیعت کرکے اس کے دل کو نورِ الٰہی سے منور کرتا اور صراطِ مستقیم کی منازل اپنی ہمراہی میں طے کرواتا ہے۔ اگر آپ بھی ایسے ہی وسیلے کے متلاشی ہیں تو آپ کے لیے دعوتِ عام ہے کہ دورِ حاضر کے انسانِ کامل اور مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں خلوصِ نیت سے حاضر ہوں۔ ان شاء اللہ آپ کا دل گواہی دے گا کہ بخداحق یہی ہے اور یہیں ہے۔

استفادہ کتب :
کلام بابا بلھے شاہؒ :  مترجم ۔ مقصود علی آسی
کلام حضرت بابا بلھے شاہؒ مع حالات و واقعات:  مرتب ۔ سمیع اللہ برکت
سیرت با با بلھے شاہؒ:  حکیم سید خاور حسین قادری  


Spread the love

19 تبصرے “عشق اور حضرت بلھے شاہ ؒ ISHQ AUR Hazrat BULLEH SHAH

  1. اگر آپ بھی ایسے ہی وسیلے کے متلاشی ہیں تو آپ کے لیے دعوتِ عام ہے کہ دورِ حاضر کے انسانِ کامل اور مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں خلوصِ نیت سے حاضر ہوں۔ ان شاء اللہ آپ کا دل گواہی دے گا کہ بخداحق یہی ہے اور یہیں ہے۔

  2. معبود سے عبد کے تعلق کو استوار کرنے کے لیے جس وسیلہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ وسیلہ مرشد کامل اکمل ہی ہے جو اپنے مرید کو دستِ بیعت کرکے اس کے دل کو نورِ الٰہی سے منور کرتا اور صراطِ مستقیم کی منازل اپنی ہمراہی میں طے کرواتا ہے۔

  3. بلھاؒ! کی جاناں میں کون
    نہ میں مومن وچ مسیت آں
    نہ میں وچ کفر دی ریت آں
    نہ میں پاکاں وچ پلیت آں
    نہ میں موسیٰ نہ فرعون
    بلھا کی جاناں میں کون

  4. ایس عشقے دی جُھنگی وِچ مور بولیندا
    سانوں قبلہ تے کعبہ، سوہنا یار دسیندا
    سانوں گھائل کر کے، پھیر خبر نہ لئی آ
    تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا

  5. ایس عشقے دی جُھنگی وِچ مور بولیندا
    سانوں قبلہ تے کعبہ، سوہنا یار دسیندا
    سانوں گھائل کر کے، پھیر خبر نہ لئی آ
    تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا

  6. ’’ع‘‘ تے ’’غ‘‘ دا فرق نہ جاناں
    ایہہ گل الف سمجھائی
    مفہوم: مجھے عین اللہ اور غیر اللہ کا فرق معلوم نہیں تھا لیکن اسمِ اللہ ذات نے مجھ پر یہ حقیقت آشکار کر دی ۔

  7. بن حافظ حفظ قرآن کریں
    پڑھ پڑھ کے صاف زبان کریں
    پھر نعمت وچ دھیان کریں
    من پھر دا جیوں ہلکارا اے
    اک الف پڑھو چھٹکارا اے

  8. ’’الف اللہ رتاّ دل میرا !‘‘
    الف اللہ نال رتاّ دل میرا
    مینوں ’’ب‘‘ دی خبر نہ کائی

اپنا تبصرہ بھیجیں