فرمودات سیّدنا غوث الاعظم تعلیماتِ فقر کی روشنی میں
ترتیب: انیلا یٰسین سروری قادری (لاہور)
عرفِ عام میں فقر غربت،افلاس اور تنگدستی کو کہتے ہیں۔لیکن فقر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کاوہ طریقہ اورورثہ ہے جوآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے اپنی اُمت کو عطا فرمایا ہے۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشادفرمایا:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ
ترجمہ: فقرمیرافخرہے اورفقرمجھ سے ہے۔
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ فَافْتَخِّرُ بِہٖ عَلٰی سَائِرِ الْاَنْبِیَآئِ وَالْمُرْسَلِیْنَ
ترجمہ:فقر میرا فخرہے اورفقر مجھ سے ہے اورفقر کی بدولت مجھے تمام انبیا ومرسلین پر فضیلت حاصل ہے۔
سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
* تمام انبیا کرام اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مرتبہ فقر کے حصول اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اُمتی ہونے کی التجا کرتے رہے لیکن انہیں یہ مراتب حاصل نہ ہو سکے جسے بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ کی حضوری حاصل ہوئی اُس نے فقرِ محمدی کو اپنا رفیق بنا لیا کیونکہ مرتبہ فقر سے بڑھ کر بلند وقابلِ فخر مرتبہ نہ کوئی ہے اور نہ ہو گا۔ فقر دائمی زندگی ہے۔ (نورالہدیٰ کلاں)
گویا انسان کا اس دنیا میں آنے کا مقصدصرف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو پانے کی کو شش میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو صرف کرے۔ مادیت پرستی کے اس دور میں انسان اپنے عظیم مقصد کو بھول گیا ہے اور اپنے عظیم مقصد کو پانے کی کوشش ہی نہیں کرتا اور اِن میں سے کچھ جو اللہ تعالیٰ کو پانے کی کوشش کرتے بھی ہیں تو وہ خود کو ظاہر ی عبادات میں مصروف رکھتے ہیں جس سے وہ اہلِ علم تو بن جاتے ہیں مگر اہلِ تصوف نہیں بنتے۔
حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم خزانہ فقر کے مالک اور مختارِ کُل ہیں اس لیے آپ سے ہی خزانہ فقر منتقل ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اجازت کے بغیرکسی انسان کو خزانہ فقر منتقل نہیں ہو سکتا۔ صوفیا اور اولیا کرام میں سب سے بلند مرتبہ اور مقام عارفین کو حاصل ہے۔ جو مقام اللہ پاک کی بارگاہ میں عارف کو حاصل ہو تا ہے وہ کسی اور ولی کو حاصل نہیں ہوتا لیکن عارفین میں بلند ترین مقام ’’ سلطان الفقر‘‘ کا ہے محبوبِ سبحانی، قطبِ ربانی، غوثِ صمدانی سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ’’سلطان ا لفقر‘‘ کے مرتبہ پر فائز ہیں۔
سیّدنا غوث الاعظمؓ کی تعلیماتِ فقر لامحدود ہیں جنہیں محدود الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
راہِ فقر میں کامیابی کے لیے آپؓ کی کتب کا صدق اور خلوص سے مطالعہ ضروری ہے۔ ذیل میں سیّدنا غوث الاعظمؓکی چند منتخب تعلیماتِ فقر بیان کی جارہی ہیں جن کی پیروی سے طالبِ مولیٰ راہِ فقر کی منازل کو باآسانی طے کر سکتے ہیں:
توحید
* توحید کے معنی یہ ہیں کہ تمام مخلوق کو معددم سمجھے اور ہر ایک سے جدا ہو جائے اور طبیعت بدل کر فرشتوں کی پاکیزگی حاصل کرے اس کے بعد فرشتوں کی طبیعت سے بھی فنائیت حاصل ہو اور اپنے پروردگار کے ساتھ مل جائے۔ (الفتح الربانی ۔ اوّل الفتوح)
* توحیدِ باری تعالیٰ انسان اور جنات کے شیطانوں کو جلادیتی ہے کیونکہ یہ شیطانوں کے لیے آگ اور اہلِ توحید کے لیے نور ہے تُو لَآ اِلٰہَ اِ لَّا اللّٰہُ کس طرح کہتا ہے حالانکہ تیرے دل میں بکثرت معبود مو جود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ ہر وہ چیز جس پر تیرا بھروسہ اور اعتماد ہے وہ تیرا بت ہے۔ دل کے مشرک ہونے پر ہر زبان کی توحید تجھے کچھ فائدہ نہ دے گی۔دل کی گندگی کے ساتھ جسم کی پاکیزگی تجھے کوئی نفع نہ دے گی۔ صاحبِ توحید اپنے شیطان کو لاغر بنا دیتا ہے اور مشرک کو اس کا شیطان لاغر بنا دیتا ہے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس38)
* توحید عبادت اور شرک عادت ہے ۔ اس لیے تو عبادت کو لازم پکڑ اور عادت کو چھوڑ دے۔جب تو خلافِ عادت کرے گاتو تیرے حق میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی خلافِ عادت برتاؤ ہوگا اور تو اپنی حالت میں تغیر کر تاکہ اللہ تیری حالت میں تغیر فرمائے۔ بے شک اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا ہے جب تک کہ وہ اپنے نفوس کی حالت کو نہ بدلے۔ (الفتح الربانی ۔مجلس44)
* اللہ کے سوا ہر شے غیر اللہ ہے . تو اللہ کے مقابلے میں غیر اللہ کو قبول نہ کر اس لیے کہ اس نے تجھے اپنے لیے پیدا کیا ہے . غیر اللہ میں مشغولیت ومحویت کی وجہ سے اللہ سے اعراض کر کے اپنے اوپر ظلم نہ کر ورنہ اللہ تجھے ایسی آگ میں جھونک دے گا جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ (فتوح الغیب مقالہ نمبر 13)
* جب تو توحید پر جما رہے گا تو تجھے واحد حقیقی کے ساتھ انس حاصل ہو جائے گا ۔ جب تو فقر پر صبر کرے گا تو تجھے غنا حاصل ہو جائے گا۔ پہلے تو دنیا کو چھوڑ پھر آخرت کو طلب کر پھر آخرت کو چھوڑ اور اللہ تعالیٰ کے قرب کو طلب کر ۔ پھر آخرت کو چھوڑ اور خالق کی طرف لوٹ آ۔ (الفتح الربانی. مجلس62)
* دل کی زینت توحید، اخلاص، اللہ پر بھروسہ کرنے، اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے اور غیراللہ کو بھلا دینے میں ہے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس48)
* توحید نور ہے اور مخلوق کو اللہ تعالیٰ کا شریک سمجھنا تاریکی اور اندھیراہے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 62)
* تو جو کچھ بھی عمل کرے اللہ تعالیٰ کے لیے کرے نہ کہ اس کے غیر کے لیے ۔ تیرا عمل غیراللہ کے لیے کفر ہے اور تیرا غیر اللہ کے لیے چیز چھوڑنا ریا کاری ہے ، جو اس کو نہ پہچانے اور غیراللہ کے لیے عمل کرے وہ ہوس میں مبتلا ہے۔
تجھ پر افسوس ہے کہ تو اپنے دل کے قول کی تردید کر رہا ہے، جب تو ’’ لَآ اِلٰہَ‘ ‘ کہتا ہے ،پس یہ نفی کُلی ہے، یعنی کوئی معبود نہیں ہے اور ’’اِ لَّا اللّٰہُ ‘‘ اثبات کلی ہے یعنی اللہ ہی معبود ہے کوئی دوسرا نہیں۔ جب تیرے دل نے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ کیا پس تواپنے اثبات کلی میں جھوٹاہو گیا اور جس پر تو نے بھروسہ کیا وہ تیرا معبود بن گیا۔ (الفتح الربانی ۔مجلس 150)
عشقِ رسولؐ
* تم اپنی نسبتوں کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ صحیح کر لو جس کی اتباع آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ درست ہو گئی اسکی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ صحیح ہو گئی اور تیرا بغیر اتباعِ نبوی کے یہ کہنا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اُمتی ہوں ،تیرے لیے مفید نہیں۔ جب تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اقوال وافعال میں تابعداری کرو گے تو تمہیں آخرت میں انکی مصاحبت نصیب ہو گی۔ کیا تم نے اللہ کایہ پیغام نہیں سنا:
ترجمہ: ’’ اور جو کچھ تمہیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عطا فرمائیں وہ لے لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔‘‘ ( سورہ الحشر)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی ارواح کے حاکم ہیں اور مریدوں کے مربیّ اور سر پرست ہیں اور مرادوں کے سردار ہیں اور صالحین کے بادشاہ اور مخلوق میں حالات ومقامات کی تقسیم فرمانے والے ہیں۔ اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سرکارِ دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تمام کائنات کا امیر بنایا اور تمام امور اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سپرد فرما دئیے ہیں۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 44)
* نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اہلِ اللہ کے دلوں سے کسی وقت بھی نہیں ہٹتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کے دلوں کو معطر اور خوشبودار بنانے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم باطن کا تصفیہ کرنے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی انکا بناؤ سنگھار کرنے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی قلوب واسرار اور ان کے ربّ عزوجل کے درمیان سفیر ہیں۔ جب تو حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف ایک قدم بھی بڑھے گا تو تیری خوشی بڑھ جائے گی تو جس شخص کو بھی یہ حال نصیب ہوا اُس پر واجب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا شکر ادا کرے اور اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تابعداری کی طرف بڑھنا لازم ہے اور اس کے علاوہ خوش ہونا ہوس ہی ہوس ہے۔(الفتح الربانی)
اسمِ ذات(اسمِ اعظم)
* سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ ملفوظاتِ غوثیہ میں ایک روایت بیان فرماتے ہیں کہ:
’’ایک بزرگ ملک شام کی مسجد میں بھوک کی حالت میں پہنچے اور اپنے نفس سے کہا کہ کاش میں اسمِ اعظم جانتا ہوتا۔دفعتاً دو شخص آسمان سے اُترے اور ان کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ پس ایک نے دوسرے سے کہاتیری خواہش اسمِ اعظم جان لینے کی ہے دوسرے نے کہا ہاں!اس نے جواب دیا کہ تو’’اللہ‘‘ کہہ یہی اسمِ اعظم ہے۔وہ بزرگ کہتے ہیں میں نے دل میں کہاکہ اس کو تو میں کہا ہی کرتا ہوں مگر اسمِ اعظم کی جو خاصیت ہے وہ ظاہر نہیں ہوتی۔اس آدمی نے جواب دیا یہ بات نہیں ہمارا مطلب یہ ہے کہ’’اللہ‘‘ اس طرح سے کہو کہ دل میں کوئی دوسرا نہ ہو۔ ( الفتح الربانی۔ملفوظاتِ غوثیہ)
* بُری صفات سے نجات کا ذریعہ یہ ہے کہ آئینہ دل کو ظاہر وباطن سے مصقل توحید (تصوراسمِ اللہ ذات) وعلم وعمل وشدید مجاہدہ سے صاف کیا جائے حتیٰ کہ نورِ توحید(نور اسمِ اللہ ذات) وصفاتِ الٰہیہ سے دل زندہ ہو جائے اوراس میں وطنِ اصلی کی یاد تازہ ہو جائے اور وطنِ حقیقی کی طرف مراجعت کا شوق پیدا ہو۔(سرالاسرار۔فصل نمبر 10)
* جب کسی کے دل میں اسمِ اللہ ذات آ جاتا ہے تو اس سے دو چیزیں پیدا ہوتی ہیں ایک نار دوسری نور۔ نار سے تمام غیراللہ اور مادی محبتیں جل جاتی ہیں اور نور سے دل منور آئینہ بن جاتا ہے ۔
* اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہو جانا دلوں کی موت ہے ۔ پس جو کوئی اپنے دل کو زندہ کرنا چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ دل کو ذکرِ خداوندی کے لیے چھوڑ دے۔ (الفتح الربانی۔مجلس نمبر49)
* اے ذکر کرنے والے! تو اللہ کا ذکر یہ جانتے ہوئے کیا کر کہ تو اُس کے سامنے ہے تُو محض زبان سے اور دل کو غیراللہ کیطرف متوجہ کر کے ذکرِ خدا نہ کیا کر۔ ( الفتح الربانی۔ملفوظاتِ غوثیہ)
* طالبانِ مولیٰ پر ہر وقت ذکرِ اللہ میں مشغول رہنا فرض کر دیا گیا ہے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے ’’پس اللہ کا ذکر کرو چاہے تم کھڑے ہو یا بیٹھے ہو یا لیٹے ہو۔ ‘‘ (سرالاسرار)
اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والاہمیشہ کے لیے زندہ ہے اور وہ ایک زندگی سے دوسری زندگی کی طرف منتقل ہو تا ہے سوائے ایک لمحہ کے اس کے لیے موت نہیں۔(الفتح الربانی۔ مجلس 16)
عرفانِ نفس (حقیقتِ انسان، خود شناسی)
* جس شخص نے اپنے نفس کو پہچان لیا اور اس پر غالب آگیا تو نفس اس کی سواری بن جاتا ہے اور اس کا بوجھ اُٹھاتا ہے اور اس کا حکم مانتا ہے اور مخالفت نہیں کر تا۔ تیرے اندر کوئی خوبی نہیں یہاں تک کہ تو اپنے نفس سے واقف ہو جائے اور اس کولذت سے روکے اور اس کا حق ادا کرے ہاں اس وقت تجھے دل سے قرار ملے گا اور دل کو باطن کے ساتھ قرار ملے گا اور باطن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ قرار ملے گا۔(الفتح الربانی ۔مجلس 62)
* اے ابنِ آدم تُو کون ہے ؟ تُو تو ایک ذلیل و حقیر پانی سے پیدا کیا گیا ہے اس لیے تو اپنی حقیقت کو پہچان۔اللہ تعالیٰ کے سامنے تواضع کر اوراس کے سامنے جھک جا ۔جب تیرے پاس تقویٰ نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے نیک بندوں کے نزدیک تیری کوئی عزت نہیں ہے۔ (الفتح الربانی ۔مجلس26)
معرفتِ الٰہی
* اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو فقط اپنی معرفت ووصال کے لیے پیدا فرمایا ہے ۔ لہٰذا انسان پر واجب ہے کہ وہ دونوں جہان میں اُس چیز کو طلب کرے جسکے لیے اُسے پیدا کیاگیا ہے ۔ ایسانہ ہو کہ اس کی عمرلایعنی کاموں(فضول کاموں)میں ضائع ہو جائے اور مرنے کے بعداسے عمر کے ضائع ہونے کی دائمی ندامت اٹھانی پڑے۔ (سرّالاسرار فصل نمبر12)
* فرمان حق تعالیٰ ہے’’میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘ یعنی اپنی معرفت کے لیے۔ پس جو شخص اللہ تعالیٰ کو پہچانتا نہیں وہ اس کی عبادت کس طرح کر سکتا ہے؟ اور اللہ تعالیٰ کی معرفت آئینۂ دل کو حجاباتِ نفس کی کدورت سے پاک کر کے اُس کے اندر مقامِ سرّمیں مخفی خزانے کے مشاہدے سے حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کی حدیثِ قدسی ہے:
ترجمہ: میں ایک چُھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میری پہچان ہو‘ پس میں نے اپنی پہچان کے لیے مخلوق کو پیدا کیا۔ (سرّ الاسرار)
صحبتِ مرشد
* اے اللہ کے بندے! تو اولیا کرام کی صحبت اختیار کر کیونکہ ان کی یہ شان ہوتی ہے کہ جب کسی پر نگاہ اور توجہ کرتے ہیں تو اس کو زندگی عطا کر دیتے ہیں۔اگرچہ وہ شخص جس کی طرف نگاہ پڑی ہے یہودی یا نصرانی یا مجو سی ہی کیوں نہ ہو۔ ( الفتح الربانی ۔ملفوظاتِ غوثیہ)
* اہلِ اللہ کے پاس بیٹھنا نعمت ہے اور اغیار کے پاس بیٹھنا جو کہ جھوٹے اور منافق ہیں‘ ایک عذاب ہے ۔(الفتح الربانی۔ مجلس61)
* تم کسی ایسے شخص کی صحبت اختیار کرو جو حکمِ خداوندی اور علم لدنیّ کا واقف کار ہو اوروہ تمہیں اس کا راستہ بتائے ۔جو کسی فلاح والے کو نہ دیکھے گا فلاح نہیں پاسکتا۔تم اس شخص کی صحبت اختیار کرو جس کو اللہ کی صحبت نصیب ہو۔( الفتح الربانی۔ مجلس61)
* مرشدانِ کامل کی مجالس اختیار کرو کیو نکہ ان کی مجالس میں شرکت سے حلاوت اور مٹھاس حاصل ہوتی ہے اور ان کی نورانی صحبت اور مجلس میں انسانوں کے قلوب کے اندر اللہ تعالیٰ کی خالص محبت کے چشمے جاری کیے جاتے ہیں جن کی قیمت وہی جانتے ہیں جن کو خفی ذکرِ اللہ (اسمِ اللہ ذات) کی توفیق حاصل ہو چکی ہوتی ہے۔
تفکر ( غوروفکر)
* صحیح غور و فکر کرنے سے توکل درست ہو جاتا ہے اور دنیا دل سے غائب ہو جاتی ہے اور وہ جن، انسان، دنیا، فرشتوں اور تمام مخلوق کو بھلا دیتا ہے اور صرف یاد اور ذ کرِ اللہ میں مشغول رہتا ہے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 59.)
* جب تم کلام کرنا چاہو تو پہلے غوروفکر کر لیا کرو اور اس کی اچھی نیت قائم کرو اور اس کے بعد کلام کرو۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جاہل کی زبان اس کے دل کے آ گے ہے اور عاقل وعالم کی زبان اس کے دل کے پیچھے۔ ( الفتح الربانی۔ مجلس 42 (
* مصنوعاتِ الہٰیہ سے اس کے وجود پر دلیل پکڑ۔ اس کی صنعت و کاریگری میں تفکر کر۔ بے شک تو اس کے صانع کی طرف پہنچ جائے گا۔ ( الفتح الربانی۔ مجلس 3)
اخلاصِ نیت
* اعمال کی بنیا د توحید اور اخلاص پر ہے پس جس کے پاس توحید اور اخلاص نہ ہو اس کاکوئی عمل ہی نہیں۔ ( الفتح الربانی )
* مخلص وہ ہے جس نے صدقِ دل سے اللہ کی عبادت کی تاکہ وہ حقِ ربوبیت ادا کردے، اللہ تعالیٰ کی مستحقِ عبادات ہونے کی وجہ سے اس کی عبادت کی کیونکہ اللہ تعالیٰ بندے کا مالک ہے اور بندے پر اس کی اطاعت لازم ہے۔( فتوح الغیب۔ مقالہ 53)
* مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے اور فاسق کی نیت اس کے عمل سے بُری ہو تی ہے کیونکہ نیت ہی عمل کی بنیاد ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے صحیح کی بنیاد صحیح پر ہے تو وہ صحیح ہے اور فاسد کی بنیاد فساد پر ہے تو فاسد ہے ۔ (سرالاسرار فصل نمبر 8)
* عمل کے بغیر تیرے علم کا اور اخلاص کے بغیر تیرے عمل کا کچھ اعتبار نہیں کیونکہ علم بغیر عمل کے اور عمل بغیر اخلاص کے ، جسم بغیر روح کی طرح ہیں۔ ( الفتح الربانی۔ مجلس47)
تکبر
* اے اپنے اعمال پر غرور کرنے والے! تم کس قدر جاہل ہو اگر اللہ کی توفیق نہ ہوتی تو نہ تم نماز پڑھ سکتے اور نہ روزہ رکھ سکتے اور نہ صبر کر سکتے تھے۔تمہارے لیے تو شکر کا مقام ہے نہ کہ غرور اور تکبر کا۔ اکثر لوگ اپنی عبادتوں اور اعمال پر مغرور اور مخلوق سے اپنی تعریف کے طالب ہوتے ہیں اور دنیا اور اہل دنیا میں راغب اور متوجہ ہوتے ہیں اور اس کی وجہ ان کی اپنے نفس اور خواہشات کے ساتھ وابستگی ہے۔ ( الفتح الربانی مجلس 44)
* تجھ پر افسوس تو نے دنیا کی محبت اور غرور دونوں کو جمع کر لیا ہے یہ دونوں ایسی خصلتیں ہیں کہ اگر ان خصلتوں سے توبہ نہ کرے تو کبھی بھی فلاح نہیں پا سکتا۔ تو سمجھ دار بن ۔تُو کیا چیز ہے اور کون ہے اور کس چیز سے پیدا کیا گیاہے ؟ غورو فکر کر۔ تو غرور نہ کر غرور تو وہی کر تا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ اور حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جاہل ہوتا ہے ۔اے کم عقل! تو غرور کے ذریعے رفعت کا خواہش مند ہے تو اس کا بر عکس کر تو تجھے رفعت حاصل ہو جائے گی ۔سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے’’جو کوئی اللہ کے لیے عاجزی کرتا ہے تو اسے بلند کر دیا جاتا ہے اور جو کوئی غرور کرتا ہے اسے پست کر دیا جاتا ہے۔‘‘
* ریا، نفاق اور تکبر شیطان کے تیر ہیں جس سے وہ انسانی دل پر تیر اندازی کرتا ہے۔ ( الفتح الربانی۔مجلس27 )
توکل
* عزت اللہ تعالیٰ سے ڈرنے میں ہے اور ذلت اس کی نافرمانی میں ہے اور جو شخص دین میں قوت چاہتا ہے اس کے لیے ضروری ہے اللہ تعالیٰ پر توکل کرے کیونکہ توکل دل کو صحیح، قوی اور مہذب بناتا ہے اور اس کو ہدایت بخشتا ہے اور عجائبات دکھاتا ہے ۔ تو اپنے درہم، دینار اور اسباب پر بھروسہ نہ کر کیونکہ یہ تجھے عاجز اور ضعیف بنا دیں گے۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر یہ تجھے قوی بنا دے گااور تیری مدد کرے گا اور تجھ پر لطف وکرم کی بارش برسائے گا اور جہاں سے تیرا گمان بھی نہ ہو گا وہیں سے تیرے لیے فتوحات لائے گا۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 42)
* سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: ’’ملعون ہے وہ شخص جس کا بھروسہ اپنی جیسی مخلوق پر ہو۔‘‘
کثرت کے ساتھ اس دنیا میں وہ لوگ ہیں جو اس لعنت میں شامل ہیں ،مخلوق میں ایک آدھ ہی ہو گا جو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ( توکل) رکھتا ہے۔بے شک جس نے اللہ پاک کی ذات پر بھروسہ ( توکل) کیا اس نے مضبوط رسی کو پکڑ لیا اور جس نے اپنی جیسی مخلوق پر بھروسہ کیا اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص مٹھی کو بند کرے اور ہاتھ کو کھولے تو اسے ہاتھ میں کچھ نظر نہ آئے۔ تجھ پر افسوس ہے مخلوق تیری حاجتوں کو ایک دن ،دودن،تین دن اور ایک مہینہ، سال ،دو سال، پورا کریں گے آخر کار تجھ سے تنگ آکر تجھ سے اپنے چہروں کو پھیر لیں گے ۔ تو اللہ تعالیٰ کی محبت اختیار کر اس بارگاہ میں حاجتوں کو پیش کر یقیناًوہ تجھ سے دنیا اور آخرت میں تنگ نہ آئے گااور نہ ہی تیری حاجت روائی سے گھبرائے گا۔(الفتح الربانی ۔مجلس 45)
* تو اپنے رزق کے بارے میں فکر نہ کر کیونکہ رزق کو جتنا تو تلاش کرتا ہے اس سے زیادہ رزق تجھے تلاش کرتا ہے۔
* اس کے بغیر کسی بھی چیز کا وجود حقیقی نہ سمجھ اور اپنے نفع نقصان،منع وعطا، خوف ورجا میں اللہ تعالیٰ پر ہی تکیہ رکھ، پھر تو ہمیشہ دستِ قدرت پر نگاہ رکھ، اس کے حکم کامنتظر اور اس کی اطاعت میں مشغول رہ ۔دنیا ومافیہا سے علیحدہ رہ اور مخلوق میں سے کسی چیز سے دل نہ لگا۔ (فتوح الغیب۔ مقالہ 17)
* ہر چیز اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے بس تو کسی چیز کو غیراللہ سے طلب نہ کر۔ کیا تو نے فرمانِ الٰہی نہیں سُنا’’ اور کوئی چیز نہیں جس کے ہمارے پاس خزانے نہ ہوں اور ہم اسے نہیں اُتارتے مگر ایک معلوم اندازسے۔‘‘ (سورہ الحجر)
اے دنیا کے طالب اور اے درہم ودینار کے خواہش مند! یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے قبضہ و قدرت میں ہیں پس تو ان کو مخلوق سے طلب نہ کراور نہ ان کے دینے سے مخلوق کواللہ تعالیٰ کاشریک سمجھ اور نہ ان کو اسباب پر اعتمادکرنے کی زبان سے مانگ۔ ( الفتح الربانی۔ملفوظاتِ غوثیہ)
* اسی ذات کی طرف دیکھ جسکی نظرِ رحمت تجھ پر سایہ کیے ہوئے ہے ۔ اسی کی طرف توجہ کر جس کا فضل تیری جانب متوجہ ہے،اس کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا جو تجھے دوست رکھتا ہے،اُسے جواب دے جو تجھے بُلا رہا ہے۔ (فتوح الغیب ۔مقالہ62)
مومن
* سیّدنا غوث الاعظمؓ نے فرمایا’’مومن شخص تو صرف زادِ راہ لیتاہے اور کافر خوب مزے اڑاتا ہے ۔مومن مسافر شخص جیسا زادِراہ لیتا ہے اور تھوڑے مال پر بھی قناعت کرتاہے،اور بہت زیادہ مال کوآگے آ خرت کی طرف بھیجتا رہتا ہے اپنے نفس کے لیے اس قدر رہنے دیتا ہے جیسا کہ مسافر کا توشہ ہوتا ہے کہ وہ جس کو آسانی کے ساتھ اُٹھاسکتا ہے اور اس کا تمام مال آخرت میں ہے اور اس کا دل اور تمام ہمت اسکی طرف ہے اور اس کا دل دنیا سے منقطع ہو کراسی کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنی تمام طاعتوں کو آخرت کی طرف بھیجتا ہے نہ کہ دنیا اور اہلِ دنیا کی طرف۔اگر اس کے پاس عمدہ اور بہترین کھاناہوتاہے تو وہ فقرا پر اس کا ایثار کرتا ہے اور وہ اس بات کو جانتا ہے کہ اس کو یومِ آخرت اس سے بہتر کھانا عطا کیا جائے گا۔ (الفتح الربانی ۔ مجلس15)
* مومن غیراللہ سے نہیں ڈرتا اور نہ ہی وہ اس کے غیر سے توقع اور اُمیدیں وابستہ رکھتاہے کیونکہ اس کے دل اور باطن میں ایک خاص قوت عطا کر دی گئی ہے مومنین اور صادقین کے دل اللہ کیساتھ کیسے قوی نہ ہوں وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچے ہوئے ہیں اور وہ ہمیشہ اس کے پاس رہتے ہیں ، صرف ان کا بدن زمین پر ہوتا ہے ۔( الفتح الربانی۔مجلس 12)
شرم وحیا
* اے مسلمانو! تم اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے عمل کرو اور اس سے ملاقات سے پہلے اس سے شرم کرو ۔ تمہیں اس کے سامنے جانا ہے ۔ مسلمانوں کی حیا اوّل تو اللہ تعالیٰ سے ہو پھر اس کی مخلوق سے۔ البتہ اس معاملہ میں جس کو دین سے اور حدودِ شریعت کی حد تک سے تعلق ہو ، حیاکرنا جائز نہیں ۔ امور دینیہ میں حیا نہ کرے (اور بلارو رعایت بے باک بن کرنصیحت کرے ) اور حدودِ شریعت کو قائم کرے اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کرے:
ترجمہ: ’’ اور تمہیں ترس نہ آئے اس پر اللہ کے دین میں ‘‘۔(الفتح الربانی۔ مجلس 23)
* سیّدنا غوث اعظمؓ فرماتے ہیں، بعض آسمانی کتب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
ترجمہ: اے ابنِ آدم! تو مجھ سے شرما جیسا کہ تو اپنے نیک ہمسایوں سے شرماتا ہے‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے :
ترجمہ: ’’ جب کوئی بندہ اپنے دروازوں کو بند کر لیتا ہے اور اس پر پردے ڈال دیتا ہے اور مخلوق سے چھپ کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مشغول ہو تا ہے تو تب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابنِ آدم! تُو نے اپنی طرف دیکھنے والوں میں سب سے زیادہ مجھے کمتر سمجھا ہے ۔ تو مخلوق سے شرم کرتا ہے اور مجھ سے شرم نہیں کرتا۔‘‘( الفتح الربانی۔ مجلس2)
توبہ
* استغفار بندے کے حالات میں بہترین حالت اور اس کے معاملات کے لحاظ سے احسن ہے ، اس لیے توبہ میں بندے کی طرف سے اعترافِ گناہ اور اعترافِ قصور ہوتا ہے توبہ استغفار بندے کی صفات ہیں جو اسے ابوالبشر آدم علیہ السلام سے ورثے میں ملی ہیں۔ ( فتوح الغیب۔ مقالہ7)
* توبہ دو قسم کی ہے (۱) توبہ ظاہر(۲) توبہ باطن،توبہ ظاہر یہ ہے کہ انسان اپنے تمام اعضائے ظاہری کو قولًا وفعلًا گناہ اور معصیت سے طاعت کی طرف اورمخالفات سے موافقات کی طرف موڑ دے اور توبہ باطن یہ ہے انسان تصفیہ قلب اختیار کرکے موافقات کی طرف رجوع کرے۔ ( سرالاسرار۔ فصل 6)
* اگر تو فلاح چاہتا ہے تو اپنی نگاہوں سے توبہ کر اور اپنی توبہ میں اخلاص پیدا کر۔مخلوق کو اللہ کا شریک بنانے سے توبہ کرتیرا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کے لیے نہ ہو۔ ( الفتح الربانی ۔ مجلس 49)
توبہ عام یہ ہے کہ انسان ذکراللہ ومجاہدہ وسخت کوشش کے ذریعہ معصیت سے طاعت کی طرف، اور صافِ ذمیمہ سے او صافِ حمیدہ کی طرف، جہنم سے جنت کی طرف اور راحتِ بدن سے مشقتِ نفس کی طرف رجوع کرے اور توبہ خاص یہ ہے کہ توبہ عام حا صل کر لینے کے بعد انسان حسناتِ ابرار سے معارف کی طرف، درجات سے مراتبِ قرب کی طرف اور لذاتِ جسمانیہ سے لذا تِ روحانیہ کی طرف رجوع کرے اور ترک ماسویٰ اللہ کرکے اللہ سے اُنس ومحبت کا رشتہ جوڑے اور اس کی ذات کو بنظرِ یقین دیکھے۔ ( سِرّ الاسرار۔ فصل5)
تقویٰ
* تقویٰ کی حقیقت یہ ہے کہ جن کاموں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اس کو کرے اور جن کاموں سے بچنے کاحکم دیا ہے ان کو ترک کر دیا جائے اور اس کے افعال اور مقدرات پر تمام آفات ومصائب پر صبر کیا جائے۔ ( الفتح الربانی ۔ مجلس۔55)
* جس کو خلوت میں تقویٰ حاصل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعوی کرے وہ جھوٹا ہے ۔ ( الفتح الربانی ۔ ملفوظاتِ غوثیہ)
* اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نزدیک صحیح النسب صرف اہلِ تقویٰ ہیں ۔(الفتح الربانی ۔ ملفوظاتِ غوثیہ)
اے اللہ کے بندے ! اگر تو یہ چاہتا ہے کہ تیرے سامنے کوئی دروازہ بند نہ رہے پس تو تقویٰ اختیار کرکیو نکہ تقویٰ ہی ہر دروازے کی کنجی ہے کیو نکہ اللہ کا فرمان ہے :’’اور جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو۔‘‘ ( الفتح الربانی ۔ مجلس 3)
* اے مسلمانو! تم ہر حال میں تقویٰ اختیار کرو کیونکہ تقویٰ دین کالباس ہے۔ ( الفتح الربانی۔ مجلس39)
* تو تقویٰ اختیار کر ورنہ کل تیری گردن میں رسوائی کی رسی ہو گی ۔ تو دنیا میں اپنے تصرفات کے اندر تقویٰ اختیار کر ورنہ تیری خواہش دنیا اور آخرت میں حسرتوں سے بدل جائے گی ۔ ( الفتح الربانی ۔ مجلس 48)
تقدیر
* نبی کریم صلی اللہ علیہ وآ لہٖ وسلم نے فرمایا :’’ تمہارا ربّ مخلوق کی پیدائش ، رزق اور موت زندگی سے فراغت پا چکا ہے ۔ تمام ہونے والی چیزوں کا قلم خشک ہو چکا ہے ۔‘‘ حقیقت میں اللہ ہر شے سے فارغ ہو گیا ہے ۔ اس کی قضا سابق ہے لیکن حکم آیا اور اس پر امرو نہی اور الزام کا پردہ ڈالا گیا ہے ۔ پس کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ قضا وقدر کے حکم پر حجت لائے جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا بلکہ یوں کہنا چاہیے جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے:
ترجمہ:اللہ سے کسی کے فعل کا سوال نہ کیا جائے بلکہ ان سے پوچھا جائے گا۔( سورہ الانبیا)
جو شخص تقدیر کی موافقت نہ کرے گا نہ اس کو رفیق نصیب ہو گا نہ توفیق۔ جو قضائے الٰہی پر راضی نہ ہو گا اس سے رضا مندی نہیں کی جاتی اور جو دوسروں کو نہیں دیتا اسے عطا نہیں کیا جاتا اور جو بوجھ نہ اٹھائے وہ سوار نہیں کیا جاتا ۔ ( الفتح الربانی ۔ مجلس 1)
* اے وہ شخص جس کو اس کی حرص نے رسوا کر دیا ہے اگر تو اور تمام اہل زمین اس لیے جمع ہو جائیں کہ جو تیرے مقدر میں چیز نہیں ہے اس کو کھینچ لائیں تو ہر گز اس پر ان کو قدرت حاصل نہیں ہے، پس تجھے چاہیے کہ جو کچھ تیری قسمت میں لکھا جا چکا ہے اور جو کچھ قسمت میں نہیں لکھاگیادونوں کی حرص کو چھوڑ دے۔ عقل مند شخص کے لیے یہ امر کیونکر پسندیدہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنا وقت ایسی چیز میں ضائع کر دے کہ جس سے فراغت حاصل کر لی گئی ہے۔(الفتح الربانی ۔مجلس 49)
* اللہ تعالیٰ سے اس کی تقدیرپر رضامندی اور اس کی حکمتوں میں فنا ہو جانے کی نعمت طلب کر کیونکہ یہ اطمینان وشادمانی کا باعث ، دنیا کی جنت، قربِ الٰہی کا دروازہ اور محبت کا سبب ہے۔(فتوح الغیب۔ مقالہ 53)
تسلیم و رضا
* سیّدناغوث الاعظمؓ فرماتے ہیں’’ جب تجھے کسی حالت میں رکھا جائے اس سے اعلیٰ کی آرزو کر، نہ اس سے ادنیٰ کی خواہش کا ارادہ کر۔ (فتوح الغیب۔ مقالہ 8)
* اللہ تسلیم ورضا والے کو دوست رکھتا ہے اور جھگڑا کرنے والے کو دشمن۔ موافقت کرنا محبت کے لیے شرط ہے اور مخالفت کرنا شرطِ عداوت ہے تو اپنے پروردِگار کے سامنے اپنی گردنوں کو جھکا دو اور دنیا اور آخرت میں اسکی تدبیر پر راضی ہو جاؤ۔
* ایک مرتبہ میں چند دن ایک بلا میں مبتلا رہا ۔میں نے اللہ تعالیٰ سے اس بلا کے دفع کرنے کی درخواست کی پس اس نے دوسری بلا اس سے زیادہ مجھ پر ڈال دی ۔ پس میں حیرت میں پڑ گیا اور ناگاہ ایک کہنے والے کی آواز آئی اور کہا کیا ہم نے تجھ سے ابتدائی حالت میں یہ نہ کہہ دیا تھا کہ تیری حالت تسلیم کی حالت ہونی چاہیے پس میں نے ادب کیا اور ساکت ہو گیا۔ (الفتح الربانی ۔مجلس 46)
* سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا:
ترجمہ: ’’تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس طرح ہو جا جیسا کہ مردہ نہلانے والے کیساتھ‘ کہ جس طرح چاہتا ہے پلٹتا ہے ۔(الفتح الربانی ۔ مجلس 48)
* اللہ کی ذات پر بندے کا اعتراض کرنا جو کہ عزت وجلال والاہے، نزولِ تقدیر کے وقت، دین اور توحید کی موت ہے او ر توکل و اخلاص کی موت ہے اور یقین وروح کی موت ہے ۔مومن بندہ چوں وچرا نہیں جانتا بلکہ وہ صرف ہاں کہتاہے اور سر جھکا دیتا ہے۔ (الفتح الربانی۔مجلس 1)
* اسلام کی حقیقت گردن کو جھکادینا ہے ۔ اولیا کرام نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے سروں کو جھکا دیا اور ’ چوں وچرا‘اور اس کو یوں کر اور ’یوں نہ کر‘ کو بھلا دیا ہے ۔ اولیا طرح طرح کی طاعتیں کرتے ہیں اور اس کے سامنے خوف کے قدموں میں کھڑے رہتے ہیں۔ (الفتح الربانی ۔ ملفوظاتِ غوثیہ)
* اگر تیرے بدن کاگوشت قینچیوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کاٹا جائے تب بھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لا‘ شکوہ وشکایت سے اپنے آپ کو بچا اور محفوظ رکھ‘اللہ سے ڈر ‘اللہ سے ڈر ‘پھر اللہ سے ڈر۔بچ! بچ شکایت سے، لوگوں پر طرح طرح کی جو مصیبتیں نازل ہوتی ہیں وہ اپنے ربّ کی شکایت کی وجہ سے آتی ہیں۔( فتو ح الغیب ۔ مقالہ 18)
* رضا اور موافقت ہی وہ بلند مقام ہے جو اولیا اللہ کے مقامات واحوال میں سے بلند ترین مرتبہ ہے ۔ (فتوح الغیب)
* نعمتوں کے حصول اور مصائب سے بچنے کی کوشش نہ کر،نعمتیں اگر مقدر ہیں تو وہ تجھے مل کر رہیں گی چاہے توانہیں طلب کر ے یا ناپسند کرے ۔اسی طرح اگر مصیبت تیری قسمت میں ہے اور تیرے لیے اس کا فیصلہ ہو چکا ہے تو خواہ تو اسے نا پسند کرے یا دعا کے ذریعے اسے ہٹانا چاہے یا صبر اور جلدی جلدی اللہ کو راضی کی کوشش کرے تو بھی وہ مصیبت تجھ پر آکر رہے گی۔ بلکہ اپنے تمام امور خداہی کے سپرد کر دے تاکہ وہ خود تیرے اندر جلوہ گر ہو۔ (فتوح الغیب۔ مقالہ 13 )
* اللہ تعالیٰ کے سامنے خاموش رہنا اور صبرو رضا کے ساتھ سوال کر دینادعا وسوال کرنے سے بہتر ہے ۔تو اپنے علم کو اس کے سامنے ختم کر دے اور اس کی تدبیر کے سامنے اپنی تدبیر کو علیحدہ رکھ اور اپنے ارادہ کو اس کے ارادہ کے لیے منقطع کر اور اپنی عقل کو اس کی قضاوقدر کے نازل ہونے کے وقت علیحدہ کر دے اگر تو اللہ تعالیٰ کو پروردِگار، مدد گار اور سلامتی دہندہ سمجھتا ہے تو اس کے ساتھ یہی معاملہ کر ۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 56)
صبر
* صبر دنیا اور آخرت میں ہر نیکی و سلامتی کی بنیاد ہے اور صبر ہی کی بدولت مومن رضا اور موافقت کے مقام کیطرف ترقی کرتا ہے۔ (فتوح الغیب مقالہ 30)
* پس دنیا ایلوے کے درخت کی طرح ہے کہ پہلے اس کا پھل کڑوا ہے مگر اس کا انجام میٹھا ہے ۔کوئی بھی شخص اس کی تلخی پئے بغیر اس کی مٹھاس حاصل نہیں کر سکتایعنی اس کی کڑواہٹ پر صبر کیے بغیر حلاوت کا حصول ناممکن ہے ، لہٰذا جو مصائبِ دنیا پر صبر کرتا ہے اس پر دنیاوی نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ ( فتوح الغیب ۔ مقالہ 45)
* اے اللہ کے بندے !جس نے صبر کیا اس نے قدرت حاصل کی اور صاحبِ قدر ہوگیاکیو نکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’صبر کرنے والوں کو پوراپورا اجر دیا جائے گا۔‘‘ ( الفتح الربانی ۔ مجلس 3)
* فقر اور صبر دونوں سوائے مومن کے کسی دوسرے میں جمع نہیں ہو سکتے اور محبوبانِ رب ا لعالمین کی مصائب وآرام سے آزمائش کی جاتی ہے ۔پس وہ اس پر صبر کرتے ہیں اور باوجود بلاؤں اور آزمائش کے ان کونیک کام کرنے کاالہام کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نئے مصائب پہنچتے ہیں وہ اس پر صبر کرتے ہیں۔ (الفتح الربانی۔ مجلس2)
* اگر صبر نہ ہو تو تنگ دستی و مصیبت ایک عذاب ہے ۔ اگر صبر ہو تو کرامت وعزت ہے ۔ بندۂ مومن صبر کی معیت میں اللہ تعالیٰ کا قرب اور مناجات کے مزے لیاکرتا ہے اور وہاں سے ہٹنے کو پسند نہیں کرتا۔ ( الفتح الربانی ۔ ملفوظات غوثیہ)
* جب تو صبر کرے گا تو اللہ تعالیٰ تجھ سے بلا کو ہلکا کردے گا اور تیرے لیے کوئی دوسراامر پیدا کردے گا کہ وہ بھی اس کو محبوب رکھے گا اور توُ بھی اس کو محبوب سمجھے گا۔ ( الفتح الربانی۔ مجلس 48)
الہام
* اللہ تعالیٰ انبیا کرام ؑ کی تربیت اپنے کلامِ وحی سے فرماتاہے اور اولیا کرام ؒ کی تربیت اپنی حدیث سے کرتا ہے جو کہ الہامِ قلبی ہے۔ اولیا کرام انبیا کرام کے جانشین ،خلیفہ اور غلام ہیں۔اللہ تعالیٰ کلام کرنے والا ہے اور کلام اس کی صفت ہے۔( الفتح الربانی۔مجلس3)
* کسی نے سیّدنا غوث الاعظمؓ سے سوال پوچھا کہ اللہ کا پیغام انبیا کرام ؑ کی طرف جبرائیل علیہ اسلام لاتے تھے پس اولیا کرام کی طرف اللہ کا پیغام پہنچانے والا کون ہے ؟آپؓ نے ارشاد فرمایا ’’اولیا کرام کا پیغام رساں بلاواسطہ اللہ تعالیٰ خود ہی ہے ۔ وہ اس کی رحمت و لطف واحسان والہام اور اس کی توجہاتِ مخصوصہ سے جو کہ وہ اولیا کرام ؒ کے قلوب واسرار کی طرف رکھتا ہے ،ان پر مہربانیاں فرماتا ہے ۔ وہ اس کو اپنے دل کی آنکھوں اور باطن کی صفائی اور ہر وقت کی بیداری سے سوتے اور جاگتے ہمیشہ دیکھتے رہتے ہیں۔ (الفتح الربانی۔ مجلس53)
* سیّدنا غوث الاعظمؓ نے فرمایا کہ مخلوق میں چند ہی لوگ ایسے ہیں جن کے دلوں کی طرف الہام کیا جاتا ہے۔ ان میں وہ کلمات ڈال دیے جاتے ہیں جو صرف انہی کے لیے مخصوص ہیں ۔بھلائی پر ان کو خبردار کر دیا جاتا ہے اور اسی پر ٹھہرادئیے جاتے ہیں ۔ ایسا کیو نکر نہ ہو گا کہ وہ تمام اقوال وافعال میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پیرو کار ہوتے ہیں ۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر وحی ظاہری طور پر بھیجی جاتی تھی اور اولیا کے دلوں کی طرف باطنی طور پر وحی بھیجی جاتی ہے کیو نکہ اولیا کرام سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وارث ہیں اور تمام احکام میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تابعداری کرتے ہیں۔ ( الفتح الربانی۔ مجلس 51)
* جس شخص کی بندگی اور تابعداری اللہ تعالیٰ کے لیے محقق ہو جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو سننے پر قُدرت حاصل کر لیتا ہے ۔ (الفتح الربانی۔مجلس 59)
استقامت
سیّدناغوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
* فقر اور بلا پر ثابت قدم رہنے کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت قرار دیاگیاہے ۔
اے طالبِ دنیا! تو نعمت کی حالت میں اللہ تعالیٰ کو دوست سمجھتا ہے اور اس کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے ، لیکن جب اس کی طرف سے بلا آتی ہے توُ بھاگ کھڑا ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ تیرا دوست ہی نہ تھا۔ بندگی اور بندہ ہونے کا اظہار امتحان کے وقت ہوتا ہے ۔جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصائب وآلام کانزول ہو اور تو ان پر ثابت قدم رہاتو توُ اللہ تعالیٰ کا بندہ اور دوست ہے اگر اس وقت تجھ میں تغیر پیدا ہو گیا تو تیرا جھوٹ ظاہر ہو جائے گا اور پہلا (محبت کا) دعویٰ ٹوٹ جائے گا ۔ ( الفتح الربانی ۔مجلس 1)
* اے اللہ کے بندے ! اللہ کے سامنے ایسا بن جا کہ مصائب تیرے اوپر نازل ہوتے رہیں تو اپنی محبت کے قدموں پر قائم رہے اور تجھ میں با لکل تغیر پیدا نہ ہو او رتجھ کو تیز ہوائیں اور بارشیں اپنی جگہ سے نہ ہلاسکیں اور نہ نیزے تجھے زخمی کر سکیں اور توُ ظاہراً اور باطناً ثابت قدم رہے۔ ( الفتح الربانی ۔ مجلس 40)
* اے کم عقل! توُ کسی مصیبت کی وجہ سے جس میں تجھے اللہ تعالیٰ مبتلا فرمائے‘ اس کے دروازے سے نہ بھاگ کیونکہ وہ تیری مصلحت کو تجھ سے زیادہ جاننے والاہے ۔ وہ کسی فائدہ اور حکمت کے لیے تیرا امتحان لیا کرتا ہے ۔ جب وہ تیرا کسی بلا کے ساتھ امتحان لے پس اس پر ثابت قدم رہ اور اپنے گناہوں کی طرف رجوع کر اور استغفار کر، توبہ زیادہ کر اور اس پر صبر اور ثابت قدمی کی درخواست کرتا رہ۔ ( الفتح الربانی ،مجلس50)
سیّدنا غوث الاعظمؓ کی تعلیماتِ فقر کو تفصیلات سے پڑھنے کے لیے سلطان الفقر پبلیکیشنز کی مطبوعہ کتاب’’حیات وتعلیمات سیّدنا غوث الاعظمؓ ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔