قربِ دیدار | Qurb e Deedar


Rate this post

قربِ دیدار

شرح تصور

تصور سے بغیر ریاضت کے راز، بغیر محنت کے معرفت اور بے قراری کے بغیر قربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے۔ ابتدا میں طالب سی حروف والے قاعدہ کا تصور کرتا ہے جس کے ہر حرف کا تصور اسے قربِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف کر دیتا ہے۔ پہلا سبق جو طفل خوانی کی طرح ہے، آغاز میں ہی صاحبِ تصور کو قرب فی اللہ لامکانی اور لاتعداد و لاحد ہدایتِ رحمانی عطا کر کے اس کے تصفیہ شدہ قلب کو مدینۃ القلب بنا دیتا ہے اور اسے تصورِ طواف القلب میں مشغول کر دیتا ہے۔ باطنی آنکھوں کو حاصل ہونے والا یہ تصور عین عنایتِ الٰہی ہے جو طالب کو فرد الفرد بنا کر فرحتِ روح، فیض السرّ، قربِ سرّ اسرار جمعیتِ کل اور اللہ پر توکل عطا کرتا ہے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حسن و جمالیت (کے دیدار) سے مکرم کر دیتا ہے۔ 

تصور کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں:
تصورِ غواصی، تصورِ غیاثی، تصورِ غوثی، تصورِ قطبی، تصورِ اخلاصی، تصورِ حیاتی، تصورِ مماتی، تصورِ توحیدی، تصورِ تفریدی، تصورِ تجریدی، تصورِ دعوتی، تصورِ توفیقی، تصورِ حقیقی، تصورِ طریقی، تصور جامع الجمعیت کل، تصورِ کلید، تصورِ زائد، تصورِ فکر، تصورِ فنا النفس، تصورِ قلبی، تصورِ روحی، تصورِ سرّی، تصورِ بقا البقا، تصور فنا الفنا، تصورِ فضلی، تصورِ فیضی، تصورِ ذات، تصورِ صفات، تصورِ کل۔

یہ سب تصورات سی حروف والے قاعدے کا مجمل مجموعہ ہیں۔ اگر مرشد کامل چاہے تو طالب کو یہ تمام تصورات ایک ہی قدم اورلمحہ میں طے کروا دے جس سے اس کا حوصلہ وسیع اور وجود پختہ ہو جاتا ہے اور وہ علما باللہ اور فقیر فی اللہ کے مراتب اور کرامت معنوی سے متصل ہو جاتا ہے۔ مرشد کامل مکمل اکمل الکل عارف باللہ شہسوار ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں تصور کی تیغِ برہنہ ہوتی ہے جو مثلِ ذوالفقار ہے۔ اس کا قلب زندہ ہوتا ہے جس میں وہ دونوں جہاں کا تماشا دیکھتا ہے۔ اس کی روح بیدار ہوتی ہے اور وہ دیدارِ الٰہی کے نوری مشاہدات اور حضوری سے مشرف ہونے کے لائق ہوتا ہے۔   قطعہ

ہر کرا ز تصور کامل الکلی وصال
عین باعینش رسد حق الجمال

ترجمہ:جو تصور میں کامل ہو جائے وہ مکمل وصال سے مشرف ہو جاتا ہے۔ وہ عین اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور حق الجمال تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔

ہر کہ دیوانہ شود باذکر حق
زیر پائش عرش و کرسی ہر طبق

ترجمہ: جو کوئی دیوانہ وار ذکر ِ حق کرتا ہے اس کے قدموں تلے عرش و کرسی اور زمین و آسمان کے تمام طبق آ جاتے ہیں۔

فقہ خوان اور افسانہ گو لوگوں کے بہت سے مراتب ہوتے ہیں لیکن ان کا باطن معرفتِ خداوندی کے احوال سے بے خبر ہوتا ہے۔ جو طالب مستی میں بھی شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہوشیاری سے کاربند رہتا ہے وہ معرفت کا مغز حاصل کر لیتا ہے اور صاحبِ توفیق، حق کا رفیق اور عین العیان دیدار کا نظارہ کرنے والا بن جاتا ہے۔ جس کا سرّ و باطن صحیح ہوتا ہے وہی بااعتبار ہوتا ہے۔ اس کی آنکھوں کو ازل سے ابد تک اور دنیا سے آخرت تک نورِ ذات خداوندی کا مشاہدہ حاصل ہوتا ہے۔ وہ غیر شرعی کاموں سے باشعور رہتا ہے اور بدعت و حبِ دنیا سے ہزار بار استغفار کرتا ہے۔ جس طالب کی نگاہیں ازلی چشمۂ فیض و فضل سے سیراب ہو جاتی ہیں اسے دیدارِ الٰہی حاصل ہو جاتا ہے۔ اس کی نگاہیں چشمِ دیدار کے نور سے روشن ہوتی ہیں لہٰذا کوئی راز اس سے چھپا نہیں رہتا کہ حق کو پوشیدہ رکھنا کفر ہے اور دین میں باطل کی ملاوٹ کرنا شرک ہے۔ (نعوذ باللہ منہا)

  جان لے کہ فقیرِ کامل کی انتہا کیا ہے؟ اس کی انتہا یہ ہے کہ اس کے ورد وظائف قدرتِ الٰہی سے، اس کی تلاوت قدرتِ الٰہی سے، اس کی نماز قدرتِ الٰہی سے، اس کا ذکر قدرتِ الٰہی سے، اس کا فکر‘ فکرِ قدرتِ الٰہی سے، اس کا مذکور‘ مذکورِ قدرتِ الٰہی سے، اس کا الہام‘ الہامِ قدرتِ الٰہی سے، اس کی حضوری‘ حضوریٔ قدرتِ الٰہی سے، اس کا تصور‘ تصورِ قدرتِ الٰہی سے، اس کا تصرف‘ تصرفِ قدرتِ الٰہی سے، اس کی نظر‘ نظرِ قدرتِ الٰہی سے، اس کا مشاہدہ‘ مشاہدۂ قدرتِ الٰہی سے، اس کانور‘ نورِ قدرتِ الٰہی سے، اس کا غرق فی التوحید ہونا توحیدِ قدرتِ الٰہی سے، اس کا ذکرِ زبان‘ ذکرِ زبانِ قدرتِ الٰہی سے، اس کا فنا فی اللہ ہونا اور مع اللہ ذکرِ روح کرنا‘ ذکرِ روح قدرتِ الٰہی سے، اس کے نفس کا فنا ہونا بقائے قدرتِ الٰہی سے، اس کا سرّ‘ سرّ قدرتِ الٰہی سے، اس کا فیض‘ فیضِ قدرتِ الٰہی اور فضل و عطائے الٰہی ہوتا ہے۔

یہ مراتب قربِ الٰہی کے مراتب ہونے کے باعث نور ہیں اور ہر ایک مرتبہ پر ہزار ہا بلکہ بے شمار انوار وارد ہوتے ہیں جس سے طالب صاحبِ مذکور اور صاحبِ حضور بن جاتا ہے اور اس کا وجود مغفور ہو جاتا ہے۔ اگرچہ وہ خلقت میں گمنام ہوتا ہے لیکن باطن میں اٹھارہ ہزار عالم میں مشہور اور ظاہر ہوتا ہے۔   ابیات

فقر از نور است نور از نور شد
قلب قالب نور و جان مغفور شد

ترجمہ: فقر نور سے ہے اس لیے خود بھی نور ہے۔ اس نور کے طفیل قلب قالب نور ہو گئے اور وجود مغفور ہو گیا۔

فقر سرّی از خدا اسرار راز
باحضوری قلب قالب بانماز

ترجمہ:فقر اللہ کے رازوں کا راز ہے جو قلب و قالب کو حضوری والی نماز سے مشرف کر دیتا ہے۔

گر ترا چشم است زین احوال بین
پنج را باپنج بردار و یقین

ترجمہ: اگر تیرے پاس چشم بینا ہے تو اس سے ان احوال کو دیکھ۔ جب باطنی پانچ حواس ظاہری پانچ حواس پر حاوی ہوتے ہیں تو طالب کو کامل یقین حاصل ہو جاتا ہے۔

ہر طرف بینم بہ بینم ذات نور
قبلہ نورش سجدہ با جان شد حضور

ترجمہ: میں جس طرف بھی دیکھتا ہوں اس کی ذات کا نور نظر آتا ہے۔ میرا قبلہ نورِ ذات ہے جس کو سجدہ کرنے سے میری روح حضوری سے مشرف ہو گئی ہے۔

دل ترا رفتہ است باخطرات گاہ
باادب در سجدہ بر قبلہ نگاہ

ترجمہ: تیرا دل خطرات کی جانب کیوں مائل ہو گیا ہے؟ تو سجدے میں باادب رہ اور اپنی نگاہ قبلہ کی طرف رکھ۔

در عبادت سجدہ دل تو کی ربود
عارفان رو قبلہ دل باحق نمود

ترجمہ: عبادت کرتے ہوئے سجدے میں تیرا دل کون لے گیا؟ عارفین کا چہرہ قبلہ کی طرف اور دل میں حق کا جلوہ رہتا ہے۔

الٰہی! ہمیں نماز میں راز عطا فرما! جس نمازی کا دل نماز میں بانیاز، باحضور اور تصور مع اللہ میں مشغول رہتا ہے اسے حق کی طرف سے برحق راز عطا ہوتے ہیں۔ ایسا نمازی ہی صاحبِ ذکر ہے۔

جان لے کہ فقیر ولی اللہ، اولیا اللہ، عارف باللہ، کامل کل جامع الجمعیت اور کل الکلید ہوتا ہے۔ قادری چند چیزوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ پہلی یہ کہ وہ خلق کی نظر میں گدا ہوتا ہے لیکن خالق کی نظر میں غنی ہو تا ہے۔ وہ مخلوق کے نزدیک رنج میں ہوتا ہے لیکن خالق کے ہاں وہ صاحبِ گنج ہوتا ہے۔ صاحبِ گنج ناظر مرشد اسے اللہ تعالیٰ سے خزائن و گنج دلوا کر لایحتاج بنا دیتا ہے۔ خلقت کے نزدیک وہ اہلِ سوال ہوتا ہے لیکن خالق کے نزدیک وہ عارف باللہ ولی اللہ باقرب و وصال ہوتا ہے۔ خلق کی نگاہ میں جاہل ہوتا ہے لیکن خالق کے نزدیک عالم فاضل فیض بخش اور نافع المسلمین ہوتا ہے۔ جاہل اسے کہتے ہیں جو عالم کے علم کا مخالف ہو۔ مخلوق کے نزدیک قادری اہلِ تقلید ہوتا ہے لیکن خالق کے نزدیک فنا فی اللہ اور فنا فی التوحید ہوتا ہے۔ ابیات

مرد آن باشد کہ باشد شہ شناس
می شناسد شاہ را در ہر لباس

ترجمہ: مرد وہ ہوتا ہے جو بادشاہ کی پہچان رکھتا ہے اور اسے ہر لباس میں پہچان لیتا ہے۔

باھوؒ می شناسد اولیا را با نظر
ہمچو زرگر می شناسد سیم و زر

ترجمہ: باھوؒ اولیا اللہ کو ایک ہی نظر میں پہچان لیتا ہے جیسے سنار سونے چاندی کو پہچان لیتا ہے۔

شرح ذکرِ قلب و زندگیٔ قلب و بیداریٔ قلب و بقائے قلب و قوت و توفیقِ قلب

طالبِ مولیٰ کا قلب جب ایک بار بیدار ہوجاتا ہے تو پھر دائمی طور پر اللہ کی جانب متوجہ رہتا ہے اور طالب اللہ کا مشتاق، عاشق اور دیوانہ بن کر اس کے دیدار سے مشرف اور پروردگار کی ربوبیت اور رویت میں مستغرق رہتا ہے۔ بعض کو مراقبہ میں اور بعض کو خواب میں وصال نصیب ہوتا ہے۔ ایسا خواب یا مراقبہ عام خواب و خیال نہیں ہوتا۔ بعض مقامِ عین العیان سے بھی آگے گزر جاتے ہیں۔  جو طالب خام نفس، کیفِ جان، حبِ دنیا اور خطراتِ نفسانی سے نجات حاصل کر لیتا ہے اس کا قلب ذکرِ الٰہی سے دائمی بقا حاصل کر کے وحدانیت میں غرق اور ربّ العالمین کے دیدار سے مشرف رہتا ہے۔ ایسا طالب مولیٰ زندگی میں بھی اللہ کے ساتھ رہ کر اس کی قدرت کی نشانیوں سے لذت اٹھاتا ہے اور قبر میں بھی ہرگز نہیں مرتا۔ اس صاحبِ قلب کی قبر خلوت خانہ کی مثل ہوتی ہے جہاں وہ اس طرح رہتا ہے جیسے خواب میں اللہ کے ساتھ ہو۔ ذکرِ الٰہی کی برکت سے نہ اسے کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں نہ خاک اس کے وجود کو میلا کرتی ہے۔ بلکہ اس کا جسم زندہ قلب کی بدولت خشک و صاف رہتا ہے۔ یہ صاحبِ قلب قیامت کے روز اپنی قبر سے جذب، وجد اور سکر کی کیفیت میں اُٹھے گا اور اُڑ کر عرشِ اکبر پر پہنچے گا۔ حالتِ جذب میں وہ اپنا سر عرش اکبر سے ٹکرائے گا اور اپنا ہاتھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دامن پر رکھ دے گا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لطف و کرم اور التفات سے فرمائیں گے ’’اے جذب قلب رکھنے والے صاحبِ ذکر! ہوش میں آجا کہ آج قیامت کا دن ہے‘‘۔ پھر وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی صحبت اور دیدارِ الٰہی سے مشرف ہو کر ہمیشگی کی حیات پا لے گا اور بغیر حساب کتاب کے بہشت میں داخل ہو جائے گا۔ یہ ہیں مراتبِ  مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا ’’مرنے سے پہلے مر جاؤ‘‘۔ باطن صفا ذاکر ِ قلبی زندگی میں اور مرنے کے بعد جس وقت بھی دیدارِ الٰہی سے مشرف ہوتا ہے، دنیا و عقبیٰ کی آسائشوں اور حورو قصور کو بھول جاتا ہے۔
تَنْسَوْنَھَا بِغَمٍّ اِذَا رَایٰھَا 
ترجمہ: جب وہ اللہ کا دیدار کرتے ہیں تو تمام غم بھول جاتے ہیں۔
ذکر قلبی ان ہی لوگوں کو نصیب ہوتاہے جو روزِ ازل ہی سے فیض و فضلِ الٰہی سے بہر ور ہوتے ہیں۔ ذکر قلبی کی حقیقت ان ہی سے معلوم کرنی چاہیے۔
بیت

ذکر قلبی طلب کن قرب از قلب
ذاکر قلبی بمحرم راز رب

ترجمہ:  ایسے قلب سے ذکرِ قلبی طلب کر جسے قربِ الٰہی حاصل ہو۔ ذاکر قلبی اللہ کا محرمِ راز ہوتا ہے۔

پس معلوم ہوا کہ قدرت الٰہی سے اسمِ اعظم قلب میں مرقوم ہوجاتا ہے جس سے قلب میں ایمان کا نور پیدا ہوتا ہے کیونکہ اسمِ  اللہ ذات نورِ رحمان کی تاثیر رکھتا ہے۔ اس نور کی برکت سے طالب روشن ضمیر اور عین العیان بن جاتا ہے۔ جب قلب میں سے اسم اعظم اور اسم اللہ  ذات کا نور، جو درحقیقت ایمان کا نور ہے کہ ایمان اللہ کی عطا اور نور ہے، آفتاب کی طرح طلوع ہو کر چمکتا ہے اور قلب سے نورِ حق و ایمان کا جلوہ اٹھتا ہے تو قربِ رحمانی کی بدولت نورِ ایمان طالب کے سر سے قدم تک ہر عضو میں سرایت کر جاتا ہے۔ اس کے وجود میں سر سے قدم تک غل و غش، جھوٹ، تکبر اور عقل سے پیدا ہونے والی نفسانی خواہشات نکل جاتی ہیں۔ اس کے بعد جب اسم اللہ  ذات کا تصور کیاجاتا ہے تو اسم اللہ  ذات کے چار حروف سے طالب کے وجود میں توکل، ترک، معرفت اور توحید کے چار دریا رواں ہو جاتے ہیں۔ جب وہ ان دریاؤں میں غوطہ لگاتا ہے تو فقیر عارف باللہ بن جاتا ہے۔ یہ مراتب ذاکر کو ضربِ قدرت اور نور الہدیٰ قادر کی قوت سے حاصل ہوتے ہیں۔
 ابیات

قادری صاحب ادب راسخ یقین
قادری از عین رحمت راز بین

ترجمہ: قادری صاحبِ ادب اور پختہ یقین رکھنے والا ہوتا ہے۔ وہ عینِ رحمت سے رازِ الٰہی دیکھتا ہے۔ 

قادری صاحب نظر صاحب کرم
باحیا و قادری اہل از شرم

ترجمہ: قادری صاحبِ نظر اور صاحبِ کرم ہوتا ہے۔ وہ باحیا اور اہلِ شرم ہوتا ہے۔

قادری را شیر نر روبہ نظر
بانظر ہرگز نہ بیند سیم و زر

ترجمہ: قادری کے سامنے نر شیر بھی لومڑی کی طرح نظر آتا ہے۔ قادری کی نظر سیم و زر کی طرف ہرگز نہیں جاتی۔

(جاری ہے)

 


اپنا تبصرہ بھیجیں