فقر کل اور آج | Faqr Kal aur Aaj


Rate this post

فقر کل اور آج

تحریر:فائزہ گلزار سروری قادری۔ لاہور

فقر کوئی محدود اصطلاح نہیں ہے، یہ اسمِ اللہ ذات کے ’’الف‘‘ سے شروع ہوکر ’’ہ‘‘ تک کا سفر ہے جو ’’ہ‘‘ پر پہنچ کر بھی ختم نہیں ہوتا بلکہ یہاں سے ایک لامحدود سفر کا آغاز ہوجاتا ہے۔ فقر باطن کا ایک انتہائی اعلیٰ مقام ہے جس کے برابر کوئی مرتبہ ہے نہ مقام۔ چونکہ فقر لامحدود ہے اس لیے اس کا آغاز بھی انسانی سوچ کی محدود حدود سے بہت پرے ہے۔ یہ انسان کی ابتدا بلکہ اس کی ابتدا کی سوچ سے بھی بہت پہلے سے ہے اور کائنات کی انتہا کے بعد بھی صرف فقر ہوگا۔ کیونکہ فقر درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات با برکات ہے۔ تمام فقرا کاملین نے اس حقیقت کو گاہے بہ گاہے اپنی تعلیمات میں بیان کیا ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان عالیشان ہے:
٭ فقر عین ذات پاک ہے۔ (عین الفقر)
سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ ’’رسالۃ الغوثیہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
٭ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا ’’اے غوث الاعظمؓ! اپنے اصحاب و احباب سے کہہ دو کہ تم میں سے جو کوئی میری صحبت چاہے تو فقر اختیار کرے۔ جب ان کا فقر پورا ہو جائے تو وہ نہیں رہتے بجز میرے۔‘‘
اللہ کی ذات لامحدود اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ لہٰذا فقر بھی لامحدود اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: 
کُلُّ  مَنْ  عَلَیْہَا  فَانٍ۔ وَّ یَبْقٰی وَجْہُ  رَبِّکَ ذُوالْجَلٰلِ وَ الْاِکْرَامِ۔ (الرحمن: 27-26)
ترجمہ: ہر شے فنا ہو جانے والی ہے۔ اور آپ کے ربّ ہی کی ذات باقی رہے گی جو صاحب ِ عظمت و جلال اور صاحب ِ اکرام ہے۔

تبدیلی کائنات کا اصول ہے جو چیزیں تبدیل نہیں ہوتیں وہ ختم ہو جاتی ہیں۔

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
(اقبالؒ)

یعنی کائنات مسلسل اپنے ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہے اور ہر آنے والے دور میں اللہ ربّ العزت یعنی فقر ایک نئی صورت اور شان کے ساتھ جلوہ گر رہاہے۔
فقر ایک قدیم ترین شے ہے یقینا یہ کل جس صورت میں موجود تھی وہ صورت آج نہیں ہوگی لیکن اسی شان اسی آن بان سے موجود ہوگی اور وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہو گی۔ سورۃ الرحمن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فر ماتا ہے:
کُلَّ  یَوْمٍ ہُوَ  فِیْ شَاْنٍ (الرحمن۔29)
ترجمہ: وہ ہر آن نئی شان میں ہوتا ہے۔
فقرا کاملین نے انسان کی تخلیق کے چھ مراتب بیان کیے ہیں جنہیں تنزلاتِ ستّہ کہا جاتا ہے۔ تنزلاتِ ستّہ کے مطابق اللہ ربّ العزت نے احدیت سے وحدت میں، وحدت سے واحدیت میں اور واحدیت سے جبروت پھر ملکوت اور ناسوت میں نزول فرمایا۔ جب یہ ذات مقامِ احدیت میں ہوتی ہے تو اس کی شان لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٍ (کوئی شے اس کی مثل نہیں) ہے۔ جس طرح اللہ کو اس مقام پر علمی و عقلی بنیادوں پر جاننا نا ممکن ہے بالکل اسی طرح فقر کو بھی علمی و عقلی بنیادوں، تشبیہات اور استعاروں سے سمجھنا ناممکن ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی ذات نے احدیت سے وحدت میں، وحدت سے واحدیت میں اور واحدیت سے جبروت، ملکوت اور پھر ناسوت میں نزول فرمایا تو ان گنت نئی صورتیں تخلیق ہوئیں لیکن اصل صورت وہی رہی جو روزِ ازل سے تھی اور روزِ ابد تک رہے گی۔ فقرا کاملین اور عارفین باللہ ہر دور میں اس حقیقت سے عوام الناس کو ان کی استعداد کے مطابق اور خواص کو ان کے مقام کے مطابق آگاہ فرماتے رہے ہیں۔
اس حقیقت کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ’’سلطان الوَھَم‘‘ میں ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
٭ اے جانِ عزیز! یہ بات یاد رکھ کہ تجلی اوّل یعنی پہلی تجلی ’احمد‘ ہے اور یہ تجلّی خاص خاتم الانبیا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت کا خاصہ ہے۔ اور اس کی تعریف یہ ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ اٰدَمَ عَلیٰ صُوْرَۃِ الرَّحْمٰن  ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔

مزید فرمایا:
٭ پہلی تجلی یا تجلی اوّل کی علامت یہ ہے کہ ایک صورت دو دفعہ ظاہر نہیں ہوتی اور دو آئینوں میں ایک صورت ایک ساتھ ایک جیسی نظر نہیں آتی۔
’’قوت القلوب‘‘ میں شیخ ابو طالب مکی قدس اللہ سرّہٗ فرماتے ہیں:
لَا یَتَجَلّٰی فِیْ صُوْرَۃٍ مَرَتَیْنِ
وَلَا یَتَجَلّٰی فِیْ صُوْرَۃِ الْاَثْنَیْنِ
ترجمہ: وہ ایک صورت میں دو دفعہ ایک جیسی تجلی نہیں کرتا اور نہ ہی دو صورتوں میں ایک جیسی تجلی فرماتا ہے۔

شیخ فخر الدین عراقی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

چوں جمالش صد ہزاراں روئے داشت
بود در ہر ذرہ دیدارِ دگر

ترجمہ: چونکہ اللہ تعالیٰ کے جمال کی کئی سو ہزار بلکہ بے شمار صورتیں ہیں اس لیے وہ ہر ذرّہ میں ایک نئی صورت میں جلوہ گر ہے۔

لا جرم ہر ذرہ را بنمود!!
بازار از جمالے خویش رخسارے دگر

ترجمہ: بے شک وہ ہر ذرہ میں ایک نئی صورت سے جلوہ گر ہے۔ جب بھی تو اسے دوبارہ دیکھے گا تو وہ پہلی والی صورت میں نظر نہیں آئے گا بلکہ ایک نئی صورت میں اپنے جمال کے جلوے بکھیرتا ہوا نظر آئے گا۔

خودیکیست آں اصل عدد
بہر آنکہ تا بود ہر دم گرفتار دِگر!

ترجمہ: حقیقت میں تو وہ ذات ایک ہی ہے۔ بہرحال وہ ہر لمحے ایک نئی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
بابا فریدؒ فرماتے ہیں:

بن دلبر شکل جہان آیا
ہر صورت عین عیان آیا
کتھے آدمؑ تے کتھے شیثؑ نبی
کتھے نوحؑ کتھاں طوفان آیا
کتھے ابراہیمؑ خلیل نبی
کتھے یوسفؑ وچ کنعان آیا
کتھے عیسیٰؑ تے الیاسؑ نبی
کتھے لچھمن رام تے کاہن آیا
کتھے زکریاؑ کتھے یحییٰؑ اے
کتھے موسیٰؑ بن عمران آیا
کتھے احمدؐ شاہ رسولاں دا
محبوب سبھے مقبولاں دا
استاد نفوس عقولاں دا
سلطاناں سر سلطان آیا

علامہ ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
٭ چونکہ سرورِ کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں نہ ہی رسول جو نئی شریعت لائے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد ہر زمانہ میں ایک ایسا مردِ کامل ہوتا رہے گا جس میں حقیقت ِ محمدیہ کا ظہور ہوگا اور وہ فنا فی الرسول کے مقام سے مشرف ہو گا۔ وہ مردِ کامل قطب ِ زماں ہے اور ہر زمانہ میں ایک ولی اس منصب پر فائز کیا جاتا ہے۔ ہر زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ازل سے لے کر ابد تک اپنا لباس بدلتے رہتے ہیں اور اکمل افراد کی صورت پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ظاہر ہوتے ہیں۔ (فصوص الحکم والایقانؒ)
سیّد عبدالکریم بن ابراہیم الجیلی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے دور میں اپنی شاہکار تصنیف ’’انسانِ کامل‘‘ میں بیان فرمایا:
٭ حقیقت ِ محمدیہ ہر زمانہ میں اس زمانے کے اکمل کی صورت میں اس زمانہ کی شان کے مطابق ظاہر ہوتی ہے۔ یہ انسانِ کامل اپنے زمانہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خلیفہ ہوتا ہے۔
علامہ اقبالؒ نے اس حقیقت کو جب الفاظ کاجامہ پہنایا توکچھ یوں فرمایا:
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
اس شعر میں آپؒ آیت ِ قرآنی کُلَّ  یَوْمٍ ہُوَ  فِیْ شَاْنٍ  (ترجمہ: وہ ہر آن نئی شان میں ہوتا ہے) ہی کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں۔ یہاں مومن سے مراد ہر کلمہ گو نہیں ہے بلکہ مومن سے مراد ’’انسانِ کامل‘‘ ہے، انسانِ کامل وہ بلند اور برتر ہستی ہے جو فنا فی الرسول، فنا فی اللہ اور بقا باللہ کے مقام پر فائز ہوتی ہے اور ذات کی تکمیل کے تمام مراحل طے کر کے عوام الناس کو فلاح کی طرف بلانے اور خواص کو معرفت اور قرب و وِصال تک پہنچانے کے منصب پر فائز ہوتی ہے۔ اقبالؒ فرماتے ہیں انسانِ کامل کی ہر روز ایک نئی شان ہوتی ہے اور اس کا ہر عمل اور ہر قول اللہ کے وجود کی دلیل ہوتا ہے۔

او کلیمؑ و او مسیحؑ و او خلیلؑ
او محمدؐ او کتاب او جبرئیلؑ

مفہوم: وہ (انسانِ کامل) ہی کلیم اللہ (حضرت موسیٰ علیہ السلام) ہے، وہی مسیح ؑ اور خلیل اللہ (حضرت ابراہیم علیہ السلام) ہے۔ وہ محمدؐ ہے وہ کتاب (قرآن) ہے وہ جبرائیلؑ ہے۔

وہ خود راستہ اور خود ہی منزل ہے

سلطا ن العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
٭ خود ناطق و خود منطوق، خود کاتب و خود مکتوب، خود دال و خود مدلول، خود عاشق و خود معشوق۔ (رسالہ روحی شریف)
ترجمہ: (وہ) خود کلام کرنے والا اور خود ہی کلام ہے، خود لکھنے والا اور خود کتاب ہے، خود اپنی دلیل اور خود دلالت کیا گیا ہے، خود عاشق اور خود معشوق ہے۔
مختصر یہ کہ فقر اللہ تعالیٰ کی ذات پاک بھی ہے اور اللہ تک پہنچنے کا راستہ بھی ہے۔ اس راستے کا ساز و سامان بھی اللہ یعنی اسمِ اللہ ذات ہے اور اس راہ کا راہبر بھی صاحب ِ مسمّٰی مرشد کامل اکمل ہی ہے۔ صاحب ِ مسمّٰی مرشد فنا فی اللہ بقا باللہ ہوتا ہے ایسے مرشد کے متعلق حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
عارف باللہ فنا فی اللہ فقیر اسے کہتے ہیں جو فنا فی الرسول ہو، فنا فی فقر ہو اور فنا فی ’ھُو‘ ہو۔ (عین الفقر)
ذیل میں مختلف ادوار کے صوفیا اور فقرا کے فرمودات پیش کیے جا رہے ہیں جن سے یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں ہوگا کہ ہر دور میں اللہ تک پہنچنے کا راستہ فقر ہی رہا ہے۔

فقر مختلف ادوار میں آنے والے فقرا  اور اولیا کی نظر میں

حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
٭ اللہ کی رضا کا طمع دراصل فقر ہے اور مخلوق سے بے نیاز ہونا ’’غنا‘‘ ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
٭ جو اہل ِ بیت سے محبت کرے اسے جامہ فقر پہننے کے لئے تیار ہوجانا چاہیے۔ (نہجہ البلاغہ)
یعنی فقر اہل ِ بیتؓ کی بارگاہ سے ہی حاصل ہوتا ہے اور اہل ِ بیت ؓ کی محبت فقر کی علامت ہے۔ لیکن یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ محبت غیر مشروط وفاداری اور پیروی کا نام ہے۔ فتنہ و فساد برپا کرنا محبت نہیں کہلاتا۔
شیخ عبدالواحد بن زید رحمتہ اللہ علیہ حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہٗ کے خلیفہ ہیں، آپؒ فرماتے ہیں:
٭ صوفی وہ ہے جو اپنے آقا و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ فقر کا تعلق رکھتا ہے۔
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فقر کے بارے میں فرماتے ہیں:
٭ فقر دل (باطن) کو توہمات (غیراللہ) سے خالی رکھنے کا نام ہے۔ (معالی الہمم)
سیّدنا غوث الاعظمؓ نے فرمایا:
٭ فقر کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی ہی جیسی ہستی (یعنی کسی بندہ) کا محتاج نہ رہ۔
داتا گنج بخش علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
٭ فقر پر ہمیشہ صبر کے ساتھ رہنا فقیر کا درجہ کمال ہے اور یہ مرتبہ عبدیت کا خاص مقام ہے۔
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
٭ فقر اللہ تعا لیٰ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ ان کو عطا کرتا ہے جن سے وہ محبت کرتا ہے۔
امام قشیری رحمتہ اللہ علیہ ’’رسالہ قشیریہ‘‘ میں فقر کے بارے میں فرماتے ہیں:
٭ فقر اولیا کا شعار اور خواص کا زیور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے انبیا و اولیا، متقین اور خواص کے لیے پسند فرمایا ہے۔
حضرت ابوبکر شبلی رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے:
٭ ’’فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہ‘‘ کی ادنیٰ اور معمولی علامت اور نشانی یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس ساری دنیا ہو اور وہ اسے ایک ہی دن میں خرچ کر ڈالے اور اگر اس کے بعد اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ بہتر ہوتا کہ وہ ایک دن کی خوراک رکھ لیتا تو یہ فقر نہیں ہے۔

ابوبکر بن مسعود رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت یحییٰ بن معاذ رحمتہ اللہ علیہ سے فقر کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:
٭ فقر کی حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف متوجہ نہ ہو اور فقر کی تعریف یہ ہے کہ دنیا کے اسباب و ذرائع پر توکل (بھروسہ، اعتماد) نہ کرے۔
حضرت ابو علی دقاق رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے:
٭ فقر اللہ تعالیٰ کا سرّ (راز۔ بھید) ہے اور اللہ تعالیٰ اپنا سرّ اس شخص کو عطا نہیں کرتا جو اس راز کو جہاں چاہے بیان کرتا پھرے۔
حضرت ذوالنّون مصری رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے:
٭ بندے پر اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے کی علامت یہ ہے کہ بندہ فقر سے ڈرتا ہو۔
منصور بن عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ نے روایت کی ہے کہ حضرت رویم رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے فقر کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا:
٭ اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کے لیے چھوڑ دینا فقر ہے۔
حضرت شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ ’’عوارف المعارف‘‘ میں حضرت شیخ ابراہیم الخواص رحمتہ اللہ علیہ کا قول نقل فرماتے ہیںکہ
٭ فقر شرف اور بزرگی کی چادر، مرسلین علیہم السلام کا لباس اور صالحین کے اوڑھنے کی چادر ہے۔
شیخ نصر بن الحمامی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
٭ فقر توحید کی پہلی منزل ہے۔
حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
٭ فقر کی راہ میں عاشق صادق وہی ہے کہ عالمِ اسرار سے جزا و سزا جو بھی نازل ہو‘ اس پر صابر و راضی رہے۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
٭ فقر دنیا اور آخرت میں غنا کی چابی ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
٭ راہِ فقر ہدایت ہے جس کے ہادی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ (محک الفقر کلاں)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
٭ فقر اللہ تعا لیٰ کے خزانوں میں سے سب سے اعلیٰ خزانہ ہے اور یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تقسیم فرماتے ہیں۔
مزید فرمایا:
٭ فقر اللہ تعالیٰ کا سرّ (راز) ہے جس نے اس کو فاش کر لیا تو وہ رازِ پنہاں سے باخبر ہوگیا اور اس کا محرم ہو گیا۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
٭ فقر ایک خاص باطنی مرتبہ اور کمال ہے۔ اس کے مقابلہ میں باطن میں نہ کوئی مرتبہ ہے نہ کمال۔
٭ فقر دراصل ان لوگوں کا ازلی نصیب ہے جو روزِ الست دنیا اور عقبیٰ کی تمام نعمتوں کو ٹھکرا کر اپنے مولیٰ کی طرف متوجہ رہے اور کائنات کی تمام لذتیں ان کے پائے استقامت میں لغزش پیدا نہ کر سکیں۔
٭ اللہ پاک اگر بے حجاب ہے تو فقر میں ہے۔
٭ فقر رازوں کا سفر ہے اس کا سالک انتہا پر خود صاحب ِ فقر ہو جاتا ہے۔

فقر کا روشن آج

فقر حضرت آدمؑ سے لے کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک مختلف صورتوں میں رہا ہے اور ہر زمانے کے حالات کے مطابق رہا لیکن اس کی حقیقت ایک ہی رہی۔ چنانچہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد بھی اسی آن اور اسی شان سے جاری و ساری رہا چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ السلام خاتم النببین ہیں اس لیے آپؐ کے بعد یہ سلسلہ فقرا کاملین کے ذریعے جاری و ساری ہوا اور فقرا کاملین نے ہر زمانے اور اس کے حالات کے مطابق لوگوں کی تربیت کی اور انہیں راہِ فقر پر چلایا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ فقر جدت کو پسند کرتا ہے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؐ کے اصحابؓ نے اپنے دور کے رائج وسائل کو بھی استعمال فرمایا اور اسے کئی درجہ مزید نکھارا بھی۔ عرب کے لوگوں کا حافظہ بہت اچھا تھا جو بات ایک بار سن لیتے اسے ایک سال بعد بھی دہراتے تو من و عن کسی زیر زبر کے فرق کے بغیر بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اسی لیے ان میں لکھ کر باتوں کو محفوظ رکھنے کا زیادہ رواج نہ تھا۔ لیکن اسی دور میں کاتبین ِ وحی و احادیث بھی موجود رہے جنہوں نے مسلمانوں کی وراثت قرآن و حدیث آنے والے دور کے لیے محفوظ کی۔ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ کے ادوار میں کام مزید آگے بڑھا اور قرآن و حدیث کو نسخہ جات کی صورت میں جمع کرنے کا کام شروع ہوا۔ بظاہر یہ صرف قرآن و حدیث کو کتابی صورت دینے کے لیے کیے گئے اقدامات تھے لیکن درحقیقت یہ انہیں تاقیامت محفوظ رکھنے کا بندوبست تھا۔ اہل ِ باطن اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جس قدر ترقی ظاہری دنیا میں ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ ترقی باطنی نظام میں ہوتی ہے۔ تعصب کی عینک اتار کر کوئی غیر مسلم بھی اگر فقرا کاملین کے اقدامات کا تجزیہ کرتا ہے تو وہ اسی نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ فقرا اپنے دور کے ساتھ بھی چلے اور ایک قدم آگے بھی رہے اور یہ بات فقرا کاملین کے صاحب ِ بصیرت ہونے پر ایک اور مہر ِ تصدیق ثبت کرتی ہے۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ علما کرام شرعی معاملات میں تو تجدید کے پہلو پر یقین رکھتے ہیں لیکن حقیقت و معرفت کے معاملے میں چودہ سو سال پرانی روایات میں الجھ جاتے ہیں۔ آمد و رفت کے لیے اونٹوں اور گھوڑوں کی بجائے جدید سفری سہولیات کو تو مدنظر رکھتے ہیں لیکن اللہ کے قرب و وصال کے معاملے میں جدت کے متحمل نہیں۔ جس قدر انسانی سوچ اور دنیا ترقی کر چکی ہے اسی قدر انسان کا نفس بھی اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے لہٰذا آج کے دور میں انسان کا تزکیۂ نفس جدید تقاضوں کے مطابق ہی ممکن ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ جو شخص تزکیۂ نفس کرنے کا تصرف و قدرت رکھتا ہو وہ بذاتِ خود جدید عصری تقاضوں سے نہ صرف شناسائی رکھتا ہو بلکہ ان پر غالب آنے کی مہارت بھی رکھتا ہو۔ اس بات کو ایک مثال کے ذریعے واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج سے چودہ سو سال پہلے انسان ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل جیسی اشیا کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا لیکن آج یہ ایجادات انسان کی زندگی میں اس قدر سرایت کر چکی ہیں کہ ان کے بغیر زندگی کاتصور ناممکن محسوس ہوتا ہے۔ چودہ سوسال قبل ان ایجادات کی عدم موجودگی میں انسان کی سوچ کیا ہوتی ہو گی؟ ان کے معاملاتِ زندگی، خواہشات، سب کچھ آج کے انسان سے یکسر مختلف۔
لہٰذا اس دور کے انسان کا تزکیۂ نفس آج کے انسان کے تزکیۂ نفس سے بالکل مختلف ہے۔ جب یہ دنیا، انسانی سوچ اتنی ترقی کر گئی تو یہ بات بالکل ناقابل فہم ہے کہ اللہ ربّ العزت پرانے انداز و اطوار کے مطابق ہی اپنا اظہار فرماتا ہے۔ کیونکہ کُلَّ  یَوْمٍ ہُوَ  فِیْ شَاْنٍ (ترجمہ:وہ ہر آن نئی شان میں ہوتا ہے۔)
موجودہ دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فقر کی دولت امت ِ محمدیہ تک منتقل فرما رہے ہیں۔آپ مدظلہ الاقدس نے 26 دسمبر 2003ء کو اپنے مرشد پاک سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے بعد مسند ِ تلقین و ارشاد سنبھالی اور اس دن سے لے کر آج تک فقر کی دولت کو آنے والی نسلوں تک پہنچانے کے لیے انقلابی اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی زیرک نگاہ اور بے نظیر فراست کی بدولت فقر کو موجودہ دور میں جس قدر زیادہ اور تیزی سے ترقی حاصل ہوئی ہے شاید ہی کسی دور میں حاصل ہوئی ہو۔
گزشتہ ادوار میں اسمِ اللہ ذات کا ذکر چار منازل میں عطا کیا جاتا تھا
 اللہ ،للّٰہ، لہٗ اور ہُو۔ طالب بارہ بارہ سال ذکر اور ریاضتوں میں گزار کر بھی دوسری منزل کا ذکر حاصل کرنے کے لائق نہیں بنتا تھا۔ اس طرح اسمِ محمدؐ حاصل کرنے کی باری ہی نہیں آتی تھی۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں کہ سلطان اولیا حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی حیات مبارکہ میں پانچ یا چھ خاص طالبوں کو اسمِ اللہ ذات عطا فرمایا اور اسم ِ محمدؐ حضرت سخی سلطان پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے دور تک کسی نے عطا ہی نہیں فرمایا۔ آپؒ نے صرف اپنے خلیفہ ٔ اکبر سلطان محمد عبد العزیزؒ کو، سلطان محمد عبدالعزیزؒ نے سلطان الفقرششمؒ کو اور سلطان الفقر ششمؒ نے بھی صرف اپنے روحانی وارث سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو اسم محمدؐ عطا فرمایا۔
لوگوں میں بڑھتی ہوئی مادیت پرستی اور طلبِ حق میں کمی کی وجہ سے سلطان محمد اصغر علیؒ نے عوام الناس پر احسان فرمایا اور اسمِ اللہ ذات کے فیض کو ہر خاص و عام کے لئے کھول دیا۔ آپؒ طالبانِ دنیا و عقبیٰ کو اپنی نگاہِ خاص سے روحانی بلندی عطا فرماتے اور طالب ِ مولیٰ بنا دیتے لیکن آپؒ نے بھی زیادہ تر مریدوں کو اسمِ اللہ ذات کی ابتدائی منازل کا ذکر ہی عطا فرمایا اور بہت کم طالبوں کو سلطان الاذکار ھُو عطا فرمایا۔ آپؒ کے بعد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس آپؒ کے کام کو بے مثال تیزی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس بغیر بیعت کے اسمِ اللہ ذات کا پہلا ذکر عطا کرتے ہیں اور بیعت کرنے والوں کو پہلے ہی روز اسم ِ اعظم اور سلطان الاذکار ’ھُو‘ عطا فرما دیتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنی خاص روحانی قوت اور فیض سے عام طلب رکھنے والے طالب کے لیے بھی اسم ِ اعظم کی تجلیات سہنا ممکن بنا دیتے ہیں۔ آپ ہر سال عید میلادالنبیؐ کے موقع پر ان طالبوں کو جو اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور میں ترقی کر چکے ہوں اسمِ محمدؐ عطا فرماتے ہیں اور رواں سال سے دو بار، عید میلادالنبیؐ اور یوم منتقلی امانتِ الٰہیہ (21 مارچ) کے بابرکت دن بھی اسمِ محمدؐ کا فیض عطا فرمانے کا آغاز فرمایا ہے۔
فیض ِ فقر تمام مشائخ سروری قادری اور اہل ِ بیت رضی اللہ عنہم کی مہربانی اور اجازت سے آپ مدظلہ الاقدس نے جس قدر پوری دنیا میں پھیلایا ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ فقر کی تاریخ میں سب سے بڑا انقلابی قدم یہ ہے کہ آپ نے آن لائن بیعت کا آغاز فرمایا جس کی بدولت اسمِ اللہ ذات کا فیض دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے۔ خالص طالب دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو، کبھی آپ مدظلہ الاقدس سے ظاہری طور پر ملا ہو یا نہیں لیکن آپ کو ہر لمحہ اپنے اردگرد محسوس کرتا ہے اور آپ مدظلہ الاقدس کی روحانی سرپرستی میں فقر کی منازل کو طے کرتا ہے۔ آپ نے بلاشبہ دنیا کو سمیٹ دیا ہے۔ یہ بھی آپ مدظلہ الاقدس کا ہی کرم ہے کہ آج لوگوں کو اللہ تعالیٰ کو پانے کیلئے طویل وظائف، چلوں، مشقتوں اور ریاضتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ سچا طالب صرف اللہ کے پیغام کو پھیلانے میں مالی مدد کر کے ہی وہ مقام پالیتا ہے جس کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ آپ مدظلہ الاقدس نے فقر کو اس حد تک پھیلا دیا ہے کہ اگر کسی کے دل کے کونے میں بھی اللہ کو پانے کی خالص طلب ہے تو وہ جس طرف قدم بڑھائے فقر کو پاسکتا ہے۔ کوئی فیس بک استعمال کرتا ہو یا پن ٹرسٹ، لِنکڈان کا شیدا ہو یا ٹوئیٹر، یوٹیوب، گوگل اور انسٹا گرام کا‘ یہ ممکن نہیں کہ اسے اپنے پسندیدہ راستے سے حق کی طرف رہنمائی نہ ملے۔ آپ مدظلہ الاقدس کا فرمان ہے:
٭ زمانے کو برا نہ کہو خدا خود زمانہ ہے۔
مزید فرماتے ہیں:
٭ ایجادات کو برا نہ کہو بلکہ ہر ایجاد کو مومن بنا لو۔ ایجادات کو مومن بنانے کا طریقہ بھی آپ مدظلہ الاقدس نے یوں ہی سکھایا ہے کہ ہر ایجاد کے ذریعے اللہ کا پیغام عام فرما رہے ہیں اور روز بروز نئے سے نئے اور جدید سے جدید طریقہ کو بروئے کار لا کر فقر سے عوام الناس کو روشناس کرا رہے ہیں۔
اقبالؒ نے بلاشبہ درست فرمایا ہے:

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں

اللہ تعالیٰ آپ مدظلہ الاقدس کی حیات پاک میں خیر اور برکت عطا فرمائے۔(آمین) آپ مدظلہ الاقدس فقر کے وہ چاند ہیں جس کی روشنی سے کئی سورج گہنا جائیں۔ آپ کا وجود امت کے لئے اس مسیحا کی طرح ہے جس کے بارے میں اقبال فرماتے ہیں:

دنیا کو ہے اس ’’مہدی برحق‘‘ کی ضرورت
ہو جس کی نگہ زلزلہ عالم افکار

استفادہ کتب:
ماہنامہ سلطان الفقر لاہور
سلطان الوَھَم تصنیف لطیف حضرت سخی سلطان باھوؒ
رسالہ روحی شریف تصنیف لطیف حضرت سخی سلطان باھوؒ


اپنا تبصرہ بھیجیں