آئینہ رحمٰن
تحریر: عرشیہ خان سروری قادری ۔لاہور
احادیث مبارکہ ہیں:
اَلْمُوْمِنُ مِرْآۃُ الرَّحْمٰن
ترجمہ:مومن رحمن کا آئینہ ہے۔
اَلْمُوْمِنُ مِرْآۃُ الْمُوْمِنْ
ترجمہ: مومن، مومن کا آئینہ ہے ۔
اس حدیث کی شرح میں صوفیا کرام فرماتے ہیں کہ یہاں مومن اوّل اللہ تعالیٰ ہے جیسا کہ اللہ کا ایک صفاتی نام مومن بھی ہے اور دوم مومن انسانِ کامل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ مبارک ہے۔ ازل میں جب نورِ الٰہی سے نورِ محمدی جدا ہوا تو اس کی کامل لطافت و نورانیت کے باعث ذاتِ حق تعالیٰ نے اس میں اپنا ہی عکس دیکھا۔ اسی طرح نورِ الٰہی بھی نورِ محمدکے لئے آئینہ بنا لیکن نورِ محمدی نے اس آئینہ میں اپنی ذات کو نہ دیکھ کر صرف اپنے ربّ کو دیکھا۔ اپنی ذات کی نفی کر کے اس ذات کو سجدہ کیا اور کہا ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ (نہیں کوئی عبادت کے لائق سوائے اللہ کے)۔ راہِ فقر میں اپنی ہستی اور خودی کو ختم کر کے اللہ پاک کی ذات میں فنا ہو جانا عارفین کا سب سے اعلیٰ اور آخری مقام ہے۔ فقر کے اس انتہائی مرتبہ کو مقامِ فنا فی ھُو و حدت، فقر فنا فی اللہ بقا باللہ یا وصالِ الٰہی کا مقام کہتے ہیں۔ عام اصطلاح میں اس مقام تک پہنچے وا لے انسان کو انسانِ کامل کہا جاتا ہے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ
ترجمہ:جہاں فقر کی تکمیل ہو تی ہے وہیں اللہ ہے ۔
جب طالب فقر کی انتہا پر پہنچ جاتا ہے تو جملہ صفاتِ الٰہیہ سے متصف ہو کر انسانِ کامل کے مرتبہ پر فائز ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سب سے اکمل وار فع انسان ہیں اور حق تعالیٰ کے خلیفہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد آپؐ کے نائبین کو آپؐ کے وسیلہ سے یہ مرتبہ حاصل ہوا۔ دنیا میں ہر وقت ایک شخص قدمِ محمدؐ پر ہوتا ہے جو انسانِ کامل امانت ِالٰہیہ کا حامل، خلافت ِ الٰہیہ کا حامل اور حضور علیہ الصلوٰۃ ولسلام کا باطنی نائب ہوتا ہے۔ کائنات کا نظام اللہ تعالیٰ اس انسانِ کامل کی وساطت سے چلاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں میں اور تُوکا فرق مٹ جاتا ہے اور انسانِ کامل اللہ تعالیٰ سے یکتائی کے اس مرتبہ پر فائز ہو جاتا ہے جہاں دوئی نہیں ہوتی جیسا کہ حدیث ِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وما یزال عبدی یتقرب الٰی بالنوافل حتٰی احبہ فاذا احببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ و بصرہ الذی یبصربہ و یدہ التی یبطش بھا ورجلہ التی یمشی بھا۔
ترجمہ: میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پس میں اس کے کان بن جاتا ہوںوہ ان سے سنتا ہے، میں اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔ (صحیح بخاری6502)
انسانِ کامل حق تعالیٰ کی صورت، آئینہ، اظہار اور اسکا عین ہے۔ انسانِ کامل کا وجود وہ وجود ہے جوحق تعالیٰ کی ہویّت کو اَنا ( میں )کا وجودعطا کرتا ہے۔ یعنی انسانِ کامل کے و جود سے قبل حق تعالیٰ کے لئے ’’ھو‘‘ کا اسم توموجود تھا لیکن ایسا کوئی وجود نہ تھاجسے اللہ تعالیٰ ’’انا‘‘ (میں) کہہ کر مخاطب کرتا۔ انسانِ کامل کا وجود ہی حق تعالیٰ کیلئے ’’انا‘‘ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ اپنے لیے ’’یَدُ اللّٰہ ‘‘(اللہ کے ہاتھ) اوروجہ اللّٰہ (اللہ کا چہرہ) جیسے لفظ استعمال کرتا ہے حالانکہ نہ تو اس کے ہاتھ ہیں ‘ نہ پاؤں ‘ نہ چہرہ۔ مقامِ ہویّت پر وہ صرف نور ہے بلکہ نور سے بھی برتر کوئی ایسی شے ہے جس کی مثال کسی چیز سے بھی نہیں دی جا سکتی کہ لَیْسَ کَمِثْلہٖ شَیْئٍ
ترجمہ:’’اس کی مثال کوئی شے نہیں۔‘‘
چنانچہ حق تعالیٰ کی ہویّت کا وجود اصل میں انسانِ کامل کا وجود ہے، اس کے ہاتھ اللہ کے ہاتھ ہیں، اس کے پاؤں اللہ کے پاؤ ں ہیں، اس کا چہرہ اللہ کا چہرہ ہے۔(مرآۃ العارفین)
اس مقام کی طرف علامہ اقبالؒ نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے :
ہاتھ ہے اللہ کا، بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکشا کارساز
خاکی و نوری نہاد، بندہ مولیٰ صفات
ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دل بے نیاز
پس انسانِ کامل اللہ تعالیٰ کا مظہراور مکمل آئینہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے انوارِ ذات و صفات واسماء کا انعکاس کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی جمیع صفات سے متصف اور اس کے جملہ اخلا ق سے متخلق ہوتا ہے جیسا کہ حدیث ِ نبوی ہے:
قَلْبُ الْمُوْمِنْ عَرْشَ اللّٰہِ تَعَالٰی
ترجمہ:ـمومن کا دل اللہ تعا لیٰ کا عرش ہے۔
حدیث ِ قدسی ہے:
لَا یَسْعُنِیْ اَرْضِیْ وَلَا سَمَآئِیْ وَلٰکِنْ یَّسْعُنِیْ قَلْبُ عَبْدِ الْمُؤْمِنْ
ترجمہ: نہ میں زمین میں سماتا ہوں اور نہ آسمانوں میں لیکن بندئہ مومن کے دل میں سما جاتا ہوں۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ ’’مرآۃ العارفین‘‘ میں فرما تے ہیں:
٭ پورا قرآنِ مجید اُم الکتاب (سورۃ فاتحہ) میں ہے اور سورۃ فاتحہ بسم اللہ میں ہے اور اسمِ اللہ ’’انسانِ کامل‘‘کے دل میں جلوہ گر ہے اس لئے انسانِ کامل تمام صفات وذات کیلئے مجمل اور مفصّل ہے۔
٭ پس انسانِ کامل اس مشابہت کے سبب ذاتِ حق تعالیٰ کے لیے مرآۃِ تامہ (مکمل باصفا آئینہ) ہے اور ذات اس (انسانِ کامل) پر کُلی اور اجمالی طور پر متجلی ہے۔
جس طرح ایک انسان جب تک خود کو آئینہ میں نہ دیکھے اپنی ہی صورت سے آشنا نہیں ہو سکتا اسی طرح جب تک اللہ تعالیٰ نے انسانِ کامل کی صورت میں اپنا ہی عین اور آئینہ تخلیق نہ فرمایا خود کو نہ پہچانا۔ آئینہ میں جب تک کوئی صورت اپنا عکس نہ ڈالے آئینہ بھی بے حقیقت ہے چنانچہ آئینہ اور صورت لازم و ملزوم ہیں۔ آئینہ بس وہی کچھ ہے جو اس میں دکھائی دے۔ آئینہ انسانِ کامل ہے اور اس میں دکھائی دینے والی صورت حق تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آئینہ کو اپنی ہی تجلی سے پیدا فرما کر اس پر اپنی تجلی ڈالتا اور خود کو ملاحظہ کرتا ہے۔ آئینہ اس تجلی سے اپنا وجود پاتا ہے اور ربّ تعالیٰ کو اس کا دیدار عطا کرتا ہے پس آئینہ عین تجلی ءِ الٰہی اور تجلی ءِ الٰہی عین آئینہ ہے۔ انسانِ کامل عین صورتِ حق تعالیٰ ہے۔ دونوں میں ہر لحاظ سے مشابہت ہے۔ (مرآۃ العارفین)
حضرت عبدالکریم بن ابراہیم الجیلی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’انسانِ کامل وہ ہے جو بمقتضائے حکمِ ذاتی بطور ملک و اصالت اسماءِ ذاتی و صفاتِ الٰہیہ کا مستحق ہو۔ حق کے لیے اس کی مثال آئینے کی سی ہے کہ سوائے آئینہ کے کوئی شخص اپنی صورت نہیں دیکھ سکتا اور نہ اس (انسانِ کامل) کے لیے ممکن ہے کہ سوائے اسمِ اللہ کے آئینہ کے، کہ وہ اس کا آئینہ ہے ، اپنے نفس کی صورت دیکھ سکے اور انسانِ کامل بھی حق کا آئینہ ہے اس لیے حق تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کر دیا ہے کہ سوائے انسانِ کامل کے اپنے اسماء و صفات کو کسی اور چیز میں نہ دیکھے۔‘‘ (انسانِ کامل)
حدیث مبارکہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
٭ میں ذات کا شفاف آئینہ ہوں۔ حقائق کی صورتیں، مظاہر صفاتِ جلالیہ و جمالیہ مجھ میں روشن ہیں۔ ہر مظہر مجھ میں وہی دیکھتا ہے جو اس میں ظاہر ہے۔ پس ابوبکرؓ مجھ میں وہی دیکھتا ہے جو اس میں ظاہر ہے (یعنی حسن وجمال، لطف اور کمال) اسی لئے ابوبکرؓ نے کہا کہ:
ومارایت احسن صور صورۃ منکترجمہ:میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عمدہ صورت میں کسی صورت کو نہیں دیکھا۔ اور ابوجہل لعین کو مجھ میں وہی کچھ دکھا ئی دیتا ہے جو اس میں ظاہر ہے (یعنی قہر اور انکار اور ضلال) پس اپنے حق میں کہتا ہے :فارایت اقبح صورۃ منہ ترجمہ:میں نے اس سے زیادہ قبیح صورت نہیں دیکھی۔
ُُپس ابوبکر نے مجھ میں اپنے آپ کو دیکھا اور اپنے حسن و جمال کا وصف بیان کیا اور ابوجہل نے مجھ میں اپنے آپ کو دیکھا تو اسے اس کی اپنی زشتی اور سیا ہی دکھائی دی مگر میں نہ یہ ہوں اور نہ وہ اورنیزہر شان میں تمام کے ساتھ ہوں۔ (مرقاۃ السالکین شرح مرآۃ العارفین)
چونکہ اس کائنات کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا اظہار ہے لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ اس دنیا میں ایک ایسی ہستی موجود نہ ہو جو اس کی ذات و صفات کا مکمل آئینہ ہو اور اس کا خلیفہ و نائب ہو۔ موجودہ دور میں وہ کامل ہستی جو آئینہ رحمن اور ذاتِ حق کا مکمل اظہار ہے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عطا کردہ امانت ِ الٰہیہ کے واحد حامل اور وارث ہیں۔ یہ کو ئی زبانی کلامی الفاظ نہیں بلکہ آپ مدظلہ الاقدس کے تمام مریدین کے مشاہدے اور ذاتی تجربہ پر مبنی حقیقت ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس کی مبارک ذات تمام صفاتِ الٰہیہ اور ذاتِ حق کی کامل مظہر ہے لیکن اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے نورِ بصیرت کا حامل ہونا ضروری ہے۔ نفس کے شکنجے میں جکڑا ہوا ایک عام شخص بھلا انسانِ کامل کی ذات سے کیسے آشنا ہو سکتا ہے۔ آشنا ئی اور پہچان کیلئے خود شناسی کی ضرورت ہے تب جا کر اللہ اپنا راز عطا کرتا ہے۔ انسانِ کامل اللہ پاک کی ذات کا مظہر ہے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نائب ہے، نورِ بصیرت سے عاری باطنی طور پر اندھے لوگ اسے کیسے پہچان سکتے ہیں! ایسے کامل مرشد تک صرف وہی طالب پہنچتے ہیں جو اللہ تعا لیٰ کی پہچان، دیدارِ حق تعالیٰ اور مجلسِ محمدیؐ کی حضوری کی طلب لے کر گھر سے نکلتے ہیں۔ صرف ایسا خالص باطن رکھنے والوں کو انسانِ کامل کی ذات آئینۂ رحمن دکھائی دیتی ہے۔ دیگر دیکھنے والوں کو اس آئینہ میں وہی دکھائی دیتا ہے جو ان کے اپنے اندر ہوتا ہے۔ جس کا باطن حق ہے وہ انسانِ کامل میں حق دیکھے گا اور جس کا باطن باطل ہے وہ اس میں باطل دیکھے گا۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا باطن آئینۂ حق ہے اور آپ کا ظا ہر نور ہے جس کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
نَوْرٌ عَلٰی نُوْرٍط یَھْدِیْ اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآءُ (النور ۔35)
ترجمہ: نور پر نور ہے اللہ اپنے نور کی طرف اسے ہدایت دیتا ہے جسے وہ چاہتا ہے۔
آپ مدظلہ الاقدس کی باکمال و بے مثال ذات تمام صفاتِ الٰہیہ سے متصف ہے اور اس کی آئینہ دار ہے جس کا مشاہدہ ان کے تمام قریبی مریدین ہر لمحہ ہر آن کرتے رہتے ہیں۔ آپ کے منور قلب سے تمام صفاتِ ا لٰہیہ کرنوں کی طرح پھوٹتی ہیں، دیکھنے والے کی نظر ہونی چاہیے۔ آپ مدظلہ الاقدس کے مریدین جن صفاتِ الٰہیہ کا مشاہدہ آپ کی ذاتِ اقدس میں کرتے ہیں ان میں سے چند کا تذکرہ کرتے ہیں:
اَلرَّحْمٰنُ (بے حد مہربانی کرنے والا): آپ مدظلہ الاقدس اپنے اسم ِ گرامی سلطان محمد نجیب الرحمن کی طرح بے حد رحمن اور شفیق ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کسی کو غم اور دکھ میں نہیں دیکھ سکتے۔ زندگی میں آپ کو لوگوں نے بہت دکھ دیئے لیکن آپ مدظلہ الاقدس کی ذاتِ اقدس ہر کسی کے لیے نہایت رحیم و کریم اور شفقت والی ہے۔ اس بات کا اندازہ آپ کی آنکھوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ آپ کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے اس کے حق میں ضرور دعا فرماتے ہیں اور اپنی زبانِ مبارک سے حوصلہ اور اللہ پر توکل کرنے کی تلقین فرماتے ہیں لیکن اپنا غم اور تکلیف اپنے تک محدود رکھتے ہیں کہ ان کے چاہنے والے پریشان نہ ہو جائیں، یہ بھی ان کی شفقت کا ایک پہلو ہے ۔
اَلْمُؤْمِنُ (امن وامان دینے والا ): بے شک آپ اسی صفت ِ الٰہی کے مالک ہیں۔ سچا طالب آپ کے حلقہ ٔ بیعت میں آکر واضح طور پر محسوس کرتا ہے کہ وہ امن و امان میں آگیا اور شیطان کی چالبازیوں اور نفس کے ہتھکنڈوں سے محفوظ ہو گیا۔ آپ مدظلہ الاقدس دنیا کے حادثات اور پریشانیوں سے بھی اپنے مریدوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ اگر کسی مرید پر کوئی پریشانی آ بھی جائے تو وہ آپ مدظلہ الاقدس کو ہر لمحہ اپنے قریب محسوس کر کے تسلی پاتا ہے اور آپ مدظلہ الاقدس کی مہربانی سے جلد ہی وہ پریشانی سے نجات پا لیتا ہے۔
اَلْمٰلِکُ (حقیقی بادشاہ): حضرت سلطان باھُوؒ امیر الکونین میں فرماتے ہیں ’’فقیر مکمل فیض بخش ہوتاہے۔ فقیر حاکم اور امیر ہوتا ہے۔ اگر چاہے تو گدا کو ربع مسکون اور ہفت اقلیم کا بادشاہ بنادے اور اگر چاہے تو ہفت اقلیم کے بادشاہ کو معزول کرکے گدا کو اس کا قائم مقام بنا دے۔‘‘ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس بھی تصرفاتِ کونین کے حامل صاحب ِ مسمّٰی فقیر ہیں مگر وہ ان تصرفات کا ہرگز اظہار نہیں فرماتے اور زیادہ تر ان کا استعمال اپنے طالبوں کی اصلاح یعنی قلوب کو منور اور یادِ الٰہی میں غرق کرنے اور نفس کو اسمِ اللہ کی تلوار سے ہلاک کرنے کیلئے کرتے ہیں تاکہ سالک کی ساری توجہ اللہ ربّ العالمین کی طرف مبذول ہو جائے۔
اَلْبَارِیِ ٌ (ٹھیک ٹھیک بنانے والا ) : حضرت سخی سلطان باھُو ؒ عین الفقر میں فرماتے ہیں ’’مرشد صاحب ِ تصرف فنا فی اللہ بقا باللہ فقیر ہوتا ہے۔ وہیُحْیِ وَیُمِیْت ترجمہ : (دلوں کو) زندہ کرنے والا اور (نفس کو) مارنے والا ہوتاہے اور کسی کا محتاج نہیں ہوتا۔‘‘ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنی نگاہِ کامل سے اپنے مرید کا قلب زندہ کرکے اسے ذکر اللہ میں محو کر دیتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کے فیض سے لاتعداد زندہ قلوب کے حامل طالب عشقِ الٰہی کا جام پی چکے ہیں اور مجلس محمدیؐ کی حضوری کا شرف حاصل کر چکے ہیں ۔یہ آپ مدظلہ الاقدس کا کمال ہے کہ ناقصوں کو کامل اور دنیاداروں کو طالبِ مولیٰ بنا دیتے ہیں۔
اَلسَّمِیْعُ وَ الْخَبِْیرُ(سب کچھ سننے والا اور با خبر آگاہ) : حضرت سلطان باھوؒ رسالہ روحی شریف میں فرماتے ہیں ’’جان لے (اے طالبِ حق) عارف کامل قادری ہر قدرت پر قادر اور ہر مقام پر حاضر ہوتا ہے۔‘‘
آپؒ عین الفقر میں مزید ارشاد فرماتے ہیں:
’’مرشد کامل باطن کی ہر منزل اور ہر راہ کا واقف ہوتا ہے۔ باطن کی ہر مشکل کامشکل کشا ہوتا ہے۔ مرشد کامل وہ ہے جو طالب کے ہر حال، ہر قول، ہرفعل، حالت ِ معرفت و قرب و وِصال اور ہر حالت و دلیل و خیال سے باخبر ہوتا ہے۔‘‘ بیشک سلطان العاشقین کے تمام مریدین کا مشاہدہ ہے کہ وہ انہیں ہر وقت ہر پل اپنے ساتھ پا تے ہیں اور ان کی ذات کو محسوس کر سکتے ہیں کہ وہ ہر لمحہ ہماری خبر رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی نورانی محفل میں اگر دل ودماغ میں کوئی سوچ اجاگر ہو تو اسی وقت کامل اور جامع جواب بھی مل جاتا ہے اور طالب کو اس بات سے حق الیقین حاصل ہوتا ہے کہ مرشد ہمارے دل کی حالت سے خوب واقف ہیں۔ پس طالبانِ مولیٰ آپ مدظلہ الاقدس کی محفل میں بیٹھے ہوں یا دنیا کے کسی بھی کونے میں آپ کی نگاہِ فیض رساں سے یکساں مستفید ہوتے ہیں۔
اَلفتَّاحُ ( بہت بڑا مشکل کشا، سب کے لیے رحمت کے دروازے کھولنے والا) :حضرت سلطان باھُو ؒ عین الفقر میں فرماتے ہیں ’’مرشد درخت کی مثل ہوتا ہے جو موسم کی سردی گرمی خود برداشت کرتا ہے لیکن اپنے زیرِ سایہ بیٹھنے والوں کو آرام وآسائش مہیا کرتا ہے ۔‘‘
آپ مدظلہ الاقدس ہرپل اپنے مریدوں کی ظاہری و باطنی مدد فرماتے اور انہیں ہر مشکل سے باہر نکالتے ہیں۔ میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ میں نے اپنے اور دیگر مریدین کے مسائل کو فوری حل ہوتے ہوئے دیکھا ہے چاہے وہ ڈپریشن، لاعلاج مرض، مالی تنگی، بے سکونی، خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دوری، مایوسی، اولادِ نرینہ نہ ہونا جیسی پریشانیاں ہوں آپ مدظلہ الاقدس کی مہربانی اور اللہ کے کرم سے دور ہوجاتی ہیں۔ (مریدین کے مشاہدات پڑھنے کیلئے کتاب ’’سلطان العاشقین‘‘ صفحہ 450ملاحظہ کریں)
اَلْعَلِیْمٌ (بہت وسیع علم والا ) : ذہانت و فراست میں آپ مدظلہ الاقدس کا کوئی ثانی نہیں۔ ماشاء اللہ۔۔۔ نہ صرف دینی و روحانی معاملات بلکہ دنیاوی معاملات میں بھی آپ مدظلہ الاقدس کے علم کی کوئی حد نہیں ۔ آپ مدظلہ الاقدس کی تصنیفات اور گفتگو آپ کے بے انتہا علم کی آئینہ دار ہیں۔ خصوصاً علمِ لدنیّ میں جو کمال آپ مدظلہ الاقدس کو حاصل ہے اس کی کوئی نظیر نہیں۔ اگر کوئی آپ سے اپنا کوئی ظاہری و باطنی مسئلہ پوچھے تو نہایت فہم و فراست اور حکمت سے اس کی رہنمائی فرماتے ہیں۔
اَلْغَفُوْرُ ( بہت معاف کرنے والا ) : آپ مد ظلہ الاقدس کے تمام مریدین کا یہی تا ثر اور مشاہدہ ہے کہ اگر کسی سے کوئی بھی کو تاہی یا غلطی ہو جائے تو فوراً در گذر فرمادیتے ہیں۔ کسی کی دل آزاری نہیں فرماتے، اگر کسی کو اس کی غلطی کا احساس دلاکراس کی اصلاح مقصود ہو تو انتہائی نرم لیکن مؤثر الفاظ و رویہ استعمال فرماتے ہیں یوں کہ بندہ شرمندہ بھی نہ ہو اور غلطی مان کر اسے درست بھی کر لے۔
اَلصَّمدْ و اَلْوَدُوْدُ (بے نیاز اور بڑا محبت کرنے والا ): جیسے کہ حضرت سلطان باھوؒ رسالہ روحی شریف میں فرما تے ہیں ’’وہاَلْفَقْرُ لَا یُحْتَاجُ اِلٰی رَبِّہٖ وَلَا اِ لٰی غَیْرِہٖ کی جا ودانی عزت کے تاج سے معزز ومکرم ہیں‘‘۔ فقرا کو کسی چیز کی حاجت نہیں ہوتی وہ ہر چیز سے بے نیاز ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی اپنی ذات کیلئے کوئی خواہش نہیں۔ اللہ آپ کو جس حال میں رکھے راضی ہیں اور سخاوت کا یہ عالم ہے کہ آپ نے سب کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کردیا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس حضرت سخی سلطان باھُوؒ کے اس فرما ن کی مجسم صورت ہیں:
’’مرشد مہرو محبت ، شفقت کے پیکر اور محرمِ اسرار کو کہتے ہیں۔ ماں باپ سے زیادہ مہربان اللہ کی راہ میں ہدایت دینے والا، بہترین راہنما ہوتا ہے۔‘‘(عین الفقر)
آپ اپنے تمام مریدین سے بے پناہ محبت فرماتے ہیں، خاص کر بچوں سے آپ مدظلہ الاقدس بہت پیا ر فرماتے ہیں۔ محفل میں آپ مدظلہ الاقدس کے تشریف لانے پر بچے آپ کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
ساقی خدا کا شکر مجھے عشق کے لیے
بندہ بھی وہ ملا جو مولا دکھائی دے
غرضیکہ آپ مد ظلہ الاقدس تمام اسمائے ذاتی وصفاتِ الٰہی کا عین آئینہ ہیں۔ وہ انسانِ کامل ہو ہی نہیں سکتا جو تمام صفاتِ الٰہیہ سے متصف نہ ہو یعنی جس میں ذاتِ حق کی تمام صفات ظاہر ہو جائیں وہی کامل انسان ہے
استفادہ کتب :
مرآ ۃالعارفین تصنیف ِ لطیف حضرت امام حسینؓ
عین الفقر تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
امیر الکونین ایضاً
رسالہ روحی شریف ایضاً
شمس الفقرا تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
فقر ِ اقبال ایضاً
سلطان العاشقین ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
Very nice post. I absolutely love this site. Stick with it!