امیر الکونین
قسط نمبر18
شرح مراقبہ
مراقبہ کی شرح یہ ہے کہ یہ اللہ کی بخشش کا باعث ہے اور مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری اور غلامی کا شرف عطا کرتا ہے۔ مراقبہ کی شرح یہ ہے باطن کو صفائی عطا کرتا ہے اور تمام علوم کا فیض عطا کرتا ہے۔ مراقبہ کی شرح یہ بھی ہے کہ نفس کو تکبر اور خواہشاتِ نفس سے باز رکھتا ہے اور اس کے وجود کو لاموجود کر کے مکمل فنا عطا کرتا ہے۔ مراقبہ یہ ہے کہ یہ تصور اسمِ اللہ ذات سے مردہ وجود کو بقا عطا کرتا ہے اور اللہ کی معرفت، وحدت اور بقا سے مشرف کرتا ہے۔ اور مراقبہ یہ ہے کہ تصور اسمِ اللہ ذات سے طالب کے ساتوں اندام پاک ہو جاتے ہیں اور اس کا قلب آہستہ آہستہ عشق ِ الٰہی میں ڈوبا رہتا ہے اور اس عشق کے غلبہ سے طالب روشن ضمیر بن جاتا ہے اور اس کا دل بیدار ہو جاتا ہے اور وہ بے حجاب دائمی مشاہدہ اور دیدار کرتا ہے۔ طالب ِ بینا کو اپنے مشاہدئہ دیدار پر مکمل اعتبار ہونا چاہیے۔ ان مراتب کے حصول پر طالب کا قلب و قالب دونوں نورِ الٰہی سے معمور ہو جاتے ہیں اور وہ مرتبہ محمود پر پہنچ جاتا ہے۔ جس طالب کو مشاہدئہ دیدار، قربِ الٰہی اور حضوری پر اعتبار نہیں ہوتا وہ مردود ہے۔ مراقبہ کی شرح یہ ہے کہ طالب مراقبہ میں ہر ایک انبیا و اولیا سے دست مصافحہ کرتا ہے اور یہ توفیق ِ الٰہی سے غرق کی کیفیت ہے کہ طالب باطن میں جو کچھ دیکھتا ہے ظاہر میں ویسا ہی پاتا ہے۔ اس کا مراقبہ باتحقیق ہوتا ہے اور اس مراقبہ سے اسے جمعیت حاصل ہوتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ طالب مراقبہ میں حاصل ہونے والے باطنی احوال کے فیض و فضل کو ظاہری فیض و فضل سے تبدیل کرنے کے طریقے سے واقف ہو۔ یہ اللہ کا لازوال کرم ہے جو وہ اپنے اس طالب پر کرتا ہے جو اپنے ازلی وعدہ پر قائم رہتا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
٭ وَ اَوْفُوْا بِعَھْدِیْٓ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ (البقرہ۔40)
ترجمہ: تم میرا وعدہ پورا کرو میں تمہارے وعدے پورے کروں گا۔
اللہ ایسے طالب کو جو اپنے وعدہ پر قائم ہو‘ جمعیت کا مرتبہ عطا فرماتا ہے اور اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ ایسا مراقبہ برحق ہے جو حق کی جانب سے ہے اور اللہ کی عزت کی قسم‘کہ طالب مراقبہ میں جو کچھ دیکھتا ہے وہ حق ہے۔ ایسے بہت سے مراقبے ہیں جن میں خطراتِ شیطانی، وسوسہ ٔ جن و نفس ہیں اور ایسے مراقبے جن میں واہمات اور دنیا کی آفات کے خیالات اور پریشانیاں ہوں‘ بے شمار ہیں۔ ابیات:
طالب بیا طالب بیا طالب بیا
بر تو کنم دیدار وحدت حق عطا
ترجمہ: اے طالب! آ تاکہ میں تجھے دیدار و وحدتِ حق عطا کروں۔
طالبے خواہد اگر دیدار دم
دم کہ بادیدار شد اہل از کرم
در مطالعہ غرق شو فضل از لقا
این مراتب عارفان رویت نما
ترجمہ: اے طالب! اگر تو چاہتا ہے کہ دم بھر میں صاحب ِ دیدار ہو جائے اور دیدار کر کے دم بھر میں اہل ِ کرم میں سے ہو جائے تو اللہ کے فضل اور قرب و دیدار کے علم کے مطالعہ میں غرق ہو جا۔ یہ تجھے دیدار کر ا کے عارفین کے مراتب تک لے جائے گا۔
مطلب یہ کہ طالب ِ دیدار وہ ہے جو دیدار کی طلب پورا کرنے کے لیے دنیا (کی خواہشات) سے وضو کرے اور عقبیٰ (کی نعمتوں اور حور و قصور) سے غسل کرکے دو رکعت نماز (باطنی طور پر) ادا کرے۔ پہلی رکعت میں نفس کی خواہشات کو ترک کر کے فنا کرے۔ دوسری رکعت میں توحید و توکل اختیار کرتے ہوئے روح کو دیدار میں مشغول کرے اور اس کے بعد جب سلام پھیرے تو اسے اسلام کی اصل روح حاصل ہو چکی ہو اور دل میں جو کچھ غیر اللہ ہے‘ اسے دھو چکا ہو۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔
طالب تحقیق کا نام ہے اور مرشد توفیق ِ الٰہی کا نام ہے۔ جو طالب مرشد کے نیک و بد اعمال کی جاسوسی کرنے میں مصروف رہے وہ شیطان سے بھی بدتر ہے۔ جو مرشد طالب کو تلقین سے پہلے ازل و ابد اور دنیا میں ماضی، حال اور مستقبل کے احوال کی حقیقت سے آگاہ نہیں کرتا وہ مرشد لائق ِ تلقین نہیں کیونکہ وہ ابھی ناقص و ناتمام ہے اور اس سے تلقین حاصل کرنا مطلق حرام ہے۔ علم ِ فقر کا اوّل قاعدہ یہ ہے کہ جو بھی علم علوم لوحِ محفوظ پر تحریر ہیں مرشد کے پہلے سبق سے ہی طالب کو معلوم ہو جائیں۔ یہ اس مرشد کے مراتب ہیں جو شیخ اور مخدوم ہے۔ اہل ِ تقلید بھی مراقبہ کرتے ہیں اور اہل ِ توحید صاحب ِدیدار بھی مراقبہ کرتے ہیں۔ تُو ان میں سے کون سے گروہ سے تعلق رکھتا ہے؟ ناقص طالب اور مرشد دونوں گناہوں اور لذتِ نفس اور بشریت میں مشغول رہتے ہیں جو ان کے روحانی راستے کے راہزن اور شکست و سلب کا باعث ہیں اور طالب و مرشد کو ایسے تباہ کرتے ہیں جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ جبکہ مرشد کامل اور طالب کامل کو کوئی زوال نہیں کیونکہ وہ لازوال ہیں اگرچہ شب و روز گناہوں میں مشغول رہیں۔ ان کا وجود سمندر کے پانی کی مثل ہے جس میں گناہ بلبلے کی مثل ہیں۔ اگر سمندر میں پلیدی و گندگی کا ڈھیر بھی ڈال دیا جائے تو سمندر کا پانی میلا نہیں ہوتا اور نہ اس کا رنگ بدلتا ہے اور نہ ہی وہ ناپاک ہوتا ہے۔ بیت:
دل مرا دریا زان دریائے ھُو
از ازل تا ابد موجش پاک زن
ترجمہ: میرا دل ھُو کے سمندر کی مانند ہے جس میں ازل تا ابد پاک موجیں اٹھتیں رہیں گی۔
جس کے وجود کے ساتوں اندام تصور اسمِ اللہ ذات سے پاک ہو جائیں اسے محاسبہ کا کیا ڈر۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔
جو کوئی قلب و روح کے اتفاق سے اخلاص کے ساتھ مراقبہ میں مشغول ہوتا ہے اور یہ عہد کرتا ہے کہ وہ معرفت کے حصول کے لیے یہ مراقبہ کر رہا ہے تو وہ مراقبہ تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعے اسے پلک جھپکنے میں حضوری میں پہنچا دیتا ہے اور حضوری میں تفصیلاً سوال و جواب کرتا ہے اور مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے باطنی طور پر کوئی حکم اس تک پہنچتا ہے تو وہ اسے چشم ِ ظاہر سے بھی وصول کرتا اور دیکھتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ جو مراقبہ اربع عناصر (وجودِ ظاہر) کے ساتھ کیا جائے اس میں خام خیالی اور بیان کے خطرات لاحق ہوتے ہیں بلکہ ایسا شخص حیوانات کے مرتبہ پر ہوتا ہے اور بے جمعیت و پریشان رہتا ہے۔ جو مراقبہ چشم ِ عیاں سے کیا جائے وہ باطنی آنکھ کھولتا ہے اور جو مراقبہ روح کے ساتھ کیا جائے وہ سلطان الوھم کی دلیل سے آگاہ کرتا ہے جسے قربِ حق حاصل ہوتا ہے اور کُل و جز اس کی نظر و نگاہ پر عیاں ہوتے ہیں۔ جو مراقبہ سرّکے ساتھ کیا جائے وہ تمام پردے اور حجاب ہٹا کر اسرار سے آگاہ کرتا ہے اور دیدارِ پروردگار سے نواز کر یقین و اعتبار کے مراتب عطا کرتا ہے۔ جو کوئی دیدار اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (کی حیات) کا منکر ہو تا ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی شفاعت نہیں فرمائیں گے اور اس سے بیزار ہیں بلکہ وہ شخص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُمت سے ہی خارج ہے۔ روزِ حشر اس کا چہرہ ریچھ، خنزیر، کتے اور گدھے کی مثل ہوگا۔ جو مراقبہ نور کے ساتھ کیا جائے وہ مشاہدہ، قرب اور حضوری عطا کرتا ہے۔ جو مراقبہ نیکیوں کے ساتھ کیا جائے وہ لقا سے مشرف کر کے ابدی زندگی عطا کرتا ہے۔ جو مراقبہ جوہر ِ نورِ ایمان سے کیا جائے وہ دنیا کو ترک کرنے کی ہمت عطا کرتا ہے اور نفس و شیطان پر غالب ہونے کی طاقت عطا کرتا ہے۔ یہ ظاہری و باطنی سات مراقبے جو وجود کے (ظاہری و باطنی) ساتوں اندام سے کیے جاتے ہیں‘ سات قفلوں کی چابی ہیں اس کے ساتھ سات حکم، سات حکمت، سات طلسماتِ وجودیہ اور سات خزانے اکٹھے ہو کر ایک وجود میں جمع ہوں تب طالب فقر پر قدم رکھے کیونکہ یہ سات سبق طالب کے راہِ فقر پر ابتدائی قاعدے ہیں۔ اس کے بعد لاھوت لامکان‘ جو لانہایت مرتبہ ہے اور جس کی کوئی حد اور شمار نہیں‘ سے شروع کرتے ہوئے فقر پر چلے کہ محقق طالب جو اس مرتبہ پر مواحد بن جاتا ہے‘ کے لیے یہ مراتب ِ فقر شاہد و گواہ ہیں کہ یہ راہ قربِ الٰہی کی راہ ہے۔ بیت:
ہفت را بگذار ہر یک ہفت در
تا شوی عارف خدا صاحب ِ نظر
ترجمہ: تو ان سات چیزوں کو چھوڑ اور سات مراتب کو طے کر تب تو عارفِ خدا اور صاحب ِ نظر ہوگا۔
مطلب یہ کہ یہ دنیا جہانِ دار الفنا ہے جہاں نفسانی لوگ نفس سے لذات حاصل کرتے ہیں جس سے ان کے دل افسردہ، سیاہ اور مردہ ہو جاتے ہیں اور وہ حسرت سے ہی مر جاتے ہیں۔ جہانِ دار البقا ارواح (مردوں)کا مقام ہے جہاں وہ سوئے ہوئے ہیں اور اپنے احوال کی حقیقت کسی سے بیان نہیں کرتے۔ بعض قبریں مٹی کی لیکن نور سے پُر ہیں اور ان کے روضے جنت کی مثل ہیں جبکہ بعض قبریں جہنم کی آگ اور کانٹوں سے پُر ہوتی ہیں جہاں مردے عذاب و حساب کے باعث خوار ہوتے ہیں۔ فقیر دنیا میں موجود اہل ِ نفس اور اہل ِ روح دونوں کو پہچاننے والا ہوتا ہے اور قدرتِ اسرارِ ربانی کا تماشا دیکھنے والا عارف اور حق الیقین کے مرتبہ پر ہوتا ہے جو دیدار کے سوا کسی اور راہ کی طلب نہیں کرتا۔ وہ نور دیکھنے کے سوا کچھ نہیں دیکھتا اور شوقِ وصال میں خوش رہتا ہے اگرچہ ظاہر میں اہل و عیال کے علائق اور مشکلات میں گرفتار ہوتا ہے۔ وہ اونٹ کی مثل کانٹے کھاتا اور بار اٹھاتا ہے اور کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا۔ ایسا بارِ گراں برداشت کرنے والے عارفِ الٰہی ہوتے ہیں۔ ابیات:
عارفان دیدار روز دیدار بین
دیدئہ دیدار با عین الیقین
ترجمہ: عارفین ہمیشہ دیدار میں مشغول ہوتے ہیں۔ ان کے پاس دیدار کرنے والی آنکھ ہوتی ہے جس کے ساتھ عین الیقین سے دیدار کرتے ہیں۔
دیدہ با دیدار بردہ عین را
عین را باعین بیند شد لقا
ترجمہ: دیدار کرنے والی آنکھ انہیں عین حق تک لے جاتی ہے جس سے وہ اپنی آنکھوں سے حقیقت د یکھ کر لقا سے مشرف ہوتے ہیں۔
گر نبودے این مراتب ہر دوام
کس نگفتے کاملان ختم الاتمام
ترجمہ: اگر دیدار کے یہ دائمی مراتب نہ ہوتے تو کوئی نہ کہتا کہ کاملوں کو دیدار حاصل ہوتا ہے اور وہ مراتب ِ فقر کی تمامیت پر پہنچ چکے ہیں۔
نیست دیدارش بدم دیوانگی
نیست دیدارش ز حق بیگانگی
ترجمہ: دیوانگی کے بغیر اس کا دیدار نصیب نہیں ہوتا اور نہ ہی حق سے بیگانگی سے دیدار عطا ہوتا ہے۔
در شریعت شد بدیدارِ خدا
در شریعت یافتم دیدار را
ترجمہ: شریعت پر عمل پیرا ہونے سے ہی دیدار نصیب ہوتا ہے اور میں نے بھی شریعت پر عمل پیرا ہو کر دیدار حاصل کیا ہے۔
دیدار دہ مرشد بود دیدار بر
کامل و اکمل بود صاحب ِ نظر
ترجمہ: جس مرشد کو خود دیدار حاصل ہوتا ہے وہی دیدار کرواتا ہے اور وہ کامل و اکمل اور صاحب ِ نظر ہوتا ہے۔
بی طمع طالب بود جان فدا
مال و تن گردد تصرف راہ خدا
ترجمہ: بے طمع طالب جان فدا کرنے والا ہوتا ہے جو راہِ خدا میں اپنا مال اور جان قربان کر دیتا ہے۔
با یقینش تاقیامت دم قدم
طالبی باشد چنین اہل از کرم
ترجمہ: جس طالب کا یقین تاقیامت قائم رہے ایسا طالب اہل ِ کرم میں سے ہوتا ہے۔
ذکر فکر کشف بہ برد باہوا
باز دارد معرفت قرب از خدا
ترجمہ: ذکر، فکر اور کشف خواہشاتِ نفس کی طرف مائل کر دیتے ہیں اور طالب قرب و معرفت ِ الٰہی سے دور ہو جاتا ہے۔
طالب از مرشد طلب دیدار کن
دیدار حاصل میشود با یک سخن
ترجمہ: اے طالب! مرشد سے دیدار طلب کر جو کہ مرشد کے ایک لفظ سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
جز بدیدارِ دگر دلدار نیست
ہر کہ فانی شد بما آن یار نیست
ترجمہ: اللہ کے دیدار کے سوا ہمارا کوئی دلدار نہیں کیونکہ جو فانی ہو وہ ہمارا یار نہیں۔
باھوؒ در ھُو خویش را پیچیدہ
مرا از برائی دیدار خود آفریدہ
ترجمہ: باھُوؒ خود کو ھُو میں گم رکھتا ہے کیونکہ اس (اللہ) نے مجھے اپنے دیدار کے لیے پیدا کیا ہے۔
جاننا چاہیے کہ علم ِ دیدار و لقا حاصل کرنا اور اس علم پر عمل کر کے مراتب ِ لقاسے مشرف ہونا اور معرفت میں کامل ہونا آسان کام ہے لیکن مراتب ِ لقا میں محو ہو کر فنا فی اللہ ہونا اور مراتب ِ بقا باللہ حاصل کرنا اور اس کے ساتھ ناشائستہ اعمال عجب، تکبر اور خواہشاتِ نفس سے آزاد ہونا نہایت مشکل اور دشوار کام ہے لیکن اگر پروردگار اس کی توفیق بخشے تو ممکن ہے۔ مراتب ِ دیدار کا تعلق گفتگو، لاف زنی اور شیخی خوری سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق توحید کی تحقیق کرنے اور لاھوت لامکان میں پہنچ کر اللہ کے خالص نور کی معرفت حاصل کرنے سے ہے۔اسی طرح مشاہدہ، حضوری، قرب ودیدارِ الٰہی اور جمالِ الٰہی کی مثال کسی شے سے نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ مرتبہ تمام مراتب و مقامات سے بالاتر ہے جہاں مخلوق کا گزر ممکن نہیں۔ بیت
ہر کہ می بیند بنماید ترا
بعد ازان معلوم کن رویت لقا
ترجمہ: وہ عارف جو اللہ کا دیدار کرتا ہے وہی تجھے اس کا جمال دکھائے گا اس کے بعد تجھے قرب و دیدار کی حقیقت معلوم ہوگی۔
یہ عارفین اور فقیر اولیا اللہ کے مراتب ہیں جو اللہ کے عاشقین ہیں۔ ابیات:
عبادت عاشقان عین از عنایت
بجز دیدار دیگر نیست طاعت
ترجمہ: عاشقوں کی عبادت عنایت ِ الٰہی سے دیدار کرنا ہے کیونکہ دیدار کے سوا کوئی بھی دوسرے طریقہ طاعت کے لیے موزوں نہیں۔
چہ خوش خرم بلذت راز دیدن
بعین از عین بین باحق رسیدن
ترجمہ: حق تک پہنچ کر اپنی آنکھوں سے حقیقت دیکھنے اور اسرار سے مشرف ہونے کی کیا خوب لذت ہے۔
کسے اینجا رسیدہ بالقا شد
فنا فی اللہ کہ دائم باخدا شد
ترجمہ: جو بھی اس مقام تک پہنچ جاتا ہے لقا سے مشرف ہو جاتا ہے اور پھر فنا فی اللہ ہو کر ابدی وصال پا لیتا ہے۔ (جاری ہے)