طالبِ مولیٰ اوراستقامت – Talib e Maula aur Istqamat

Spread the love

Rate this post

طالبِ مولیٰ اور استقامت

عام مشاہدہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کا جو بھی مقصد متعین کر لے وہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک وہ مستقل مزاجی، دلجمعی اور استقامت سے اس پر ڈٹا نہ رہے۔پھر طلب اور مقاصد کے لحاظ سے بھی انسانوں کے درجے ہیں۔ سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنی تصنیفِ مبارکہ ’’شمس الفقرا ‘‘ میں فرماتے ہیں:
* دنیا میں تین قسم کے انسان یا انسانوں کے گروہ پائے جاتے ہیں:
طالبانِ دنیا: جو شخص اپنے علوم و فنون، کمالات اور کوشش و کاوش دنیا کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اسے ہی اپنی زندگی کا مقصد قرار دیتے ہیں، حتی کہ ان کا ذکر فکر ، عبادت و ریاضت ، چلہ کشی، وردو وظائف کا مقصد بھی دنیاوی مال و متاع کا حصول یا اس میں اضافہ ہے ۔دنیاوی آسائش کے حصول اور دنیاوی ترقی و عزّو جاہ کو کامیابی گر دانتے ہیں۔
طالبانِ عقبیٰ:جن کا مقصود آخرت کی زندگی کو خوشگوار بنانا ہے ۔ ان کے نزدیک نارِ جہنم سے بچنا، حورو قصور اور نعمت ہائے بہشت کا حصول زندگی کی کامیابی ہے۔اس لیے یہ عبادت، ریاضت، زہد و تقویٰ، صوم و صلوٰۃ ،حج ، زکوٰۃ، نوافل ، ذکر اذکار اور تسبیحات سے آخرت میں خوشگوار زندگی کے حصول کی کوشش کرتے ہیں ان کے نزدیک یہی زندگی کا مقصد اور کامیابی ہے۔
طالبانِ مولیٰ : جن کی عبادات اور جد و جہد کا مقصود دیدارِ حق تعالیٰ اور اُس کا قرب وو صال ہے۔ یہ نہ دنیا کے طالب ہوتے ہیں اور نہ ہی حوروقصور اور نعمت ہائے بہشت کے۔ان کا مقصد ذاتِ حق تعالیٰ ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے طالب اور عاشق ہوتے ہیں۔اس طلب کے لیے یہ دونوں جہانوں کو قربان کر دیتے ہیں اور دنیا و عقبیٰ کو ٹھکرا کر ذاتِ حق کے دیدار کے متمنی رہتے ہیں۔
ان تین گروہوں کو حدیثِ قدسی میں یوں بیان کیا گیا ہے:
طَالِبُ الدُّنْیَا مُخَنَّثٌ وَ طَالِبُ الْعُقْبٰی مُؤَنَّثٌ وَ طَالِبُ الْمَوْلٰی مُذَکِّرٌ۔ 
ترجمہ: ’’دنیا کا طالب (مخنّث) ہیجڑہ ہے،عقبیٰ کا طالب (مؤنث) عورت ہے اور طالب مولیٰ مذکّر (مرد)ہے۔‘‘
حضورصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے:
مَنْ طَلَبَ شَیْءًا فَلاَ تَجِدْہُ خَیْرًا وَمَنْ طَلَبَ الْمَوْلٰی فَلَہُ الْکُلُّ۔ 
ترجمہ:’’ جو شخص کسی چیز کی طلب کرتا ہے وہ اس میں کبھی بھلائی نہیں پاتا اور جو شخص مولیٰ کی طلب کرتا ہے اُس کے لیے سب کچھ ہے۔‘‘
مزید فرمایا: ’’بہترین طلب اللہ تعالیٰ کی طلب ہے اور بہترین ذکر ’’اللہ‘‘ (یعنی اسمِ اللہ ذات) کا ذکر ہے۔‘‘
پس سب سے بہترین طلب اللہ تعالیٰ کی طلب ہے اور تمام گروہِ جن و انس میں سب سے بہترین گروہ طالبانِ مولیٰ کا گروہ ہے۔

طالب مولیٰ کی خصوصیات 
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو ؒ طالبِ مولیٰ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
* مولیٰ کے چار حروف ہیں (اور ان چار حروف کی تاثیر سے ) طالبِ مولیٰ میں چار نشانیاں پائی جاتی ہیں حرف ’م‘ سے طالب اپنے نفس کو اس کی مُراد و لذّت نہیں دیتا اور معرفت میں محو رہتا ہے ۔ حرف ’و‘ سے وحدانیت میں مستغرق رہتا ہے ۔حرف’ل‘ سے لائقِ دیدار ہوتا ہے اور دنیا مردار کے بکھیڑوں سے لاتعلق رہتا ہے اور حرف ’ی‘ سے یادِ حق تعالیٰ میں اس طرح غرق رہتا ہے کہ بجز دوست اسے نہ مال و فرزند یاد رہتا ہے نہ اپنا تن یاد۔ (عین الفقر)
سلطان الفقر (ششم) حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ّ* طالبِ مولیٰ دنیا اور لذّاتِ دنیا اور عقبیٰ (جنت) کے درجات اور اس کی نعمتوں کا طلب گار نہیں ہوتا اس کی طلب تو بس دیدار ہوتی ہے۔ (مجتبیٰ آخر زمانی)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* دِل میں کسی خاص چیز کے حصول کی خواہش اور ارادے کا نام طلب ہے اور حصولِ طلب کا جذبہ دِل میں ہی پیدا ہوتا ہے۔ جو انسان اپنے دِ ل میں اللہ تعالیٰ کی پہچان ، دیدار اور معرفت کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس کی خواہش کو ’’طلبِ مولیٰ‘‘ اور اسے طالبِ مولیٰ یا ارادت مند کہتے ہیں جسے عام طور پر سالک ، طالب یا مرید کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ (سلطان العاشقین)
راہِ فقر اللہ تعالیٰ کے دیدار و طلب کی راہ ہے ۔ طالبِ مولیٰ اسی راہ کا راہی یا مسافر ہوتا ہے ۔وہ اللہ کے دیدار کی ایک جھلک کے لیے اپنی جان و مال تک کو قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔
راہِ فقر اللہ تعالیٰ کے قرب و دیدار کی باطنی راہ ہے باطنی سفر ہی سب سے زیادہ مشکل اور دشوار گزار ہوتا ہے طالبِ مولیٰ اس وقت تک اپنے مقصد کو نہیں پا سکتا جب تک وہ اپنے اس سفر میں استقامت کو اپنا ہتھیار اور مرشد کو اپنا رہنما نہ بنا لے ۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشادِ پاک ہے: ’’ طالب مرشد کے سامنے اس طرح (بے اختیار) ہوتا ہے جس طرح کہ مردہ غسل دینے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔‘‘
اللہ اور اس کے محبوب رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سچی محبت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ راہِ فقر اختیار کی جائے اور اس راہ میں کامیابی کے لیے کامل مرشدسروری قادری کے حضور اخلاص و استقامت سے سرِ تسلیم خم کیا جائے۔ جمال اور جلال دونوں صورتوں میں محبت میں کمی نہ آنے پائے۔

استقامت 
اولیا اللہ اور فقرا کاملین نے ہمیشہ کشف و کرامات کے حصول کی کوشش کرنے کی بجائے استقامت اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ روایت ہے کہ حضرت ابو حفض ؒ سے پوچھا گیا: ’’کون ساعمل افضل ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا : ’’استقامت! کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایاہے کہ ثابت قدم رہو اگرچہ تم اس کی حفاظت نہیں کر سکو گے۔‘‘
حضرت امام جعفر صادقؓ نے آیت مبارکہ فَا سْتَقِمْ کَمآ اُمِرْتَ o (ترجمہ:پس آپؐ ثابت قدم (استقامت ) رہیے جیسا کہ آپؐ کو حکم دیا گیا ہے)کی تفسیر یوں بیان فرمائی :
’’عزم صادق کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرو۔‘‘
میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* راہِ فقر میں استقامت سے مراد یہ ہے کہ طالبِ اللہ مرتے دم تک اللہ پاک کی ذات کو پانے کی خواہش میں رہے یعنی طالبِ مولیٰ کی طلب صر ف اور صرف اللہ کی ذات ہو اوراسے کسی چیز سے قرار نہ ملے۔ 
یعنی صادق طالبِ مولیٰ کو چاہیے کہ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے دیدار و معرفت کے حصول کے لیے اپنے ہر حال و عمل میں مرشد کی ذات پر مکمل بھروسہ رکھے اور خود کو مکمل طور پر مرشد کے سپرد کر دے۔ اس بات کا یقین رکھے کہ وہ تمام معاملات جو اسے راہِ حق میں پیش آ رہے ہیں‘ مرشد کے حکم سے ہیں اور وہی بہترین رفیق و رہنما ہے۔ استقامت کے لحاظ سے طالبِ مولیٰ کے لیے راہِ حق میں ظاہری و باطنی استقامت نہایت ضروری ہے۔ ان میں ظاہری استقامت کا تعلق علم سے اور باطنی استقامت کا تعلق عمل سے ہے۔ظاہری استقامت سے مراد یہ ہے کہ طالبِ مولیٰ اس بات کا یقین رکھے کہ اس کی تقدیر خواہ اچھی ہے یا برُی‘ لکھی جا چکی ہے اور معاملاتِ زندگی کے تما م فیصلے اس کے عالمِ ناسوت میں آنے سے پہلے ہی طے ہو چکے ہیں۔اس لیے راہِ حق کے طالب کو اپنے ظاہری و دنیاوی معاملات میں ہر گز پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ شریعت میں رہتے ہوئے اپنے تمام تر معاملاتِ زندگی کو ثابت قدمی سے مرشد کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔سروری قادری مرشد کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ اپنے مرید کے تمام ظاہری و باطنی احوال سے واقف رہتا ہے۔ وہ نہ صرف ظاہر بلکہ باطن میں بھی اپنے مرید کی رہنمائی فرماتا رہتا ہے۔ اس لیے طالبِ حق پر فرض ہے کہ وہ باطنی یا عملی استقامت کے حصول کے لیے اپنی نظر صرف رضائے الٰہی پر رکھے اور اللہ کے ساتھ باطن میں اپنے معاملات درست رکھے اور باطن میں خود کو مرشد کی بارگاہ میں با ادب اور عاجز رکھے۔ وہ باطن میں پیش آنے والی تمام رکاوٹوں اور آزمائشوں کو ثابت قدم رہتے ہوئے اس یقین سے قبول کرے کہ میرا رہنما و رفیق مرشد میرے ساتھ ہے وہ ضرور مجھے اس آزمائش سے نکال لے گا اور ساتھ ساتھ باطن میں مرشد کے تمام عطا کردہ فرائض کی ادائیگی میں ہوشیار رہے۔ صادق طالبِ مولیٰ ہر دم غیر ماسویٰ اللہ سے گردن چھڑانے والا اور نفس،دنیااور شیطان کا محاسبہ کرنے والا مجاہد ہوتا ہے۔قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا ربّ اللہ ہے اور پھر اس اقرار پر استقامت سے کھڑے رہے ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں جو انہیں خوشخبری سناتے ہیں کہ تم آخرت کا خوف اور غم مت کرو بلکہ اس جنت کی خوشی مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘ (حٰمٓ السجدہ۔30)
حضر ت علی کر م اللہ وجہہ کا فرمان ہے :
* کمینے کی پہچان یہ ہے کہ جب اسے کوئی مرتبہ ملتا ہے تو اس کی حالت بگڑ جاتی ہے اور چال چلن خراب ہوجاتا ہے۔‘‘
اس لیے طالبِ مولیٰ کو چاہیے کہ جب مرشد اپنے تصرف سے کچھ عطا کرے تو عاجزی سے قبول کرے اور حد سے نہ بڑھے اور اگر بار بار مانگنے پر وصالِ الٰہی میں تاخیر ہوتو مرشد سے ہر گز بد گمان نہ ہو بلکہ استقامت کا دامن مزید مضبوطی سے تھام لے اور عاجزی اختیار کرے۔
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
* فقر اور بلا پر ثابت قدم رہنے کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت قرار دیا گیا ہے۔ (الفتح الربانی۔مجلس۱)
* اے طالبِ دنیا! تُو نعمت کی حالت میں اللہ تعالیٰ کو دوست سمجھتا ہے اور اس کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن جب اس کی طرف سے بلا آتی ہے تُو بھاگ کھڑا ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ تیرا دوست نہ تھا۔ بندگی اور بندہ ہونے کا اظہار امتحان کے وقت ہوتا ہے ۔جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصائب و آلام کا نزول ہو اور تُوان پر ثابت قدم رہے تو تُو اللہ تعالیٰ کا بندہ اور دوست ہے۔اگر اس وقت تجھ میں تغیر پیدا ہوگیا توتیرا جھوٹ ظاہر ہو جائے گااور پہلا (محبت کا) دعویٰ ٹوٹ جائے گا۔ (الفتح الربانی۔مجلس۱)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
جو دِل منگے ہووے ناہیں، ہووَن ریہا پریرے ھُو
دوست نہ دیوے دِل دا دارُو، عشق نہ واگاں پھیرے ھُو
اِس میدان محبت دے وچ، مِلدے تا تکھیرے ھُو
میں قربان تنہاں توں بَاھُوؒ ، جنہاں رکھیا قدم اگیرے ھُو
اس بیت میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو ؒ ’’راہِ فقر ‘‘ پر گامزن طالبِ مولیٰ کی بے چینی اور بے سکونی بیان فرمارہے ہیں جو ابتدا میں طالب کو پیش آتی ہے ۔ دِل میں دیدار کی جو خواہش ہے وہ ابھی پوری نہیں ہو رہی۔ نہ ہی مرشد کی طرف سے کوئی مہربانی ہو رہی ہے اور نہ ہی ذاتِ حقیقی کی طرف سے وصال کا کوئی پیغام آرہا ہے۔ بے چینی، بے سکونی اور وصالِ یار کے لیے تڑپ اور آگ مزید تیزہو رہی ہے۔آپؒ فرماتے ہیں کہ میں ان طالبانِ مولیٰ کے قربان جاؤں جو اِن سب کے باوجود استقامت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھتے ہیں اور آخرکار اپنی منزل پا لیتے ہیں۔ (ابیاتِ باھُو کامل)
ثابت صدق تے قدم اگیرے، تائیں ربّ لبھیوے ھُو
لُوں لُوں دے وچ ذکر اللہ دا، ہر دم پیا پڑھیوے ھُو
ظاہر باطن عین عیانی، ھُو ھُو پیا سنیوے ھُو 
نام فقیر تنہاں دا بَاھُوؒ ، قبر جنہاندی جیوے ھُو
وصالِ الٰہی تو تب ہی ممکن ہے جب طالبِ مولیٰ صدق ، اخلاص اور استقامت کے ساتھ راہِ فقر میں اپنا سفر جاری رکھے اور اس کے لُوں لُوں سے ذکر اسمِ اللہ ذات جاری ہو جائے اور ظاہر و باطن میں وہ مشاہدۂ حق تعالیٰ میں غرق ہو۔ فقیر تو وہی ہوتے ہیں کہ جن کی قبرِ انور سے بھی فیض کے چشمے جاری ہوں۔
میرے ہادی و مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
* اللہ تعالیٰ کی راہ میں چلتے ہوئے اپنے مقصد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے خواہ بظاہر ناکامی ہی کیوں نہ ملے ۔اگر استقامت و خلوص ہو گا تو اللہ پاک طالب کو کبھی ناکام نہ ہونے دے گا۔
* ثابت قدمی یا استقامت راہِ حق کی مشکلات اور آزمائشوں کو صبر و حوصلہ سے پار کرنے کی طاقت عطا کرتی ہے ۔یہ دین و دنیا دونوں میں کامیابی کی بنیاد ہے۔

عاجزی میں استقامت
سروری قادری مرشد کی ذات پاک اسرارِ ربّانی کا چشمہ ہوتی ہے جہاں سے طالب اپنی طلب کے مطابق سیراب ہوتا ہے۔عاجزی طالب کی طلب میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔طالبِ مولیٰ اپنے ہر عمل، سوچ اور فکر میں مرشد کے حضور عاجز رہ کر ہی اپنی مراد کو پا سکتا ہے ۔عشقِ مرشد اور عاجزی راہِ فقر کے اہم زینے ہیں۔لہٰذا طالب کے لیے عاجزی میں استقامت اختیار کرنا بھی نہایت ضروری ہے ۔ عاجزی کا اصل امتحان تو مرشد کی عطا میں پوشیدہ ہوتا ہے یعنی جب طالب مرشدکے خاص وصف کو اپنا کر ترقی پاتا ہے تو اس وصف کی خوبیاں طالب میں ظاہر ہوتی ہیں۔یہی مقام ہوتا ہے جہاں طالب کو عاجزی میں استقامت اختیار کرنی ہوتی ہے ۔کیونکہ ہر عطا کا مالک صرف اور صرف مرشد کامل کی ذات ہی ہوتی ہے اس میں طالب کا اپنا کوئی کمال نہیں ہوتا۔یہی وصف طالبِ حق کو ترقی کی منازل طے کرواتا ہے۔ دیدارِ الٰہی کے لیے جس قدر عاجزی میں استقامت ضروری ہے اتنی ہی صبر وا خلاصِ نیت میں بھی استقامت نہایت ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے مومن بندے (طالبِ مولیٰ ) کا صبر کرنا نہایت پسند ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘

توبہ میں استقامت
بلاشبہ انسان خطا کا پتلا ہے اور طالبِ مولیٰ سے بھی روز مرّہ زندگی میں بارہا خطائیں ہوتی رہتی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ اپنی خطاؤں پر پشیمان نہ ہواور شیطان کی طرح اکڑ جائے اور نہ ہی ایسا ہو کہ وہ اپنے گناہوں کے شدتِ غم سے اپنی زندگی کو اللہ کی رحمت سے دوراندھیروں میں گم کر لے۔اگر اس سے کوئی غلطی سر زد ہو گئی ہے یا بار بار ہو رہی ہے تو اسے خود کو اس غلطی سے باز رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اللہ کے ’رحمن و رحیم ‘ ہونے کو یاد رکھنا چاہئے تاکہ طالب نا امیدی کے گڑھے میں نہ گِر جائے۔راہِ فقر اللہ تعالیٰ کے قرب و دیدار پانے کی راہ ہے اس لیے اس میں قدم قدم پر طالبانِ مولیٰ کو نفس،شیطان اور دنیا سے بچ کر نکلنا پڑتا ہے ۔اکثر طالبانِ مولیٰ سے ظاہری و باطنی غلطیاں سر زد ہو جاتی ہیں لیکن مرشد کے کرم سے خلوصِ نیت رکھنے والے طالب کو جلد ہی احساس ہو جاتا ہے اور وہ گناہوں سے توبہ کر لیتا ہے اور خود کو حقیقی دارالامان یعنی مرشد کی بارگاہِ اقدس میں جھکا لیتا ہے۔ حقیقی توبہ وہی ہوتی ہے جس میں طالب خطا پر توبہ کرنے کے بعداستقامت اختیار کرے یعنی اپنے اعضا کو گناہوں اور فضول کاموں سے پاک رکھے، اپنی ظاہری نگہداشت کے ساتھ ساتھ اپنے باطن کی نگہداشت اور محاسبہ پر توجہ دے تاکہ اپنی مراد کو پا سکے۔طالبِ مولیٰ کے صدق کی سب سے بڑی نشانی ہی یہ ہے کہ وہ اللہ کی ذات کے سواہرچیز کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور جب توبہ کرتا ہے تو استقامت اختیار کرتا ہے۔ 
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
* اے کم عقل! تو کسی مصیبت کی وجہ سے جس میں تجھے اللہ تعالیٰ مبتلا فرمائے‘ اس کے دروازے سے نہ بھاگ کیونکہ وہ تیری مصلحت کو تجھ سے زیادہ جاننے والا ہے ۔وہ کسی فائدے اور حکمت کے لیے تیرا امتحان لیا کرتا ہے ۔ جب وہ تیرا کسی بلا کے ساتھ امتحان لے پس اس پر ثابت قدم رہ اور اپنے گناہوں کی طرف رجوع کراور استغفار کر توبہ زیادہ کر اور اس پر صبر اور ثابت قدمی کی درخواست کر۔ (الفتح الربانی۔مجلس50) 

استقامت افضل ہے کرامت سے
قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے:’’جو ایمان لائے اور ثابت قدم رہے ان کے لیے اجرِ عظیم ہے۔‘‘
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:’’کرامات راہِ فقر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں بلکہ سب سے بڑی کرامت استقامت اور مستقل مزاجی سے اس راہ پر چل کر منزلِ مقصود تک پہنچنا ہے۔‘‘ (ابیاتِ باھُو ؒ کامل)
راہِ حق کے طالب کے لیے ضروری ہے اسے استقامتِ نفس حاصل ہو کیونکہ نفس شیطان کا قدیم ہتھیار ہے لیکن اگر اسی نفس کی اصلاح اور نیک تربیت شروع ہو جائے تو یہ باطن میں بتدریج عالمِ ملکوت اور حیاتِ طیبہ کی طرف ترقی کرتا ہے۔ حضرت ابو علی جوزجانی ؒ فرماتے ہیں:
’’استقامت کی طلب کر ،کرامت کی طلب نہ کر کیونکہ تیرا نفس تو کرامت کی خواہش رکھتا ہے لیکن تیرا ربّ تجھ سے استقامت چاہتا ہے۔‘‘ (عوارف المعارف)
یعنی طالب کو تمام تر زہد و عبادات اور ریاضت و مجاہدات صر ف اور صرف قرب و دیدارِ الٰہی کے حصول کے لیے کرنے چاہئیں نہ کہ اس مقصد کے لیے کئے جائیں کہ اس سے کرامات کا ظہور ہو۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو ؒ فرماتے ہیں : 
* راہِ فقر میں استقامت کی ضرورت ہے نہ کہ ہوائے نفس و کرامت کی۔کیونکہ استقامت مرتب�ۂ خاص ہے اور کرامت مرتب�ۂ حیض و نفاس ہے۔ (عین الفقر)
طالب جیسے جیسے راہِ حق کے سفر میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے ویسے ویسے مرشد کامل اس پر اس راہ کے راز عیاں فرماتا جاتا ہے۔ کشف، وھم، الہام اور دعوت سب سروری قادری مرشد کی ہی عطا ہوتی ہیں اور وہ اپنے فضل سے جس پر چاہے یہ راز کھول دے اور اپنی حکمت سے جس پر چاہے روک دے۔لیکن ایک حقیقی و صادق طالبِ مولیٰ کا یہ طریقہ کار ہوتا ہے کہ وہ نفس پر استقامت کا مطالبہ کرتا ہے اور کشف و کرامات سے بے نیاز رہتے ہوئے استقامت کو ہی سب سے بڑی کرامت مانتا ہے۔ سلطان الفقر (ششم ) حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی ؒ فرماتے ہیں:
* راہِ فقر میں سب سے بڑی کرامت استقامت ہے۔
پس طالبِ مولیٰ اس وقت تک اپنی مراد یعنی قرب و دیدارِ الٰہی کو نہیں پا سکتا جب تک وہ اپنی ذات سے بیگانہ اور مرشد سے یگانہ نہیں ہو جاتا۔ مرشد کے ساتھ یگانگت اختیار کر کے ہی طالبِ مولیٰ استقامت سے اپنی منازل طے کر سکتا ہے کیونکہ عاجزی و استقامت کیساتھ مرشد کی صحبت اختیار کرنے سے طالبِ مولیٰ کا تزکیہ نفس ہوتا ہے جس سے باطن کے تمام حجابات ہٹ جاتے ہیں،نفس مطمئن ہو جاتا ہے اور روح اپنے حقیقی سفر یعنی دیدارِ الٰہی کی طرف تیزی سے بڑھنا شروع ہو جاتی ہے یہی روح کی اصل معراج ہے۔الغرض طالبِ مولیٰ کو راہِ حق میں کامیابی سے اپنا سفر جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے سب سے پہلے اخلاصِ نیت سے سروری قادری مرشد کامل اکمل (جو کہ ہر دور میں ایک ہی ہوتا ہے اور وہی اس دور کا امام ہوتا ہے) کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے اور ہر مقام پر مرشد کی رضا کو مدّنظر رکھتے ہوئے استقامت کی التجا کرتارہے۔ 
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو ؒ سروری قادری مرشد کامل اکمل کی شا ن ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
* مرشد کامل وہ ہوتا ہے جو طالب کو اسمِ اللہ کے ذکر کے ساتھ ساتھ اس کا تصور بھی عطا کرے ۔ آپؒ فرماتے ہیں : جو مرشد طالب کو تصوراسمِ اللہ ذات عطا نہیں کرتا وہ مرشد لائقِ ارشاد مرشد نہیں ۔ (نور الہدیٰ)
* سروری قادری مرشد کی اصل حقیقت یہ ہے کہ سروری قادری فقیر ہر طریقے کے طالب کو عامل کامل مرتبے پر پہنچا سکتا ہے کیونکہ دیگر ہرطریقے کے عامل کامل درویش سروری قادری فقیر کے نزدیک ناقص و نا تمام ہوتے ہیں کہ دوسرے ہر طریقے کی انتہاسروری قادری کی ابتدا کو بھی نہیں پہنچ سکتی خواہ عمر بھر محنت و ریاضت کے پتھر سے سر پھوڑتا پھرے۔ (محک الفقرکلاں)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس امامِ وقت اور مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ ہیں۔ بطور رہنما آپ مدظلہ الاقدس اپنے کامل تصرف و مقام کی بدولت طالبانِ مولیٰ کو دنیا ، نفس اور شیطا ن کی فریب کاریوں سے بچا کر قربِ حق تعالیٰ تک لے جاتے ہیں۔آپ مدظلہ الاقدس کے اعلیٰ وارفع دریائے وحدت سے صرف وہی طالبانِ حق زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہو سکتے ہیں جو کامل یقین اور اعتقاد رکھتے ہوں اور صدق و اخلاص نیت سے آپ مدظلہ الاقدس کی اطاعت کرتے ہیں۔اگر طالب پر خلوص ہو اور عاجزی و استقامت سے اطاعت گزار بنا رہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ مدظلہ الاقدس جیسا کامل اکمل رہنما اسے دنیا ،نفس اور شیطان کے فریب میں پھنسنے دے۔
مُرشد سدا حیاتی والا باھُوؒ ، اوہو خضر تے خواجہ ھُو
میرے مرشد و ہادی سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے فیض کا یہ چشمہ جاری و ساری ہے اور ہر خاص و عام کو دعوت ہے کہ وہ نفس،دنیااور شیطان کے خطرناک وار اور حملوں سے بچنے کے لیے آپ مد ظلہ الاقدس سے تزکیۂ نفس کے لیے سلطان الاذکار،اسمِ اعظم،اسمِ اللہ ذات کا ذکرو تصور حاصل کرے۔تاکہ راہِ فقر پر چل کر معرفتِ الٰہی کی نعمت پا سکے۔
صحبت مجلس پیر میرے دی بہتر نفل نمازوں
ہک ہک سخن شریف اِنہاں دا کردا محرم رازوں


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں