دیدارِا لٰہی – تعلیماتِ باھوؒ کی روشنی میں

Spread the love

Rate this post

دیدارِا لٰہی..تعلیماتِ باھوؒ کی روشنی میں

انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی پہچان و معرفت ہے اور پہچان و معرفت کا واحد ذریعہ دیدارِ الٰہی ہے جو کہ نورِ بصیرت سے ہی ممکن ہے یعنی جس کے اندر کی آنکھ کھل گئی ہو وہی اللہ کی ذات کا دیدار کر سکتا ہے۔ معراج کی رات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ پاک کا دیدار نصیب ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی امت کے لیے بھی دیدار کی یہ نعمت تحفتاً مانگ لی۔ دیدارِ الٰہی کی نعمت امتِ محمدی کا خاصہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ سے مومنین اور صادق طالبوں کو یہ خاص مرتبہ حاصل ہوا ہے۔ 
حضرت سخی سلطان باھوؒ کی تعلیمات کے عین مطابق دیدارِ الٰہی تین طریقوں سے روا ہے۔ آپ ؒ نے ان کی وضاحت اپنی کتاب ’’ قربِ دیدار‘‘ میں بھی فرمائی ہے۔ 
اوّل: اگر کسی طالب کو خواب میں دیدارِ الٰہی کی نعمت حاصل ہوتی ہے تو از روئے شریعت روا ہے۔ اس طرح کے خواب قرب و وصال اور معرفتِ الٰہی کے متعلق ہوتے ہیں۔اس لیے ایسے خوابوں کو عام خیال نہیں سمجھنا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
یَنَامْ عَیْنِیْ وَلَا یَنَامُ قَلْبِیْ۔
ترجمہ: ’’میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
دوم: کسی کو اگر بذریعہ مراقبہ دیدار حاصل ہوجائے تو یہ بھی جائز اور روا ہے۔ یہ مراقبہ اس قسم کا ہوتا ہے جس میں جسم سے روح نکل جاتی ہے۔ ظاہری جسم مردہ معلوم ہوتا ہے لیکن باطن میں روحانی جسم حق تعالیٰ کے حضور پیش رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے روبرو جواب وسوال کرتا ہے۔ یہ مراتب قربِ دیدار سے مشرف ہونے پر حاصل ہوتے ہیں۔ ارشادِ نبویؐ ہے:
مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا۔
ترجمہ:’’مرنے سے پہلے مرجاؤ۔‘‘
ارشادِ خداوندی ہے:
اَوَمَنْ کَانَ مَیْتَا فَاَحْیَیْنٰہُ (الانعام ۔ 122)
ترجمہ: ’’کیا وہ مردہ نہ تھا پس ہم نے اسے زندہ کردیا۔‘‘ 
سوم: طالب روحانی جسم کے ساتھ معرفت کی آنکھ سے عین العیان دیدارِ الٰہی حاصل کرتاہے جس سے وہ روشن ضمیر بن جاتا ہے۔ دیدارِالٰہی سے مشرف ہونے والے اور لامکانی کے مراتب کو امثال کے ذریعے بیان نہیں کیا جا سکتاہے۔
دیدارِالٰہی کے ان تینوں طریقوں کا تعلق معرفت کی آنکھ سے ہے۔ باطنی مشاہدے اور بصیرت کے لیے ضروری ہے کہ دیدار کے لیے تڑپ، طلب اور شدت پیدا کی جائے اور اسی مقصد کے حصول کے لیے مرشدکامل کاہاتھ تھاما جائے۔ 
لیکن جودیدارِ الٰہی کے منکر اور فقرا کے دشمن ہیں وہ ابلیس مردود کی جماعت میں سے ہوتے ہیں۔دیدارکی نعمت صرف اہلِ ہدایت فقرا کو نصیب ہوتی ہے۔ شیطان صفت طالب اس سعادتِ کبریٰ سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی مثال مادر زاد اندھے کی طرح ہے کہ جس کو اگر دیدار کروا بھی دیا جائے تب بھی وہ اندھے ہی رہیں گے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وََمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہِٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی (بنی اسرائیل- 72)
ترجمہ: اور جو شخص اس دنیا میں (دیدارِ الٰہی سے ) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔
ہر کہ منکر گشت ز دیدارِ الٰہ
ہر کہ پوشد حق آن کافر روسیاہ
ترجمہ: ’’جو دیدارِ الٰہی کا منکر ہے اور حق کو چھپاتا ہے وہ کافر رو سیاہ ہے۔‘‘
ہر کہ منکر می شود زین خاص راہ
عاقبت کافر شود آن روسیاہ
ترجمہ: ’’ جو اس خاص راہ کا منکر ہے وہ کافر ہے اور آخرت میں روسیاہ ہوگا۔‘‘
اللہ کی پہچان اور دیدارِ الٰہی حاصل کرنا اصل مقصدِ حیات ہے اور یہی وجۂ تخلیقِ کائنات بھی ہے۔ جب بھی ہم کسی انجانی راہ پر چلتے ہیں تو ہمیں کسی راہبر، راہنما اور ہمدرد ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جو ہماری بھلائی بھی چاہتا ہو اور اس راستے کے پیچ وخم اور نشیب و فراز سے بھی مکمل واقف و آشنا ہو۔ بالکل اسی طرح راہِ فقر پر چلتے ہوئے انتہائے فقر کو پالینے کے لیے مرشد کامل اکمل کی راہنمائی اور نگاہ کا فیض لازمی جزو ہے۔دیدارِالٰہی کی حقیقی منزل صرف کامل مرشد کی راہنمائی سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ ناقص اور خام مرشد کی نظر دنیاوی مال اور سیم و زر پر ہوتی ہے اس لیے کامل اور ناقص مرشد کی تحقیق طالبِ مولیٰ کے لیے ضروری ہے۔حضرت سخی سلطان باھوؒ اپنی کتاب ’’نورالہدیٰ‘‘ میں فرماتے ہیں: طالب پر فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے یہ تحقیق کرلے کہ آیا اُس کا مرشد کامل ہے یا ناقص، جیسے کہ ایک عورت اپنے خاوند کے مرد یا نامرد ہونے کی تحقیق کرتی ہے کیونکہ مرد مرشد طالبِ صادق کو اپنے مرتبے پر پہنچا دیتا ہے اور اس پر مرتبۂ عطا کھولتا ہے۔‘‘
مرشد کامل توفیقِ الٰہی کا نام ہے۔اس کی نگاہ کا فیض ایسا ہے جیسے بارانِ رحمت سے ہر خشک چیز تر ہوجاتی ہے۔ کامل مرشد اپنی نگاہ سے ہی طالب کو تمام مطالب عطا کر دیتا ہے اور نفسانی اور شیطانی حجابات سے نکال کر اللہ کی نظر میں منظور و مقبول بنا دیتا ہے۔
مرشد توفیق با توفیق بر
مرشد نامرد طالب سیم و زر
ترجمہ: باتوفیق مرشد طالب کو توفیق تک پہنچادیتا ہے۔ نا مرد مرشد سیم وزر کا طالب ہوتا ہے۔
ہر راستے، دوستی اور سنگت کے کچھ اصول ہوتے ہیں جن سے انحراف کی صورت میں تعلق خراب ہوجاتے ہیں بالکل اسی طرح حق کی معرفت اور دیدارِ الٰہی کی راہ پر چلنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے کامل مرشد تلاش کیا جائے ۔ جب طالب کو ایسا مرشد مل جائے تو پھر اسے چاہیے کہ اپنے اندر سے ہر طرح کا اعتراض باہر نکال دے اور مرشد کے کسی عمل پر اختلاف یا تنقید نہ کرے۔ سورۃکہف میں حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت خضرؑ کا واقعہ اس کی بہترین مثال ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ اپنی کتاب ’’ قربِ دیدار‘‘ میں اس کا ذکر یوں فرماتے ہیں: 
* ’’فقیر عارف باللہ کے ظاہری اعمال پر نظر مت رکھ خواہ وہ دنیا کی نظر میں گناہ ہی کیوں نہ ہو بلکہ ان کی باطنی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کر کیونکہ اس سے تجھے قرب و معرفتِ الٰہی کی راہ نصیب ہو گی جیسا کہ حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی میں سوراخ کر دیا، گری ہوئی دیوار کو بنا دیا اور بچے کو قتل کر دیا۔ یہ تینوں امور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نگاہ میں گناہ تھے لیکن حضرت خضر علیہ السلام عین راہِ ثواب پر تھے۔‘‘
حق اور باطل کی جنگ ازل سے چلی آ رہی ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی نے حق کے راستہ پر چلنے کے لیے قدم بڑھایا ہے تو اُسے اس راستے سے روکنے کے لیے شیطان ہمیشہ کسی نہ کسی روپ میں سب سے پہلے پہنچا ہے۔اسی لیے توکہا جاتا ہے کہ کسی راہ کی صداقت کی پہچان اس پر چلنے کی مخالفتوں سے ہوتی ہے۔ طالبانِ مولیٰ کو حق کی راہ سے بہکانے کے لیے شیطان کا جو پہلا وار ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آج کے دور میں کوئی ایسا مرشدموجود نہیں ہے جو لائق تلقین ہواور جس پر بھروسہ کیا جائے۔ ایسی صورت میں بھی سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کی تعلیمات طالبانِ مولیٰ کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوتی ہیں۔ آپ ؒ ’’قربِ دیدار‘‘میں فرماتے ہیں: ’’اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ موجودہ دور میں کوئی ولئ کامل ایسا نہیں جودستِ بیعت اور تلقین و ارشاد کے لائق ہوتو سمجھ لو یہ شیطانی حیلہ اور نفس کا فتنہ و فساد ہے۔ ایسا کہنے والے انا و ہوس کے مارے لوگ طالبِ مولیٰ کو معرفت اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے محروم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ جاسوس، رہزن، ڈاکہ زن ، غیبت گو اور عیب جو ہوتے ہیں۔‘‘
مرشد ایک باکمال کھلاڑی کی مثل ہوتا ہے جو طالبِ مولیٰ کومشکلات سے نکال کر منزلِ مقصود تک پہنچادیتا ہے۔کامل مرشد کی مثال یہ ہے کہ وہ پہلے ہی روز طالب کو سنہری حروف سے لکھا ہوا اسمِ اللہ ذات اسمِ اعظم عطا کرتا ہے اورتصورِ اسمِ اللہ ذات کے حاضرات سے طالب کو قرب، معرفت، مشاہدۂ نور اور توحیدِ ذات کی حضوری کے لائق بنا دیتا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
مرشد بازید خویش را
صورتی آن خویش بخشد جان صفا
ترجمہ:اپنے لیے ایسا مرشد تلاش کرنا چاہیے جو باکمال کھلاڑی کی مثل ہواور اس کی صورت سے طالب کو تصفیۂ قلب حاصل ہو۔
گر تو خواہی معرفت توحید ذات
باتصور مردہ دل را کن حیات
ترجمہ: اگر تو توحیدِ ذات کی معرفت چاہتا ہے تو تصور اسمِ h ذات سے مردہ دل کو زندہ کر۔
ذکرو تصور اسمِ h ذات کے اس طریق پر جو شک کرتے ہیں ان کو آپؒ یوں تنبیہ فرماتے ہیں:
باتو گویم بشنو ای اہل از ہوس
ہر مطالب اسمِ h باتو بس
ترجمہ: اے اہلِ ہوس! میں تجھ سے کہتا ہوں سن! صرف اسمِ h ذات سے ہی تمام مطالب حاصل ہو سکتے ہیں۔
اللہ انسان کی شہ رگ سے زیادہ نزدیک ہے تو پھر دیدارِ الٰہی کے لیے انسان اور اللہ کے بیچ کیا چیز حائل ہے جو اسے سرکشی اور نافرمانی میں مبتلا رکھتی ہے اور دیدارِ الٰہی سے دور رکھتی ہے۔
شد با سد سکندری خود درمیان
درمیان خود رفتہ شد عین العیان
ترجمہ: ’’تیری ذات سدِ سکندری(کانسی کی دیوار جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سکندر بادشاہ نے چینی تاتار اور چین کے درمیان بنائی تھی۔) کی طرح اللہ اور تیرے درمیان حائل ہے۔جب تو خود کو درمیان سے نکال دے گا تو تجھے عین العیان (دیدار) حاصل ہوجائے گا۔‘‘
اللہ اور انسان کے مابین جو حجابات کا پردہ ہے وہ نفس ، شیطان اور دنیا کی وجہ سے ہے۔ نفسِ امارہ کے بارے میں حضرت سخی سلطان باھوؒ اپنی کتاب’’نورالہدیٰ‘ ‘ میں فرماتے ہیں: 
* انسان کے ظاہر اور باطن کادارومداراس کے احوالِ نفس پر ہے۔نفسِ امارہ سیری کے وقت کبر و انا سے فرعون ہوتا ہے، بھوک کے وقت دیوانے کتے کی طرح درندہ ہوتا ہے، غصے کی حالت میں شیطان ہوتا ہے، شوروشر کی حالت میں دیو خبیث ابلیس ہوتا ہے اور سخاوت کے موقع پر بخیل قارون ہوتا ہے۔
* جان لے کہ آدمی کے وجود میں نفس گویا زنار کا ایک درخت ہے جس کی ہر رگ اور ہر شاخ زیاں کار ہے اور اس کے ہر پتے سے بدکاری کی بدبو آتی ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے:
تَرْک الدُّنْیَا رَاسُ کُلُّ عِبَادَۃِِ وَ حُبِّ الدُّنْیَا رَاسُ کُلُّ خَطِیْءَۃٍ
ترجمہ:ترکِ دنیا تمام عبادتوں کی جڑ ہے اور حُبِ دنیا تمام بُرائیوں کی جڑ ہے۔ 
حضرت سخی سلطان باھوؒ ’’سلطان الوھم‘‘ میں فرماتے ہیں:
* ’’باطن میں جب دنیا کی محبت آجاتی ہے تو وجود میں باطنی حواس کام نہیں کرتے اور کمزور ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور معرفت کا نام تک کئی ماہ اور کئی سال تک اس کے دل سے نہیں گزرتا بلکہ ہر لمحہ اس پر غفلت کے پردے گہرے ہوتے جاتے ہیں اور اس کا دل غفلت میں ڈوبا رہتا ہے۔ اسی کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ ھَیْھَاتَ ھَیْھَاتَ (ہائے افسوس! ہائے افسوس!) انبیا کرام کے حواسِ باطنی اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے پرورش پاتے ہیں۔ اسی لیے انبیا کرام ہر روز ہر لمحہ عالمِ حقیقت سے باخبر اور ہمیشہ ذکر و فکر میں رہتے ہیں۔ چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ میں اس طرح مستغرق رہتے ہیں کہ کوئی لمحہ بھی مشاہدۂ حق تعالیٰ اور دیدارِ الٰہی کے بغیر نہیں گزارتے۔‘‘
دنیا ، نفس اور شیطان یہ تینوں کافر ہیں اور طالبِ مولیٰ کے لیے راہِ فقر میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ دشمن کو ختم کرنے کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک دشمن کی پہچان ، دوسرا وہ ہتھیار جس سے دشمن کی گردن اُڑا دی جائے اور تیسری چیز ہے قوت۔ یہ تینوں چیزیں طالب کو مرشد کامل سے ہی حاصل ہوسکتی ہیں۔ کیونکہ مرشد کامل کے لیے اپنی نگاہ اور اسمِ اللہ ذات سے طالب کو لمحہ بھرمیں صاحبِ اطاعت بنانا اور نفس سے چھٹکارا دلانا کچھ مشکل نہیں۔ ہاں! وہ لوگ جو بغیر مرشد کی راہبری کے خود کو لائقِ دیدار سمجھتے ہیں وہ انا اور خود پرستی میں مبتلا رفیقِ شیطان ہوتے ہیں۔
بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ نفس کو مارنا اور شیطانی ہتھکنڈوں سے نکلنا ریاضت، مجاہدے، تقویٰ، درویشانہ لباس ، چلہ کشی وغیرہ کے ذریعہ ممکن ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ اس غلط فہمی سے متعلق اپنی کتاب ’’عین الفقر‘‘ میں فرماتے ہیں:
* ’’زہد، تقویٰ و ریاضت اختیار کرنا، روزہ رکھنا، حج کرنا، زکوٰۃ دینا نفس کے خلاف ہے کیا ان سے نفس مرجاتا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ نہیں مرتا۔ ذکر ، فکر، مجاہدہ، مشاہدہ، مراقبہ، محاسبۂ نفس، حضور مذکور (اللہ تعالیٰ) کا وصال نفس کے خلاف ہے۔ کیا ان سے نفس مرتا ہے؟ میں کہتا ہوں نہیں مرتا۔وردوظائف ، تسبیح، قرآن کی تلاوت، فقہ کے مسائل بیان کرنا بھی نفس کے خلاف ہے۔ کیا ان سے نفس مرتا ہے؟ میں کہتا ہوں نہیں مرتا۔ موٹا کھردرا لباس پہننا، مخلوق سے جدائی اختیار کرنا، زبان کو خاموش رکھنا، نیک لوگوں سے محبت رکھنا اور اچھے کام کرنا نفس کے خلاف ہے کیا ان سے نفس مرتا ہے؟ میں کہتا ہوں نہیں مرتا۔کسی تنہا گوشے میں چلہ کاٹنا، خود کو ہر چیز سے لاتعلق کر کے سر گردان پھرنا بھی خلافِ نفس ہے، کیا ان سے نفس مرتا ہے؟ میں کہتا ہوں نہیں مرتا۔ (دین کا) علم پڑھنا پڑھانااور اللہ کو جاننا پہچاننا بھی خلافِ نفس ہے کیا ان سے نفس مرتا ہے؟ میں کہتا ہوں نہیں مرتا۔‘‘تو پھر نفس سے رہائی کیسے ممکن ہے؟ آپؒ فرماتے ہیں:
باھوؒ ! دیو زادہ نفس را علاجی نیست
از سوزِ عشق بسوز تا آن دیو مسخر گردد
ترجمہ: اے باھوؒ ! اس دیو کے بچے نفس کا اس کے سوا کوئی علاج نہیں کہ اسے عشق کے سوز سے اتنا جلایا جائے کہ اس کی تپش سے یہ دیو مسخر اور تابع ہو جائے۔
ہر کہ داند طی طاقت او تمام
میشود دیدار او را ہر دوام
ترجمہ: جو شخص اسمِ اللہ ذات کی طے کو جان لیتا ہے اس کی غذا دیدارِ کامل ہو جاتی ہے اور وہ دائمی طور پر دیدارِ الٰہی میں محو رہتا ہے۔
نفس را بگذاشتن عمل از کدام
باتصور غرق شو ہر صبح شام
ترجمہ: نفس سے چھٹکارا کس عمل سے ممکن ہے؟ ہر وقت تصورِ اسمِ اللہ ذات میں غرق رہنے سے۔
موضوعِ بحث یہ ہے کہ کونسا راستہ دیدارِ الٰہی تک پہنچتا ہے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ راہِ فقر کو اپنایا جائے۔ کامل اور ناقص مرشد کی پہچان کی جائے۔ نفسانی، دنیاوی اور شیطانی حجابات سے نکل کر خود کو عشق کے گھاٹ اتارا جائے اور اسمِ اللہ ذات میں غرق ہو کر خود کو حضوری کے لائق بنایا جائے۔اس پہلو کا ایک نقطہ جس کے بارے میں وضاحت ضروری ہے کہ دیدار کے لائق کون ہے؟ کون ہے جو اپنی ہستی کو فنا کر کے بقائے دوام حاصل کرسکتاہے اور صاحبِ اشتیاق، صاحبِ استغراق اور باحضور کہلانے کا اہل ہوسکتا ہے؟ یہ سب صفات ان طالبانِ مولیٰ کی ہیں جو اوّل تا آخر اپنی طلبِ مولیٰ میں سچے رہتے ہیں۔ خواہ کتنی ہی مشکلات کیوں نہ آجائیں لیکن وہ استقامت کے ساتھ ڈٹے رہتے ہیں۔
نورالہدیٰ میں آپ ؒ فرماتے ہیں: 
* ’’طالبِ اللہ پر لازم ہے کہ وہ اپنے نفس کو قتل کردے تاکہ اس کے وجود میں’’انا‘‘ کا فرعونی خدائی دعویٰ باقی نہ رہے اور طالبِ اللہ پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ اپنی خواہشاتِ نفسانی کو اپنے پاؤں کے نیچے مسل ڈالے تاکہ نفس کی ہستی نیست و نابود ہو جائے۔ جب طالبِ اللہ اپنے وجود سے خودپرستی اور مستئ ہوا کے دو خداؤں کو تصور اسمِ اللہ ذات کی تلوار سے قتل کرڈالتا ہے تو تب کہیں جا کر فقر معرفتِ اللہ میں قدم رکھتا ہے۔ ایسے باطن آباد طالبِ اللہ کو نفس کا قتل کرنا مبارک ہو۔
خود پرستان را نہ حاصل شد خدا
خود پرستان را خداوند شد ہوا
ہر کہ کردہ جان و از جان تن جدا
باز دارد نفس را بہر از خدا
ترجمہ: خود پرستوں کو خدا کبھی نہیں ملتا کہ ان کا خدا توہوائے نفس ہے، خدا انہیں ملتاجو رضائے الٰہی کی خاطر اپنی جان پر کھیل کر نفس کو قابو میں رکھتے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی O فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی۔ (النزعت 40-41)
ترجمہ: ’’جو شخص اپنے ربّ کی بار گاہ میں حاضر ہوتے وقت ڈرا اور اس نے اپنے نفس کو خواہشات وشہوات سے روکے رکھا بے شک اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔‘‘
جوں جوں طالبِ مولیٰ راہِ فقر میں ترقی کی منازل طے کرتا چلا جاتا ہے اس کے اندر دیدارکاشوق بھی بڑھتا جاتا ہے۔اس کی روح، جسم ہر وقت دیدار کے لیے مشتاق رہتے ہیں۔ایسے ہی طالب کے بارے میں بیان ہے:
ھَلْ مِنْ مَّزِیْدَ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدَ الْمُشْتَاقْ اِلَی الْمُشَاھِدَۃٌ۔
ترجمہ: ’’ہم تیرے مشاہدے کے مشتاق ہیں کیا اور ہے؟ کیااور ہے۔
نظر بر دیدار دل دیدار در
دل نظر یکتائی نظار تر
ترجمہ:’’ نظر بھی دیدار میں گم ہے اور دل بھی دیدار میں غرق ہے۔ جب دل اور نظر یکتا ہوجاتے ہیں تو دیکھنے والے کے لیے دیدار مزید واضح ہوجاتاہے۔‘‘
تعلیماتِ باھوؒ کی روشنی میں راہِ فقر اور مرشد کامل کی راہبری ہی طالبِ مولیٰ کو دیدارِ الٰہی تک پہنچاتی ہے۔ دیگر اس کے اگر کوئی بھی جماعت یا سلک سلوک دیدارِ الٰہی کا دعویٰ کرتے ہیں تو وہ راہزن، دھوکہ اور فریب ہے۔ ایسے ناقص راستے کی حقیقت یہ ہے کہ اس کے مرید دنیاوی آسائشوں کے طلبگار، روزی کمانے کے سلسلے میں پریشان اور شیطانی ہتھکنڈوں میں جکڑے ہوتے ہیں۔
موجودہ دور میں صرف تحریک دعوتِ فقر ہی ہے جواس کارِخیر میں پیش پیش ہے۔ اللہ ہم سب کو سچی طلب رکھنے اور راہِ فقر کی منزل کو ترقی کے ساتھ طے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں