غزوہ اُحد – Ghazwa e Ohad


3.6/5 - (5 votes)

غزوہ اُحد

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَھْلِکَ تُبَوِّیُ الْمُؤْمِنِےْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ وَاللّٰہُ سَمِےْعٌ عَلےْمٌ۔ ( سورۃ آل عمران۔121 )
ترجمہ: اور یاد کرو (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) جب صبح سویرے اپنے در دولت سے روانہ ہو کر مسلمانوں کو (غزوہ اُحد کے موقع پر اہلِ مکہ کی جارح فوجوں کے خلاف دفاعی) جنگ کے لئے مورچوں پر ٹھہرارہے تھے اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔
مندرجہ بالا آیت کریمہ میں غزوہ اُحد کی طرف اشارہ ہے جو عالمِ اسلام اور تاریخِ اسلام کی دوسری بڑی جنگ تھی۔ یہ جنگ بغیر کسی نتیجہ کے اختتام پذیر ہوئی اور مسلمانوں کو کافی حد تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ غزوہ اُحد کا معرکہ شوال 3 ہجری میں اُحد کے پہاڑ کے عقب میں واقع میدان میں وقوع پذیر ہوا۔

پس منظر
غزوہ بدر میں شکست کھانے کا کفار کو بڑا رنج و ملال تھا۔ معرکہ بدر میں کفارِ مکہ کو شکست و ہزیمت اور اشراف کے قتل کا جو صدمہ برداشت کرنا پڑا اس کے سبب وہ مسلمانوں کے خلاف غیظ و غضب سے کھول رہے تھے۔ بدر کی شکست کے بعد انہوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ مسلمانوں سے ایک بھر پور جنگ لڑ کر اپنا کلیجہ ٹھنڈ ا کریں اور اپنے جذبہ غیظ و غضب کو تسکین دیں اور اس کے ساتھ ہی معرکہ آرائی کی تیاریاں بھی شروع کر دیں۔ اس معاملے میں سردارانِ قریش میں سے عکرمہ بن ابوجہل، صفوان بن اُمیہ، ابو سفیان بن حرب اور عبداللہ بن ابی ربیعہ زیادہ پر جوش اور پیش پیش تھے۔

اہلِ مکہ کی تیاریاں

اہلِ مکہ نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ ابوسفیان کا وہ قافلہ جو جنگِ بدر کا باعث بنا تھا اور جسے ابو سفیان بچا کر نکال لے جانے میں کامیاب ہو گیا تھا‘ اس کا سارا مال جنگی اخراجات کے لئے روک لیا اور جن لوگوں کا مال تھا ان سے کہا: ’’ اے قریش والو! تمہیں محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سخت دھچکا لگایا ہے اور تمہارے منتخب سرداروں کو قتل کر ڈالا ہے لہٰذا ان سے جنگ کرنے کے لئے اپنے مال کے ذریعے مدد کرو، ممکن ہے کہ ہم بدلہ چکا لیں۔‘‘ قریش کے لوگوں نے اسے منظور کر لیا۔ چنانچہ یہ سارا مال، جس کی مقدار ایک ہزاراونٹ اور پچاس ہزار دینار تھی، جنگ کی تیاری کیلئے بیچ ڈالا ۔پھر انہوں نے رضاکارانہ جنگی خدمت کا دروازہ کھول دیا۔ اس کے علاوہ اہلِ مکہ نے اشعار کے ذریعے لوگوں کی غیرت و حمیت کو جگایا۔ ایک مشہور شاعر ابو عزہ جو جنگ بدر میں قید ہوا تھا اور جس کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ عہد لے کر کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلاف کبھی نہ اُٹھے گابلا فدیہ چھوڑ دیا تھا، اس کو صفوان بن اُمیہ نے ابھارا کہ وہ قبائل کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کا کام کرے۔ چنانچہ ابو عزہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیے ہوئے عہد و پیمان کو بھلا دیا اور ایک بار پھر سے اہلِ مکہ کے جذبات کو ابھارنا شروع کردیا۔ خواتین کی جانب سے ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے اپنے گھر پر محفلیں شروع کر دیں جن میں خواتین کو اشعار کے ذریعے جنگ کے لیے ابھارا جاتا جس کے نتیجے میں خواتین نے اپنے زیورات بھی جنگ کی تیاری کے لئے خیرات کر دئیے۔

قریش کا لشکر اور سامانِ جنگ

قریش کی تیاری کو مکمل ہوتے ہوتے ایک سال پورا ہوگیا۔تمام مشرکینِ مکہ کو ملا کر کل تین ہزارکی فوج تیار ہوئی۔ قائدینِ قریش اس رائے پر متفق ہوئے کہ اپنے ساتھ عورتیں بھی لے چلیں تاکہ حرمت و ناموس کی حفاظت کا کچھ احساس ہو۔ لہٰذا پندرہ خواتین بھی قریش کے قافلے میں شامل ہوگئیں جن میں ابو سفیان کی بیوی ہندہ بھی شامل تھی۔ مشرکین کے دستے کی کمان ابو سفیان کر رہا تھا ۔

مدینے میں اطلاع اور ہنگامی صورتحال

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ قریش کی اس ساری نقل و حرکت کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔ آپؓ نے تمام تفصیلات ایک قاصد کے ذریعے خط کی صورت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں بھیجی۔ یہ خط حضرت ابی کعبؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پڑھ کر سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں رازداری برتنے کی تاکید کی ۔ اس کے بعد مدینہ منورہ میں ہنگامی صورتحال نافذ کر دی گئی ۔لوگ کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہمہ وقت ہتھیار بند رہنے لگے یہاں تک کہ دورانِ نماز بھی ہتھیار جدا نہیں کیے جاتے تھے۔ حضرت سعد بن معاذ ، حضرت اسید بن حضیرؓ اور سعد بن عبادہؓ پر مشتمل یہ مختصر سا دستہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگرانی پر تعینات ہو گیا۔ یہ صحابہ کرامؓ ہتھیار پہن کر ساری ساری رات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دروازے پر گزار دیتے تھے۔
صحابہ کرام کی یہ سنت طالبانِ مولیٰ کے لئے ایک سبق ہے کہ ایسا مرشد کامل اکمل جو قدمِ محمدؐ پر ہوتا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خلیفہ و نائب ہوتا ہے اس کی حفاظت کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ کی ڈیوٹی کے لئے اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔

مدینے کی دفاعی حکمتِ عملی کے لئے
مجلسِ شوریٰ کا اجلاس
اس ہنگامی صورتحال کے پیشِ نظر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجلسِ شوریٰ کا اجلاس منعقد فرمایا اور ممبرانِ شوریٰ کو ایک خواب سنایا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بتایا کہ میں نے ایک بھلی چیز دیکھی میں نے دیکھا کہ کچھ گائیں ذبح کی جارہی ہیں اور میں نے دیکھا کہ میری تلوار کے سرے پر کچھ شکستگی ہے اور یہ بھی دیکھا کہ میں نے اپناہاتھ ایک محفوظ زرہ میں داخل کیا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے گائے کہ یہ تعبیر بتلائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے گھر کا کوئی آدمی شہید ہوگا اور محفوظ زرہ سے مراد شہر مدینہ ہے ۔

صحابہ کرامؓ سے مشاورت اور
عبداللہ بن ابی
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جنگی حکمت عملی وضع کرنے کے لئے صحابہ کرامؓ سے مشاورت کی۔ اس مشاورتی اجلاس میں انصار اور مہاجر دونوں شامل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عبداللہ بن ابیّ رئیس المنافقین کو بھی مدعو کیا۔ عبداللہ بن ابیّ کو پہلی مرتبہ کسی مشاورت میں شامل کیا گیا تھا ۔اس کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا۔ کچھ صحابہ کرامؓ نے شہر کے اندر رہ کر ہی لڑائی کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ اس حکمتِ عملی کے تحت اگر مشرکینِ مکہ اپنے کیمپ میں مقیم رہتے ہیں تو بے مقصد اور برا قیام ہوگا اور اگر مدینے میں داخل ہوتے ہیں تو مسلمان گلی کوچے کے ناکوں پر ان سے جنگ کریں گے یہی صحیح رائے تھی اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے بھی اس رائے سے اتفاق کیا لیکن اس کے اتفاق کی وجہ یہ نہ تھی کہ جنگی نقطہ نظر سے یہی درست موقف تھا بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ جنگ سے دور بھی رہے اور اس کے اس قبیح فعل کا کسی کو احساس بھی نہ ہو مگراللہ پاک کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اللہ پاک اس کی منافقت اور دوغلے پن سے پردہ اُٹھانا چاہتا تھا تاکہ مسلمانوں کو اپنے مشکل ترین وقت میں منافق اور کافر کی پہچان ہو جائے۔ کچھ صحابہؓ نے ‘جوبدر میں شرکت سے رہ گئے تھے‘ بڑھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مشورہ دیا کہ کھلے میدان میں چل کر مقابلہ کیا جائے انہوں نے اپنی رائے پر سخت اصرار کیا۔ ان گرم جوش حضرات میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ سرِ فہرست تھے۔ آپؓ معرکہ بدر میں اپنی تلوار کا جوہر دکھا چکے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے حجرۂ مبارک میں تشریف لے گئے اور زرہ بکتر زیب تن کی اور تلوار تھام کر باہر تشریف لائے۔ جو سچے طالبانِ مولیٰ ہوتے ہیں وہ اپنے مرشد کا ایک ایک اشارہ سمجھ کر اس کی رضا کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں سو صحابہ کرامؓ (مرید، طالبانِ مولیٰ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (مرشدِ کامل) کے اس طرح زرہ بکتر میں باہر آنے کا مقصد سمجھ گئے اور کھلے میدان میں جا کر لڑنے کا فیصلہ ہوگیا ۔ اللہ پاک ہمیں بھی ایساطالب مولیٰ بنائے کہ ہم اپنے مرشد کا مل اکمل جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی رضا کو سمجھیں اور اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی پوری کوشش کریں۔

اسلامی لشکر کی ترتیب
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لشکرِ اسلام کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا:
1 ۔مہاجرین کا دستہ۔ اس کا پرچم حضرت مصعب بن عمیرؓ کو عطا کیا۔
2 ۔ قبیلہ اوس (انصار) کا دستہ۔ اس کا علم حضرت اُسید بن حضیرؓ کو عطا فرمایا۔
3 ۔ قبیلہ خزرج(انصار) کا دستہ۔ اس کا عَلَم حباب بن مُنذِرؓ کو عطا فرمایا۔
اسلامی لشکر ایک ہزار(1000 ) مردانِ جنگی پر مشتمل تھا جن میں ایک سو زرہ پوش اور پچاس شہسوار تھے۔ حضرت اُمِّ مکتومؓ کو اس کام پر مقرر فرمایا گیا کہ وہ مدینے کے اندر رہ جانے والے لوگوں کو نماز پڑھائیں گے۔

اُحد اور مدینے کے درمیان شب گزاری
اُحد اور مدینہ کے درمیان’’ شیخان‘‘ نامی ایک مقام پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے رات گزارنے کا حکم فرمایا ۔پہرے کے لئے پچاس صحابہ کرامؓ کو منتخب کیا گیا جو کیمپ کے اردگرد گشت کرتے رہتے تھے۔ ان کے قائد محمد بن مسلمہ انصاریؓ تھے۔

عبداللہ بن اُبی اوراس کے ساتھیوں کی سرکشی
طلوع فجر سے کچھ پہلے قافلہ چل پڑا اور پھر مقام ’’اشواط‘‘ پہنچ کر نمازِ فجر ادا کی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دشمن کے بالکل قریب تھے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین نے بغاوت کر دی اور ایک تہائی لشکر یعنی تین سو افراد کو لے کہ یہ کہتا ہوا واپس چلا گیا کہ اس کی بات نہیں مانی گئی اور دوسروں کی بات مان لی۔ یقیناًاس کی علیحدگی کا سبب وہ نہیں تھا جو اس منافق نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کی بات نہیں مانی۔ اگر یہ وجہ ہوتی تو وہ مدینہ منورہ سے مقام اشواط تک کبھی نہ آتا بلکہ وہیں سے الگ ہو جاتا بلکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ اس نازک موڑ پر الگ ہو کر اسلامی لشکر میں ایسے وقت اضطراب اور کھلبلی مچانا چاہتا تھا جب دشمن اس کی ایک ایک نقل و حرکت دیکھ رہا تھا تاکہ اسلامی لشکر کے حوصلے ٹوٹ جائیں اور دوسری طرف یہ منظر دیکھ کرکفار کی ہمت بندھ جائے لہٰذا یہ کاروائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے مخلص ساتھیوں کے خاتمے کی ایک تدبیر تھی جو اس منافق نے اپنائی اور اس کے کفرو نفاق سے اللہ پاک نے پردہ اُٹھا دیا۔
غزوہ احد میں منافق کی اس حرکت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا:
ترجمہ: اور ایسے لوگوں کی بھی پہچان کرا دے جو منافق ہیں اور جب ان سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا (وضاحتاً کہا گیا کہ دشمن کے حملے کا ) دفاع کرو تو کہنے لگے اگر ہم جانتے کہ (واقعتا) لڑائی ہوگی (یا ہم اسے اللہ کی راہ میں جنگ جانتے) تو ضرور تمہاری پیروی کرتے، اس دن وہ (ظاہری) ایمان کی نسبت کھلے کفر سے زیادہ قریب تھے، وہ اپنے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جوان کے دلوں میں نہیں ہیں اور اللہ (ان باتوں) کو خوب جانتا ہے جو وہ چھپا رہے ہیں۔ (سورہ آلِ عمران۔167 )
اس کے بعد اسلامی لشکر کی تعداد 700 رہ گئی۔
اس منافق کی یہ حرکت دیکھ کر مزید دو جماعتوں یعنی قبیلہ اوس میں سے بنو حارثہ اور قبیلہ خزرج میں سے بنو سلمہ کے قدم بھی لڑکھڑا چکے تھے اور وہ واپسی کی سوچ رہے تھے لیکن اللہ پاک نے ان کی دستگیری کی اور یہ دونوں جماعتیں اضطراب اور ارادہ واپسی سے باز رہیں۔ انہیں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورہ آلِ عمران، آیت 122 میں ارشاد فرمایا:
ترجمہ: اور جب تم میں سے دو جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ بزدلی اختیار کریں اور اللہ ان کا ولی ہے اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

دفاعی منصوبہ
اُحد کے مقام پر پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لشکر کی ترتیب و تنظیم فرمائی اور جنگی نقطۂ نظر سے اسے کئی صفوں میں تقسیم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صف بندی اس بہترین انداز میں فرمائی کہ جبلِ احد لشکر کی پشت پرتھا اور دشمن سامنے۔ تاہم پیچھے کی طرف ایک گھاٹی ایسی تھی جہاں سے دشمن اچانک حملہ آور ہو سکتا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی بہترین جنگی حکمتِ عملی کے تحت ماہر تیر اندازوں کا ایک دستہ منتخب کیا جو پچاس صحابہ کرامؓ پر مشتمل تھا۔ اس دستے کی کمان حضرت عبد اللہ بن جبیرؓ (انصاری) کے سپرد کی اور وادی قناۃ کے جنوبی کنارے پر واقع اس گھاٹی پر تعینات کیا جس کے ذریعے کفار مسلمانوں پر حملہ آور ہو سکتے تھے جب صحابہ کرام کا مستعد دستہ اس پہاڑی پر اپنے فرائض کی غرض سے تعینات ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تیر اندازوں کو ہدایات دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’شہسواروں کو تیر مار کرہم سے دور رکھو۔ہم جیتیں یا ہاریں تم اپنی جگہ پر ڈٹے رہنا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تیر اندازوں کو مخاطب کر کے فرمایا ’’ہماری پشت کی حفاظت کرنا ۔ اگر دیکھو کہ ہم مارے جا رہے ہیں تو ہماری مدد کو نہ آنا اور اگر دیکھو کہ ہم مال غنیمت سمیٹ رہے ہیں تو ہمارے شریک نہ بننا‘‘ ان سخت احکامات کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے خطاب کا اختتام فرمایا۔ اس جنگی منصوبہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی فوجی قیادت کی صلاحیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت زُبیر بن عوامؓ کو یہ مہم سونپی گئی کہ وہ خالد بن ولید(جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) کے شہسواروں کی راہ روکیں گے۔

جنگ کا آغاز
دونوں جماعتیںآمنے سامنے آگئیں سب سے پہلے کفار کی جانب سے علمبردار طلحہ بن ابی طلحہ عبدری میدان میں اترا اور اسلامی صف سے حضرت زبیرؓ آگے بڑھے اور ایک ہی جست میں اس مشرک کا کام تمام کر کے اسے واصلِ جہنم کر دیا۔ اس کے بعد گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی ۔ کفار کا علم طلحہ بن ابی طلحہ کی ہلاکت کے بعد اس کے بھائی عثمان بن ابی طلحہ نے تھام لیا اس شخص پر حضرت حمزہ بن عبدالمطلب نے حملہ کیااورتلوارکے ایک ہی وار سے اس کے بازو کو تن سے جدا کر دیا۔پھر میدان میں قتل وخونریزی شروع ہوگئی۔ اسلامی صفوں میں عشقِ رسول کی شمع روشن تھی اس لئے وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر کافروں کو جہنم رسید کر رہے تھے۔جبل رماۃ پر جن تیر اندازوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے متعین فرمایا تھا انہوں نے بھی جنگ کی رفتار مسلمانوں کے موافق چلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے خالد بن ولید کے شہسوار وں کو روکے رکھا۔کچھ دیر جنگ اسی طرح جاری رہی اور مسلم لشکر مشرکین کی بھاری فوج پر حاوی رہا اور مشرکین کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ مسلمانوں کے سات سو کے لشکر نے کفار کے تین ہزار کے دستہ کو تھکا کر رکھ دیا اور صواب (مشرکین کا علمبردار) کے قتل کے بعد کفار ہمت ہار گئے اور پسپا ہو کر راہ فرار اختیار کرنا شروع کر دی۔ اسلامی تاریخ کے اوراق میں ایک اور شاندار فتح کے الفاظ ثبت ہونے والے تھے۔

تیر اندازوں کی غلطی 
جیسے ہی کفار میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے تو مسلمانوں نے مال غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا گویا یہ اشارہ تھا کہ ہم فتح یاب ہوگئے ہیں۔ گھاٹی پر تعینات تیر اندازوں نے جب یہ دیکھا کہ مسلم لشکر مالِ غنیمت اکٹھا کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں تو وہ تیرانداز بھی پہاڑی سے نیچے اتر آئے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس فرمان ’’ جب تک میں نہ کہوں نیچے نہ اترنا چاہے ہم ہار جائیں یا جیت کر مال غنیمت سمیٹنے لگیں ‘‘کو پسِ پشت ڈال کر مال اکٹھا کرنے لگے۔ پہاڑی پر صرف حضرت عبد اللہ بن جبیرؓ کے علاوہ نو صحابہ رہ گئے جو ڈٹے رہے۔

اسلامی لشکر پر اچانک حملہ

خالد بن ولید نے جب مسلمانوں کو پہاڑی سے اترتے دیکھا تو اس سنہرے موقع کو ضائع نہ کیا اور اسلامی لشکر کی پشت پر جاپہنچے۔ پہاڑی پر موجود صحابہ کو شہید کرتے ہوئے میدان میں اتر آئے مشرکین نے جب خالد بن ولید کو دیکھا تو وہ بھی مسلمانوں کے گرد اکٹھا ہونا شروع ہوگئے اب مسلم فوج ہر طرف سے گِھر چکی تھی۔مشرکینِ مکہ کی نظر جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طرف لپکے ۔اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ نو صحابہ کرامؓ تھے۔ مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پھیل گیا مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ایک جیتی ہوئی جنگ وقتی شکست میں تبدیل ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب مشرکین کے ہاتھوں مسلمانوں کو شہید کرتے دیکھا تو بلند آواز میں فرمایا ’’لوگو! ادھر آؤ‘‘ یعنی کفار کو اپنی جانب بلانا چاہا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بطور مرشد اپنے صحابہ کی جان بچانے کی خاطر اپنی مبارک جان کو مشرکین کے حوالے کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ حتیٰ کہ اہلِ مدینہ میں یہ بات بھی پھیل گئی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شہید ہوگئے ہیں ۔(نعوذ باللہ)
درحقیقت حضرت مصعب بن عمیرؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو گئے تھے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کی شکل و صورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بہت مشابہ تھی اس لیے کفار یکایک پکارنے لگے کہ محمدؐ (نعوذ باللہ) قتل کر دیئے گئے ہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شہادت کی خبر سنتے ہی صحابہ کرامؓ کے حوصلے پست ہو گئے اور بعض تو میدانِ جنگ سے ہی روانہ ہو گئے لیکن بعض صحابہ کرامؓ مزید جرأت و شجاعت سے لڑے کہ جس عظیم مقصد کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شہید ہو گئے ہمیں بھی اس مقصد کے لیے اپنی جان قربان کر دینی چاہیے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جانثاروں کی جرأت و شجاعت کے باوجود اب شکست یقینی نظر آرہی تھی کہ اتنے میں حضرت کعب بن مالکؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھا اور دیکھتے ہی پکار اٹھے ’’مبارک ہو! یہ ہیں حضور‘‘۔ یہ سننا تھا کہ منتشر صحابہ کرامؓ ہر طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جانب دوڑے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے گرد حصار بنا لیا۔ مشرکینِ مکہ صحابہ کرامؓ کو ایک مرتبہ پھر متحد ہوتادیکھ کر بھاگ نکلے۔
اس غزوہ کے آغاز میں مسلمان اپنی تعداد پر نازاں تھے۔ ان کا توکل اللہ کی ذات کے علاوہ اپنے ساز و سامان اور تیاری پر تھا۔ اس لیے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے اللہ پاک کی طرف سے یہ عارضی شکست ضروری تھی۔ لیکن جب مسلمانوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دوبارہ پکارنے پر اپنی ہمتوں کو جمع کیا اور واپس پلٹے تو اللہ تعالیٰ نے بھی مدد فرمائی اورمسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔
غزوہ احد میں مسلمانوں کو شدید مشکلات اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا اس جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چچا حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب کے علاوہ ستر (70) صحابہ شہید ہوئے۔ ابوسفیان کی بیوی ہندہ اور دیگر مشرکین نے شہدا کے ناک اور کان کاٹے اور لاشوں کی برحرمتی کی۔ اس کے علاوہ ہندہ نے حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبایا جس کا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بہت دکھ ہوا۔
تیر اندازوں کے پہاڑی سے نیچے اترنے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فرمانِ مبارک کو پس پشت ڈالنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں تمام سچے سالکین اور طالبانِ مولیٰ کے لئے اہم سبق اور نصیحت ہے۔ مرشد جو بھی بات کرتا ہے جو بھی حکم دیتا ہے حتیٰ کہ جو بھی اپنے عمل سے ظاہر کرتا ہے وہ محض رضائے الٰہی سے کرتا ہے۔ اس میں کہیں نہ کہیں کوئی حکمت چھپی ہوتی ہے۔ بظاہر مرشد کی کہی ہوئی بات یا حکم کتنا ہی سخت اور مشکل کیوں نہ ہو لیکن اس کی حقیقت سے صرف اور صرف مرشد جامع نورالہدیٰ ہی واقف ہوتا ہے اور یہ عاشق اور طالب کے لئے آزمائش ہوتی ہے کہ وہ کس طرح سے مرشد کے حکم کو بجا لاتا ہے۔ اس میں ہمارے لئے یہ بھی سبق ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں، مرشدِ کریم کی بات، قول اور احکام پر عمل کرنا لازم ہے بشرطیکہ مرشد اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوْ اللّٰہِ (جہاں فقر کی تکمیل ہوتی ہے وہیں اللہ ہے) کے مقام پرفائز ہو۔ اس کے ہر کام میں طالب کے لئے بہتری اور کامیابی چھپی ہوتی ہے جو راہِ فقر میں طالب کو ثابت قدم رکھتی ہے۔
اللہ پاک کی ذات بابرکت نے ہماری رسائی آج کے دور کے عبداللہ، خلیفۂ رسول اور انسانِ کامل تک کردی ہے جو سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ذات کی صورت میں ہمارے درمیان موجود ہے اور اپنی نگاہِ کامل اور ذکرو تصور اسم اللہ ذات کی راہ دکھا کر طالبان و سالکین کو عشق کے اس مقام تک پہنچا رہی ہے جس مقام پر وہ صحابیہؓ تھیں کہ جن کا شوہر‘ بھائی‘ بیٹا اور باپ سب کے سب غزوہ احدمیں شہید ہوگئے تھے لیکن جب انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شہادت کے بارے میں سنا تو دیوانہ وار لوگوں سے پوچھتی جاتی تھیں کہ میرے حضور کیسے ہیں۔۔۔ یہی وہ مقامِ فقر اور مقامِ عشق ہے جہاں پہنچ کر مرشد کی ذات ہی سب سے بڑھ کر بلکہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہو جاتی ہے۔ 
اللہ پاک ہمیں سچے دل سے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی غلامی اور عشق میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)


اپنا تبصرہ بھیجیں