طلب ِدیدار Talab-e- Deedar

Spread the love

Rate this post

طلبِ دیدار  Talab-e- Deedar

تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

انسان اس دنیا میں بے شمار آسائشات، لذات اور نعمتوں کا خواہاں ہوتاہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا بھی کرتا ہے تاہم یہ سب چیزیں فانی ہیں اور انسان کو خود میں مشغول کر کے اللہ کی ذات اور  آخرت سے غافل کرنے والی ہیں۔جو ان تمام چیزوں سے کنارہ کرتے ہوئے اللہ کی خوشنودی میں مصروف رہے اس کے لیے اللہ کے ہاں آخرت میں بڑا انعام ہے۔ کچھ لوگ اللہ کے ان انعامات سے جنت کی نعمتیں اور لذتیں مراد لیتے ہیں یعنی سونے و چاندی کے محلات، جڑاؤ تخت، دودھ و شہد کی نہریں، شیریں و لذیذ غذائیں، حور و غلمان، انواع و اقسام کے جانور و پرندے غرضیکہ جنت میں جس چیز کی تمنا کی جائے گی حاضر ہو جائے گی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْہِ الْاَنْفُسُ وَ تَلَذُّ الْاَعْیُنُ ج وَ اَنْتُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ۔ (سورۃ الزخرف۔ 71)
ترجمہ: اور اس (جنت) میں وہ سب چیزیں (موجود) ہوں گی جن کو دل چاہیں گے اور (جن سے) آنکھیں راحت پائیں گی اور تم وہاں ہمیشہ رہو گے۔ 

لیکن ایک گروہ ایسا بھی ہے جس کی طلب اور مقصودِ بندگی جنت اور اس کی نعمتیں نہیں ہیں۔ وہ گروہ انبیا، اولیا، فقرا اور عارفین کا ہے کیونکہ وہ اللہ کے انعام سے مراد اللہ کا دیدار لیتے ہیں۔ وہ اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتے ہیں اور اپنے عشقِ حقیقی کی بدولت آخرت میں بھی ہر لمحہ اللہ کے دیدار کے طلبگار ہوں گے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو روزِ الست بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے دست بستہ ثابت قدم کھڑے تھے۔ جن کو نہ زینتِ دنیا اپنی طرف متوجہ کر سکی اور نہ ہی نعمت ہائے بہشت ان کے قدموں کو متزلزل کر سکیں بلکہ وہ اللہ کے دیدار میں مشغول اور محو اُسی کے طالب بن کر کھڑے رہے۔ ان کو صرف اللہ تعالیٰ کے بے حجاب دیدار کی طلب تھی اور وہ دیدار ہی ان کی عبادت اور ذکر تھا اور دیدار ہی ان کی غذا اور قوت کا ذریعہ۔ اسی لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
طَلْبُ الْخَیْرِ طَلْبُ اللّٰہِ 
ترجمہ: بہترین طلب اللہ کی طلب ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے جب مجھے اور ارواح کو قدرتِ ازلی سے پیدا فرمایا تو اس وقت کرم اور فیض و فضل سے نوازا اور اُسی روز دیدارِ ربّ العالمین سے مشرف فرمایااور تب سے میں ذاتِ الٰہی کے لقا کی طرف متوجہ و مشغول اور نور میں غرق ہوں اور ہر لمحہ ہر ساعت اس کے دیدار میں غرق رہا اور ایک دم کے لیے بھی اس سے جدا نہ ہوا اور ازل میں خد اکے دائمی لقا سے مشرف ہوا اور دنیا میں تمام عمر دائمی لقا سے مشرف رہوں گا۔ اگر چہ ظاہر میں لوگوں سے ہم کلام رہوں لیکن باطن میں دائمی دیدار سے مشرف رہتا ہوں اور قبر میں بھی ہمیشہ دیدار سے مشرف رہوں گااور حشرگاہِ قیامت میں بھی دیدار میں مشغول ہوں گا اور جنت میں بھی دیدار میں مشغول رہوں گا۔ حور و قصور کی جانب دیکھنا مجھ پر حرام ہے۔ (امیر الکونین)

اللہ تعالیٰ نے سیدّنا غوث الاعظمؓ کو تاکید فرمائی:
یَا غَوْثَ الْاَعْظَمْ لَا تَنْظُرْ اِلَی الْجَنَّۃِ وَ مَا فِیْہَا تَرَانِیْ بِلَا وَاسِطَۃٍ وَ لَا تَنْطُرْ اِلَی النَّارِ وَ مَا فِیْھَا تَرَانِیْ بِلَا وَاسِطَۃٍ   (الرسالۃ الغوثیہ)
ترجمہ:’’ اے غوث الاعظمؓ! جنت اور جو کچھ اس کے اندر ہے اس کی طرف نظر مت کرو توُ بلاواسطہ میرا دیدار کرے گا اور جہنم اور جو کچھ اس کے اندر ہے اس کی طرف نظر مت کرو توُ بلاواسطہ میرا دیدار کرے گا۔‘‘

یعنی جنت اوراس کی نعمتوں اور حور و قصور کی طرف مائل و متوجہ نہیں ہوناکیونکہ یہ طالبانِ عقبیٰ کے لیے ہیں۔ سیدّنا غوث الاعظمؓ فقیرِکامل ہیں اور تمام اولیا اور فقرا میں بلندمرتبہ و درجہ کے حامل ہیں جن کی طلب اللہ کے سوا کچھ نہیں۔ وہ غیر مخلوق اور غیر ماسویٰ اللہ کی طرف مائل نہیں ہوتے بلکہ ہر لمحہ اللہ سے ملاقات اور دیدار کے مشتاق رہتے ہیں۔ 

اسی طرح جہنم یا دوزخ یا اللہ کا عذاب ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور احکامات کو جھٹلاتے ہیں اور اس دنیا کی رنگینیوں اور زیب و زینت میں مشغول ہو کر اللہ تعالیٰ سے غافل ہو جاتے ہیں۔ جن کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْ م بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ فَاِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا۔  (سورۃ الفتح۔13)
ترجمہ: اور جو اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) پر ایمان نہ لائے تو ہم نے ان کافروں کے لیے دوزخ تیار کر رکھی ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْھِمْ نَارًا ط کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔  (سورۃ النسائ۔56)
ترجمہ: بیشک جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ہم عنقریب انہیں (دوزخ کی) آگ میں جھونک دیں گے۔ جب ان کی کھالیں جل جائیں گی تو ہم انہیں دوسری کھالوں سے بدل دیں گے تاکہ وہ (مسلسل) عذاب (کا مزہ) چکھتے رہیں۔ بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔ 

طالبانِ مولیٰ اس دنیا میں بھی اللہ کے طلبگار ہوتے ہیں اس لیے ان کی حتیٰ الامکان کوشش یہی ہوتی ہے کہ ان سے کوئی ایسی خطا یا گناہ سرزد نہ ہو جائے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور جلال کا سبب بنے۔ اسی بنا پر وہ ہر لمحہ کپکپاتے اور اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی جتنی زیادہ معرفت رکھتا ہے وہ اتنا ہی اس کے خوف سے لرزتا رہتا ہے کیونکہ وہ اس کے جلال و جمال کا مشاہدہ کر چکا ہوتا ہے۔ تاہم اللہ کے جمال اور اس کی محبت کے غلبہ کے باعث وہ اس کی رحمت سے نااُمید نہیں ہوتا بلکہ اچھا ظن اور گمان رکھتا ہے اور اپنے شب و روز اللہ کی خوشنودی میں بسر کرتا ہے تاکہ اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل رہے اور آخرت میں بھی۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سیدّنا غوث الاعظمؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ جہنم اور جو کچھ اس میں ہے اس کی طرف نظر مت کرو کیونکہ یہ تمہارے لیے نہیں ہے یہ تو منکرین کے لیے ہے توُ تو بلاواسطہ میرا دیدار کرے گا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان مبارک ہے:
میں اللہ کی عبادت جنت کی طلب یا دوزخ کے خوف سے نہیں کرتا بلکہ میں اللہ کی عبادت اس لیے کرتا ہوں کہ وہ عبادت کے لائق ہے۔ 

شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
معرفتِ الٰہی کے قابل وہ شخص ہے جس کی ہمت بلند ہو یعنی نہ وہ دنیا کا طالب ہو نہ آخرت کا بلکہ محض حق تعالیٰ کی ذات کا طالب ہو۔ (شرح فصوص الحکم والایقان)

علامہ اقبالؒ بھی اللہ کے دیدار کی طلب میں جنت سے کنارہ کشی کرتے ہوئے ’’بانگِ درا‘‘ میں لکھتے ہیں:

یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی   لَنْ   تَرَانِیْ   سنا   چاہتا   ہوں

سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
طالبِ مولیٰ دنیا اور لذاتِ دنیا، عقبیٰ کے درجات اور اس کی نعمتوں کا طلبگار نہیں ہوتا اس کی طلب تو بس دیدار ہوتی ہے۔ (مجتبیٰ آخر زمانی)

دنیا اور عقبیٰ (جنت) اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہیں اور ان کا مالک و مختار اللہ تعالیٰ ہے اگر تو ان کے حصول کے لئے عبادت اور جدوجہد کرتا ہے تو توُ نے تو اِن کو خدا بنا لیا اور شرک میں مبتلا ہوگیا۔ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا، پہچان اور معرفت کے حصول کیلئے عبادت کر، دنیا و عقبیٰ (جنت) کے درجات کا خیال دل سے نکال دے۔ اگر تو اللہ کی پہچان اور معرفت میں کامیاب ہوگیا تو دنیا و عقبیٰ کو وہ تیرے قدموں میں ڈھیر کر دے گا۔انعامات کے لئے نہیں انعامات عطا کرنے والے کے لئے عبادت کر۔اس بات کو سمجھنے کی کوشش کر۔ (مجتبیٰ آخر زمانی)

سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
جو دنیا کو پہچان لیتا ہے وہ دنیا کو چھوڑ دیتا ہے اور آخرت کو پہچان لیتا ہے اس کو معلوم ہو جاتا ہے وہ بھی مخلوق ہے۔ اس کے بعد کہ وہ نہ تھی اور پیدا ہوئی۔ پس وہ آخرت کو بھی چھوڑ دیتا ہے اور اس کو پیدا کرنے والے سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ پس دنیا و آخرت اس کے دل کی آنکھوں میں ذلیل ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے باطن کی آنکھوں میں عظیم ہوجاتا ہے پس وہ اسی کا طالب بن جاتا ہے اور غیر اللہ سے قطع تعلق کر لیتا ہے۔ اس کے سامنے مخلوق چیونٹی کی طرح ہوجاتی ہے۔ (الفتح الربانی۔ ملفوظاتِ غوثیہ)

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
طالبِ مولیٰ کو دنیا میں سکون نہیں ملتا۔ دنیا میں سکون صرف طالبِ دنیا کو ملتا ہے۔ (تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین)

پس طالبانِ مولیٰ اللہ کے سوا کسی شے کی طلب نہیں کرتے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیدار کے مشتاق ہوتے ہیں۔ نہ ان کے دل میں جنت اور اس کی نعمتوں کا لالچ ہوتا ہے اور نہ جہنم اور اس کے عذاب کا خوف۔ ان کا ہر عمل اللہ کے لیے ہوتا ہے اور وہ اللہ سے اللہ کو ہی مانگتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جنت و جہنم او رجو کچھ ان دونوں میں ہے ان کی طرف متوجہ ہونے سے منع فرمایا اور سیدّنا غوث الاعظمؓ سے فرمایا کہ تو بلاواسطہ میرا دیدار کرے گا۔ بلاواسطہ دیدار سے مراد یہی ہے کہ درمیان میں کوئی وسیلہ یا واسطہ نہ ہو بلکہ ہر طرح کے حجابات سے پاک ہو کر اللہ کا دیدار کیا جائے۔ سیدّنا غوث الاعظمؓ اپنی تصنیف مبارکہ’’ سرّالاسرار ‘‘میں فرماتے ہیں:

اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَاَضَلُّ سَبِیْلًا (سورۃ بنی اسرائیل۔72)
ترجمہ:اور جو اس جہان (یعنی دنیا) میں (معرفتِ الٰہی سے) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی (معرفتِ الٰہی سے) اندھا اورراہ (معرفت کی راہ) سے بھٹکا ہوا رہے گا۔

اندھا ہونے سے مراد قلب کا اندھا ہونا ہے چنانچہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
فَانَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ  (سورۃ الحج۔46)
ترجمہ:اور یہ کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ قلوب اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔

قلب کے اندھا ہونے کا سبب اپنے ربّ سے کیے ہوئے (اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ  کے) عہد کے بعد اُس (عہد) سے غفلت برتنے اور اُسے بھول جانے کا حجاب ہے اور غفلت کا سبب حکمِ الٰہی کی حقیقت سے بے خبری ہے اور بے خبری کا سبب ظلماتی صفات جیسا کہ تکبر، کینہ، حسد، بخل، عجب، غیبت، چغلی اور جھوٹ وغیرہ کا غلبہ ہے اور انسان کے اسفل سافلین کی طرف تنزلی کا سبب بھی یہی صفاتِ ذمیمہ ہیں۔ ان صفاتِ ذمیمہ سے رہائی کا طریقہ یہی ہے کہ قلب کے آئینہ کی ظاہری اور باطنی طور پر صفائی، صاف کرنے والے آلۂ توحید (ذکر و تصورِ اسمِ اللہ ذات) اور علم و عمل اور سخت مجاہدہ سے کی جائے یہاں تک کہ نورِ توحید اور صفات (یعنی صفاتِ الٰہیہ سے متصف ہونے) سے قلب زندہ ہو جائے اور اپنے اصلی وطن (عالمِ لاھوُت) کو یاد کر لے اور (اُس میں) اپنے حقیقی وطن کی طرف رجوع کرنے کا شوق پیدا ہو جائے جو کہ اللہ عزوّجل کی عنایت سے ہی حاصل ہوگا۔

حجاباتِ ظلمانیہ کے اُٹھ جانے کے بعد نورانیت باقی رہ جاتی ہے اور روح کو بینائی حاصل ہونے کے باعث انسان صاحبِ بصیرت ہو جاتا ہے اور اسمائے صفات کے نور سے منور ہو جاتا ہے یہاں تک کہ (صفات کی) نورانیت کے حجابات بھی آہستہ آہستہ اُٹھ جاتے ہیں اور دل نورِ ذات سے منور ہو جاتا ہے۔ 

جان لو کہ دل کی دو آنکھیں ہیں ایک چھوٹی آنکھ اور ایک بڑی آنکھ۔ چھوٹی آنکھ عالمِ درجات کی انتہا تک اسمائے صفات کے نور سے تجلیاتِ صفات کا مشاہدہ کرتی ہے اور بڑی آنکھ عالمِ لاھوُت اور عالمِ قرب میں احدیت کے نورِ توحید سے انوار و تجلیاتِ ذات کا مشاہدہ کرتی ہے۔ انسان کو یہ مراتب موت سے قبل اپنی نفسانیت اور بشریت کو فنا کر لینے سے حاصل ہو سکتے ہیں لیکن اُس عالم (عالمِ لاھوُت) میں ان (مراتب) کے وصول کا انحصار انسان کی نفسانیت کے منقطع ہو جانے پر ہے۔ اللہ تعالیٰ تک رسائی اس طرح ہرگز نہیں ہوتی جیسے جسم کی مجسم تک، علم کی معلوم تک، عقل کی معقول تک اور وھم کی موھوم تک بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ بندہ اس قدر غیر اللہ سے منقطع ہو جائے کہ قرب و دوری، اطراف و مقابلہ اور وصل و جدائی کا بھی نشان نہ رہے۔ (سرّالاسرار)

لہٰذا معلوم ہوا کہ جب انسان طلبِ مولیٰ اور عشق کی بنا پر مرشد کامل اکمل کے کرم اور توفیق کی بدولت تمام بشری علائق اور نفسانی بیماریوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے تو اس کے دل کی آنکھ کھل جاتی ہے جس سے پہلے وہ انوارِ صفات کا مشاہدہ کرتا ہے اور بالآخر ان سے بھی گزر کر انوارِ ذات تک پہنچ جاتا ہے اور بلاحجاب اور بلاواسطہ قلب کی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ کرتا ہے۔اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا:
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی  (سورۃ النجم۔11)
ترجمہ: (حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے) جو دیکھا دل نے اسے نہیں جھٹلایا۔
اللہ تعالیٰ کے دیدار کا راستہ اسمِ اللہ ذات سے کھلتا ہے جیسا کہ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

ہر کہ جانِ خود را فروخت اسم اللہ را خرید
ہر کہ اسم اللہ خرید بعین العیان دید

ترجمہ: جو شخص اپنی جان بیچ کر (یعنی اپنا سب کچھ نثار کر کے) اسمِ اللہ ذات خرید لیتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کھلی آنکھوں سے دیدار کرتا ہے۔ (عین الفقر)

قارئین کرام ! آج بھی دیدار کی نعمت سے مستفید ہوا جا سکتا ہے اور ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے دیدار کی طلب کرنے والے طالب بن سکتے ہیں۔جیسا کہ مذکورہ بالا فرمانِ باھوؒ میں واضح ہے کہ اس کی کنجی اسمِ اعظم،اسمِ اللہ ذات ہے لہٰذا سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام اور حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے روحانی وارث سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس سے اسمِ اللہ ذات کے حصول کے لیے خانقاہ سلطان العاشقین تشریف لائیں تاکہ دیدار و معرفتِ الٰہی حاصل کر کے اپنا مقصدِ حیات حاصل کریں۔

استفادہ کتب:
۱۔ الرسالۃ الغوثیہ: تصنیفِ لطیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۲۔ سرّ الاسرار: ایضاً
۳۔ امیر الکونین: تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ
۴۔ عین الفقر:ایضاً
۵۔ مجتبیٰ آخر زمانی: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۶۔تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین: ترتیب و تدوین مسز عنبرین مغیث سروری قادری
۷۔ فصوص الحکم والایقان: تصنیفِ لطیف علامہ ابنِ عربی رحمتہ اللہ علی

 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں