بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین)
Bazm-e-Sultan-ul-Ashiqeen
قسط2 مرتب: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری
2 اپریل 2010 بروز جمعتہ المبارک
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے فرمایا: ہمارے مرشد کریم کا وصال 26 دسمبر 2003ء میں ہوا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی حیات میں ہمارے علاوہ کسی اور کو اسمِ محمد عطا نہیں کیا۔ پہلے یہ خزانہ چھپا ہوا تھا۔ باقی امتوں کو یہ خزانہ عطا نہیں ہوا۔ اسی وجہ سے باقی اُمتوں میں کامل بقا نہ تھی۔ یہ صرف امتِ محمدیہ کا خاصہ ہے اور اسمِ محمد کی وجہ سے ہے یا آسان الفاظ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وجہ سے ہے۔ مرشد کامل وہی ہے جو اسمِ محمد کی راہ سے واقف ہو۔
کسی نے سوال کیا اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمدؐ میں کیا فرق ہے؟
اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمدؐ میں کوئی فرق نہیں۔ محک الفقر کلاں میں حضرت سخی سلطان باھوؒفرماتے ہیں ’’اسمِ اللہ ذات ہی اسمِ محمدؐ میں بدل جاتا ہے۔‘‘
اللہ نے بھی قرآن میں اسی طرف اشارہ فرمایا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ ط یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ (سورۃ الفتح ۔10)
ترجمہ: (اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) جو لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ دراصل اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔ اور ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔
مزید فرمایا: اسمِ اللہ ذات میں جمال بھی ہے اور جلال بھی لیکن اسمِ محمدؐ میں صرف جمال ہی جمال ہے۔
جب اسم کی بات کی جاتی ہے تو نام کی بات نہیں کی جاتی بلکہ دراصل ذات کی بات کی جاتی ہے۔ جب سامنے اسم ہے تو یہ سمجھو وہ ذات ہے۔ اسمِ محمد حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات ہے جو اس کا تصور اس نیت سے کرے کہ میں ذات دیکھ رہا ہوں تب یہ راز کھلتا ہے۔ اللہ کی لاتعداد صفات ہیں اور ہر صفت کی وجہ سے اس کا ایک صفاتی نام ہے۔ عام طور پر صرف ننانوے نام بتائے جاتے ہیں لیکن اس کے صفاتی ناموں کی حد مقرر نہیں۔ لیکن’’اللہ‘‘اس کاذاتی نام ہے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذاتی نام ’’محمدؐ‘‘ ہے۔ اسی وجہ سے اس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سب صفات ذات کے ساتھ ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’اسم ِاللہ ذات اسمِ اعظم ہے اور اسمِ محمدؐ صراطِ مستقیم ہے۔‘‘
حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دونوں جہانوں کے ہادی ہیں۔ قیامت کے دن بھی ہادی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کو ہدایت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔
یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا۔ وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا (سورۃ الاحزاب45-46)
ترجمہ:اے نبی!بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اس کے حکم سے اللہ کی طرف بلانے والااو ر چمکادینے والا ا ٓ فتاب بنا کر بھیجا۔
ہدایت اور صراطِ مستقیم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہی ملتا ہے۔ شیطان آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ یہ بات تو صرف شریعت کو ماننے والے بھی جانتے ہیں کہ حدیث پاک میں ہے ’’میری شکل شیطان اختیار نہیں کر سکتا جس نے مجھے دیکھا اس نے حق دیکھا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صورت کائنات کی کوئی چیز اختیار نہیں کر سکتی۔ فقر کی راہ میں جو اسمِ محمدؐ کو دیکھے گا وہ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اسم پڑھتے ہوئے بھی شیطان قریب نہیں آسکتا کیونکہ یہ اسمِ ذات ہے اور اسمِ ذات میں شیطان دخل نہیں دے سکتا۔ شیطان اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمدؐ سے اس طرح ڈرتا ہے جس طرح کافر کلمہ سے ڈرتا ہے۔ اسمِ محمدؐ پڑھ کر سکون حاصل ہوتا ہے کیونکہ یہ جمال ہی جمال ہے۔ اسمِ ذات کا تصور دل میں اسمِ محمدؐ کا تصور دماغ میں کیا جاتا ہے۔
’’یاھو‘‘کا ذکر جاری رہنا چاہیے اور تصور کرتے وقت اسمِ اللہ ذات کا تصور دل میں اور اسمِ محمدؐ کا تصور دماغ میں۔
صحابہ کرامؓ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس طرح دیکھتے تھے کہ چڑیاں آپ کے سروں پر بیٹھتی تھیں اور چڑیا کسی ساکن چیز پر ہی بیٹھتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کے لئے اسمِ محمدؐ اور اسمِ اعظم کی ظاہری صورت تھے یہی وجہ ہے کہ ان کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھ کر حاصل ہوتا تھا۔ اس راہ کی تمام منازل صحابہ کرامؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرہ مبارک کو دیکھ کر طے کیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد یہ منازل اسم محمدؐ سے طے کی جاتی ہیں۔ اسمِ محمدؐ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس کی دائمی حضوری حاصل ہوتی ہے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خود طالب کو معرفتِ الٰہی عطا فرماتے ہیں۔ یہاں طالب اس قابل بنتا ہے کہ وہ محبوبیت کے درجے پر فائز ہو سکے۔
کسی نے پوچھا کہ سلسلہ سروری قادری اور باقی سلاسل میں کیا فرق ہے؟
فرمایا: دیگر سب سلاسل کا سالک جب سب مجاہدوں اور ریاضتوں سے گزر جائے تو پھر آخر میں اسمِ اعظم عطا ہوتا ہے۔ لیکن سلسلہ سروری قادری میں اسمِ اعظم پہلے عطا کر دیا جاتا ہے تاکہ راستہ جلدی طے ہو جائے۔
کسی نے پوچھا کہ یقین کامل کب ہوتا ہے؟
فرمایا: پہلے فنا فی الشیخ ہوتا ہے پھر فنا فی محمد ؐاور پھر فنا فی اللہ۔ جب فنا فی الشیخ میں بھی وہی صورت نظر آئے، فنا فی محمدؐ میں بھی وہی اور فنا فی اللہ میں بھی وہی صورت نظر آئے تب یقین پختہ ہوتا ہے۔
اسم محمدؐ یا اسمِ ذات پڑھتے ہوئے اللہ پاک دل میں دلیل ڈالتا ہے اور مشاہدہ کرواتا ہے اور اصل چیز مشاہدہ ہے جس سے یقین کامل ہوتا ہے۔
کسی نے سوال پوچھا: کیا مرشد کامل کا چہرہ اسمِ محمد ہے؟
آپ مدظلہ الاقدس نے فرمایا یہ مشاہدے کی باتیں ہیں۔ جیسے حضور سلطان باھوؒ فرماتے ہیں ’’پہلے میں چار تھا، پھر تین ہوا، پھر دو، پھر ایک ہوا۔‘‘
آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اصل ایمان یقین ہے۔
کسی نے سوال پوچھا: آیات کے شروع میں قل کا کیا مطلب ہے؟
آپ مدظلہ الاقدس نے فرمایا: جہاں بھی آیت کے ساتھ قل آئے اس سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بشریت ہے۔ قل تو اب بھی آیات کے ساتھ موجود ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو چلے گئے۔ یہ حضور کی حیات کی طرف ہی تو اشارہ ہے۔
کسی نے پوچھا: انسان کو آیات کا مطلب سمجھ کیوں نہیں آتا؟
آپ مدظلہ الاقدس نے فرمایا: قرآنِ پاک کی آیات نور ہیں اس لیے جو خود ظلمت میں ہو وہ نور کو نہیں دیکھ سکتا۔ اللہ فرماتا ہے:
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لا یُخْرِجُھُمْ مِّنِ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ (سورۃالبقرہ۔ 257)
ترجمہ: اللہ مومنوں کا دوست ہے جو ان کو ظلمت سے نکال کر اپنے نور کی طرف لے آتا ہے۔
قرآن کی سمجھ تب آتی ہے جب انسان نور میں ہو اور یہ نور اسمِ اللہ ذات ہے۔
اللہ کا دیدار
فرمایا: اللہ خود ہی اپنا دیدار کرتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں: خود ناطق و خود منطوق، خود کاتب و خود مکتوب، خود دال و خود مدلول، خود عاشق و خود معشوق۔ (رسالہ روحی شریف)
ترجمہ: وہ خود کلام کرنے والا اور خود ہی کلام ہے، خود لکھنے والا اور خود کتاب ہے، خود اپنی دلیل اور خود دلالت کیا گیا ہے، خود عاشق اور خود معشوق ہے۔
4 اپریل 2010ء بروز اتوار
کسی نے پوچھا کہ اس شعر میں سلمانیؓ و سلیمانیؑ سے کیا مراد ہے؟
یہ فقر مردِ مسلماں نے کھو دیا جب سے
رہی نہ دولتِ سلمانیؓ و سلیمانیؑ
آپ مدظلہ الاقدس نے فرمایا: سلیمانیؑ سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے کہ وہ پوری دنیا پر حکمران تھے اور ہر چیز پر اللہ تعالیٰ نے انہیں تصرف عطا فرمایا تھا اور سلمانیؓ سے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی طرف اشارہ تھا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اللہ کی تلاش میں نکلے تھے۔ ان کے آباو اجداد آتش پرست تھے اور وہ خود بھی آگ کے پجاری تھے مگر جلد ہی اس سے بیزار ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی تلاش میں گھر سے بھاگ گئے۔ ایک عیسائی کے پاس رہے جب وہ مر گیا تو کسی اور کے پاس چلے گئے۔ اسی طرح جس کی بھی صحبت اختیار کرتے جب اس کی موت کا وقت آتا تو وہ کسی اگلے راہب کا بتا دیتا۔ جب آخر میں ایک راہب کے پاس تھے تو اس کا موت کا وقت آیا تو اس نے کہا کہ میں اب پوری دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں دیکھتا جس کے پاس تمہیں بھیجوں۔ لیکن اب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو کہ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہوں گے، ان کے ظہور کا وقت قریب ہے اور وہ دینِ ابراہیمی پر ہوں گے اور اس مقام کی جانب ہجرت کریں گے جو دو پہاڑوں کے درمیان ہے۔ یہاں کھجور کے درخت کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ پھر اس راہب نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تین نشانیاں بتائیں:
(1) صدقہ نہیں کھائیں گے۔
(2) ہدیہ قبول کریں گے ۔
(3) ان کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِنبوت ہوگی۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ کا شوق بڑھ گیا اور آپ وہاں سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں آپ کو قافلے والوں نے ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا اور وہ آپ کو مدینہ لے گیا۔ آخر کار وہ وقت آگیا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہجرت فرمائی۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ کو جب پتہ چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ کی طرف تشریف لا رہے ہیں تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس قبا میں تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں کھجوریں پیش کی اور عرض کی کہ حضور یہ صدقے کی کھجوریں ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہؓ کو اشارہ فرمایا کہ وہ تناول فرما لیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تناول نہ فرمائیں۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے دل میں سوچا ایک نشانی تو پوری ہو گئی۔
پھر دوسرے دن کھجوریں لے کر گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کی کہ حضور یہ ہدیہ ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بھی تناول فرمائی اور صحابہؓ کو بھی اشارہ فرمایا کہ وہ بھی تناول فرمائیں۔ تیسری نشانی حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود پوری کروا دی اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ کو حضور کی مہر ِنبوت بھی نظر آگئی۔ اس طرح حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ سلسلہ نقشبندیہ کے دوسرے امام ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت سلمان فارسیؓ کو اہل ِبیت رضی اللہ عنہم میں قرار دیا۔
دنیا و عقبیٰ کو چھوڑ دیں
فرمایا: پہلے اللہ کو حاصل کرلو پھر دنیا بھی مل جائے گی۔ حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کا شعر ہے:
واعظ کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
زاہد وہ ہوتا ہے جو عقبیٰ کے لیے عبادت کرتا ہے، جنت کے لیے عبادت کرتا ہے۔ جو شخص بھی عقبیٰ و جنت کے لیے جو کچھ کرتاہے وہ زاہد ہے۔ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ زاہد کو کہہ رہے ہیں کہ زہد کرنے والے توُہر چیز کو ترک کر دے۔ جب ہر چیز کو ترک کر دیا جائے تو توکل آتا ہے جبکہ ہر چیز کو چھوڑنے کا نام ترک ہے اور ہر چیز کو ترک کرنااور توکل حاصل کرنا ان دونوں حالتوں کو پانے کے لیے انسان کی زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ لیکن اس میں بھی اللہ نے لطف رکھا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ صدیقِ اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنا سارا گھر بار لٹا کر بھی خوش تھے۔ حجۃ الاسلام امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
جو شخص حقیقت و معرفت کی حلاوت چکھتا ہے اگر اسی جہان میں اسے بہشت اس حلاوت کے عوض ملے تو وہ معرفت کو ہی دوست رکھے۔ (کیمیائے سعادت)
امامت کی ذمہ داری
فرمایا: جب انسان میں تین خصوصیات پیدا ہو جائیں تو پھر ہی اللہ تعالیٰ انسان سے امامت کا کام لیتا ہے جیسا کہ حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا شعر ہے:
سبَق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
صداقت حضرت ابوبکر صدیق جیسی، عدالت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جیسی اور شجاعت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جیسی ہونی چاہیے۔ جب یہ تینوں تیرے دل میں اکٹھی ہوں گی تب تو مکمل ہوگا پھر تجھ سے دنیا کی امامت کا کام لیا جائے گا۔ طالب کامل ہی تب ہوتا ہے جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی نگاہ سے صدق حاصل ہو، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی توجہ سے طالب کے باطن میں عدل کی تکمیل ہو جائے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے فیض سے حیا عطا ہو جائے اور بابِ فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فقر عطا ہو جائے۔ ان مراتب کے بغیر امامت نہیں ملتی۔
معراج
بات معراج کی طرف چل نکلی تو آپ مدظلہ الاقدس نے فرمایا:
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جو معراج ہوئی وہ جسمانی وجود کے ساتھ ہوئی۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو معراج کی ضرورت نہیں تھی لیکن ظاہر پرستوں کے منہ بند کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو معراج کرائی گئی۔
شواہد النبوۃ میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوت کے چھٹے سال واقعہ معراج ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم راتوں رات مسجدِاقصیٰ پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ واقعہ قریش سے بیان کیا تو وہ یہ سمجھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وہاں پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لہٰذا انہوں نے بیت المقدس کے اوصاف پوچھے۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے سر زمین بیت المقدس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے لاکر رکھ دیا اور انہوں نے جو کچھ پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کا جواب شافی دیا۔ قریش نے انہی دنوں ایک قافلہ ملک شام بھیجا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اس کے متعلق پوچھنے لگے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’قافلہ ابھی راہ میں ہے۔ گزرتے وقت میں نے فلاں شخص کو اونٹ پر بیٹھے ہوئے ٹھٹھرتا ہوا دیکھا جس نے اپنے غلام سے کمبل مانگا۔ میں پیاسا تھا تو میں نے ان کے برتن سے پانی بھی پیا اور ایک آدمی کی کوئی چیز گم ہوگئی تھی جب ہم وہاں پہنچے تو اس کی گم کردہ چیز مل گئی۔ قافلہ والوں کے اونٹ ہمارے براق سے ڈر کر بھاگے اور اِدھر اُدھر منتشر ہو گئے۔ اہلِ قافلہ کے کچھ دن اُونٹ ڈھونڈ نے میں ضائع نہ ہوئے تو وہ فلاں روز طلوع آفتاب کے وقت یہاں پہنچیں گے۔‘‘
قریش ان خبروں سے متعجب ہو گئے اور اس وقت کا انتظار کرنے لگے۔ جب وہ وقت آیا توقریش دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ سورج کی طرف دیکھنے لگا اور دوسرا قافلہ کی راہ دیکھنے لگا۔ اچانک ایک گروہ سے آواز آئی کہ یہ لو قافلہ پہنچ گیا۔ دوسرا گروہ پکارا کہ لو سورج طلوع ہو گیا۔ وہ سب کے سب قافلے کے استقبال کے لیے گئے اور کمبل مانگنے، پانی پینے، اونٹوں کے منتشر ہونے اور گم کردہ چیز کے پانے کے متعلق پوچھنے لگے۔ ہر ایک نے اسی کی تصدیق کی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا تھا لیکن ان کے دلوں پر جو تالے لگے ہوئے تھے وہ پھر بھی نہ کھل سکے۔
لاھوت اور حضرت جبرائیل ؑکی بے بسی:
معراج میں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر پہنچے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آگے جانے سے بے بسی ظاہر کی۔ وہاں سے آگے لاھوت ہے۔ لاھوت وہ مقام ہے جہاں اللہ نے انسان کی روح کو پیدا کیا۔ اس جہان میں صرف انسان ہی داخل ہو سکتا ہے اگر جبرائیل سمجھ جاتے کہ حکم کون دے رہا ہے تو انہیں کچھ بھی نہ ہوتا۔
دیدارِ الٰہی
فرمایا: لاھوت میں صرف اللہ ہے اسی وجہ سے انسان کے باطن کا رزق اللہ کا دیدار ہے اور حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں:
’’جو اللہ کو دیکھے بغیر عبادت کا دعوی کرتا ہے وہ ریاکار ہے۔‘‘
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول مبارک ہے:
میں تب تک دوسرا سجدہ نہیں کرتا جب تک اللہ کو دیکھ نہ لوں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
میں نے اپنے ربّ کو اپنے دل میں نورِ ربی کے واسطہ سے دیکھا۔
سیدّنا غوث الاعظمؓ سرّالاسرار میں فرماتے ہیں:
مَنْ لَمْ یَعْرِفُہٗ کَیْفَ یَعْبُدُہٗ
ترجمہ: جو اللہ کو پہچانتا ہی نہیں وہ اس کی عبادت کیسے کر سکتا ہے!
پہچان کے تین مراتب ہیں عارف، عارف اللہ اور عارف باللہ۔
(1) عارف وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا دیدار کرتا ہے۔
(2) عارف اللہ وہ ہے جو اللہ کی ذات میں فنا ہے۔ وہ جو عبادت کرتا ہے افضل ہوتی ہے اور وہ بشریت سے فارغ ہو جاتا ہے۔
(3) عارف باللہ وہ ہے جو اللہ کی ذات میں فنا ہو کر بقا کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ یہ دوبارہ بشریت میں لوٹ آتا ہے اور اس کا ہر کام عبادت ہے۔
لقا اور ملاقات
کسی نے سوال پوچھا کہ لقا سے مراد ملاقات ہے؟
آپ مدظلہ الاقدس نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے دیدار کے لیے لقا کا لفظ استعمال کیا ہے جبکہ ملاقات کے لیے عربی میں علیحدہ لفظ استعمال کیا ہے۔ اس لیے ملا قات اور ہے لقا اور ہے۔ لقا کا مطلب ملاقات نہیں۔ ملاقات تو قیامت والے دن ہوگی۔ لقا چہرہ دکھانے کو کہتے ہیں۔
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآئَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِہَا وَ الَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ (سورۃ یونس۔ 7)
ترجمہ: جن لوگوں کو لقا کا یقین نہیں ہے اور وہ دنیاوی زندگی پر مطمئن ہیں اور اس میں جی لگا بیٹھے ہیں اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔
اللہ کے محبوب بندوں کی نشانیاں
فرمایا: جو اللہ کی ذات میں فنا ہو کر بقا پا گئے اللہ ان کی نشانیاں دکھاتا ہے جیسے حضرت بی بی ہاجرہ سلام اللہ علیہا اللہ کی رضا پر راضی ہو گئیں تو اللہ کو ان کے سات چکر اتنے پسند آئے کہ ان کی بندگی کو نشانی بنا دیا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں فنا تھیں۔ اسی طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ کہ اللہ نے ان کی رضا کو نشانی کے طور پر محفوظ فرما دیا۔جیسے شیطان کو کنکریاں مارنا۔ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں پر شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی سے روک کر اللہ کی نافرمانی پر اُکسانے کی کوشش کی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان مقامات پر شیطان کو چھوٹی چھوٹی سات سات کنکریاں ماری تھیں۔ شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آیا کہ یہ عمل مناسکِ حج کی ادائیگی کا حصہ بنا دیا گیا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ والا واقعہ کہ عصر کی نماز قضا ہوئی تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اللہ پاک! علیؓ تیرے اور تیرے نبیؐ کے کام میں مصروف تھا۔ اس طرح سورج پلٹ گیا۔
وہ اپنے محبوب بندوں کی نشانیوں کو اسی طرح محفوظ کرتا ہے۔ جو اللہ کی نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں تو اللہ فرماتا ہے:
اَنَّ النَّاسَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ (سورۃالنمل ۔82)
ترجمہ: جو نشانیاں میں نے قائم کیں ان کو جھٹلایا۔
یہی لوگ خسارے میں ہیں جو اس کی نشانیوں کو جھٹلاتے ہیں۔ یہی لوگ اللہ کی ذات سے دور ہیں اور قیامت کے دن بھی یہی ناکام ہوں گئے۔
اصل خسارہ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی (سورۃ بنی اسرائیل ۔72)
ترجمہ: جو اس زندگی میں اندھا ہوگا وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔
قیامت والے دن ہر بندہ اس طرح اٹھے گا کہ اس کی ہر بیماری ختم ہو چکی ہوگی لیکن باطن کا اندھا جس نے اللہ تعالیٰ کا دیدار باطن کی آنکھ سے نہ کیا ہو توآخرت میں جب اٹھے گا تو وہ اندھا ہوگا اس کی یہ بیماری دور نہیں کی جائے گی۔
نور سے نور کا دیدار
فرمایا: ربّ کو دیکھنے کے لیے ربّ کا نور چاہیے۔ اسی لیے اللہ پاک کو اسمِ ذات سے دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ اسمِ اللہ ذات بھی ذات ہی ہے۔ دیدار کے تین طریقے ہیں:
خواب میں دیدار کرنا۔ خواب اپنی مرضی سے نہیں آتا۔
مراقبہ میں دیدار کرنا۔ یہ اپنی مرضی سے کیا جاتا ہے۔
نورِ بصیرت سے۔
جو اللہ تعالیٰ کے دیدار کا انکار کرتے ہیں وہ منکرین حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ بھائی تم یہ بتاؤ حضرت موسیٰ کی امت ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت ہو؟ اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اُمت ہو تو پھر یہودیوں کی طرف جاؤ۔ جہاں تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بات ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیدار صفاتی صورت میں ہوا، درخت کی صورت میں۔ وہ آگ کی تلاش میں نکلے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ عناب کے درخت سے بولا کہ موسیٰ میں تیرا ربّ ہوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک کی تجلی کا دیدار کیا۔ آواز آئی:
اَن یّٰمُوْسٰٓی اِنِّیْ اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ (سورۃ القصص۔30)
ترجمہ: اے موسیٰ! یقینا میں ہی اللہ ہوں سارے جہانوں کا ربّ ہوں۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیدار کی طلب کی تو اللہ تعالیٰ نے کہا اگر یہ پہاڑ اپنی جگہ پر قائم رکھا رہا تو تو مجھے دیکھ لے گا۔ اسی وجہ سے پہاڑ کا ذکر امانت والی آیت میں علیحدہ کیا گیا کیونکہ پہاڑ نے تو پہلے ہی امانت قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ امانت سے مراد اللہ پاک کی ذات ہے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے اور ہوش میں آنے کے بعد جو پہلا جملہ بولا وہ یہ تھا کہ میں پہلا مومن ہوں۔ اور مومن وہ ہوتا ہے جو دیکھ کر ایمان لائے، تصدیق کرے جبکہ مسلمان وہ ہے جو زبان سے اقرار کرے۔
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ نبی وہ سوال اللہ کی بارگاہ میں کبھی نہیں کرتا جو قبول نہ ہوسکتاہو،یاجو ملنا محال ہو۔نبی کی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ اللہ پاک نے پہاڑ کے ساتھ منسلک کیا دیدار کو۔ منسلک کیا جانا اس چیز کی دلیل ہے کہ وہ چیز ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ نبی کو پتہ ہوتا ہے کہ کون سی چیز ہو سکتی ہے اور کون سی نہیں۔پہاڑقائم نہ رہنے کا مطلب ہے کہ آپ کو دیدار ہوا۔
’’لَنْ تَرَانِیْ‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مجھے اور کوئی نہیں دیکھ سکتا بلکہ مطلب ہے کہ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ اللہ پاک نے قرآن میں دیدار سے انکار نہیں کیا اس لیے اس پر بحث کرنا ہی فضول ہے۔ سوال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ اگر بیہوش ہوئے توکیوں ہوئے؟ دیدار ہوا تو ہی بے ہوش ہوئے۔
ادراک اور روئیت میں فرق
فرمایا: لوگ یہ آیت بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ اس کا دیدار نہیں ہو سکتا:
لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ (سورۃ الانعام۔103)
ترجمہ: آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں۔
ادراک کا معنی دیدار نہیں ہے۔ یہ دلیل ہی غلط ہے۔ ادراک مکمل احاطہ کرنے کو کہتے ہیں۔ وہ ذات لامحدود ہے اس لیے اس کا احاطہ ممکن نہیں۔ اگر اس کا احاطہ ہو جائے تو وہ لامحدود اور لاتعین ذات کیسے ہوئی۔ یہ اس کی وحدت کی طرف اشارہ ہے نہ کہ دیدار کی طرف۔
کسی نے سوال کیا کہ اللہ کے دیدار میں حائل چیز کیاہے؟
فرمایا:اللہ کے دیدار میں جو چیز حائل ہے وہ نفس ہے۔ کسی بھی دکان پر چلے جاؤ دکاندار وہی دے گا جو اس کے پاس ہوگا۔ علما کرام اسی لیے دیدار کا انکار کرتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی طریقہ نہیں۔
عملِ صالح
فرمایا: عملِ صالح سے مراد وہ تمام عبادات ہیں جن سے اللہ کی پہچان حاصل ہو۔
پہچان کے تین مراتب :
حضرت عبدالکریم بن ابراہیم الجیلیؒ معرفتِ الٰہی کے عبد میں ظاہر ہونے کے تین مراتب بیان کرتے ہیں:
اللہ کی تین معرفتیں ہیں۔ پہلی معرفت مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ (ترجمہ:جس نے اپنی معرفت حاصل کی اس نے اپنے ربّ کی معرفت حاصل کی) ہے۔
دوسری معرفت الوہیت ہے جس میں توُجمالِ ذات کو صفات سے شناخت کرتا ہے۔ یہ معرفت،معرفتِ ربّ کے بعد ہوتی ہے جو معرفتِ نفس کے ساتھ مقید ہے۔
اور تیسری معرفت ذوقِ الٰہیہ ہے جو وجودِ عبد میں سرایت کرتا ہے۔ پھر وہ اس ذوقِ الٰہی کی معرفت سے حق میں فنا ہو کر غیب سے شہادت میں نزول کرتا ہے یعنی ربوبیت کے آثار اسی کے جسم میں ظاہر ہوتے ہیں۔ پھر اس کی زبان تکوین ہو جاتی ہے (کہ جس چیز کے لیے کہتا ہے ’ہوجا‘ وہ ہو جاتی ہے) اور اس کے پاؤں چلنے لگتے ہیں اور اس کی آنکھ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہتی اور اس کے کان ہر کلام کرنے والے کا کلام سننے لگتے ہیں۔ انہی معنوں میں حدیثِ قدسی ہے:
حَتٰی اَکُوْنُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُبِہٖ
ترجمہ: حتیٰ کہ میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور آنکھ بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔
پس حق ہی اس کا ظاہر ہو جاتا ہے اور وہی اس کا باطن۔ اس کلام کا حاصل یہ ہے کہ نزولِ ربّ سے مراد اس کے آثار و صفات کا ظہور ہے جو ربوبیت کے متقضیات سے ہے اور سما دنیا سے مراد جسمِ ولی کا ظاہر ہے۔ (انسانِ کامل)
(جاری ہے)