الف۔Alif
سلطان العارفین ۔ مصطفٰی ثانی و مجتبیٰ آخر زمانی
تمام دنیا خصوصاً فقر ا اور اولیا میں حضرت سخی سلطان باھوؒ ’’سلطان العارفین ‘‘کے لقب سے مشہور ہیں۔حضرت سخی سلطان باھوؒ جب دنیا میں لقب سلطان العارفین سے مشہور و معروف ہو گئے تو تمام دنیا، خاص طور پر پاک و ہند جموں کشمیر میں کچھ جعلی پیروں نے اور کچھ اولیا کے مریدوں اور پیروکاروں نے اپنے پیروں کے نام کے ساتھ’’ سلطان العارفین‘‘ کے لقب کا استعمال شروع کر دیا۔ یہ بات اچھی طرح جان لی جائے کہ’’ سلطان العارفین ‘‘کا لقب پوری دنیا میں صرف حضرت سخی سلطان باھوؒ کے لیے مخصوص ہے، وہی اس لقب کے صحیح حقدار اور اس سے حقیقتاً اور اصلاً ملقب ہیں، باقی سب ان کی نقالی کرتے ہیں۔
مصطفیٰ ثانی و مجتبیٰ آخر زمانی: جس طرح سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ نے دورانِ وعظ بحکمِ خداوندی یہ اعلان فرمایا:قَدَ مِیْ ہٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہ(میرا یہ قدم تمام اولیا اللہ کی گردن پر ہے) اِسی طرح سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نے اعلان فرمایا ہے: تا آنکہ از لطفِ از لی سرفرازیٔ عین عنایت حق الحق حاصل شدہ و از حضور فائض النور ا کرم نبوی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم حکمِ ارشادِخلق شدہ، چہ مسلم، چہ کافر، چہ با نصیب، چہ بے نصیب، چہ زندہ و چہ مردہ ۔بزبانِ گوہر فشاں مصطفی ثانی و مجتبیٰ آخر زمانی فرمودہ۔ (رسالہ روحی شریف)
ترجمہ: جب سے لطفِ ازلی کے باعث حقیقتِ حق کی عین نوازش سے سر بلندی حاصل ہوئی ہے اور حضور فائض النور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تمام خلقت، کیا مسلم، کیا کافر، کیا با نصیب، کیا بے نصیب، کیا زندہ، کیا مردہ سب کو ہدایت کرنے کا حکم ملا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی زبانِ گو ہر فشاں سے (مجھے) مصطفٰی ثانی اور مجتبیٰ آخر زمانی فرمایا ہے۔
مصطفٰی اور مجتبیٰ دونوں کے لغوی معانی چنا ہوا، انتخاب کیا ہوا، پسندیدہ اور برگزیدہ کے ہیں لیکن یہ دونوں القاب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کیلئے خاص ہیں۔ حضور اکرمؐ نے حضرت سلطان باھوؒ کو مصطفٰی ثانی اور مجتبیٰ آخر زمانی فرمایا ہے۔ اس سے مراد ہے کہ آخری زمانہ میں جب گمراہی عام ہوگی تو آپؒ کی تعلیمات روشنی کا مینار ہوں گی اور آپؒ کی تعلیمات کو لے کر کھڑا ہونے والا کوئی فر دلوگوں کی ہدایت کا موجب بنے گا اور اس کو آپؒ کی روحانی راہنمائی حاصل ہوگی کیونکہ آپؒ کا تو وصال ہوئے تین سو بتیس سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ آپؒ کا یہ ارشاد بھی سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا آیا ہے ’’جب گمراہی عام ہو جائے گی، باطل حق کو ڈھانپ لے گا، فرقوں اور گروہوں کی بھر مار ہوگی، ہر فرقہ خود کوحق پر اور دوسروں کو گمراہ سمجھے گا اور گمراہ فرقوں اور گروہوں کے خلاف بات کرتے ہوئے لوگ گھبرائیں گے اور علمِ باطن کا دعویٰ کرنے والے اپنے چہروں پر ولایت کا نقاب چڑھا کر درباروں اور گدیوں پر بیٹھ کر لوگوں کو لوٹ کراپنے خزانے اور جیبیں بھر رہے ہوں گے تو اس وقت میرے مزار سے نور کے فوارے پھوٹ پڑیں گے۔‘‘
اس قول سے بھی یہی مراد ہے کہ گمراہی کے دور میں آپؒ کا کوئی غلام آپؒ کی روحانی راہنمائی میں آپؒ ہی کی روحانی تعلیماتِ حق کو لے کر کھڑا ہوگا، گمراہی کو ختم کرے گا، دینِ حق کا بول بالا کرے گا اور دینِ حنیف پھر سے زندہ ہو جائے گا۔لہٰذا اس فرمان کے عین مطابق آپؒ کے حقیقی و روحانی وارث سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس آج کے اس پرفتن دور میں آپؒ کی تعلیماتِ فقر کا علم بلند کیے ہوئے ہیں اور آپؒ کی کتب کے انگریزی و اردو تراجم کے ذریعے فقرِمحمدیؐ کا پیغام دنیا بھر میں پھیلا رہے ہیں۔