سلطان العاشقین مرقعٔ حسن و عشق
Sultan-ul-Ashiqeen Muraqqa-e-Husn-o-Ishq
تحریرـ: محترمہ امامہ رشید سروری قادری
’’ سلطان العاشقین مرقعٔ حسن و عشق ‘‘ بلاگ آڈیو میں سسنے کے لیے اس ⇐ لنک ⇒ پر کلک کریں.
عشق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی گہری چاہت کے ہیں۔ اس لفظ کا کمال یہ ہے کہ اس کی شدت کے مدنظر نہ کوئی اس کا مقبول مترادف ہے نہ متضاد۔ کبھی اس کو آگ سے تشبیہ دی جاتی ہے تو کبھی سمندر کی گہرائی سے۔ انسان کو عطا کردہ جذبوں میں عشق سب سے شدید اور طاقتور جذبہ ہے۔ صوفیا کے مطابق یہ ایک قوت ہے جو بندے کو ربّ تک پہنچاتی ہے اور انسان کو تمام اطراف وجہات سے نکال کر ماورائیت اوراللہ سے یکتائی عطاکرتی ہے۔ عشق اللہ کے چنیدہ بندوں سے ہوتا ہوا اللہ تک پہنچتا ہے یعنی مجاز سے حقیقت تک۔ محبت کا بلند ترین درجہ عشق ہے۔ عشق ہی کی بدولت کوئی صدیقِ اکبرؓ کہلاتا ہے تو کوئی سیدّنا بلالؓ بنتا ہے۔
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:
عشق آں شعلہ است کہ چوں بر افروخت
ہر چہ جز معشوق باشد جملہ سوخت
ترجمہ: عشق ایسا شعلہ ہے جب بھڑک اُٹھتا ہے تو معشوق(مرشد) کے سوا تمام چیزوں کو جلا دیتا ہے۔
عشق کی راہ پر چلنے کے لیے محبوب کا ساتھ لازم و ملزوم ہوتاہے۔ عشقِ حقیقی کی راہ میں محبوب سے مراد مرشد کامل ہے اور محبوب کے نام پر اپنی ہر شے اپنا تن،من، دھن قربان کر دینا عشق کاتقاضا ہے۔ اپنی خوشی پر اپنے محبوب کی خوشی کو مقدم رکھنا یہ تصور و عمل ایسا شعلہ ہے جو ہر لحظہ عاشق کے دل کو پرُدرد اور وجود کو سوختہ رکھتا ہے۔ عشق وہ طاقتور ترین جذبہ ہے جو ظاہر و باطن میں موجود تمام محبتوں پر حاوی آ جاتا ہے، انہیں جلا کر راکھ کر دیتا ہے اور دل میں صرف محبوبِ حقیقی کا جلوہ باقی رہ جاتاہے۔تصوف کی تاریخ میں ایسی بیشمار مثالیں موجود ہیں کہ بلند پایہ صوفیاکرام اور اہلِ تصوف نے نہ صرف ظاہری طور پر مرشد کامل اکمل کے دستِ اقدس پر بیعت کی بلکہ اپنا ہر لمحہ مرشدکے عشق میں گزارا۔ ان صوفیا کرام نے اپنی تصانیف، شاعری اور کلام کے ذریعے بارہا اپنے مرشد سے عشق و محبت کا اظہار بھی کیا۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس عشقِ حقیقی کی زندہ اور اعلیٰ ترین مثال ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے عشق کے میدان میں جست لگائی اور اپنی ہمت و فضلِ الٰہی سے اس میدان کی ہر بازی اور ظاہر و باطن کی ہر آزمائش اپنی قوتِ عشق سے جیت لی۔ دراصل عشق کی قوت ہی راہِ فقر (راہِ عشق) میں آنے والی تمام آزمائشوں سے گزرنے کے لیے صبر، ہمت اور استقامت عطا کرتی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس عشقِ مرشد میں اس طرح گم ہوئے کہ اپنی ذات کا کوئی ہوش ہی نہ رہ گیا۔ دوستوں کی دوستی، امرا کی محفلیں، رشتے داریاں سب کچھ چھوٹ گیا حتیٰ کہ کھانے پینے، پہننے اوڑھنے کی بھی فکر نہ رہ گئی۔ ہر دَم مرشد کی خوشی اور سکون کی فکر رہنے لگی۔ ان کے دیدار کی تمنا کے سوا ہر تمنا مٹ گئی۔ ایک ہی فکر کہ کس طرح مرشد پاک کو راضی کیا جائے۔ ان کی ایک مسکراہٹ اور محبت بھری نگاہ کی خاطرجان تک لٹانے کو تیار رہتے۔ آپ مدظلہ الاقدس کے عشق کی سچائی نے آپ کو ہر آزمائش اور ہر امتحان میں سرخروئی عطا کی۔ مرشد کا کرم اور اللہ کا فضل بھی طالب کے عشق اور صدق کے مطابق ہی طالب کے شاملِ حال ہوتا ہے اور آپ مدظلہ الاقدس کے بے پایاں عشق و صدق کی بدولت اللہ کا فضل اور مرشد کا کرم بھی آپ مدظلہ الاقدس پر بے حساب تھا۔ پس آپ ہر آزمائش میں کامیاب ہوتے گئے اور محبوبیت کی منازل طے کرتے کرتے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوگئے۔ مرشد سے عشق اور مرشد کی ذات میں فنا ہونے کے متعلق آپ مدظلہ الاقدس خود تحریر فرماتے ہیں:
میں ہو ں کون…میں کیا اور میری ذات کیا؟ اور زندگی کا مقصد صرف دنیا تک محدود! … شب و روز یکساں… صرف ضروریاتِ زندگی کا حصول مقصد ِحیات … انسان کے مقصدِحیات سے بے خبر دنیاوی زندگی کو خوشحال اور آرام دہ بنانے کی جدوجہد… زیادہ سے زیادہ دنیاوی مال و متاع میں اضافہ کرنے کی فکر… یہ تھی میری زندگی … ایک دِن اللہ پاک کی نگاہِ رحمت … اس گناہگار پر پڑی … اور تقدیر نے پکڑ کر سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں پہنچا دیا … نگاہ سے نگاہ ملی … دنیا بدل گئی…یار نے یار کو پہچان لیا… 12 اپریل 1998ء (15ذوالحجہ1418ھ) اتوار کی شام … بعد نمازِ مغرب… آپ رحمتہ اللہ علیہ کے دستِ مبارک پربیعت کرکے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالا… میری زندگی کا سب سے پرمسرت اور قیمتی لمحہ یہی تھا… آپ کی نگاہ پڑی اور میری زندگی کا زاویۂ نظر تبدیل ہو گیا۔ آہستہ آہستہ دنیا کے شکنجے سے نکال کر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے حقیقت سے روشناس کرایا۔ 12 اپریل 1998ء سے 26 دسمبر2003ء …آپ رحمتہ اللہ علیہ کے وصال تک ظاہری ساتھ رہا۔ پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ اسمِ اللہ ذات کی امانت اس فقیر کے سپرد کرکے عالمِ جا ودانی کی طرف کوچ فرما گئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی غلامی ہی میری زندگی کا اصل حاصل ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی میں میری یہ حالت ہوتی تھی کہ دس پندرہ دِن تک آپ رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات نہ ہوتی تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے جسم سے روح نکل چکی ہے، دِل میں نورِ ایمان کم ہوتا محسوس ہوتا اور دنیا کی لذّتیں اپنی طرف کھینچنے لگتیں لیکن آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہی دِل میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت کا ایک سمندر موجزن ہو جاتا، دنیا اور خواہشاتِ دنیا سے نفرت محسوس ہونے لگتی تھی۔ پھر عشق بڑھتا گیا۔ جوں جوں عشق کی تپش میں اضافہ ہوتا گیا دنیا کی ہر شے سے بے نیازی ہو گئی۔ اور جب عشق کی آگ اپنی انتہا کو پہنچی تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی اصل حقیقت کی پہچان ہوگئی پھر میں…میں… نہ رہا، عشق کی آگ میں خود کو گم کر بیٹھا۔ جب عشق کی آگ میں گم ہوا تو میری اپنی ذات یا ہستی بھی عشق کی اس آگ میں گم ہو کر فنا ہو گئی۔۔۔ (مجتبیٰ آخر زمانی)
اور یوں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اپنے مرشد سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کی ذات میں فنا ہو گئے اور اُن کی تصویر بن گئے۔
بیشک عشقِ مرشد کی سب سے بہترین مثال،عشق کا عنوان اور تفصیل آپ مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ کے اِسی عشق کی صداقت کی بدولت آپ کے مرشد پاک نے آپ کو امانتِ الٰہیہ کے وارث کے طور پر منتخب فرمایا اور 21 مارچ 2001ء کی مبارک گھڑی میں بارگاہِ نبویؐ سے منظوری کے بعد آپ کو امانتِ الٰہیہ منتقل فرمائی۔ اپنے مرشدِکریم کی حیات کے دوران اور ظاہری پردہ فرما جانے کے بعد جس طرح آپ مدظلہ الاقدس اپنے مرشد سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کے مشن کو جاری رکھنے میں مصروف ہیں وہ ایک سچے عاشق کے لیے عظیم نمونہ ہے۔
ہمارے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس عشقِ مرشد کی اس انتہا پر تھے جہاں قیل و قال کی ضرورت نہیں رہتی اور ’چہرہ‘ ہی سے سب مطالب حل ہو جاتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کا اپنے مرشد سے وفا، اخلاص اورقربانی کا جذبہ اور اس کی شدت اور گرفت اس قدر مضبوط ہے کہ ہر سچا طالب اس طرزِ عشق میں خود کوڈ ھالنے کی کوشش میں رہتا ہے۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نہ صرف بحیثیت طالبِ مولیٰ عشق کی راہ میں کامیاب ہوئے بلکہ آپ بحیثیت مرشد کامل اکمل بھی اپنے مریدین کوعشق کی لازوال نعمت سے مالا مال کرتے ہیں۔ راہِ عشق میں آپ مدظلہ الاقدس ہر لمحہ اپنے مریدین کے ساتھ ہوتے ہیں اور اس راہ میں آنے والی ہر مشکل کوخود برداشت کرتے ہوئے اپنے مریدین کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں عشق کی آگ کو مزید بڑھاتے ہیں۔ باپ سے بھی زیادہ مہربان اور ماں سے بھی زیادہ شفیق سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ایک دردمند انسان اور بیاباں دنیا میں بارانِ رحمت ہیں۔ آپ کڑکتی دھوپ میں پھل دار اور گھنے درخت کی مثل ہیں جو موسم کی سختیاں خود جھیلتا ہے اور سایہ میں بیٹھنے والے کو خبر بھی نہیں ہونے دیتا کہ وہ اس کے لیے کیا کچھ کر رہا ہے۔
بقول شاعر:
سوکھیاں ہوندیاں لمیاں راہواں عشق دیاں
کر دینداں جدوں یار نگاہواں عشق دیاں
آپ مدظلہ الاقدس کی پاک نگاہِ کامل دل سے دنیا کی محبت کو مکمل طور پر ختم کر دیتی ہے اور عام انسان کو طالبِ دنیا سے طالبِ مولیٰ بنا دیتی ہے اور اس کے اندر عشق کی منازل کو طے کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے تا کہ وہ ہر طرح کی آزمائش پر پورا اُتر سکے۔ جو صادق طالبِ مولیٰ آپ مدظلہ الاقدس پر اپنا تن من دھن قربان کرے وہ اپنے اندر عشقِ الٰہی کی پرُنور تجلیات محسوس کرتا ہے کیونکہ عشقِ مرشد میں سب کچھ قربان کیے بغیر عشقِ الٰہی تک رسائی حاصل کرنا فقط قیاس آرائی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کے نور کی بدولت طالب کی روح کو پاکیزگی ملتی ہے جس کے بعد وہ اللہ کے دربار میں حاضری کے لائق ہو جاتی ہے۔
بقول شاعر:
عشق نجیب دا دل دی دوئی مٹا دیندا
چاہوے تے ایہہ فرش توں عرش وکھا دیندا
آپ مدظلہ الاقدس کے عشق میں اپنا وقت، آرام و سکون،مال و دولت حتیٰ کہ اپنی صحت اور ذات سب کچھ نچھاور کر نا، ہمیشہ آپ کی خوشی میں سکون تلاش کرنا اور کسی بدلے کی تمنانہ رکھنا وہ خوش نصیبی اور مقدس جذبہ ہے جو ایک طالبِ مولیٰ کے دل کو انوار و تجلیات سے روشن کر دیتا ہے۔ فیض و کرم کا یہ عالم ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس آخری لمحہ تک اپنے عاشقوں سے وفا نبھاتے ہیں اور ہدایت کی طرف راہنمائی فرماتے رہتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کا عشق اپنی مثال میں بلند اور اعلیٰ ترین ہے کہ ہر صادق طالب بے اختیار خود کو آپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عشقِ الٰہی کے سمندر میں فنا کر دینا چاہتا ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مد ظلہ الاقدس کے حسن و جمال کو قلم کی قید میں بند کرنا کسی ذی روح کے بس کی بات نہیں۔آپ مد ظلہ الاقدس کے حقیقی حسن و جمال کوصرف عاشق، مریدِصادق، نورِ بصیرت رکھنے والا یاخود عشق ہی دیکھ سکتا ہے۔ اس جوہراعظم کے اظہار کی خاطرنہ تو لغتِ عصر میں وہ حسین الفاظ ہیں جو آپ مد ظلہ الاقدس کے شایانِ شان ہوں اورنہ ہی قلم کی روشنائی میں وہ طاقت ہے جو آپ کے انمول حسن کو حروف کی شکل دے سکے۔ الغرض آپ کے حسنِ ازل سے ہی کارخانۂ قدرت میں موجود ات کو حسن کی خیرات نصیب ہوئی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ساقی خدا کا شکر مجھے عشق کے لیے
بندہ بھی وہ ملا ہے جو مولیٰ دکھائی دے
بقول شاعر:
تیرے عشق نے کیتا عجب کمال
ویکھیا جدوں دا تیرا حسن و جمال
جو آپ مد ظلہ الاقدس کو ایک بار نورِ بصیرت سے دیکھ لیتا ہے بس پروانہ وار آپ مد ظلہ الاقدس کے حسین جلووں کے سحر میں گم ہو جاتا ہے۔ اسے ہر چہرہ میں آپ مد ظلہ الاقدس ہی کا چہرہ نظر آتا ہے گویا کائنات کے ہر ذرّے کا حسن صرف اِسی حسن کا عکاس ہے۔آپ مدظلہ الاقدس کے جسم ِاقدس کا ہر ایک عضو متوازن و مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ حسنِ ازلی کا مظہر ہے۔ آپ مد ظلہ الاقدس کا مبارک جسم اطہر ہر قسم کے عیب سے پاک اور ناقابلِ بیان نورانیت کا حامل ہے۔ گویا ایک پارس کی مثل کہ جو اس سے چھو جائے سونا بن جائے۔
غرض آپ مدظلہ الاقدس ایسی پرُنور روحانی شخصیت کے حامل ہیں جن کا وجود آج کے اس مادیت پرستی کے دور میں کسی نعمت سے کم نہیں اور آپ سے وابستگی وہ عظیم الشان نعمت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کی آپ مدظلہ الاقدس کاسایۂ مبارک تاابدالآبادہم پر قائم و دائم رہے اور آپ مدظلہ الاقدس سے سچا عشق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
استفادہ کتب:
۱۔سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۲۔کلام درشان سلطان العاشقین: ایضاً
نوٹ: اس مضمون کو English میں پڑھنے کے لیے وزٹ فرمائیں۔
Link:Reality of Human
ہمارے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس عشقِ مرشد کی اس انتہا پر تھے جہاں قیل و قال کی ضرورت نہیں رہتی اور ’چہرہ‘ ہی سے سب مطالب حل ہو جاتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کا اپنے مرشد سے وفا، اخلاص اورقربانی کا جذبہ اور اس کی شدت اور گرفت اس قدر مضبوط ہے کہ ہر سچا طالب اس طرزِ عشق میں خود کوڈ ھالنے کی کوشش میں رہتا ہے۔
The best Kamil Murshid of this era
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس مرشدِکامل اکمل جامع نورالہدیٰ ہیں ۔
آپ مد ظلہ الاقدس کے حقیقی حسن و جمال کوصرف عاشق، مریدِصادق، نورِ بصیرت رکھنے والا یاخود عشق ہی دیکھ سکتا ہے۔
میرے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس دورِ حاضر کے مجدد اور امام الوقت ہیں۔ آپ کی پرُنور صحبت میں رہ کر طالبانِ مولیٰ کے نہ صرف عادات و اطوار بدلتے ہیں بلکہ ان کی سوچ کا مرکز و محور اور نظریات و خیالات بھی بدل جاتے ہیں۔ دنیا کو دیکھنے کا انداز منفرد ہو جاتا ہے۔ آپ کی نورانی صحبت سے طالبوں کے نفس کا یوں تزکیہ ہوتا ہے کہ رازِ پنہاں اُن پر عیاں ہو جاتا ہے۔
ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت
Very beautiful ❤️ and informative article
اللہ پاک سے دعا ہے کی آپ مدظلہ الاقدس کاسایۂ مبارک تاابدالآبادہم پر قائم و دائم رہے اور آپ مدظلہ الاقدس سے سچا عشق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
عشق نجیب دا دل دی دوئی مٹا دیندا
چاہوے تے ایہہ فرش توں عرش وکھا دیندا
💕❤️❤️💗👌
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس عشقِ حقیقی کی زندہ اور اعلیٰ ترین مثال ہیں
آپ مدظلہ الاقدس کی پاک نگاہِ کامل دل سے دنیا کی محبت کو مکمل طور پر ختم کر دیتی ہے اور عام انسان کو طالبِ دنیا سے طالبِ مولیٰ بنا دیتی ہے اور اس کے اندر عشق کی منازل کو طے کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے تا کہ وہ ہر طرح کی آزمائش پر پورا اُتر سکے
سوکھیاں ہوندیاں لمیاں راہواں عشق دیاں
کر دینداں جدوں یار نگاہواں عشق دیاں
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس عشقِ حقیقی کی زندہ اور اعلیٰ ترین مثال ہیں۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مد ظلہ الاقدس کے حسن و جمال کو قلم کی قید میں بند کرنا کسی ذی روح کے بس کی بات نہیں۔آپ مد ظلہ الاقدس کے حقیقی حسن و جمال کوصرف عاشق، مریدِصادق، نورِ بصیرت رکھنے والا یاخود عشق ہی دیکھ سکتا ہے۔ اس جوہراعظم کے اظہار کی خاطرنہ تو لغتِ عصر میں وہ حسین الفاظ ہیں جو آپ مد ظلہ الاقدس کے شایانِ شان ہوں اورنہ ہی قلم کی روشنائی میں وہ طاقت ہے جو آپ کے انمول حسن کو حروف کی شکل دے سکے۔ الغرض آپ کے حسنِ ازل سے ہی کارخانۂ قدرت میں موجود ات کو حسن کی خیرات نصیب ہوئی
Behtareen ❤️
عشق نجیب دا دل دی دوئی مٹا دیندا
چاہوے تے ایہہ فرش توں عرش وکھا دیند
ساقی خدا کا شکر مجھے عشق کے لیے
بندہ بھی وہ ملا ہے جو مولیٰ دکھائی دے
Bohot khoob MashaAllah
عشق نجیب دا دل دی دوئی مٹا دیندا
چاہوے تے ایہہ فرش توں عرش وکھا دیندا