کلید التوحید (کلاں)
Kaleed ul Tauheed Kalan
قسط نمبر16 مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
جس فقیر کی علمِ ظاہر سے دوستی نہیں وہ باطن میں مجلسِ انبیا ؑ میں جگہ نہیں پاتا بلکہ خارج ہو جاتا ہے اور جو عالم ظاہر و باطن میں فقیرِ کامل سے معرفتِ الٰہی اور ذکرِ اللہ طلب نہیں کرتا تو وہ عاقبت میں بھی معرفتِ الٰہی سے محروم رہتا ہے کیونکہ مرشد عارف فقیر سے ذکرِاللہ طلب کیے بغیر دل سے حبِ دنیا نہیں نکلتی اور نہ ہی تصور اسمِ اللہ ذات کے بغیر دل سے سیاہی و کدورت، زنگار اور خطراتِ شرک و کفر نکلتے ہیں۔ بیت:
از دل بدر کن بیشہ خطرات را
تا بیابی وحدت حق ذات را
ترجمہ: تو اپنے دل سے خطرات کے جنگل کو نکال دے تب ہی تو وحدتِ ذاتِ حق پائے گا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی اَعْمَالِکُمْ بَلْ یَنْظُرُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَ نِیَّاتِکُمْ۔
ترجمہ: بے شک اللہ نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے نہ تمہارے اعمال کو بلکہ وہ تمہارے قلوب اور نیتوں کو دیکھتا ہے۔
نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ
ترجمہ: مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔
بیت:
دل یکی نظر گاہِ ربّانی
خانہ دیو را چہ دل خوانی
ترجمہ: دل اللہ کی نظر گاہ ہے لیکن جس گھر میں شیطان ہو اسے گھر کیسے کہا جا سکتا ہے؟
اسمِ اللہ ذات کے تصور کی مشق کے بغیر دل دیو، خطرات، خناس، خرطوم اور شیطان سے ہرگز نجات نہیں پاتا اگرچہ تمام عمر عربی اور مسائلِ فقہ کا علم سیکھتا رہے یا پھر تمام عمر ظاہری عبادات اور طاعت میں صرف کر دے یا پھر کثرتِ ریاضت سے کمر کبڑی ہو جائے یا وجود بال کی مثل باریک ہو جائے لیکن دل اسی طرح سیاہ و تاریک رہتا ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوتا چاہے ریاضت کے پتھر سے سر پھوڑتا رہے۔ تصور اسمِ اللہ ذات کے بغیر طالب ہرگز شیطان کی قید اور اس کے مکر سے خلاصی نہیں پا سکتا کیونکہ تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق کرنے والا بے مشقت معشوق اور بے محنت محبوب (بننے) کے طریق کا حامل ہوتا ہے۔ یہ مراتب بہت پسندیدہ ہیںجو اسمِ اللہ ذات کا تصور کرنے والے کو روشن ضمیر بنا دیتے ہیں اور وہ تمام قلوب کا محبوب ہوتا ہے۔ تصور اسمِ اللہ ذات سے اُسے تصرف حاصل ہوتا ہے جسے وہ اللہ کے فضل اور رحمت کی بدولت مخلوق کو فیض بخشنے کے لیے استعمال کرتا ہے مطلب یہ کہ خزانہ اگر پوشیدہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں جب تک اسے خرچ نہ کیا جائے۔
بیت:
سیخ کجا داند ذوق کباب
شیشہ چہ آگاہ ز بوئی گلاب
ترجمہ: سیخ کو کباب کے ذائقے کا کیا پتا اور شیشے کو گلاب کی خوشبو کیا معلوم؟
ہاں یہ درست ہے کہ پھول پودے کی ٹہنی پر اگتا ہے لیکن پودا خود پھول کی خوشبو سے محروم ہوتا ہے۔ اولیا کے احوال بھی ملکِ ولایت میں اسی طرح ہوتے ہیں۔ اصل آدمی وہ ہے کہ جو اس بات سے آگاہ ہو کہ وہ ماں کے پیٹ سے خالی ہاتھ آیا تھا اور اس دنیا سے خالی ہاتھ ہی جائے گا لیکن حق کا طالب حق لے کر آتا ہے اور حق ہی لے کر جاتا ہے۔ اس کے قدم دنیا اور غیر ماسویٰ اللہ کی طرف نہیں بڑھتے۔ جو زندہ قلب ولی اللہ ہو وہ ہرگز نہیں مرتا۔ لوگوں کی نظر میں وہ مردہ ہوتا ہے لیکن اصل میں وہ زندہ ہوتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ (6:94)
ترجمہ: اور بیشک تم (روزِ قیامت) ہمارے پاس اسی طرح تنہا آؤ گے جس طرح ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ (تنہا) پیدا کیا۔
ظاہری اعمال سے دل ہرگز پاک و طاہر نہیں ہوتا جب تک اعمالِ باطن نہ کیے جائیں جیسا کہ تصور اسمِ اللہ ذات جس سے اللہ کی نظرِ رحمت حاصل ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ ظاہری اعمال، ذکر فکر، تلاوت، ورد وظائف، نوافل، صوم و صلوٰۃ کے ذریعے عرش سے لے کر تحت الثریٰ کے طبقات کی سیر حاصل ہوتی ہے۔ اس دوران قبض، بسط، سکر اور سہو جیسے احوال پیدا ہوتے ہیں جو نفس و شیطان کی راہزنی اور حوادثاتِ دنیا کی پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ سلب ہو جانے والے درجات کا کیا اعتبار؟ مرد وہ ہے جو غرق فنا فی اللہ ذات ہو اور اُس ذات کو عین بعین دیکھتا ہو۔ اور اللہ کی ذات میں مستغرق بقا باللہ کے مقام پر ہو۔ وہ ظاہری طور پر شریعت میں ہوشیار اور باطن میں صاحبِ جمعیت ہوتا ہے جو نفس کو مارنے والا اور (حق پر) جان قربان کرنے والا ہوتا ہے۔ اے ناقص و نابکار! یہ مردوں کی راہ ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ سَلٰمٌ عَلَیْہِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۔ (19:15)
ترجمہ: اور سلام ہے اس دن پر جس دن وہ پیدا ہوئے جس دن وہ مریں گے اور جس دن (دوبارہ) زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔
تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق طالب کے قلب و قالب کو سر سے قدم تک اس طرح پاک کر دیتی ہے جس طرح پانی اور صابن ناپاک اور پلید کپڑے کو پاک کر دیتے ہیں۔ تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق طالب کے مردہ وجود اور قلب و قالب کو اس طرح زندہ کر دیتی ہے جس طرح بارانِ رحمت کے قطروں سے خشک زمین تر و تازہ ہو جاتی ہے اور زمین سے سبزہ اگتا ہے۔ تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق کی کثرت سے جسم پر جتنے بھی بال ہیں ان تمام بالوں کی زبان پر ذکرِ اللہ یَا اَللّٰہُ جاری ہو جاتا ہے۔ تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق کرنے والا تمام عمر شیطان اور اہلِ شیطان کے شر سے پناہ میں آجاتا ہے اور تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق کرنے والا دوزخ کی آگ سے نجات پاتا ہے۔ تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق کرنے والے کی قبر خلوت خانہ اور دلہن کی خوابگاہ کی مثل ہوتی ہے اور اسے دیکھتے ہی منکر نکیر مؤدب ہو جاتے ہیں اور لب بستہ و حیران رہ جاتے ہیں اور اسکی تعریف کر کے اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔ تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق طالب کے لیے راہِ سلوک جو کہ فقر کے اسرار کی راہ ہے‘ کا راستہ مختصر کر دیتی ہے اور تصور کی مشق کرنے والا ہمیشہ انبیا و اولیا کی مجلس میں ان سے ملاقات کرتا ہے جن میں سے بعض کو وہ جانتا ہے اور بعض کو نہیں جانتا۔ جن کو وہ جانتا ہے وہ ولی اللہ ہیں جو ذکرِ اللہ کی جلالیت کی بدولت وجد میں آکر شوریدہ حال اور پرُجوش ہو گئے ہیں اور جن کو وہ نہیں جانتا انہوں نے خود کو اللہ کی قبا تلے پوشیدہ رکھا جیسا کہ حدیثِ قدسی میں ارشاد تعالیٰ ہے:
اِنَّ اَوْلِیَآئِیْ تَحْتَ قَبَائِیْ لَا یَعْرِفُھُمْ غَیْرِیْ
ترجمہ: بے شک میرے ایسے اولیا بھی ہیں جو میری قبا تلے (پوشیدہ) ہیں جن کو میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق کرنے والے سے دوزخ کی آگ ستر سال کی دوری پر چلی جاتی ہے اور جنت اس کی طرف ستر سال کا فاصلہ طے کر کے اس کا استقبال کرتی ہے۔
تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق کرنے والا یہ مشق چھ طرح سے کرتا ہے اسمِ اللہ ذات، اسم لِلّٰہ، اسمِ لہٗ، اسمِ ھُو، اسمِ محمد اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ جیسے ہی طالب ہر ایک اسمِ اللہ ذات، اسمِ محمد اور کلمہ طیب میں محو ہوتا ہے اس کا ہر خفیہ گناہ اسمِ اللہ ذات کے نور میں پوشیدہ ہو جاتا ہے۔ نیز یہ مشق اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ کی تمامیت تک پہنچاتی ہے۔ اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ کے مراتبِ فقر مرشد جامع سروری قادری سے حاصل ہوتے ہیں جو مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کے مرتبہ پر ہو اور وہ پہلے ہی روز طالبِ مولیٰ کو اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ، مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا اور عارف باللہ کے مراتب پر پہنچا دیتا ہے۔ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کا مرتبہ یہ ہے کہ جو بھی موت کے مراتب ہیں وہ زندگی میں ہی دیکھ لیے جائیں۔ مراتبِ موت کون سے ہیں اور مراتبِ حیات کیا ہوتے ہیں۔ مراتبِ موت وہ ہیں کہ جان کنی کے وقت سے اور حساب کتاب اور عذاب و ثواب کے مراتب سے اور پل صراط سے گزر کر جنت میں پہنچا جائے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ اقدس سے حوضِ کوثر پر پاکیزہ شراب کے جام پیے جائیں، پانچ سو سال رکوع میں اور پانچ سو سال اللہ ربّ العالمین کے حضور سجدے میں گرے رہیں۔ اس کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اتباع کرنے والوں کی صف میں شامل ہوا جائے کہ اس صف میں ہر روح ذکرِ کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ میں مشغول ربّ العالمین کے دیدار سے مشرف ہوتی ہے اور ظاہری آنکھوں سے انہیں دیدار حاصل ہوتا ہے اور ان کے دل کی آنکھیں دائمی لقا سے خفیہ طور پر مشرف ہوتی ہیں۔ اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ اور مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کے یہ مراتب جامع مرشد تصور اسمِ اللہ ذات اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی قوت سے کھولتا اور دکھاتا ہے۔ سروری قادری مرشد ایسا ہونا چاہیے جو صاحبِ شریعت ہو اور اس کا طریقہ سلوک کلمہ طیب سے تحقیق کیا جا سکتا ہو۔ جو اس میں شک کرتا ہے وہ منافق اور زندیق ہے۔ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کے دیگر مراتب یہ ہیں کہ قلب ذکرِ اللہ کے نور سے زندہ ہو جائے اور وجود کے اندر نفس اور اس کی خواہشات کی آگ بجھ جائے۔ مراتب مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا یہ ہیں کہ اس کا حامل اگر باطنی توجہ سے کافر کو دیکھے تو اس کے کفر کو ختم کر دے اور اسے دینِ محمدی میں زندہ کر دے کہ دوبارہ کفر میں قدم نہ رکے۔ یہ بھی اولیا اللہ کا مرتبہ ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔ج (10:62)
ترجمہ: خبردار! بیشک اولیا اللہ کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
جان لو کہ اسمِ اللہ ذات سے حاصل ہونے والی توحید کی حضوری پاک و طاہر ہے اور کلمہ طیب بھی پاک ہے۔ طیب وہ ہے کہ جو ان طیب و طاہر کے ذریعے تجلیاتِ حضوری کے مشاہدات حاصل کر کے نورِ ذاتِ ربانی میں غرق ہو جائے۔ اس کا نفس مردہ اور اس کا قلب و روح ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جائیں۔ اس طرح کہ جسم اسم میں اور اسم جسم میں غرق ہو جائے اور یکتا ہو کر نور میں ڈھل جائے جس کی بدولت اس کا باطن معمور اور وجود مغفور ہو جائے۔ ابیات:
جثہ چوں با اسم اللہ گشت طی
غرق فی اللہ رازِ رحمت شد بحیّ
ترجمہ: جب وجود اسمِ اللہ ذات کی کنہ تک پہنچ جائے تب وہ اللہ کی ذات میں غرق ہو کر رازِ رحمت پاتا ہے اور ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جاتا ہے۔
آورد بردش جثہ با جثہ نگار
با وجودش پختہ گردد پائدار
ترجمہ: اللہ کی ذات کے ساتھ مل کر وہ وجود کامل اور پائیدار ہو جاتا ہے اور وہ اپنے وجود کو حضورِ حق میں لاتا اور لے جاتا رہتا ہے۔
با وجود شد موجود باز آں کنہ کن
لائقِ وحدت شود فقرش سخن
ترجمہ: وہ کامل وجود (ذاتِ حق کے ساتھ) ہر جگہ حاضر ہوتا ہے اور پھر کن کی کنہ سے آگاہ ہو کر وحدت کے لائق بن جاتا ہے۔ اس کا ہر کلام فقر سے ہی ہوتا ہے۔
ایں عطا از مرشد جامع کرم
ہر کہ راہی طی بداند نیست غم
ترجمہ: یہ مرتبہ جامع مرشد کے کرم سے عطا ہوتا ہے اور جو اس راہ کی حقیقت جان لے اسکا کوئی غم باقی نہیں رہتا۔
در تصور غرق وحدت بے شمار
نقش بانقاش خوش بین اعتبار
ترجمہ: جب تصور کی مشق کی کثرت سے طالب وحدت میں غرق ہو جاتا ہے تب وہ یقین کے ساتھ ہر شے میں اس ذات کو دیکھتا ہے۔
شد وجودی نور با تاثیر نور
انتہائے فقر این است باحضور
ترجمہ: اس کا وجود نور کی تاثیر سے نور بن جاتا ہے یہ فقر اور حضوری کی انتہا ہے۔
جان لو کہ فقر اور معرفتِ الٰہی کے سلک سلوک میں اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ کے مراتب کا حامل مرشد اسرارِ الٰہی کا جامع اور عالم، فاضل، عارف، کامل، مکمل اور اکمل ہوتا ہے جو علمِ توحید حاصل کر کے باطن کی انتہا تک پہنچ چکا ہوتا ہے اور وہ طالب کو ذکر، فکر اور ریاضت کی مشقت میں ڈالے بغیر ایک ہی لمحے میں اسمِ اللہ ذات کی حضوری کے طریق سے حیّ ذات تک پہنچا دیتا ہے اور ذات و صفات کے تمام مقامات ابتدا سے انتہا تک طے کروا کر طالب کو اس کے کل و جز تمام مطالب عطا کر دیتا ہے۔ اسمِ اللہ ذات کے تصور سے عطا ہونے والے یہ تمام مراتب مرشد کامل اکمل کے اختیار میں ہیں۔ جان لو کہ ننانوے اسمائے باری تعالیٰ کے ہر ایک اسم کی نسبت سے ننانوے طریق اور ننانوے تصور ہیں اور حروف تہجی کے حرف ’ا‘ سے ’ی‘ تک کے تیس حروف کی نسبت سے تیس طریق اور تیس تصور ہیں۔ اور اسمِ اللہ ذات، اسم لِلّٰہ، اسم لَہٗ اور اسم ھُو کی نسبت سے چار طریق، چار تصور اور چار تصرف ہیں اور ایک تصور، ایک تصرف اور ایک طریق اسمِ محمد کا ہے۔ چوبیس طریق، چوبیس تصور اور چوبیس تصرف کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے چوبیس حروف کی نسبت سے ہیں۔ یہ معمہ آیاتِ قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے اور جو اس میں شک کرے وہ منافق اور خبیث ہے۔ جو مرشد جامع ہو وہی وجودِ انسان جو کہ ایک معمہ ہے‘ کے طلسمات کے قفل کو توحید اور کلمہ طیب کی کلید سے پلک جھپکنے میں کھول سکتا ہے۔ عارف مرشد صاحبِ وصال ہوتا ہے ورنہ اسے مرشد نہیں کہا جا سکتا بلکہ وہ خام خیال رکھنے والا ایک ناقص مرشد ہے۔ جو سرود اور بدعت کو پسند کرتا ہے وہ اہلِ دجال ہے۔ میں نے یہ مراتبِ عظمیٰ اور سعادتِ کبریٰ شریعت کی برکت سے پائی اور اسی راہ کی برکت سے میں نے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری پائی۔ جو کوئی اس میں شک کرتا ہے وہ منافق اور گمراہ ہے۔ ابیات:
لوحِ محفوظ است لوح از دل رقم
ایں مطالعہ عارفان علم ختم
ترجمہ: لوحِ محفوظ دل کی لوح پر تحریر ہے اور عارفین ہی اس کا مطالعہ کرتے ہیں کیونکہ انہیں اس کا مکمل علم حاصل ہوتا ہے۔
ہر کرا ذکرش کشاید روح دل
از وجودش میبرآید ہر جہل
ترجمہ: جس کے دل اور روح پر اللہ کے ذکر کی تاثیر وارد ہو جائے اس کے وجود سے ہر طرح کی جہالت نکل جاتی ہے۔
جاہلان را نیست علمی از خدا
بد ہوائے نفس گویند سر ہوا
ترجمہ: جاہلوں کو اللہ کی ذات کا کچھ علم نہیں وہ سراسر خواہشاتِ نفس کا شکار ہیں۔
جعل جاہل خوار تر سرگین ببر
فعل از خود خود بمیرند بے خبر
ترجمہ: جاہل گوبر کے کیڑے سے بھی زیادہ برا ہوتا ہے کیونکہ وہ اس بات سے بھی بے خبر ہوتا ہے کہ اسکے اپنے اعمال ہی اس کی جان لے رہے ہیں۔
طالب مولیٰ بود طلب از علم
اہل عالم را نباشد ہیچ غم
ترجمہ: طالبِ مولیٰ کو اللہ کے علم کی طلب ہوتی ہے کیونکہ علمِ الٰہی کے عالم کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔
باخبر شیطان و از نفس بکشت
عالمان را شد مقامی در بہشت
ترجمہ: اہلِ علم شیطان اور نفس کو مارنا جانتے ہیں اسی لیے عالموں کا مقام جنت میں ہے۔
علم دانی چیست جنت انجمن
از علم جوہر بود از کان تن
ترجمہ: کیا تو جانتا ہے کہ علم کیا ہے؟ یہ جنت کی انجمن ہے اور وجود جو کہ کان (کی مثل) ہے اس کا جوہر بھی علم ہے۔
علم مونس یار باغمخوار بر
عالمان را علم بہ از سیم و زر
ترجمہ: علم انسان کا غمخوار دوست اور مونس ہے اسی لیے عالموں کے لیے علم سونا اور چاندی سے بھی زیادہ افضل ہے۔
مطلب یہ کہ آخر عالم فقیر کے لیے کامل معرفت کی انتہا اور مرتبہ فقیر کیا ہے؟ کیا کونین کے اٹھارہ ہزار عالموں کی ہر خاص و عام چیز کو اپنے تصرف اور حکم میں لے آنا؟ نہ میں نے غلط نہیں کہا کیونکہ یہ مراتب ناقص و خام ہیں۔ انتہائے فقر نفسانیت اور اپنی خواہشات کا ترک کرنا اور فنا فی اللہ بقا باللہ ہو کر عین بعین مشاہدہ کرنا ہے جس کی بدولت باطن نور سے معمور ہو جاتا ہے۔ یہ فقیر کے مراتب ہیں جسے قربِ حضور سے حق الیقین کے مراتب حاصل ہوں۔ ان مراتب کو اہلِ نفس اور بے دین طالب کیا جانیں۔
(جاری ہے)