راہِ فقر کے لوازم | Raah-e-Faqr Ke Lawaazim


5/5 - (28 votes)

راہِ فقر کے لوازم  

Raah-e-Faqr Ke Lawaazim

تحریر: مسز انیلا یاسین سروری قادری ۔لاہور

’’راہِ فقر کے لوازم    ‘‘  بلاگ آڈیو میں سسنے کے لیے  اس ⇐  لنک  ⇒   پر کلک کریں.

جسدِ خاکی نے اشرف المخلوقات ہونے کی تعظیم و تکریم اُس وقت پائی جب کبریائی وعظمت والے اللہ پاک نے اپنے نور کا ظہور اس میں فرمایا۔ حقیقت میں یہ نورِ کبریا ہی ہے جو مسجودِ ملائکہ بنا۔ اس بنا پر انسان کا سب سے اوّلین اور پختہ تعلق اللہ جلّ شانہٗ کی پاک ذات سے قائم ہوا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور وہی (اللہ) ہے جس نے تم (انسان) کو زمین میں نائب بنایا۔ (سورۃالانعام۔165)

 انسان کے قلب میں قرب و معرفتِ الٰہی کے حصول کا جوہر ِ خاص پنہاں ہے اور اس جوہرِ خاص کی آگاہی اپنی ذات کی آشنائی سے ہی ممکن ہے۔ ’’الرسالۃ الغوثیہ‘‘ میں سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے اپنی باطنی معراج میں اللہ پاک سے ہونے والی گفتگو کو تحریر فرمایا ہے۔اس الہامی تصنیف میں درج ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا’’اے غوث الاعظمؓ! انسان میراراز ہے اور میں انسان کا راز ہوں۔ ‘‘

انسانی وجود دو عناصر کا مجموعہ ہے، ایک روح جو حقیقت ہے اور دوسرا مادی عنصری جسم جسے فنا ہو جانا ہے۔ انسان کی تعریف کرتے ہوئے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے حقیقی روحانی وارث سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
اس دنیا میں انسان دو جسموں کا مجموعہ ہے، ایک مادی عنصری جسم ہے جس کی پیدائش انسانی نطفے سے ہے اور یہ عالمِ خلق کی چیز ہے۔ دوسرا علوی لطیف روحانی جسم ہے جسے روح کہا گیا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے عالمِ امر کی چیز ہے ۔ ہر دو جسموں کا میلان اور رجحان اپنی اصل کی طرف رہتا ہے۔ (شمس الفقرا)

روح کا وجود پر غالب آجاناہی انسانیت کی معراج ہے اور ایسا انسان ہی نعمتِ فقر سے بہرہ ور ہوتا ہے ۔ حدیثِ نبویؐ ہے:
فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے اور فقر ہی کی بدولت مجھے انبیا و مرسلین پر فضیلت حاصل ہے۔

’’الرسالۃ الغوثیہ‘‘ میں درج ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدّنا غوث الاعظمؓ سے فرمایا :
اے غوث الاعظمؓ! اپنے اصحاب اور اپنے احباب سے کہہ دو کہ تم میں سے جوکوئی میری صحبت چاہتا ہے وہ فقر اختیار کرے۔(الرسالۃ الغوثیہ)

حضور نبی کریمؐ نے فرمایا:
مومن کا دنیا میں تحفہ ’فقر‘ ہے۔ (مکاشفۃ القلوب) 

شہنشاہِ فقر، شانِ ولایت، آفتابِ فقرسلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
فقر وہ راہ ہے جو بندے کو اللہ سے ملا دیتی ہے۔

سرورِ کائنات نورِ ھوُ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فقر کے مالک و مختارِ کلُ ہیں۔آپؐ کی ذات سے نعمتِ فقر پانے والی پہلی پاکیزہ ہستی طیبہ و طاہرہ سیدّۂ کائنات جگر گوشۂ رسول سیدّۃ النسا حضرت فاطمتہ الزہراؓ کی ذاتِ مقدس ہے۔ سیدّنا امیر المومنین امام المتقین حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وراثتِ فقر پائی اور بابِ فقر کہلائے اور آپ ؓ کی مقدس ذات سے ہی تاقیامت سلسلہ در سلسلہ امانتِ فقر منتقل ہوتی رہے گی۔ 

حاملِ امانتِ فقر کو اصطلاحات تصوف میں نائبِ رسول، فقیرِکامل، انسانِ کامل یا مرشد کامل اکمل کے ناموں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اسی مرشد کامل اکمل کی تلاش مسلمانوں کے لیے فرض قرار دی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اوراللہ کی طرف وسیلہ پکڑو۔   (سورۃ المائدہ۔35 )

حدیثِ نبویؐ ہے:
جو شخص اس حالت میں مرا کہ اس کی گردن میں امامِ وقت (مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ) کی بیعت نہیں وہ جہالت کی موت مرا۔ (مسلم۔4793 )

مرشد کامل اکمل

امراضِ روحانی و نفسانی سے چھٹکارا مرشد کامل اکمل کی صحبت کے بغیر ناممکن ہے خواہ کثیر کتب کا مطالعہ کر لیا جائے یا ساری عمر عبادات میں ہی کیوں نہ گزار دی جائے، مقصود (قرب و دیدارِ الٰہی ) مرشد کامل اکمل کے اِذن سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرواور سچے لوگوں(صادقین) کے ساتھ ہو جاؤ۔(سورۃالتوبہ۔119)

سیدّعبدالکریم بن ابراہیم الجیلیؒ فرماتے ہیں:
انسانِ کامل (مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ) قطبِ عالم ہے جس کے گرد اوّل سے آخر تک وجود کے فلک گردش کرتے ہیں اور جب وجود کی ابتدا ہوئی اس وقت سے لے کر ابدالآباد تک ایک ہی شے ہے۔ پھر اس کے لیے رنگا رنگ لباس ہیں اور باعتبارِلباس اس کا ایک نام رکھا جاتا ہے کہ دوسرے لباس کے اعتبار سے اس کا وہ نام نہیں رکھا جاتا۔ اس کا اصلی نام ’محمد‘ہے اس کی کنیت ’ابوالقاسم ‘اور اس کا وصف ’عبداللہ‘ اور اس کا لقب’ شمس الدین ‘ ہے۔ باعتبار دوسرے لباسوں کے اس کے نام ہیں۔ پھر ہر زمانہ میں اس کا ایک نام ہے جو اس زمانہ کے لباس کے لائق ہوتا ہے۔ (انسانِ کامل )

اس حقیقت کو علامہ ابنِ عربیؒ نے ’’فصوص الحکم‘‘ میں یوں بیان فرمایا ہے:
ہر زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ازل سے لیکر ابد تک اپنا لباس بدلتے رہتے ہیں اور اکمل افراد کی صورت پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی جلوہ نما ہوتے ہیں۔ (شرح فصوص الحکم الایقان)

معرفت و قربِ الٰہی کے حصول کے لیے مرشد کامل اکمل کی تلاش اور صحبت ازحد ضروری ہے کیونکہ یہی پاک ہستی ظاہر وباطن میں ذات وصفاتِ الٰہیہ کی تجلیات سے متصف ہوتی ہے اور نیابتِ رسولؐ کے  مقام پر فائز ہو کر دین کی حقیقی روح قائم کیے ہوئے ہے۔ اللہ پاک کی حقیقی بندگی اسی وقت ممکن ہے جب انسان کا ظاہر و باطن، عمل و سوچ اللہ پاک کی ذات کی طرف یکسوئی سے متوجہ ہو جائے۔ یہ یکسوئی مرشد کامل اکمل کی بارگاہ سے ہی حاصل ہوتی ہے کیونکہ مرشد کامل اکمل حقیقتِ حق کا آئینہ ہوتا ہے جواپنے مریدین کی توجہ بھی اسی ایک نقطہ پر مذکور رکھتے ہوئے انہیں فرقہ پرستی سے پاک رکھتا ہے۔ جس کاباطن فرقہ پرستی اور تعصب پسندی سے پاک ہوگا وہی نورِ جمالِ الٰہی کے نظارے پا سکے گا۔ حدیثِ نبویؐ ہے:
فقراکی خدمت کیا کرو بیشک ان کے لیے اللہ پاک کے پاس خزانے ہیں۔ 

سیدّناغوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادرجیلانیؓ اپنی مایہ ناز تصنیف مبارکہ ’’سرّالاسرار‘‘ میں فرماتے ہیں:
ولیٔ کامل(مرشد کامل اکمل) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس ولایت کا حامل ہوتا ہے جو آپؐ کی نبوتِ باطن کا جزو ہے اور آپؐ کی طرف سے اس(مرشد کامل اکمل ) کے پاس امانت ہوتی ہے۔ اس سے مراد وہ علما ہرگز نہیں جنہوں نے محض علمِ ظاہر حاصل کر رکھا ہے۔ اگر وہ ورثائے نبیؐ میں داخل ہوں تو بھی ان کا رشتہ ذوی الارحام( وہ رشتہ دار جن کا وراثت میں حصہ قرآن و حدیث اور اجماع سے مقرر نہیں ہے۔ نہ وہ حقیقی ورثا ’’اصحابِ فرائض جن کا حصہ قرآن و حدیث میں مقرر کیا گیا ہے‘‘ ہوں اور نہ ہی عصبی رشتہ دار ’’جنہیں حقیقی ورثا کے نہ ہونے پر یا ان سے کچھ بچ جانے پر وراثت میں حصہ ملتا ہے‘‘)  کا سا ہے۔ پس وارثِ کامل وہ ہے جو حقیقی اولاد ہو کیونکہ باپ سے اس کا رشتہ تمام عصبی رشتہ داروں سے زیادہ قریب ہوتا ہے اس لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’علم کا ایک حصہ مخفی رکھا گیاہے جسے علمائے ربانی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔‘‘ (سرّالاسرار) 

حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
مرشد توفیقِ الٰہی کا نام ہے ۔ جب تک توفیقِ الٰہی شاملِ حال نہ ہوکوئی کام تکمیل نہیں پاتا۔ مرشد کامل اکمل کے بغیر اگر توُ ساری زندگی اپنا سر ریاضت کے پتھر سے ٹکراتا رہے تو کوئی فائدہ نہ ہوگاکہ بے پیرومرشد کوئی شخص اللہ تک نہیں پہنچ سکتا۔(عین الفقر)

پس معرفت و قربِ الٰہی کی راہ پر چلنا مرشد کامل اکمل کے بغیر محال ہے۔ حدیثِ نبویؐ ہے:
پہلے رفیق تلاش کرو، پھر راستہ چلو۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نفسانی و منافقانہ دور میں جہاں بھیڑیے ولایت کا لبادہ اوڑھے معصوم و سادہ لوح انسانوں کو دھوکہ و فریب میں اُلجھا کر اپنا کاروبار چمکائے بیٹھے ہیں وہاں مرشد کامل اکمل کی پہچان اور اس تک رسائی کیسے ممکن ہو ؟؟ 

قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے کوشش کی۔(سورۃالنجم۔39)

پہلے تو طالب کو اپنی طلب پر نظرِثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مرشد کی تلاش کیونکر کر رہا ہے۔ کیا اس کی طلب دنیا کی آسائش وآرام ہے، جنت کے اعلیٰ درجات ہیں یا اللہ پاک کا قر ب و دیدار ؟ راہِ حق کا طالب درج ذیل امور پر غوروفکر کر کے پیر و مرشد کے کامل ہونے کی تصدیق حاصل کرسکتا ہے:
(۱)جتنی دیر ان بزرگ کی محفل میں رہا اتنی دیر دل میں دنیا کی طلب یا اس کے خطرات و وسوسے آئے یا نہیں؟
(۲)خدا اور رسول کریمؐ کے لیے اس کے دِل میں محبت و تڑپ محسوس ہوئی یا نہیں ؟
(۳) ان بزرگ کے مریدین جنہیں آپ جانتے ہیں ان کی حالت میں بیعت سے پہلے کی نسبت کوئی تغیر پیدا ہوا یا نہیں ؟
(۴)ان بزرگ کی زبان سے ایسے الفاظ ادا ہوئے جو کہ آپ کے حسبِ حال ہوں یا کوئی ایسی الجھن یا معاملہ جو کہ عرصہ دراز سے حل نہیں ہو رہا تھا،ان بزرگ کی برکت سے حل ہوا یا نہیں؟ 

ان امور کے علاوہ حضرت سخی سلطان باھوؒ کی تعلیمات کے مطابق مرشد کامل نہ صرف صاحبِ تصور اسمِ اللہ ذات ہو بلکہ بیعت کے فوراً بعد ہی طالب کو ذکرِھوُ اور تصور اسمِ اللہ ذات عطا کرے۔ اگر طالب کے باطن میں ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات سے کوئی تبدیلی وقوع پذیر نہ ہو اور اسے تصورِ مرشد حاصل نہ ہو تو وہ مرشد کامل نہیں ہے۔ 

جب طالب کسی مرشد میں مندرجہ بالا خصوصیات پائے تو بلاتاخیر تاحیات ان کی بارگاہ سے منسلک ہو جائے۔ عصرِ حاضر میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہی وہ بلند پایہ کامل اکمل ہستی ہیں جن کی صحبت میں اخلاصِ نیت سے حاضر ہونے والاہر شخص چاہے وہ کسی بھی مسلک یا عقیدہ سے تعلق رکھتا ہو، ضرور مرادِقلبی پاتا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس صاحبِ مسمیّٰ مرشد کامل اکمل ہیں جو بیعت کے پہلے روزطالب کو ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات عطا فرما کر عرفانِ نفس سے بہرہ ور فرما دیتے ہیں ، پس طالب کا صادق اور باوفا ہونا ضروری ہے۔ 

راہِ فقر پر آگے بڑھنے کے لیے مرشد کے کامل ہونے کے ساتھ ساتھ طالب کے لیے بھی کچھ لوازم ہیں جن کے بغیر طالب مرشد کا فیض حاصل نہ کر پائے گا۔

وفا اور قربانی

وفا سے مراد وعدہ پورا کرنا،نمک حلالی، احسان مندی اور ساتھ دینا کے ہیں۔ راہِ فقر کے طالب میں پہلی چیز جس پر مرشد کی نگاہ ہوتی ہے وہ جذبۂ وفا ہے۔ وفا زبانی دعویٰ کا نام نہیں، وفا تو عمل اور سوچ سے ظاہر ہوتی ہے اور قربانی کا تقاضا کرتی ہے۔ پس راہِ حق کا طالب اس وقت تک مقصود نہیں پا سکتا جب تک کہ وہ اپنے مرشد کے لیے اپنا سب کچھ قربان نہ کر دے اور بدلے میں کسی قسم کے صلہ کی اُمید بھی نہ رکھے کیونکہ صلہ یا بدلہ کی اُمید رکھنے والا مرید ناقص اور خام ہوتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
تم اس وقت تک برَّ (اللہ پاک کاصفاتی نام) کو نہیں پا سکتے جب تک اپنی سب سے عزیز چیز اللہ کی راہ میں قربان نہ کرو۔ (سورۃ آل عمران۔92)

حضرت ابراہیم بن ادھمؒ فرماتے ہیں:
جب تک توُ اپنی اولاد کو یتیم اور اپنی عورتوں کو بیوہ نہیں کر لیتا،خود کو کتے کی طرح خاک پر نہیں لٹا لیتا ،اپنے گھر بار کو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کر دیتا تو تیرا یار کب تجھ سے راضی ہوتا ہے۔ 

یعنی توُ بظاہر شریعت کے مطابق والد اور خاوند ہونے کے فرائض ضرور پورے کر مگر دل کو صرف اللہ کے لیے خالی رکھ اور خود کو اللہ کی بارگاہ میں اس قدر عاجز بنا جیسے کہ تو خاک ہو۔ جب تک طالب اللہ پاک کی بارگاہ میں خود کو ادنیٰ نہیں سمجھ لیتا اس وقت تک قربِ الٰہی نہیں پاسکتا۔

ایک بزرگ سے منقول ہے:
اے طالبِ صادق! تو اپنے مرشد کی خفگی اور عتابوں کے وقت اپنے اوپر صبر کو لازم کر لے۔ اگر وہ تجھے (تیری اصلاح کی خاطر) دھتکارے تو توُ جدا مت ہو بلکہ اس کی طرف دُزدیدہ نظر (چھپی نگاہ سے ) دیکھتا رَہ، اور یہ بھی جان لے کہ مرشدانِ کاملین کسی مسلمان کو ایک سانس برابر بھی ناپسند نہیں سمجھتے اور وہ جو کچھ کرتے ہیں وہ سب مرید کی تربیت کے لیے ہی کرتے ہیں جس سے مرید بے خبر ہوتا ہے۔ بعض اوقات اس طرح سے مرشد کامل اکمل اپنے مریدین کا امتحان بھی لیتے ہیں اور جو ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے (یعنی جس کی وفا میں کمی نہیں آتی) وہی فیضِ باطنی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ (آدابِ مرشدِ کامل ) 

باوفا طالب کاہر عمل اور سوچ کا تعلق مرشد سے ہی وابستہ ہوتا ہے۔ وہ  کسی کی کشف و کرامات سے متاثر نہیں ہوتا اور اپنے ساتھ ہونے والی ہر بھلائی کو مرشد کے سوا کسی سے منسوب نہیں کرتا۔ پس صادق طالبِ مولیٰ وہی ہوتا ہے جو مرشد کے ساتھ وفا میں نہ تو کمی آنے دے اور جب قربانی کا وقت آئے توبلاحیل و حجت فوراً ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہے ایسا مرید ہی مرشد کا لطف و کرم اور محبت پاتا ہے۔ 

اخلاصِ نیت

رسول کریمؐ سے سوال کیا گیا ’اخلاص کیا ہے؟‘ آپؐ نے فرمایا کہ بلاشبہ میں نے اللہ سے پوچھا کہ اخلاص کیا ہے تواللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ میں اسے اُس بندے کے دِل میں ڈال دیتا ہوں جس سے میں محبت کرتا ہوں۔‘‘ (رسالۃ قشیریہ)

حضرت سعدؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا:
 اللہ تعالیٰ اس اُمت کی مدد ان کے اخلاص کی وجہ سے فرماتا ہے۔ (نسائی3180)

صادق طالب کا اخلاص یہ ہے کہ اس کی ہر سوچ اور عمل کی بنیاد مرشد کامل اکمل سے محبت ہی ہو یعنی ہر عمل کی ادائیگی میں رضائے مرشد کی خالص نیت شاملِ حال رہے اور اس میں نفسانی خواہشات و ریاکاری کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ نیک ارادے سے ہر کام کرنا اخلاص ہے یعنی ہر ایسی عبادت و عمل جس سے اللہ پاک کا قرب و دیدار حاصل کرنا مقصود ہو۔ اس میں نہ تو مخلوق کے لیے دکھاوَا ہو اور نہ ہی اپنی تعریف کی خواہش۔ یاد رکھیں! لوگوں کی نظر تو ظاہر پرستی کو ہی قبول کرتی ہے جبکہ مرشد کامل طالب کے باطن پر نگاہ رکھتا ہے۔ پس جو طالب مرشد کے عطا کردہ کاموں کو جتنا اخلاص سے کرتا چلا جائے گا وہ اتنا ہی مقربِ الٰہی ہوگا۔ راہِ فقر میں محض ظاہر کو سنوارنے کی کوئی اہمیت نہیں، باطن کو سنوارنے سے ظاہر سنورے تو ہی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

آپ(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) فرما دیجئے سب اپنی اپنی سوچ کے مطابق اختیار کردہ طریقہ پر چل رہے ہیں اور آپ(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا ربّ خوب جانتا ہے کہ سیدھی راہ (صراطِ مستقیم) پر کون ہے۔ (سورۃ بنی اسرائیل۔84)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں :
انسان کو اچھی نیت پر وہ انعام ملتا ہے جو اچھے اعمال پر بھی نہیں ملتا، کیونکہ نیت میں دکھاوَا نہیں ہوتا۔  

سیدّناغوث الاعظمؓ فرماتے ہیں:
اعمال کی بنیاد توحید اور اخلاص پر ہے پس جس کے پاس توحید اور اخلاص نہ ہواس کا کوئی عمل نہیں۔ (الفتح الربانی، مجلس:6)

میرے ہادی سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
صدق ہی عشق میں تڑپ پیدا کرتا ہے۔ صدق نہ ہو تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔(سلطان العاشقین)

راہِ فقر میں طالب کی نیت میں صدق کا ہونا بے حد ضروری ہے اخلاصِ نیت سے مرشدکی بے لوث خدمت کرنے والا طالب ہی مقربِ بارگاہِ الٰہی بنتا ہے ۔ 

 یقینِ کامل

مرشد پر یقین ایک ایسی سیڑھی ہے جو طالبِ صادق کو معرفتِ حق تعالیٰ کے انتہائی مقام’’ فنا فی اللہ بقا باللہ‘‘ تک پہنچا دیتی ہے۔ چونکہ معرفتِ حق تعالیٰ کا راستہ باطن کا راستہ ہے جہاں نفس اور شیطان مرید کو گمراہ کرنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں، اس صورت میں مرشد کامل اکمل ہی وہ واحد ناخدا ہے جو مرید کو ان نشیب و فراز اور خطراتِ باطن سے نکال کر بحفاظت منزلِ مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔ تاہم اس کے لیے طالب کا مرشد کامل اکمل پر یقینِ کامل ہونا لازم ہے کیونکہ مرشد پر یقین ہی مرید کو اللہ تک پہنچاتا ہے۔ سیدّنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں:
یقین ایمان کی اصل ہے ،بغیر یقین کے نہ فرض ادا کیے جائیں گے اور نہ ہی یقین کے بغیر دنیا میں زہد کیا جائے گا۔ (الفتح الربانی) 

حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

اصل یقین است یقین گر شود
کار تو از ہفت افلاک بہ گزرد

مفہوم: تیرا اصل سرمایہ یقین ہے۔ اگر تجھے یہ حاصل ہو جائے تو تیرا معاملہ ساتوں آسمانوں سے بھی آگے نکل جائے۔ (گنجِ دین)

جب مرید مرشد کامل اکمل کو پا لے تو اسے یقینِ کامل ہونا چاہیے کہ میرا مرشد ہی عصر حاضر میں اللہ کا ولیٔ کامل ہے اور میرے مرشد کے ہم مرتبہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ یاد رکھیں ! صرف مرشد کامل اکمل کی ذات ہی کھرے کھوٹے کو جانچنے کی کسوٹی ہوتی ہے اس لیے مرید کو کبھی بھی اپنی عقل و سمجھ کو استعمال کرتے ہوئے مرشد کامل اکمل کے احکام و اعمال پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اعتراض یقین کو کمزور کرتاہے اور باطنی سفر رک جاتا ہے۔ سیدّنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں:
جب تک مرید یہ یقین نہ رکھے کہ میرا شیخ تمام اولیائے زمانہ سے میرے لیے بہتر ہے، نفع(فیض ) نہ پائے گا۔ 

پس مرشد کامل اکمل پر یقین راہِ فقر کی بنیاد ہے اور جب طالب یقین کے معاملے میں شک و شبہ میں پڑجاتا ہے تو اپنی منزل سے بھٹک کر نفس اور شیطان کی گرفت میں آجاتا ہے جہاں ذلت و رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ مرشد پر یقین میں پختگی ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات سے ہی ممکن ہے۔ شیخ سہل بن عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’غیر اللہ سے سکون حاصل کرنے والا قلب کبھی بھی یقین کی بوُ نہیں سونگھ سکتا۔‘‘ (رسالۃ قشیریہ)

ادب

’’ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں ‘‘

حضرت ذوالنون مصریؒ فرماتے ہیں :
صاحبِ معرفت (مرشد کامل اکمل) کا ادب ہر ادب سے اوپر ہوتا ہے کیونکہ معروفِ ذات (اللہ تعالیٰ ) اس کے قلب کو ادب سکھاتا ہے۔ (رسالہ قشیریہ)

جب تک مرید اپنے مرشد کامل کا ادب ملحوظِ خاطر نہیں رکھے گاقربِ الٰہی سے محروم و نامراد ہی رہے گا۔ حضرت ابو علی دقاقؒ فرماتے ہیں ’’بندہ اطاعت سے جنت تک اور ادب سے خدا تک پہنچتا ہے۔‘‘ (آدابِ مریدِ کامل)

مرشد کامل اکمل مظہرِ ذات و صفاتِ الٰہی ہوتا ہے، لہٰذا طالب کو اپنے ہر معاملے اور عمل میں مرشد کے ادب کو مدّنظر اور افضل ہی رکھنا چاہیے۔ مرشد کامل اکمل مرتبۂ فنا فی الرسول اور قدمِ محمدؐ پر فائز ہونے کی بنا پر اپنے مریدین کی تربیت نبویؐ طریق سے ہی فرماتاہے اس لیے مرشد کامل اکمل کاادب و اطاعت درحقیقت حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا ادب و اطاعت ہوتی ہے اورحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا ادب و اطاعت اللہ کا ادب و اطاعت ہے۔ اس لیے طالبِ مولیٰ پر فرض ہے کہ وہ ادبِ مرشد کے معاملے میں اللہ پاک سے ڈرتا رہے۔ یہ ادبِ مرشد ہی ہے جو طالب کو محبوبیت کے مرتبہ پر فائز کرتا ہے۔ حضرت ذوالنون مصریؒ فرماتے ہیں:
مرید اگرادب سے باہر نکل جائے تو جہاں اس نے ابتدا کی تھی وہیں پہنچ جاتا ہے۔ (رسالہ قشیریہ)

حضرت عیسیٰ شاذلی ادبِ مرشد کے متعلق طالب کی رہنمائی فرماتے ہیں:
صحبتِ مرشد کا یہ ادب ہے کہ اپنے قلب و سوچ کو غیر ماسویٰ اللہ سے فارغ کر لو اور مرشد کی باتوں کو یکسوئی سے سنو تاکہ فضلِ الٰہی مرید کے قلب پر وارد ہو۔

آدابِ گفتگو کا پہلا قرینہ یہ ہے کہ اپنی آواز کو مرشد کی آواز سے بلند نہ کرو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبی مکرمؐ کی آواز سے بلند مت کرو اور ان کے ساتھ اس طرح بلند آواز سے بات (بھی) مت کیا کروجس طرح تم ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو(ایسا نہ ہو کہ) تمہارے سارے اعمال ہی(ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں(ایمان اور اعمال کے برباد ہونے کا) شعور تک نہ ہو۔ (سورۃ الحجرات۔2)

آدابِ گفتگو کا دوسرا قرینہ یہ ہے کہ مرشد سے غیرضروری باتوں سے اجتناب کیا جائے اورہنسی مذاق کا تو سوچے بھی نہ کیونکہ ایسا کرنے سے مرید کے دل میں مرشد کا ادب کم ہوجاتا ہے جوکہ مرید کے لیے دنیا و آخرت کی تباہی و بربادی کا سبب بنتا ہے۔

آدابِ ملاقات میں بھی مرید صادق کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ جب مرشد کی بارگاہ میں حاضر ہوتواپنی دلی چاہت کے لیے مرشد کو ایذا مت دے یعنی کام یا بات مکمل ہونے کے بعد غیر ضروری مت بیٹھے بلکہ فوراً رخصت لے تو یہ مرید کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اے ایمان والو!نبی مکرمؐ کے گھروں میں داخل نہ ہوا کروسوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے، (پھر وقت سے پہلے پہنچ کر) کھانا پکنے کا انتظار کرنے والے نہ بنا کرو، ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہواور جب کھا چکو تو متفرق ہو جاؤ نہ کہ بیٹھے باتوں میں دِل بہلاؤ، بے شک اس سے نبی کو ایذا ہوتی ہے اور وہ تمہارا لحاظ فرماتے ہیں اور اللہ حق بات فرمانے میں نہیں شرماتا۔‘‘ (سورۃالاحزاب۔53 )

صادق مرید وہی ہے جو مرشد کامل اکمل کی خدمت میں حاضر ہو یا غیر حاضر ہر حال میں اپنے مرشد کی کامل ظاہری و باطنی تعظیم و تکریم بجا لائے۔ حضرت ابراہیم بن شیبانؒ فرماتے ہیں ’’جو شخص شیخ کی تعظیم و تکریم کا تارک ہوتا ہے وہ جھوٹے دعووں میں مبتلا ہو کررسوا ہو جاتا ہے۔‘‘ (تصوف کے روشن حقائق)

محبت

حضرت امام عبدا لوہاب شعرانیؒ فرماتے ہیں ’’اے طالب! تو جان لے کہ مرشدکے ادب کا اعلیٰ حصہ مرشد کی محبت ہی ہے۔ جس مرید نے اپنے مرشد کی کامل محبت نہ رکھی، مرشدکو اپنی تمام خواہشات پر ترجیح نہ دی تو وہ مرید راہِ حق میں کامیاب نہ ہوگا۔‘‘ (آدابِ مرشد کامل)

مرید کی مرشد کامل اکمل سے محبت کی نشانی ہی یہ ہے کہ وہ اپنے مرشد کے تمام اخلاق و افعال اور امور کی کامل اتباع کرتا ہے۔ شیخ حارث محاسبیؒ فرماتے ہیں :
تیرا ہمہ تن کسی کی طرف مائل ہونا، اپنا نفس، روح اور مال سب کچھ اس پر قربان کردینا، ظاہر و باطن میں اس کی موافقت کرنا اور تیرا یہ خیال کرنا کہ تو نے اس کی محبت میں کوتاہی کی ہے،یہی تو محبت ہے۔ (رسالہ قشیریہ)

راہِ معرفتِ حق تعالیٰ میں مرشدکامل اکمل کی محبت ہی کامیابی کی کلید ہے۔ جس طالب کو اپنے مرشدکامل اکمل سے محبت نہ ہو وہ منافق، خودپسند اور ریاکار ہے۔ مرشد کامل اکمل کی محبت ہی سے محبت و قربِ الٰہی کی راہ کھلتی ہے۔جس طالب کے قلب میں محبتِ مرشد نہیں وہ طالبِ مولیٰ نہیں بلکہ طالبِ نفس و شیطان ہے۔ جب تک طالب کی تمام تر محبت کا محور و مرکز مرشد کامل اکمل کی ذات پاک نہ بن جائے وہ اُس وقت تک راہِ معرفت و دیدارِ حق تعالیٰ کی خوشبوبھی نہیں پاسکتا۔ حدیثِ نبویؐ ہے:
تم میں سے کوئی شخص (اس وقت تک) مومن نہیں ہوسکتاجب تک میں اس کے لیے اس کی اولاد، اس کے والدین اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔ (صحیح مسلم۔44)

سچے طالب کے لیے محبتِ مرشد ہی ہر امر کی بنیاد ہے چاہے اس امر کا تعلق مجاہدات سے ہو یا عبادات سے۔ طالبِ صادق کی مرشدکامل سے محبت کا یہ مطلب ہے کہ وہ ہمہ وقت اپنے محبوب کے دیدار کا طلبگار رہتا ہے، محبوب سے محبوب کے سوا اس کی کوئی غرض نہیں رہتی، محبوب کے سوا کسی دوسرے کے ذکر کو شرک سمجھتا ہے، حکمِ محبوب کو اوّلین ترجیح دیتا ہے چاہے اسے بظاہر کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو، محبوب کی خاطر اپنی تمام تر خواہشات اور رغبتوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور بس محبوب کا قرب و دیدار ہی اس کے دل کا سکون اور دوا ہوتی ہے۔ جیسا کہ سیدّنا صدیقِ اکبرؓ سے دریافت کیا گیا ’’آپؓ کو دنیا میں سب سے زیادہ کیا پسند ہے؟‘ ‘ بے ساختہ فرمایا ’’حضورؐ کے چہرۂ انور کو دیکھنامجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔‘‘

 عشق

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور جو ایمان لائے اللہ کے لیے ان کی محبت بہت شدید ہے۔ (سورۃالبقرہ۔165) 

ذکروتصوراسمِ اللہ ذات، مشق مرقوم وجودیہ اور مرشد کامل اکمل کی توجہ اور صحبت سے مریدِ صادق کے قلب میں اپنے مرشد کے لیے شدید تڑپ پیدا ہوجاتی ہے۔ استاذابو علیؒ فرماتے ہیں ’’محبت میں حد سے بڑھنا عشق ہے۔‘‘ (رسالہ قشیریہ) 

عشقِ مرشد ہی طالب کو دیدارِ الٰہی سے ہمکنار کرتاہے کیونکہ عشقِ مرشد کے بغیر طالب حجاب میں ہی رہتا ہے۔ یہ عشقِ مرشد ہی ہے جو طالب کو فنا فی الشیخ کے مرتبہ تک لے جاتا ہے اور مرتبہ فنا فی الشیخ سے ہی مرتبۂ فنا فی الرسول، مرتبۂ فنا فی اللہ بقا باللہ عطا ہوتا ہے۔ عشقِ مرشد کا جذبہ ہی مرشد پر تن من دھن قربان کرنے اور مرشد کے ہر حکم پر سرِتسلیم خم کرنے کی رغبت دیتا ہے وگرنہ عقل توحجاب پیدا کرتی ہے۔

مولانا رومؒ فرماتے ہیں:
ہم عشقِ اللہ کو علم و عقل سے بیان نہیں کرسکتے۔

میرے ہادی آفتابِ فقر سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں: راہِ فقر پر چلنے کے لیے عشق (عشقِ مرشد) ضروری ہے اور اس راہ پر صرف وہی کامیاب ہوتا ہے جسے (مرشد کی ذات سے) عشق ہو جاتا ہے۔

عاشق طالب کو اپنے مرشد کے سوا نہ کوئی دکھائی دیتا ہے اورنہ غیرسنائی دیتا ہے، مرشد کامل اکمل ہی اس کا محور و مرکز ہوتا ہے۔ ذکر وتصور اسمِ اللہ ذات سے حاصل ہونے والا عشقِ مرشد ہی وہ جذبہ ہے جو قلب سے غیر ماسویٰ اللہ ہر خس و خاشاک کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔ میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: 

جنہاں عشق خرید نہ کیتا عیویں آ بھگتے
عشقے باہجھ محمد بخشا کیا آدم کیا کتیّ

موجودہ دور میں عاشقوں کے سلطان، رہبرِ انسانیت، شہنشاہِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ذاتِ بابرکات ہی صاحبِ اسم و مسمیّٰ مرشدکامل اکمل جامع نور الہدیٰ ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس وہ کامل اکمل ہستی ہیں جو بحکمِ الٰہی اپنے زیرِ سایہ مریدین کے ظاہر و باطن کو ایسا نکھار دیتے ہیں کہ اُن کے دلوں سے تمام محبتیں مٹ کرمحض اللہ کی محبت ہی باقی رَہ جاتی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں امام ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی رہنمائی میں لاکھوں مسلم اور غیر مسلم (بمشرفِ اسلام ہونے کے بعد) قرب و دیدارِ الٰہی کی منازل طے کر رہے ہیں۔ اللہ پاک نے آپ مدظلہ الاقدس کو عصرِ حاضر میں اعلیٰ منصب ِولایت اور لامحدود و لازوال فیضِ فقر سے نواز کر انسانیت کی رہنمائی کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کے فیضِ کرم سے صرف اخلاصِ نیت اور عاجزی اختیار کرنے والا مرید ہی سیراب ہو سکتا ہے۔ 

آنکھ والا تیری قدرت کا تماشہ دیکھے
دیدۂ کور کو کیا آئے نظر، کیا دیکھے

آخرمیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں آپ مدظلہ الاقدس کی روحانی صحبت سے مستفید ہوکر صراطِ مستقیم پر استقامت سے چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اورہمیں بھی اپنے دینِ حق کی خدمت کی سعادت بخشے۔ آمین

 استفادہ کتب:
۱۔سلطان العاشقین:  ناشر سلطان الفقرپبلیکیشنز
۲۔الرسالۃ الغوثیہ:  تصنیفِ لطیف: سیدّناشیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۳۔رسالہ قشیریہ:  امام ابوالقاسم عبدالکریم
۴۔آدابِ مریدکامل
۵۔تصوف کے روشن حقائق

 

19 تبصرے “راہِ فقر کے لوازم | Raah-e-Faqr Ke Lawaazim

  1. روح کا وجود پر غالب آجاناہی انسانیت کی معراج ہے

  2. اے اللہ ہمیں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی روحانی صحبت سے مستفید ہوکر صراطِ مستقیم پر استقامت سے چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اورہمیں بھی اپنے دینِ حق کی خدمت کی سعادت بخشے۔ آمین

  3. آنکھ والا تیری قدرت کا تماشہ دیکھے
    دیدۂ کور کو کیا آئے نظر، کیا دیکھے

  4. آنکھ والا تیری قدرت کا تماشہ دیکھے
    دیدۂ کور کو کیا آئے نظر، کیا دیکھے

  5. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں آپ مدظلہ الاقدس کی روحانی صحبت سے مستفید ہوکر صراطِ مستقیم پر استقامت سے چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اورہمیں بھی اپنے دینِ حق کی خدمت کی سعادت بخشے۔ آمین

  6. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں آپ مدظلہ الاقدس کی روحانی صحبت سے مستفید ہوکر صراطِ مستقیم پر استقامت سے چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اورہمیں بھی اپنے دینِ حق کی خدمت کی سعادت بخشے۔ آمین

  7. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی روحانی صحبت سے مستفید ہوکر صراطِ مستقیم پر استقامت سے چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اورہمیں بھی اپنے دینِ حق کی خدمت کی سعادت بخشے۔ آمین۔

    استفادہ کتب:

  8. اللہ پاک نے آپ مدظلہ الاقدس کو عصرِ حاضر میں اعلیٰ منصب ِولایت اور لامحدود و لازوال فیضِ فقر سے نواز کر انسانیت کی رہنمائی کے لیے منتخب فرمایا ہے۔

  9. مرشد کامل اکمل پر یقین راہِ فقر کی بنیاد ہے اور جب طالب یقین کے معاملے میں شک و شبہ میں پڑجاتا ہے تو اپنی منزل سے بھٹک کر نفس اور شیطان کی گرفت میں آجاتا ہے

  10. حاملِ امانتِ فقر کو اصطلاحات تصوف میں نائبِ رسول، فقیرِکامل، انسانِ کامل یا مرشد کامل اکمل کے ناموں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اسی مرشد کامل اکمل کی تلاش مسلمانوں کے لیے فرض قرار دی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
    اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اوراللہ کی طرف وسیلہ پکڑو۔ (سورۃ المائدہ۔35 )

  11. جنہاں عشق خرید نہ کیتا عیویں آ بھگتے
    عشقے باہجھ محمد بخشا کیا آدم کیا کتّے

  12. شہنشاہِ فقر، شانِ ولایت، آفتابِ فقرسلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
    فقر وہ راہ ہے جو بندے کو اللہ سے ملا دیتی ہے۔

  13. حضرت ابراہیم بن ادھمؒ فرماتے ہیں:
    جب تک توُ اپنی اولاد کو یتیم اور اپنی عورتوں کو بیوہ نہیں کر لیتا،خود کو کتے کی طرح خاک پر نہیں لٹا لیتا ،اپنے گھر بار کو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کر دیتا تو تیرا یار کب تجھ سے راضی ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں