مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْااور حیاتِ جاودانی
Motu Qabla Anta Motu aur Hayaat-e-Jaavedaani
تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
’’ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْااور حیاتِ جاودانی ‘‘ بلاگ آڈیو میں سسنے کے لیے اس ⇐ لنک ⇒ پر کلک کریں.
اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ: تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر تمہیں موت سے ہمکنار کرے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (سورۃ البقرہ۔28)
مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں انسانی حیات کے چار مراحل بیان کیے گئے ہیں:
۱۔جب وہ ماں کے پیٹ میں بے جان تھا۔
۲۔ جب اس کے اندر روح پھونکی گئی اور وہ دنیا میں پیدا ہوا۔
۳۔جب اس پر موت وارد کی جائے گی۔
۴۔ جب وہ دوبارہ اٹھایا جائے گا۔
ان چاروں میں سے انسان صرف اس دنیا کی زندگی سے ہی آگاہ ہوتا ہے۔ اس گوشت پوست سے بنے جسم سے پہلے وہ کیا تھا، مرنے کے بعد کیا ہوگا اور دوبارہ اُٹھائے جانے پر کیا معاملہ ہوگا، ان تینوں مراحل سے یکسر انجان ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی موت و حیات کا ذکر کیا ہے تو پہلے موت کا تذکرہ فرمایا ہے بعد میں حیات کا۔
دورِ حاضر میں مقصودِ زندگی محض دنیوی ضروریات کی تکمیل ہے۔ جبکہ فلاح اور کامیابی اُسی صورت میں ممکن ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن میں موت کا تذکرہ پہلے کیا ہے اسی طرح انسان بھی اس دنیوی حیات میں موت کو مقدم جانے اور ہر عمل میں اس بات کو مدنظر رکھے کہ اس کا عمل اس کی موت کے لیے بہتر ہے یا نہیں۔ اگر انسان دنیا کی زندگی کو مقدم رکھے گا تو موت بہتر نہ ہوگی۔اس لیے لازم ہے کہ انسان اپنی زندگی کو ایسے اصولوں پر گزارے کہ اس کا ہر عمل اس کی اُخروی زندگی کو بہتر بنانے والا ہو، اللہ کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہو اور اس کے قلب کی حیات کا باعث ہو۔ جب ہر عمل اللہ کی رضا کے مطابق ہوگا تو گویا انسان اس دنیوی زندگی میں بھی مردہ ہی ہوگا جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے متعلق فرمایا ’’اگر کسی نے چلتا پھرتا مردہ دیکھنا ہو تو ابوبکرؓ کو دیکھ لے۔‘‘ دورانِ حیات نفس کی موت کے اس مرتبہ کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا
ترجمہ: مرنے سے قبل مر جاؤ۔
یعنی کامیابی کا انحصار مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کا مرتبہ حاصل کرنے میں ہے۔ تاہم موت ایک ایسا راز ہے جس سے انسان تب ہی آشنا ہو سکتا ہے جب وہ موت کے مرحلے سے گزرکر اس راز سے پردہ کشائی کر لے تب یقینا وہ اس دنیا کی زندگی میں کبھی بھی دنیوی آسائشوں اور مال و متاع کو طلب نہیں کرے گا بلکہ ہر لمحہ اللہ سے اس کا طلبگار رہے گا۔
ایک دانشور نے اپنے بھائی کو لکھا ’’اے بھائی اس دنیا میں موت کی آرزو کر اس سے پہلے کہ تو ایسے گھر میں جائے جہاں تو موت کی تمنا کرے اور موت نہ ملے۔‘‘ (احیاء العلوم جلد چہارم)
اس سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ سے موت طلب کرتا رہے بلکہ اس سے مراد معنوی موت ہے۔یعنی نفس کی موت یا مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کا مرتبہ۔ ورنہ موت کی آرزو کرنا گناہ ہے۔
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں اس کی دعا کرتا۔ (صحیح بخاری۔7234)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کے مرتبہ اور موت کے احوال کے متعلق فرماتے ہیں:
مرشدِ کامل حاضراتِ اسمِ اللہ ذات کے ذریعے عالم ِ ممات کے تمام مراتب زندگی میں ہی خواب یا مراقبے کے اندر یا اعلانیہ دلیل کی آگاہی سے یا توجہ سے کھول دیتا ہے اور دنیا میں ہی تصورِ اسمِ اللہ ذات کے ذریعے واضح مشاہدۂ ممات کرا دیتا ہے جس سے طالبِ دیدار کا دِل دنیا و اہلِ دنیا سے سرد ہوجاتا ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کا مرتبہ یہ ہے کہ جو بھی موت کے مراتب ہیں وہ زندگی میں ہی دیکھ لیے جائیں۔ مراتبِ موت کون سے ہیں اور مراتبِ حیات کیا ہوتے ہیں۔ مراتبِ موت وہ ہیں کہ جان کنی کے وقت سے اور حساب کتاب اور عذاب و ثواب کے مراتب سے اور پل صراط سے گزر کر جنت میں پہنچا جائے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ اقدس سے حوضِ کوثر پر پاکیزہ شراب کے جام پیے جائیں، پانچ سو سال رکوع میں اور پانچ سو سال اللہ ربّ العالمین کے حضور سجدے میں گرے رہیں۔ اس کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اتباع کرنے والوں کی صف میں شامل ہوا جائے کہ اس صف میں ہر روح ذکر ِ کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ میں مشغول ربّ العالمین کے دیدار سے مشرف ہوتی ہے اور ظاہری آنکھوں سے انہیں دیدار حاصل ہوتا ہے اور ان کے دل کی آنکھیں دائمی لقا سے خفیہ طور پر مشرف ہوتی ہیں۔ اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ اور مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کے یہ مراتب جامع مرشد تصور اسمِ اللہ ذات اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی قوت سے کھولتا اور دکھاتاہے۔ سروری قادری مرشد ایسا ہونا چاہیے جو صاحبِ شریعت ہو اور اس کا طریقہ سلوک کلمہ طیب سے تحقیق کیا جا سکتا ہو۔ جو اس میں شک کرتا ہے وہ منافق اور زندیق ہے۔ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کے دیگر مراتب یہ ہیں کہ قلب ذکرِ اللہ کے نور سے زندہ ہو جائے اور وجود کے اندر نفس اور اس کی خواہشات کی آگ بجھ جائے۔ مراتب مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا یہ ہیں کہ اس کا حامل اگر باطنی توجہ سے کافر کو دیکھے تو اس کے کفر کو ختم کر دے اور اسے دینِ محمدی میں زندہ کر دے کہ دوبارہ کفر میں قدم نہ رکھے۔ (کلید التوحید کلاں)
مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کے مراتب کا حامل طالب اسمِ اللہ ذات میں غرق ہو کر حق تعالیٰ تک پہنچ جاتاہے۔ الغرض صاحبِ اشتغالِ اللہ دو زانو بیٹھ کر سر کو جھکائے مراقبہ میں مستغرق ہوتا ہے تو آنکھیں بند کر کے تصور اسمِ اللہ ذات کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو تصور اسمِ اللہ ذات کی تاثیر سے باطن میں ہی آخرت کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور اس کا جسم دار الفنا سے دار البقا کی طرف یوں چلا جاتا ہے گویا کہ مردہ جو جان سے بے جان ہو گیا ہو اور اس وقت ازلی حقائق اور روح کی حقیقت اس پر واضح ہو جاتی ہے اور اسمِ اللہ ذات کی تاثیر سے صاحبِ استغراق جان کنی کی تلخی کے سارے احوال یوں دیکھ لیتا ہے گویا وہ اصل میں مر چکا ہو۔ اس وقت ایک غسال آتا ہے اور اسے غسل دیتا ہے جس کے بعد لوگ جمع ہو کر اس کا جنازہ پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد اس کے سر اور دماغ میں ایک وسیع ہڈی، جسے ولایت الابن کہتے ہیں جو آسمان اور زمین سے زیادہ وسیع ہے،میں اسکی روح کو لے جایا جاتا ہے اور فرشتے اس سے ستر ہزار سوال و جواب کرتے ہیں اور وہ لمحہ بھر میں ان کے جواب دیتا ہے۔ اس کے بعد اسے قبر میں مقامِ لحد میں اتارا جاتا ہے جو زمین اور آسمان سے بھی بے حد وسیع ہے۔ اس وقت فرشتے منکر نکیر اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے سوال و جواب کرتے ہیں جس سے فارغ ہونے پر منکر نکیر کہتے ہیں:
نَمْ فِی النَّوْمِ کَنَوْمِ الْعُرُوْسِ
ترجمہ: دلہن کی نیند سو جا۔
پھر ایک فرشتہ آکر اسے دلہن کی نیند سے اٹھاتا ہے اور اپنی انگلی کو قلم، تھوک کو سیاہی، منہ کو دوات اور کفن کو کاغذ بناتا ہے اور اس کی نیکی و بدی کے اعمال کفن کے کاغذ پر لکھ کر اس کے دستخط کرواتا ہے اور کفن کے کاغذ پر لکھے ان اعمال کا تعویذ بنا کر اس کے گلے میں ڈالتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے۔ قبر میں پڑے اسے ہزاروں سال اور بے شمار صدیاں گزر جاتی ہیں۔ پھر صورِ اسرافیل ؑکی آواز اس کے کانوں میں سنائی دیتی ہے اور لوگ زمین سے گھاس کی طرح باہر نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اٹھارہ ہزار عالم حساب کے لیے میدانِ قیامت میں حاضر ہو جاتے ہیں اور اعمال نامے ان کے ہاتھوں میں تھما دئیے جاتے ہیں اور ان اعمال کو وزن کی خاطر ترازو پر رکھا جاتا ہے اور پھر ان کو پل صراط سے گزار کر جنت میں داخل کیا جاتا ہے:
فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ۔لا وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ۔ (سورۃ الفجر۔29-30)
ترجمہ: پس میرے بندوں میں شامل ہو کر میری جنت میں داخل ہو جا۔
پھر وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ مبارک سے شرابِ طہور پیتا ہے اور وہ شراب پیتے وقت کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھتا ہے اور حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر پانچ سو سال رکوع میں اور پانچ سو سال سجدہ میں رہتا ہے۔ اس کے بعد وہ سجدہ سے اٹھتا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں اصحابِ رسول کے پیچھے کی صف میں دیدارِ ربّ العالمین سے مشرف ہوتا ہے۔ اور جب ان انتہائی مراتب پر طریقِ تحقیق سے لقائے ربّ العالمین سے مشرف ہو کر واپس ہوش میں آتا ہے تو اس صورت جس کی مثل کوئی شے نہیں، اس بے مثل و بے مثال غیر مخلوق صورت کی مثال نہیں پیش کر پاتا۔ وہ جس وقت بھی باطن میں غرق اور متوجہ ہوتا ہے تو دیدار سے مشرف ہوتاہے اور کسی بھی حال میں لمحہ بھر کے لیے بھی دیدار اور مشاہدئہ تجلیات کی لذات سے فارغ نہیں رہتا۔ اگرچہ ظاہر میں وہ عوام کے ساتھ ہم کلام ہوتا ہے لیکن باطن میں دائمی حضوری میں ہوتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
دنیوی حیات میں ہی مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کا مرتبہ حاصل کرنے والا طالبِ مولیٰ غیر اللہ کی طرف کیسے مبذول ہو سکتا ہے! وہ تو ہر لمحہ اپنے مالکِ حقیقی سے ملنے کا مشتاق ہوتا ہے۔ اسی کے متعلق حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:
باھوؒ! ما را ز مرگ پیغام خوش تر است
شادی ازاں پیغام کہ وصلش تمام شد
ترجمہ: اے باھوؒ!موت ہمارے لیے خوشی کی خبر ہے کہ یہ کامل وصال کا پیغام دیتی ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَایَمُوْتُوْنَ بَلْ یَنْتَقِلُوْنَ مِنَ الدَّارٍ اِلَی الدَّارِ
ترجمہ: خبردار! بیشک اولیا اللہ مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہوتے ہیں۔
اَلْمَوْتُ جَسْرٌ یُوْصِلُ الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ
ترجمہ: موت ایک پل ہے جو حبیب کو حبیب سے ملاتی ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ’’موت مومن کی محبوبہ ہے۔‘‘
مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کے یہ مراتب اپنے نفس کو مار کر حاصل ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا کہ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان، جسم یا روح کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ انسان،جسم اور روح کا مرکب ہے۔ جسم روح کے بغیر بے جان ہے اور بے جان اشیا پر موت وارد نہیں ہوتی جبکہ روح امرِربی ہے جس کے لیے موت ممکن نہیں۔ موت کا اطلاق صرف اور صرف نفس پر ہوتا ہے۔ جس کا نفس دورانِ حیات ہی موت کا ذائقہ چکھ لے تو وہ پھر دنیا کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جو طالب زندگی میں ہی اپنے نفس کو مار لے اس میں نفس کے خلاف تین چیزیں پائی جاتی ہیں؛ اوّل یہ کہ کھانا کھاتے وقت وہ اپنے نفس سے کہتا ہے کہ اے نفس! اللہ کے اس فرمان پر یقین رکھ کہ: کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ (سورۃ آلِ عمران۔185) ترجمہ: ’’ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔‘‘ تو جو کچھ کھانا چاہتا ہے کھا لے کہ موت و جان کنی کے وقت کی تلخی لذیز و شریں کھانوں کی لذت سے بھی تلخ تر محسوس ہو گی۔ دوم یہ کہ لباس پہنتے وقت طالب نفس سے کہتا ہے کہ تو جو لباس بھی وجود پر پہنتا ہے اگرچہ ریشم اور زریں کا لباس ہو وہ تیرا کفن ہے۔ سوم یہ کہ جس جگہ یا خوبصورت عمارت میں بیٹھتا ہے تواپنے نفس سے کہتا ہے کہ دیکھ اے نفس! یہ گھر ویران ہو جائے گا تیرا اصل گھر تو قبر ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
بقول شاعر:
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے
وہ طالبانِ مولیٰ جو اپنا مقصدِحیات یعنی اللہ کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں ان عارفین کے لیے دنیوی زندگی حجاب کی مثل ہوتی ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
عارفین کے لیے زندگی حجاب کی مانند ہے اور وہ دنیا میں قیدی کی طرح رہتے ہیں کیونکہ دنیا مومنین کے لیے دوزخ کی مثل ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِیْنِ وَ جَنَّتُ الْکٰفِرِیْنَ (صحیح مسلم۔ 7417)
ترجمہ: دنیا مومنین کے لیے قید خانہ اور کافروں کے لیے جنت ہے۔(کلید التوحید کلاں)
ایک مومن و طالبِ مولیٰ جس کا مقصود اللہ کی ذات ہے نہ کہ دنیا کی عیش و عشرت، اس کے لیے ہی دنیا و آخرت میں نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدّنا غوث الاعظمؓ سے فرمایا:
اے غوث الاعظمؓ!جو یہ جان لے کہ مرنے کے بعد اس کے ساتھ کیا ہونا ہے تو وہ دنیا کی زندگی طلب نہ کرے بلکہ ہر لمحہ یہی کہے کہ مجھے مار ڈال مجھے مار ڈال۔ (الرسالۃ الغوثیہ)
تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ جب کسی کو مرنے سے قبل ہی موت کے بعد کے حالات معلوم ہو جائیں وہ کیونکر چاہے گا کہ وہ اس دنیا میں رہے اور اس کی زینت و رنگینیوں میں مشغول ہو بلکہ وہ تو ہر لمحہ یہی چاہے گا کہ وہ جلد از جلد اس دنیا سے رخصت ہو تاکہ وہ اس دنیا کے شر سے محفوظ رہے اور اپنے مالکِ حقیقی سے مل جائے۔ اس کا موت کی تمنا کرنا ازروئے مایوسی نہیں بلکہ اس دنیا سے اپنے اصل گھر واپس لوٹنے اور اپنے مالک و خالق سے ملنے کے اشتیاق کے باعث ہوگا۔
سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ الرسالۃ الغوثیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اے غوث الاعظمؓ! قیامت کے دن میرے نزدیک مخلوقات کی حجت گونگا، بہرا، اندھا ہونا اور حسرت و گریہ کرنا ہے اور قبر میں بھی ایسا ہی ہوگا۔
انسان کے جسمانی وجود سے جب اس کی روح قبض کر لی جاتی ہے تو وہ مردہ ہو جاتا ہے۔ اس کی حسیات بھی ختم ہو جاتی ہیں۔ نہ وہ حرکت کر سکتا ہے اور نہ ہی وہ کچھ بول سکتا ہے لیکن اس کا روحانی وجود اس وقت اس کے مردہ وجود کے پاس ہوتا ہے اور وہ روحانی وجود سے ہی ظاہر میں ہونے والے واقعات کو دیکھ رہا ہوتاہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہوتی ہے جیسے کوئی گونگا، اندھا، بہرا یا کوئی معذور ہو۔ مرنے پر اس کے سامنے سے تمام حجابات اٹھ جاتے ہیں اور حقیقتِ حق اس پر آشکار ہو جاتی ہے لیکن چونکہ دنیا کی امتحان گاہ کا وقت ختم ہو چکا ہوتا ہے لہٰذا اس وقت وہ کوئی عمل نہیں کر سکتا سوائے پچھتاوے کے اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اُسے غسل دے کر اور کفن پہنا کر قبر میں اتار دیا جاتا ہے۔
قیامت کے دن انسان کے ان تمام اعمال کا حساب کیا جائے گا جو وہ اس دنیا میں کرتا رہا اور پھر اس کے مطابق اس کے ان اعمال کی اسے جزا دی جائے گی۔ اگر اچھے اعمال کیے ہوں گے تو اچھا بدلہ ہوگا اور اگر برے اعمال اور گناہ کیے ہوں گے تو بدلہ بھی برا ہوگا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَالْیَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَّ لَا تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (سورۃ یٰسین۔54)
ترجمہ: پس آج کے دن کسی جان پر کچھ ظلم نہ کیا جائے گا سوائے ان کاموں کے جو تم کیا کرتے تھے۔
قیامت کے روز کسی کی مجال نہ ہوگی کہ اللہ کے ساتھ کلام کر سکے یا کسی عمل کی جزا یا سزا پر بحث و حجت کر سکے۔ اس وقت اس کا نامۂ اعمال اس کے سامنے ہوگا اور وہ اپنے کسی عمل سے انکار نہ کر سکے گا۔اس کی مثال ایک اندھے گونگے اور بہرے کی سی ہو گی۔اور انسان کے اعمال کی گواہی اس کے اپنے اعضا دیں گے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاھِھِمْ وَ تُکَلِّمُنَآ اَیْدِیْھِمْ وَ تَشْھَدُ اَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ (سورۃ یٰسین۔65)
ترجمہ: آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں ان اعمال کی گواہی دیں گے جو وہ کمایا کرتے تھے۔
حدیثِ مبارکہ میں بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ ہنس پڑے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پوچھا کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں کس بات پر ہنس رہا ہوں؟ ہم نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ مجھے بندے کی اپنے ربّ کے ساتھ کی گئی بات پر ہنسی آتی ہے۔ وہ کہے گا اے میرے ربّ! کیا تو نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی؟ وہ فرمائے گا کیوں نہیں۔ فرمایا بندہ کہے گا میں اپنے خلاف اپنی طرف کے گواہ کے سوا اور کسی (کی گواہی) کو جائز قرار نہیں دیتا۔ تو وہ فرمائے گا آج تم اپنے خلاف بطور گواہ خود کافی ہو اور کراماً کاتبین بھی گواہ ہیں چنانچہ اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے اعضا سے کہا جائے گا بولو۔ فرمایا تو وہ اس کے اعمال کے بارے میں بتائیں گے، پھر اسے اور (اس کے اعضا کے) بولنے کو اکیلا چھوڑ دیا جائے گا۔ فرمایا تو (اعضا کی گواہی سن کر) وہ کہے گا دور ہو جاؤ۔ میں تمہاری طرف سے لڑا کرتا تھا۔ (صحیح مسلم۔7439)
قیامت کے روز مومنین تو خوش ہوں گے کیونکہ ان کے اعمال نامے دائیں ہاتھ میں ہوں گے اور ان کے لیے جنت کی بشارت ہے جبکہ منکرین اور کافر سخت پریشان اور پشیمان ہوں گے۔ ان کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھ میں ہوں گے اور انہیں دوزخ کی بشارت دی جائے گی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یَوْمَئِذٍ تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰی مِنْکُمْ خَافِیَۃٌ۔ فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ لا فَیَقُوْلُ ھَآؤُمُ اقْرَئُوْا کِتٰبِیَہْ۔ج اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَہْ۔ ج فَھُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ۔لا فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ۔ لا قُطُوْفُھَا دَانِیَۃٌ۔ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا ھَنِیْٓئًام بِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَۃِ۔ وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ بِشِمَالِہٖ لا فَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ کِتٰبِیَہْ۔ ج وَ لَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَہْ۔ ج یٰلَیْتَھَا کَانَتِ الْقَاضِیَۃَ۔ ج مَآ اَغْنٰی عَنِّیْ مَالِیَہْ۔ ج ھَلَکَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَہْ۔ ج خُذُوْہُ فَغُلُّوْہُ۔لا ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْہُ۔لا ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَۃٍ ذَرْعُھَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُکُوْہُ۔ط اِنَّہٗ کَانَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔لا (سورۃ الحاقہ۔18-33)
ترجمہ: اُس دن تم (حساب کے لیے) پیش کیے جاؤ گے۔ تمہاری کوئی پوشیدہ بات چھپی نہ رہے گی۔ سو وہ شخص جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ (خوشی سے) کہے گا آؤ میرا نامہ اعمال پڑھ لو۔ میں تو یقین رکھتا تھا کہ میں اپنے حساب کو پانے والا ہوں۔ سو وہ پسندیدہ زندگی بسر کرے گا۔ بلند و بالا جنت میں۔ جس کے خوشے جھکے ہوئے ہوں گے۔ (ان سے کہا جائے گا) خوب لطف اندوزی کے ساتھ کھاؤ اور پیو اُن (اعمال) کے بدلے جو تم گزشتہ ایام میں آگے بھیج چکے ہو۔ اور وہ شخص جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا ہائے کاش! مجھے میرا نامہ اعمال نہ دیا گیا ہوتا۔ اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ ہائے کاش وہی (موت) کام تمام کر چکی ہوتی۔ (آج) میرا مال بھی مجھ سے (عذاب کو) کچھ دور نہ کر سکا۔ مجھ سے میری قوت و سلطنت جاتی رہی۔ (حکم ہوگا) اسے پکڑ لو اور طوق پہنا دو۔ پھر اسے دوزخ میں جھونک دو۔ پھر ایک زنجیر جس کی لمبائی ستر گز ہے میں اسے جکڑ دو۔ بیشک یہ بڑی عظمت والے اللہ پر یقین نہیں رکھتا تھا۔
لہٰذا آخرت میں وہی شخص کامیاب ہوگا جس نے مرشد کامل اکمل کی صحبت میں رہ کر اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا ہوگا اور اس کا قلب و باطن اللہ کی معرفت کی بدولت روشن اور منور ہوگا۔ اس کے علاوہ اس دنیا میں رہتے ہوئے مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کا مرتبہ پا لیا ہوگا۔ ایسا ہی شخص قبر میں منکر نکیر کے پوچھے گئے سوالوں کے درست جواب دے گا کیونکہ اس نے اس دنیا میں رہتے ہوئے دنیا اور اس کی آسائشات سے دل نہیں لگایا بلکہ اللہ کی معرفت حاصل کر کے اپنے باطنی وجود کو زندہ کر لیا۔ بقول اقبالؒ:
تنِ بے روح سے بیزار ہے حق
خدائے زندہ زندوں کا خدا ہے
مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کا مرتبہ پانے والے شخص کی روح حیاتِ جاودانی کے بعد زندہ ہوگی یعنی نہ گونگی ہوگی نہ اندھی اور نہ بہری اور نہ ہی حسرت و گریہ میں۔ انہی لوگوں کو حیاتِ جاودانی نصیب ہوتی ہے جیسا کہ انبیا اور اولیا کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اَلْاَنْبِیَائُ وَ الْاَوْلِیَائُ یُصَلُّوْنَ فِیْ قُبُوْرِھِمْ کَمَا یُصَلُّوْنَ فِیْ بُیُوْتِھِمْ
ترجمہ:انبیا اور اولیا اپنی قبروں میں (بھی ایسے ہی) نماز ادا کرتے ہیں جیسے اپنے گھروں میں نماز ادا کرتے تھے۔
حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کے مرتبہ پر پہنچ کر حیاتِ جاودانی پانے والے ان اولیا کے متعلق فرماتے ہیں:
۱۔ اولیا را قبر خلوت باخدا
زندہ دل ہرگز نہ میرد اولیا
۲۔ بعد مردن میشود جان پاک نور
غرق فی التوحید فی اللہ باحضور
۳۔ غرق داند زیر خاکش در قبر
می شود دیدار اللہ سربسر
۴۔ طمع و حسد و حرص مردہ با ہوا
اولیا ہرگز نہ میرد با لقا
۵۔ ہر کہ گیرد نام بانامش حضور
ہم سخن باعارفاں ذکرش ضرور
۱) ترجمہ: زندہ اولیا اللہ ہرگز نہیں مرتے، اولیا اللہ کے لیے قبر لقائے حق کاخلوت خانہ ہوتی ہے۔ (یعنی قبر میں وہ اپنے محبوب سے ملاقات کرتے ہیں اور ملاقات زندہ وجودوں کے درمیان ہوتی ہے نہ کہ مردہ)۔
۲) مرنے کے بعد وہ پاک نوری صورت اختیار کرکے توحیدِ الٰہی میں غرق ہو جاتے ہیں او ر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی حضوری میں رہتے ہیں۔
۳) لوگ انہیں زیر ِ خاک قبر کا مردہ سمجھتے ہیں لیکن وہ سربسر دیدارِ الٰہی میں محو ہوتے ہیں۔
۴) اولیا اللہ ہرگز نہیں مرتے بلکہ وہ دیدارِ الٰہی میں غرق رہتے ہیں اور ان کے وجود سے طمع و حرص و ہوس جیسے خصائلِ بد مر جاتے ہیں۔
۵) جب کوئی عارف ان کا نام لے کر ان کو پکارتا ہے تو وہ حاضر ہو کر ان سے گفتگو کرتے ہیں۔ (عقلِ بیدار)
روزِ قیامت اللہ اسی معیار پر مخلوق کو پرکھے گا کہ کس کی روح اندھی، گونگی اور بہری تھی کس کی نہیں اور یہی اس کی حجت ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی (سوۃ بنی اسرائیل۔72)
ترجمہ: جو اس (اس دنیا) میں دیدار سے اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔
اس دن یہ مردہ دل اور باطنی طور پر اندھے، گونگے اور بہرے لوگ حسرت اور گریہ میں مشغول ہوں گے کہ کسی طرح اللہ کے غضب سے نجات حاصل ہو جائے۔ لیکن وہ بے بس اور لاچار ہوں گے۔ انہی کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یَوْمَ یَاْتِ لَا تَکَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ج فَمِنْھُمْ شَقِیٌّ وَّ سَعِیْدٌ۔ (سورۃ ھود۔105)
ترجمہ: جب وہ دن آئے گا کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر کلام نہ کر سکے گا۔ پس ان میں سے بعض شقی (بدبخت) ہوں گے اور بعض سعید (نیک بخت)۔
رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَھُمَا الرَّحْمٰنِ لَا یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا۔ یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَ الْمَلٰٓکَۃُ صَفًّا لا ژط لَّا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا۔ (سورۃ النبا۔37-38)
ترجمہ: (وہ) آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے (سب) کا پروردگار ہے، بڑی ہی رحمت والا ہے۔ اس سے بات کرنے کا کسی کو یارا نہ ہوگا۔ جس دن جبرائیل ؑاور (دیگر) فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے، کوئی لب کشائی نہ کر سکے گا سوائے اس شخص کے جسے خدائے رحمن نے اِذن (شفاعت) دے رکھا تھا۔ اور اس نے زندگی میں درست بات کہی تھی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی درخواست پر اللہ تعالیٰ میزان قائم فرمائے گا جہاں نیکیوں اور بدیوں کا وزن ہوگا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی امت کے مومنین کی شفاعت فرمائیں گے اور اللہ سے اس کے فضل کے طلبگار ہوں گے کیونکہ اللہ کے فضل کے بغیر نجات ممکن نہیں۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا تم میں سے کسی کا عمل نہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور نہ اسے دوزخ سے بچائے گا اور نہ مجھے میرا عمل جنت میں داخل کرے گا ہاں وہ جو اللہ کی رحمت کے ساتھ ہو۔ (مسلم 7121)
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
بے پرواہ درگاہ ربّ دی باھوؒ، نہیں فضلاں باجھ نبیڑا ھوُ
مفہوم: اللہ تعالیٰ کی ذات بہت بے پرواہ ہے۔ اس کے فضل کے بغیر نجات اور چھٹکارہ نہیں۔
حاصل تحریر:
جو اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنے نفس کی شر انگیزی اور اس کے فتنوں سے نجات حاصل کر لیتے ہیں وہ دنیا کی زندگی میں بھی مرُدوں کی طرح ہی رہتے ہیں۔ نفس کی شر انگیزی سے نجات تزکیۂ نفس کے بعدہی ممکن ہے اور تزکیۂ نفس مرشد کامل اکمل کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔ دورِ حاضر میں سلسلہ سروری قادری کے امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس یہ فریضہ بخوبی نبھا رہے ہیں۔ دنیابھر سے لاکھوں طالبانِ مولیٰ آپ کی نگاہِ فیض سے مستفید ہو چکے ہیں اور مستقل طور پر مستفید ہو رہے ہیں۔ ہر طبقہ کے مرد و خواتین کے لیے دعوتِ عام ہے کہ اگر وہ اس دارِ فانی میں رہ کر دار البقا کی تیاری کرنا چاہتے ہیں اور نفس کی شرانگیزیوں سے نجات پانا چاہتے ہیں تو فی الفور سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے دامن سے وابستہ ہو جائیں۔
استفادہ کتب:
۱۔ الرسالۃ الغوثیہ: تصنیفِ لطیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۲۔نور الہدیٰ کلاں: تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۳۔ کلید التوحید کلاں: ایضاً
۴۔احیا العلوم: تصنیفِ لطیف امام غزالیؒ