سیدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ کی مسندِ تلقین و ارشاداور احیائے دین
Syedna Ghaus ul Azam ki Masnad-e-Talqeen-o-Irshad aur Ahyaa-e-Deen
تحریر: سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
’’سیدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ کی مسندِ تلقین و ارشاداور احیائے دین ‘‘ بلاگ آڈیو میں سسنے کے لیے اس ⇐ لنک ⇒ پر کلک کریں.
سید الکونین ، سلطان الاولیا، نورِمطلق، محبوبِ سبحانی ، غوثِ صمدانی، قطبِ ربانی، شہبازِ لامکانی سیدّنا غوث الاعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ یکم رمضان المبارک 470ھ بمطابق (17مارچ 1078ئ) بروز جمعتہ المبارک عالمِ وحدت سے عالمِ ناسوت میں تشریف لائے۔
بیعت اور منتقلی امانتِ الٰہیہ
سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کے ورودِ بغداد کے وقت حضرت ابوالخیر حماد بن مسلم الدباس رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت قاضی ابو سعید مبارک مخزومی رحمتہ اللہ علیہ علومِ طریقت کے مسلم رہنما تھے۔ دونوں فقرائے کامل تھے۔ سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے ان دونوں بزرگوں سے بے شمار فیوضِ روحانی حاصل کئے لیکن ابھی بیعت و ارادت کے رشتے میں منسلک ہونا باقی تھا۔ جب آٹھ سال کی طویل مدت میں ہر قسم کے علوم میں یکتا ہو گئے اور پھر پچیس سال کے بے مثال مجاہدات وریاضت کے بعد آپ رضی اللہ عنہٗ کو پورا تزکیۂ نفس حاصل ہوگیا تو وقت آگیا کہ آپ کا ہاتھ کسی پیرِطریقت کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔ چنانچہ منشائے الٰہی کے مطابق آپ حضرت قاضی ابوسعید مبارک مخزومی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کرکے ان کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے۔
حضرت ابو سعید مبارک مخزومی رحمتہ اللہ علیہ جب سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ سے بیعت لے چکے توان کو اپنے ہاتھ سے کھاناکھلایا۔ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ’’میرے شیخِ طریقت جو لقمہ میرے منہ میں ڈالتے تھے وہ میرے سینہ کو نورِ معرفت سے بھر دیتا تھا۔‘‘
پھر حضرت شیخ ابو سعید مبارک رحمتہ اللہ علیہ نے آپ رضی اللہ عنہٗ کو خرقہ ولایت پہنایا اور فرمایا:
’’اے عبدالقادر (رضی اللہ عنہٗ)یہ خرقہ جناب سرورِ کائنات رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو عطا فرمایا۔ انہوں نے خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہٗ کو عطا فرمایااور ان سے دست بدست مجھ تک پہنچا۔‘‘
یہ خرقہ زیبِ بدن کر کے سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ پر بیش از بیش انوارِ الٰہی کا نزول ہوا۔
شیخ ابو سعید مبارک رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے اس عظیم المرتبت مرید پر بے حد ناز تھا۔ اللہ تعالیٰ نے خود انہیں اس شاگردِ رشید کے مرتبہ سے آگاہ کردیا تھا۔ ایک دن سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ ان کے پاس مسافر خانے میں بیٹھے تھے۔ کسی کام کیلئے اُٹھ کر باہر گئے تو قاضی ابوسعید مبارک رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا:
’’اس جوان کے قدم ایک دن تمام اولیااللہ کی گردن پر ہوں گے اور اس کے زمانے کے تمام اولیا اس کے آگے انکساری کریں گے۔‘‘
مسندِ تلقین و ارشاد اور دنیا ئے اسلام کی عمومی حالت
488ھ میں جب سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ بغداد تشریف لائے دنیائے اسلام طرح طرح کے فتنوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ ایک طرف فتنہ خلقِ قرآن، اعتزال اور باطنیت کی تحریکیں مسلمانوں کیلئے خطرہ ایمان بنی ہوئی تھیں، دوسری طرف علمائے سواور نام نہاد صوفی لوگوں کے دین وایمان پر ڈاکہ ڈال رہے تھے۔ مرکزِ اسلام بغداد میں بدکاری، فسق، ریاکاری اور منافقت کا بازار گرم تھا۔ خلافتِ بغداد دن بدن زوال پذیر تھی۔ سلجوقی آپس میں لڑ رہے تھے۔ جس سلطان کی طاقت بڑھ جاتی بغداد میں اسی کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا۔ عباسی خلیفہ دَم نہ مار سکتا تھا۔ باطنیہ تحریک کے پیروؤں نے ملک میں اودھم مچا رکھا تھا۔ کسی اہلِ حق کی جان وعزت محفوظ نہیں تھی۔
جب سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے 496ھ میں علوم کی تکمیل کی تو باطینوں کا فتنہ عروج پر تھا۔ یہاں تک کہ حجاج کے قافلے بھی ان کی ستم رانیوں سے محفوظ نہیں تھے۔ دوسری طرف پہلی صلیبی جنگ کا آغاز ہو چکا تھا اور تمام مسیحی دنیا کی متحدہ قوت نے عالمِ اسلام پر یلغار کردی تھی۔ یہ خلیفہ مستنصر باللہ کا دورِ حکومت تھا جو 487ھ سے 512ھ تک رہا۔ اس خلیفہ کی بیدار مغزی کی وجہ سے خود بغداد سیاسی لحاظ سے نسبتاً پرُسکون تھا اوریہی وقت تھا جب سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ تحصیلِ علم میں مشغول تھے۔ 496ھ میں تکمیلِ علوم کے بعد آپ رضی اللہ عنہٗ نے علائقِ دنیوی سے قطع تعلق کرلیا اور 521ھ تک مجاہدات و ریاضات میں مشغول رہے۔اس وقت دنیائے اسلام کی سیاسی اَبتری میں کچھ کمی ہوگئی تھی لیکن عام لوگوں کا اخلاقی انحطاط انتہا کو پہنچ چکا تھا اور جو فتنے 488ھ میں چنگاری تھے وہ اب شعلہ بن چکے تھے۔ یہی وقت تھا جب سیدّنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ صلاح وتقویٰ سے آراستہ، مزاجِ شریعت سے آشنا اور کتاب وسنت کے علوم سے مسلح ہو کر میدانِ جہاد میں اترے اور مجالسِ تلقین و ارشاد اور اجتماعاتِ صلاح و ہدایت کے ذریعے باطل کیخلاف جنگ کا آغاز کردیا۔
رسولِ اکرمؐ کی زیارت
مسندِتلقین و ارشاد پر جلوہ افروز ہونے سے پہلے16 شوال 521ھ ہفتہ کے دن دوپہر کے وقت آپ نے خواب میں دیکھا کہ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں:
’’اے عبدالقادر! تم لوگوں کو گمراہی سے بچانے کیلئے وعظ و نصیحت کیوں نہیں کرتے؟‘‘
آپ رضی اللہ عنہٗ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہؐ! میں ایک عجمی ہوں۔ عرب کے فصحا کے سامنے کیسے بولوں۔‘‘
حضورؐ نے ارشاد فرمایا ’’اپنا منہ کھولو۔‘‘
آپ نے حضورؐ کے ارشاد کی تعمیل کی۔ سرورِ کائناتؐ نے اپنا لعابِ دہن سات بار آپ رضی اللہ عنہٗ کے منہ میں ڈالا اورپھر حکم فرمایا:
’’جاؤ قوم کو وعظ ونصیحت کرو اور ان کو اللہ کے راستے کی طرف بلاؤ۔‘‘
پہلا وعظ
خواب سے بیدار ہو کر آپ رضی اللہ عنہٗ نے ظہر کی نماز پڑھی اور وعظ کیلئے بیٹھ گئے۔ اس وقت بہت سے لوگ آپ رضی اللہ عنہٗ کے گرد جمع ہوگئے۔ آپ کچھ جھجکے، یکایک کشفی حالت طاری ہوئی اور آپ رضی اللہ عنہٗ نے دیکھا کہ بابِ فقر سیدّنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ آپ رضی اللہ عنہٗ کے سامنے کھڑے ہیں اور فرما رہے ہیں ’’وعظ شروع کیوں نہیں کرتے؟‘‘
آپ نے عرض کیا ’’ابا جان! میں گھبرا گیا ہوں۔‘‘
شیرِخدا رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ’’اپنا منہ کھولو۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہٗ نے اپنا منہ کھولا تو حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے اپنا لعابِ دہن چھ بار آپ کے منہ میں ڈالا۔
آپ رضی اللہ عنہٗ نے عرض کیا ’’یا حضرت آپ نے سات مرتبہ اپنے لعابِ دہن سے مجھے کیوں نہیں مشرف فرمایا؟‘‘
شیرِخدا رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ’’یہ ہادی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا پاسِ ادب ہے۔‘‘
یہ فرما کر حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ تشریف لے گئے اور آپ رضی اللہ عنہٗ نے وعظ کا آغاز کردیا۔ لوگ آپ رضی اللہ عنہٗ کی فصاحت و بلاغت دیکھ کر دنگ رہ گئے اور بڑے بڑے فصحاکی زبانیں گنگ ہوگئیں۔
رجوعِ عام
ابتدا میں آپ رضی اللہ عنہٗ نے درس و تدریس اور وعظ و ہدایت کا سلسلہ اپنے مرشد جناب ابوسعید مبارک مخزومی رحمتہ اللہ علیہ کے مدرسہ میں شروع کیا۔ سارا بغداد اور اطراف و اکناف کے لوگ آکر مواعظِ حسنہ پر ٹوٹ پڑے اور آپ رضی اللہ عنہٗ کی شہرت چند دنوں میں سارے عراق، شام، عرب اور عجم میں پھیل گئی۔ ہجومِ خلق کی وجہ سے مدرسے میں تِل دھرنے کی جگہ نہ رہتی اور لوگ مدرسہ کے باہر شارع عام پر بیٹھ جاتے۔ آخر 528ھ میں قرب وجوار کے مکانات شامل کرکے مدرسہ کو وسیع کردیا گیا۔ لیکن یہ وسیع وعریض عمارت بھی لوگوں کے بے پناہ ہجوم کا احاطہ نہ کرسکتی تھی اور آپ رضی اللہ عنہٗ کا منبر شہر سے باہر عید گاہ کے وسیع میدان میں رکھا جاتا تھا۔ حاضرینِ مجلس کی تعداد بسا اوقات ستر ہزار بلکہ اس سے بھی بڑھ جاتی تھی۔
آپ رضی اللہ عنہٗ کے مواعظ وخطبات قلم بند کرنے کیلئے ہر مجلس میں چار سو دواتیں ہوا کرتی تھیں اوردو قاری ہر مجلسِ وعظ میں قرآنِ کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ کی عالمگیر شہرت دور دراز مقامات سے شائقین کو آپ کی مجالسِ وعظ میں کھینچ لاتی تھی۔ آپ عام طور پر ہفتہ میں تین بار وعظ فرمایا کرتے تھے،جمعتہ المبارک اور بدھ کی شام کو ایک سوموار کی صبح کو۔ ان پرُاثر مواعظِ حسنہ کا سلسلہ پورے چالیس برس یعنی521ھ سے 561ھ تک جاری رہا۔
پرُ نور خطبات
سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کا وعظ حکمت و دانش کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہوتا تھا۔ اس کی تاثیر کا یہ عالم ہوتا تھا کہ لوگوں پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ بعض لوگ جوش میں آکر اپنے کپڑے پھاڑ ڈالتے تھے، بعض بے ہوش ہو جاتے تھے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ مجلسِ وعظ میں ایک دو آدمی غشی کی حالت میں واصل بحق ہوگئے۔ اکثر اوقات غیر مسلم بھی آپ رضی اللہ عنہٗ کی مجالسِ وعظ میں شرکت کرنے آتے اور آپ رضی اللہ عنہٗ کا وعظ سن کر انہیں کلمہ شہادت پڑھ لینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہتا۔ جو گمراہ مسلمان آپ رضی اللہ عنہٗ کا وعظ سن لیتا صراطِ مستقیم اختیار کر لیتا۔ مشہور ہے کہ آپ رضی اللہ عنہٗ کی مجلسِ وعظ کی اثر انگیزی سے ان کے لباس اور ٹوپیاں شعلہ فروزاں بن جاتیں اور شدتِ جذبات سے ان میں اضطراب بپا ہو جاتا۔
آپ رضی اللہ عنہٗ کی آواز نہایت کڑک دار تھی جسے دور نزدیک بیٹھنے والے تمام لوگ یکساں سنتے تھے۔ ہیبت کا یہ عالم تھا کہ دورانِ وعظ کسی کی مجال نہ تھی کہ بات کرے، ناک صاف کرے، تھوکے یا ادھر اُدھر اٹھ کر جائے۔ وعظ قدرے سرعت سے فرماتے تھے کیونکہ الہاماتِ ربانی کی بے پناہ آمد ہوتی تھی۔ اس دور کے اکثر نامور مشائخ آپ رضی اللہ عنہٗ کی مجالسِ وعظ میں شریک ہوتے تھے۔ مجالسِ وعظ میں بکثرت کرامات آپ رضی اللہ عنہٗ سے ظاہر ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہٗ کے مواعظ دلوں پر بجلی کا اثر کرتے تھے۔ ان میں بیک وقت شوکت و عظمت بھی تھی اور دلآویزی اور حلاوت بھی۔ رسولِ اکرمؐ کے نائبِ خاص تھے، عارفِ کامل مکمل نور الہدیٰ تھے اس لئے ہر وعظ سامعین کے حالات وضروریات کے مطابق ہوتا تھا۔
لوگ جب بغیر پوچھے اپنے شبہات اور قلبی امراض کا جواب پاتے تھے تو ان کو روحانی سکون حاصل ہو جاتا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہٗ کے مواعظِ حسنہ کے الفاظ آج بھی دلوں میں حرارت پیدا کر دیتے ہیں اور ان میں بے مثال تازگی اور زندگی محسوس ہوتی ہے۔
نورِفقر کا فیضِ عام
آپ کے شاگرد شیخ عبداللہ جیلانیؒ کا بیان ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے مواعظِ حسنہ سے متاثر ہو کر ایک لاکھ سے زائد فاسق و فاجر اور بد اعتقاد لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہٗ کے ہاتھ پر توبہ کی اور ہزارہا یہودی اور عیسائی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
سیدّنا غوث الاعظمؓ نے خود ایک موقع پر فرمایا:
’’میری آرزو ہوتی ہے کہ ہمیشہ خلوت گزیں رہوں، دشت و بیاباں میرا مسکن ہوں، نہ مخلوق مجھے دیکھے نہ میں اس کو دیکھوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی بھلائی منظور ہے۔ میرے ہاتھ پر پانچ ہزار سے زائد عیسائی اور یہودی مسلمان ہو چکے ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ بدکار اور فسق وفجور میں مبتلا لوگ توبہ کرچکے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے۔‘‘
تمام مؤرخین متفق ہیں کہ بغداد کے باشندوں کا بڑا حصہ آپ رضی اللہ عنہٗ کے ہاتھ پر توبہ سے مشرف ہوا اور نہایت کثرت سے عیسائی، یہودی اور دوسرے غیر مذاہب کے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ کی کوئی مجلس ایسی نہ ہوتی تھی جس میں بدکار لوگ آپ رضی اللہ عنہٗ کے ہاتھ پر تائب نہ ہوتے ہوں یا غیر مسلم دینِ حق کی آغوش میں نہ آتے ہوں۔
ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہٗ کی مجلسِ وعظ میں عرب کے تیرہ عیسائیوں نے اسلام قبول کیا اور پھر بیان کیا کہ کچھ عرصہ سے اسلام کی طرف مائل تھے لیکن کسی مردِ حق کی جستجو میں تھے جو ہمارے قلوب کی سیاہی بالکل دھو ڈالے۔ ایک دن ہمیں غیب سے آواز آئی:
’’تم لوگ شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے پاس بغداد جاؤ وہ تمہیں مشرف بہ اسلام کرکے تمہارے سینوں میں نورِ ایمان بھر دیں گے۔‘‘
چنانچہ ہم اسی غیبی اشارہ کے تحت بغداد آئے اور الحمد للہ کہ ہمارے سینے نورِ ہدایت سے معمو ر ہوگئے۔
اسی طرح ایک دفعہ ایک عیسائی راہب آپ رضی اللہ عنہٗ کی خدمت میں حاضر ہوا اس کا نام سنان تھا۔ صحائفِ قدیمہ کا زبردست عالم تھا۔ اس نے آپ رضی اللہ عنہٗ کے دستِ حق پر اسلام قبول کیا اور پھر مجمع عام میں کھڑے ہو کر بیان کیا:
’’صاحبو! میں ارضِ یمن کا رہنے والا ہوں۔ مدت سے دنیا سے قطع تعلق کرکے راہبانہ زندگی گزار رہا تھا۔ کچھ عرصہ سے مجھ پر دین اسلام کی حقانیت روشن ہوگئی تھی لیکن اس دین کے پیروؤں کی عام اخلاقی حالت دیکھ کر قبولِ اسلام میں متردّد تھا۔ میں نے عہد کیا تھا کہ اہلِ اسلام سے جو شخص سب سے زیادہ متقی اور صالح دیکھوں گا اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کروں گا۔ ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور فرما رہے ہیں ’’اے سنان! بغداد جا کر شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرو۔ اس وقت کرۂ ارض پر ان سے بڑھ کر کوئی شخص متقی اور صالح نہیں ہے اور اس وقت وہ تمام اہلِ زمین سے افضل ہیں۔‘‘ چنانچہ جناب مسیح علیہ السلام کے اس ارشاد کے مطابق میں سیدھا حضرت کی خدمت میں آیا اور الحمد للہ جیسا سنا تھا ان کو ویسا ہی پایا۔‘‘
شیخ موفق الدین ابن قدامہ مغنی رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے میں نے کسی شخص کی آپ سے بڑھ کر تعظیم و تکریم ہوتے نہیں دیکھی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی مجالسِ وعظ میں بادشاہ، وزرا اور امرا نیازمندانہ حاضر ہوتے تھے اور عام لوگوں کے ساتھ مؤدبانہ اور خاموش بیٹھ جاتے تھے۔ علما اور فقہا کا توکچھ شمار ہی نہ تھا۔‘‘
اپنے وعظ میں مطلق کسی کی رو رعایت نہیں رکھتے تھے اور جو بات حق ہوتی برملا کہہ دیتے خواہ اس کی زد کسی بڑے سے بڑے آدمی پر پڑتی۔ آپ کی اسی بے باکی اور اعلائے کلمتہ الحق میں بے مثال جرأت کی وجہ سے آپ کے مواعظ ایسی شمشیرِبراں بن گئے تھے جو معصیت و طغیان کے جھاڑ جھنکار کو ایک ہی وار میں قطع کردے۔
ایک دفعہ خلیفہ کے محلات کا ناظم عزیز الدین آپ کی مجلس میں بڑے تزک واحتشام کے ساتھ آیا۔ یہ شخص خلیفہ کا معتمدِ خاص اور مقرب تھا اور بڑا صاحبِ اثر امیر تھا۔ اس کے آتے ہی آپ رضی اللہ عنہٗ نے اپنی تقریر کا موضوع بدل دیا اور اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم سب کی یہ حالت ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی بندگی کرتا ہے، اللہ کی بندگی کون کرتا ہے!‘‘
اس کے بعد آپ نے اس سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’کھڑا ہو۔ اپناہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دے تاکہ اس فانی گھر یعنی دنیا سے بھاگ کر ربّ العالمین کی طرف لپکیں اور اس کی رسی کو تھام لیں عنقریب تجھ کو خدا کی طرف لوٹناہوگا اور وہ تیرے اعمال کا محاسبہ کرے گا۔‘‘
غرض وعظ و نصیحت میں آپ کی بے باکی بے مثال تھی۔ بعض اوقات اس میں نہایت تیزی اور تندی پیدا ہوجاتی تھی۔ آپ فرماتے تھے کہ لوگوں کے دلوں پر میل جم گیا ہے۔ جب تک اسے زور سے رگڑا نہیں جائے گا‘ دور نہ ہوگا۔ میری سخت کلامی انشاء اللہ ان کے لئے آبِ حیات ثابت ہوگی۔ ایک دفعہ اپنے وعظ کے متعلق آپ نے فرمایا:
’’میرا وعظ کے منبر پر بیٹھنا تمہارے قلوب کی اصلاح و تطہیر کے لئے ہے نہ کہ الفاظ کے الٹ پھیر اور تقریر کی خوشنمائی کے لئے۔ میری سخت کلامی سے مت بھاگو کیونکہ میری تربیت اس نے کی ہے جو دینِ الٰہی میں سخت تھا۔ میری تقریر بھی سخت ہے اور کھانا بھی سخت ہے اور روکھا سوکھا ہے پس جو مجھ سے اور میرے جیسے لوگوں سے بھاگا اس کو فلاح نصیب نہیں ہوئی۔ جن باتوں کا تعلق دین سے ہے، ان کے متعلق جب تو بے ادب ہے تو میں تجھ کو چھوڑوں گا نہیں اور نہ یہ کہوں گا کہ اس کو کئے جا۔ تو میرے پاس آئے یا نہ آئے پرواہ نہ کروں گا۔ میں قوت کا خواہاں اللہ تعالیٰ سے ہوں نہ کہ تم سے۔ میں تمہاری گنتی اور شمار سے بے نیاز ہوں۔‘‘
محی الدین
سیدّنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کو دنیائے اسلام میں ’’محیّ الدین‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہٗ کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہٗ نے احیائے اسلام کے لئے بے مثال جدوجہد فرمائی۔ مجلسِ وعظ ہو یا خانقاہ کی خلوت،مدرسہ کے اوقاتِ درس وتدریس ہوں یا مسندِ تلقین و ارشاد، ہر جگہ آپ رضی اللہ عنہٗ کی جدوجہد احیائے دین کے محور کے گرد گھومتی تھی۔ اسلام کی اس وقت کیا حالت تھی اس کا اندازہ آپ کے ان ملفوظات سے لگایا جاسکتا ہے:
فرمایا: ’’لوگو! اسلام رو رہا ہے اور ان فاسقوں، بدنیتوں، گمراہوں،مکر کے کپڑے پہننے والوں اور ایسی باتوں کا دعویٰ کرنے والوں کے ظلم سے جو ان میں موجود نہیں ہیں، اپنے سر کو تھامے ہوئے فریاد مچا رہا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین کی دیواریں پے بہ پے گر رہی ہیں اور اس کی بنیاد گری جاتی ہے۔ اے باشندگانِ زمین آؤ اور جو گِر گیا ہے اس کو مضبوط کردیں اور جو ڈھے گیا ہے اس کو درست کردیں یہ چیز ایک سے پوری نہیں ہوتی۔ اے سورج، اے چاند اور اے دن! تم سب آؤ۔‘‘
اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف آپ نے لوگوں کو اس طرح بلایا:
’’اے اہلِ بغداد! تمہارے اندر نفاق بڑھ گیا ہے اور اخلاص کم ہو گیا ہے۔ باتیں زیادہ ہیں اور کام کچھ بھی نہیں۔ جان لو کہ عمل کے بغیر قول کسی کام کا نہیں بلکہ وہ تمہارے خلاف حجت ہے۔ قول بلاعمل ایسا خزانہ ہے جو خرچ نہیں کیا جاتا۔ وہ محض دعویٰ ہے گو دلیل کے بغیر وہ ایک ڈھانچہ ہے روح کے بغیر، روح تو توحید و اخلاص اور کتاب و سنت پر عمل کرنے سے آتی ہے۔ تمہارے اعمال بے روح ہوچکے ہیں۔ غفلت چھوڑ دو اور آؤ خدا کی طرف پلٹو۔ اس کے احکام کی تعمیل کرو اور اس کے ممنوعات سے بچو۔‘‘
ایک موقع پر آپ نے فرمایا ’’یہ آخری زمانہ ہے کہ نفاق کی گرم بازاری ہے اور میں اس طریقے کو قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جس پر جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، آپ کے صحابہؓ اور تابعینؒ رہے ہیں۔ اس دور میں لوگ دولت کے پجاری بن گئے ہیں وہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح بن گئے ہیں کہ ان کے دل میں گئوسالے کی محبت رچ گئی تھی اور اس زمانہ کا گئوسالہ درہم و دینار بن گئے ہیں۔ تجھ پر افسوس ہے کہ تو اس دنیا کے بادشاہ سے جاہ و مال کا طالب بنا ہوا ہے حالانکہ عنقریب وہ معزول ہو جائے گا یا مرجائے گا، اسکا مال، ملک و جاہ سب جاتا رہے گا اور ایک ایسی قبر میں جا بسے گا جو تاریکی، تنہائی اور حشرات الارض کا گھر ہے۔ فانی بادشاہ پر مت بھروسا کر‘ ورنہ تیری توقع نامراد رہے گی اور مددمنقطع ہو جائے گی بھروسے کے لائق تو صرف ذاتِ الٰہی ہے جو کائنات کی خالق ہے اور جس کو فنا نہیں۔‘‘
غرض آپ کی عدیم المثال جدوجہد نے مردہ دلوں کے لئے مسیحائی کاکام کیا اور لاکھوں انسانوں کو نئی ایمانی زندگی عطا کی۔ آپ کا وجود مبارک ایک بادِ بہاری تھا جس نے دنیائے اسلام میں ایمان اور روحانیت کی حیاتِ تازہ پیدا کر دی۔ دین ِحق غالب ہو گیا اور باطل سرنگوں ہو گیا اور یہی آپ کا وہ کارنامہ عظیم ہے جس کی بدولت آپ کو ’’محی الدین‘‘ کہا جاتا ہے۔
عطائے لقب محیّ الدین
ایک دفعہ سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ سے کسی نے پوچھا ’’آپ محیّ الدین کے لقب سے کیسے مشہور ہوئے؟‘‘ آپ رضی اللہ عنہٗ نے جواب میں اپنا ایک عجیب مکاشفہ بیان فرمایا:
ایک دن میں بغداد سے باہر گیاہوا تھا۔ واپس آیا تو راستے میں ایک بیمار اور خستہ حال شخص کو دیکھا جو ضعف و لاغری کے سبب چلنے سے عاجز تھا۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو کہنے لگا ’’اے شیخ! مجھ پر اپنی توجہ کر اور اپنے دمِ مسیحا نفس سے مجھے قوت عطا کر۔‘‘ میں نے بارگاہِ ربّ العزت میں اس کی صحت یابی کے لئے دعا مانگی اور پھر اس پر دم کیا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس شخص کی لاغری اور نقاہت یک لخت دور ہو گئی اور وہ تندرست و توانا ہوکر اٹھ کھڑا ہوااور کہنے لگا ’’عبدالقادر ؓ مجھے پہچانا؟‘‘ میں نے کہا’’نہیں‘‘ وہ بولا ’’میں تمہارے نانا کا دین ہوں اور ضعف کی وجہ سے میری یہ حالت ہوگئی ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے تیرے ذریعے سے مجھے حیاتِ تازہ عطا کی ہے تو ’محیّ الدین‘ ہے اوراسلام کا مصلحِ اعظم ہے۔‘‘
میں اس شخص کو چھوڑ کر بغدادکی جامع مسجد کی طرف روانہ ہوا۔ راستہ میں ایک شخص ننگے پاؤں بھاگتا ہوا میرے پاس سے گزرا اور بلند آواز سے پکارا ’’سیدّی محیّ الدین‘‘۔ میں حیران رہ گیا پھر میں نے مسجد میں جا کر دوگانہ ادا کیا۔ جونہی میں نے سلام پھیرا میرے چاروں طرف لوگ انبوہ در انبوہ جمع ہوگئے اور محیّ الدین‘ محیّ الدین کے فلک شگاف نعرے لگانے لگے۔ اس سے پہلے کبھی کسی نے مجھے اس لقب سے نہیں پکارا تھا۔
یہ مکاشفہ تو اپنی جگہ پر ہے لیکن اس حقیقت سے کسی صورت میں انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آپ رضی اللہ عنہٗ واقعی ’’محیّ الدین‘‘ ثابت ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ کی بے غرضی، بے نفسی، دردمندی، اخلاص، خشیتِ الٰہی، پرُتاثیر شخصیت، پرُاثر کلام اور احیائے اسلام کی بے پناہ تڑپ کی بدولت دین ِحق کو حیاتِ تازہ ملی اور آپ رضی اللہ عنہٗ کا یہ عظیم الشان کارنامہ نصف النہار کے آفتاب کی طرح روشن ہے۔ راہِ حق میں آپ رضی اللہ عنہٗ کی محیر العقول خدمات دیکھ کر انسان انگشتِ بدنداں ہو جاتا ہے اور آپ رضی اللہ عنہٗ کا ’’محیّ الدین‘‘ ہونا کسی دلیل کا محتاج نہیں رہتا۔
(نوٹ: یہ مضمون سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی تصنیف مبارکہ ’’حیات و تعلیمات سیدّنا غوث الاعظمؓ‘‘ سے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے)
دورِ حاضر کے مجددِ دین سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس نے فتنہ پروری اور مادہ پرستی کے اس دور میں دین کو حیاتِ نو بخشی اور عوام الناس کو دینِ اسلام کی حقیقی روح ’’فقر‘‘ سے روشناس کروایااور اس سلسلہ میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ فقر کا فیض جو پہلے خواص تک محدود تھا، آپ مدظلہ الاقدس نے اس فیض کو دنیا بھر میں عام فرما دیا۔ نہ صرف مردوں کو بلکہ عورتوں کو بھی اس فیض سے بھرپور بہرہ ور فرمایا۔
فروغِ فقر اور دعوتِ اسم اللہ ذات کے لیے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے تحریک دعوتِ فقر کے نام سے ایک منظم جماعت کی بنیاد رکھی جس کے تحت مختلف شعبہ جات قائم فرمائے جن میں سلطان الفقر پبلیکیشنز، سلطان الفقر ڈیجیٹل پروڈکشن، شعبہ دعوت و تبلیغ، شعبہ ویب سائٹ ڈویلپمنٹ، شعبہ سوشل میڈیا اور شعبہ اطلاعات و نشریات سرِ فہرست ہیں۔ تمام شعبہ جات سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بے مثال قیادت میں دن رات انتھک محنت سے احیائے دین کے لیے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ تحریک دعوتِ فقر عوام الناس کو دعوت دیتی ہے کہ معرفتِ الٰہی کے حصول اور دینِ حقیقی سے آگاہی کے لیے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس سے وابستہ ہوں اور اللہ کی اس جماعت سے منسلک ہو کر فروغِ دین کے لیے اپنی خدمات سرانجام دیں۔