مولاناجلال الدین رومیؒ کی سبق آموز حکایت
Maulana Jalal Ud Din Rumi – HIKAYAT
تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری
مولانا جلال الدین رومیؒ اپنی ایک حکایت میں فرماتے ہیں: ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کسی جگہ تشریف لے جارہے تھے ۔ آپؑ نے ایک چرواہے کو راستے میں بیٹھا ہوا دیکھا ۔وہ چراوہا اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے اپنے حال میں مست اللہ تعالیٰ سے محوِ گفتگو تھا :
اے اللہ تو کہاں ہے ؟ تو میرے پاس آ تاکہ میں تیرا نوکر بنوں، تیرے جوتے سی دوں، تیرے سر میں تیل ڈال کر تیرے کنگھی کروں۔ تو میرے پاس آ، میں تیری خدمتیں کروں۔ تیرے کپڑے سی دوں۔ تیرے کپڑے دھوؤں، تیرے سر سے جوئیں نکالوں، تجھے بکریوں کا دودھ پلاؤں، اگر تو بیمار ہو جائے تو میں تیرا غمخوار بنوں۔ تیرے پیارے پیارے ہاتھوں کو چوموں، تیرے سونے کا وقت آئے تو تیرا بسترتیرے لیے سجادوں۔
اے میرے اللہ! تجھ پر میں اپنی جان قربان کردوں۔میرا گھر میری دولت، میری یہ تمام بکریاں تجھ پر قربان، اگر مجھے یہ پتہ چل جائے کہ تو کہاں رہتا ہے تو میں تیرے لیے روزانہ دودھ لے کر آؤں۔ نہ جانے وہ بے خودی کے عالم میں اللہ سے کیا کیا گفتگو کر رہا تھاجو کسی صورت بھی درست نہیں تھی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کی باتیں سن کر ناراض ہوئے اور سختی سے اس چرواہے سے کہا ’’ارے بے وقوف !تیری یہ باتیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں بالکل کفریہ ہیں۔کیاتجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہر خدمت سے بے نیاز ہے۔ اے شخص! تو اپنی ان باتوں سے جو تو نے کہی ہیں، توبہ کر اور اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آجائے۔‘‘
اس چرواہے نے حضرت موسیٰ ؑ سے کہا :اے موسیٰؑ!ہائے افسوس کہ میں نے انجانے میں کیسی باتیں کہہ دیں۔ لیکن میں تو اللہ تعالیٰ کو یاد کر رہا تھا اور اس سے اپنی محبت کا اظہار کر رہا تھا۔میں نہیں جانتا تھا کہ اللہ پاک میری مذ کورہ خدمات کا محتاج نہیں ہے ۔ وہ میری ان تمام باتوں سے بے نیاز ہے۔ چرواہے کے دل پر اللہ تعالیٰ کا اس قدر خوف طاری ہوا کہ اس نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور روتا ہوا جنگل کی طرف بھاگ گیا ۔وہ ابھی وہاں سے بھا گا ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی کہ اے موسیٰؑ!تونے ہمارے بندے کو ہم سے جدا کر دیا۔وہ چرواہا تو میرے عشق میں مبتلا ہو کر ایسی باتیں کر رہا تھا اور میں اسکی یہ باتیں بڑی محبت سے سن رہا تھا ۔ اس چرواہے کو مجھ سے سچی محبت تھی۔ وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے مجھ سے محبت کرتا تھا جس کا اظہار وہ بے خودی کے عالم میں کر رہا تھا۔ بے شک میں ان باتوں سے پاک ہوں جووہ کہہ رہا تھا مگر وہ چرواہا تو یہ علم نہ رکھتا تھا ۔اس کادل میری محبت سے سرشار تھا، اس کی نیت اچھی تھی۔ اس کے دل میں میرے لیے عقیدت ومحبت تھی ۔ اے موسیٰؑ میں نے تجھے اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ تو میرے بندوں کو مجھ سے ملائے۔ تجھے اس لیے نہیں بھیجا گیا کہ میرے بندوں کو مجھ سے جدا کرے۔ اب جاؤ اور میرے بندے کو جنگل سے واپس لے آؤ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے حکم کے مطابق اسی وقت جنگل کی طرف بھاگے اوراس چرواہے کو ڈ ھونڈ لیا۔ آپؑ نے اس چرواہے کو مبارک دی اور کہا تجھے اسی طریقہ پرمناجات کی اجازت مل گئی ہے ، جو بھی محبت بھرے الفاظ تیری زبان پر آئیں تو کہتا رہ اس لیے کہ تیرا مرتبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بلند ہے۔ (حکایاتِ رومیؒ)
مولا نا جلال الدین رومیؒ کی اس نصیحت آموزحکایت سے ہمیں سیکھنے کو یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر انسان کے ظاہر پر نہیں بلکہ اس کی نیت اور باطن پر ہوتی ہے۔ کسی بھی عبادت کی مقبولیت کے لیے اخلاصِ نیت بہت ضروری ہے۔ حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ خاتم النبییٖن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
اعمال کا دارومداد نیت پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔ (صحیح بخاری ۔1)
حضرت ابو ہر یرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ تمہارے جسموں اور تمہاری شکلوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔ (صحیح مسلم 2564)
حضرت سہل بن سعد ساعدیؓ سے مروی ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے اور منافق کا عمل اس کی نیت سے بہتر ہے اور ہر ایک اپنی نیت پر عمل کرتا ہے۔ پس مومن جب کوئی عمل کرتا ہے تو اس کے دل میں نور پھوٹ پڑتا ہے۔ (طبرانی،بیہقی، مجمع الزوائد ، مسند عبداللہ بن عباسؓ )
پیرانِ پیر سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کا ارشادِ مبارک ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر، فکر اور عبادت میں اخلاص قبولیت کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی بنیاد اخلاص پر ہے۔ پس تو اخلاص سے اس کی عبادت کر۔
داتاگنج بخش حضرت علی ہجویریؒ فرماتے ہیں کہ اخلاص تب ہی پیدا ہوتا ہے جب محبتِ الٰہی میں خلوص ہو ۔ آپ ؒ فرماتے ہیں کہ کوئی عمل، عمل نہیں ہوتا جب تک اس میں خلوص نہ ہو ۔ نیز عمل کے ساتھ خلوص کو وہی نسبت ہے جو جسم کو روح کے ساتھ ہے۔ (شمس الفقرا)
اخلاصِ نیت کے علاوہ مولانا رومؒ کی اس حکایت سے یہ بات بھی آشکار ہوتی ہے کہ اسلام صرف شرعی تقاضے پورے کرنے کا نام نہیں بلکہ اللہ کے ساتھ عشق ومحبت کی بنا پر باطنی تعلق استوار کرنے کا بھی نام ہے۔ عبادت کا مقصد اللہ کے عشق میں سرشار ہو کر دعا و مناجات کرنا ہے۔ عبادت شوق و امید اور خوفِ الٰہی کا نام ہے۔ عبادت خشیتِ الٰہی سکھاتی ہے۔ دین کا مقصد قربِ الٰہی کا حصول ہے۔
مذکورہ بالا حکایت کو سامنے رکھیں تو طالبانِ دنیا اور طالبانِ عقبیٰ کا بھی ایک رویہ سامنے آتا ہے جو وہ طالبانِ مولیٰ کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ طالبانِ مولیٰ یا عاشقانِ الٰہی ہر وقت اللہ کے عشق میں گرفتار رہتے ہیں جبکہ علمائے ظاہر اور دنیادار اس حقیقت سے آگا ہ نہیں ہوتے اور اپنے قلیل علم کی بنیاد پر طالبانِ مولیٰ کو راہِ حق پر نہیں سمجھتے۔ ان پر ملامتوں کے تیر بر ساتے ہیں اور کفر وشرک کے فتوے لگا دیتے ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ نے جابجا اپنی تصانیف اور ابیات میں راہِ فقر میں طالبانِ مولیٰ کو جو مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہیں اس کا تذ کرہ فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں :
شریعت دے دروازے اُچے، راہ فقر دا موری ھوُ
عالم فاضل لنگھن نہ دیندے، جو لنگھدا سو چوری ھوُ
پٹ پٹ اِٹاں وَٹے مارن، درد منداں دے کھوری ھوُ
راز ماہی دا عاشق جانن باھوؒ ، کی جانن لوک اتھوری ھوُ
شرح:شریعت کے دروازے تو بہت بڑے بڑے اور معروف ہیں اور عوام (طالبانِ دنیا، طالبانِ عقبیٰ)کے لیے ہیں لیکن فقر کا راستہ ایک چھوٹے سے دریچہ کی مثل ہے جو صرف خواص (طالبانِ مولیٰ) کے لیے مخصوص ہے۔ عالم اور فاضل فقر کے راستے پر لوگوں کو چلنے نہیں دیتے کیو نکہ وہ خود اس راہ کے اسرار ورموز سے واقف نہیں وہ اس راہ کے مسافروں پر شرک و الحاد کے فتوے اور طنز کے پتھر برساتے رہتے ہیں۔ عاشق ہی حق تعالیٰ کے راز سے آشنا ہوتے ہیں اور یہ دنیادار اور خرکار قسم کے لوگ اس راز اورسر کو نہیں سمجھ سکتے۔ (ابیاتِ با ھوؒ کامل )
مذہباں دے دروازے اُچے، راہ رباناں موری ھوُ
پنڈتاں تے ملوانیاں کولوں، چھپ چھپ لنگھیئے چوری ھوُ
اڈیاں مارن کرن بکھیڑے، درد منداں دے کھوری ھوُ
باھوؒ چل اُتھائیں وَسیے، جتھے دعویٰ ناں کس ہوری ھوُ
شرح: یہاں مذ ہب سے چاروں فقہ اور ظاہری علوم مراد ہیں۔ مذہب کے دروازے معروف ہیں اور عوام کے لیے ہیں جبکہ راہِ فقر تو ایک چھوٹے سے دریچہ کی مثل ہے جو خواص کے لیے مخصوص ہے۔ اس دریچہ سے بھی مذہب کے علمبرداروں سے بچ بچ کر اور چھپ کر گزرنا چاہیے جو علم کے تکبر کی وجہ سے خود حجاب میں ہیں اور راہِ فقر کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔ یہ لوگ راہِ عشق کے مسافروں کا مذاق اڑاتے ہیں۔اُن پر فتوے لگاتے ہیں اور ان سے حسد اور بغض رکھتے ہیں۔ آخر میں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اے باھوؒ! وہاں چل کر بسیرا کرتے ہیں جہا ں ایسے لوگوں کا گزرتک نہ ہو ۔ (ابیاتِ باھوؒ کامل)
اللہ تعالیٰ کی معرفت اور وصال کا راستہ عشقِ الٰہی میں سب کچھ قربان کر کے حاصل ہوتا ہے۔ عاشق صادق تجلیاتِ الٰہی سے ہمہ وقت گزرتا رہتا ہے۔ ان کی کیفیت اور حال عام لوگ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ معرفتِ حق حاصل نہ ہونے کے باعث شریعت کا علم ان کے لیے حجاب بن جاتا ہے۔ علمائے ظاہر کو علمِ شریعت حاصل ہوتا ہے جبکہ اولیا اللہ کو علمِ باطن عطاہوتاہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا ایک واقعہ جو علمِ شریعت اور علمِ باطن پر مبنی ہے وہ قرآنِ کریم میں درج ہے جس کو حضرت سخی سلطان باھوؒ نے اپنی تصانیف مبارکہ میں بھی بیان کیا ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے )کہا کہ اب میں آپ سے الگ ہوتا ہوں اور آپ کو ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر آپ سے صبر نہ ہو سکا ۔ (سورۃالکہف ۔78)
چنانچہ ان کا کشتی کو توڑ نے، ٹوٹی ہوئی دیوار کو بنانے اور بچے کو قتل کرنے کا یہ قصہ سورۃ الکہف میں درج ہے۔ پس حضرت مو سیٰ علیہ السلام کے پاس علمِ ظاہر تھا اور حضرت خضر علیہ السلام کے پاس علمِ باطن تھا ۔ علما اور طالب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مثل ہیں جبکہ مرشد فقیر حضرت خضر علیہ السلام کی مثل ہے ۔ اسی لیے فقر اسے حضرت خضر علیہ السلام جیسے واقعات رو نما ہوتے رہتے ہیں۔ (عین الفقر )
یعنی حضرت خضر علیہ السلام بھی راہِ حق پر تھے لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس کا علم نہ تھااس لیے ان کی نظر میں حضرت خضر علیہ السلام کے اعمال گناہ تھے۔یہاں ایک نکتہ کی تصحیح کرنا نہایت ضروری ہے جس کی بنا پر لوگ اس واقعہ کومنفی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ کیا ایک نبی کو علم نہ تھا جبکہ ایک عام بشر علم رکھتا تھا ۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا کہ یہ علم کی الگ الگ صورتیں ہیں یعنی علمِ ظاہر اور علمِ باطن۔ حضرت خضر علیہ السلام کو علمِ باطن عطا کرنا اور بظاہر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس سے پوشیدہ رکھنا بھی اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت تھی تاکہ دنیا کے سامنے اِن دونوں علوم کی اہمیت اور فضیلت کو اجاگر کیا جا سکے۔ اس کی ایک اور حکمت یہ بھی ہے کہ بظاہر اولیا اللہ کے ہاتھوں جو کام سرزد ہوتے ہیں ان کی باطنی حقیقت صرف ان کے اور اللہ کے درمیان ہی پوشیدہ ہوتی ہے۔ بھلے دنیا کے سامنے وہ فعل مناسب دکھائی نہ دیں لیکن ان کا مقصد اپنے ربّ کی رضا اور خوشنودی ہے۔
مذکورہ حکایتِ رومیؒ میں آخر ی غور طلب نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مو سیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ میں نے اپنے برگزیدہ بندوں کو اس لیے مبعوث فرمایا کہ وہ لوگو ں کے دل ہدایت سے منور فرما کر اللہ کے ساتھ جوڑدیں۔جب سے دنیا تخلیق ہوئی ہے ایک ابدی اصول ہے جو آغاز سے چلا آرہا ہے اور تاقیامت جاری رہے گا۔یہ فریضۂ حق انبیا اور ر سولوں کے بعدہر دور میں موجود انسانِ کامل سرانجام دیتا آرہا ہے۔ انسانِ کامل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا با طنی جانشین اور امانتِ فقر کا رو حانی وارث ہوتاہے۔ اُمتِ محمدیہ کو حقیقتِ محمدیہ سے روشناس کرنے کی اجازت اسے مجلسِ محمدیؐ سے عطا ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں یہ فریضۂ حق سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس سر انجام دے رہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس ہر دکھی دل کا سہارا اورٹوٹے دلوں کو جوڑنے والے مرشد کامل ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنی نگاہِ فیض سے طالبانِ مولیٰ کو قربِ الٰہی کی لازوال منازل پر گامزن فرما دیتے ہیں۔ آ پ مد ظلہ الاقدس کا بیعت کے پہلے روز ہی اپنے مریدوں کواسمِ اعظم اسمِ اللہ ذات کا ذکر اور تصور عطا کرنا اس بات کی گواہی ہے کہ آپ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے تفو یض کی گئی ذمہ داری کو احسن طریقہ سے سر انجام دے رہے ہیں اور بطور انسانِ کامل طالبانِ مولیٰ کو معرفتِ حق تعالیٰ کی نعمت سے مستفید فرما رہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کے بارے میں کیا خوب لکھا ہے:
غم کے ماروں کو تیری پناہ مل گئی
تیرے در سے فنا کو بقا مل گئی
جس کو تیرے کرم کی نگاہ مل گئی
اس کو سارے جہاں کی عطا مل گئی
صفت ذاتی سے جو متصف ہو گیا
نام اس کا حقیقت میں سلطان ہے
اے حبیبِ خدا، اے ابو المرتضیٰ
ربّ کے سب عاشقوں کا تو سلطان ہے
(بحوالہ :کلام درشان سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن)
استفادہ کتب:
۱۔ شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔عین الفقر : تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۳۔ کلام درشان سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس: ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۴۔ حکایتِ رومی : ترتیب وتدوین ، ایم اسماعیل