پیکرِ وفا حضرت عباس علمداررضی اللہ عنہ–Pakr-e-Wafa Hazrat Abbas Alamdar

Spread the love

Rate this post

پیکرِ وفا
حضرت عباس علمداررضی اللہ عنہٗ

تحریر: مریم گلزار سروری قادری (لاہور)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطا ن محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنی تصنیفِ لطیف ’’شمس الفقرا‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’قربِ الٰہی اس وقت تک حاصل نہیں ہوتاجب تک انسان اپنا گھر بار راہِ خدا میں قربان نہیں کر دیتااور تکالیف و مصائب میں مرشد کے ساتھ وفا میں ذرا بھی کمی نہیں آتی۔‘‘
وفا دراصل ایک جذبہ ہے جو عشق و محبت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جس میں انسان اپنا سب کچھ قربا ن کر دیتا ہے مگر اپنے راستے اور ارادے سے پیچھے نہیں ہٹتا ۔ حتیٰ کہ جانور بھی اپنے مالک کے ساتھ وفادار ہوتا ہے۔ وہ مالک اور اس کے گھر کی حفاظت کرتا ہے اور اُنہیں بیرونی خطروں سے بچاتا ہے۔ مگر انسان ایسا نادان ہے کہ وہ رشتہ داروں، والدین، بیوی ، بچوں اور اپنی خواہشات کے لیے تو قربانی دے سکتا ہے اُن کے ساتھ وفائیں نبھاتا ہے مگر اپنے اصلی مالک (ربّ تعالیٰ) کے لیے کم ہی وفاداری نبھاتا اور قربانیاں دیتا ہے۔ وہ مالک جس نے اُسے پیدا کیا، ہر آسائش مہیا کی، لیکن انسان اُس (ربّ) کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتا۔
حضور علیہ السلام سے لے آج تک جتنے بھی اولیا اللہ آئے ہیں سب نے اپنے مرشد سے وفا کی مثالیں قائم کی ہیں کیو نکہ کامل مرشدسے وفا کے بغیر طالب کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔
’’وفا‘‘ کا تذکرہ کرتے ہی ذہن میں ’’پیکرِ وفا ‘‘ کا نام آتا ہے جس نے وفا کا اصلی روپ سب کو دکھایا وہ علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے بہادر اور شیر دل فرزند حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ ہیں۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ کی قدرو منزلت اس فرمان سے معلوم ہوتی ہے:
’’روزِ قیامت تمام شہدا حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ کے مقام و منزلت پر رشک کریں گے۔ عباس رضی اللہ عنہٗ اگرچہ امامت کے درجے پر فائز نہیں تھے لیکن مقام و منزلیت میں کم نہیں تھے، عباس رضی اللہ عنہٗ کے مقام و منزلت پر فرشتے قیامت کے دن رشک کریں گے۔‘‘
امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے سیدۃالنسا، خاتونِ جنت حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد اپنے بھائی حضرت عقیلؓ سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا اور انہیں رشتہ تلاش کرنے کے لیے کہا۔حضرت عقیلؓ نے یہ سنتے ہی عرض کیا کہ آپ اُم البنین فاطمہ بنتِ حزام سے عقد فرما لیں اس لیے کہ ان کے آباؤ اجداد سے زیادہ شجاع اور بہادر سرزمینِ عرب میں کوئی بھی نہیں ۔
حضرت عقیلؓ جب شادی کا پیغام لے کرکلابیہ کے سردار حزام کے گھر پہنچے تو وہ پیغام سنتے ہی خوشی سے سرشار ہو گئے۔ بیٹی سے رائے لی تو اُنہوں نے خوشی سے کہا کہ آپ کو اختیار ہے۔
فاطمہ بنتِ حزامؓ اپنی کُنیت اُم البنین کے نام سے مشہور تھیں۔والد کے گھر سے رخصت ہو کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے گھر تشریف لائیں ۔دروازۂ علیؓ پر محمل رکا‘ بنی ہاشم کی خواتین پھول اور نوجوان ننگی تلواریں لیے کھڑے ہیں‘ لیکن بڑی محبت اور احترام سے بی بی محمل سے اتریں‘جھکیں اور بڑے احترام سے چوکھٹِ فاطمہؓ کو بوسہ دیا اور سجدۂ شکر بجا لائیں اور فرما یا کہ یہ فاطمہ بنتِ حزام کا نہیں فاطمہؓ بنتِ رسول اللہ کا گھر ہے۔ فاطمہ بنتِ حزام تو کنیز ہے اور کنیز کو کنیز کی طرح رہنا چاہیے۔

ولادت باسعادت
اللہ تعالیٰ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو 4شعبان 26ہجری میں مدینہ منورہ میں نہایت ہی خوبصورت فرزند سے نوازا۔جن کا نام آپؓ نے عباسؓ رکھا ۔لیکن یہ کیا؟بچہ نہ آنکھیں کھول رہا ہے نہ والدہ اور دائی کا دودھ پی رہا ہے۔ماجرا کیا ہے؟کیا طالب کو مطلوب کا انتظار ہے؟ کیا عباسؓ اپنے امام(مرشد )کا انتظار کر رہا ہے؟جب امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو یہ خبر ملی تو آپؓ ام البنینؓ کے پاس تشریف لائے، اپنے بھائی کو آغوشِ امامت میں لیاکان میں اذان واقامت کہی توعباس رضی اللہ عنہٗ نے فوراًآنکھیں کھول دیں اور سب سے پہلی نظر اپنے امام(مرشد ) کے چہر ے پر ڈالی اور پھر اما م عالی مقام رضی اللہ عنہٗ نے عباس رضی اللہ عنہٗ کے منہ میں اپنی زبانِ اطہر دی تو حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ نے اُسے چوسنا شروع کر دیا۔یہ ہے طالب اور مطلوب کی ازل کی محبت ۔حضرت امام حسینؓ نے ہی حضرت عباسؓ کی پرورش فرمائی۔
حضرت عباسؓ بعد میں ’’ابوالفضل ‘‘ اور ’’علمدارِ کربلا‘‘ کے نا م سے مشہور ہوئے۔ آپؓ، آئمہ کی اولاد میں اعلیٰ مقام و مرتبت رکھتے ہیں۔ اوراسی مرتبت کی بنا پر محرم کا نواں دن آپؓ سے مخصوص کیا گیا ہے اور آپؓ کو ادب، شجاعت اور سخاوت کا مظہر ،وفا کا پیکراور امام معصوم کی اطاعت میں نمونہ کاملہ سمجھا جاتا ہے۔
استاد ارجمند آیت اللہ ڈاکٹر احمد بہشتی دامت برکاتہ اپنی ایک کتاب ’’قہرمان علقمہ‘‘ میں عباس کے معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ نہیں جانتاکہ عباس کو زیادہ غصہ دلانے والا معنی کروں یا نہیں۔کیونکہ آپ ہی تھے کہ دشتِ کربلامیں دشمن آپ کے وجود سے غصہ میں آجاتا۔ اور نام عباسؓ ان کے چین اور سکون کو چھین لیتا تھا۔ البتہ اہلِ لغت نے عباس کا ایک اور معنی بیان کیا ہے وہ معنی بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ کے لیے مناسب اور موزوں ہے اس معنی کے مطابق عباس اُس شیر کو کہتے ہیں جس کو دیکھ کر دوسرے شیر بھاگ جاتے ہیں اور یہ منظر صحراطف میں سب نے دیکھا۔

حسب و نسب
حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ اُن خوش قسمت افراد میں سے ایک ہیں جن کو عالمِ انساب میں وہ برتری حاصل ہے جو کم ہی کسی کو حاصل ہوتی ہے۔و ہ والد کی جانب سے علوی و ہاشمی ہیں ۔ جو شرف و کرامت میں بے نظیر ہیں۔ اور آپ رضی اللہ عنہٗ کی والدہ فاطمہ بنتِ حزام بن خالد جن کا لقب اُم البنینؓہے،جن کا خاندان شرافت و پاکی ،سخاوت و شجاعت اور مہمان نوازی میں عرب کے قبائل کے درمیان زبان زد عام و خاص تھا۔حضرت عباس رضی اللہ عنہٗنے فضائل و کمالات کو ان دو خاندانوں سے ورثے میں پایا تھا۔

کنیت
آپؓ کی کنیت ابو الفضل،ابوالقاسم کنیت ہیں۔

القابات
ارباب تاریخ نے حضرت عباس کے کئی القاب بیان کیے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں :
ابو القریہ، قمر بنی ہاشم،سقائے دشتِ کربلا، علمدار کربلا، عبدالصالح، المواسی،باب الحوائج، شہید، پاسدارو پاسبانِ حرم، غازی،سقائے سکینہ، اطلس، حامی،عمید۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ کی ذات بابرکت، فضائل اور برکات کا وہ موج زن سمندر ہے کہ ایک یا چند مقالوں سے اس عظیم شخصیت کے کسی ایک پہلو پر بھی سیر حاصل بحث نہیں کی جاسکتی ۔ حضرت عباسؓ کی ایک اہم ترین صفت وفا کو بیان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حضرت عباسؓ عظیم ترین صفات کا مظہر تھے۔شرافت، شجاعت، وفا، ایثار اور دلیری کا مجسم نمونہ تھے۔واقعہ کربلا میں جناب عباسؓ نے مشکل ترین اور مصائب سے بھرپور لمحات میں اپنے آقا و مولاامام حسینؓ پر اپنی جان قربا ن کی اور مکمل وفاداری کا مظاہرہ کیا سخت مشکل حالات میں بھی آ پ کے عزم و حوصلہ ، ثابت قدمی اور وفا میں ذرا برابر بھی فرق نہیں پڑااور یہ ایک یقینی بات ہے کہ جن مصائب کا سامنا جناب عباسؓ نے کیاا ن پر صبر کرنا اور ثابت قدم رہنافقط اُسی کے لیے ممکن ہے جو خدا کا مقر ب ترین بند ہ ہواور جس کے دل کو اللہ نے ہر امتحان کے لیے مضبوط بنا دیا ہو۔
اما م صادقؓ فرما تے ہیں :
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے ایمان کو سات حصوں میں قرار دیا:نیکی،سچائی، یقین، رضا،وفا،علم و حلم‘‘۔
اصولی طور پر نیک ا عمال کی قبولیت کیلئے وفا کا ہونا شرط ہے جو لوگ غدار، حیلہ گر اور فریب کا ر ہوتے ہیں اُ ن کا مقام تو کتوں سے بھی نچلے درجے کا ہے ایسے لوگ نیک اعمال کے ثواب سے بے نصیب ہیں۔

وفاداری کے پہلو
وفاداری کے کئی پہلو ہیں مثلاً دین کے ساتھ وفاداری،قوم وملت کے ساتھ وفاداری،ملک و وطن سے وفاداری،اما مِ وقت سے وفاداری‘ اور حضرت عباسؓ نے وفاداری کے تمام پہلو میں پورا اُتر کر دکھایا۔ جس کا مختصر جائزہ ذیل میں ہے:

دین کے ساتھ وفاداری
دینِ اسلام پر جب بھی بُرا وقت آیا حضرت عباسؓ بہترین مدافع کے طور پر سامنے آئے اور کبھی بھی اپنی جان کی پرواہ نہ کی۔چا ہے وہ والد محترم حضرت علی المرتضیٰؓ کا زمانۂ امامت ہو، بھائی حضرت حسن مجتبیٰؓ کا دورِ اما مت یا آقاو مولیٰ امام حسینؓ کا دورِ امامت ہو،آپؓ نے ہمیشہ اسلام کے ساتھ وفا کی اور اپنے امامِ وقت کے دفاع میں ہر اول دستے میں رہے اور اپنی وفا کے جوہر دکھاتے رہے۔

قوم وملت کے ساتھ وفاداری
جب بنو اُمیّہ کے ظلم حد سے بڑھ گئے تھے اور کوئی بہادر سے بہادر شخص بھی بنو اُمیّہ کے خلاف آواز بلند کرنے سے کتراتا تھا تب حضرت عباسؓ نے امامِ وقت کے ساتھ حق کی آواز بلند کی۔ آپؓ کی وفاداری کی وجہ سے ہی حضرت امام حسینؓ نے روزِ عاشورہ اپنا عَلم آپؓ کے سپرد کر کے اپنا سپہ سالار بنایا۔

ملک و وطن سے وفاداری
دورِ خلافت بنواُمیّہ میں مملکت اسلامی کے خزانے اپنے من پسند لوگوں میں تقسیم کیے جا رہے تھے۔اور جو مسلمان اہلِ بیتؓ کے ساتھ تھے ان کی زندگیاں اُن پر تنگ کی جارہی تھیں۔اُن سے اُن کی زندگیاں جینے کا حق بھی چھینا جا رہا تھااور اسلام کی خدمت کرنے والوں کو وطن سے نکالا جا رہا تھا۔اُس وقت حضرت عباسؓ جیسے لوگ اگرچہ تعداد میں کم ضرور تھے مگر وہ ہر حالات میں اپنے امام کے ساتھ کھڑے تھے ۔ اور ملک ووطن کی خاطر ہر قسم کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار تھے۔

اما مِ وقت سے وفاداری
حضرت عباسؓ نے اپنے بھائی حضرت امام حسینؓ کے لیے جو بھی قربانیاں دیں وہ اس لیے نہیں تھیں کہ امام حسینؓ ان کے بھائی ہیں بلکہ حضرت عباسؓ نے حضرت امام حسینؓ کو اپنا حقیقی امام، خدائی نمائندہ اور عینِ اسلام سمجھتے ہوئے ان کی خاطر تمام تر مصائب و مشکلات کو برداشت کیااور اپنی جان ان پر قربان کر دی اور اس بات کا انہوں نے کئی بار اظہار بھی کیا اور یہ ہی وجہ ہے کہ حضرت عباسؓ جب بھی امام حسینؓ کو پکارتے یااُن کا ذکر کرتے تو انہیں اپنا بھائی کہنے کی بجائے اپنا آقا و مولیٰ اور امام کہتے۔
پس ادب کا کوئی ایسا رنگ نہیں جوحضرت عباسؓ نے حضرت حسینؓ کے حق میں اختیار نہ کیا ہو۔کوئی ایسی قربانی نہیں تھی جو اُنہوں نے اپنے آقا کے قدموں میں نچھاور نہ کی ہو۔
یوں تو حضرت عباسؓ کی ساری زندگی وفا اور وفاداری کا نمونہ ہے لیکن حضرت عباسؓ کی یہ وفاداری سا نحہ کربلا میں کچھ منفرد انداز میں سامنے آئی۔ دوست ہوں یا دشمن، کوئی بھی آپ کی وفاداری کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔ وفا داری کے چند نمونے ذیل میں ہیں:
امان نامہ ردّ کرنا:
جر یر بن عبداللہ فحلہ کلابی جو کہ ام البنین کا چچا زاد بھائی تھا ، نے یزید کو مشورہ دیاکہ امام عالی مقام کی فوج میں میری چچا زاد بہن کے چار بیٹے ہیں اُنہیں امان نامہ تحریر کر دیا جائے اس طرح اما م عالی مقام کمزور پڑ جائیں گے۔ شمر جو ان کے خاندان سے تھا ، نے ہاں میں ہاں ملائی۔اس طرح جریر بن عبداللہ فحلہ کلابی نے امان نامہ حاصل کر کے اپنے غلام عرفان کے حوالے کیا اور کہا کہ یہ امان نامہ ان کے حوالے کرنا اور ان چاروں بھائیوں کے علاوہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو۔ عرفان یہ امان نامہ لے کر کربلا پہنچااور حضرت عباسؓ کے حوالے امان نامہ کیاتو آپؓ نے عرفان سے کہا:ہمارے مہربان جریر بن عبداللہ سے کہہ دو کہ ہم ایسے نہیں کہ ابنِ زیا دکے سایۂ امان کی چھاؤں میں بیٹھیں۔اللہ تعالیٰ کی اما ن ہی ہمارے لیے کافی ہے اور ہم و ہی چاہتے ہیں جو خدا چاہتا ہے۔

شبِ عاشورہ کو اعلانِ وفاداری:
شبِ عاشورہ حضر ت امام حسینؓ نے سب کو خیمہ میں جمع کیا اور سب سے فرمایا کہ یہ قوم صرف میرے خون کی پیاسی ہے، اگر آپ لوگ جانا چاہتے ہیں تو آپ سب کو اجازت ہے۔ پھر آ پ نے چراغ گُل کر دیااور یوں سب کو بھاگنے کی بہترین فرصت فراہم کی۔لیکن قربان جائیں حضرت عباسؓ کی وفاداری پرکہ تاریکی کا سکوت توڑکر سب سے پہلے آپ نے اپنے عہدِ وفا کو پورا کرنے کا عزم ظاہر کیا اور جب امام عالی مقام نے چراغ روشن کیا تو سب ساتھی اپنی جگہ پر بیٹھے تھے۔

نہرِ فرات پر وفاداری کی انتہا:
جب علی اکبرؓ شہید ہوئے تو حضرت عباسؓ نے کئی بار جنگ کی اجازت طلب فرمائی ہر بار امام عالی مقام یہ فرماتے کہ تو میرے فوج کا علمدار ہے اگر تو جائے گاتو میری فوج کا کیا بنے گا؟؟حضرت عباسؓ ہر بار رُک جاتے۔کچھ دیر بعد زوجہ عباسؓ نے آواز دی آقا سکینہ رو رہی ہے۔ عباسؓ کے خیمہ کی جانب بھاگے ۔ چچا قربان سکینہ میری زندگی کیوں رو رہی ہے؟ کہا :چچا پیاس لگی ہے،بچے پانی مانگتے ہیں اصغرؓ پیاسا ہے، عباسؓ سکینہؓ کے سامنے بیٹھ گئے۔ سکینہؓ سے مشکیزہ لیا ایک ہاتھ میں مشک دوسرے ہاتھ میں عَلم ہے ساتھ ساتھ سکینہ ابنِ حسینؓ ہے اور آپؓ امام سے پانی لانے کی اجازت مانگتے ہیں۔
آخر امامؓ عباسؓ کو اجازت دیتے ہیں کہ جاؤ پیاسوں کے لیے پانی لے آؤ۔سب سے ملنے کے بعد عباسؓ رخصت ہوئے۔دریائے فرات پر پہنچے ، مشکیزہ بھرا مگر پانی نہیں پیا۔اس خیال سے کہ آقا اور آقا زادیاں پیاسی ہیں تو میں کیسے پانی پی سکتا ہوں۔ پھر مشکیزہ لے کر خیموں کی جانب بڑھے۔مگر ظالموں نے آپؓ کو شہید کر دیا۔

حضرت عباسؓ کی وفادری پر دشمن کا اعتراف:
حضرت عباسؓ کی وفاداری اتنی عظیم تھی کہ اُن کا بد ترین دشمن بھی اس سے انکار نہیں کر سکا۔ جب غارت شدہ وسائل کو شام میں یزید کے پاس لے جایا گیاان وسائل میں ایک بڑا عَلم بھی تھاجس کا کوئی بھی حصہ تیروں اور تلواروں کے نشانوں سے خالی نہیں تھا لیکن اس عَلم کا دستگیرہ (قبضہ) بالکل سالم تھا۔یزید نے پوچھا: اس عَلم کو کون اُٹھاتا تھا؟کہا گیا:یہ عَلم عباس بن علی بن ابی طالبؓ کا ہے۔ یزید تین بار اس عَلم کی تعظیم میں کھڑا ہو کر بیٹھااور کہا:
ترجمہ:اس عَلم کو دیکھئے نیزوں اور تلواروں کی چوٹوں سے اس کا کوئی حصہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا،سوائے دستگیرہ کے، جس کو علمدار اپنے ہاتھوں سے اُٹھاتے ہیں (صرف قبضہِ عَلم ضربوں سے محفوظ رہا ہے) قبضہِ عَلم کا سالم رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عباسؓ علمدار نے تلواروں، نیزوں اور تیروں کی تمام ضربوں کو جو ہاتھوں پر آتے تھے تحمل کیا اور عَلم کو گرنے نہ دیا، تب یزید نے کہا:اے عباسؓ! تُو نے لعن و ملامت کو اپنے سے کوسو ں دور کر دیا (لعن وملامت تُجھ پر نہیں جچتی ہے) بے شک بھائی کی بھائی سے وفاداری ایسی ہی ہونی چاہیے۔
جناب عباسؓ نے ان بلند ترین مقاصد اور عظیم ترین اصولوں کی خاطر شہادت کو گلے لگایا کہ جن کی خاطر امام حسینؓ نے قیام کیا تھاپس جناب عباسؓ نے انسانیت کی آزادی، عدل وانصاف کے فروغ، لوگوں کی فلاح و بہبود، قرآنی احکام کی نشرو اشاعت اور پوری انسانیت کو ذلت کے گڑھے سے نکال کرعزت و شرف اور سعادت دلانے کے لیے اپنے بھائی و آقا اما م حسینؓ کی خاطر شہادت کو اختیار کیا۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
وفا جس کا پڑھے کلمہ اُسے عباسؓ کہتے ہیں
جسے سجدے کریں سجدہ اُسے عباسؓ کہتے ہیں
جو ہے شیر کی قوت علیؓ کو ناز ہے جس پر 
جسے زہراؓ کہیں بیٹا اُسے عباسؓ کہتے ہیں 
اُٹھے طوفان، چلے اندھی، زمین گردش کرے پھر بھی 
رہے اُونچا عَلم جس کا اُسے عباسؓ کہتے ہیں
جو پتھر پرَ علم گاڑھے اسے کہتے سب حیدرؓ 
َعلم گاڑھے جو پانی پر اُسے عباسؓ کہتے ہیں
علیؓ کا خون زہراؓ کی دعا حسنؓ کی چاہت
بنے ان سب سے مل کر جو اسے عباسؓ کہتے ہیں
وہ پیاسا، پیاس نے جس کی کیا سیراب دریا کو
ہے جس کی پیاس بھی دریا اسے عباسؓ کہتے ہیں
جو تھا شبیرؓ کا خادم مگر سب صاحبانِ دل 
اسے آقا اسے مولا اسے عباسؓ کہتے ہیں
جناب عباسؓ پوری انسانیت کے لیے بھیجے گئے خدائی دستور او رزمین کی ترقی کے لائحہ عمل کی خاطر میدانِ جہاد اترے۔ پس جناب عباسؓ نے اپنے بھائی اما م حسینؓ کے ساتھ مل کر ایسا انقلاب برپا کیاکہ جس کے ذریعے حقیقی اسلام اور بنی امیہ اور سقیفہ کے خود ساختہ اسلام میں فرق واضح ہو گیااور اللہ تعالیٰ کی کتا ب کے اصل وارث (حضرت امام حسینؓ) کے بارے میں ہر شک و شبہ ختم ہو گیااور سقیفہ کے بنائے ہوئے ظلم و جور کے قلعے پاش پاش ہو گئے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی حضرت عباسؓ کی مثل اپنے مرشد پاک سے وفا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں