محکم الفقرا
ترجمہ: احسن علی سروری قادری
جاننا چاہیے کہ اسمِ اللہ کی امانت زمین پر، آسمانوں پر اور پہاڑوں پر پیش کی گئی لیکن اس کی گرانی و عظمت و بزرگی کی وجہ سے وہ اس امانت کے بار کو برداشت نہ کر سکے اور سب نے اس بار کو اٹھانے سے انکار کر دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
* اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْھَا وَ حَمَلَھَا الْاِنْسَانُ ط اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا (الاحزاب۔72)
ترجمہ: ہم نے اپنی امانت آسمانوں پر، زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کی لیکن سب اس کو اٹھانے سے عاجز آ گئے لیکن انسان نے اس امانت کا بار اُٹھا لیا بے شک وہ (اپنے نفس کے لیے) ظالم و نادان ہے۔
سچا طالب وہ ہے جو ایک پل کے لیے بھی اللہ سے جدا نہ ہو اور حرص و حبِ دنیا سے فانی ہو کیونکہ لایعنی مشغولیت کے باعث (قلب کا) پردہ فاسد ہو جاتا ہے حتیٰ کہ اگر ایسے شخص کو وعظ و نصیحت، جملہ قرآن و حدیث اور مشائخ کے اقوال بھی سنائے جائیں تو کچھ فائدہ نہ ہوگا کیونکہ حرص و حبِ دنیا اور اوصافِ ذمیمہ کے باعث اس کا دل مردہ ہو چکا ہوتا ہے‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
* لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی (الروم۔52)
ترجمہ: (اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!)آپ مُردوں کو نہیں سنا سکتے۔
مرتبۂ آدم افضل ہے۔مرتبۂ آدم پر کوئی نہیں پہنچ سکتا اور جو کچھ بھی پیدا کیا گیا آدمی کے لیے ہی پیدا کیا گیا لیکن انسان حق تعالیٰ کی معرفت کے لیے پیدا کیا گیا اور جومعرفتِ حق تعالیٰ کی طلب نہیں کرتا وہ حیوان ہے۔ جب تک کہ وہ معرفت طلب نہیں کرے گا وہ دیواروں، جمادات، نباتات اور حیوانات کی مثل ہوگا۔ایسے آدمیوں کی اوقات پر لعنت جو آدمیوں کے درمیان کتے، گائے، گدھے اور بکریوں کی مانند ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اپنی بے عقلی کے باعث صرف بروز قیامت دیدارِ حق تعالیٰ کی امید رکھتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ جو اس دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا جیسا کہ اس آیت کریمہ میں اللہ پاک نے حکم دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
* وَ مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی (بنی اسرائیل۔72)
ترجمہ: اور جو اس دنیا میں (دیدارِ الٰہی سے) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا۔
جیسا کہ ایک بزرگ نے دوسرے بزرگ کو بطور اشارہ لکھا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت وہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی کرنے میں خبردار رہے۔ پیروی نشانِ قدم پر چلنے کو کہتے ہیں یعنی جس مقام پر حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کے قدموں کے نشان گئے ہوں اس مقام تک خود کو بھی پہنچانا چاہیے۔
* سِیْرُوْا اِلٰی مَا سَبَقَ الْمُفْرِدُوْنَ
ترجمہ: اس مقام تک چلتے جاؤ جہاں تم سے سبقت لے جانے والے پہنچے۔
جو خود اس مقام تک نہ پہنچا وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ اس نے پیروی کی کیونکہ پیروی گفتگو کرنا نہیں ہے بلکہ اس راہ پر چلنا ہے۔ اس جگہ یہ سمجھنا چاہیے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود کو جس مقام پر پہنچایا تھا اگر کوئی خود کو اس مرتبہ تک نہیں پہنچاتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی سے باز رہا لہٰذا وہ حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کی امت میں سے کیسے ہو سکتا ہے؟ عجیب حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام مخلوق آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی کا کہتی ہے لیکن کرتی نہیں اور یہ سمجھتی ہے کہ پیروی صرف باتیں کرنے سے ہی ہو جاتی ہے اس کے لیے راہ چلنا ضروری نہیں۔ ان بے شعور لوگوں پر افسوس ہے جو اپنی بے ہمتی کے باعث خود بھی پیروی سے رکے رہتے ہیں اور اگر کوئی پیروی کرتا ہے تو اسے حسد کی بنا پر دیکھ نہیں سکتے۔
بیت:
در قول و فعل فرق می دان
قولی بگذار فعل را دریاب
ترجمہ: قول و فعل میں فرق کو سمجھ۔ قول (یعنی صرف گفتگو) کو چھوڑ دے اور فعل (یعنی پیروی) کی حقیقت کو سمجھ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی ہی اصل راہ ہے‘ جو کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیروی نہیں کرتا وہ گمراہ ہے۔ اصل پیروی یہ ہے کہ طالب حبِ مولیٰ فرض اور ترکِ دنیا سنت سمجھے کیونکہ روایت ہدایت کے لیے ہے۔ یہ راہِ عنایت صرف طریقہ قادری میں ہے، ان کے ذکرِ جہر کی نشانی یہ ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی ضرب لگاتے ہیں اور اللہ کے ذکرِ جہر کی تین ضرب سے تین مقام روشن ہو جاتے ہیں: اوّل مقامِ ازل، دوم مقامِ ابد اور سوم مقامِ قاف تا قاف۔
اے صاحبِ انصاف سن! ذکرِ خفیہ قادریہ وہ ہے جسے ذکرِ حامل کہتے ہیں اور ذکرِ حامل سے فقیر کامل بنتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
* اَکْثَرُوْا ذِکْرَ اللّٰہِ
ترجمہ: ذکرِ h کثرت سے کرو۔
یعنی ذکرِ حامل۔ بعض لوگ ذکرِ قلب کو ذکرِ حامل کہتے ہیں اور بعض ذکرِ روح کو اور بعض ذکرِ سرّ کو۔ ذکرِ حامل خفیہ ذکر ہے جس کا تعلق نہ زبان سے ہے اور نہ قلب، روح اور سرّ سے۔ ذکرِ حامل نور ہے جسے نورِ ذاتِ احدیت مطلق کی تجلی کہتے ہیں جس میں دن رات قلب و قالب اس طرح جلتے ہیں جس طرح آگ لکڑی کو جلاتی ہے۔ پس ایسے لوگوں کا مراقبہ دو طرح کے حال پر مبنی ہے ابتدا فانوس کی مثل خیال اور انتہا عین وصال۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
* فَوَادُ قَلْبِیْ نَارٌ لِّلْجَحِیْمِ ھُوَ یَبْرُدُھَا
ترجمہ: میرے قلب میں ایسی آگ ہے جس کے مقابلے میں دوزخ کی آگ بھی سرد ہے۔
جو دل آتشِ عشق میں نہ جلا‘ اسے آتشِ دوزخ جلائے گی۔
بیت:
مرا شد چنان آتش منزلم
کہ آتش گرفتہ ز آتش دلم
ترجمہ: آتشِ عشق کے باعث میرا وجود ہی آتش ہو گیا ہے کہ ہر کوئی میرے دل سے آتشِ عشق لے رہا ہے۔
جان لو کہ ہر دینی اور دنیاوی کام اسمِ اللہ کے حاضرات سے ممکن ہے اور ہر مطلب اسمِ اللہ سے پایا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی اسمِ اللہ کا ترتیب سے تصور کرے تو انشاء اللہ جلد ہی ایک دن رات میں اپنے مقصود (اللہ تعالیٰ) تک پہنچے گا کہ یہ محرمیت کی راہ ہے۔ جو کوئی اسمِ اللہ سے محرم نہیں وہ مقام لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ لَّا یَسْعُنِیْ فِیْہِ مَلَکٌ مُقَرَّبٌ وَ لَا نَبِیٌّ مُرْسَلٌ(ترجمہ:میرا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک وقت ایسا ہے جس میں کسی مقرب فرشتے اور رسول کی گنجائش نہیں) سے محروم ہے۔
بیت:
فرشتہ گرچہ دارد قرب درگاہ
نگنجد در مقام لِیْ مَعَ اللّٰہِ
ترجمہ: فرشتہ اگرچہ اللہ کی بارگاہ میں بڑا قرب رکھتا ہے لیکن وہ مقام لِیْ مَعَ اللّٰہ تک نہیں پہنچ سکتا۔
فقیر آفتاب کی مثل فیض بخش ہوتا ہے۔
فرد:
ہر کرا مرشد نباشد پیشوا
این کتابی بس ترا رہبر خدا
در مطالعہ دار دائم ہر صبح شام
عارفی باللہ شوی فقرش تمام
ترجمہ: جس کسی کو پیشوائی کے لیے مرشد نہ ملے تو یہ کتاب اللہ کی طرف اس کی رہنمائی کرے گی۔جو صبح شام اس کو اپنے دائمی مطالعہ میں رکھے گا وہ عارف باللہ ہو جائے گا اور اسے کامل فقر نصیب ہو گا۔
اے صاحبِ حال سن!
* دَعْ نَفْسَکَ وَ تَعَالْ
ترجمہ: اپنے نفس کو چھوڑ دے تاکہ تو بلندی کو پا لے۔
جان لو کہ فقیر تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ (برائے نام) فقیر جن کی خلوت زندان کی مثل ہوتی ہے اور ان کے طالب وہاں قیدیوں کی طرح رہتے ہیں۔ جب وہ خلوت سے باہر آتے ہیں تو وہ چور مرشد چوروں کی طرح اپنے طالبوں کو در در کی گدائی کراتے ہیں۔ یہ درویشی نہیں بلکہ درپیشی ہے جو نہ تو خدا پرستی ہے اور نہ صفا کیشی۔ دوسرا فقیروں کا طبقہ وہ ہے جس میں مرشد دن رات گوشہ نشین اور خلوت گزین رہتا ہے‘ یہ گوشہ نشینی دوسروں کو پھنسانے کے لیے جال کی مثل ہے۔ یہ ظاہر میں بے نیاز اور بلند دعوے کرنے والے ہوتے ہیں لیکن ان کے باطن محروم اور محبتِ حق سے دور ہوتے ہیں۔ ان کے طالب جو کچھ محنت سے کماتے ہیں ان کی نذر کر دیتے ہیں۔ ایسے طالب مرشد اور مرشد طالب دونوں پر نفس غالب ہے۔ اہلِ توجہ فقیروں کا تیسرا طبقہ وہ ہے جس میں مرشد نر شیر کی طرح لایحتاج، کامل و مکمل و اکمل اور دائم باوصال ہوتا ہے جو طالبانِ اللہ کو ایک ہفتہ میں سات روزہ مجلس عطا کرتا ہے۔ پہلے روز ایسی مجلس عطا کرتا ہے جس میں طالب کے وجود میں (اسمِ اللہ ذات کی) تاثیر پیدا ہو جاتی ہے۔ دوسرے روز حضرت ابوبکر صدیقؓ کی مجلس عطا کرتا ہے جس سے طالب صاحبِ صدق ہو جاتا ہے۔ تیسرے روز حضرت عمر خطابؓ کی مجلس عطا کرتا ہے جس سے طالب اپنے نفس کا خود عدل اور محاسبہ کرتا ہے۔ چوتھے روز حضرت عثمان غنیؓ کی مجلس عطا کرتا ہے جس سے طالب کے اندر حیا پیدا ہوتی ہے اور وہ خدا کی نافرمانی سے باز رہتا ہے۔ پانچویں روز حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مجلس عطا کرتا ہے جس سے طالب صاحبِ علم و ولایت ہو جاتا ہے۔ چھٹے روز حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس عطا کرتا ہے جس سے طالب میں خُلقِ محمدی پیدا ہو جاتا ہے۔ ساتویں روز سلطان الفقر کی مجلس عطا کرتا ہے جو توحیدِ باری تعالیٰ کا دریا ہے۔ جو طالب اس دریا کے کنارے پہنچ جاتا ہے وہ صاحبِ کنارہو جاتا ہے جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
* نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (ق۔16)
ترجمہ: اور ہم تو تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
جو طالب اس مرتبہ پر پہنچ کر اس دریا سے پانی پی لیتا ہے وہ دونوں جہان میں عزت پاتا ہے۔ جو اس دریائے توحید میں غوطہ زن ہو جاتا ہے وہ ظاہر باطن میں صاحبِ چشمِ بینا ہو جاتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
* وَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (الذاریات۔21)
ترجمہ:اور میں تمہارے اندر ہوں کیا تم نہیں دیکھتے۔
جو مرشد سات روز میں یہ سات مجالس عطا نہیں کرتا تو طالبِ اللہ کو چاہیے کہ اس مرشد سے جدا ہو جائے اور اپنی عمر ضائع نہ کرے۔
فرد:
دو چشم خویش را بر بند چون باز
درونت تا دہد گم گشتہ آواز
ترجمہ: اپنی دونوں آنکھیں باز کی طرح بند کر تاکہ تیرے اندر گم گشتہ آواز (یعنی اللہ کی آواز) سنائی دے۔
فقیر کا دل سمندر اور اس کی نظر موتی کی مانند ہوتی ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
* اَلْعَافِیَۃُ عَشَرَ اَجْزَاءٌ تِسْعَۃٌ فِی السَّکُوْتِ وَ وَاحِدٌ فِی الْوَحْدَۃِ
ترجمہ: عافیت کے دس حصے ہیں جن میں سے نو حصے خاموشی میں اور ایک حصہ وحدت میں ہے۔
حدیثِ قدسی:
* عِبَادِیَ الَّذِیْنَ قُلُوْبُھُمْ عَرْشِیَّۃٌ وَ اَبْدَانُھُمْ وَحْشِیَّۃٌ وَ ھِمَّتُھُمْ سَمَاوِیَّۃٌ ثَمْرَۃُ الْحُبَّۃِ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مُقَدَّسَۃٌ وَ خاطِرُھُمْ بَیْنَ الْخَلْقِ جَاسُوْسَۃٌ اَلسَّمَآءُ سَقْفُھُمْ وَ الْاَرْضُ بَسَاطُھُمْ وَ الْعِلْمُ اَنِیْسُھُمْ وَ الرَّبُّ جَلِیْسُھُمْ۔
ترجمہ: میرے ایسے بندے بھی ہیں جن کے قلوب عرش کی مثل اور جن کے بدن صحرا کی مثل اور جن کی ہمتیں آسمان کی مثل (بلند) ہیں اور ان کے قلوب میں (اللہ کی) پاک محبت کا پھل ہے اور ان کے خیالات مخلوق میں جاسوس کی مثل ہیں (یعنی وہ مخلوق کے حالات سے آگاہ ہیں)۔ آسمان ان کے لیے چھت اور زمین فرش کی مثل ہے۔ علم ان کا دوست اور اللہ ان کا ہم مجلس ہوتا ہے۔
بیت:
علم دانی چیست دامن راست گیر
بی علم کافر شود زاہد فقیر
ترجمہ: کیا تو جانتا ہے ’علم‘ کیا ہے؟ درست دامن پکڑنا۔ علم کے بغیر زاہد فقیر بھی کافر ہو جاتا ہے۔
ہر وہ راہ جسے شریعت ردّ کرے وہ کفر کی راہ ہے۔
حدیث :
* عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اِیْجَادُھُمْ فِی الدُّنْیَا کَمَثَلِ الْمَطْرِ اِذَا نَزَلَ فِی الْبَرِّ نَبَتَ الْبَرُّ وَ اِذَا نَزَلَ فِی الْبَحْرِ خَرَجَ الدُّرَرٌ
ترجمہ: میرے ایسے بندے بھی ہیں جن کا وجود دنیا میں بارش کی مثل ہے۔ جب زمین پر برستے ہیں تو سبزہ اُگاتے ہیں اور جب وہ سمندر پر برستے ہیں تو موتی نکلتے ہیں۔
تارکِ نماز فقیر معرفتِ حق کی بُو کو بھی نہیں پا سکتا۔ اگر وہ تمہیں ماہ سے ماہی (یعنی آسمان سے زمین) تک ہر چیز کا مشاہدہ بھی کرا دے تو وہ سب استدراج اور گمراہی ہوگا۔
بیت:
از ہر حدیثی و آیتی تو بشنوی
مرد عارف آن بود بر دین قوی
ترجمہ: ہر حدیث اور آیت جو تُو سنتا ہے اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ مرد عارف وہی ہے جو دین پر قوی ہے۔ (جاری ہے)