محکم الفقرا
باب پنجم
ذکردعوت کامل شرع دعوت کل وجز،
کبریٰ و صغریٰ و دعوت یکدم و دعوت ساعت
فقیر صاحبِ تصرف مالک الملکی ہوتا ہے۔ دعوت(دعوت ایک روحانی عمل ہے جس میں طالبِ مولیٰ روحانی و باطنی طور پر اولیاء اللہ اور فقراء کی ارواح سے فیض اور مدد کے حصول کے لیے رابطہ کرتا ہے) ایک دن اور رات کی بھی ہوتی ہے، ایک ہفتہ، ایک مہینہ یا ایک لحظہ کی بھی ہوتی ہے لیکن دعوت پڑھنے سے فقیر کی ایک بار کی توجہ ہزاراں ہزار مرتبہ بہتر ہے جس سے مقصود حاصل ہو جاتا ہے۔ اوّل بحرِ قرآن ہے: دعوتِ قرآن پڑھنے کی ایک ترتیب یہ بھی ہے کہ بہتے ہوئے پانی (یعنی دریا یا ندی) کے کنارے جائے اور دعوت شروع کرنے سے پہلے غسل کرے‘ چادر دھوئے اور پھر دوگانہ نماز اللہ کی ذات کے لیے پڑھ کر ارواحِ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صحابہ کرامؓ بزرگوار کو بخشے۔ بعد میں بسم اللہ سے فاتحہ شروع کرے اور مِنَ الْجِنَّۃِ وَ النَّاسْ تک تمام قرآن ایک رات میں پڑھے۔ پھر اسی ترتیب سے تین مرتبہ تیس پارے مع دو رکعت نماز اور تین مرتبہ غسل سے مکمل کرے۔ اگر دعوت پڑھنے والا صالح ہوگا تو اس کا مقصود پہلی رات ہی حاصل ہو جائے گا اور اگر وہ بدبخت مرد ہوگا ہے تو دوسری رات میں اور اگر منافق ہوگا تو تیسری رات میں اس کا کام سر انجام پائے گا اور وہ اپنا مقصود حاصل کرلے گا۔ اس دعوت کو مستجاب الدعوات کہتے ہیں جو لازماً قبول ہوتی ہے۔ اس میں اگر کوئی شک کرتا ہے تو اس کے کافر ہونے کا ڈر ہے۔ دعوت صاحبِ وصال، دعوتِ جن، دعوتِ مؤکلات، دعوتِ اہلِ قبور بارواح، دعوت اہلِ حضور جو مقامِ دعوتِ عروج ہے‘ دعوتِ سیرگاہِ بروج‘ حق تعالیٰ کے ساتھ یکتا ہونے کی دعوت‘ تحت الثریٰ سے عرش تک پہنچنے کی دعوت، نفس کو قید کرنے اور شیطان کو دفع کرنے کی دعوت‘ ان تمام اقسام کی دعوت پڑھنے کا تعلق باخبر ہونے سے ہے۔ دعوت پڑھنے کی حقیقت کو یہ گائے اور گدھے کیا جانیں۔ یہ دعوت صرف وہی پڑھتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے دعوت پڑھنے کا حکم ہو اور دعوت پڑھنے کی رخصت اور اجازت سیّد المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت پیر دستگیر غوثِ صمدانی، قطبِ ربانی سیّد محی الدین عبدالقادر جیلانیؓ‘ غالب الاولیاء اور شہسوارِ میدانِ ہر دو جہان سے حاصل ہو۔ جسے یہ رخصت و اجازت حاصل ہو جائے تو دعوت پڑھتے وقت تمام عالم کی کل مخلوقات اور اٹھارہ ہزار عالم، جن، دیو، فرشتے، مؤکلات و ملائکہ، روحانی و خاکی اہلِ اسلام اور صاحبِ قبور سب اس کی قید میں آ جاتے ہیں اور اسے ہر خبر دیتے ہیں۔ ایسا شخص کم آزار اور صاحبِ سرّ الاسرار ہوتا ہے جسکے زیر بار سب غوث و قطب ہوتے ہیں۔
بیت:
شہسوارم شہسوارم شہسوار
غوث قطب و مرکب اند تہ زیر بار
ترجمہ: میں شہسواروں کا شہسوار ہوں۔ غوث و قطب جو زیرِ زمین (قبور میں) ہیں سب میری سواری ہیں۔
صاحبِ دعوتِ کامل اور عامل فقیر وہ ہے جس نے حضرت آدم علیہ السلام سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک تک اور خاتم النبیین سے ابد الآباد تک تمام ارواح سے دست مصافحہ کیا ہو اور ان سے عہد و پیمان کیے ہوں۔ جو کوئی ان مراتب کا حامل ہوتا ہے چار باطنی لشکر ہمیشہ اس کے ہمراہ رہتے ہیں اوّل مؤکل ملائکہ، دوم شہداء، سوم عالم الغیب اور چہارم رجال الغیب۔ اس فقیر کو صاحبِ دعوت لایحتاج کہتے ہیں۔ فقیر بننا آسان کام نہیں ہے۔ فقر میں اللہ رحمن کے عظیم اسرار ہیں جن کا تعلق شہرت سے نہیں بلکہ عرفان سے ہے جو اللہ جسے چاہے بخشے۔ دعوت خواہ دین اور دنیا کے کسی بھی کام کے لیے پڑھی جائے اس سے مقصود جلد حاصل ہو جاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
* اِذَا تَحَیَّرْتُمْ فِی الْاُمُوْرِ فَاسْتَعِیْنُوْا مِنْ اَھْلِ الْقُبُوْرِ
ترجمہ: جب تم اپنے امور میں پریشان ہو جاؤ تو اہلِ قبور سے مدد مانگ لیا کرو۔
ابیات:
اولیا را خلوت است زیر زمین
لا تخف باشند باحق ہمنشین
ہر کہ بر قبرش رود اہل الخبر
مشکل آسان می شود جن و بشر
ترجمہ: اولیاء کو زیرِ زمین (قبروں میں) خلوت نصیب ہوتی ہے اور وہ حق کی ہمنشینی سے مقامِ لاتخف پر ہوتے ہیں۔ جب کوئی ان کی قبر پر جاتا ہے انہیں اس کی خبر ہو جاتی ہے اور وہ جن و بشر ہر کسی کی مشکل آسان کر دیتے ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
* اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَا ےَمُوْتُوْنَ بَلْ یَنْتَقِلُوْنَ مِنَ الدَّارِ اِلَی الدَّارِ
ترجمہ: بے شک اولیاء اللہ مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہوتے ہیں۔
اولیاء اللہ فقیر فنا فی اللہ کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وہ مقام لِیْ مَعَ اللّٰہِ فنا فی اللہ میں داخل ہو جاتے ہیں‘ پھر انہیں نہ موت کی تلخی یاد رہتی ہے اور نہ جان، نفس، شیطان اور عزرائیل ؑ کی خبر۔ ان کی جان حق تعالیٰ اپنی قدرت سے قبض کرتا ہے۔
ریاضت کے چالیس چلوں سے قبورِ اولیاء کی ایک رات کی ہمنشینی افضل ہے کیونکہ ریاضت راہ ہے اور فنا فی اللہ کا مقام نگاہ کی حضوری کا راز ہے کیونکہ وہاں نہ ریاضت ہے نہ راہ، نہ مدعی ہے نہ گواہ، نہ درد ہے نہ آہ، نہ عزت ہے نہ مرتبہ، نہ روضہ ہے نہ خانقاہ، سوائے روضہ مبارک حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے۔ نہ سورج ہے نہ چاند، نہ سال ہے نہ مہینے، نہ کوئی راہبر نہ ہمراہ، نہ بلندی نہ پستی، نہ حسن پرستی نہ ذوق، نہ شمال ہے نہ جنوب، نہ مشرق ہے نہ مغرب اور نہ ہی خدو خال ہیں بلکہ صرف عین وصال ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
* اَلْمَوْتُ جَسْرٌ ےُوْصِلُ الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ
ترجمہ: موت ایک پُل ہے جو حبیب کو حبیب سے ملاتی ہے۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ دو گروہوں پر آتشِ دوزخ حرام ہے ایک علماءِ عامل اور دوسرے فقراءِ کامل۔ کیونکہ ان میں تین چیزیں یعنی حرص، حسد اور تکبر نہیں ہوتا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
* وَ مَنْ قَالَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ بِلَا حِسَابٍ وَ بِلَا عَذَابٍ
ترجمہ: اور جس نے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہا وہ بلا حساب و عذاب جنت میں داخل ہو گیا۔
کیونکہ کلمہ طیبہ کی تاثیر حرص، حسد اور تکبر کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ علماءِ عامل اور فقراءِ کامل کو خاص یعنی مخلص کہتے ہیں۔حدیث:
* اَلَّذِیْنَ قَالُوْا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کَثِیْرٌ وَ مُخْلِصُوْنَ قَلِیْلٌ۔
ترجمہ: لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے والے کثیر ہیں لیکن مخلص قلیل ہیں۔
ابیات:
روح در عرش است قالب زیرِ خاک
احتیاجی نیست روضہ جان پاک
مردہ تن دل زندہ زیرِ خاک بین
اولیاء را لا یموتون تو بہ بین
گم قبر گمنام بی نام و نشان
جسد را باخود برند در لامکان
بر قبر مردہ کنی نقش و نگار
نیست سودی مردہ را زیبا چہ کار
باھُوؒ ! بہ زین نباشد در جہان
خود پرستی را مبین جز عین آن
ترجمہ: (اولیاء اللہ کی) ارواح عرش پر ہوتی ہیں اور جسم زیرِ زمین۔ ان کی پاک جان کو روضہ کی حاجت نہیں ہے۔ ان کے جسم مردہ لیکن دل زندہ ہیں۔ اولیاء اللہ مرتے نہیں تو اُن کو زیرِ خاک زندہ دیکھ۔ ان کی قبر گمنام اور بے نام و نشان ہے کیونکہ وہ اپنے جسد کو اس میں سے نکال کر لامکان میں لے جاتے ہیں۔ اگر تُو کسی مردہ کی قبر پر نقش و نگار بنا دے تو بھی اس مردہ کو زیب و زینت سے کوئی فائدہ نہیں۔ باھُوؒ ! اس سے بڑھ کر جہان میں کچھ نہیں ہے کہ تو خود پرستی نہ کر اور صرف عین کودیکھ۔
غرض یہ کہ
بیت:
ہر کہ باشد پسند خالق پاک
ور نہ باشد پسند خلق چہ باک
ترجمہ: جسے خالق پسند کرے اسے اگر مخلوق نہ بھی پسند کرے تو کیا پرواہ۔
رجوعاتِ خلق ہونا سراسر خلل ہے۔ اس زمانہ میں تو لوگوں کی اکثریت اور بیشتر گروہ شریعتِ محمدیؐ کے راستہ سے منہ موڑ چکے ہیں۔ وہ سرود سنتے اور شراب پیتے ہیں اور ان لوگوں کے ہمنشین ہیں جو مایۂ فساد کو پسند کرنے والے حرام زادے ہیں اور اپنے آباؤ اجداد کی کرامات پر مغرور ہیں۔ یہ آزاد فقیر درست کہتا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کا فرمان ہے:
* اَلسَّاکِتُ عَنِ الْحقِّ شَیْطَانٌ اَخْرَسٌ۔
ترجمہ: جو حق بات کہنے سے خاموش رہا وہ گونگا شیطان ہے۔
بیت:
گر ترا سر می زند سر پیش نہ
و ز خدمت مادر پدر درویش بہ
ترجمہ: ماں باپ کی خدمت سے درویش کی خدمت بہتر ہے۔ اگر وہ تیرا سر اڑا دے تو بھی اسے اپنا سر پیش کرنے سے دریغ نہ کر۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
* سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُ الْفُقَرَآءِ
ترجمہ: قوم کا سردار فقراء کا خادم ہوتا ہے۔
اور فقراء سے بہتر کوئی نہیں ہو سکتا۔
بیت:
تا توانی خویش را از خلق پوش
عارفان کی بوند این خود فروش
ترجمہ: جس قدر تجھ سے ممکن ہو خود کو مخلوق سے چھپا کر رکھ۔ یہ خود فروش لوگ عارف کیسے ہو سکتے ہیں۔
بیت:
با دوست کنج فقر بہشت است بوستان
بی دوست خاک بر سر جاہ توانگری
ترجمہ: دوست ساتھ ہو تو فقیر کا کونہ بھی بہشت کے باغ کی مانند ہے اور دوست کے بغیر مرتبہ و توانگری بھی بیکار ہے۔
فرد:
تا دوست در کنار نباشد بکام دل
از ہیچ نعمتی مزہ نیاید کہ می خوری
ترجمہ: جب تک دوست دل کی مراد کے مطابق ساتھ نہ ہو تو جو نعمت بھی تو کھائے گا وہ مزہ نہیں دے گی۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
* وَ السَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی (طٰہٰ۔47)
ترجمہ: سلامتی ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔
جان لو کہ وہ صاحبِ دعوت اور تارکِ دعوت ملعون ہے جو دعوت کی انتہا تک نہ پہنچا ۔ ایسا صاحبِ دعوت پریشان حال ہے۔ جب اہلِ دعوت خستہ خاطر ہو جائے اور باطن میں روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف رجوع کرے اور بالترتیب دعوت پڑھے تو قبر مبارک کی برکت سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پُرنور روح حاضر ہو جائے گی۔ اس وقت اہلِ دعوت اپنا مقصود عرض کرے تو تمام مطالب پا لے گا۔ یہ دعوت تیغِ برہنہ صرف وہی پڑھتا ہے جو باطن میں صاحبِ شجاعت اور صاحبِ شعار ہو اور وہ جس کام، مطلب اور مہم کی خاطر دعوت پڑھتا ہے وہ کام ایک ہی مرتبہ میں انجام کو پہنچ جاتا ہے۔
دیگر دعوت وہ ہے جس میں اہلِ دعوت رات کے وقت تنہا قبرستان جائے اور کسی صاحبِ عظمت غالب الاولیاء فقیر کی قبر کے پاس بیٹھ جائے جو شہداء یا غوث یا قطب یا درویش یا فقیر فنا فی اللہ میں سے ہو اور قرآنِ پاک میں سے جو کچھ یاد ہو‘ پڑھے۔ کلامِ ربانی کی برکت اور فقراء سبحانی کی توجہ سے بحکمِ الٰہی اور قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ (اُٹھ اللہ کے حکم سے) کہنے سے روح قبر سے باہر نکل آئے گی اور دعوت پڑھنے والے سے ہمکلام ہوگی۔ جواب باصواب دے گی یا الہام، دلیل یا وھم کے ذریعے مدد کرے گی۔ اگر دعوت پڑھنے والا خدانخواستہ قبرِ اولیاء سے کوئی اشارہ یا بشارت نہیں پاتا تو حق تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو جائے۔ ہر سالک کے لیے راہِ خدا کو پانا ہے لیکن عاشق کے لیے اپنی ابتدا کو پہنچنا اور اپنی انتہا کو دیکھنا ہے کیونکہ اس کی نظر کیمیا ہوتی ہے۔کیمیا نظر سے مراد یہ نہیں کہ نگاہ سے کسی جاہل پر ہر علم کی راہ کھول دی جائے کہ کوئی عالم و فاضل اس کا مقابلہ نہ کرسکے اور نہ ہی وہ نظر کیمیا ہے کہ ہر فکر و پریشانی سے بے غم کر دے اور کشف و کرامات سے سب طبقات اور مقامات کا مشاہدہ کرا دے جس سے لوگ حیرت و عبرت میں آجائیں۔ یہ نظر اہلِ صفات کی ہے۔ کیمیا نگاہ اور اکسیر نظر وہ ہے جو سر سے قدم تک تمام وجود کو اسمِ اللہ ذات کی تاثیر سے نور بنا دے۔یہ نظر اہلِ ذات لازوال کی ہے جو وصال میں غرق ہیں۔
دعوت کی شرح یہ بھی ہے کہ جب اہلِ دعوت ورد شروع کرتا ہے تو ابھی وہ وظائف مکمل بھی نہیں کرتا کہ اس کا مطلب اور مقصود اسے حاصل ہو جاتا ہے۔ دعوتِ کمال کا انجام یہ ہے کہ صاحبِ دعوت ورد شروع کرتے وقت اپنے دشمنوں کی صورت تصور میں لاتا ہے، اس وقت ذکر کی گرمی اور جذب و فکر سے اسے نوازتا ہے یا حکمِ حق تعالیٰ سے اسے قتل کر دیتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
* مَنْ حَفِظَ لِسَانَہٗ مِنْ غَیْرِیْ اَکْرَمْتُہٗ بِذِکْرِیْ وَ مَنْ حَفِظَ بَصَرَہٗ مِنْ غَیْرِیْ اَکْرَمْتَہٗ بِعَیْنِیْ وَ مَنْ حَفِظَ خَلْقَہٗ بَیْنَ الْخَلَاءِقِ اَکْرَمْتَہٗ بِحِکْمَتِیْ وَ مَنْ حَفِظَ قَلْبَہٗ مِنْ حُبِّ الدُّنْیَا اَکْرَمْتُہٗ بِنَظْرِیْ وَ ذِکْرِیْ وَ مَنْ حَفِظَ نَفْسَہٗ عَلَی الصَّبْرِ اَکْرَمْتُہٗ یَِوْمَ الْقِیَامَۃِ
ترجمہ:جس نے میرے غیر (کے ذکر) سے اپنی زبان کی حفاظت کی میں اسے اپنے ذکر سے بزرگی عطا کروں گا اور جس نے میرے غیر (کو دیکھنے) سے اپنی آنکھ کی حفاظت کی میں اسے اپنی نظر میں بزرگ رکھوں گا، جس نے اپنے وجود کو مخلوق کے درمیان بھی محفوظ رکھا میں اسے اپنی حکمت سے نوازوں گا، جس نے اپنے قلب کو حبِ دنیا سے محفوظ رکھا میں اسے اپنی نظر اور ذکر میں بزرگ رکھوں گا اور جس نے اپنے نفس کی حفاظت صبر سے کی میں اسے قیامت کے روز بزرگی عطا کروں گا۔
حضور علیہ الصلوٰہ والسلام نے فرمایا:
* عَیْنَانِ تَزْنِیَانِ ط
ترجمہ: آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
* ےَعْلَمُ خَآءِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَ مَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ (المومن۔19)
ترجمہ: وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں پوشیدہ (رازوں) کو بھی جانتا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
* لَا یَسْعُنِیْ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْ السَّمَآءِیْ وَ لٰکِنْ یَسْعُنِیْ فِیْ قَلْبِ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ
ترجمہ: میں نہ زمین میں سماتا ہوں نہ آسمانوں میں، لیکن بندۂ مومن کے قلب میں سما جاتا ہوں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
* ےَقُوْلُ اللّٰہِ تَعَالٰی اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ وَ اَنَا مَعَہٗ اِذَا ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہٗ فِیْ نَفْسِیْ وَ اِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلَاءٍ ذَکَرْتُہٗ فِیْ مَلَاءٍ خَیْرٌ مِّنْھُمْ وَ اِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذِرَاعًا وَ اِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ بَاعًا۔
ترجمہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ظن اور گمان کے مطابق اس کے ساتھ پیش آتا ہوں اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، جب وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جب وہ مجھے کسی مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں۔ اور اگر وہ میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہوں اور اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں اس کے اس قدر قریب ہو جاتا ہوں کہ اسی کا ہو جاتا ہوں۔
تَمَّتْ بِالْخَیْرِ
وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ وَ نُوْرِ عَرْشِہٖ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ ےَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ط اٰمِیْنَ