کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan
قسط نمبر34 مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
طالب اللہ کا طلبگار ہونا چاہیے نہ کہ گمراہی کا۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔ وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا۔ وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَھَنَّمَ ق صلے اِنَّ عَذَابَھَا کَانَ غَرَامًا۔ق صلے اِنَّھَا سَآئَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا۔ وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ کَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا۔ وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَ ج وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًالا۔ یُّضٰعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہٖ مُھَانًا۔ق صلے اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ ط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۔ وَ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا۔ وَ الَّذِیْنَ لَا یَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ لا وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا۔ وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا۔ وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۔ اُولٰٓئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْھَا تَحِیَّۃً وَّسَلٰمًالا۔ خٰلِدِیْنَ فِیْھَاط حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا۔ (سورۃ الفرقان۔63-76)
ترجمہ: اور رحمٰن کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں۔ اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے ربّ کے لیے سجدہ ریزی اور قیام میں راتیں بسر کرتے ہیں۔ اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو (ہر وقت حضورِ حق میں) عرض گزار رہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! تو ہم سے دوزخ کا عذاب ہٹا لے بیشک اس کا عذاب بڑا مہلک ہے۔ بیشک وہ برُی قرارگاہ اور برُی قیام گاہ ہے۔ اور (یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا (زیادتی اور کمی کی) ان دو حدوں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔ اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے اور نہ کسی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جسے ناحق مارنا اللہ نے حرام فرمایا ہے اور نہ (ہی) بدکاری کرتے ہیں۔ اور جو شخص یہ کام کرے گا وہ سزائے گناہ پائے گا۔ اس کے لیے قیامت کے دن دوگنا عذاب کر دیا جائے گا اور وہ اس میں ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ رہے گا۔ مگر جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جن کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ اور جس نے توبہ کر لی اور نیک عمل کیا تو اس نے اللہ کی طرف رجوع کیا جو رجوع کا حق تھا۔ اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو کذب اور باطل کاموں میں حاضر نہیں ہوتے اور جب بیہودہ کاموں کے پاس سے گزرتے ہیں تو (دامن بچاتے ہوئے) نہایت وقار اور متانت سے گزر جاتے ہیں ۔ اور (یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب انہیں ان کے ربّ کی آیتوں کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گر پڑتے (بلکہ غور و فکر بھی کرتے ہیں)۔ اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو (حضورِ حق میں) عرض کرتے ہیں اے ہمارے ربّ! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے۔ انہی لوگوں کو بلند ترین محلات ان کے صبر کرنے کی جزا کے طور پر بخشے جائیں گے اور وہاں دعائے خیر اور سلام کے ساتھ ان کا استقبال کیا جائے گا۔ یہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں وہ بہترین قرار گاہ اور عمدہ قیام گاہ ہے۔
جا ن لو کہ عبادت، بندگی، طاعت، تلاوتِ قرآن، ورد و وظائف، ذکر فکر، فقیری، معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ، مجلسِ محمدیؐ، توحید، شوق، اشتغال کی بنیاد اور مغز لقمۂ حلال ہے۔ جو حلال کھانے میں سے کھاتا ہے وہ جلد ہی معرفتِ الٰہی اور قرب و وِصال تک پہنچ جاتا ہے۔ جان لو کہ مشکوک اور حرام رزق اس زمانہ میں بہت ہے جبکہ حلال رزق کمانا بہت مشکل اور دشوار ہے۔ لیکن حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ علما عامل اور فقیرِ کامل کے حلق سے لقمۂ حرام نہیں اترے گا اور نہ ہی علما عامل اور فقیر ِ کامل کے پیٹ میں حرام لقمہ قرار پکڑتا ہے کیونکہ اگر ان کے پیٹ میں لقمۂ حرام چلا بھی جائے تو اثر نہیں کرتا جیسا کہ مولانا رومؒ نے فرمایا:
آنکہ او را لقمہ شد نورِ جلال
ہر چہ خواہد میخورد بروے حلال
ترجمہ: جس کا کھانا نورِ جلال ہو وہ جو بھی کھائے اس پر حلال ہوتا ہے۔
جوابِ مصنف:
رود در حلق عارف لقمۂ حلال
آنکہ عارف دائمی باحق وصال
ترجمہ: عارف کے حلق سے لقمۂ حلال ہی اترتا ہے کیونکہ وہ حق کے ساتھ دائمی وصال پا چکا ہوتا ہے۔
شد وجود عارفاں آتش تمام
باذکر آتش سوختہ لقمہ حرام
ترجمہ: عارفوں کے وجود میں ذکر کی بدولت اس قدر آگ ہوتی ہے کہ اگر اس میں لقمۂ حرام جائے تو جل جاتا ہے۔
پس معلوم ہوا کہ جس طرح پیغمبروں کا ان کی امت پر حق ہوتا ہے اور امت کا مال پیغمبروں کے لیے حلال ہے اسی طرح علما عامل اور فقیرِ کامل کا مخلوقِ خدا پر حق ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ بھی کھاتے ہیں وہ مخلوق پر ان کا حق ہوتا ہے جو ادا ہو جاتا ہے کیونکہ تمام مخلوق اور زمین پر جو کچھ ہے وہ انہی دو گروہوں کی برکت سے قائم ہے۔ علما عامل انہیں کہتے ہیں جو تمام علوم اور علمِ قرآن کو اپنے عمل میں لے آئے ہوں اور علم انہیں باطن میں معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی حضوری میں لے گیا ہو۔ علما عامل جس وقت چاہتے ہیں التماس اور عرض کرنے کے لیے مجلسِ محمدی میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ فقیرِ کامل اسے کہتے ہیں جو ہمیشہ اللہ کی بارگاہ میں منظور اور مجلسِ محمدی میں ہمیشہ حاضر رہے اور ایک لمحہ کے لیے بھی جدا اور دور نہ ہو اگرچہ وہ ظاہر میں عام لوگوں سے ہمکلام ہو لیکن باطن میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس ہوتا ہے۔
حکایت:
ایک روز ایک ولی اللہ نے شیطان کو سکون سے بیٹھے دیکھا۔ ولی اللہ نے پوچھا کہ اے ملعون!تو آج لوگوں سے غافل کیوں ہے؟ ابلیس ملعون نے کہا کہ اس زمانہ میں بے عمل علما اور دشمنِ خدا صاحبِ طمع و حرص وحسد و ہوائے نفس اور اہلِ بدعت فقیر پیدا ہو گئے ہیں۔ یہ دونوں گروہ میرے طالب ہیں اور اولادِ آدم کو اپنے والد کی راہ سے گمراہ کر رہے ہیں اس لیے مجھے سیر و سفر کی ضرورت نہیں اسی وجہ سے سکون سے بیٹھا ہوں۔ لیکن علما عامل و فقیر ِ کامل دینِ محمدی پر قوی اور عارف باللہ ہیں جو مجلسِ محمدی میں حاضر رہتے ہیں میں ان پر غالب نہیں آ سکتا اور نہ ہی ان پر میرا حکم چلتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطَانٌ ط وَکَفٰی بِرَبِّکَ وَکِیْلًا۔ (سورۃ بنی اسرائیل۔65)
ترجمہ: بے شک میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہ چلے گا اور تیرا ربّ ہی ان کے لیے کافی اور کارساز ہے۔
پس معلوم ہوا کہ آدمی کی شامت اس کے نفس کی وجہ سے ہے اور شیطان نفسِ امارہ کا تابعدار غلام اور فرمانبردار ہے۔ صاحبِ نفسِ امارہ سیری کے وقت فرعون، بھوک کے وقت پاگل کتا، شہوت کے وقت بے عقل حیوان اور وقتِ سخاوت قارون ہوتا ہے۔ ابیات:
ترا با نفس کافر کیش کاریست
بدام آور کہ ایں طرفہ شکاریست
ترجمہ: تیرا واسطہ کافر صفت نفس کے ساتھ ہے اسے اپنے قابو میں لے آ کہ یہ ایک عجیب شکار ہے۔
اگر مارِ سیاہ در آستین است
بہ از نفس کہ با تو ہم نشین است
ترجمہ: اگر تیری آستین میں سیاہ سانپ ہو تو وہ اس نفس سے بہتر ہے جس کا تو ہمنشین ہے۔
عارفین کا نفس مطمئنہ ہوتا ہے جو سیری کے وقت شاکر اور بھوک کے وقت صابر ہوتا ہے۔ ایسا نفس شہوت کے وقت باشعور اور عورتوں سے بیگانہ اور سخاوت کے وقت کریم صفت ہوتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی ۔ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی۔ (سورۃ النازعات۔40-41)
ترجمہ: اور جس نے اپنے نفس کو خواہشات سے روکے رکھا پس بیشک اس کا ٹھکانہ جنتِ ماویٰ ہے۔
پس دیو سلیمانی و بادشاہ نفس اور شیطان کو فنا فی اللہ کے زندان میں ڈالنا اور اس کے گلے میں قرآن، نص و حدیث، تفسیر، معرفتِ الٰہی اور روشن ضمیری کی زنجیر ڈالنا اور ہمیشہ کے لیے قید کرنا سلطان الفقر عارفین کا کام ہے جو کہ قوت، فیض اور برکات یعنی آیاتِ قرآن کی برکت اور مجلسِ محمدی کی برکت اور شریعت، ہدایت، ولایت اور عنایت کی برکت سے ممکن ہوتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْفَقِیْرَ الْغَنِیَّ
ترجمہ: بے شک اللہ غنی فقیر کو پسند کرتا ہے۔
اَلْفَقْرُ کَنْزٌ مِنْ کَنُوْزِ اللّٰہِ تَعَالٰی
ترجمہ: فقر اللہ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔
جب تک نفس دنیا سے مکمل طور پر غنایت اختیار نہ کر لے ہدایت اس کے وجود میں تاثیر نہیں کرتی اور نفس بغیر پیٹ بھرے جمعیت حاصل نہیں کرتا اور نہ ہی ایک گھڑی کے لیے طاعت اختیار کرتا ہے۔ اس لیے پہلے نفس کو غذا سے خوب سیر کر کے قابو کیا جائے بعد میں نفس بخوشی ذکرِ رحمن لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ میں مشغول ہو جاتا ہے۔
جان لو کہ مردانِ خدا وہ ہیں جو غذا تو اِس جہان کی کھاتے ہیں لیکن کام اُس جہان کے کرتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے مراتب ہیں جن کی عاقبت پرُ عافیت ہوتی ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی (سورۃ طٰہٰ۔47)
ترجمہ: اور اس شخص پر سلامتی ہوجنہوں نے ہدایت کی پیروی کی۔
بیت:
دل پریشان و مصلیّٰ در نماز
خاک باد ایں چنین دل بے نیاز
ترجمہ: ایسی نماز بیکار ہے جس میں دل پریشان ہو۔ اللہ سے بے نیاز ایسے دل پر خاک۔
دونوں جہان کا مقصود جمعیت ہے۔ اہل و عیال کی جمعیت پیٹ بھرنے میں ہے جبکہ عارف فقیر کی جمعیت مکمل استغراق میں ہے۔ جان لو کہ دونوں جہان اور ہر مقام کا نظارہ اسمِ اللہ ذات کی قوت سے ہاتھ کی ہتھیلی اور ناخن کی پشت پر دیکھنا آسان کام ہے لیکن معرفت کے درجات سے گزرنا اور فنا فی اللہ ہو کر عین بعین ذات ہونا اور رات دن سر سے قدم تک نورِ الٰہی کی تجلیات میں جلنا اور ہر لمحہ نت نئے لازوال مشاہدات کرنا بہت دشوار اور مشکل کام ہے۔ یہ غرق فنا فی اللہ اور خاص الخاص وصال کے مراتب ہیں جو کہ صاحبِ علم و اہلِ شریعت عالم کے مراتب ہیں نہ کہ اس مردود اور بدخصلت جاہل کے جو انانیت اور نفس پرستی میں مشغول ہوتا ہے۔ ابیات:
یک قدم برنفس خود نہ و آن دگر نہ بر ہوا
از ہوا باز آئی تا شوی مرد خدا
ترجمہ: ایک قدم اپنے نفس پر اور دوسرا اس کی خواہشات پر رکھ۔ جب تو خواہشاتِ نفس سے باز آئے گا تب تو مردِ خدا ہو گا۔
مردان خدا خدا نہ باشند
لیکن از خدا جدا نہ باشند
ترجمہ: مردانِ خدا خدا تو نہیں ہوتے لیکن وہ خدا سے جدا بھی نہیں ہوتے۔
اگر بیائی در باز است
و اگر نیائی اللہ بے نیاز است
ترجمہ: اگر تو آئے تو دروازہ کھلا ہے اور اگر نہ آئے تو اللہ بے نیاز ہے۔
اَلطَّالِبُ عِنْدَ الْمُرْشِدِ کَالْمَیِّتِ بَیْنَ یَدَیِ الْغَاسِلِ
ترجمہ: طالب کو مرشد کے پاس اس طرح ہونا چاہیے جیسے غسل دینے والے کے ہاتھوں میں میت۔
جو طالب زندگی میں ہی اپنے نفس کو مار لے اس میں نفس کے خلاف تین چیزیں پائی جاتی ہیں اوّل یہ کہ کھانا کھاتے وقت وہ اپنے نفس سے کہتا ہے کہ اے نفس! اللہ کے اس فرمان پر یقین رکھ کہ:
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ (سورۃ آلِ عمران۔185)
ترجمہ: ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
تو جو کچھ کھانا چاہتا ہے کھا لے کہ موت و جان کنی کے وقت کی تلخی لذیز و شریں کھانوں کی لذت سے بھی تلخ تر محسوس ہو گی۔ دوم لباس پہنتے وقت طالب نفس سے کہتا ہے کہ تو جو لباس بھی وجود پر پہنتا ہے اگرچہ ریشم اور زریں کا لباس ہو وہ تیرا کفن ہے۔ سوم یہ کہ جس جگہ یا خوبصورت عمارت میں بیٹھتا ہے تواپنے نفس سے کہتا ہے کہ دیکھ اے نفس! یہ گھر ویران ہو جائے گا تیرا اصل گھر تو قبر ہے۔ مطلب یہ کہ آدمی کے دل میں جو کدورت، زنگار، سیاہی، نفاق، ظلمات، خطراتِ ہوائے نفسانی، وسوسہ، وہمات، معصیتِ شیطانی، حرص، حسد، طمع، بغض، خودپسندی اور اس طرح کی دیگر برائیاں ہیں وہ سب طالب کے دل کو مردہ کر کے اسے غفلت اور جھوٹ میں مشغول کر دیتی ہیں۔ جس کے وجود سے یہ تمام ناشائستہ بیماریاں نکل جائیں تو اس کی زبان اور قلب ہم آہنگ ہو جاتے ہیں اور وہ صاحبِ تصدیق بن جاتا ہے اور جس کی روح اور سِرّ ہم موافق ہو جائیں وہ باتحقیق عارف بن جاتا ہے۔ پس عارف کا ابتدائی مرتبہ تصدیق ہے اور انتہائی مرتبہ معرفتِ الٰہی کی تحقیق ہے۔ فقر اِن دونوں مراتب سے بالاتر ہے۔ مراتبِ فقر کی ابتدا ظاہر و باطن میں اللہ کی قوت اور توفیق حاصل کرنا ہے اور مراتب ِفقر کی انتہا فنا فی اللہ بقا باللہ ہو کر حق کا رفیق ہونا اور توحیدِ الٰہی میں مطلق طور پر غرق ہونا ہے جس کے بعد وجود میں غضب، غصہ، غیبت، غلاظت، غل، غش، غفلت، غم اور غلط باقی نہیں رہتے۔ انتہائے فقر فردانیت ہے اور ہمیشہ اللہ کے دیدار کی طرف متوجہ ہو کر وحدانیت میں غرق رہنا ہے۔ یہ مراتبِ فقر ہیں جس میں باطن قربِ حق کی بدولت معمور رہتا ہے۔
وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی (سورۃ طٰہٰ۔47)
ترجمہ: اور اس شخص پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کی پیروی کی۔
جان لو کہ عارف کو تصدیق اور تحقیق کے مراتب فقیر کی تلقین، توفیق اور اس کی پیروی سے حاصل ہوتے ہیں۔ جس عارف کو بھی کوئی مشکل پیش آتی ہے تو فقیر اس کا مشکل کشا اور رفیق بن کر اس کی مدد کرتا ہے۔ فقیر کی ابتدا فنا اور انتہا بقا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ عارف طالب روزِ اوّل بغیر ریاضت کے تصدیق اور تحقیق کے مراتب پر پہنچ جاتا ہے اور فقیر طالب روزِ اوّل بغیر ریاضت کے فنا فی اللہ کے مراتب پر پہنچ جاتا ہے اور پھر فنا سے گزر کر مقامِ بقا پا لیتا ہے۔ مطلب یہ کہ:
کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ۔ (سورۃ رحمن۔29)
ترجمہ: ہر روز ھوُ کی ایک نئی شان ہوتی ہے۔
دراصل قیامت کا ایک روز پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا جس میں تمام مخلوقات حساب کے لیے حشرگاہ میں آئیں گی اور ان کی ہر ہر نیکی اور بدی کا حساب ہو گا۔ حلال پر حساب ہو گا اور حرام پر عذاب ہو گا۔ جان لو کہ رات دن میں چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں اور آدمی رات دن میں چوبیس ہزار سانس لیتا ہے۔ ہر سانس سے باخبر رہ کہ چودہ قسم کی تجلی، چودہ الہام اور چودہ علوم اس پر منکشف ہوتے ہیں جن میں سے بعض رحمانی، بعض شیطانی اور بعض نفسانی ہوتے ہیں جبکہ بعض حادثاتِ دنیا کی پریشانیوں، بعض جنات، بعض مؤکلات اور فرشتوں کی طرف سے ہوتے ہیں اور بعض قلبی، روحی اور سِرّی وجود سے ہوتے ہیں۔ اگر توفیقِ الٰہی اور مرشد کی رفاقت نصیب ہو تو ہر ایک مقام کی حقیقت سے آگاہی حاصل ہوتی ہے جس کی بدولت طالب محفوظ رہتا ہے ورنہ اپنے مرتبہ سے گر جاتا ہے۔ اس مقام پر بہت سے طالب گم ہو جاتے ہیں یا رجعت کھا جاتے ہیں یا خلافِ شریعت ہو کر مردود ہو جاتے ہیں اور ان کا قلب مردہ ہو جاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
خُذْ مَا صَفَا وَ دَعْ مَا کَدَرَ
ترجمہ: صاف (صحیح) کو اختیار کرو اور ناپاک (غلط) کو ترک کر دو۔
(جاری ہے)