اسلام کا چھٹا رُکن۔؟ ایک روٹی کا سوال ہے ۔
Islam Ka Chatta Rukn, Ek Roti Ka Sawal
مراسلہ: علی شان سروری قادری
حضرت نظام الدین اولیا رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ اجودھن کے قریب ایک ملا رہتے تھے جنہیں اپنے ظاہری علم پر بہت ناز تھا۔ اکثر بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ کی مجلس میں اپنی علمیت کے قصے سناتے جنہیں آپ بے حد دلچسپی سے سناکرتے۔ لوگوں کو ملا صاحب کا انداز برا لگتا لیکن وہ احترامِ شیخ میں خاموش رہتے۔
ایک بار آپ نے پوچھا ’’مولانا! اسلام کے کتنے رکن ہیں؟‘‘
ملا صاحب بولے ’’شیخ آپ نہیں جانتے کیا؟ اسکا جواب تو کوئی عام مسلمان بھی جانتا ہو گا۔ اسلام کے پانچ ارکان ہیں: توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔‘‘
آپؒ مسکرائے اور فرمایا’’مولانا ! میں نے تو سنا ہے کہ اسلام کا چھٹا رکن بھی ہے اور وہ روٹی ہے۔‘‘
ملا صاحب ایک دم بھڑک اٹھے استغفراللہ۔۔آپ نے بالکل غلط سناہے۔ آپؒ نے تحمل سے فرمایا ’’لیکن میں نے تو معتبر اہلِ علم سے سنا ہے۔‘‘ ملا صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور قرآنِ کریم کی وہ آیت تلاوت کی جس کا ترجمہ ہے ’’نصیحت کرنے کے بعد ظالم قوم کے پاس مت بیٹھ۔‘‘ لہٰذا میں چلتا ہوں۔۔۔ بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ بھی کھڑے ہو گئے، محبت سے ملا صاحب کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا ’’مولانا! اختلافِ رائے اپنی جگہ لیکن ہم سے ناراض ہو کر تو نہ جائیں۔‘‘ لیکن ملا صاحب نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور غضبناک ہو کر چل دیے۔
ملا صاحب اسکے بعد حج کیلئے روانہ ہو گئے۔ حج کی سعادت حاصل کی، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں سات سال قیام کیا اور پھر وطن واپسی کیلئے روانہ ہوئے۔ اچانک سمندر میں سخت طوفان آیا اور ملا صاحب ایک تختے پر تیرتے ہوئے کسی جزیرے تک پہنچے۔ جزیرہ دیکھا تو نہ پانی نہ درخت نہ گھاس۔ تین دن بھوکے پیاسے ایک غار میں بیٹھے دعا کرتے رہے کہ اے پالنے والے! اس عذاب سے نکال۔
تین دن بعد کہیں سے ایک شخص آیا اور آواز لگائی کہ روٹی خرید لو۔ ملا صاحب نے اسے بلایا اور اپنی دکھی داستان سنائی۔ وہ بولا’’میرے پاس روٹی بھی ہے اور پانی بھی۔‘‘
ملا صاحب نے بے بسی سے کہا ’’بھائی! میرے پاس ایک پیسہ تک نہیں۔ پھر پوچھاکیا تم مسلمان ہو؟‘‘
وہ بولا:الحمد اللہ میں مسلمان ہوں۔ ملا صاحب نے فوراً بھوکوں کو کھانا کھلانے کی روایات بیان کرنا شروع کیں۔
وہ شخص بولا’’میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کے ثواب سے واقف ہوں لیکن رزقِ حلال کمانے کا حکم بھی اللہ نے ہی دیا ہے۔‘‘
ملا صاحب نے اسے اپنی نماز، روزے ، زکوٰۃ اور سات حجوں سے مرعوب کرنے کی کوشش کی لیکن وہ شخص ٹس سے مس نہ ہوا۔ آخر بولا: چلیے میں آپ پر رحم کھاتا ہوں، اپنے سات حجوں کا ثواب مجھے دیدیں میں آپکو روٹی کھلا دیتا ہوں۔
ملا صاحب نے سوچا کہ زبانی ثواب دے دینے سے کیا ہو گا؟لہٰذا بولے کہ چلو سات حجوں کا ثواب تمہیں دیا۔
ملا صاحب نے روٹی کھائی تو جان میں جان آئی اور اس اجنبی شخص سے پوچھا تم کہاں رہتے ہو؟ قریب کوئی آبادی ہے؟ لیکن اس نے برتن اٹھائے اور غار سے نکل گیا۔ ملا صاحب نے اسکا پیچھا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ پہاڑوں میں غائب ہو گیا۔
تین دن بعدجب ملا صاحب کی حالت خراب ہونے لگی تو وہ شخص کہیں سے پھر نمودار ہوا اور اس بار ملا صاحب کے روزوں کا ثواب لیکر چلتا بنا۔ تین دن بعد نمازوں اور پھر تین دن بعد زکوٰۃ کا ثواب بھی اس نے لے لیا۔ اگلے تین دن گزر گئے۔ جب وہ آیا تو ملا صاحب رونے لگے کہ اب میرے پاس کچھ باقی نہیں رہا۔ وہ اجنبی بولا ’’آج آپ بس اتنا کریں کہ مجھے تمام ثواب تحریری طور پر دے دیں۔‘‘ ملا صاحب نے کاغذ پر لکھ کر دیدیا کہ میں نے اپنی تمام عمر کی نمازیں، روزے، زکوٰۃ اور حج اس شخص کے ہاتھ روٹی کے بدلے فروخت کئے اور نیچے اپنے دستخط کر دیے۔
روٹی کھاتے ہوئے سوچا کہ تین دن بعد گزارا کیسے ہو گا ؟ اسلئے آج اسکا پیچھا ضرور کرنا ہے۔ ملا صاحب نے کافی دور تک اسکا پیچھا کیا لیکن آگے جا کر وہ پھر کہیں غائب ہو گیا۔
سمندر سامنے تھا۔ ملا صاحب ذرا سانس بحال کرنے کیلئے بیٹھ گئے۔ اتفاق سے اسی وقت ایک جہاز قریب سے گزر رہا تھا۔
ملا صاحب نے اپنی قمیض اتار کر دیوانہ وار ہوا میں لہرائی، جہاز والوں کی نظر ان پر پڑی اور انہوں نے کشتی بھیج دی۔
خدا کی قدرت یہ ہندوستانی حاجیوں کا ہی جہاز تھا لہٰذا انہوں نے ملا صاحب کی خوب خدمت کی اور وہ بخیر و عافیت اپنے گھر پہنچ گئے۔ کچھ دن بعد اپنی عبادت و ریاضت کا حال سنانے بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ کی خانقاہ پہنچے۔ بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ نے کھڑے ہو کر استقبال کیا اور فرمایا ’’ملا صاحب! بہت عرصے بعد تشریف لائے؟‘‘ ملا صاحب خشک لہجے میں بولے’’یہاں ہوتا تو آتا، میں حج کرنے گیا تھا۔ سات سال تک مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام کیا، حرمین شریفین اور مسجدِنبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں نمازیں ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔‘‘
آپ نے خوش مزاجی سے فرمایا ’’آپ واقعی خوش قسمت ہیں مولانا! اب تو آپ ہم سے ناراض نہیں؟ سات سال پہلے آپ ہم سے ایک چھوٹی سی بات پر ناراض ہو کر گئے تھے۔ ‘‘
ملا صاحب بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ کی عاجزی پر مزید مغرور ہو گئے اور بولے ’’مجھے توکچھ یاد نہیں ، آپ یاد دلائیں تو شاید یاد آ جائے۔‘‘
آپؒ نے فرمایا ’’میں نے عرض کیا تھا کہ اسلام کا چھٹا رکن روٹی ہے اور آپ ہمیں ظالم قرار دیکر چلے گئے تھے، پھر بھی ہم آپ کو یاد کرتے رہے۔‘‘
ملا صاحب طنزیہ انداز میں ہنسے اور بولے’’درویش اپنی کم علمی کے باعث اکثر ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ اسلام کا کوئی چھٹا رکن نہیں۔‘‘
آپؒ نے فرمایا ’’میں کم علم ہوں لیکن میں نے یہ بات لکھی ہوئی دیکھی ہے‘‘۔ پھر آپ نے حاضرین سے فرمایا’’میں کچھ دیر تنہائی چاہتا ہوں۔‘‘
تنہائی میں آپ نے کتاب ملا صاحب کے حوالے کی، انہوں نے کتاب کھولی تو ایک صفحے پر وہی تحریر تھی جو ملا صاحب نے جزیرے پرروٹی فروخت کرنے والے کو لکھ کر دی تھی۔
ملا صاحب چند لمحے حیرت سے سکوت کے عالم میں بیٹھے رہے پھر آپ کے قدموں میں گر پڑے اور بولے ’’شیخ! میں نے آپ پر ظلم کیا۔‘‘ آپ نے محبت سے فرمایا’’مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں مولانا!ایک معمولی اختلاف تھا وہ آج دور ہو گیا۔‘‘
پھر ملا صاحب آپ کے مرید ہو گئے، مرید ہونے کے بعد کسی نے انہیں بات کرتے نہیں دیکھا، جب تک زندہ رہے، ہر وقت روتے رہتے۔