رضائے الٰہی | Raza e Elahi


Rate this post

رضائے الٰہی

تحریر: صائمہ واجد سروری قادری۔لاہور

کھیتاں سرسبز ہیں تیری غذا کے واسطے 
چاند سورج اور ستارے ہیں ضیاء کے واسطے
جانور پیدا کیے تیری وفا کے واسطے
سب جہاں تیرے لیے اور تو خدا کے واسطے

اللہ ربّ العزت نے انسان کو زندگی جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی لیکن وہ زندگی عظیم نہیں ہو سکتی جو بغیر کسی اعلیٰ مقصد کے گزاردی جائے۔ ضروریاتِ زندگی پوری کرنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، اولاد کی کفالت کرنا، معاشی ضروریات پوری کرنا محض یہ زندگی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیداکیا ہے یعنی تمام تر مخلوقات سے افضل۔ کائنات کی ہر شے انسان کے لیے مسخر کی گئی ہے۔ چاند، سورج، ستارے، زمین، ہوا، پہاڑ،پھل، پھول، دریا غرض کائنات کی ہر شے کا مقصد انسان کی ضروریات پوری کرنا ہے حتیٰ کہ فرشتے جو اللہ تعالیٰ کی نوری مخلوق ہیں‘ وہ بھی حمد و ثنا کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی طرح انسان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ کوئی رزق پہنچانے میں مصروف ہے تو کوئی بارش برسانے میں۔ جب انسان کو اللہ تعالیٰ نے اتنا اعلیٰ پیدا کیا ہے تو انسان کی زندگی کا مقصد بھی تو بہت اعلیٰ ہو گا۔ اس کائنا ت میں انسان سے اعلیٰ کوئی نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی معرفت حاصل کرنا ہی انسان کا سب سے اعلیٰ مقصد ِ حیات ہونا چاہیے۔
مقامِ رضا فقر کی منازل میں سے بہت بڑی منزل ہے اور مقامِ رضا کے بعد ہی باطن کے دو آخری اور اہم مقامات یعنی مشاہدئہ حق تعالیٰ اور مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ (شمس الفقرا)
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ۔ (النساء۔125) 
ترجمہ : اور اس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا سر اللہ کی رضا کے سامنے جھکا دیا وہ محسن (اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنے والا) ہے۔

بَلیٰ مَنْ اَسْلَمَ  وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبّہٖ وَلَا خَوْفٌ عَلِیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحزَنُوْنَ۔ (سورۃالبقرہ۔112)
ترجمہ: ’’ہاں جس نے اللہ تعا لیٰ کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا وہ محسن ( مرتبہ احسان تک پہنچنے والا یعنی اللہ کا دیدار کرنے والا) ہے اور اس کے لیے اپنے ربّ کی طرف سے اجر ہے اور اس کے لیے نہ کچھ خوف ہے اور نہ کوئی غم ۔ ‘‘

ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل اس کی رضا میں راضی رہنا ہے۔ اس لیے اس کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر کرنا چاہیے اور مصیبت، بیماری اور آزمائش میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مصیبت و پریشانی ، دکھ سکھ، آسانی و تنگی، بیماری و صحت اور بھوک ہر حالت میں اللہ پاک کی رضا میں راضی رہنا اور سرِسلیم خم کرنا ہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے ۔ جو اللہ پاک کی رضا میں راضی رہتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے نہ کوئی غم ہے نہ کوئی خوف ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’شمس الفقرا‘‘ میں فرماتے ہیں:
٭ عارفانِ حق پر رضائے حق کا اس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ انہیں شدید سے شدید تر حالات میں بھی کوئی غم، دکھ اور تکلیف محسوس نہیں ہوتی یعنی ’’سر ِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے‘‘۔ اس مقام پر پہنچ کر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے خاص نور یعنی لقائے الٰہی سے سرفراز کرتا ہے اور ان کو ایک نئی زندگی ہر لمحہ غیب سے عطا ہوتی ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
٭ باھُوؒ عاقبت باکار باید کارِ دوست
معرفت را مغز باید نی بپوست 
ترجمہ: اے باھُوؒ ! ہر کام اللہ تعا لیٰ کی رضا کے مطابق کرنا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے معرفت کا مغز چاہیے نہ کہ چھلکا۔ (عین الفقر )
٭ راہِ توکل اختیار کر اور رضائے الٰہی پر راضی ہوجا۔ ( عین الفقر ) 
٭ تفسیر اسرارالفاتحہ میں نقل ہے :
ایک روز حضرت خواجہ حسن بصریؒ مالک بن دینارؒشفیق بلخیؒ اور رابعہ بصریؒ ایک مجلس میں اکٹھے ہوئے۔ ان میں صدق کے موضوع پر گفتگو ہونے لگی۔ حضرت خواجہ حسن بصری ؓ نے فرمایا ’’ وہ شخص طلب ِ مولیٰ کے دعویٰ میں صادق نہیں ہے جو اللہ کی طرف سے آنے والی تکلیف پر صبر نہیں کرتا۔ حضرت رابعہ بصریؓ نے یہ سن کر فرمایا ’’اس بات سے خودی کی بُو آتی ہے بات اس سے بھی بہتر ہونی چاہیے‘‘۔ حضرت شفیق بلخیؒ نے فرمایا ’’وہ شخص طلب ِ مولیٰ کے دعویٰ میں صادق نہیں جو مولیٰ کی دی گئی تکلیف میں لذت محسوس نہیں کرتا‘‘ حضرت رابعہ بصری ؓ نے فرمایا ’’اس بات سے بھی خود نمائی کی بُوآتی ہے اس سے بڑھ کر کچھ کہنا چاہیے‘‘۔ مالک بن دینارؓ نے فرمایا ’’وہ شخص طالب ِ مولیٰ کے دعویٰ میں صادق نہیں جو اللہ کی طرف سے دی گئی تکلیف پر اس کا شکر ادا نہیں کرتا‘‘ حضرت رابعہ بصری ؓ نے فرمایا وہ شخص طالب ِ مولیٰ کے دعویٰ میں صادق نہیں جو اللہ کی طرف سے دی گئی تکلیف کو اللہ کے مشاہدہ میں غرق ہوکر بھول نہیں جاتا۔ ‘‘ 
یہ فقیر باھُوؒ ان تمام فقرا کے جواب میں کہتا ہے کہ وہ شخص طلب ِ مولیٰ میں صادق نہیں جو اللہ کی طرف سے دی گئی تکلیف اور مشاہدۂ حق تعالیٰ کو بھول کر اللہ تعالیٰ کی ذات میں غرق نہیں ہوجاتا۔ ( عین الفقر ) 
اللہ کی رضا کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو معلوم ہو کہ اللہ کی رضا ہے کس میں۔ اور یہ جاننے کے لیے لازم ہے کہ اللہ کی پہچان و معرفت حاصل ہو۔
قرآنِ مجید میں اللہ ربّ العزت نے فرمایا ہے :
وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔(سورۃ الذاریات 56)
ترجمہ : میں نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیداکیا ہے ۔
اس آیت کی شرح میں حضرت ابن ِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ  لِیَعْبُدُوْنِ (عبادت کے لیے) سے مراد لِیَعْرِفُوْنِ (معرفت کے لیے) ہے۔ یعنی اللہ نے انسان کو اپنی معرفت کے لیے پیدا فرمایا۔ جب تک اللہ کی پہچان اور قرب کے ذریعے اس کی معرفت حاصل نہیں ہوگی تب تک نہ اس کی رضا معلوم ہو سکے گی نہ ہی اس رضا کے مطابق ہم اپنے اعمال کو ڈھال سکیں گے اور نہ ہی اللہ کو راضی کر سکیں گے۔ صرف جسمانی عبادات معرفت حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتیں۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کا فرما ن ہے :
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔
مندرجہ بالا حدیث کسی حد تک ناقابل ِ فہم لگتی ہے کہ بات تو اللہ تعالیٰ کی معرفت کی ہو رہی ہے تو پھر یہ کیوں کہا گیا کہ اپنی ذات کی پہچان میں اللہ کی پہچان ہے۔
اللہ تعالیٰ کی معرفت کا تعلق ہمارے باطن سے ہے اگر ہمارا باطن پاک اور صاف ہوگا تو ہم اللہ کی پہچان حاصل کر سکتے ہیں۔ روح بھی انسان کے اندر ہے اور اللہ کی ذات بھی انسان کے اندر ہے ۔ 
قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:

وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُُوْنِ۔( سورۃ الذٰریٰت۔21 )
ترجمہ: میں تمہاری ذات کے اندر موجود ہوں کیا تم دیکھتے نہیں ۔

حدیث ِ قدسی میں ارشادِ پاک ہے :
لَا یَسْعُنِیْ اَرْضِیْ وَ لَا سَمََآئِیْ وَلٰکِنْ یَّسْعُنِیْ قَلْبُ عَبْدِ الْمُؤْمِنْ۔
ترجمہ:نہ میں زمین میں سماتا ہوں اورنہ آسمانوں میں بلکہ میں بندۂ مومن کے دل میں سما جاتا ہوں۔ 
حدیث ِ مبارکہ ہے:
قَلْبُ الْمُؤْمِنْ عَرْشَ اللّٰہِ تَعَالٰی۔
ترجمہ: مومن کا قلب اللہ تعالیٰ کا عرش ہے ۔
جس ظاہری گوشت پوست کے جسم کو ہم اپنی ذات سمجھ کر اس کی تزئین و آرائش میں مصروف ہیں اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات پوشیدہ ہے جس کی پہچان اورمعرفت ہم حاصل نہیں کر پا رہے۔ کیونکہ اس کے لیے کسی کامل اکمل مرشد کی صحبت ضروری ہے۔ کامل مرشد کے عطا کردہ اسم اللہ ذات اور اسمِ محمدؐ سے ہی ہم اپنے باطن اور روح کی پاکیزگی حاصل کر سکتے ہیں ۔ کامل اکمل مرشد کے عطا کردہ سلطان الاذکار ’’ہُو‘‘ کے ہماری سانسوں میں جاری ہونے سے ہی ہمارے باطن کا قفل کھلتا ہے۔ تب ہی انسان اللہ کا دیدار حاصل کرتا ہے۔ تب ہی وہ اس ذاتِ حقیقی کی رضا کو سمجھتے ہوئے اپنی زندگی اس کے مطابق گزارتا ہے۔ تب ہی انسان فلاح کے راستے پر چلتا ہے۔ ایسے ہی پاکیزہ باطن اور نفس ِ مطمئنہ کے حامل انسانوں کے متعلق اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ:’’اے نفسِ مطمئنہ! لوٹ اپنے ربّ کی طرف اس حالت میں کہ وہ تجھ سے راضی ہو گیا اور تو اس سے راضی۔(سورۃالفجر۔ 27-28)
سلسلہ سروری قادری کے شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس طالبانِ مولیٰ کو بیعت کے پہلے ہی روز سلطان الاذکار ہُو اور تصور اسم اللہ ذات عطا فرماتے ہیں جس سے طالبِ مولیٰ کے وجود سے غیر اللہ اور خواہشاتِ نفسانی کے بت نکل جاتے ہیں اور طالبِ مولیٰ کی اوّلین ترجیح رضائے الٰہی کا حصول بن جاتی ہے۔ اس کی عبادات اور معمولات اللہ کی رضا کے مطابق ہوتے ہیں۔ سلطان الاذکار ہُوکا ذکر جو پاس انفاس کے ذریعے کیا جاتا ہے اس کی بدولت طالب کا ہر لمحہ یادِ الٰہی میں بسر ہوتا ہے۔
حاصل تحریر یہ کہ انسان کی تخلیق کا مقصد معرفتِ الٰہی کا حصول ہے اور اس کے لیے رضائے الٰہی کے مطابق خود کو ڈھالنا بہت ضروری ہے اور رضائے الٰہی مرشد کامل اکمل کی صحبت میں رہ کر ہی جانی جا سکتی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی رضا کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اپنا تبصرہ بھیجیں