تلاشِ حق-Talash e Haq

Spread the love

Rate this post

تلاشِ حق

تحریر: محمد وقار ارشاد سروری قادری

مشہور مقولہ ہے ’جیسی نیت ویسی مراد‘ جو غالباً اس حدیث کے پیشِ نظر بنایا گیا ہو گا اِنَّمَا الْعَمَالُ بِالنِّیَّاتِ  یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ کسی بھی کام کے نتائج وہی مرتب ہوتے ہیں جیسا اس کا ارادہ یا نیت کر کے کام کا آغاز کیا جاتا ہے چاہے وہ کام دنیاوی ہو یادینی۔ نیت یا ارادہ درحقیقت انسان کی سوچ ہی ہے ۔ انسان کسی شے کے بارے میں جیسی سوچ جیسا گمان رکھتا ہے وہ شے اُسی گمان کے مطابق ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات کے متعلق بھی مختلف مکاتبِ فکر موجود ہیں جولوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ اس ذاتِ کبریا کو نہ تو پایا جا سکتا ہے نہ دیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس دنیاوی زندگی میں اُس تک رسائی ممکن ہے تو وہ لوگ اپنی سوچ کے عین مطابق اللہ کی ذات سے محروم رہتے ہیں۔

سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
*وَمَنْ کَانَ فَیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی (سورہ بنی اسرائیل – 72)
ترجمہ: جو شخص اس دنیا میں (لقائے الٰہی سے) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی (دیدارِ الٰہی کرنے سے) اندھا رہے گا۔
قَدْخَسِرَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآئِ اللّٰہِ ط (سورہ الانعام 31-)
ترجمہ: بے شک وہ لوگ خسارے میں ہیں جنہوں نے لقائے الٰہی (دیدار) کو جھٹلایا۔
ایک طبقہ ایسا ہے جو یہ گمان کیے بیٹھا ہے کہ محض ظاہری شریعت کے فرائض اور حقوق العباد ادا کرنا کافی ہے لہٰذا یہ طبقہ تمام زندگی ظاہری عبادات کے سمندر سے باہر نہیں پاتا۔اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا وَرَضُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَاطْمَاَنُّوْا بِھَا وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ o اُولٰٓئِکَ مَاْوٰھُمُ النَّارُ بِمَاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ۔ (سورہ یونس 7-8)
ترجمہ: بے شک جو لوگ لقائے الٰہی (دیدار) کی خواہش نہیں کرتے اور دنیا کی زندگی کو پسند کر کے اس پر مطمئن ہو گئے اور ہماری نشانیوں سے غافل ہو بیٹھے‘ انہیں ان کی کمائی سمیت جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
* اگر کسی کو اطاعت و ریاضت اور پارسائی سے حق (اللہ تعالیٰ) حاصل ہوتا تو ابلیس کو ہوتا کہ وہ زاہد و عابد اور اطاعت گزار تھا لیکن زہد و ریاضت سے اس کے وجود میں کبر و اَنا پیدا ہو گئی تھی جس سے وہ مردود ہو گیا۔ اگر کسی کو علم و حقیقت سے حق حاصل ہوتا تو بلعم باعور کو ہوتا کہ اس کی مسجد میں ہر وقت بارہ ہزار قلم دوات اس کے علمی نکات لکھنے میں مصروف رہتی تھیں اور قاف سے قاف تک زیر و زبر کی ہر تحقیق ضبطِ تحریر لائی جاتی تھی۔ اگر کسی کو کثرتِ مال سے حق حاصل ہوتا تو قارون کو ہوتا کہ اس کے خزانوں کی حد تحت الثریٰ سے بھی نیچے چلی گئی تھی۔ اگر کسی کو خدائی دعویٰ کرنے سے حق حاصل ہوتا تو فرعون کو ہوتا کہ اس نے خدائی دعویٰ کر ڈالا تھا اور اس کے باعث دریائے نیل میں غرق ہو گیا تھا اور اگر کسی کو جہالت کی بنا پر حق حاصل ہوتا تو ابو جہل کو ہوتا۔ حاصلیتِ حق تعالیٰ کا راز اخلاص و محبت میں ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو چنانچہ اخلاص و محبت نے اصحابِ کہف کے کتے کو کتوں کی قبیل سے نکال کر آدمیوں کی صف میں لا کھڑا کیا جس کے متعلق قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’چھٹا اُن کا کتا ہے‘‘ یہ ان کا غائبانہ قیاس ہے اگر تو اولادِ آدم ہے تو اللہ تعالیٰ کی محبت میں کتے سے کمتر نہ بن۔ (عین الفقر، باب چہارم)
آپؒ پنجابی بیت میں اسی بات کا خلاصہ کرتے ہیں کہ:

جے رب ناتیاں دھوتیاں ملدا‘ تاں ملدا ڈڈواں مچھیاں ھُو
جے رب لمیاں والاں ملدا‘ تاں ملدا بھیڈاں سسیاں ھُو
جے رب جتیاں ستیاں ملدا‘ تاں ملدا دانداں خصیاں ھُو
انہا ں گلاں رب حاصل ناہیں باھوؒ ‘ رب ملدا دلاں ہچھیاں ھُو

مفہوم: اگر اللہ تعالیٰ پاک و صاف رہنے سے حاصل ہوتا تو مینڈکوں اور مچھلیوں کو ہوتا جو ہر وقت پانی میں رہتے ہیں، اگر بال بڑھانے سے حاصل ہوتا تو بھیڑ بکریوں کو حاصل ہوتا، اگر شب بیداری سے حاصل ہوتا تو کال کڑچھیوں (ایک پرندہ جو رات کو جاگتا ہے) کو حاصل ہوتا اور اگر مجرد رہنے سے یا نکاح نہ کرنے سے حاصل ہوتا تو خصی شدہ بیلوں کو حاصل ہوتا لیکن ان تمام باتوں سے حق حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ تو اُنہیں حاصل ہوتا کہ جن کی نیت صاف اور دل اخلاص سے بھرے ہوتے ہیں۔
ان مکاتبِ فکر کے علاوہ ایک گروہ ایسا بھی ہے جو کسی نہ کسی انداز میں اپنے ذہنوں میں یہ سوچ رکھتا ہے کہ حق تعالیٰ کی ذات تک کیسے رسائی ہو سکتی ہے ؟ کیا اُس ربِّ ذوالجلال کو دیکھا جاسکتاہے ؟ کاش میں اپنے ربّ کو دیکھ پاتا۔ کاش میں اپنے خالقِ حقیقی کے رُوبرو پیش ہوکر اپنے دل کی کیفیات بیان کر پاتا۔ کاش۔۔۔
یہی وہ سوچ ہے جو انسان کو حق تعالیٰ کی طرف لے جانے اور اس کے قرب و وصال کی بنیاد بنتی ہے۔ جب انسان اس بات پر مطمئن ہو بیٹھے کہ اللہ تعالیٰ کو پایا ہی نہیں جا سکتا تو پھر اللہ کی ذات تو بے نیاز ہے لیکن جہاں کہیں اپنے ربّ سے ملنے کی ہلکی سی چنگاری بھی سلگتی ہے تو اللہ ربّ العزت اُس چنگاری کو آہستہ آہستہ اپنے عشق کی آگ میں تبدیل کر دیتا ہے اور انسان کی طلبِ حق میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ حق کی طلب ایسی طلب ہے جو جتنی پوری ہو اُتنی ہی بڑھتی چلی جاتی ہے اور طالبِ حق ھَلْ مِنْ مَّزِیْد  کا مصداق بن جاتا ہے۔

دل میں ہو سوزِ محبت کا وہ چھوٹا سا شرر
نور سے جس کے ملے رازِ حقیقت کی خبر

(علامہ اقبالؒ )

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حق کو کہاں تلاش کیا جائے؟

عرش کا ہے ‘ کبھی کعبے کا ہے دھوکہ اس پر
کس کی منزل ہے الٰہی ! مرا کاشانۂ دل

(علامہ اقبالؒ )

اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے کہ:
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(سورہ العنکبوت۔69)
ترجمہ: اور جو لوگ ہماری طرف آنے کی جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں ہم انہیں اپنی طرف آنے کے راستے دکھا دیتے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ہماری طرف آنے کی جدوجہد اور کوشش جبکہ اللہ تعالیٰ تو کون و مکان کی قید سے آزاد ہے تو پھر اس بات کا کیا مطلب ہوا؟
حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
لَایَسْعُنِیْ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآئِ وَلٰکِنْ یَسْعُنِیْ فِیْ قَلْبُ عَبْدِ الْمُؤْمِنْ۔
ترجمہ: نہ میں زمین میں سماتا ہوں اورنہ آسمانوں میں لیکن بندۂ مومن کے دل میں سما جاتا ہوں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
*وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَاتُبْصِرُوْنَ o (سورہ الذٰریٰت21-)
ترجمہ: اور میں تمہارے اندر ہوں کیا تم غور سے نہیں دیکھتے۔
ایک حدیثِ مبارکہ میں آیا ہے کہ:
*قَلْبُ الْمُؤْ مِنِ عَرْشَ اللّٰہِ تَعَالٰی۔
ترجمہ: مومن کا دل اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔
حضرت سخی سلطان باھوؒ پنجابی بیت میں فرماتے ہیں:

ناں ربّ عرش معلّٰی اُتّے، ناں ربّ خانے کعبے ھُو
ناں ربّ علم کتابیں لبھا، ناں ربّ وِچ محرابے ھُو
گنگا تِیر تھِیں مول نہ مِلیا، مارے پینڈے بے حسابے ھُو
جد دا مرشد پھڑیا باھُوؒ ، چھُٹے کُل عذابے ھُو

مفہوم: میں نے اللہ تعالیٰ کو تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ اللہ پاک کا ٹھکانہ نہ ہی عرشِ معلّٰی پر اور خانہ کعبہ میں ہے نہ ہی کتابوں کے مطالعہ میں اور علم حاصل کرنے میں ہے اور نہ ہی مساجد و محراب اور عبادت گاہوں میں ہے اور نہ ہی جنگلوں میں جا کر زہد و ریاضت کرنے میں ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ کا ٹھکانہ مرشد کامل (صاحبِ راز) کے سینے میں ہے اور میں نے جب سے مرشد کا دامن پکڑا ہے تلاشِ حق تعالیٰ کے لیے میری ساری مشقتیں اور پریشانیاں ختم ہو گئی ہیں۔
مندرجہ بالا احادیث اور قرآنی آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حق کو تلاش کرنے کے لیے انسان کو اپنے ہی اندر جھانکنے کی ضرورت ہے ۔ اگر کوئی حق تک پہنچنا چاہتا ہے تو اُسے اپنے باطن کا سفر طے کرنا ہوگا۔

تواے اسیرِ مکاں ! لامکاں سے دور نہیں
وہ جلوہ گاہ تیرے خاک داں سے دور نہیں

(علامہ اقبال)

مذکورہ بالا سورۃ الذّٰریٰت کی آیت ’’اورمیں تمہارے اندر ہوں کیاتم غور سے نہیں دیکھتے‘‘ کے تحت اگر خدائے بزرگ و برتر انسان کے اندر موجود ہے تو ہم اُسے محسوس کیوں نہیں کر پاتے، اسے دیکھ کیوں نہیں پاتے؟دراصل اللہ تعالیٰ اور انسان کے درمیان ’نفس‘ کا حجاب ہے اگر یہ حجاب ہٹ جائے تو انسان اپنے ربّ تعالیٰ تک رسائی حاصل کر لیتا ہے اوراللہ تعالیٰ سے قرب و وصال کے اعلیٰ ترین مقام یعنی دیدارِ الٰہی سے مشرف ہوتا ہے لیکن نفس کے حجاب کو ہٹانا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ نفس شیطان کا آلۂ کار ہے جس کی بدولت شیطان انسان کو صراطِ مستقیم سے بھٹکاتا ہے۔لہٰذا شیطان انسان کا ازلی دشمن ہونے کے ناطے یہ بات ہر گز برداشت نہیں کرتا کہ نفس کے حجاب کو ہٹا کر شیطان کا راستہ بند کر دیا جائے۔ جونہی انسان تلاشِ حق کے لیے کمر بستہ ہوتا ہے شیطان دل میں مختلف وسوسے ڈال کر نفس کی کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا کر کے راہِ حق سے گمراہ کرنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔ جیسا کہ سورۃ الناس میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ o مٰلِکِ النَّاسِ o اِلٰہِ النَّاسِ o مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ o الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِo  مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ۔
ترجمہ: آپ فرما دیجیے کہ میں (سب) انسانوں کے ربّ کی پناہ مانگتا ہوں جو (سب) لوگوں کا بادشاہ ہے۔ جو (ساری) نسلِ انسانی کا معبود ہے۔ وسوسہ انداز (شیطان) کے شر سے جو (اللہ کے ذکرکے اثرسے) پیچھے ہٹ جانے والا ہے۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ خواہ وہ (وسوسہ انداز شیطان) جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔
لہٰذا نفس کے حجاب کو ہٹا کر حق تک رسائی کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایسے امراضِ باطن کے ماہر کی صحبت اختیار کی جائے جو شیطان اور نفس کی مکاری سے مکمل طور پر واقف ہو اور انسان کو نفس کی بیماریوں سے آزاد کر کے اسے نفس کے اعلیٰ ترین درجہ یعنی ’نفسِ مطمئنہ‘ پر فائز کر سکے۔ راہِ تصوف میں نفس کو بیماریوں سے پاک کرکے اس قابل بنانا کہ وہ اللہ اور بندے کے درمیان حجاب کی بجائے اللہ تعالیٰ کے احکامات کا تابع ہو جائے، تزکیۂ نفس کہلاتا ہے۔یوں تو اولیا اللہ کے نزدیک تزکیۂ نفس کے کئی طریقے روا ہیں لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا طریقہ کار سب سے بہترین اور مؤثر ہے جس کے تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی صحبت، بے پناہ روحانی طاقت اور نگاہِ کاملہ کے ذریعے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین کا تزکیۂ نفس فرماتے تھے۔
اگر ہم حق تعالیٰ تک رسائی چاہتے ہیں تو ہمیں ایک ایسے مرشد کامل اکمل کی ضرورت ہے جو عین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طریقہ کار کے مطابق نفس کا تزکیہ کرے۔ ایسا مرشد کامل کو طالب کو اسمِ اللہ ذات کا ذکر و تصور عطا کر کے دیدارِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جیسے باطن کے اعلیٰ ترین مقامات تک پہنچائے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نے مرشد کامل کو طبیب کہا ہے۔ ’’مرشد طبیب (ڈاکٹر) کی مثل ہوتا ہے اور طالب مریض کی مثل۔ ‘‘ (عین الفقر)
آپ ؒ اپنے پنجابی بیت میں فرماتے ہیں:

کامل مُرشد ایسا ہووے، جیہڑا دھوبی وانگوں چھَٹّے ھُو
نال نگاہ دے پاک کریندا، وِچ سَجّی صبون نہ گھتے ھُو
میلیاں نوں کر دیندا چِٹّا، وِچ ذرہ مَیل نہ رَکھے ھُو
ایسا مرشد ہووے بَاھُوؒ ، جیہڑا لُوں لُوں دے وِچ وَسّے ھُو

مفہوم: مرشد کامل اکمل کو دھوبی کی طرح ہونا چاہیے، جس طرح دھوبی کپڑوں میں میل نہیں چھوڑتااور میلے کپڑوں کو صاف کر دیتا ہے اسی طرح مرشد کامل اکمل طالب کو ورد و وظائف، چلہ کشی اور رنجِ ریاضت کی مشقت میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ اسمِ اللہ ذات کی راہ دکھا کر اور صرف نگاہِ کامل سے تزکیۂ نفس کر کے اس کے اندر سے قلبی اور روحانی امراض کا خاتمہ کرتا ہے اور اسے خواہشاتِ دنیا اور نفس سے نجات دلا کر اور غیر اللہ کی محبت دل سے نکال کر صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق میں غرق کر دیتا ہے۔ مرشد تو ایسا ہونا چاہیے جو طالب کے لُوں لُوں میں بستاہو۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس آج کے اس پُرفتن دور میں بھی شمعِ معرفت روشن کیے ہوئے ہیں۔ بے شمار طالبِ حق آپ مدظلہ الاقدس کی بارگاہ سے واصلِ حق ہو چکے ہیں اور اپنا مقصدِ حیات یعنی معرفتِ الٰہی پا چکے ہیں۔ ہر اُس طالب کو دعوتِ عام ہے جو تلاشِ حق کے لیے کوشاں ہے کہ سلطان العاشقین کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کر اپنی تلاش کو منزل تک پہنچائے۔ مگر یہاں ایک مرتبہ پھر اِسی بات کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہوں گا کہ یہ راہ خلوص اور صدق کی راہ ہے۔ جو طالب اپنی طلب میں جس قدر مخلص اور کھرا ہو گا اتنا ہی اس کے لیے منزل تک پہنچنا آسان ہو گا۔
حضرت بلھے شاہؒ کے مطابق جس نے رازِحق پایا راہِ باطن تلاش کر کے ہی پایا اور جس نے یہ راز پا لیا وہ آخر سکونِ حقیقی کا حقدار بن گیا اور خوشی و غم، گناہ و ثواب، حیات و موت اور ہر طرح کے امتیاز سے آزاد ہو گیا۔

جس پایا بھید قلندر دا
راہ کھوجیا اپنے اندر دا
اوہ واسی ہے سکھ مندر دا
جتھے چڑھدی اے نہ لہندی اے
ایہہ تلکن بازی ویہڑا اے
تھم تھم کے ٹرو اندھیرا اے
وڑ اندر ویکھو کیہڑا اے
کیوں خلقت باہر ڈھونڈیندی اے
منہ آئی بات نہ رہندی اے

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ تمام طالبانِ مولیٰ کو نفس، دنیا اور شیطان کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھے اور تلاشِ حق کے سفر میں ثابت قدمی اور استقامت عطا فرمائے۔ آمین
استفادہ کتب:
شمس الفقرا
فقرِ اقبال


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں