حیا–Haya

Spread the love

Rate this post

حیا

محمد یوسف اکبر سروری قادری

حدیث مبارکہ ہے:
* اِنَّ لِکُلِّ دےْنِِ خُلْقًا وَ خُلُقُ الْاِسْلَامِ اَلْحَےَاءُ
ترجمہ: بے شک ہر دین کی ایک خصلت ہوتی ہے اور اسلام کی خصلت حیا ہے۔
لغوی معنی:
حیا کے لغوی معنی وقار، متانت، سنجیدگی، کردار کی پاکیزگی کے ہیں، پاکیزگیِ نفس، تقویٰ، پرہیزگاری۔

اصطلاحی معنی:
اصطلاحی طور پر حیا سے یہ مراد لیا جائے گا ’’نفس کا غیر سنجیدہ اور غیر اخلاقی افعال کی انجام دہی سے تنگی اور جھجک محسوس کرنا اور اللہ ربّ العزت کے خوف سے اسے سرانجام نہ دینا ’’حیا ‘‘ کہلاتا ہے۔
حیا وہ وصف ہے جس کی وجہ سے کسی غیر اخلاقی کام کرنے میں نفس تنگی اور ملامت محسوس کرے۔ علامہ ابنِ حجر مکی کے نزدیک حیا وہ اخلاقِ حسنہ ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور غیر اخلاقی کا م یا برائی نہ کرنے پر ابھارتا ہے۔
’’حیا‘‘ کی دو اقسام مندرجہ ذیل ہیں۔
1 ۔ فطری حیا
2 ۔ کسبی حیا
فطری حیا:
ہر ذی شعور انسان فطری طور پر حیا کے وصف سے متصف ہوتا ہے اور اس کے اندر بھلائی، خیر اور حُسنِ عمل سے لگاؤ ، عفت و پاکدامنی کے اوصاف، جو دوسخا، فیاضی اور انسانی ہمدردی کی بنیادی خصوصیات موجود ہوتی ہیں جو انسان کو نیک اعمال کی طرف مائل کرتی ہیں اور پاکیزگی اور تقویٰ سکھاتی ہیں۔
کسبی حیا:
ہر ذی شعور انسان حیا اور دیگر خصوصیات سے بچپن ہی سے متصف ہوتا ہے لیکن بعض افراد کے اندریہ خصوصیات واضح ہوتی ہیں اور بعض کے اندر پوشیدہ۔اسلام حیا کے وصف اور خصوصیت کو زندگی میں بقا اور دوام بخشنے پر زور دیتا ہے اور تعلیم و تربیت، تقویٰ اور تزکےۂ نفس کا ایک محکم نظام فراہم کرتا ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے فرد اور معاشرے میں حیا کو دوام حاصل ہو سکتا ہے اور بے حیائی، فحاشی اور غیر اخلاقی امور سے بچا جا سکتا ہے۔ اسلام عبادات کا ایک مربوط اور محکم نظام فراہم کرتا ہے اور اس کے ذریعے ’’حیا‘‘ کو معاشرے میں پھیلانے اور تقویت فراہم کرنے پر زور دیتا ہے۔

حیا سے بھرپور معاشرے کا قیام:
اسلام نہایت نفیس دینِ متین ہے اور اپنے اندر وسعت و نفاست لئے ہوئے ہے اور معاشرے کو صاف ستھرا رکھنے پر زور دیتا ہے اور ایسے معاشرے کی تشکیل پر زور دیتا ہے جو اخلاقِ حسنہ سے مزین ہو۔ اسلام نظروں کو پست رکھنے، نگاہوں کی حفاظت و حرمت پر زور دیتا ہے، عورتوں اور مردوں کو ’’حیا‘‘ سے بھر پور زندگی گزارنے کا طریقہ اور سلیقہ سکھاتا ہے مردوزن کو اپنے ستر (پوشیدہ اعضائے جسمانی) کو ڈھانپ کر اور چھپا کر رکھنے کا حکم دیتا ہے اور با حیا اور باوقار لباس زیبِ تن کرنے کا پرُ وقار طریقہ سکھاتا ہے اور ایسے پاکیزہ اخلاقِ حسنہ سے مزین اصول و قواعد فراہم کرتا ہے جن سے بے حیائی اور غیر اخلاقی کاموں کو پنپنے کا موقع ہی نہ مل سکے اور معاشرے اور سماج میں خیر کی روایات کو پروان چڑھنے کے لئے پوری طرح فضا ہموار کرتا ہے۔
اسلام جہاں ظاہری طور پر باوقار لباس زیبِ تن کرنے کا حکم دیتا ہے وہیں اللہ جل شانہٗ کا خوف رکھنے اور پاکدامنی اختیار کرنے کا بھی حکم دیتا ہے۔ ا س کی مثال قرآنِ کریم میں سورہ یوسف میں بیان کی گئی ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو عزیزِ مصر کی بیوی نے اپنی جانب مائل کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے کہا ’’معاذ اللہ‘‘ میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔
جس طرح لباسِ ظاہری انسان کے لئے حفاظت اور ڈھال کے طور پر کام کرتا ہے اسی طرح تقویٰ، پاکدامنی اور پرہیزگاری کا لباس اخلاقِ رزیلہ سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ اسلام نے جہاں ظاہری لباس سے ستر پوشی کا حکم دیاوہیں تزکےۂ نفس کے ذریعے تقویٰ کا لباس اختیار کر کے بے حیائی اور بے شرمی کے کاموں اور باتوں سے اجتناب کی تلقین شرعی بھی کی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
* وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ (سورۃ الاعراف۔26)
ترجمہ: اور تقویٰ کا لباس ہی بہتر ہے۔
تقویٰ یعنی پاکدامنی و پرہیزگاری کا لباس در حقیقت خوفِ خدا ہے۔

خیرو شر کے جذباتِ نفسانی، خواہشات:
اللہ ربّ العزت نے انسانوں کے اندر خیر و شراور بھلائی و برائی دونوں طرح کے جذبات پیدا کیے ہیں قرآنِ کریم میں ارشادِ ربانی ہے:
* فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا (سورۃ الشمس)
ترجمہ: پھر اس پر بدی و پرہیزگاری الہام کردی۔
یعنی نیکی و بدی اور خیروشر دونوں طرح کے رحجانات اور میلانات پیدا کر دئیے۔ جس شخص پر جو رنگ غالب ہوگا اس کا اثر اس کی شخصیت میں نمایاں اور واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔

حیا خیر اور بھلائی کا جذبہ ہے
’’حیا‘‘ بھلائی اور خیر کا حسین جذبہ ہے یہ ایک ایسی خوبصورت صفت ہے جس سے متصف انسان کی طبیعت کا میلان خیر، بھلائی اور نیک کاموں کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اور غیر اخلاقی اعمال اور منکرات سے اسے نفرت ہوجاتی ہے۔
رسولِ اکرم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو اخلاقِ حسنہ کا نمونہ ہیں‘ ارشاد فرماتے ہیں:
* اَلْحَےَآءُ لَا ےَاتِیْ اِلَّا الْخَےْر (متفق علیہ)
ترجمہ : ’’حیا‘‘ خیر و بھلائی کی امید کے سوا کچھ نہیں۔
ایک اور حدیث مبارکہ کے الفاظ اس طرح سے ہیں:
* اَلْحَےَاءُ خَےْرَکُلُّہٗ (مسلم شریف)
ترجمہ: حیا مکمل بھلائی اور خیر ہے۔
ایمان حیا سے ہے اور حیا انسانی زندگی کا روشن چراغ اور اس کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ اسی طرح حیا اور ایمان کا باہمی رشتہ ہے۔ تمام انبیا کی تعلیمات میں حیا ایک لازمی جزو اور اعلیٰ مقام کی حامل ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں ایمان کے ستر سے زائد شعبہ جات کا بیان مرقوم ہے لیکن پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان شعبوں کی تفصیل میں اعلیٰ اور ادنیٰ کو چھوڑ کر صرف صفتِ ’’حیا‘‘ کا ذکر فرمایا کہ ’’حیا‘‘ ایمان کا حصہ ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ’’حیا‘‘ انسان کو ستر سے زائد شعبہ جات کی طرف لے جانے والی راہ اور خصلت ہے۔ حیا ان تمام شعبہ جات کی محرک، بنیاد اور اصل ہے جو ان سب کو قوت اور تقویت فراہم کرتی ہے۔
نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے:
* اَلْحَےَاءُ مِنَ الْاِےْمَانِ وَالْاِےْمَانِ فِی الْجَنَّۃِ
ترجمہ:حیا ایمان ہے جزو ایمان ہے اور ایمان جنت کی طرف لے جاتا ہے ۔
* وَالْبِدَاءُ مِنَ الْجَفَاءِ وَالْجَفَاءِ فِیْ النَّار۔ (مسند احمد)
ترجمہ: بے حیائی جفا ہے اور بے وفائی جہنم میں لے جانے کا موجب ہے۔
حیا‘ خیر، بھلائی، نیک کاموں کا داعی اور شر، جفا اور منکرات سے اجتناب کا ذریعہ ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جس معاشرے میں پیدا ہوئے اس میں اخلاقی برائیاں عام تھیں۔ دیگر اخلاقی اوصاف کے معدوم ہوجانے کی طرح ’’ حیا‘‘ کا وصف بھی دم توڑ چکا تھا ۔ایسے پست ماحول میں رہنے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بچپن اور لڑکپن میں بھی کبھی گھر سے اپنے جسمِ اطہر کو ڈھانپے بغیر باہر نہ نکلتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حیا کو اپنا قرینہ بنایا اور انسانیت کو با حیا ہونے کا طریقہ نہ صرف سکھایا بلکہ بہترین عملی نمونہ بھی پیش کیااور احترامِ آدمیت کا وہ سلیقہ بتایا جس پر انسانیت فخر محسوس کرتی ہے۔ معاشرے کو حیا کی تعلیم دی اور شر م وحیا کا حجاب عطافرما کر انسانیت پر احسانِ عظیم کیا۔
حیا لباسِ انسانیت کا علمدار ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کبھی مخلوط محفلوں میں بھی شرکت نہ فرماتے۔ غیر محرم مرد وعورت کا کسی بھی مقام پر تنہائی میں اکٹھے ہونا حیا کے نازک آبگینے کو توڑ دینے کے مترادف ہے اسی لئے محسنِ انسانیت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ’’ جب دوغیر محرم مرد و عورت آپس میں ملتے ہیں تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔‘‘ (مسند احمد)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے زندگی بھر قضائے حاجت کے وقت بھی اپنے آپ کو عوام الناس کی نظروں سے پوشیدہ رکھا حالانکہ عرب کے معاشرے میں اس کا زیادہ اہتمام نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ آدابِ حیا بظاہر معمولی معلوم ہوتے ہیں مگر بے حد معاشرتی اہمیت رکھتے ہیں۔ انسان زمین پر نائبِ ربِ ذوالجلال ہے ۔اس کو جو اوصاف دوسری تمام مخلوقات سے ممتازو ممیز کرتے ہیں ان میں سب سے نمایاں صفت ’’حیا‘‘ اور جذبہ عفت و عزت ہے۔ انسان کا بدنی لباس اسے موسم کی شدت سے بھی حفاظت فراہم کرتا ہے اور اسے زیبائش و آرائش بھی عطا کرتا ہے مگر سب سے اہم مقصد جو لباس زیب تن کرنے سے پورا ہوتا ہے وہ ستر کا ڈھانپ کر رکھنا اور اپنی حیا کا تحفظ کرنا ہے۔ جس شخص میں حیا نہیں گویا اس میں ایمان نہیں ۔ حیا کی صفت سے عاری انسان ہر ذلت و پستی میں گرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے جبکہ با حیا انسان اپنی اس صفت کی وجہ سے تمام مشکلات کے باوجود اپنے کردار اور شرفِ انسانیت کی لاج رکھتا ہے۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اخلاق و کردار ہر پیمانے اور ہر زاویہ نگاہ سے منفرد و بے مثال اور قابلِ تقلید و ستائش ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں تمام فضائل و اخلاقِ حسنہ بدرجہ اتم و اعلیٰ موجود تھے۔اور حیا کی صفت بھی اتنی ہی نمایاں تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین آپ کی اس صفت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اعلیٰ خاندان کی با حیا پردہ نشین کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ حیا دار اور شرمیلے تھے۔ (صحیح مسلم)

صحابہ کرامؓ کی حیا
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نظرِ رحمت سے شرم و حیا کے پیکر تھے۔ خلیفہ سوم سیّدنا عثمانؓ بن عفان کا یہ امتیاز تمام صحابہ میں ممتاز ہے کہ وہ شرم و حیا کے پیکر تھے۔ انؓ کے بارے میں سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ زندگی بھر انہوں نے اپنا جسم مبارک برہنہ نہ ہونے دیا۔ غسل کے وقت بھی اپنا ستر کپڑے سے ڈھانپنے کا طریق اپناتے ۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسی لیے آپؓ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ ربّ العزت کے فرشتے بھی عثمانؓ سے حیا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے امت کے سامنے اس کا ایک مفہوم یہ بھی بیان فرمایا ’’اللہ سے حیا کرو جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے۔‘‘
اس حدیث مبارکہ کو حضرت عبد اللہ ابنِ مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرامؓ کی مجلس سے فرمایا : ’’اللہ سے حیا کرو اور پوری طرح حیا کرو جیسا کہ اس سے حیا کرنے کا حق ہے‘‘۔ اہلِ محفل نے بیک زبان کہا ’’اے اللہ کے پیارے رسول! اللہ کا شکر ہے کہ ہم تو اللہ ربّ ذوالجلال سے حیا کرتے ہیں‘‘۔ حضور پُر نور نے یہ جواب سن کر فرمایا ’’اللہ ربّ کریم سے حیا کرنے کا مطلب صرف اتنا نہیں ہے کہ حیا کی جائے بلکہ اس کا صحیح مفہوم و مطلب یہ ہے کہ انسان ا پنے سِرّ کی حفاظت کرے اور دماغ میں آنے والے خیالات کی بھی نگرانی و حفاظت کرتا رہے۔ پیٹ کے اندر جانے والی غذاکی بھی حفاظت کرے ۔ یعنی اکلِ حلال او ر صدقِ مقال کا خیال رکھے۔ اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے یعنی بدکاری اور بُرے کاموں سے بچے اور اپنے نفس کا تزکیہ کرے۔ اللہ کے خوف میں مبتلا رہے۔ جو آدمی آخرت کا طالب ہو وہ زیب و زینتِ دنیا ترک کر دیتا ہے یعنی اخروی زندگی کو دنیاوی زندگی پر ترجیح دیتا ہے پھر سرورِ کائنات نے فرمایا جس نے یہ کام کر لئے پس اس نے اللہ سے حیا کرنے کا حق ادا کردیا۔ ‘‘ (ترمذی)

بے حیائی بد بختی ہے
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشادِ مبارکہ ہے ’’ اللہ ربّ العزت جب کسی بندے کی ہلاکت کا فیصلہ کرتاہے تو اسے حیا کی صفت سے محروم کر دیتا ہے اور جب وہ حیا سے محروم ہو جاتا ہے تو نفرت اسکا مقدر بن جاتی ہے۔ نفرت میں گرفتار ہونے کے بعد دیانت و امانت کی خوبی بھی اس سے ختم ہو جاتی ہے ۔اور خائن شخص اللہ کی رحمت کا حق دار نہیں رہتا اور جس سے رحمتِ خداوندی روٹھ جائے وہ بدترین لعن طعن میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اس لعنت و ملامت کی کیفیت میں اس بدبخت کے دل سے اسلام اور ایمان بھی رخصت ہو جاتا ہے۔(ابنِ ماجہ)
دراصل تباہی محض جسمانی طور پر برباد ہونے کا نام نہیں بلکہ دل کے بے نور ہوجانے اور روح کے مردہ ہوجانے کا نام ہے ۔
قارئین کرام !آج کے اس پر فتن دور میں ہم شیطانی حملوں کے سامنے ترنوالہ بن چکے ہیں اور ذلت و پستی ہمارا مقدر بن چکی ہے۔ کفر کا سورج اُمتِ مسلمہ پر آگ بر سا رہا ہے اور غروب ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ہمیں اپنے دین و ایمان اور روحِ ایمانی کو محفوظ کرنے کے لئے حیا کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا ہم اس نبی مکرم کی اُمت ہیں جنہوں نے حیا کو جزوِ ایمان قرار دیا اور خود زندگی بھر اس پریوں کاربند رہے کہ بدترین دشمن کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیا اور پاک دامنی کا اعتراف کرنا پڑا۔ ہمیں اپنے معاشرے میں خیرو بھلائی، حسن و خوبی کو حیا کے تابع کرنا ہوگا اور اپنی ذات، گھر، دفاتر، گلی کوچے، محلات، تقریبات و ملبوسات ہر چیز کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے زیر اثر لانا ہو گا اور حیا کواپنی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔ اس کا آغاز ہمیں اپنی ذات اور گھر سے کرنا ہوگا تو اس کے اثرات مرتب ہونے لگیں گے۔ اور یوں پورا معاشرہ معطر ہوجائے گا اور عرفانِ نفس سے یہ کام بخوبی سر انجام دیا جاسکتا ہے۔
حیا کے بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب فارسی رباعی کہی ہے جس میں شاعر فرطِ محبت میں اپنے عیب ’’ حیا‘‘ کی بان پر آقا دوجہاں سے نامہ اعمال چھپا کر رکھنے کی اللہ ربّ العزت سے درخواست کرتا ہے۔
رباعی:
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذرہائے من پذیر
گر تو بینی در حسابم ناگزیر
از نگاہِ مصطفیؐ پنہاں بگیر
شاعر حیا کی صفات سے سر شار ہے مگر گناہ گار ہے اور اللہ ربّ العزت سے التجا کرتا ہے کہ اے میرے ربّ !تو عالم کا غنی ہے اور میں تیرے در کا ادنیٰ سا فقیر ہوں۔ حشر کے روز میری خطائیں معاف کر دینا اور درگزر کرنا۔ اے ربّ !اگر پھر بھی میرا حساب لینا ناگزیر ہو درگزر کے قابل نہ ہو تو میرے ربّ میرے گناہوں کو، بُرے اعمال کو میرے پیارے آقا مصطفیؐ کریم اور غم خوارِ امت سے پوشیدہ رکھنا کیونکہ ان سے مجھے حیا آتی ہے۔
حیا کی صفت کے حصول کا طریقہ یہی ہے کہ انسان قلبی و روحانی طور پر پاکیزہ ہو۔ قلب روح کی پاکیزگی مرشد کامل اکمل کی محبت اوراسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور سے حاصل ہوتی ہے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس موجودہ دور کے فقیرِ کامل ہیں جو اپنی نگاہِ کامل سے قلب و روح کی صفائی فرما رہے ہیں جس کے بعد انسان حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صفات سے متصف ہونا شروع ہوجاتا ہے اور غیر اللہ کی طرف رجوع کرنے اور گناہوں کی غلاظت میں گرنے سے اسے حیا آتی ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی ایسا باحیا بنا کہ ہم بھی کسی غیر اللہ کی طرف متوجہ نہ ہوں۔ آمین


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں