حقیقت ِنفس اور تزکیۂ نفس Haqiqat e Nafs aur Tazkia e Nafs


4.6/5 - (33 votes)

حقیقت ِنفس اور تزکیۂ نفس (Haqiqat e Nafs aur Tazkia e Nafs)

تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

’’حقیقت ِنفس اور تزکیۂ نفس‘‘           بلاگ آڈیو میں سسنے کے لیے  اس ⇐لنک⇒   پر کلک کریں. 

انسان کی کامیابی کا راز اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ان الفاظ میں بیان فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی (سورہ اعلیٰ۔14)
ترجمہ: بیشک وہ فلاح پاگیا جس (کے نفس) کا تزکیہ ہو گیا۔

سب سے پہلے نفس کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نفس کیا ہے؟ نفس کے ایسے کونسے اعمال ہیں جن کی وجہ سے اس کا تزکیہ کرنا ضروری ہے اور تزکیہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟

نفس کی اگر آسان ترین تعریف کی جائے تو اس سے مراد انسان کی اپنی ذات ہے جس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، اسی کی وجہ سے انسان کے اندر خواہشات اور شہوات پیدا ہوتی ہیں، اسی میں سرکشی پیدا ہوتی ہے اور یہی انسان کو برائی کے راستے پر لے جاتا ہے۔ اگر اس کا بروقت تزکیہ نہ کیا جائے تو اس کی سرکشی بڑھتی چلی جاتی ہے اور انسان گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے۔

تزکیہ کیا ہے؟

عربی لغت کے اعتبار سے تزکیہ زکیٰ سے ہے جس کا مطلب ہے پاک ہونا۔ لہٰذا تزکیہ نفس سے مراد ہے نفس کا پاک ہونا اور اللہ تعالیٰ نے نفس کی پاکیزگی سے ہی فلاح کو مشروط فرمایا۔ شاہ محمد ذوقیؒ فرماتے ہیں:
نفس کو ذمائم سے پاک کرنا تزکیہ ہے۔ (سرِّدلبراں)

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کثرت سے عبادات کرتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، حج و عمرہ کرتے ہیں، وردوظائف کے لیے تسبیحات بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی اللہ کی معرفت اور قرب سے محروم رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ نفس کا تزکیہ نہیں ہوا ہوتا۔ اگر نفس پاک نہیں ہوگاتو کیا ان عبادات کا حق ادا ہو سکے گا؟ کیا اللہ کی معرفت اور قرب حاصل ہو سکے گا؟ ہرگز نہیں۔ حدیثِ مبارکہ ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ صُوَرِکُمَ وَ لَا اَعْمَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَنْظُرُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَ نِیَّاتِکُمْ 
ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے نہ اعمال کو بلکہ اللہ تعالیٰ تمہارے قلوب اور تمہاری نیتوں کو دیکھتا ہے۔

اگر ہماری نیت ہی پاکیزہ نہیں ہوگی تو اعمال بھی ہرگز مقبول نہ ہوں گے۔ نفس کی چار حالتیں ہیں: نفسِ امارہ، نفسِ لوامہ، نفسِ ملہمہ اور نفسِ مطمئنہ

برائیوں میں مشغول کرنے والا نفس امارہ ہوتا ہے جو برائی کا قصد کرتا ہے اور گناہوں پر ابھارتا ہے اور غلطی و گناہ ہونے پر اس کا احساس بھی نہیں ہونے دیتا جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا جبکہ وہ جانتے تھے کہ قتل ایک گھناؤنا اور قبیح فعل ہے لیکن ان کے نفس کی سرکشی نے ان کے اندر سے یہ احساس ہی ختم کر دیا تھا کہ وہ ایک گناہ کرنے جا رہے ہیں۔ اسی طرح زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو برائی پر آمادہ کرنا چاہا کیونکہ اس کے نفس کی سرکشی نے اس کی عقل و شعور پر پردے ڈال دئیے تھے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے سورۃ یوسف میں ارشاد فرمایا:
اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ م بِالسُّوْٓئ  (سورہ یوسف۔53)
ترجمہ: بیشک نفسِ امارہ برُائی کا امر کرتا ہے۔ 

نفسِ امارہ کے متعلق امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ ’’احیاء العلوم‘‘ میں فرماتے ہیں:
نفسِ انسانی وہ شے ہے جو قوت، غضب اور شہوت کی جامع ہے۔ نفسِ انسانی وہی ہے جس میں صفاتِ مذمومہ جمع ہیں۔ نفس کا قائد ’’ناقص حرص‘‘ ہے۔

سیدّ علی بن عثمان ہجویری رحمتہ اللہ علیہ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں:
نفس (امارہ) برائی کا سرچشمہ اور شرارت کا منبع ہے۔ تمام اخلاقِ رذیلہ اور افعالِ شنیعہ (مرا د ناپاک، غلط، گھناؤنے کام) کا باعث یہی نفس ہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نفسِ امارہ کے متعلق فرماتے ہیں:
نفس غصے کی حالت میں درندہ بن جاتا ہے، گناہ کرتے وقت بچہ بن جاتا ہے، نعمت کی فراوانی کے وقت فرعون بن جاتا ہے، سخاوت کے موقع پر قارون بن جاتا ہے، بھوک میں پاگل کتا بن جاتا ہے اور جب شکم پرُ ہو تو متکبر اور مغرور گدھا بن جاتا ہے۔ (عین الفقر)

دونوں جہان میں نفس سے زیادہ برُی اور کمینی چیز کوئی اور نہیں ہے۔ جو آدمی معرفتِ الٰہی حاصل کر لیتا ہے وہ نفس کو پاؤں تلے روند کر اپنی ہستی کو مٹا دیتا ہے۔ جو آدمی نفس کو اپنا دوست بنا لیتا ہے وہ نفس کا قیدی بن کر ہوا و ہوس کی مستی میں غرق ہوجاتا ہے اور ہوا و ہوس سے مغلوب ایسے نفس کو ’’سرکش توسن‘‘ (منہ زور جوان گھوڑا) کہتے ہیں جس پر ہر وقت خود پسندی سوار رہتی ہے۔ خلق کی نظر میں تو وہ آدمی ہوتا ہے لیکن خالق کی نظر میں وہ خنزیر ، گدھے ،کتے اوربندر جیسا حیوان ہوتا ہے۔ صورت میں آدمی لیکن سیرت میں حیوان۔ ایسے حیوان سے بات کرنا منا سب نہیں۔ یوں کہیے کہ ایسا صاحبِ نفس ہزار شیطانوں سے بد تر ہے اور اہلِ نفس آدمی سے دوری اختیار کرو۔ (محک الفقرکلاں)

نفس کے تین حروف ہیں ن، ف، س۔ حرف ’ن‘ سے نیتِ بد، نالائق، نان طلب (رزق کی طلب کرنے والا)، ایمان کش، ناقص اور ناپسند۔ حرف ’ف‘ سے فریب دینے والا، فتنہ پرور، فضیحت پسند، فساد برپا کرنے والا اور فاجر۔ حرف ’س‘ سے لوہے اور پتھر سے بھی زیادہ سخت، جو شیطان کے موافق اور رحمن کے مخالف ہوتا ہے۔ یہ حقیقت نفسِ امارہ کی ہے جو کافروں، منافقوں، ظالموں، دنیاداروں اور کاذبوں کا ہوتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

پنجابی ابیات میں حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

صوُرت نفس اماّرہ دِی، کوئی کتا گلرّ کالا ھوُ
کوُکے نوُکے لہو پیوے، منگے چرَب نوالا ھوُ

مفہوم: نفسِ امارہ کی صورت اور حالت اُس سیاہ رنگ کے کتے کے بچے کی طرح ہے جو ہر وقت بھوک کے مارے ٹوں ٹوں کرتا رہتا ہے اور مزیدار اور لذیذ غذا کھانے پینے کو مانگتا رہتا ہے۔ (ابیاتِ باھوؒ کامل)

میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
نفسِ امارہ کفار، مشرکین، منافقین، فاسقین، فاجر اور دنیادار لوگوں کا ہوتا ہے۔ اگر اس کی اصلاح اور تربیت نہ کی جائے تو یہ اپنی سرکشی، بغاوت اور طغیانی میں ترقی کرتا ہے اور انسان سے حیوان، حیوان سے درندہ بلکہ مطلق شیطان بن جاتا ہے۔ نفسِ امارہ مملکت ِ وجود میں بادشاہ ہے اور شیطان اس کا وزیر اعظم ہے جو ہر وقت مصلحت اندیشی اور خودپرستی کی منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔ جیسے ہی دل ذکرِ اللہ سے فارغ ہوتا ہے تو یہ حملہ شروع کر دیتا ہے۔ (شمس الفقرا)

جب نفس کا تزکیہ شروع ہوتا ہے تو اس کی طغیانی میں کمی واقع ہونے لگتی ہے اور انسان گناہ کے سرزد ہونے پر شرمندہ ہوتا ہے اور بے چینی محسوس کرتا ہے کہ اس سے کوئی غلط فعل سرزد ہو گیا ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ بعض لوگ نفس کی اس ملامت کو ضمیر کی خلش کا نام بھی دیتے ہیں۔ قرآنِ پاک میں اسے نفسِ لوامہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں نفس کی اس حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ وَلَآ  اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ  (سورۃ القیٰمَۃ 2-1)
ترجمہ:’’خبردار !میں قسم کھاتا ہوں روزِ قیامت کی اور نیز قسم کھاتا ہوں نفسِ لوامہ (گناہوں پر ملامت کرنے والے نفس) کی۔ 

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
اگر اس نفس (امارہ) کی اصلاح مرشد کامل اکمل کی زیرِ تربیت ہو تو یہ بتدریج باطن میں عالم َملکوت اور حیاتِ طیبہ کی طرف عروج کرتا ہے اور امارہ سے لوامہ ہو جاتا ہے۔ (شمس الفقرا)

اگر انسان مزید تزکیہ پر آمادہ ہو اور اس کے لیے جدوجہد بھی کرے، ہمہ وقت نفس کی چالوں پر نظر رکھے، اس کو اس کی من پسند مراد نہ دے اور نہ ہی نفس کو خود پر غالب آنے دے تو نفس لوامہ سے ملہمہ ہو جاتا ہے۔ ملہمہ کا مطلب ہے الہام کرنے والا۔ یعنی اگر انسان گناہ یا برائی کی طرف مائل بھی ہونے لگے تو قدرتِ ربانی سے انسان کو الہام ہوتا ہے کہ یہ کام غلط ہے۔ اگر انسان اس الہامی پیغام پر عمل کرے گا تو اس گناہ سے محفوظ رہے گا اور اگر اس پر توجہ نہ دے گا تو اس سے گناہ سرزد ہو جائے گا اور بالآخر پچھتانا پڑے گا۔اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ  رَبِّہٖ وَ نَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی۔ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی۔  (سورۃ النازعات41-40)
ترجمہ: اور جو شخص قیامت کے روز اﷲ کے روبرو (حساب کے لئے) کھڑا ہونے سے ڈرا اور اُس نے اپنے نفس کو شہوات اور خواہشا تِ نفسانی سے باز رکھا پس ایسے شخص کا ٹھکانہ بیشک بہشت ہے۔

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
نفسِ ملہمہ انسان کو ارتکابِ گناہ کے وقت تائیدِغیبی کے ذریعے یا الہام سے گناہوں اور غلط کاموں سے روکتا ہے اور یہ الہام مختلف طریقوں سے ہوتا ہے۔ بعض دفعہ انسان کو صحیح دلیل یا خیال کے ذریعے گناہ سے روکتا ہے، بعض کو غیب سے الہام کے ذریعے بے صوت و آواز القا ہوتا ہے اور بعض دفعہ خواب کے ذریعے آگاہ کیا جاتا ہے جس سے انسان کے دل میں خوفِ خدا موجزن ہو جاتا ہے اور انسان گناہوں سے باز آجاتا ہے۔ اس کے بعد جب نفس باطن میں ترقی اور عروج حاصل کرتا ہے اور اس کا تزکیہ ہو جاتا ہے تو وہ ’’نفسِ مطمئنہ‘‘ ہو جاتا ہے۔مرشد کامل اکمل کی زیرِنگرانی نفس اس ازلی راہزن شیطان اور اپنے باطنی امراض سے نجات پا کر اپنی منزل دار الامان اور منزلِ حیات تک پہنچ کر اپنے مقصود کو پا لیتا ہے جو مقامِ لَا تَخَفْ وَ لاَ تَحْزَنْ (خوف و غم سے امن کا مقام) ہے۔ (شمس الفقرا)

ایسا نفس ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے اور اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔ وہی اعمال سرانجام دیتا ہے جن میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہوتی ہے۔ ایسے نفس کے حامل افراد سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور انہیں اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل کرتے ہوئے جنت کی بشارت دیتا ہے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ۔ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً۔ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ ۔ لا وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۔ (الفجر 30-27)
ترجمہ: ’’اے نفسِ مطمئنہ! لوٹ ﷲ تعالیٰ کی طرف ۔ ایسی حالت میں کہ وہ تجھ سے راضی ہے اور تو اُس سے راضی ہے۔ پس میرے بندگانِ خاص کے حلقے میں شامل اور میری بہشتِ قرب و وصال میں داخل ہو جا‘‘۔ 

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نفسِ مطمئنہ کے متعلق فرماتے ہیں:
 نفسِ مطمئنہ کے بھی تین حروف ہیں ن، ف، س۔ حرف ’ن‘ سے نالد یعنی رات دن خوفِ خدا کے سبب رونے والا، نہی (ممنوعات) کو ترک کرنے والا اور امر معروف کو اختیار کرنے والا، نان یعنی حلال رزق کھانے والا اور بے ریا طاعت کرنے والا، جس کی بدولت ایمان کی سلامتی حاصل ہوتی ہے۔ ناصر التوفیق یعنی جسے توفیقِ الٰہی سے مدد حاصل ہوئی ہو اور اللہ کی ذات میں مشغول ذکر و فکر کرنے والا اور اس کی معرفت، مراقبہ اور مشاہدہ میں غرق رہنے والا۔ جیسے ہی نفس نورِ الٰہی تک رسائی حاصل کر لیتا ہے تو وہ اہلِ نفسِ مطمئنہ ہو کر مغفور ہو جاتا ہے۔وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (سورۃ الممتحنہ۔7) ترجمہ: اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔  حرف ’ف‘ سے نفسِ مطمئنہ کفر و اسلام کے درمیان فرق کرنے والا اور فخرِ دین ہوتا ہے۔ حرف ’س‘ سے نفس ِمطمئنہ راہِ راستی پر اللہ کے ساتھ مستغرق ہوتا ہے۔ ظاہری طور پر وہ سجدہ میں مشغول ہوتا ہے جبکہ باطن میں فنا فی اللہ اور معبود کی ذات میں غرق ہوتا ہے۔ ان خصوصیات کا حامل نفسِ مطمئنہ صرف انبیا اور فقرا کا ہوتا ہے اور بہت کم صاحبِ ولایت اولیا کا۔ (کلید التوحید کلاں)

حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:

ایہو نفس اساڈا بیلی، جو نال اساڈے سِدّھا ھوُ

یعنی یہ نفس اب مطمئنہ ہو کر ہمارا دوست اور ساتھی بن چکا ہے اور اب ہمارے ساتھ صراطِ مستقیم پر ہے۔ 

ہر شخص کی قلبی و باطنی کیفیت مختلف ہوتی ہے کیونکہ ہر شخص کے نفس کی حالت مختلف ہوتی ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

نفس را بہ شناس از خصلت ہوا
خاصہ را خاصیت است حق راہنما

ترجمہ: (عام لوگوں کے) نفس کو اس کی فطرت یعنی خواہشات سے پہچانا جا سکتا ہے جبکہ خواص کے نفس کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ حق کی جانب راہنما ہوتے ہیں۔

نفس را بہ شناس لذت ذائقہ
نفس ِ خاصان میکشد بس فائقہ

ترجمہ: (عوام کے) نفس کو ایسے پہچانا جا سکتا ہے کہ وہ کھانے کے ذائقہ کی لذت چاہتا ہے جبکہ خواص نفس کو مار کر بزرگی حاصل کرتے ہیں۔ (کلید التوحید کلاں)

پس معلوم ہوا کہ جب تک نفس کا تزکیہ نہ کیا جائے یہ سرکشی سے باز نہیں آتا اور شہوات پیدا کر کے انسان کو نفسانی خواہشات میں الجھائے رکھتا ہے۔ صرف سروری قادری مرشد کامل اکمل ہی وہ ہستی ہے جو نفس کے اس سرکش گھوڑے کو قابو کرتا ہے اور اس کے اوپر جمی ہوئی میل کو دور کر کے اسے نفسانی بیماریوں سے نجات دیتا ہے اور تمام شہوات کو اعتدال پر لاتا ہے۔ 

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس تزکیہ نفس کے بارے میں فرماتے ہیں:
قرآنِ پاک میں تزکیۂ نفس کے نبویؐ طریق کو یوں بیان فرمایا گیا ہے:
ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ (سورۃ الجمعہ۔2)
ترجمہ:  وہی اللہ جس نے مبعوث فرمایا امیوں میں سے ایک رسولؐ جو ان کو پڑھ کر سناتا ہے اس کی آیاتِ قرآنِ پاک اور (نگاہ ِکامل سے) ان کا تزکیۂ نفس (نفسوں کو پاک) کرتا ہے اور انہیں کتاب کا علم اور حکمت (علمِ لدنیّ ) سکھاتا ہے۔

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صحابہ کرامؓ کو قرآن پاک کی تعلیم دیتے پھر نگاہِ کامل سے ان کا تزکیہ فرماتے تاکہ اُن کے قلوب پاک ہو کر قرآن کے نور کو جذب کرنے کے اہل ہو سکیں اور پھر جب نفس کا تزکیہ ہوجاتا تو تصفیۂ قلب خود بخود ہو جاتا اور جلوۂ حق آئینہ دِل میں صاف نظر آنے لگتا اور دِل جلوۂ حق کے لیے بے قرار رہنے لگتا یہ بے قراری دراصل عشقِ الٰہی کا آغاز ہے اور یہ عشق و محبت کا شعلہ اچھی صحبت ہی سے بھڑکتا ہے اسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت سے صحابہ کرامؓ کو ذکرِاللہ نصیب ہوا اور ذکرِاللہ (اسمِ اللّٰہ ذات) کے ذریعے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت سے صحابہ کرام ؓ کا ظاہر و باطن پاک و طاہر ہو گیا اور ان کے اندر معرفتِ الٰہی کی سچی تڑپ پیدا ہوئی تو آقائے دو جہان صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لطف و کرم اور عطا کا پیالہ پلادیا۔ اس کے پینے سے صحابہ کرامؓ کا یُزَکِّیْھِمْ  کا مرحلہ طے ہو گیا اور نفوس کا تزکیہ ہو گیا۔ جب نفس پاک ہوگئے تو اس قابل ہوگئے کہ انہیں یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ     کے مرحلے سے گزارا جائے ان کے دِل اتنے پاک اور وسیع ہوگئے کہ قرآن پاک اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اور حکمت کا شیریں اور خالص دودھ ڈال کر لبالب بھر دیا گیا۔ (تزکیۂ نفس کا نبویؐ طریق)

اکثر لوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ عبادات اور ورد وظائف سے وہ اپنے نفس کی اصلاح کر سکتے ہیں یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مرشد کے وسیلہ کی ضرورت نہیں ان کی راہنمائی کے لیے قرآن و حدیث اور سنت کا علم ہی کافی ہے۔ زندگی بھر وہ اسی خوش فہمی اور گمان میں مبتلا رہتے ہوئے اپنے نفس کی اصلاح اور تزکیہ کے عمل سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جبکہ علم راہنمائی ضرور کرتا ہے لیکن تزکیہ نہیں کر سکتا۔تزکیہ کے لیے مرشد کامل اکمل کا ساتھ بہت ضروری ہے۔

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ وسیلہ سے مراد علم ہے۔ جبکہ علم وسیلہ نہیں ہے۔ علم شریعت کی شاہراہ ہے اور مرشد اس شاہراہ کا وسیلہ اور راہبر ہوتا ہے جو اپنے لشکر کے ہمراہ شیطان سے حفاظت کرتا ہے اور اس کے پاس اتنی قوت ہوتی ہے کہ اس راہ سے سلامتی سے گزارتا ہے اور معرفتِ  اِلَّا اللّٰہ اور مجلس ِمحمدیؐ کی حضوری تک امن و سکون سے پہنچا دیتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس مرشد کی ضرورت اور اہمیت واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جس طرح طبِّ جدید میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ انسان خود اپنا علاج نہیں کر سکتا خواہ وہ میڈیکل کی کتنی ہی کتب کیوں نہ پڑھ ڈالے بلکہ اسے علاج کے لئے اسی مرض کے سپیشلسٹ کے پاس جانا پڑے گا تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کسی مردِ کامل کے بغیر کتاب و سنت کا محض مطالعہ کرنے سے ہی تزکیۂ نفس ہو جائے۔ اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کا کوئی بھی علم محض کتب پڑھ کر حاصل نہیں ہوتا اس کے لیے استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر صرف کتاب کا مطالعہ ہی کافی ہوتا تو اللہ تعالیٰ انبیا کرام کا طویل سلسلہ نہ بھیجتا۔ (تزکیۂ نفس کا نبویؐ طریق)

حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

دین مجو اندر کتب اے بے خبر
علم و حکمت از کتب دیں از نظر

ترجمہ: اے بے خبر دین کتابوں میں تلاش نہ کر علم و حکمت تو کتب مگر دین نظر سے ملتا ہے۔

نفسِ امارہ سے مطمئنہ تک کا سفر مرشد کامل اکمل کی راہنمائی اور اس کی صحبت کے بغیر ناممکن ہے۔ مرشد کامل ہی اسمِ اللہ  ذات کے ذکر و تصور اور اپنی نگاہِ کامل سے نفس کا تزکیہ کر کے اسے امارہ سے لوامہ، پھر ملہمہ اور آخر میں مطمئنہ بنا دیتا ہے۔ اسی کے متعلق حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:
تصورِ اسم اللہ ذات کی مشق سے آدمی کے وجودمیں نفس بیمار ہو جاتا ہے۔ گویا کہ اُسے خسرہ کی بیماری لاحق ہو گئی ہے۔ تصورِ اسم اللہ ذات سے نفس کو ایسی بے قراری لاحق ہو جاتی ہے کہ اُسے کسی پل آرام نہیں آتا بلکہ اس کی ہستی ہی مٹ جاتی ہے۔ یہ نافرمان نفس فرمانبردار بن جاتا ہے اور ایک غلام کی طرح ہمیشہ زیرِ فرمان رہتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں) 

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:

کامل مرُشد ایسا ہووے، جیہڑا دھوبی وانگوں چھٹے ھوُ
نال نگاہ دے پاک کریندا، وِچ سجی صبون نہ گھتے ھوُ
میلیاں نوں کر دیندا چِٹا، وِچ ذَرّہ میل نہ رَکھے ھوُ
ایسا مرشد ہووے باھوؒ، جیہڑا لوں لوں دے وِچ وَسے ھوُ

ترجمہ:آپ ؒ فرماتے ہیں مرشد کامل کو دھوبی کی طرح ہونا چاہیے جس طرح دھوبی کپڑوں میں میل نہیں چھوڑتا اور میلے کپڑوں کو صاف کردیتا ہے اسی طرح مرشد کامل اکمل طالب کو ورد و وظائف، چلہ کشی، رنجِ ریاضت کی مشقت میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ اسمِ اللہ ذات کی راہ دکھا کر اور صرف نگاہِ کامل سے تز کیۂ نفس کر کے اس کے اندر سے قلبی اور روحانی امراض کا خاتمہ کرتا ہے اوراسے خواہشاتِ دنیااور نفس سے نجات دلاکر غیر اللہ کی محبت دل سے نکال کر صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق میں غرق کردیتا ہے۔ ایسا مرشد تو طالب کے لوُں لوُں میں بستا ہے۔ (ابیاتِ باھوؒ کامل)

تمام قارئین کے لیے دعوتِ عام ہے کہ دورِ حاضر کے مجدد اور مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس سے اپنا تزکیۂ نفس کروانے کے لیے اور آپ کی صحبت سے مستفید ہونے کے لیے خانقاہ سلطان العاشقین حاضر ہوں تاکہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوں تو فلاح یافتہ ہو کر اپنے ربّ کے حضور پیش ہوں۔ سروری قادری مرشد کامل اکمل چونکہ قدمِ محمدؐ پر ہوتا ہے اس لیے نفس کی اصلاح اور تزکیہ کے لیے اس کا طریقہ کار بھی وہی ہوتا ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریقہ کار تھا اور اسی طریقہ کار کے مطابق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرامؓ کے نفوس کا تزکیہ فرمایا۔ 

استفادہ کتب:
۱۔شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔ تزکیۂ نفس کا نبویؐ طریق: ایضاً
۳۔ابیاتِ باھوؒ کامل: تحقیق، ترتیب و شرح سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۴۔ عین الفقر: تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ
۵۔ کلید التوحید کلاں۔ ایضاً
۶۔ محک الفقر کلاں۔ ایضاً
۷۔احیا العلوم: تصنیف حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ
۸۔کشف المحجوب: تصنیف حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ


28 تبصرے “حقیقت ِنفس اور تزکیۂ نفس Haqiqat e Nafs aur Tazkia e Nafs

  1. سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نفسِ امارہ کے متعلق فرماتے ہیں:
    نفس غصے کی حالت میں درندہ بن جاتا ہے، گناہ کرتے وقت بچہ بن جاتا ہے، نعمت کی فراوانی کے وقت فرعون بن جاتا ہے، سخاوت کے موقع پر قارون بن جاتا ہے، بھوک میں پاگل کتا بن جاتا ہے اور جب شکم پرُ ہو تو متکبر اور مغرور گدھا بن جاتا ہے۔ (عین الفقر)

  2. میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس تزکیہ نفس کے بارے میں فرماتے ہیں:
    قرآنِ پاک میں تزکیۂ نفس کے نبویؐ طریق کو یوں بیان فرمایا گیا ہے:
    ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ (سورۃ الجمعہ۔2)
    ترجمہ: وہی اللہ جس نے مبعوث فرمایا امیوں میں سے ایک رسولؐ جو ان کو پڑھ کر سناتا ہے اس کی آیاتِ قرآنِ پاک اور (نگاہ ِکامل سے) ان کا تزکیۂ نفس (نفسوں کو پاک) کرتا ہے اور انہیں کتاب کا علم اور حکمت (علمِ لدنیّ ) سکھاتا ہے۔

  3. نفسِ امارہ کے متعلق امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ ’’احیاء العلوم‘‘ میں فرماتے ہیں:
    نفسِ انسانی وہ شے ہے جو قوت، غضب اور شہوت کی جامع ہے۔ نفسِ انسانی وہی ہے جس میں صفاتِ مذمومہ جمع ہیں۔ نفس کا قائد ’’ناقص حرص‘‘ ہے۔

  4. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    اگر اس نفس (امارہ) کی اصلاح مرشد کامل اکمل کی زیرِ تربیت ہو تو یہ بتدریج باطن میں عالم َملکوت اور حیاتِ طیبہ کی طرف عروج کرتا ہے اور امارہ سے لوامہ ہو جاتا ہے۔ (شمس الفقرا)

  5. سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کثرت سے عبادات کرتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، حج و عمرہ کرتے ہیں، وردوظائف کے لیے تسبیحات بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی اللہ کی معرفت اور قرب سے محروم رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ نفس کا تزکیہ نہیں ہوا ہوتا۔ اگر نفس پاک نہیں ہوگاتو کیا ان عبادات کا حق ادا ہو سکے گا؟ کیا اللہ کی معرفت اور قرب حاصل ہو سکے گا؟ ہرگز نہیں۔ حدیثِ مبارکہ ہے:
    اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ صُوَرِکُمَ وَ لَا اَعْمَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَنْظُرُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَ نِیَّاتِکُمْ
    ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے نہ اعمال کو بلکہ اللہ تعالیٰ تمہارے قلوب اور تمہاری نیتوں کو دیکھتا ہے۔

  6. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    اگر اس نفس (امارہ) کی اصلاح مرشد کامل اکمل کی زیرِ تربیت ہو تو یہ بتدریج باطن میں عالم َملکوت اور حیاتِ طیبہ کی طرف عروج کرتا ہے اور امارہ سے لوامہ ہو جاتا ہے۔ (شمس الفقرا)

  7. بےشک نفسِ امارہ سے مطمئنہ تک کا سفر مرشد کامل اکمل کی راہنمائی اور اس کی صحبت کے بغیر ناممکن ہے۔ مرشد کامل ہی اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور اور اپنی نگاہِ کامل سے نفس کا تزکیہ کر کے اسے امارہ سے لوامہ، پھر ملہمہ اور آخر میں مطمئنہ بنا دیتا ہے۔

  8. تمام قارئین کے لیے دعوتِ عام ہے کہ دورِ حاضر کے مجدد اور مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس سے اپنا تزکیۂ نفس کروانے کے لیے اور آپ کی صحبت سے مستفید ہونے کے لیے خانقاہ سلطان العاشقین حاضر ہوں تاکہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوں تو فلاح یافتہ ہو کر اپنے ربّ کے حضور پیش ہوں۔

  9. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    اگر اس نفس (امارہ) کی اصلاح مرشد کامل اکمل کی زیرِ تربیت ہو تو یہ بتدریج باطن میں عالم َملکوت اور حیاتِ طیبہ کی طرف عروج کرتا ہے اور امارہ سے لوامہ ہو جاتا ہے۔ (شمس الفقرا)

  10. دونوں جہان میں نفس سے زیادہ برُی اور کمینی چیز کوئی اور نہیں ہے۔ جو آدمی معرفتِ الٰہی حاصل کر لیتا ہے وہ نفس کو پاؤں تلے روند کر اپنی ہستی کو مٹا دیتا ہے

  11. مرشد کامل ہی اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور اور اپنی نگاہِ کامل سے نفس کا تزکیہ کر کے اسے امارہ سے لوامہ، پھر ملہمہ اور آخر میں مطمئنہ بنا دیتا ہے۔

  12. کامل مرُشد ایسا ہووے، جیہڑا دھوبی وانگوں چھٹے ھوُ
    نال نگاہ دے پاک کریندا، وِچ سجی صبون نہ گھتے ھوُ
    میلیاں نوں کر دیندا چِٹا، وِچ ذَرّہ میل نہ رَکھے ھوُ
    ایسا مرشد ہووے باھوؒ، جیہڑا لوں لوں دے وِچ وَسے ھوُ

  13. صوُرت نفس اماّرہ دِی، کوئی کتا گلرّ کالا ھوُ
    کوُکے نوُکے لہو پیوے، منگے چرَب نوالا ھوُ

  14. ماشاءاللہ ۔بہت ہی عمدہ تحریر ❤️❤️❤️۔اللہ تعالیٰ کاوش قبول فرمائے ۔

  15. انسان کی کامیابی کا راز اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ان الفاظ میں بیان فرمایا:
    قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی (سورہ اعلیٰ۔14)
    ترجمہ: بیشک وہ فلاح پاگیا جس (کے نفس) کا تزکیہ ہو گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں