الف (Alif )
تجدیدِاسلام
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس دورِحاضر کے ولیٔ کامل، امام سلسلہ سروری قادری اور مجددِدین ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے جس ہمت ، جوانمردی اور ثابت قدمی سے دین کی حقیقی روح کو دنیا بھر میں عام کیا ہے، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپ مدظلہ الاقدس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے روائتی طور طریقوں کے بجائے دور ِ حاضر کے تقاضوں اور ضروریات کے عین مطابق دینِ اسلام کی روح یعنی ’’فقرِ محمدیؐ‘‘ کو ہر خاص و عام تک پہنچا دیا ہے۔ کتب و رسائل کی اشاعت سے لے کر ویب سائٹس، سوشل میڈیااور ویب ٹی وی چینلز غرض ہر لحاظ سے دینِ محمدیؐ کی ترویج و اشاعت پر اس قدر کام کیا ہے جو آنے والی کئی صدیوں کے لیے رہنما ثابت ہوگا۔ تاہم بطور اُمت اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس پیغام کو نہ صرف جاری و ساری رکھیں بلکہ انفرادی و اجتماعی طور پر پورے کے پورے اس میں شامل ہو جائیں تب ہی اسلام ایک مرتبہ پھر طاقت بن کر دنیا کے سامنے آسکے گا۔ اسی حوالے سے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے لہوگرمادینے والے کچھ سنہری الفاظ پیشِ خدمت ہیں:
زوال اور دورِ غلامی میں قائم ہونے والا غیر منصفانہ اور ظالمانہ نظام، ادارے، فرقے دورِ غلامی اور زوال کی یادگار ہیں اور موجودہ زوال کا اصل سبب ہیں۔ اس نظام، اداروں اور فرقوں کی موجودگی میں فلاحی ریاست کا قیام اور غلبۂ اسلام ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ آقاؤں کا غلاموں کے لیے تیار کردہ نظام ہے اور اس کی بنیاد غلامی، ظلم اور استحصال پر ہے۔ اگر دنیا پر غلبہ حاصل کرنا ہے تو اس سے نجات حاصل کرنا ہوگی اور وہ نظام اپنانا ہوگا جس سے اسلام کو عروج حاصل ہوا تھا ورنہ عروج ایک سراب ہے۔
اسلام حکمرانوں سے نافذ نہیں ہوسکتا۔ اسلام تب تک نافذ نہیں ہوتا جب تک قوم اس کے لیے تیار نہ ہو۔ پہلے ہمیشہ تہہ اور بنیاد سے درستی اور تعمیر کا کام شروع ہوتا ہے پھر اوپر کا حصہ ٹھیک کیا جاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریقہ بھی یہی تھا۔
اسلام ایک قوت بن کر تب ہی اُبھرے گا جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ کے مطابق قوم ٹھیک ہوگی۔ جب قوم ٹھیک ہو کر قوت بن جائے گی تو غلط حکمرانوں کو خود ہی نکال باہر کرے گی۔
کوئی ایسا مجدد ،جو دین کی روح کو جدیدیت کے اندر داخل کر سکے، ہی اس نظام کو دوبارہ کھڑا کرسکتا ہے۔ مجدد وہ ہوتا ہے جسے اللہ علمِ لدنیّ عطا کرے اور وہ اسی علم کے مطابق دین کی تجدید کرتا ہے۔اللہ اس کی بات خود لوگوں سے منوا لیتا ہے۔ وہ جدید دور کے مطابق اسلام کو زندہ کرے اور ایسا نظام لائے جو تمام دنیا کے انسانوں کے لیے کشش رکھتا ہو تب ہی اسلام کو ساری دنیا میں عروج حاصل ہو سکتا ہے۔
اُمتِ مسلمہ کی بھلائی کے متعلق غوروتفکر اور عمل کرنا سب سے بڑی سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے لیکن اس سنت کو ادا کرنے کے لیے پہلے خود کو سنوارنا اور اپنا تزکیۂ نفس و تصفیۂ قلب کرانا ضروری ہے۔ اس کے بغیر یہ سنت صحیح طور پر ادا نہیں ہوسکتی۔
اگر مسلمان توحید یعنی ایمان بالقلب پر پہنچ جائیں تو اللہ انہیں بڑی بڑی دشمن قوتوں کو تباہ کر دینے کی قوت عطا کر دیتا ہے۔
شخصیت پرستی بت پرستی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے اور قوم کے زوال کا سب سے بڑا سبب بنتی ہے۔ بت کچھ نہیں مانگتا لیکن شخصیت سب کچھ لے لیتی ہے۔