احسان فراموش (Ehsan Faramosh)
ایک دیہاتی زمیندار کا کاروبار کے سلسلے میں اکثر و بیشتر شہر آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اس زمانے میں سفر زیادہ تر لوگ پیدل یا کوئی سواری کے لئے جانور استعمال کرتے تھے۔ اس دیہاتی زمیندار کا گاؤں شہر سے بہت دور تھا۔ ایک شہری تاجر سے اس کے کافی تعلقات تھے، اس لئے وہ زیادہ تر قیام اسی تاجر کے گھر میں کرتا تھا۔ بعض اوقات ایک یا دو ماہ بھی اگر اسے ٹھہر نا پڑتا تو اُسی کے ہاں ہی رہتا۔ وہ شہری تاجر اس کے خوردونوش اور ہر طرح کی ضروریات بخوشی پوری کرتا تھا۔
جب وہ زمیندار اپنے گاؤں واپس جانے لگتا تو شہری تاجر اور اس کے بیوی بچوں کو اپنے گاؤں آنے کی دعوت دیتا۔ ایک بار اس زمیندار کو بعض ضروری کاموں کی وجہ سے اس تاجر کے ہاں دو سے تین ماہ تک قیام کرنا پڑا۔ کام پورا کرنے کے بعد جب وہ گاؤں واپس جانے لگا تو اس نے پھر تقاضا کیا کہ جناب آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ میں آپ کے احساناتِ مہمان نوازی کے نیچے دب گیا ہوں۔ ان دنوں ہمارے گاؤں میں موسم بہار کی فضا بڑی خوشگوار ہوتی ہے ہر طرف سبزہ لہلہاتا ہے۔ رنگ برنگے پھول جھومتے ہوئے نظر آتے ہیں آپ لوگ دیکھیں گے تو خوش ہو جائیں گے۔ اس سال اپنے بال بچوں کے ہمراہ ضرور تشریف لائیں۔
ایک دن شہری تاجر کے بچوں نے کہا: ’’ابا جان چاند بادل اور سایہ بھی سفر کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے دیہاتی دوست کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس بچارے کو بھی اپنے احسانات کا حق ادا کرنے کا ایک بار موقع دیجیے۔ آپ سفر سے کیوں گھبراتے ہیں شہری تاجر نے کہا تم سچ کہتے ہو لیکن داناؤں نے کہا ہے کہ جس سے تم نے بھلائی کی ہو اس کے شر سے بچو۔‘‘ حد سے زیادہ دوستی کا نتیجہ دشمنی ہوتا ہے۔ دوسرا اس کے گاؤں تک پہنچنے کے لئے ہمیں جنگل و بیابان اور صحرا سے گزرنا پڑے گا۔ سفر تکلیف دہ اور بڑا خطرناک ہے۔ شہری تاجر کے فرزندوں نے براداران یوسف علیہ السلام کی طرح کہا ہم جنگل میں سیر کرتے اور کھیلتے کودتے چلیں گے۔ مگر وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ جاں بازی اور حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح جدا اور گرفتارِ بلا ہونا پڑے گا۔ کسی کے کہنے پر جان کو مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ ایک دفعہ باز نے مرغابی کا شکار کرنے کے لئے اسے یہ کہہ کر پانی سے باہر نکلنے کو کہا کہ بی مرغابی آج کل کھیتوں میں بڑی بہار ہے۔ رنگ برنگے قندریزے لہلہا رہے ہیں مگر عقلمند مرغابی نے جواب دیا تمھیں یہ پرُبہار فضا مبارک ہو، ہمارے لیے پانی کا حصار کافی ہے۔ ہم اسی پر ہی قناعت کرتے ہیں۔
تقدیر کسی تدبیر سے نہیں بدل سکتی۔ بچوں کے اصرار پر شہری تاجر کے تمام حیلے بے کار ہو گئے۔ آخر کار سفر اختیار کرنے اور گرفتارِ مصیبت ہونے پر مجبور ہو گیا۔ چنانچہ انہوں نے سامانِ سفر باندھا اور بڑی خوشی خوشی اس امید پر گھر سے نکلے کہ دعوت دینے والا بڑی زمینوں اور باغات کا مالک ہے وہ ہمیں اپنی جان سے عزیز رکھے گا مگر انہیں یہ یاد نہیں تھا کہ گاؤں میں احمق لوگ بھی رہتے ہیں جن کے پاس رہنے سے عقل بے نور ہو جاتی ہے۔ شہری تاجر نے اہل و عیال سمیت خوشی خوشی جنگل و صحرا کا رخ کیا۔ انہوں نے سمجھا کہ سفر سے بادشاہی ملتی ہے۔ ’’ہلال‘‘ سفر ہی سے بدر کامل بنتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھی گھر سے نکل کر بادشاہی ملی۔ اسی امید پر انہوں نے دن کو سورج کی گرمی برداشت کی اور رات کو اختر شماری کی راہ سفر کی سختی گاؤں جانے کی خوشی میں بہشت معلوم ہوئی۔
اُن کے دلوں میں گاؤں کی بے بہار فضا بسی ہوئی تھی۔ اہل دنیا کا قاعدہ یہی ہے کہ وہ مقصد کو حاصل کرنے کے لئے طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کر لیتے ہیں۔ تاجر اور اس کے اہل وعیال کا بھی یہی حال تھا۔ ان کے خیال میں یہ تھا کہ گاؤں میں ہر قسم کی آسائش ان کا انتظار کر رہی ہے اور وہاں پہنچ کر عیش و آرام مل جائے گا۔ جب وہ کسی پرندے کو گاؤں کی جانب پرواز کرتا دیکھتے تو ان کا جی چاہتا کہ اس طرح اڑ کر وہ بھی جلد از جلد گاؤں جاپہنچیں۔ اُس طرف سے جو ہوا آتی وہ اسے زندگی کا تازہ پیغام سمجھتے، پرصعوبت سفر میں انہوں نے ایسی تکلیف اُٹھائی جیسے مرغِ خاکی پانی میں اُٹھاتا ہے۔ تھکے ماندے ایک مہینے کے بعد جب اس گاؤں میں پہنچے تو ان کا آب و دانہ ختم ہو چکا تھا۔ ایک حریص پرندہ دانے کو بادام سمجھ کر حال کی طرف آنکھیں بند کر کے لپکتا ہے اور گرفتارِ دام ہو جاتا ہے۔
جب ان مسافروں کو اس زمیندار کا گھر سامنے نظر آیا تو وہ اسے اپنا گھر سمجھ کر اس کی طرف لپکے مگر دروازہ بند پایا۔ اس پر شہری تاجر بڑا حیران ہوا مگر یہ درشتی کا موقع نہ تھا۔ کیونکہ جب کنویں میں گر پڑیں تو وہاں تیزی کام نہیں آتی۔ اس دیہاتی کو جب ان کے آنے کی خبر ہوئی تو وہ روپوش ہو گیا۔ انہوں نے دروازے پر دستک دے کر اس زمیندار کو اپنے آنے کی خبر دی۔ اندر سے جواب ملاوہ ان دنوں کسی منزل کو پانے کے لئے چلہ کشی میں ہیں اور ان پر مجذوبیت کا رنگ غالب ہے۔ وہ بے سہارا قافلہ دروازے کے باہر ہی ٹھہر گیا۔ بچوں کی ساری تمناؤں اور خواہشوں پر پانی پھر گیا۔ ان کے پاؤں میں چھالے اور آنکھوں میں آنسو تھے۔ آرام دہ بستر پر سونے والوں نے وہ دن اور رات کانٹوں پر گزاری۔ تیسرے دن تاجر کی اس دیہاتی پر نظر پڑ گئی۔ سلام و دعا کے بعد کہا میں فلاں شخص ہوں جسے آپ نے سالہا سال سے دعوت دے کر گاؤں آنے پر مجبور کیا۔ اس دیہاتی نے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ دیہاتی نے کہا بھائی! میں تو دن رات اللہ کی یاد میں کھویا رہتا ہوں۔ مجھے اپنے وجود کی بھی خبر نہیں اور یہ بھی پتہ نہیں کہ میری ہستی کیا ہے، خدا کے سوا مجھے تو کسی بات کا ہوش نہیں۔
شہری تاجر نے کہا او بھائی! جس کے ہاں سے جو شخص پیٹ بھرے اس کی آنکھ شرماتی ہے اور سر نیچا ہو جاتا ہے۔ دیہاتی نے شہری تاجر کی باتیں سنی ان سنی کر دیں۔ تیسری رات بھی انہوں نے تارے گنتے ہوئے ہی گزار دی۔ چوتھے دن موسم ابر آلود ہو گیا، شام کو آندھی و طوفان نے انہیں آگھیرا۔ سر چھپانے کے لئے جو انہوں نے ٹھکانہ بنایا ہوا تھا اس سے بھی گئے۔ شہری تاجر کہنے لگا شاید قیامت کا وقت آگیا ہے۔ جس طرح شریف لوگ بے بسی کے عالم میں کمینوں کے محتاج ہو جاتے ہیں اسی طرح شہری تاجر بھی مجبور ہوکر دیہاتی کے دروازے پر گیا اور بہت رویا دھویا۔ بڑی مشکل کے ساتھ اس دیہاتی کمینے نے دروازہ کھولا۔ تاجر نے مجبور اور بے بس ہو کر کہا بھائی! میں اپنے تعلقات اور جملہ حقوق سے دستبردار ہوتا ہوں۔ ہم ایسی سختی کے عادی نہیں تھے جو ہمیں یہاں دیکھنی پڑی۔ خدا کے واسطے ہمیں راہی مسافر ہی سمجھ کر کوئی چھت والی جگہ دے دیں۔ خدا آخرت میں تجھ کو اس کی جزا دے گا۔ اگر تجھے یہ منظور نہیں تو مجھے قتل کر ڈال، میں اپنا خون تجھے معاف کرتا ہوں۔ اس جاڑے کے موسم میں اب ان معصوم اور بے گناہ بچوں کی
تکلیف مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔ دیہاتی میزبان نے کہا ہمارے چوکیدار کا ایک کمرہ ہے۔ وہ رات کو تیر و کمان لے کر ہمارے مال مویشیوں کی حفاظت کرتا ہے تا کہ کوئی جنگلی جانور نقصان نہ پہنچائے۔ چوکیدار والا کمرہ تم لے لو اور رات کو تیر و کمان لے کر اس کی جگہ ڈیوٹی دو۔ شہری تاجر نے کہا اس وقت میں ایسی سو خدمتیں کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اگر جنگلی جانور کی بھنک بھی میرے کانوں میں پڑ گئی تو آواز پر تیر چلا کر اس کو ہلاک کر دوں گا۔ غرض اس وعدہ پر وہ اپنے اہل وعیال کو باغبان کی کو ٹھری میں لے گیا۔ وہ جگہ نہایت تنگ اور مچھروں کا گھر تھی۔ وہ بے چارے ایک اور مصیبت میں پھنس گئے۔ بہر حال شہری تاجر تیر و کمان ہاتھ میں لئے اپنا فرض بجالا رہا تھا کہ آدھی رات گزرنے پر اس نے محسوس کیا کہ بھیڑیا آ گھسا ہے۔ اس نے نشانہ جوڑ کر تیر چلایا اور وہ سیدھا نشانے پر جا کر لگا۔ حیوان زخمی ہو کر گر پڑا۔ گرتے ہی اس کے منہ سے آواز نکلی جس کو سن کر دیہاتی فوراً باہر آیا اور زور زور سے دہائی دینے لگا ہائے ظالم یہ کیا غضب کر دیا کہ تو نے میرا گدھا مار دیا ہے۔ تاجر نے کہا: تم اچھی طرح جا کر دیکھ لو اندھیری رات ہے۔ آندھی، طوفان اور بارش میں تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ دیہاتی نے کہا: ’’خواہ کیسی ہی زور کی ہوا چل رہی ہو مجھے اپنے گدھے کی آواز کی ایسی ہی شناخت ہے جیسے شراب اور پانی کی۔ سو جانوروں کے ریوڑ میں بھی میں اپنے گدھے کی آواز پہچان لیتا ہوں۔‘‘ یہ سن کر شہری تاجر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اس نے اسے گریبان سے پکڑ لیا اور کہا ’’اے بے حیا! تو نے تاریکی اور جاڑے کے موسم میں اپنے گدھے کی آواز تو پہچان لی اور اپنے دس سال کے رفیق کو نہ پہچان سکا۔ میری مروّت اور احسان کو خاک میں ملا دیا اور بہانہ یہ کیا کہ میں فنافی اللہ ہو گیا ہوں، مجھے تو دنیا و مافیہا کی کوئی خبر نہیں۔ مگر آدھی رات کو آوازِ خر کی شناخت کرلی۔ اپنے آپ کو عاشقِ الٰہی ظاہر کیا مگر یارانہ شیطان سے گانٹھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھ میں تو لوہا موم ہو جاتا تھا، تو تو موم کو لوہا بنا رہا ہے۔ تیرے جیسے بے وقوف، چال باز اور احسان فراموش سے تو شیطان بھی پناہ مانگتا ہے، حق تعالیٰ مکاروں اور کمینوں کو اسی طرح ہی رسوا کرتا ہے۔‘‘
دریس حیات
احمق، بدفطرت اور کمینے انسان سے اگر کوئی بھلائی کرو تو اس کے شر سے بچنا چاہیے۔
(’’حکایاتِ رومی‘‘ سے اقتباس)
Very beautiful ❤️ and informative article
احمق، بدفطرت اور کمینے انسان سے اگر کوئی بھلائی کرو تو اس کے شر سے بچنا چاہیے۔
احمق، بدفطرت اور کمینے انسان سے اگر کوئی بھلائی کرو تو اس کے شر سے بچنا چاہیے۔
Allah pak iss bemaari sey bachaye
بہت حکمت آموز حکایت ہے
احمق، بدفطرت اور کمینے انسان سے اگر کوئی بھلائی کرو تو اس کے شر سے بچنا چاہیے۔
سبق آموز تحریر
احمق، بدفطرت اور کمینے انسان سے اگر کوئی بھلائی کرو تو اس کے شر سے بچنا چاہیے۔
Bohat alla
Behtreen sabq hai 👌👌👌
بہترین
بہت خوب
اللہ پاک ایسے لوگوں کے شر سے بچائے
Allah Apni panah mei rkhy
بہت سبق آموز ہے
معلوماتی تحریر
سبق آموز تحریر ہے
سبق آموز تحریر۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بھی فرمان ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو