راہ ِ تصوف Rah E Tasawwuf


4.7/5 - (65 votes)

راہِ تصوف  (Rah-e-Tasawwuf)

تحریر: محترمہ نورین سروری قادری ۔سیالکوٹ

تصوف ان کیفیات کا علم ہے جن کے ذریعے نفس کا تزکیہ، اخلاق کا تصفیہ اور ظاہر و باطن کی تعمیر ہوتی ہے تاکہ انسان ابدی سعادت حاصل کرسکے۔

تصوف ایک ایسا علم ہے جو روح کو بالیدگی عطا کرتا ہے اور مخلوق کو خالق ِکائنات سے قریب کرتا ہے۔ روحانیت یا تصوف کے راستے کا مسافر باطنی کیفیات اور مشاہدات سے اللہ کو دیکھ لیتا ہے اور اسے اللہ سے ہمکلامی کا شرف نصیب ہو جاتا ہے۔ تصوف اسلام کی روح ہے، اسلام کا حسن و جمال اورکمال ہے اور اسلام مجموعہ ہے ظاہری و باطنی خوبیوں کا۔ تصوف کا شریعت سے وہی تعلق ہے جو جان کا جسم سے۔

اسلام میں شریعت اور طریقت کا تصور یہی ہے کہ انسان عبادت میں جسمانی پاکیزگی اور اعمال کے ساتھ ذہنی تفکر کے ذریعے اپنی ذات سے واقفیت حاصل کرے تا کہ اس کے مشاہدے میں یہ بات آ جائے کہ انسانی ذات (روح) دراصل کسی انسان کے اندر ماورائی دنیاؤں میں داخل ہونے کا نام ہے۔ چونکہ روح اللہ کے نور سے ہے یعنی کل کا جز ہے۔ جب جز کا مشاہدہ ہوتا ہے تو(حقیقت مطلقہ) سامنے آ جاتی ہے۔

تصوف اس طرز ِزندگی کا نام ہے جس میں بندہ غیر اللہ سے منہ موڑ کر اپنے معبود و محبوبِ حقیقی کے ساتھ بے لوث رشتہ قائم کر لیتا ہے۔ اس تعلقِ بندگی سے اسے وہ روحانی لذت و انبساط اور لطف و کیف نصیب ہوتا ہے جسے اقبال ؒنے یوں بیان فرمایا:

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی


تصوف بزرگانِ دین کی تعلیمات کی روشنی میں 

حضرت داتاگنج بخشؒ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ تصوف احوال کو حق کے ساتھ قائم رکھنے کا نام ہے۔(کشف المحجوب)
حضرت معروف کرخیؒ فرماتے ہیں کہ تصوف حقائق کوجان لینے اور مخلوق کے ہاتھوں میں جو کچھ ہے اس سے بے نیاز ہو جانے کا نام ہے۔

سیدّنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ غنیتہ الطالبین میں فرماتے ہیں:
تصوف حق کے ساتھ سچائی اور مخلوق کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا ہے۔  (غنیتہ الطالبین)

حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں:
ماسویٰ اللہ کو ترک کرنا اور خود فنا ہو جانا تصوف ہے۔(سرِ دلبراں)

حضرت ابوبکر شبلیؒ فرماتے ہیں:
بارگاہِ الٰہی میں بے غم زندگی بسر کرنے کا نام تصوف ہے۔

شیخ زکریا انصاریؒ فرماتے ہیں :
تصوف وہ علم ہے جس سے ابدی سعادت کے حصول کی غرض سے تزکیہ نفس ، تصفیہ اخلاق اور تعمیر ظاہر و باطن کا طریقہ معلوم کیا جاتا ہے۔ (الرسالتہ القشیریہ)

علامہ ابنِ عساکرؒ نے فرمایا:
تصوف میرے نزدیک دل کی(ماسویٰ اللہ سے) فراغت کا نام ہے۔ (تاریخ مدینتہ الدمشق ج:41 ، ص:215)

حضرت ابو علی قزوینی فرماتے ہیں :
تصوف پسندیدہ اخلاق کو کہتے ہیں۔(علم ِ تصوف)

حضرت علی بن پندار الصیرنی نیشاپوریؒ فرماتے ہیں:
تصوف یہ ہے کہ صاحبِ تصوف ظاہر اور باطن میں اپنے آپ کو نہ دیکھے بلکہ حق کو دیکھے۔(کشف المحجوب)

سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ تصوف کی تعریف یوں بیان فرماتے ہیں:
تصوف کے چار حروف ہیں:ت، ص، و، ف۔ حرف ’ت‘ سے طالب اپنی جان و مال کو اللہ کی راہ میں تصرف کرتا ہے اور اس کا ایصالِ ثواب حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی روح مبارک کو کرتا ہے۔ حرف ’ص‘ سے صراطِ مستقیم پر گامزن رہتا ہے۔ حرف ’و‘ سے وعدہ خلافی نہیں کرتا اور حرف ’ف‘ سے فتح القلوب و فنائے نفس۔ جو طالب اِن صفات سے متصف نہیں اُسے صاحبِ تصوف نہیں کہا جا سکتا۔(محک الفقر کلاں)

دوسرے مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
تصوف کے کیا معنی ہیں؟ تصوف دل کی کامل صفائی، معرفتِ الٰہی اور استغراقِ توحیدِربانی کا نام ہے۔ اہلِ تصوف عارف باللہ عالم کی زبان اللہ تعالیٰ کی تلوار ہوتی ہے۔(محک الفقر کلاں)

تصوف کے ادوار:

مؤرخین نے تصوف کی ابتدا اور اس کے عروج وزوال کے پسِ منظر میں اس کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔

دورِاوّل:

تصوف کا پہلا دور عہدِنبویؐ اور عہدِصحابہؓ وتابعین کا دور ہے۔ اس عہد میں تصوف بہ کمال و تمام موجود تھا مگر اسے تصوف نہیں کہا جاتا تھا بلکہ اسے زہد و تقویٰ اور احسان کے نام سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ اس دور میں اصحابِ صفہ اور تابعین میں سے امام زین العابدینؓ، امام حسن بصریؓ، اویس قرنیؓ، سعید بن مسیبؓ ،طاؤس یمانیؓ، داؤد بن دینارؓ  سلیمان تمیمیؒ، عامر بن عبداللہ تمیمیؒ اور محمد بن مکندر کے اسما قابلِ ذکر ہیں۔

دوسرادور: 

عہد ِ تبع تابعین میں تصوف اپنی دوسری ارتقائی منزل میں داخل ہوا۔ دوسری اور تیسری صدی ہجری میں جب اخلاص فی العمل کا زوال شروع ہوا اور محض فقہیت کی جانب میلان کی بنا پر شریعت کی جگہ شر نے لے لی تو اہلِ حق نے اخلاص فی العمل کی خاطر مجاہدۂ نفس کی طرف رجوع کیا اور ریاضت و مجاہدہ کے ذریعے تعلق باللہ کی نسبت پختہ کی۔ مجاہدۂ نفس کی وجہ سے انہیں انس ووحشت، مستی و بے خودی  اور کشف و الہام کی صورت میں باطنی کیفیات حاصل ہوئیں اور انہوں نے یہ احوال، نکات و اشارات میں بیان بھی کیے۔ اس مرحلہ تصوف میں رابعہ بصریؓ، حبیب عجمیؒ، مالک بن دینارؒ، فضیل بن عیاضؒ، عبداللہ بن مبارکؒ، ابراہیم بن ادھمؒ، بشر الحافیؒ، شیبان راعیؒ، ذوالنون مصریؒ، حارث الحاسبیؒ، بایزید بسطامیؒ، سری سقطیؒ، جنید بغدادیؒ اور سہل بن عبداللہ تستریؒ وغیرہ کے اسما قابلِ ذکر ہیں۔

تیسرادور:

یہ عہد چوتھی اور پانچویں صدی ہجری پر مشتمل ہے۔ اس مرحلہ میں اہلِ کمال میں سے عوام نے تو حسبِ سابق شرعی او امرو نواہی پراکتفا کیا، خواص نے باطنی احوال و کیفیات کو اپنا مرکز بنا لیا لیکن خواص الخواص اعمال و احوال سے گزر کر مقامِ جذب تک پہنچے اسی جذب کی وجہ سے ان پر نسبتِ توجہ کا راستہ منکشف ہوا۔ تعینات کے پردے چاک ہوئے اور انہوں نے مشاہدۂ حق تک رسائی حاصل کر لی۔ پھر انہیں ذاتِ حق میں محویت و استغراق نصیب ہوا۔اس عہد میں شیخ ابوسعید خزارؒ، ابو الحسن خرقانیؒ، ابو علی رودباریؒ، ابوالفرح طرطوسیؒ، ابوبکر شبلیؒ، ابو القاسم القشیریؒ اور ابو عثمان المغربیؒ کے اسما قابلِ ذکر ہیں۔ امام غزالیؒ اور سیّدناحضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ بھی اسی دور کے اواخر میں ہوئے۔ اور آپؓ کی حیثیت کاروانِ صوفیا کے راہبر و رہنما کی تھی۔ (حقیقتِ تصوف)

دورِ حاضر

دورِحاضر میں تصوف کو حصولِ دنیا کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے، پیری مریدی کے نام پر تصوف کو ذریعۂ معاش سمجھا جانے لگا ہے، وہ آستانے جہاں سے لاکھوں زندگیوں میں انقلاب برپا ہوا کرتا تھا، مجاورین اور فقیروں کے بھیس میں بیٹھ کر لوٹ کھسوٹ کی جانے لگی ہے۔ وہ خانقاہیں جہاں تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب ہوا کرتا تھاوہاں میلوں ٹھیلوں اور رقص وسرود کا مرکزتصور کیاجانے لگا ہے، یہ تصوف کا سب سے بدترین دور ہے جس میں اس وقت ہم لوگ سانس لے رہے ہیں اور ان چیزوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ بھی کر رہے ہیں۔ تصوف کے نام نہاد علم برداروں کی طرف سے تصوف کے نام پر جو ظلم ہو رہا ہے اس کی نظیر مخالفینِ تصوف بھی نہیں پیش کر سکتے۔ صوفیانہ لباس اور خرقہ و ولایت کی آڑ میں جس طرح تصوف کا مذاق اڑایا جارہا ہے اس کی مثال شاید ہی کہیں مل سکے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا روحانی نظام یعنی تصوف ہی انسان کو روحانی مشاہدات تک پہنچا کر اسے عین الیقین اور حق الیقین کے درجے پر فائز کر سکتا ہے اوراسی مادیت پرست ناپاک نفس سے پاکیزگی کی نعمت سے ہم کنار ہو سکتے ہیں۔ قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ اس پاکیزہ اور مؤثر روحانی تعلیمات پر مبنی نظام میں تصوف کے ساتھ خود مسلمانوں نے دو انتہاؤں میں بٹ کر ظلم کیا ہے۔ان انتہاؤں میں بٹے ہوئے مسلمانوں کو اگر دو طبقات میں تقسیم کیا جائے تو ان میں سے پہلا طبقہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو سرے سے اسلام کے روحانی نظام کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔ وہ بیک جنبشِ قلم تصوف کو عجمی تصور کہہ کر دائرۂ اسلام سے خارج کر دینے کو ہی اسلام کی حقیقی خدمت سمجھتے ہیں اور صوفیائے اسلام کی ناقابلِ فراموش خدمات کی مختلف تاویلیں گھڑ کے انہیں شرک کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ فقہی مذاہب کی طرح سلاسلِ طریقت کے مختلف مکتبہ ہائے فکر کی تقسیم کو بھی اسلام کے خلاف گھناؤنی سازش قرار دیتے ہیں۔اس کے برعکس دوسرا طبقہ اُن جاہل، بے عمل اور نام نہاد صوفیا کا ہے جنہوں نے خانقاہی نظام کو بدنام کرنے میں بنیادی اور مرکزی کردار ادا کیا۔ علم و عمل سے فارغ ایسے کاروباری پیر آج ہر روپ میں ہر جگہ بکثرت پائے جاتے ہیں جو طریقت کے پاکیزہ مشن کو باقاعدہ تجارتی دھندہ سمجھتے ہوئے حصولِ شہرت و زر کی اعلیٰ منازل طے کر چکے ہیں۔ اس وقت بے شمار گدی نشین ایسے ہیں جو اقبالؒ کے مصرعے ’’خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن‘‘ کے حقیقی مصداق ہیں اور اکثر صاحبزادگان پر’’ زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن‘‘ کی حقیقت صادق آتی ہے۔جبکہ تصوف تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب پر زور دیتا ہے کہ اس کے ذریعے معرفتِ الٰہی حاصل ہوتی ہے۔ قرآنِ حکیم نے انسان کی تخلیق کا مقصد ہی معرفتِ الٰہی کو قرار دیا ہے۔

قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور میں نے جن و انس کو اس لیے پیدا کیا تاکہ وہ میری عبادت کریں۔ (سورۃ الذاریات۔ 56)

صوفیا کرام کا نقطہ نظریہ ہے کہ معرفتِ حق کا واحد ذریعہ معرفتِ نفس ہے اس لیے تصوف کی جدوجہد معرفتِ نفس اور نتیجہ معرفتِ حق ہے۔
لیکن دورِ حاضرمیں تصوف کے نام پر بہت ساری خرافات انجام دی جارہی ہیں اور بہت ساری خرابیاں اس کے اندر داخل ہو چکی ہیں۔ تصوف کو جس معنی اور مفہوم میں پیش کیا جا رہا ہے وہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں انتہائی مضر ہے۔ موجودہ دور میں تصوف کو جہالت، لادینیت، مخالفِ شریعت اور رقص و سرود کے مفہوم میں متعارف کرایا جارہا ہے جو کہ اسلامی نقطہ نظر کے سراسر مخالف ہے۔ اس لیے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ احیائے تصوف کے ساتھ تصوف کے مفاہیم کی بھی اصلاح ہو اور تصوف کا اصلی رنگ جو کتاب وسنت کی روشنی میں ہے اس کو لوگوں کے سامنے پیش کیاجائے تاکہ تصوف کے متعلق جو بھی غلط فہمیاں لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوچکی ہیں ان سب کا ازالہ ہو اور حقیقی تصوف متعارف ہو سکے۔

تصوف اسلام سے الگ کوئی چیز نہیں بلکہ تصوف کی اساس قرآن و حدیث ہی ہے۔ اصل تصوف اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کا نام ہے، ایمان وعقائد کی درستی اور اصلاحِ قلب کی ایک صورت  تصوف ہے، شرع کی پابندی کے ساتھ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کا نام تصوف ہے۔ شرعی احکام جن کا تعلق آدمی کے ظاہری اعمال سے ہے اور اخلاقی تعلیمات جن کا تعلق انسان کے باطن کی درستی سے ہے ان دونوں کے مجموعہ کا نام تصوف ہے، شریعت و طریقت کے حسین سنگم کا نام تصوف ہے اور جو دین اسلام کی صحیح دعوت لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور عوام الناس کو راہ ِراست پر لاکر خدا کی بندگی کا کام انجام دیتے ہیں انہیں صوفیا کہاجاتا ہے۔

اسلام کے اندر باقاعدہ ایسا نظام موجود ہے جوعقائد و ایمانیات کے  مخصوص نتائج سامنے لاتا ہے اور یہ نظام روحانی تجربات و مشاہدات پر مبنی تصوف ہے۔ دراصل تصوف کی راہ پر چلنے سے مشاہدے کی قوت حاصل ہوتی ہے اور مشاہدہ حاصل ہونے سے ایمان کو پختگی میسر آتی ہے۔ جب بندہ اس مقام پر پہنچتا ہے تو وہ احوال و کیفیات جن کو لوگ ناممکن سمجھتے ہیں، اس کے لیے ممکن ہو جاتے ہیں۔جو باتیں محال سمجھی جاتی ہیں وہ اس کے لیے حال ہو جاتی ہیں۔جو امور مشکل اور دشوار شمار کئے جاتے ہیں اس کے لیے آسان ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ کبھی تصوف کی راہ پر گامزن ہی نہ ہوئے ہوں اور مشاہدہ سے کسی علم و عقیدے کی حقیقت معلوم ہی نہ کی ہو ان کے ایمان میں اہلِ تصوف کی مانند ایمان کی پختگی آنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ تصوف کے علم و عمل میں جو پختگی موجود ہوتی ہے وہ عام لوگوں کے علم و عمل میں نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کا علم عشق کی ایک ہی جست میں تمام کارواں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے محبوبِ حقیقی سے واصل ہو جائے گا۔ 

خلاصہ کلام یہ ہے کہ دورِ حاضر میں ایمانیات کو یقین کی کیفیت میں رنگنے کے لیے اور ایمان کی حقیقت سے بہرہ وَر کرنے کے لیے تصوف کی ضرورت و اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔جو لوگ طریق ِ تصوف کو اپنا کر اپنے قلب و باطن کو جلا بخشتے ہیں ان میں وہ بصیرت پیدا ہو جاتی ہے کہ ہر نئے پیدا ہونے والے مسئلے کو اپنی باطنی طاقت و بصیرت سے اس کی تہہ تک مشاہدہ کر لیتے ہیں اور انہیں حق و باطل کی راہیں صاف نظر آنے لگتی ہیں۔

مقاصدِتصوف کے مراحل

مرحلہ اوّل 

۱۔تزکیۂ نفس
۲۔صفائے قلب
۳۔اطاعت حق

مرحلہ دوم

۱۔محبتِ الٰہی
۲۔رضائے الٰہی
۳۔معرفتِ الٰہی

مرحلہ اوّل

۱)  تزکیۂ نفس:

تزکیۂ نفس جو تصوف کی زندگی کا پہلا قدم ہے، انسانی زندگی کو اپنے من کی تمام آلائشوں اور کدورتوں سے پاک کر دینے کا نام ہے۔ گویا تصوف کا نقطۂ آغاز تقاضا کرتا ہے کہ نفسِ انسانی کذب و دروغ گوئی سے پاک ہو جائے، ریاکاری اور منافقت جیسے رذائل دور ہو جائیں، کبر و نخوت اور غرور و تکبر کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے، حسد و کینہ کا خاتمہ ہو جائے، دنیا کی محبت اور لالچ سے انسانی قلب پاک ہو جائے اور ان رذائل کی جگہ عجز و انکسار، خشوع و خضوع،  تواضع و حیا، نفع بخشی و فیض رسانی ، جود و سخا اور محبتِ الٰہی جیسے فضائل انسان کے قلب و باطن کو منور کر دیں اور انسان کا نفس ہر قسم کے رذائل کا انکار کرے اور ان سے بیگانگی محسوس کرے۔ جب انسان کا قلب و باطن پاک ہو جائے تو اس کا زاویہ نظر بھی بدل جاتا ہے۔

۲)  صفائے قلب:

تزکیۂ نفس کے بعد تصوف کا دوسرا بنیادی مقصد صفائے قلب ہے۔ جب نفس گناہ کی آلائشوں، آلودگیوں اور رذائل سے پاک ہو جاتا ہے تو اس طہارت کے اثرات انسان کے قلب و باطن پر مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔جب انسان کی قوتِ غضب اس کے لطیف جذبۂ رحم اور عفو و درگزر سے مغلوب ہو جاتی ہے تو شخصیت میں جمالیاتی پہلو غالب آ جاتا ہے اور عملی زندگی میں اس کے اثرات محسوس و مشہور ہو جاتے ہیں۔
گویا تصوف کا ایک مقصد دل کو اس کی حقیقی کیفیت میں واپس لے آنا ہے۔ اگر دل زنگ آلود رہا تو فاجر ہے اور اگر پاک ہو گیا تو متقی ہے اور پھر ہدایتِ قرآنی بھی اسی دل پر اثر انداز ہوتی ہے جو اثر پذیر ہو۔ جس طرح صاف، تازہ اور شیریں دودھ کو کوئی بھی صاحب ِدانش غلیظ، زنگ آلود اور بدبودار برتن میں نہیں ڈالتاتو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ جو حکمت و دانش کا منبع و سر چشمہ ہے، ہدایتِ قرآنی کے نور کو زنگ آلود دلوں میں ڈال دے کیونکہ غلیظ برتن توخوشبودار دودھ کو بھی متعفن کر دے گا جس طرح بارش گندی زمین پر ہوتی ہے تو بجائے سبزہ کے بدبو اور تعفن اٹھتا ہے۔

۳)  اطاعتِ حق:

اطاعتِ الٰہی ایمان کا بنیادی تقاضا ہے اور تصوف کا مقصود اس اطاعت کو درجۂ کمال تک پہنچانا ہے۔ جب یہ درجہ کمال کو پہنچ جائے تو تصوف کا تیسرا مقصد تکمیل آشنا ہو جاتا ہے۔ اطاعتِ حق کمال تک پہنچنے کی کیفیت یہ ہے کہ زندگی احکامِ الٰہی کی اس قدر پابند ہو جائے کہ اللہ کے حکم کی نافرمانی کا تصور بھی کبھی خیال میں نہ آسکے۔

 مرحلہ دوم

۱)  محبتِ الٰہی:

جو لوگ اہلِ ایمان ہیں اور ایمان کی حقیقی حلاوت و لذت سے بہرہ ور ہیں، وہ اللہ کی ذات سے شدید محبت کرتے ہیں،اللہ سے عشق کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں اللہ کی محبت اُجالا کر دیتی ہے ۔ان کی نس نس میں عشقِ الٰہی سرایت کر جاتا ہے پھر انہیں خواہ آتشِ نمرود میں ڈالا جائے یا کوئلوں میں جھلسا دیا جائے،تپتی ریت پر تڑپا یاجائے، اذیتیں دے دے کر بے ہوش کردیا جائے لیکن اس کے باوجودبے خودی میں بھی ان کے لبوں سے اَحد اَحد کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔

۲)  رضائے الٰہی:

محبتِ الٰہی کا نقطہ کمال یہ ہے کہ انسان اللہ کی رضا پر راضی ہو جاتا ہے۔ تصوف کی تعلیم یہ ہے کہ اپنی تمام کاوشوں کو ، تمام توجہات اور تمام تر لمحات کو حصولِ الٰہی میں لگا دیا جائے۔ اللہ ربّ العزت جس حال میں بھی رکھے دل میں شکوہ کا خیال تک نہیں آنا چاہیے۔ بندہ اپنی ہستی کو اس طرح سے سپرد ِرضائے الٰہی کر دے جیسے مردہ غسال کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔

۳)  معرفتِ الٰہی:

جب بندہ مرحلۂ رضا کو طے کر لیتا ہے تو حجابات ختم ہونے لگتے ہیں۔ ذاتِ الٰہی کی معرفت نصیب ہوتی ہے ۔پھر ہر شے میں اسے ذاتِ الٰہی کا جلوہ نظر آتا ہے۔ اگر رضا و معرفت کا عملی نظارہ کرنا مقصود ہو تو صدیقِ اکبرؓ کی کیفیات اور جذبۂ عشق سامنے رکھا جائے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جہاد بالمال کا اعلان فرمایا تو صدیقِ اکبرؓ نے گھر کا تمام سامان لا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں ڈھیر کر دیا۔

 جب انسان تعلیمِ تصوف کے ان مرحلوں کو طے کرتا ہے تو نقطہ کمال پر جا کر اسے معرفتِ الٰہی نصیب ہوتی ہے اور اس کا تعلق باللہ استوار ہو جاتا ہے اور نسبت کا یہ اعزاز انسان کو ان عظمتوں سے ہمکنار کرتا ہے جن کا مقابلہ دنیا کی کوئی عظمت نہیں کر سکتی کیونکہ نسبتِ نور تو خود نور بنا دیتی ہے 

استفادہ کتب:
۱۔محک الفقر کلاں:  تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۲۔سرِ دلبراں:  تصنیف حضرت شاہ سید محمد ذوقیؒ
۳۔حقیقتِ تصوف:  تصنیف ڈاکٹر طاہر القادری
۴۔علمِ تصوف:  تصنیف خواجہ محمد عباد اللہ اختر
٭٭٭٭٭

 

16 تبصرے “راہ ِ تصوف Rah E Tasawwuf

  1. دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
    عجب چیز ہے لذتِ آشنائی

  2. علامہ ابنِ عساکرؒ نے فرمایا:
    تصوف میرے نزدیک دل کی(ماسویٰ اللہ سے) فراغت کا نام ہے۔ (تاریخ مدینتہ الدمشق ج:41 ، ص:215)

  3. جب انسان تعلیمِ تصوف کے ان مرحلوں کو طے کرتا ہے تو نقطہ کمال پر جا کر اسے معرفتِ الٰہی نصیب ہوتی ہے

  4. حضرت معروف کرخیؒ فرماتے ہیں کہ تصوف حقائق کوجان لینے اور مخلوق کے ہاتھوں میں جو کچھ ہے اس سے بے نیاز ہو جانے کا نام ہے۔

  5. موجودہ دور میں تصوف کو جہالت، لادینیت، مخالفِ شریعت اور رقص و سرود کے مفہوم میں متعارف کرایا جارہا ہے جو کہ اسلامی نقطہ نظر کے سراسر مخالف ہے۔ اس لیے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ احیائے تصوف کے ساتھ تصوف کے مفاہیم کی بھی اصلاح ہو اور تصوف کا اصلی رنگ جو کتاب وسنت کی روشنی میں ہے اس کو لوگوں کے سامنے پیش کیاجائے تاکہ تصوف کے متعلق جو بھی غلط فہمیاں لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوچکی ہیں ان سب کا ازالہ ہو اور حقیقی تصوف متعارف ہو سکے۔

  6. تصوف اس طرز ِزندگی کا نام ہے جس میں بندہ غیر اللہ سے منہ موڑ کر اپنے معبود و محبوبِ حقیقی کے ساتھ بے لوث رشتہ قائم کر لیتا ہے۔

  7. تصوف ان کیفیات کا علم ہے جن کے ذریعے نفس کا تزکیہ، اخلاق کا تصفیہ اور ظاہر و باطن کی تعمیر ہوتی ہے تاکہ انسان ابدی سعادت حاصل کرسکے۔

  8. جب انسان تعلیمِ تصوف کے ان مرحلوں کو طے کرتا ہے تو نقطہ کمال پر جا کر اسے معرفتِ الٰہی نصیب ہوتی ہے اور اس کا تعلق باللہ استوار ہو جاتا ہے اور نسبت کا یہ اعزاز انسان کو ان عظمتوں سے ہمکنار کرتا ہے جن کا مقابلہ دنیا کی کوئی عظمت نہیں کر سکتی کیونکہ نسبتِ نور تو خود نور بنا دیتی ہے

  9. سیدّنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ غنیتہ الطالبین میں فرماتے ہیں:
    تصوف حق کے ساتھ سچائی اور مخلوق کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا ہے۔ (غنیتہ الطالبین)

اپنا تبصرہ بھیجیں