alif | الف


Rate this post

 الف (Alif)

 مرشدکامل اور اسکی صحبت ۔ سیدّنا غوث الاعظمؓ کی تعلیمات کی روشنی میں

جمالِ الٰہی کا مشاہدہ (دیدارِحق تعالیٰ) اُس مقبولِ الٰہی شیخِ و اصل (مرشد کامل اکمل) کی تلقین کے بغیر حاصل نہیں ہوتا جو سابقین میں سے ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کے حکم اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وساطت سے ناقصوں کو کامل بنانے کے لیے بھیجا گیا ہو کیونکہ اولیا کرام (مرشد کامل اکمل) کو محض خواص کی تربیت کے لیے بھیجا جاتاہے نہ کہ عوام کی تربیت کے لیے۔ نبی اور ولی (مرشد)میں فرق یہ ہے کہ نبی کو عوام و خواص دونوں کی تربیت کے لیے بھیجا جاتا ہے اور وہ مستقل بالذات ہوتا ہے۔ جبکہ ولی (مرشد) کو فقط خواص کی تربیت کے لیے بھیجا جاتا ہے اور وہ مستقل بالذات نہیں ہوتا بلکہ اپنے نبی علیہ السلام کے تابع ہوتا ہے۔ اگر وہ دعویٰ کرے کہ وہ مستقل بالذات ہے تو کافر ہو جاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے ’’میری امت کے علما انبیائے بنی اسرائیل جیسے ہیں‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انبیائے بنی اسرائیل ایک ہی نبی مرسل موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی اتباع کرتے چلے آئے اور کسی اور شریعت کو اپنانے کی بجائے اسی ایک شریعت کے احکام کی تجدید و تاکید کرتے چلے آئے۔ اسی طرح اس امت کے علما کو کہ جن کا تعلق گروہِ اولیا سے ہے خواص کی تربیت کے لیے بھیجا جاتا ہے تا کہ وہ او امر و نواہی کی تجدید کریں ،استحکامِ اعمال کی تاکید کریں ،اصل شریعت ’’دل‘‘ میں مواضعاتِ معرفت کا تصفیہ کریں اور انہیں نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم سے آگاہ کریں جیسا کہ اصحابِ صفہ رضی اللہ تعالی عنہم (نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم سے اس قدر آگاہ تھے کہ) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خبر دینے سے پہلے ہی شب معراج کے اسرار پر بحث فرمارہے تھے۔ 

 پس ولی کامل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس ولایت کا حامل ہوتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوتِ باطن کا جزو ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے اُس (ولی کامل) کے پاس’’ امانت‘‘ (امانتِ الٰہیہ امانتِ فقر) ہوتی ہے۔ اس سے مراد وہ علما ہرگز نہیں جنہوں نے محض علمِ ظاہر حاصل کر رکھا ہے کیونکہ اگر وہ ورثائے نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں داخل ہوں بھی تو ان کا رشتہ ذوِی الارحام (وہ بہن بھائی جن کی ماں ایک اور باپ مختلف ہوں) کا سا ہے۔ پس وارثِ کامل وہ ہوتا ہے جو حقیقی اولاد (فرزندِحقیقی، محرمِ راز، دل کا محرم، وہ طالب جس کو مرشد اپنا روحانی ورثہ منتقل کرتا ہے)ہو کیونکہ باپ سے اُس کا رشتہ تمام عصبی رشتہ داروں سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ پس بیٹا (وارثِ کامل، فرزندِ حقیقی) ظاہر باطن میں باپ کے اوصاف کا سرّ (وارث)ہوتا ہے۔ (سرّ الاسرار) 

صحبت مرشد

 ۱)  اے اللہ کے بندے !تو اولیا کرام کی صحبت اختیار کرکیونکہ ان کی یہ شان ہوتی ہے کہ جب کسی پر نگاہ اور توجہ کرتے ہیں تو اس کو زندگی عطا کر دیتے ہیں۔ اگر چہ وہ شخص جس کی طرف نگاہ پڑی ہے یہودی یا نصرانی یا مجوسی ہی کیوں نہ ہو۔ (الفتح الربانی۔ ملفوظاتِ غوثیہ)

۲)  مرشدانِ کامل کی مجالس کو اختیار کرو کیونکہ ان کی مجالس میں شرکت سے حلاوت اور مٹھاس حاصل ہوتی ہے اور ان کی نورانی صحبت اور مجلس میں انسانوں کے قلوب کے اندر اللہ تعالی کی خالص محبت کے چشمے جاری کیے جاتے ہیں جن کی قیمت صرف وہی جانتے ہیں جن کو خفی ذکر اللہ (اسمِ اللہ ذات) کی توفیق حاصل ہو چکی ہوتی ہے۔ 

(سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی تصنیفِ مبارکہ ’’حیات و تعلیمات سیدّنا غوث الاعظمؓ سے انتخاب)

 

اپنا تبصرہ بھیجیں