وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ Wama Arsalnaka illa Rahmatan lilAalameen

5/5 - (23 votes)

وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً  لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ Wama Arsalnaka illa Rahmatan lilAalameen

تحریر:فقیہہ صابر سروری قادری(رائیونڈ)

وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً  لِّلْعٰلَمِیْنَ – اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔

اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنا تعارف ’’ربّ العالمین‘‘ کروایاہے وہیں اپنے پیارے محبوب محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ’’رحمتہ للعٰلمین‘‘ کے لقب سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو تمام جہانوں کا خالق ومالک اورپالنے والا ہے، اس نے اپنی مخلوق کے لئے رحمت کا اہتمام خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیؐ کی صورت میں کیا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنٰکَاِلَّا رَحْمَۃً  لِّلْعٰلَمِیْنَ  (سورۃالانبیاء ۔107)
ترجمہ:اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔ 

یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحمتِ عامہ اور رحمتِ دائمیہ کی دلیل ہے۔ آپؐ کی رحمت کا دائرہ صرف مکہ و مدینہ یا عرب تک محدود نہیں بلکہ ہر زمان، ہر مکان اور ہر مخلوق کے لیے ہے۔ آپؐ کی ذات رحمت ہی رحمت ہے۔ یعنی آپؐ کی بعثت سے رحمت کے سوا کچھ مقصود نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو پوری کائنات کے لئے رحمت قرار دیا۔ 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحمت کے لاتعداد گوشے ہیں جن کا احاطہ انسانی عقل نہیں کر سکتی۔ اس رحمت کا دائرہ کار صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ تمام عالمین پر محیط ہے۔ عالمِ انسانیت، عالمِ جنات، عالمِ نباتات، عالمِ حیوانات، عالمِ جمادات الغرض ہر عالم جو ہمارے علم میں ہے اور جو ہمارے علم میں نہیں ہے، آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحمتِ کاملہ ہی سے فیض پارہا ہے اور آپؐ ہی کے صدقے قائم و دائم ہے۔

رحمت کا مفہوم

رحمت کا مطلب ہے مہربانی، شفقت، کرم اور نرم دلی۔ یہ لفظ عربی زبان سے لیا گیا ہے اور اس کے کئی پہلو ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے استعمال ہو تو اس کا مطلب ہے بخشش، سلامتی اور ہر طرح کی عنایت۔ جب کسی انسان کے لیے استعمال ہو تو اس کا مطلب ہے نرم دل ہونا اور دوسروں پر مہربانی کرنا۔

اللہ تعالیٰ کے تمام رسول اور انبیاکرام علیہم السلام رحمت کے حامل ہیں لیکن انکی رحمت صرف اپنی اپنی امت کے لیے مخصوص تھی جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے ارشاد ہے:
وَ رَحمَۃً مِّنَّا (سورۃ مریم۔21)
ترجمہ: اپنی جانب سے رحمت (بنادیں)۔
اور اپنے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حق میں ارشاد فرمایا ’’ہم نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

ان دونوں رحمتوں میں فرق ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کے رحمت ہونے کا حرف ’’مِنْ‘‘ کی قید کے ساتھ ذکر فرمایاا ور یہ حرف کسی چیز کا بعض حصہ بیان کرنے کے لئے آتا ہے اور اسی وجہ سے حضرت عیسیٰؑ ان لوگوں کے لئے رحمت ہیں جو آپؑ پر ایمان لائے اور اس کتاب و شریعت کی پیروی کی جو آپؑ لے کر آئے اور ان کی رحمت کا یہ سلسلہ سیدّ المرسلین کے مبعوث ہونے تک چلا، پھر آپ کا دین منسوخ ہونے کی وجہ سے اپنی امت پر آپ کا رحمت ہونا منقطع ہو گیا جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب علیہ الصلوٰۃوالسلام کے بارے میں مطلق طور پر تمام جہانوں کے لئے رحمت ہونا بیان فرمایا۔ اسی وجہ سے عالمین پر آپؐ کی رحمت کبھی منقطع نہ ہو گی، دنیا میں کبھی آپ ؐکا دین منسوخ نہ ہو گا اور آخرت میں ساری مخلوق آپؐ کی شفاعت کی محتاج ہوگی۔ سبحان اللہ !

آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحمت عام ہے۔ جو آپؐ پر ایمان لایا آپؐ اس کے لیے بھی رحمت ہیں اور جس نے آپؐ کو نہیں مانا، اس کے لیے بھی رحمت ہیں۔حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
 حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا رحمت ہونا عام ہے، ایمان والے کے لیے بھی اور اس کے لیے بھی جو ایمان نہ لایا۔ مومن کے لیے تو آپؐ دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اس کے لیے آپؐ دنیا میں رحمت ہیں کہ آپؐ کی بدولت اس کے دنیوی عذاب کو مؤخر کر دیا گیا اور اس سے زمین میں دھنسانے کا عذاب، شکلیں بگاڑ دینے کا عذاب اور جڑ سے اکھاڑ دینے کا عذاب اٹھا دیا گیا۔

حضرت نوح علیہ السلام نے پورے 950 سال تبلیغ کرنے کے بعد دیکھا کہ ان کی قوم بلکہ ان کی نسلیں بھی کفر سے باز آنے والی نہیں تو انہوں نے دعا کی ’’اے باری تعالیٰ! ان کو تباہ و برباد کردے کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ ان کی نسلوں میں سے بھی کوئی مومن پیدا نہیں ہو گا۔‘‘ اس دعا کے نتیجے میں تمام روئے زمین پر طوفان آیا اوراہل ِکفر کی تمام بستیاں ہلاک ہو گئیں۔

مختلف وقتوں میں انبیا دعائیں کرتے رہے جن کے نتیجے میں کفارپر عذاب آئے اور مومنین کو نجات ملی۔ مگر میرے پیارے آقاحضور نبی کریمؐ کی شانِ رحمت یہ ہے کہ آپؐ نے باقی انبیا کی طرح اپنی قوم کے لیے بددعا نہیں فرمائی حتیٰ کہ جب آپؐ طائف والوں کی بدسلوکی کے پیشِ نظر پہاڑ کی آڑ میں کھڑے تھے اور جبریلؑ امین نے حاضر ہو کر عرض کی ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! اللہ ربّ العزت نے مجھے بھیجا ہے کہ اگر آپؐ حکم دیں تو میں دونوں پہاڑوں کو ملا کر ان بدبختوں کو پیس کر تباہ و برباد کردوں یا اس پوری بستی کو اٹھا کر بلندیوں سے اس طرح گرائوں کہ زمین کے اس خطے پر قیامت تک کوئی نسل پیدا نہ ہو۔‘‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس وقت بھی اس دعا کو استعمال نہیں کیا بلکہ اپنی شانِ رحمت کو اس طرح بیان فرمایا:
’’مجھے رحمت ہی بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔‘‘(مسلم6613)
حضورؐ اقدس رحمتہ للعالمین مومنین کے لیے کمال کے مہربان ہیں۔ اور آپؐ ان کی بھلائیوں پر حریص ہیں۔

سورۃ توبہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِّن اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَوْفٌ رَّحِیْمٌ  (سورۃ توبہ ۔ 128)

ترجمہ:بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔

اس آیتِ مبارکہ میں اللہ کریم نے آپؐ کے چار اوصافِ مبارکہ کا ذکر فرمایا جو کہ سب کے سب آپؐ کی اپنی اُمت پر رحمت کو بیان کرتے ہیں:
۱۔تمہارا مشقت میں پڑنا ان پر گراں ہے۔
۲۔تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ہیں۔
۳۔کمال مہربان ہیں۔
۴۔رحم والے ہیں۔

آپؐ اُمت کے لئے اپنی رحمت کا بیان اپنے ہی الفاظ میں یوں ارشاد فرماتے ہیں:
میری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور جب اس آگ نے اِردگرد کی جگہ کو روشن کر دیا تو اس میں پتنگے اور حشراتُ الارض گرنے لگے، وہ شخص ان کو آگ میں گرنے سے روکتا ہے اور وہ اس پر غالب آ کر آگ میں دھڑا دھڑ گر رہے ہیں، پس یہ میری مثال اور تمہاری مثال ہے، میں تمہاری کمر پکڑ کر تمہیں جہنم میں جانے سے روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ جہنم کے پاس سے ہٹ جائو!جہنم کے پاس سے ہٹ جائو!اور تم لوگ میری بات نہ مان کر(پتنگوں کے آگ میں گرنے کی طرح)جہنم میں گرے چلے جا رہے ہو۔ (مسلم 5957)

حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مشرکین نے سخت تکالیف پہنچائیں، آپؐ پر پتھر برسائے گئے یہاں تک کہ آپؐ کا جسد مبارک لہولہان ہو گیا تو یہ حال دیکھ کر صحابہ کرامؓ نے عرض کیا’’یارسول اللہؐ! ان مشرکین کو(جنہوں نے آپؐ کو تکلیف پہنچائی ہے) بددعا دیں‘‘۔آپ ؐنے جواب میں فرمایا: ’’نہیں، میں ان کے لیے بددعا نہیں کروں گا کیونکہ مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا، مجھے صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ (مسلم6613)

مصطفیؐ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اِن سب چیزوں کے لیے رحمت ہونا اس طرح ہے کہ تمام کائنات کی حقیقی روح اللہ تعالیٰ کا ذکراور اس کی عبادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت زمین سے یہ روح نکل جائے گی اور زمین پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہے گا تو ان سب چیزوں کی موت یعنی قیامت برپا ہوجائے گی۔ جب ذکرِاللہ کا ان سب چیزوں کی روح ہونا معلوم ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ان سب چیزوں کے لیے رحمت ہونا خود بہ خود ظاہر ہوگیا، کیونکہ اِس دنیا میں قیامت تک ذکرِاللہ اور عبادت آپؐ ہی کی تعلیمات سے قائم ہے۔ آپؐ کے رحمتہ للعالمین ہونے کا یہ مفہوم بھی لیا گیا ہے کہ آپؐ جو شریعت لے کر دنیا میں تشریف لائے ہیں وہ تمام انسانوں کی بھلائی اور خیر خواہی کے لیے ہے۔ آپؐ کی ہر تعلیم اور شریعتِ محمدیہ کا ہر حکم انسانیت کے لیے باعثِ خیر ہے۔

آپؐ کی بچوں پر شفقت

بچوں پر آپؐ کی شفقت کا نظارہ قابلِ دید تھا، مدینہ منورہ کی گلیوں میں کوئی بچہ آپؐ کو کھیلتا کودتا نظر آتا توآپؐ خوشی میں اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا کرتے تھے، اس کو بوسے دیتے، اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے۔ ایک مرتبہ آپؐ اپنے نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہٗ کو پیار کررہے تھے کہ ایک دیہاتی کو یہ منظر دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی اور کہنے لگا کہ کیا آپؐ اپنے بچوں کو پیار بھی کرتے ہیں؟ہم تو نہیں کرتے۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا ’’کیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل سے رحمت کا جذبہ ختم کردیا ہے؟ ‘‘

حضرت عبد اللہ بن شدادؓ اپنے والدسے نقل فرماتے ہیں:
ایک دفعہ آپؐ نماز میں حضرت حسنؓ یا حسینؓ کو ساتھ لائے، آپؐ نے نماز پڑھائی، دورانِ نماز آپؐ نے سجدہ طویل فرمایا۔ حضرت شدادؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سر اٹھایا توکیا دیکھتا ہوں کہ بچہ آپؐ کی پشت پر سوارہے اور آپؐ سجدہ میںہیں، لہٰذا میں دوبارہ سجدے میں چلا گیا۔ جب نماز مکمل ہوگئی تو صحابہ کرامؓ نے سوال کیا ’’یارسول اللہؐ! آپؐ نے دورانِ نماز سجدہ طویل فرمایا، ہمیں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ کوئی معاملہ پیش آیا ہے یا یہ کہ آپؐ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’ان میں سے کوئی بات نہ تھی بلکہ میرا بیٹا میری پشت پر سوار تھا، میں نے اسے اپنی خواہش کی تکمیل سے پہلے جلدی میں مبتلا کرنا اچھا نہ سمجھا۔‘‘  (مسند احمد۔28199)

ایک مرتبہ آپؐ اپنی نواسی امامہ بنتِ زینب رضی اللہ عنہا کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپؐ سجدہ میں تشریف لے جاتے تو امامہؓ کو زمین پر بٹھادیتے اور کھڑے ہوتے تو انہیں گود میں اٹھا لیتے۔

 اسی طرح ایک مرتبہ نماز کے دوران بچے کے رونے کی آواز سنی تو آپؐ نے نماز مختصر کردی تاکہ بچے کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔

حضرت ابو قتادہؓ فرماتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’میں نماز کی نیت باندھ کر لمبی قرأت کرنا چاہتا ہوں کہ اچانک بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کردیتا ہوں تاکہ اُس کی ماں کو پریشانی نہ ہو۔‘‘ (صحیح بخاری۔ 710)

آپؐ بچوں کو بڑی محبت سے گود میں لے لیا کرتے تھے، کبھی بچے آپؐ کے کپڑے بھی خراب کردیتے لیکن آپؐ کو ناگواری نہ ہوتی۔ 

اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک بچہ آپؐ کی خدمت میں لایا گیا۔ آپؐ نے اُس کو گود میں لے لیا تو اس نے آپؐ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا۔ آپؐ نے پانی منگواکر کپڑے پاک کیے اور اُس بچہ کو پھر گود میں لے لیا۔ فصل کا نیا میوہ جب آپؐ کے پاس آتا تو سب سے کم عمر بچے کو، جو اُس وقت موجود ہوتا، عطا فرماتے۔ غرض کہ آج سے چودہ سو سال قبل رحمتہ اللعالمین نے ایسے وقت بچوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور آرام کا ذریعہ قرار دیا جب ناک اونچی کرنے کے لیے بچیوں کو زندہ دفن کرنے کا رواج تھا۔ اُس وقت اُن پر تحفظ و سلامتی اور شفقت ومحبت کی ایک ایسی چادر تان دی تھی جب دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی بچیوں کے تحفظ وسلامتی کے لیے کوئی قانون نہ تھا۔ رحمتہ اللعالمین نے بچوں اور بچیوں کو نہ صرف دائمی تحفظ بخشا بلکہ انہیں گود میں لے کر، کندھوں پر بٹھاکر، اپنے سینہ مبارک سے لگاکر معاشرہ میں ایسا مقام دیا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔

بشریت کے تقاضے کی بنا پر آپؐ بھی رنج وغم کی کیفیات سے گزرتے تھے اور فرط ِغم سے آپؐ کی آنکھیں بھی چھلک اٹھتی تھیں۔ آپؐ کے ایک نواسے (سیدہ زینبؓ کے صاحبزادے) پر جان کنی کی حالت طاری تھی، یہ حال دیکھ کر آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ حضرت سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ ! آپؐ رو رہے ہیں؟‘‘ آقا پاکؐ نے ارشاد فرمایا ’’یہ وہ رحم ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا فرمادیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے اُن بندوں پر رحم کرتا ہے جن کے دلوں میں رحم ہوتا ہے۔‘‘ (بخاری۔6655)

خواتین کو معاشرے میں عزت بخشی

عورتیں فطرتاً کمزور ہوتی ہیں، آپؐ نے باربار صحابہ کرامؓ کو تلقین فرمائی کہ وہ عورتوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں، اُن کی دل جوئی کریں اور ان کی طرف سے پیش آنے والی ناگوار باتوں پر صبروتحمل کا مظاہرہ کریں۔
 ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’خبردار! عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرو، اس لیے کہ یہ عورتیں تمہاری نگرانی میں ہیں۔‘‘

ایک مرتبہ لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کے سلسلہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جس شخص نے کسی لڑکی کی صحیح سرپرستی کی اور اس کی اچھی تربیت کی تو یہ لڑکی قیامت کے دن اس کے لیے دوزخ کی آگ سے رکاوٹ بن جائے گی۔‘‘ (مسند احمد۔ 11488)

 آپؐ نے خود اپنے طرز ِعمل سے صحابہ کرامؓ کے سامنے خواتین کے ساتھ حسنِ سلوک کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ 

ایک مرتبہ اُمّ المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اُونٹنی پرسوار ہونے لگیں تو آپؐ سواری کے پاس بیٹھ گئے اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آپ کے گھٹنوں کے اوپر پاؤں رکھ کر اُونٹنی پر سوار ہوئیں۔
آپؐ کی لختِ جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف لاتیں تو آپؐ بہت خوش ہوتے اور انہیں اپنے ساتھ بٹھاکر ان کا بہت احترام کرتے۔
ایک مرتبہ خواتین نے اجتماعی طور پر حاضر ہوکر عرض کیا ’’مردوں کو آپؐ سے استفادہ کا خوب موقع ملتا ہے، ہم عورتیں محروم رہ جاتی ہیں، آپؐ ہمارے لیے کوئی خاص دن اور وقت متعین فرما دیں۔‘‘ آپؐ نے اُن کی درخواست قبول فرمائی اور اُن کے لیے ایک دن متعین فرمادیا۔ اُس دن آپؐ خواتین کے اجتماع میں تشریف لے جاتے اور اُن کو وعظ و نصیحت فرماتے۔ (مسند احمد۔ 10869)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بیوائوں سے نکاح کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ بیوائوں کو تنہا نہ چھوڑو بلکہ انہیں بھی اپنے معاشرہ میں عزت بخشو۔

 خادموں اور نوکروں کا خیال 

آپؐ کو خادموں اور نوکروں کا بھی بہت خیال تھا۔ چنانچہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:
یہ خاد م تمہارے بھائی ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت بنا دیا ہے، اگر کسی کا بھائی اُس کا ما تحت بن جائے تو اُسے اپنے کھانے میں سے کچھ کھلائے، اس کو ایسا لباس پہنائے جیسا وہ خود پہنتا ہے، اس کی طاقت وہمت سے زیادہ کام نہ لے، اگر کبھی کوئی سخت کام لے تو اُس کے ساتھ تعاون بھی کرے۔ 

اِسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے ’’اگر تمہارا خادم یعنی نوکر تمہارے لیے کھانا بناکر لائے تو اُسے اپنے ساتھ بٹھاکر کھلاؤ یا اُس کھانے میں سے اُسے کچھ دے دو، اس لیے کہ آگ کی تپش اور دھویں کی تکلیف تو اُس نے برداشت کی ہے۔‘‘

 یتیموں سے ہمدردی 

یتیموں کے لیے بھی آپؐ کے دل میں بڑی ہمدردی تھی، اس لیے آپ صحابہ کرامؓ کو یتیموں کی کفالت کرنے کا سبق دیا کرتے تھے۔ 

ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے، آپؐ نے قربت بیان کرنے کے لیے بیچ اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرمایا۔‘‘ یعنی یتیم کی کفالت کرنے والا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ جنت میں ہوگا۔

آپؐ کا جانوروں پر رحم

آپؐ کی رحمت کا دائرہ صرف انسانوں تک محدود نہ تھابلکہ بے زبان جانور بھی آپؐ کی رحمت سے مستفید ہوتے تھے۔

 ایک مرتبہ آپؐ ایک انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے۔اس میں ایک اونٹ تھا، وہ آپؐ کو دیکھ کر سسکنے لگااور اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ آپؐ اس کے پاس گئے اس کی گردن اور کوہان کو سہلایا تو اونٹ نے سسکنا بند کردیا۔ آپؐ نے دریافت کیا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری نوجوان آیا اور کہا: اے اللہ کے رسولؐ! یہ میرااُونٹ ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’کیا تم اس جانور کے بارے میں اللہ سے ڈرتے نہیں ہو جس نے تم کو اس کا مالک بنایا ہے؟ یہ اونٹ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس کو خوب تیز ہانکتے ہو۔‘‘ (ابوداؤد۔2549)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بے زبان جانوروں کے متعلق اللہ سے ڈرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، ان پر بھلے طریقے سے سواری کرو اور بھلے طریقوں سے انہیں کھلاؤ۔ (ابوداؤد۔ 2548)

آپؐ جانور کو ذبح کے وقت نرمی کرنے کا فرماتے، اس کے سامنے چھری تیز نہ کرنے اور تیز ترین چھری کے ساتھ ذبح کرنے کی تلقین فرماتے تاکہ اسے زیادہ تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

 بے جان چیزوں پر رحم

بے زبان چیزیں بھی آپؐ کے دائرہ رحمت میں شامل تھیں۔ سیرت کی کتابوں میں ایک حیرت انگیز واقعہ موجود ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ بے زبان چیزوں سے بھی آپؐ کا کتنا تعلق تھا۔

 مسجدِنبویؐ میں جب آپؐ خطبہ دیتے دیتے تھک جاتے تو ایک ستون سے ٹیک لگالیا کرتے تھے۔بعدازاں آپؐ کے لیے منبر تیار کردیا گیا۔ آپؐ اُس پر تشریف رکھنے لگے۔ ظاہر ہے کہ وہ ستون آپؐ کے جسمِ اطہر کے لمس سے محروم ہوگیا۔اُس بے زبان ستون کو اِس واقعہ سے اِس قدر صدمہ پہنچا کہ وہ تڑپ اُٹھا یہاں تک کہ اُس کے رونے کی آواز آپؐ نے بھی سنی اور صحابہ کرامؓ کے کانوں تک بھی پہنچی۔ آپؐ منبر سے اُترکر ستون کے پاس تشریف لے گئے اور اُس پر دستِ شفقت رکھ کر اُس کو پر سکون کیا۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے ارشاد فرمایا کہ اگر میں اسے گلے نہ لگاتا تو یہ ستون قیامت تک اِسی طرح روتا رہتا۔ (صحیح بخاری۔ 2095)

کائنات میں نبی ٔرحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے علاوہ کوئی انسان ایسا پیدا نہیں ہوا جس کی رحمت و شفقت، احسان و انعام اس حالت اور اس کیفیت میں بھی اپنے عروج پر رہے جسے غم و غصہ کی انتہائی کیفیت میں بھی اپنے جذبات پر اتنا ضبط ہو کہ وہ اپنے دامنِ رحمت کو تمام انسانیت پر تانے رہے اور اپنے مرتبہ رحمتہ للعالمین سے ایک لمحہ بھی پیچھے نہ ہٹے، بلاشبہ یہ مقام ساری کائنات میں صرف ایک ہی فردِ مقدس کو حاصل ہوا ہے جو ہمارے نبی، سرداراور آقاؐحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔

سلام اس پر کہ جس نے بیکسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پر کہ اسرارِ محبت جس نے سکھلائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
رحمت ِمصطفی ؐکا دورِ حاضر میں تسلسل

 اگر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ’’رحمتہ للعالمین‘‘ ہیں تو یہ ممکن نہیں کہ آپؐ کی رحمت صرف چودہ سو سال پہلے تک محدود ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ:

کیا یہ رحمتِ مصطفویؐ آج بھی جاری ہے؟ اگر ہے، تو کیسے؟

 جواب:آپؐ کی رحمت ایک نور ہے، ایک روحانی حقیقت ہے جو ہر زمانے میں اہلِ دل، صادقین اور فقرائے کاملین کے ذریعے مخلوقِ خداتک پہنچتی ہے۔ مرشد ِکامل کے ذریعے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحمت آج بھی جاری و ساری ہے اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔ 

جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رحمتہ للعالمین ہیں، اسی طرح مرشد کامل ہر دور میں اس رحمت کا مظہر اور فیض کا وسیلہ ہوتا ہے۔مرشد کامل ہی وہ ہستی ہے جو باطن میں نبی پاکؐ کی روحانی وراثت کو سنبھالے ہوئے ہے۔
اَلْعَلَمَآئُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَآئِ  (صحیح بخاری۔67)
ترجمہ: علما انبیا کے وارث ہیں۔ 

یہاں علما سے مراد وہ عالم ہیں جو علمِ شریعت اور علمِ طریقت دونوں کے جامع ہوں۔ مرشد کامل نہ صرف شریعت و طریقت اور حقیقت و معرفت کا عالم ہوتا ہے بلکہ باطن کا وارث اور فیضِ محمدیؐ کا حامل ہوتا ہے۔وہ فقرِمحمدی ؐکا مظہر ہوتا ہے جیسا کہ احادیثِ مبارکہ میں ہے:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ 
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ فَافْتَخِرُّ عَلٰی سَآئِرِ الْاَنْبِیَآئِ وَالْمُرْسَلِیْنَ 
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے اور فقر ہی کی بدولت مجھے تمام انبیاو مرسلین پر فضیلت حاصل ہے۔ 

اَلْفَقْرُ کَنْزٌ مِنْ کُنُوْزِ اللّٰہِ تَعَالٰی 
ترجمہ: فقر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔

یہ فقر، یہ فیضِ باطنی، یہ اللہ کا خزانہ آج مرشد کامل کے توسط سے مریدین تک پہنچتا ہے۔ مرشد کامل ہی درِ مصطفیؐ تک رسائی کا وسیلہ ہے۔جس طرح صحابہ کرامؓ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہوتے تھے، آج کا سچا مرید مرشد کامل کی صحبت سے وہی روحانی نور حاصل کرتا ہے۔ مرشدِکامل کے ذریعے جو نور، ہدایت اور ذکر ملتا ہے وہ سب رحمتِ مصطفی ؐہے اور اللہ جس پر چاہتا ہے اپنی رحمت نازل فرماتا ہے (یعنی اسے کسی کامل مرشد کی صحبت عطا فرما دیتا ہے)۔ مرشد کی روحانی نگاہ دلوں کو زندہ کرتی ہے، گناہوں سے پاک کرتی ہے، اللہ کے قرب کی طرف لے جاتی ہے اور یہی رحمتِ مصطفویؐ کا تسلسل ہے۔ 

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
مرشد کامل وہی ہوتا ہے جو طالب کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ تک پہنچا دے اور اُسے وہی فیض عطا کرے جو صحابہؓ کو نصیب ہوا۔
آج کے دور میں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے ’’فقرِمحمدیؐ ‘‘کو عام لوگوں تک پہنچایا، ’’اسمِ اللہ ذات‘‘ کی حقیقت کو کھول کر بیان فرمایا۔ جو بھی سچے دل سے آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت اختیار کرتا ہے وہ یقینا رحمتِ مصطفی ؐکے فیض میں داخل ہو جاتا ہے۔ مرشد کامل کی ذات ایک روحانی دروازہ ہے۔ جو شخص مرشد کی صحبت اختیار کرتا ہے گویا اُس نے درِ مصطفیؐ پر دستک دی۔ بلاشبہ سلطان العاشقین  حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس موجودہ دور کے وہ عظیم مرشدِکامل ہیں جن کے وجودِ باکمال سے لاکھوں دلوں کو رحمتِ  مصطفیؐ نصیب ہو رہی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی ذات سے جاری ہونے والے فیض کی ایک جھلک درج ذیل ہے:

 اسمِ اللہ ذات کی حقیقی معرفت عطا فرما کر طالب کے باطن کو زندہ کرتے ہیں۔

اپنی کتب کے ذریعے فقرِمحمدیؐ کو دنیا بھر میں عام کر دیا۔
 ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات سے لوگوں کے سینے نور سے معمور ہو رہے ہیں۔
 صحبتِ مرشد میں ہر سچا طالب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قربت محسوس کرتا ہے۔
آپ مدظلہ الاقدس طالب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی غلامی کا ذوق عطا فرماتے ہیں۔
باطن کو ایسا منور فرماتے ہیں کہ بندہ ظاہری و باطنی طور پر سنتِ رسول ؐ کا عملی مظہر بن جاتا ہے۔
آپ مدظلہ الاقدس فقرِمحمدیؐ کا حقیقی راستہ عطا کرتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی حقیقی رضا کی طرف لے جاتا ہے۔

مرشد کامل صرف ایک انسان نہیں بلکہ وہ آئینہ ہے جس میں نورِ مصطفیؐ جھلکتا ہے۔ اُس کی رحمت، اُس کی نظر، اُس کا ذکر ۔۔۔سب کچھ نبی پاک ؐکی رحمت کا فیضان ہے۔ جس نے مرشد پا لیا، گویا اُس نے درِ مصطفیؐ سے فیض پا لیا۔ بیشک مرشد کی رحمت ہی دراصل رحمتِ مصطفیؐ ہے۔ آئیں!آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت حاصل کر کے رحمتِ مصطفیؐ کے حامی بنیں۔

مرشد کی ذات فیضِ خدا ہے
وہی دراصل مصطفیؐ ہے
رحمت وہی جو دل کو چھو لے
باطن میں نورِ حق کو گھولے
نبیؐ کا عکس، نبیؐ کا راز
مرشد میں ہے وہی انداز
جب دیکھو اُس کی چشمِ کرم
دل کہہ اُٹھے، یہی ہے رحم
سلطانِ عشق آئے، تو کُھلے رازِ حقیقت
باطن نے کہا یہ نبیؐ کی ہے نیابت
اُن کی ہر نظر میں ہے تجلّیٔ محمدؐ
ہر لفظ میں چھپا ہے وہی نورِ محمدؐ
ہے فقر کا سلطان، ہے عشق کا امام
مرشد ہے وہی جو ہے نبیؐ کا مکمل نظام
تلاش ہے اگر دل کو رحمتِ مصطفیؐ کی
تو راہ ہے فقط ایک، وہ مرشدِ وفا کی
نہ صحرا میں نہ زُہد میں تُو گُھومتا پھرے گا
سلطان نجیبؔ کی گلی میں نُور ملے گا

استفادہ کتب:
حضورؐ کی شانِ رحمت از ڈاکٹر طاہرالقادری
وسعتِ رحمتِ مصطفیؐ:  ماہنامہ سلطان الفقر پبلیکیشنزشمارہ دسمبر 2023

 

10 تبصرے “وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ Wama Arsalnaka illa Rahmatan lilAalameen

  1. مصطفیؐ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
    شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام

  2. تلاش ہے اگر دل کو رحمتِ مصطفیؐ کی
    تو راہ ہے فقط ایک، وہ مرشدِ وفا کی
    نہ صحرا میں نہ زُہد میں تُو گُھومتا پھرے گا
    سلطان نجیبؔ کی گلی میں نُور ملے گا

  3. وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ – اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔

  4. سلام اس پر کہ جس نے بیکسوں کی دستگیری کی
    سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
    سلام اس پر کہ اسرارِ محبت جس نے سکھلائے
    سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
    سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
    سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں

  5. آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحمت عام ہے

  6. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    مرشد کامل وہی ہوتا ہے جو طالب کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ تک پہنچا دے اور اُسے وہی فیض عطا کرے جو صحابہؓ کو نصیب ہوا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں