امت ِ محمدیہ کے فضائل Ummat-e-Mohammadia kay Fazaail


4.8/5 - (53 votes)

امتِ محمدیہؐ کے فضائل

 Ummat-e-Mohammadia kay Fazaail

تحریر: محترمہ نورین سروری قادری۔ سیالکوٹ

اُمت عربی زبان میں افراد کے ایسے مجموعہ کو کہتے ہیں جن میں کوئی مشترک بنیاد ہو خواہ یہ مشترک بنیاد دین کی ہو یا زمانہ یا وقت کی یا مقام وعلاقہ کی۔

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانیؒ لکھتے ہیں:
اُمت ہر اس جماعت کو کہتے ہیں جو ایک چیز میں مشترک ہو یا کوئی ایک اَمر ان کا جامع ہو خواہ وہ امر دینِ واحد ہو یا زمانِ واحد ہو یا مکانِ واحد ہو۔ خواہ یہ اَمر جامع اختیاراً ہو یا اضطراراً۔ اس اُمت کی جمع اُمم ہے۔
مختار الصحاح میں ہے کہ اُمت کا معنی ہے ’’جماعت‘ ‘اور حیوان کی جنس میں سے ہر جماعت ایک اُمت ہے۔
اِسی طرح جس قوم میں کسی نبی کو بھیجا گیا وہ قوم اس نبی کی اُمت کہلاتی ہے چاہے وہ اس پر ایمان لائی ہو یا نہیں۔ جو ایمان لا چکے ہیں ان کو’’ امتِ اجابت ‘‘کہا جاتا ہے اور جو ایمان نہیں لائے ان کو ’’اُمتِ دعوت‘‘ کہا جاتاہے یعنی ابھی ان پر مزید دعوتِ حق پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

حضرت سخی سلطا ن باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جان لو کہ اُمت پیروی کرنے والوں کو کہتے ہیں اور پیروی یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقشِ قدم پر چل کر خود کو مجلسِ محمدیؐ تک پہنچایا جائے۔ (کلید التوحید کلاں)

جب سے دنیا بنی ہے اللہ تعالیٰ نے بہت سی اُمتیں پیدا کی ہیں اور اپنی حکمت و عدل سے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے لیکن اُمتِ محمدیہ کو دیگر تمام اُمتوں پر فضیلت حاصل ہے۔
اگر عشق کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ساری خصوصیات اپنی جگہ مگر اس اُمت کا اُمتِ محمدیہ یعنی سرکارِ دو عالم( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی اُمت ہونا اور نبی آخرالزماں سے نسبت ہی تمام خصائص سے اعلیٰ اور فائق ہے۔ جب اس اُمت کے آقاؐ تمام انبیا کرام علیہم السلام میں افضل و اعلیٰ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پیارے اور محبوب ہیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت تمام اُمتوں میں افضل و اعلیٰ کیوں نہ ہو۔ صرف یہی ایک خصوصیت اس اُمت کو تمام سابقہ اُمتوں سے ممتاز کرنے کے لیے کافی ہے۔ 

اُمتِ محمدیہ کے فضائل

افضل ترین اُمت:

 بنی اسرائیل اپنے وقت کی سب سے افضل اُمت تھی۔ انہیں دینی اور دنیوی لحاظ سے بہت سی نعمتوں سے نوازا گیا جو دوسری قوموں کو میسر نہیں آئیں لیکن اس بدبخت قوم نے ان نعمتوں کی قدر نہیں کی جیسا کہ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
یَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِیْنَ (سورۃ البقرہ۔122)
ترجمہ: اے بنی اسرائیل ! میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی۔

اُمتِ محمدیہ سے پہلے دنیا کی افضل ترین اُمت ہونے کا اعزاز بنی اسرائیل کو حاصل تھا جو کہ انہوں نے اللہ کی نافرمانیوں کا ارتکاب کر کے گنوا دیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُمتِ محمدیہ کو ’’خیر اُمت‘‘ کے لقب سے نوازا۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے :
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (سورۃآل عمران۔110)
ترجمہ:تم بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لیے اٹھائی گئی ہے کہ نیک باتوں کا حکم دیتے ہو اور برُی باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔

حضرت علیؓ بن ابی طالب سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے ’’مجھے وہ فضیلتیں بخشی گئی ہیں جو کسی اور نبی کو حاصل نہ تھیں۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے سوال کیا ’’اے اللہ کے رسولؐ! وہ فضیلتیں کیا ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’دشمن کے دل میں خوف ڈال کر میری مدد کی گئی،مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجیاں دے دی گئیں ، میرا نام احمد رکھا گیا، مٹی کو میرے لیے پاک کرنے والا بنایا گیا اور میری اُمت کو تمام اُمتوں میں سے سب سے بہتر اُمت بنایا گیا۔‘‘(مسند احمد763)
اُمتِ محمدیہ کسی خاص قوم و نسب یا مخصوص ملک و اقلیم پر منحصر نہیں ہے بلکہ اس کے افراد سارے عالم میں موجود ہیں۔ اس کا وجود ہی اس لیے ہے کہ دوسروں کی خیر خواہی کرے اور ترغیب دے کر گمراہ انسانوں کو معرفتِ الٰہی کے دروازے پر لا کھڑا کرنے کی کوشش کرے۔ فریضۂ تبلیغ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکراس اُمت کے لیے تمغۂ امتیاز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس فریضۂ ادائیگی کا خاص خیال رکھا جائے۔

اُمتِ محمدیہ کو سیدّنا ابراہیم ؑ کا سلام بھیجنا:

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ اے محمدؐ! اپنی امت کو میری طرف سے سلام کہہ دینا اور انہیں آگاہ کر دینا کہ بلاشبہ جنت کی عمدہ مٹی ہے اور میٹھا پانی ہے اور بلا شبہ وہ چٹیل میدان ہے اور بے شک اس کے پودے سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ و لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر  ہیں۔‘‘ (اُمت محمدیہ کے فضائل)

 سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ کے دوست اس امت کوسلام بھیجتے ہیں اور اپنے پیارے بیٹے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے واسطے سے اس اُمت کو نصیحت فرماتے ہیں اور جنت کی نعمتیں نصیب حاصل کرنے کے طریقوں سے آگاہ فرماتے ہیں۔

حضرت ابراہیمؑ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جنت میں اگرچہ سب کچھ ہے اور اس میں بے شمار نعمتیں ہیں مگر جو عمل سے خالی ہے اس کے لیے چٹیل میدان ہی کی طرح ہے کیونکہ وہ ان نعمتوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔ جنت کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی زمین کھیتی کے لائق ہو، اس کی مٹی اچھی ہو اور اس کے قریب بہترین میٹھا پانی ہو جس سے وہ زمین خوب سیراب کی جا سکے جس سے بہترین غلہ پیدا ہو جائے۔ بالکل اسی طرح جنت ہے کہ جو کچھ یہاں دنیا میں بوؤ گے وہاں آخرت میں کاٹ لو گے ورنہ بے عمل کے لیے وہ خالی ہی ہے۔

اُمتِ محمدیہ کو آسان دین عطا فرمایا:

اللہ پاک کا یہ احسانِ عظیم ہے کہ وہ تمام سختیاں اور بوجھ جو اللہ کی طرف سے بطورآزمائش دیگر اُمتوں پر ڈالا گیا تھا ان تمام امور سے اُمت محمدیہ آزادہے اور پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بدولت اسے آسان دین عطا فرمایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تمام جہان کے لیے بالعموم اور آپؐ کی اُمت کے لیے بالخصوص سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ھُوَ اجْتَبَاکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ (سورۃ الحج۔78)
ترجمہ: اس نے تمہیں برگزیدہ بنایا اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی(اس لئے اے لوگو)اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر جمے رہو۔
جیسا کہ سفر میں نماز قصر کر دی گئی ہے اور مریض کو بیٹھ کر بلکہ لیٹ کر بھی نمازپڑھنے کی اجازت دی گئی ہے اور پانی نہ ملنے پر یا پانی ہوتے ہوئے استعمال پر قادر نہ ہونے پر تیمم کا فرمایا گیا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر اُمت پر توبہ کا دروازہ کھلا رکھا لیکن اُمت محمدیہ پر طریقۂ توبہ میں وہ سختی نہیں رکھی جو سابقہ امتوں پر تھی۔

یومِ جمعہ کی برکت:

اللہ پاک نے اس اُمت کو ایک بڑی فضیلت یہ بخشی ہے کہ اسے جمعہ کا مبارک دن عطافرمایا۔ اس دن کو اللہ تعالیٰ نے بڑی فضیلتوں اور برکتوں سے نوازا ہے۔ اس دن میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں بندہ اللہ تعالیٰ سے دین و دنیا کی جس بھلائی کا سوال کرے اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا فرماتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جمعتہ المبارک کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اس میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ جس مسلمان بندے کو وہ میسر آ جائے اور وہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو اس دوران وہ اللہ تعالیٰ سے جس چیز کا سوال کرے اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا فرما دیتا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس گھڑی کے مختصر ہونے کی طرف اشارہ فرمایا۔(مسند احمد 7151)

مکمل دین:

اُمتِ محمدیہ کو اللہ پاک نے یہ فضیلت بھی بخشی ہے کہ اس کے دین کو مکمل کر دیا ہے۔اس دین میں نہ تو کوئی کمی ہے نہ ہی اس میں کسی قسم کے اضافہ کی گنجائش ہے بلکہ قیامت تک اور ہر زمان و مکان کے لئے یہ دین مکمل دستورِ حیات کی حیثیت رکھتا ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا    (سورۃالمائدہ۔3)
ترجمہ: آج کے دن میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہو گیا۔

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں دین سے مراد اسلام ہے۔یہ آیت نازل فرما کر اللہ پاک نے اپنے نبی اور مومنین کو یہ اطلاع دی ہے کہ ان کے لئے ایمان کو مکمل کر دیا ہے اب اس میں اضافے کی ہرگز گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کچھ کمی ہو سکتی ہے، اللہ پاک نے اسے پورا کر دیا ہے۔

قرآنِ حکیم کی حفاظت:

نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل شدہ آسمانی کتاب قرآنِ پاک کی حفاظت اور اس کے فہم و تدبر پر معاون بننے والے امور کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ پاک نے خود لی ہے جبکہ اس سے قبل اُمتوں پر نازل شدہ کوئی آسمانی کتاب محفوظ نہ رہ سکی اور نہ ہی ان کی شریعت ردّ و بدل سے بچی۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ (سورۃ الحجر۔9)
ترجمہ:’’ ہم نے اس ذکر (قرآن) کو نازل فرمایا ہے اور ہم خود ہی اس کے محافظ ہیں۔
قرانِ مجید لفظی و معنوی دونوں اعتبار سے محفوظ ہے۔ یہ فضیلت کسی اور نبی اور اُمت کو حاصل نہیں رہی کہ ان کی کتاب ان کو زبانی حفظ ہو جائے اور ہمیشہ کے لیے ان کے سینوں میں بھی محفوظ کر دی جائے۔ 

اُمتِ محمدیہ کا میدانِ حشر میں گواہ بننا:

اُمتِ محمدیہ کے لیے اللہ کا فرمان ہے:
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا (سورۃ البقرہ۔143)
ترجمہ:اور اسی طرح ہم نے تم کو ایسی ہی ایک جماعت بنا دیا ہے جو نہایت اعتدال پر ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسولؐ تم پر گواہی دینے والا ہو۔ 

حضرت ابو سعید خدریؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے روز نوح علیہ السلام کو لایا جائے گا اور ان سے سوال کیا جائے گا کہ کیا آپ نے تبلیغ کی؟ وہ کہیں گے ’’ہاں اے میرے ربّ میں نے تبلیغ کی۔‘‘ اس کے بعد ان کی قوم سے سوال کیا جائے گا کہ کیا تم کو نوحؑ نے تبلیغ کی؟ اس پر وہ جواب دیں گے کہ ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ لہٰذا حضرت نوح علیہ السلام سے کہا جائے گا کہ آپ کے گواہ کون ہیں جو آپ کی تبلیغ کی گواہی دیں؟ اس پر وہ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کی اُمت میرے گواہ ہیں۔ جس کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ چنانچہ تم کو لایا جائے گا سو تم گواہی دو گے کہ بلا شبہ نوح علیہ السلام نے تبلیغ کی۔ (بخاری3339)

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے علاوہ دیگر انبیاؑ  کی قومیں بھی اپنے نبیوں کی تبلیغ کا انکار کریں گی اور انبیا فرمائیں گے کہ ہم نے ان کو تبلیغ کی تھی اس پر اُمتِ محمدیہ انبیا کے حق میں گواہی دے گی۔ ان سے سوال کیا جائے گا کہ تم کو اس کاعلم کیسے ہوا؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم کو ہمارے پیارے نبیؐ کے واسطے سے اس کا علم ہوا۔ پھر حضورؐ اقدس اپنی امت کی صداقت اور عدالت پر گواہی دیں گے۔ (روح المعانی) 

اُمتِ محمدیہ کی قیامت کے روز خاص پہچان:

حضرت ابو درداؓ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے روز سب سے پہلے مجھے اجازت دی جائے گی کہ خدا کو سجدہ کروں اور سب سے پہلے مجھے ہی سجدہ سے سر اٹھانے کی اجازت دی جائے گی۔ سر اٹھا کر میں اپنے سامنے دیکھوں گا تو تمام اُمتوں کے درمیان اپنی اُمت کو پہچان لوں گا اور پیچھے دیکھوں گا تو تمام اُمتوں کے درمیان اپنی اُمت کو پہچان لوں گا اور اپنے دائیں جانب دیکھ کر بھی اپنی اُمت کو ساری اُمتوں کے درمیان پہچان لوں گا اور اپنے بائیں جانب بھی اپنی اُمت کو پہچان لوں گا۔‘‘ یہ سن کر ایک شخص نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! نوح علیہ السلام کی اُمت سے لے کر اپنی اُمت تک آنے والے تمام لوگوں کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی اُمت کو کیسے پہچان لیں گے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’وضو کے اثر سے میری اُمت کے چہرے خوب روشن ہوں گے اور ہاتھ پاؤں سفید نورانی ہوں گے ان کے علاوہ اور کوئی اس شان کا نہ ہوگا اور میں اپنی امت کو یوں بھی پہچانوں گا کہ ان کے نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیے جائیں گے اور ان کو اس طرح بھی پہچانوں گا کہ ان کے سامنے ان کی ذرّیت دوڑتی ہوگی۔‘‘(مشکوٰۃ 299)

اُمتِ محمدیہ کی حضرت عیسیٰؑ نے خاص تعریف فرمائی:
حضرت لیثؓ فرماتے تھے کہ حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا’’حضرت محمدؐ کی اُمت کے اعمال قیامت کے روز ترازو میں سب لوگوں سے زیادہ بھاری ہوں گے کیونکہ ان کی زبان ایک ایسے کلمے سے مانوس ہے جو ان سے پہلوں پر بھاری بن گیا اور وہ کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ  ہے۔‘‘

اُمتِ محمدیہ پر فرشتوں کا رشک کرنا:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا فرمانے سے ہزار برس پہلے سورۃ طہٰ اور سورۃ یٰسین پڑھی۔ فرشتوں نے اسے سنا تو کہنے لگے ’’اس اُمت کے کیا کہنے جس پر یہ کلام نازل ہوگا اور ان کے سینوں کے کیا کہنے جن کے اندر یہ کلام ہوگا اور ان زبانوں کے کیاکہنے جو اس کو پڑھیں گی!‘‘  (مشکوٰۃ  2148)

 ہر صدی میں ایک مجددِ دین کا ظہور:

اس اُمت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کا دین مٹ نہ پائے گا بلکہ جب بھی جن و انس اور شیاطین مل کر اس دین کو کمزور کرنا چاہیں گے، بدعت و شرک کو رواج دینے لگیں گے تو ہر صدی کے شروع میں یا آخر میں اللہ تبارک و تعالیٰ کسی مردِ مومن و مجدد کو مبعوث فرمائے گا جو لوگوں کے اندر ایمانی روح پھونکے گا، انہیں سنت کے صحیح طریقے سکھلائے اور بتلائے گا، اہلِ بدعت کی رائج کردہ بدعات کی برائی کو واضح کرے گا، آیات و احادیث کی باطل تاویل اور غلط توجیہہ کی تصحیح کرے گا۔ ایسی خصوصیت کسی دوسری اُمت کو حاصل نہیں ہوئی جو اللہ نے اُمتِ محمدیہ کو عطا فرمائی۔اللہ کے رسولؐ کی آمد سے صدیوں قبل حضرت عیسیٰؑ ابنِ مریم کی تعلیمات چند لوگوں تک محدود ہو چکی تھیں، دنیا میں لاکھوں ایسے لوگ تھے جنہوں نے حضرت عیسٰیؑ کی تعلیم کے بارے میں کچھ سنا بھی نہ تھا۔ اس کے برعکس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کے بعد ایسا وقت کبھی نہیں آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سچی تعلیم پر برملا عمل کرنے والے، اس کی طرف دعوت دینے والے اور لاکھ رکاوٹوں کے باوجود اس دعوت کو قبول کرنے والے لوگ موجود نہ رہے ہوں۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس اُمت کے لیے ہر صدی کی ابتدا یا آخر میں کسی ایسے شخص کو پیدا فرمائے گا جو اس امت کے لیے اس دین کو از سرِ نو قائم اور مضبوط کرے گا۔ (ابوداؤد 4291)

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’بلاشبہ میرے بعد کوئی نبی نہیں،اب خلفا ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔ صحابہؓ نے عرض کی ’’آپؐ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟‘‘آپؐ نے فرمایا ’’پہلے کی بیعت کرو اور پھرپہلے کی طرح بیعت کے ساتھ وفا کرو، انہیں ان کا حق دو، جو ذمہ داری اللہ نے انہیں دی ہے اس کے متعلق اللہ خود ان سے سوال کرے گا۔ ( مسلم 4773)

اور الحمدللہ یہ سلسلہ چلتا رہا اور آج تک جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ ان شاء اللہ

موجودہ دور کے مجددِ دین، عاشقوں کے سلطان، وارثِ علومِ شریعت و طریقت، واقفِ اسرارِ حقیقت و معرفت،ولایتِ عظمیٰ پر فائز سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں۔نفسانفسی کے اس دور میں جب چارسوجہالت کے اندھیرے چھا چکے ہیں، آپ مدظلہ الاقدس دینِ حق کی دعوت دینے والے، معرفتِ حق کے پیامبر، ہدایت کی روشنی بکھیرنے والے، تمام علوم کے ماہر اور اہلِ حق کے پیشوا ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس صاحبِ باطن اور ہدایت کا منبع ہیں۔آپ مدظلہ الاقدس نے بطور مجدد یہ کوشش کی ہے کہ اُمتِ محمدیہ میں اتحاد قائم ہو اور دین صحیح معنوں میں اصل بنیادوں پر استوار ہو۔آپ امتِ محمدیہ کو خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے اصل دین یعنی فقرِ محمدیؐ کی طرف آنے کی دعوت دے رہے ہیں تاکہ معاشرہ حقیقی معنوں میں اسلام کے مطابق قائم ہو سکے۔

اُمتِ محمدیہ کے دیگر فضائل:

اس اُمت کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے والی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شریعت تمام شریعتوں کی جامع ہے اور خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تمام صفاتِ انبیاؑ کے جامع ہیں۔
یہ اُمت آخری امت ہے، گزشتہ اُمتوں کے عیب قرانِ کریم میں بیان ہوئے مگر اس امت کے بعد کوئی نیا نبی آئے گا نہ آسمانی کتاب جس میں اس اُمت کے عیوب بیان ہوں یعنی اس اُمت کی پردہ پوشی کی گئی۔
سابقہ الہامی کتب میں اُمتِ محمدیہ کے اوصاف کا ذکر تھا لیکن ان کے عیوب کا تذکرہ نہ تھا جس کے باعث وہ لوگ اس اُمت میں ہونے کی تمنا کرتے تھے۔
 ان کے جسم شریعت سے اور ان کے قلوب طریقت و معرفت سے منور رہیں گے۔
اُمتِ محمدیہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگی اور سب سے زیادہ ہوگی۔
حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنتیوں کی 120 صفیں ہوں گی جن میں سے 80 میری اُمت کی ہوں گی اور 40 سب اُمتوں کی ملا کر ہوں گی۔ (ترمذی 2546)
 حضرت سمرہؓ بن جندب روایت فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ہر نبی کے لیے ایک حوض ہے جس سے وہ اپنی اُمت کو قیامت کے روز پانی پلائے گا اور نبی آپس میں فخر کریں گے اور دیکھیں گے کہ کس کے حوض پر زیادہ پینے والے آئے ہیں اور بلاشبہ میں اُمید کرتا ہوں کہ میرے حوض پر آنے والے دوسرے نبیوں کے حوض پر آنے والوں سے زیادہ ہوں گے۔‘‘ (ترمذی2443)
 اُمتِ محمدیہ کے بڑے بڑے گناہوں کی مغفرت ہوگی اور اس کے حق میں سفارش قبول کی جائے گی۔
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری شفاعت اپنی امت کے بڑے بڑے گناہ کرنے والوں کے لیے ہو گی۔(ترمذی2435)
اللہ پاک نے ہمیں جو نعمتِ اسلام بخشی ہے ہمیں افضل اُمت اور خیر الامم بنایا ہے اور بے شمار فضیلتوں سے نوازا ہے، اس نعمتِ عظیم پر ہمیں پاک پروردگار کا شکر ادا کرناچاہیے کیونکہ اُمتِ محمدیہ میں شامل ہونا اور افضل الرسل کا اُمتی ہونا یہ محض فضلِ الٰہی ہے،اس میں نہ کسی کو کسی قسم کا اختیار ہے اور نہ ہی کسی قسم کی طاقت و قوت کا نتیجہ۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَایَشَآئُ وَیَخْتَارُ مَا کَانَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ  (سورۃ القصص۔68)
ترجمہ:اور آپ کا ربّ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے ،ان میں سے کسی کو کوئی اختیار نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا امتی بنائے ، ایسا امتی کہ جس سے اللہ اور اس کا رسولؐ راضی ہواور ہمیں راہِ حق پر استقامت کی نعمت سے بہرہ مند فرمائے ۔ آمین

استفادہ کتب:
۱۔اُمتِ محمدیہ کے فضائل ازمقصود الحسن فیضی
۲۔ دین کامل مع فضائل اُمت،خصائصِ امت ازعلامہ مولانا محمد نوید کمال
۳۔ فضائل اُمت محمدیہ ازمولانا مفتی محمد عاشق الٰہی بلند شہری

 
 

23 تبصرے “امت ِ محمدیہ کے فضائل Ummat-e-Mohammadia kay Fazaail

  1. حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ اے محمدؐ! اپنی امت کو میری طرف سے سلام کہہ دینا (وعلیکم السلام)اور انہیں آگاہ کر دینا کہ بلاشبہ جنت کی عمدہ مٹی ہے اور میٹھا پانی ہے اور بلا شبہ وہ چٹیل میدان ہے اور بے شک اس کے پودے سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ و لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر ہیں۔‘‘ (اُمت محمدیہ کے فضائل)

  2. حضرت سخی سلطا ن باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
    جان لو کہ اُمت پیروی کرنے والوں کو کہتے ہیں اور پیروی یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقشِ قدم پر چل کر خود کو مجلسِ محمدیؐ تک پہنچایا جائے۔ (کلید التوحید کلاں)

  3. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا امتی بنائے ، ایسا امتی کہ جس سے اللہ اور اس کا رسولؐ راضی ہواور ہمیں راہِ حق پر استقامت کی نعمت سے بہرہ مند فرمائے ۔ آمین

  4. اُمتِ محمدیہ کو دیگر تمام اُمتوں پر فضیلت حاصل ہے۔

  5. اللہ پاک نے ہمیں جو نعمتِ اسلام بخشی ہے ہمیں افضل اُمت اور خیر الامم بنایا ہے اور بے شمار فضیلتوں سے نوازا ہے، اس نعمتِ عظیم پر ہمیں پاک پروردگار کا شکر ادا کرناچاہیے

  6. ماشاءاللہ کیا شان ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی

  7. اُمتِ محمدیہ کے بڑے بڑے گناہوں کی مغفرت ہوگی اور اس کے حق میں سفارش قبول کی جائے گی۔

  8. حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس اُمت کے لیے ہر صدی کی ابتدا یا آخر میں کسی ایسے شخص کو پیدا فرمائے گا جو اس امت کے لیے اس دین کو از سرِ نو قائم اور مضبوط کرے گا۔ (ابوداؤد 4291)

  9. اللہ تعالیٰ نے اُمتِ محمدیہ کو ’’خیر اُمت‘‘ کے لقب سے نوازا۔

  10. حضرت سخی سلطا ن باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
    جان لو کہ اُمت پیروی کرنے والوں کو کہتے ہیں اور پیروی یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقشِ قدم پر چل کر خود کو مجلسِ محمدیؐ تک پہنچایا جائے۔ (کلید التوحید کلاں)

  11. حضرت سخی سلطا ن باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
    جان لو کہ اُمت پیروی کرنے والوں کو کہتے ہیں اور پیروی یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقشِ قدم پر چل کر خود کو مجلسِ محمدیؐ تک پہنچایا جائے۔ (کلید التوحید کلاں)

  12. اُمتِ محمدیہ کی حضرت عیسیٰؑ نے خاص تعریف فرمائی:
    حضرت لیثؓ فرماتے تھے کہ حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا’’حضرت محمدؐ کی اُمت کے اعمال قیامت کے روز ترازو میں سب لوگوں سے زیادہ بھاری ہوں گے کیونکہ ان کی زبان ایک ایسے کلمے سے مانوس ہے جو ان سے پہلوں پر بھاری بن گیا اور وہ کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ہے۔‘‘

  13. حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا فرمانے سے ہزار برس پہلے سورۃ طہٰ اور سورۃ یٰسین پڑھی۔ فرشتوں نے اسے سنا تو کہنے لگے ’’اس اُمت کے کیا کہنے جس پر یہ کلام نازل ہوگا اور ان کے سینوں کے کیا کہنے جن کے اندر یہ کلام ہوگا اور ان زبانوں کے کیاکہنے جو اس کو پڑھیں گی!‘‘ (مشکوٰۃ 2148)

  14. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا امتی بنائے ، ایسا امتی کہ جس سے اللہ اور اس کا رسولؐ راضی ہواور ہمیں راہِ حق پر استقامت کی نعمت سے بہرہ مند فرمائے ۔ آمین

  15. ارشاد ِباری تعالیٰ ہے :
    کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (سورۃآل عمران۔110)
    ترجمہ:تم بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لیے اٹھائی گئی ہے کہ نیک باتوں کا حکم دیتے ہو اور برُی باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں