رضائے الٰہی(Raza-e-ilahi) میں زندگی گزارنا
Raza-e-ilahi
تحریر: فقیہہ صابر سروری قادری (رائیونڈ)
Raza-e-ilahi.رضاکے معنی ہیں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا، اپنی نفسانی خواہشات و ترجیحات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع کر دینا، اپنی اَنا کو رضائے الٰہی میں فنا کر دینا اور یہ فنا فی اللہ کی ایک نشانی بھی ہے۔
نورِ ایمان کی بدولت جب انسان کے دل کی گہرائیوں میں یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ایک پتاّ تک حرکت نہیں کر سکتا تو اس پر کوئی مصیبت بھی آئے، اس کا دل مطمئن رہتا ہے کہ یہ اللہ کے حکم سے آئی ہے اور اس کی بہتری اسی میں ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لیے بہتر ہو، اور (یہ بھی) ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لیے بری ہو، اور اللہ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (سورۃالبقرہ۔ 216)
چنانچہ اس ایمان اور یقین کی وجہ سے ایک بندۂ مومن بڑی سے بڑی تکلیف اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی نہ تودل میں شکوہ کرتا ہے اور نہ ہی حرفِ شکایت زبان پر لاتاہے بلکہ وہ ہر حال میں پیکرِ تسلیم و رضا بنا رہتا ہے۔
قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
بِیَدِکَ الْخَیْر (سورۃ آلِ عمران۔ 26)
ترجمہ: (اے اللہ!) ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے۔
تیری طرف سے مجھے خوشی آئے یا غم، مجھے قبول ہے۔ تیری جو بھی رضا ہو اس کے سامنے میرا سرِتسلیم خم ہے۔ اس مقامِ خاص تک صرف سچے اور مخلص اہلِ ایمان ہی پہنچ پاتے ہیں۔ ایمانِ حقیقی سے محروم دلوں کے نصیب میں تسلیم و رضا کی حلاوت کہاں!
Raza-e-ilahi.نورِ مبین خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
وہ شخص ایمان کا مزہ چکھ لیتا ہے جو اللہ کے پروردگار ہونے پر راضی ہو۔ (صحیح مسلم)
ایمان کا مزہ چکھنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہنے کے درمیان کا عمل آزمائش کا ہے۔جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ (صرف) ان کے (اتنا) کہنے سے چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی۔ (سورۃ العنکبوت۔ 2)
Raza-e-ilahi. تسلیم و رضا کی وجہ سے انسان اپنا بڑے سے بڑا مسئلہ بھی اللہ کے سپرد کر کے مطمئن ہو جاتا ہے اور یہی مطلب ہے اللہ کو پروردگار ماننے کا۔ اس کے برعکس جو انسان اس یقین سے محروم ہے وہ دن رات اسی پریشانی میں مبتلا رہتا ہے کہ یہ سب کیسے ہوا؟ آخر یہ میرے ساتھ ہی کیوں ہوا؟ اگر میں اس وقت ایسا کر لیتا تو نقصان سے بچ جاتا۔۔۔ کاش میں یوں کرتا۔۔ کاش ،اے کاش۔۔۔ !
گویا انسان اگر مقامِ تسلیم و رضا سے نا آشنا ہو توچھوٹے چھوٹے واقعات بھی اس کے دل کا روگ بن جاتے ہیں اور اس کے پچھتاوے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ لہٰذا ایمان کے ثمرات میں سے پہلا ثمر یہ ہے کہ ایمانِ کامل انسان کو مقامِ تسلیم و رضا سے آشنا کرتاہے۔ تاہم اس کا تعلق چونکہ انسان کے احساسات سے ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ یہ وہ پھول ہے جو ایک بندۂ مومن کے دل کے اندر کھلتا ہے، باہر سے نظر نہیں آتا یعنی یہ ایک باطنی کیفیت ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ معمولات ِ زندگی میں انسان کس قدر مطمئن اور پرسکون ہے۔
اگر ہر کام انسان کی مرضی اور منشا کے مطابق ہوتا رہے، کوئی خرابی یا تنگی پیدا نہ ہو اور سب اچھا ہی رہے تو انسان کے مقامِ رضا، ثابت قدمی اور توکل علی اللہ کو کیسے جانچا جائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کو ایک آزمائش گاہ بنایا اور ایک معیار بنا دیا کہ ہر خاص و عام کو آزمائش اورامتحان سے گزرنا ہی ہے۔ اللہ پاک قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:
اورہم نے ان تمام چیزوں کو جو زمین پر ہیں اس کے لئے باعثِ زینت (وآرائش) بنایا تاکہ ہم ان لوگوں کو (جو زمین کے باسی ہیں) آزمائیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے۔ (سورۃ الکہف۔ 7)
محض یہ کہہ دینا کہ ’روئے زمین کی تمام چیزیں‘ کافی تھالیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مزید واضح انداز میں فرمایا کہ بالخصوص کن چیزوں سے انسان کو آزمایا جائے گا:
اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپؐ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔ (سورۃ البقرہ۔ 155)
آزمائش کی سختی درجہ بدرجہ کم یا زیادہ ہوتی ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے جس قدر قریب ہو گا اتنا ہی کڑا امتحان اور آزمائش ہوگی۔ لہٰذاایک عام انسان کی نسبت اللہ تعالیٰ کے محبوب و مقرب بندوں کو آزمائش کے سخت ترین مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ (سورۃ البقرہ۔ 286)
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام سے پوچھا گیا: یا رسول اللہ! سب سے زیادہ سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)نے فرمایا ’’سب سے زیادہ آزمائش انبیا کی ہوتی ہے پھر ان کی جو مرتبے میں ان سے قریب تر ہوتے ہیں اور پھر حسبِ مراتب۔‘‘ (سنن ترمذی۸۹۳۲)
قرآنِ مجید میں جا بجا انبیاکرام علیہم السلام کی آزمائش اور ان کو ملنے والے اجر کا ذکر ملتا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور(وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے ربّ نے کئی باتوں میں آزمایا تو انہوں نے وہ پوری کر دیں، (اس پر) اللہ نے فرمایا میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ (سورۃ البقرہ۔124)
اور بے شک ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کی (بھی) آزمائش کی اور ہم نے اُن کے تخت پر ایک (عجیب الخلقت )جسم ڈال دیا۔ (سورۃ ص۔ 34)
پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت)کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے ربّ کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے۔ (سورۃ النمل۔40)
سورۃ طہٰ میں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے:
اور ہم نے تمہیں بہت سی آزمائشوں سے گزار کر خوب جانچا۔ (سورۃ طہٰ ۔ 40)
اللہ تعالی کے محبوب ومقرب بندے سراپا تسلیم و رضا ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کی قضا و قدر پرگلہ شکوہ نہیں کرتے بلکہ اس کی رضا میں راضی رہتے ہیں۔ مذکورہ بالاحدیث کی روشنی میں آزمائش کی سختی انبیا کرام علیہم السلام کے بعد ان کے قریب ترین لوگوں کے لیے ہے یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
ایک موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے جسم پر مٹی لگی دیکھی تو فرمایا ’’اے ابو تراب! میں تمہیں دو بدبخت ترین آدمیوں کے بارے میں نہ بتا ؤں؟‘‘ حضرت علیؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ! ضرور بتائیے۔‘‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)نے فرمایا ’’(ایک) قومِ ثمود کا اُحَیْمِرُ ہے جس نے(حضرت صالح علیہ السلام کی) ناقہ کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور اے علیؓ! (دوسرا) وہ شخص ہو گا جو تمہارے سر پر ضرب لگائے گا اور خون سے تمہاری داڑھی تر ہو جائے گی۔‘‘ (مسند احمد ۱۲۳۸۱)
امیر المومنین امام المتقین حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب عبدالرحمن بن ملجم کو دیکھتے تو اپنے قاتل کے طور پر اس کی نشاندہی کرتے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے عرض کیا گیا: آپ اس کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا ’’میں اپنے قاتل کو کیسے قتل کردوں؟‘‘ (الفخری فی آداب السلطانیہ)
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنی شہادت اور قاتل کا علم تھا اس کے باوجود انہوں نے قاتل کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ اللہ کی رضا پر راضی رہے۔ یہی صورتحال امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ کی تھی۔ شہادت کی منزل انہیں آفتابِ نصف النہار کی طرح اپنی نگاہوں کے سامنے نظر آ رہی تھی لیکن آپؓ کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی اور اس منزل کو پانے کے لئے آپؓ تیار رہے۔ آپؓ کے سب ساتھی بھی کوہِ استقامت تھے۔ موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے کے باوجود اپنے ہادی و مرشد کا ساتھ نہ چھوڑا۔
مقامِ تسلیم و رضا اسی کا نام ہے کہ انسان جب دنیاوی نفع نقصان سے ماورا ہو کر حیاتِ ابدی اور رضائے الٰہی کو اپنی منزل بنا لیتا ہے تو جان کی قربانی بھی آسان ہو جاتی ہے۔ شعارِ تسلیم و رضا کو سیدّنا امام حسینؓ نے میدانِ کربلا میں اس معراج تک پہنچایا کہ جس کی نظیر تاریخِ انسانیت میں نہیں ملتی۔ اللہ عزوجل کی رضا میں سرِتسلیم خم کرنے کا کوئی عنوان باقی نہ رہا۔
بقول اقبال:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
آزمائش میں چھپی حکمتِ الٰہی
اللہ تعالیٰ کی ذات غفور الرحیم ہے، ربّ العالمین ہے، ستر ماؤں سے بھی زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے تو پھر آزمائش اور امتحان کی صورت میں تنگی، بیماری، پریشانی، سختی اور تکلیف میں مبتلاکرنے کے پیچھے کیا حکمت پوشیدہ ہے۔ درحقیقت اپنے بندوں کو آزمائش سے گزارنے میں بہت سی مصلحتیں ہیں۔
(1کھوٹے اور کھرے کی پہچان
جب انسان آزمائش و امتحان سے گزرتا ہے تو اس کے اندر پوشیدہ طہارت اور خباثت لوگوں پر عیاں ہو جاتی ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے بارہا اس امر کی وضاحت فرمائی ہے کہ آزمائش کی سب سے اہم ترین وجہ حق اور باطل، کھوٹے اور کھرے اور منافقت کا لبادہ اوڑھنے والوں اور سچے لوگوں میں فرق واضح کرنا اور اسے منظر ِ عام پر لانا ہے۔
اور بے شک ہم نے ان لوگوں کو (بھی) آزمایا تھا جو ان سے پہلے تھے سو یقینا اللہ ان لوگوں کو ضرور (آزمائش کے ذریعے) نمایاں کردے گا جو (دعویٰ ایمان میں) سچے ہیں اور جھوٹوں کو (بھی) ضرور ظاہر کردے گا۔ (سورۃ العنکبوت۔3)
اور ہم ضرور تمہاری آزمائش کریں گے یہاں تک کہ تم میں سے (ثابت قدمی کے ساتھ) جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو (بھی) ظاہر کر دیں اور تمہاری (منافقانہ بزدلی کی) خبریں (بھی) ظاہر کردیں۔ (سورۃ محمد۔ 31)
بلاشبہ اللہ ربّ العزت علیم بصیر ہے اور اس بات کا علم بخوبی رکھتا ہے کہ کون منافق ہے اور کون صادق، کون متقی ہے اور کون ریاکار۔ آزمائش میں پہچان کا مقصد انسانوں کی حقیقت کو دنیا کے سامنے لانا ہے۔ ایک اور جگہ اللہ پاک فرماتا ہے:
جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے اللہ اسے آزمائے اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے چھانٹ کر واضح کردے اور اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے۔ (سورۃ آل عمران۔ 154)
(2 انسان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار ظاہری و باطنی صلاحیتوں سے نوازا ہے البتہ ایسی بہت سی صلاحیتیں ہیں جن سے انسان خود بھی ناواقف ہوتا ہے۔ اللہ پاک انسان کی تربیت اور شخصیت کی تعمیر و ترقی کے لیے اسے ایسے حالات سے گزارتا ہے کہ انسان اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو بھی آشکار کرلیتا ہے۔ اگر آزمائش و امتحان کا اصول وضع نہ ہوتا تو انسان کی شخصیت بہت محدود ہو کر رہ جاتی اور وہ کبھی ظاہری و باطنی کمال تک نہ پہنچ پاتا۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو قوتِ گویائی عطا فرمائی جس کی بدولت روزمرہ زندگی کے امور سرانجام دینے میں مدد ملتی ہے۔ تاہم ایسے حالات پیدا ہو جانا کہ جب یہی صلاحیت حق اور باطل میں فرق کرنے کا آلہ بن جائے اور دنیا کے سامنے بے خوف و خطر کلام کر سکے، وہ حالات اور ان کے نتیجے میں انسان میں اتنی قوت آ جانا اللہ تعالیٰ کے فلسفۂ آزمائش کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اسکی بہترین مثال واقعۂ کربلا کے بعد سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا یزید ملعون کے دربار میں ڈنکے کی چوٹ پر نعرہ ٔ حق بلند کرنا ہے۔
(3 اتمامِ حجت
ایک استاد جب سارا سال اپنے شاگردوں کو پڑھاتا ہے تو بخوبی جانتا ہے کہ کونسا بچہ کامیاب ہوگا اور کون ناکام۔ تاہم اس کے باوجود امتحان لینے اور اس کے مطابق ہر بچے کی قابلیت کو جانچنے کا اصول کار فرما ہے۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی روزِ ازل سے اس بات سے واقف ہے کہ کون انعام یافتہ گروہ میں شامل ہوگا اور کون نفس، دنیا اور شیطان کے جال میں پھنس کر اپنی دنیا و آخرت اکارت کرے گا۔ اللہ پاک آزمائش اور امتحان کے ذریعے محض حجت تمام کرنا چاہتا ہے تاکہ کل قیامت کے روز کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب اور پسندیدہ بندوں کو بغیر کسی آزمائش کے انعام و اکرام سے نواز دیااور ہم گنہگاروں کو آزمائشوں میں مبتلا کیے رکھا۔
Raza-e-ilahi.رضائے الٰہی میں زندگی گزارنا
عام طور پر مسلمانوں میں تسلیم و رضا کا یہ مفہوم جاگزیں ہو گیا ہے کہ ہر کام کواللہ کی مرضی پر ڈال دیا جائے اور خود کوئی کوشش نہ کی جائے یعنی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو تقدیر میں لکھا ہے وہی ہوناہے، ہمیں ہاتھ پاؤں ہلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک بنیادی حقیقت ہے جو کہ قرآن میں بھی بیان ہے کہ ہمیشہ انسان کو اس کے عمل اور کوشش کا نتیجہ ملتا ہے۔ تقدیر کا مالک اللہ عزوجل فرماتا ہے:
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَاْ سَعٰی (سورۃ النجم۔ 39)
ترجمہ: اور یہ کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہو گا جس کی اس نے کوشش کی۔
انسان کوجو طاقت اور وسائل دیے گئے ہیں ان کے مطابق پوری کوشش کرنی چاہئے اور جب حتی الامکان کامیابی کے تمام ذرائع جمع کرلے تو حصولِ مقصد کے لئے جدوجہد کرے، اس کے بعد نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں چھوڑ دے۔ اگر ناکامی ہو تو مایوس یا رنجیدہ نہ ہو بلکہ اللہ کی مشیت کے سامنے سرِتسلیم خم کر دے یعنی میرے اللہ کی مرضی نہ تھی میرے ذمہ (تدبیر) کوشش کرنا تھا، کامیابی و ناکامی (تقدیر) اس کے ہاتھ میں ہے۔
میاں محمد بخشؒ اس حقیقت کو بڑی خوبصورتی سے ایک شعر میں بیان فرماتے ہیں:
مالی دا کم پانی دینا، بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پھول لانا، لاوے یا نہ لاوے
اسباب کا استعمال کرنے اور بھروسا اللہ پر رکھنے کے بارے میں حدیث پاک ہے:
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں اونٹ کو پہلے باندھوں پھر اللہ پر توکل کروں یا چھوڑ دوں اور پھر توکل کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’اسے باندھ دو پھر توکل کرو۔‘‘ (جامع ترمذی ۷۱۵۲)
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اپنے حصے کا کام کیے بغیر دعا پر بھروسا کرنا حماقت ہے اور اپنی محنت کرکے دعا سے گریز کرنا تکبر ہے۔
واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں:
تقدیر کا تعلق منشائے الٰہی سے ہے اور تدبیر کا تعلق میری منشا سے ہے۔
علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے تسلیم و رضا کا مفہوم سمجھایا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں :
ہر شاخ سے یہ نکتہ پیچیدہ ہے پیدا
پودوں کو بھی احساس ہے پہنائے فضا کا
ظلمت کدۂ خاک پہ شاکر نہیں رہتا
ہر لحظہ ہے دانے کو جنوں نشوونما کا
فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہِ عمل بند
مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رضا کا
جرات ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے
اے مردِ خدا ملکِ خدا تنگ نہیں ہے
(ضربِ کلیم)
اس نظم میں علامہ اقبالؒ نے تسلیم و رضا کی حقیقت بیان کی ہے کہ رضا کا مطلب یہ نہیں کہ انسان عمل سے غافل ہو جائے یا کوشش سے باز آجائے۔نظم کا مفہوم یہ ہے:
۱۔پودوں کی نشوونما پر غور کرنے سے یہ پیچیدہ نکتہ واضح ہو سکتا ہے کہ نباتات کو بھی احساس ہے کہ فضا بہت وسیع ہے اس لیے ہمیں نشوونما کے لیے پھلنے اور اپنی شاخوں کو بڑھانے کا موقع حاصل ہے۔
۲۔ چنانچہ کوئی دانہ زمین کے اندر پڑے رہنے پر قناعت نہیں کرتا بلکہ ہر دانے میں زمین سے باہر نکلنے اور پھلنے پھولنے کا جذبہ کار فرما ہے۔ وہ برابر عمل میں مصروف رہتا ہے یعنی کوئی دانہ یہ نہیں کہتا کہ مجھے عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے اگر خدا کی مرضی ہوگی تو میری نشوونما ہوجائے گی۔
۳۔ پس اے انسان! تو نباتات سے سبق سیکھ۔ تیری فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ تو ہر لمحہ سرگرمِ عمل رہے اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے کوشش کرتا رہے۔ تسلیم و رضا کا مقصود یہ نہیں کہ تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے بلکہ اس بلند روحانی اصول کا فلسفہ یہ ہے کہ تو ہر معاملے میں پہلے اپنی سی کوشش کر، پھر نتیجہ خدا کے ہاتھ میں چھوڑ دے یعنی سرِتسلیم خم کر مگر عمل کے بعد۔
۴۔ یاد رکھ! اگر تیرے اندر ترقی کرنے کا جذبہ موجزن ہے تو عمل کے لیے میدان کافی وسیع ہے۔ اے اللہ کے بندے! یقین رکھ کہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔(رسالہ: اسلام اور مسلمان)
رضائے الٰہی Raza-e-ilahiکا اجر
جو انسان خلوصِ نیت اور محبت سے رضائے الٰہی کے لیے جدوجہد کرتا ہے وہ ضرور اللہ تعالی کا قرب پاتا ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے حقیقی و روحانی وارث اور سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
مقامِ رضا پر پہنچ کر اللہ مومن کو اپنے خاص نور یعنی لقائے الٰہی سے سرفراز فرماتا ہے اور ان کو ایک نئی زندگی ہر لمحہ غیب سے عطا ہوتی ہے۔ (بحوالہ کتاب :سلطان العاشقین)
ایسے شخص کے لئے اللہ پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
اور اس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا سر اللہ کی رضا کے سامنے جھکا دیا وہ محسن (اللہ کا دیدار کرنے والا) ہے۔ (سورۃ النسائ۔ 125)
مجددِ دوراں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنی مایہ ناز تصنیف’ شمس الفقرا‘ میں فرماتے ہیں:
مقام ِرضا فقر کی منازل میں سے بہت بڑی منزل ہے اور مقامِ رضا کے بعد ہی باطن کے دو اہم اور آخری مقامات مشاہدۂ حق تعالیٰ اور مجلسِ محمدیؐ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
حاصلِ تحریر:
مضمون کی ابتدا میں رقم کی گئی آیاتِ قرآنی اور احادیث کی روشنی میں ایک بات تو طے ہے کہ خواہ کوئی عام انسان ہو یا اللہ پاک کا پسندیدہ و مقرب بندہ، اسے اللہ تعالیٰ کا قرب اور رضا حاصل کرنے کے لیے آزمائش اور امتحان سے گزرنا پڑے گا کیونکہ یہی قدرت کا قانون ہے جو ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ کامیاب وہ ہے جو ان آزمائشوں پر گلہ گوئی اور اعتراض کرنے کی بجائے اللہ پاک کی رضا کی خاطر سرِتسلیم خم کر دے۔ تاہم یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لیے عشقِ حقیقی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ عشق ہی ہر آزمائش اور رکاوٹ میں استقامت پیدا کرتا ہے اور مجلسِ محمدیؐ کی حضوری بھی عشق ہی سے حاصل ہوتی ہے۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ فرماتے ہیں:
یہ عشق ہی ہے جو مجلسِ محمدیؐ کی حضوری عطا کرتا ہے عقل تو اسکا انکارکرتی ہے۔ (شمس الفقرا)
آج کے اس پرفتن دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ ہی ایسی بارگاہ ہے جہاں سے نورِ ایمان اور عشق کے نگینۂ تسلیم و رضا کا مقام حاصل ہوتا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کو رضائے الٰہی کے حصول میں گزاریں اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے آج ہی دورِ حاضر کے مجدد اور مرشد کامل اکمل کے دستِ اقدس پر بیعت ہوں اور دین و دنیا کی کامیابیاں سمیٹیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ہر حال میں اپنی رضا میں راضی رہنے کا ہنر سکھا دے۔ آمین
استفادہ کتب:
۱۔ شمس الفقرا، تصنیف لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
۲۔ سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ۔ حیات و تعلیمات: ایضاً
۳۔ سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۴۔ ضربِ کلیم؛ شاعر علامہ اقبالؒ
۵۔رسالہ: اسلام اور مسلمان
Raza-e-ilahi
جو انسان خلوصِ نیت اور محبت سے رضائے الٰہی کے لیے جدوجہد کرتا ہے وہ ضرور اللہ تعالی کا قرب پاتا ہے۔
ایمان اور یقین کی وجہ سے ایک بندۂ مومن بڑی سے بڑی تکلیف اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی نہ تودل میں شکوہ کرتا ہے اور نہ ہی حرفِ شکایت زبان پر لاتاہے بلکہ وہ ہر حال میں پیکرِ تسلیم و رضا بنا رہتا ہے۔
Nice article
بہترین مضمون
Masha Allah Allah tala sab ko ishq ki pak neymat se nawaze or sabit Qadam rakhen or sab k sadqe hum par bhi thora sa rehma kren
جو انسان خلوصِ نیت اور محبت سے رضائے الٰہی کے لیے جدوجہد کرتا ہے وہ ضرور اللہ تعالی کا قرب
Masha Allah best artical Bohat acha
اچھا مضمون ہے
بہت ہی خوبصورت اور دلچسپ مضمون ہے ۔۔۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ فرماتے ہیں:
یہ عشق ہی ہے جو مجلسِ محمدیؐ کی حضوری عطا کرتا ہے عقل تو اسکا انکارکرتی ہے۔ (شمس الفقرا)
ہر شاخ سے یہ نکتہ پیچیدہ ہے پیدا
پودوں کو بھی احساس ہے پہنائے فضا کا
آج کے اس پرفتن دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ ہی ایسی بارگاہ ہے جہاں سے نورِ ایمان اور عشق کے نگینۂ تسلیم و رضا کا مقام حاصل ہوتا ہے
تسلیم و رضا کی وجہ سے انسان اپنا بڑے سے بڑا مسئلہ بھی اللہ کے سپرد کر کے مطمئن ہو جاتا ہے اور یہی مطلب ہے اللہ کو پروردگار ماننے کا۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
بہترین تحریر
بہت پیارا مضمون ہے
🌹🌹🌹🌹
ماشاءاللہ بہت خوب صورت مضمون ھے
اللہ کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے
بے شک آج کے اس پرفتن دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ ہی ایسی بارگاہ ہے جہاں سے نورِ ایمان اور عشق کے نگینۂ تسلیم و رضا کا مقام حاصل ہوتا ہے۔
Bohat alla
Very informative
بے شک تسلیم و رضا بہت ہی بڑا مقام ہے
رضائے الٰہی راہِ فقر میں کامیابی کے لیے بہت ضروری ہے
ایک بندۂ مومن بڑی سے بڑی تکلیف اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی نہ تودل میں شکوہ کرتا ہے اور نہ ہی حرفِ شکایت زبان پر لاتاہے بلکہ وہ ہر حال میں پیکرِ تسلیم و رضا بنا رہتا ہے۔
آج کے اس پرفتن دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ ہی ایسی بارگاہ ہے جہاں سے نورِ ایمان اور عشق کے نگینۂ تسلیم و رضا کا مقام حاصل ہوتا ہے
بہت وضاحت سےبیان کیا ہے
Very informative
Very informative article
بہت خوب
ماشااللہ انتہائی خوبصورت آرٹیکل ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین 🤲❤🌹
Raza-e-ilahi.نورِ مبین خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
وہ شخص ایمان کا مزہ چکھ لیتا ہے جو اللہ کے پروردگار ہونے پر راضی ہو۔ (صحیح مسلم)
بہترین مضمون ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
بہت ہی اچھا مضمون ہے۔
بہترین مضمون 👍🏼
رضاکے معنی ہیں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا، اپنی نفسانی خواہشات و ترجیحات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع کر دینا، اپنی اَنا کو رضائے الٰہی میں فنا کر دینا اور یہ فنا فی اللہ کی ایک نشانی بھی ہے۔
نورِ ایمان کی بدولت جب انسان کے دل کی گہرائیوں میں یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ایک پتاّ تک حرکت نہیں کر سکتا تو اس پر کوئی مصیبت بھی آئے، اس کا دل مطمئن رہتا ہے کہ یہ اللہ کے حکم سے آئی ہے اور اس کی بہتری اسی میں ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لیے بہتر ہو، اور (یہ بھی) ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ (حقیقتاً) تمہارے لیے بری ہو، اور اللہ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (سورۃالبقرہ۔ 216)
سلطان العاشقین اپنے مریدوں کا تزکیہ نفس فرماتے ہیں اور ان کو تسلیم و رضا کے مقام تک لے جاتے ہیں
آج کے اس پرفتن دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ ہی ایسی بارگاہ ہے جہاں سے نورِ ایمان اور عشق کے نگینۂ تسلیم و رضا کا مقام حاصل ہوتا ہے۔
بہت اچھا مضمون ہے ۔
خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
وہ شخص ایمان کا مزہ چکھ لیتا ہے جو اللہ کے پروردگار ہونے پر راضی ہو۔ (صحیح مسلم)