اسلام کیا ہے؟؟ Islam Kia Hy


5/5 - (7 votes)

اسلام کیا ہے؟؟ Islam Kia Hy

تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

امتِ مسلمہ کے لیے یہ نہایت سعادت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے دینِ حنیف اسلام کے لیے منتخب فرمایا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اسلام کو حقیقی معنوں میں سمجھتے ہیں؟ کیا ہم نے اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالا ہے؟ کیا ہم اللہ اور اس کے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بتائے گئے راستے پر چل رہے ہیں؟ اگر ہم اسلام کے حقیقی مفہوم سے آگاہ نہیں تو یقینا اپنی زندگیوں پر اس کے نفاذ سے بھی غافل ہوں گے۔ 

کیا اسلام محض پانچ وقت کی نماز پڑھ لینے، سال بعد ایک مہینہ کے روزے رکھنے یا کبھی کبھار زکوٰۃ دینے کا نام ہے؟ ایسا کرنے پر ہمارا معاشرہ تو ایک مثالی معاشرہ بننا چاہیے کیونکہ یہ اعمال تو ہم بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔تاہم یہ سب اعمال کرنے کے باوجودبھی ہمارے اندر سے نہ تومال کی حرص و ہوس کم ہو رہی ہے اور نہ نفسانی بیماریوں مثلاً غیبت، چغلی، جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، کینہ، بغض اور خودپسندی وغیرہ سے جان چھوٹ رہی ہے۔ نفس اسی طرح فربہ ہے بلکہ مزید سے مزید طاقتور ہوتا چلاجا رہا ہے۔ تمام تر عبادات کے باوجود نفس کے جال میں روح کا پرندہ قید ہی رہتا ہے، کبھی بھی قربِ حق کی طرف پرواز کر ہی نہیں پاتا۔ اسلام کا نفاذ ہماری روح پر تو کیا جسم پر بھی مکمل طور پر نہیں ہورہا۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن میں اسلام میں داخل ہونے کا حکم فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً (سورۃ البقرہ۔208)
ترجمہ: اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔

اسلام میں پورے پورے داخل ہونے سے بھی یہی مراد ہے کہ اسلام کا نفاذ جسم و روح پر اپنی کامل صورت میں ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ قلبی و روحانی تعلق قائم ہو جائے۔

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
روح کے جسم پر حاوی آنے کا نام دین ہے۔ جب بندے کی ہر سوچ اور ہر عمل اللہ سے جڑ جائے تو یہ روح کے جسم پر حاوی آنے کی علامت ہے۔ (سلطان العاشقین)

آج کا انسان دن بھر رزق کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے لیکن رازق پر توکل نہیں کرتا، اللہ کو حاضر اور ناظر تومانتاہے لیکن گناہ کرتے ہوئے اپنے اس عقیدہ اور ایمان سے غافل ہو جاتا ہے۔ اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں اس قدر اندھا ہو جاتا ہے کہ موت اور آخرت سے بھی غافل ہو جاتا ہے۔ 

اسلام محض عبادات کا نام نہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرتِ مطہرہ کی صورت میں موجود ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعلانِ نبوت کے ساتھ ہی نو مسلموں کے لیے عبادات کا حکم نہیں فرمایابلکہ آپؐ کی مکمل توجہ ان کی اخلاقی و روحانی تربیت پر تھی۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نہ صرف خدائے واحد پر ایمان لانے، اس کی بندگی کا حق ادا کرنے کا پیغام دیابلکہ ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اخلاقِ حسنہ کی تلقین بھی کرتے رہے۔ مسلمانوں کو اخلاقی برائیوں سے آگاہ فرماتے رہے۔ اپنی پاکیزہ صحبت کے ذریعے ان کا تزکیۂ نفس فرمایا، اپنی گفتگو کے ذریعے ان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کرنے پر مائل فرمایا اور اپنے عشق سے ان کے قلوب کو گرمایا۔ 

اس دوران ان مسلمانوں کو مختلف مشکلات اور مصائب کا سامنا بھی رہا، عزیز و اقارب کی مخالفتیں اور طعنے برداشت کرنے پڑے، اکثر رشتوں سے کنارہ کشی اختیار کرنی پڑی، کفار و مشرکین کے ساتھ جنگیں بھی ہوئیں اور جنگیں بھی ایسی کہ بھائی بھائی سے اور باپ بیٹے سے برسرِپیکار تھا۔۔۔ اس سب کا مقصد مسلمانوں کو روحانی طور پر مضبوط بنانا تھا، دنیاوی رشتوں اور اسباب کی حقیقت سے روشناس کرانا تھا، غیر اللہ کی محبت کو دل سے نکال کر اللہ کے عشق سے دلوں کو لبریز کرنا تھا، عشقِ رسولؐ سے ان کی روحوں کو سوز و گداز عطا فرمانا تھا۔ عرب معاشرے میں سینکڑوں سالوں سے رائج جاہلانہ رسومات کو ایک دم سے ترک کرنا کبھی بھی کسی کے لیے آسان نہ ہوتااور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یک دم سے وہ سب ترک کرنے کا کہا۔ جب نفوس اخلاقی و نفسانی برائیوں اور بیماریوں سے پاک ہو گئے، قلوب عشقِ حقیقی کی دولت سے منور ہو گئے تو مسلمانوں نے غیر اللہ سے نجات پا لی، جاہلانہ رسوم و رواج کو ترک کر دیااور جانی و مالی قربانیاں دیں تو وہ حقیقی مومن بن گئے، اسلام ان کی زبانوں تک محدود نہ رہا بلکہ ان کی روحوں میں سرایت کر گیا، وہ محض کلمہ گو نہ رہے بلکہ کلمہ کی عملی تفسیر بن گئے۔ اللہ اور اس کا رسولؐ انہیں ان کی جان و مال اور اہل و عیال سے بھی زیادہ عزیز تھے۔ یہ تھی کامل ایمان کی نشانی۔ یہ تھا اسلام کا حقیقی نفاذ۔ تزکیہ کا مرحلہ بھی مکمل ہو گیا، عشقِ رسولؐ سے ایمان بھی کامل ہو گیا اور عشقِ حقیقی کی بدولت اللہ کو بھی راضی کر لیا۔عبادات بھی فرض ہو گئیں اور جاہلانہ رسومات کو ترک کرنے کے احکامات بھی نافذ ہو گئے۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی خود سے عشق کو کامل ایمان کی علامت قرار دیا۔
لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَ وَلَدِہٖ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (بخاری۔ 15)
ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کے والد،اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے متعلق فرمایا:
ابوبکرؓ کی فضیلت نہ تو کثرتِ نماز کی وجہ سے ہے اور نہ ہی کثرتِ تلاوت و روزہ کی وجہ سے بلکہ ان کے دل میں قرار پکڑنے والی چیز کی وجہ سے ہے (جو کہ عشقِ رسولؐ ہے)۔ 

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اس کے متعلق فرماتے ہیں:
دینِ اسلام کی اصل بنیاد اللہ تعالیٰ اور آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سچا عشق، اخلاص، وفاداری اور آپؐ کی کامل ظاہری و باطنی اتباع ہے۔ جبکہ آج کل تمام تر توجہ صرف ظاہری اتباع پر دی جاتی ہے۔ اگر دین صرف ظاہری اعمال پر مبنی ہوتا تو اکابر صحابہ ص کے اسلام قبول کرتے ہی نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ فرض کر دیئے جاتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تمام عملی ارکانِ دین کی فرضیت ہجرت کے بعد ہوئی۔ اس سے پہلے تمام صحابہؓ کے لیے دین صرف حضور پاکؐ سے وفا اور عشق ہی تھا۔ اُن کی نماز اور درود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیدار تھا، اُن کا روزہ مشرکینِ مکہ کی طرف سے دی گئی تکالیف پر صبر تھا۔ (سلطان العاشقین)

دورِ حاضر کے نام نہاد مسلمان صرف قرآن و حدیث کا مطالعہ ہی کافی قرار دیتے ہیں۔ ایک استاد، ایک مرشد کامل اکمل اور ایک راہبر و راہنما کی اہمیت کے منکر ہیں۔ اگر محض کتب کا مطالعہ کافی ہوتا تو اللہ تعالیٰ انبیاکرام علیہم السلام کا سلسلہ کیوں جاری فرماتا؟ خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد فقرائے کاملین تلقین و ارشاد کا سلسلہ کیوں جاری رکھتے؟ پس معلوم ہوا کہ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تزکیۂ نفس کے لیے روحانی صحبت بھی نہایت ضروری ہے۔

ایک شخص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! قیامت کب آئے گی؟‘‘ فرمایا ’’توُ نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟‘‘اس نے عرض کیا ’’میں نے اس کے لئے نہ تو اتنی نمازیں پڑھیں، نہ اتنے روزے رکھے اور نہ ہی اتنا صدقہ خیرات کیا ہے لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مجھے محبت ہے۔‘‘ فرمایا ’’تُو اپنے محبوب کے ساتھ ہوگا۔‘‘ (بخاری6171)

یعنی کثرتِ عبادت و ریاضت بھی نجات اور فلاح کی ضمانت نہیں۔ اب ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کیا ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بتائے گئے طریقے کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں؟ کیا ہم اللہ کے انعام یافتہ بندوں کی پیروی کر رہے ہیں؟ کیا ہم تزکیۂ نفس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں یا اس کے تصور سے ہی ناواقف ہیں؟ کیا ہم اللہ اور اس کے رسول ؐسے عشق کرتے ہیں؟ کیا ہم حقیقی مسلمان ہیں؟ ہم تو ذرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتے ہیں اور اللہ سے گلے شکوے شروع کر دیتے ہیں۔ اگر صحابہ کرامؓ یا انعام یافتہ ہستیوں کی مثال دی جائے تو یہ کہہ کر خود کو اس سے مبرا قرار دیتے ہیں کہ وہ تو صحابہؓ تھے۔ شاید ہم یہ فراموش کرچکے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ’’تم پر میری اور میرے خلفائے راشدین کی پیروی لازم ہے۔‘‘ (مسند احمد17275)

ہم پر لازم ہے کہ ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور اصحابِؓ کبار کے بتائے گئے طریقہ پر چلیں۔ اگر یہ سب نہیں کرتے تو پھر آخرت کا زادِ راہ کیسے تیار ہوگا؟ اللہ کے سامنے کس منہ سے حاضر ہوں گے؟ اس وقت تو جسم کا ہر عضو انسان کے اعمال کا شاہد ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاھِھِمْ وَ تُکَلِّمُنَآ اَیْدِیْھِمْ وَ تَشْھَدُ اَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْن۔  (سورۃ یٰسٓ۔65)
ترجمہ: آج (یومِ قیامت) ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں اُن اعمال کی گواہی دیں گے جو وہ کمایا کرتے تھے۔

انسان کے نامۂ اعمال کا ہر ورق اس کے نیک و بد اعمال کا گواہ ہوگا۔ کیا اس وقت ہمیں کوئی دوسرا موقع ملے گا؟ ہرگز نہیں۔ہم لوگ تو صوفیا اور فقرا کی ضرورت سے ہی انکاری ہیں۔ ہم تو تزکیۂ نفس کی اہمیت سے ہی انجان ہیں۔بلکہ دورِ حاضر میں تصوف و سلوک کی راہ پر چلنے والوں کو نعوذ باللہ مشرک و کافر قرار دے دیا جاتا ہے۔ جبکہ ان فقرا کاملین کی صحبت کے نتیجہ میں طالب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ تک رسائی حاصل کرتاہے کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچے بغیر ایمان بھی کامل نہیں ہو سکتا اور دین کا فہم بھی حاصل نہیں ہوتا۔ مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
دین تب تک سمجھ نہیں آتا جب تک وہ خود نہ سمجھائے جس کا دین ہے۔ (سلطان العاشقین)

محترم قارئین! اب بھی وقت ہے۔ اگر حقیقی مسلمان بننا ہے تو تزکیۂ نفس کے مرحلہ سے گزرنا ہوگا تاکہ تمام اخلاقی برائیوں سے بھی نجات پا لی جائے اور آئینہ قلب کے پاکیزہ ہونے پر اللہ کی معرفت اور دیدار بھی نصیب ہو سکے۔ تزکیۂ نفس کے لیے زندہ و جاوید مرشد کامل اکمل کے دامن سے وابستہ ہونا ناگزیر ہے۔

دورِ حاضر کے مجدد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حقیقی ورثۂ فقر کا فیض عام فرما رہے ہیں، وہ فقر جو کہ اسلام کی حقیقی روح اور اسلام کا باطن ہے۔ جس کی بدولت ایک عام مسلمان اسلام میں مکمل طور پر داخل ہو جاتا ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس طالبانِ مولیٰ کی تربیت بھی بالکل اسی نہج پر فرما رہے ہیں جس نہج پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرامؓ کی تربیت فرمائی اور ان کو زمانے بھر کے لیے ایک نمونہ بنا دیا۔انہیں ایک حقیقی مومن و مسلمان بنا دیاجن کا ہر عمل اسلام کا آئینہ دار تھا۔

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس خلقِ محمدی کا مکمل اظہار ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے ظاہری علما کی طرح کبھی کسی کے عمل اور عادات پر اعتراض نہیں کیا، کبھی کسی کی برائی کو نمایاں نہیں کیا بلکہ آپ مدظلہ الاقدس کی نگاہ تو طالب کے اس جذبہ اور طلب پر ہوتی ہے جس جذبہ اور طلب سے وہ راہِ فقر پر چل رہا ہوتا ہے۔ آپ بتدریج اپنی نورانی صحبت کے ذریعے طالب کو اس کے نفس کی خامیوں سے نجات دلا دیتے ہیں، اس کے اندر حق و باطل کا فرق کرنے کی صلاحیت پیدا فرماتے ہیں، صحیح و غلط کا شعور عطا فرماتے ہیں۔ یہ آپ مدظلہ الاقدس کے کامل مرشد اور صاحبِ بصیرت ہونے کی واضح نشانی ہے کہ ایک عظیم قائد اور رہبر کی مثل طالب کی خوبیوں اور مزاج کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس کی تربیت فرماتے ہیں نہ کہ سب کو ایک ہی پیمانے سے تولتے ہیں۔ اپنی پرُتاثیر اور شیریں سخن گوئی سے قرآن و حدیث کا حقیقی مفہوم طالب کے قلب میں اتار دیتے ہیں۔ آپ کی گفتگو ہمیشہ قرآن و حدیث اور فقرا کاملین کے فرامین سے مزین ہوتی ہے جو کہ آپ مدظلہ الاقدس کے صاحبِ فہم و علم ہونے کی واضح دلیل ہے۔ محض قرآن و حدیث کا ترجمہ پڑھ لینے سے وہ اسرار طالب پر نہیں کھلتے جو سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی گفتگو سے طالب کے قلب پر منکشف ہو جاتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس قرآن کی تفسیر دورِ حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق فرماتے ہیں۔

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی صحبت میں رہ کر طالب دنیا اور دنیاوی جھنجھٹ اس طرح فراموش کر دیتاہے جیسے صحابہ کرامؓ کیا کرتے تھے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ ذیل میں بیان کیا جا رہا ہے۔

حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے ساتھ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم   کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ’’یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! حنظلہ تو منافق ہوگیا ہے۔‘‘ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پوچھا وہ کیسے؟ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! جب ہم آپؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں، آپؐ ہمیں جنت اور دوزخ کی یاد دلاتے ہیں تو یہ حالت ہوتی ہے گویا ہم (جنت اور دوزخ) اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور جب ہم آپؐ کی بارگاہ سے باہر نکلتے ہیں تو اہل و عیال اور کاروبار میں مشغول ہو جاتے ہیں اور سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا ’’قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اگر تمہاری حالت ہمیشہ ایسی ہی رہے جیسا کہ میرے پاس اور میری محفل میں ہوتی ہے تو فرشتے آرام گاہوں اور راستوں میں تمہارے ساتھ مصافحہ کریں لیکن اے حنظلہؓ یہ گھڑی کبھی کبھی میسر آتی ہے‘‘ (یعنی یہ صرف میری صحبت اور نظر کے سامنے ہی میسر آتی ہے۔) (مسلم 6966)

مسلمانوں کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے لیے اسلام کی صورت میں ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کر دیا گیا ہے، قرآن و سنت کے ذریعے ان کی کامل رہنمائی کر دی گئی ہے اب صرف اس پر عمل پیرا ہونے کی دیر ہے۔ لیکن اس کے لیے بھی اسلام کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے اور اس کے نفاذ کے طریقہ کار سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے۔دورِ حاضر کے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں پیش ہو کر ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات حاصل کریں، آپ مدظلہ الاقدس کی نگاہِ کامل کی تاثیر سے اپنی نفسانی بیماریوں سے نجات حاصل کریں، آپ کی گفتگو سے مستفید ہو کر قرآن و حدیث کے اسرار سمجھیں اور اسلام کا حقیقی فہم و شعور حاصل کریں تاکہ اس کے مطابق اپنی زندگی گزار کر اللہ کی بارگاہ میں سچے مومن بن کر پیش ہوں کیونکہ اسلام کو سمجھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا ہی فلاح کی ضمانت ہے۔

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

دین مجو اندر کتب اے بے خبر
علم و حکمت از کتب دیں از نظر

ترجمہ: اے بے خبر دین کتابوں میں تلاش نہ کر، علم و حکمت تو کتب سے مگر دین نظر سے ملتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں فقرا کاملین کی صحبت سے کماحقہ مستفید ہونے اور اسلام میں مکمل طور پر داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

استفادہ کتب:
۱۔ سلطان العاشقین:  ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۲۔ تزکیۂ نفس کا نبویؐ طریق: تصنیف لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس


13 تبصرے “اسلام کیا ہے؟؟ Islam Kia Hy

  1. علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

    دین مجو اندر کتب اے بے خبر
    علم و حکمت از کتب دیں از نظر
    ترجمہ: اے بے خبر دین کتابوں میں تلاش نہ کر، علم و حکمت تو کتب سے مگر دین نظر سے ملتا ہے ۔

  2. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں فقرا کاملین کی صحبت سے کماحقہ مستفید ہونے اور اسلام میں مکمل طور پر داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

  3. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس خلقِ محمدی کا مکمل اظہار ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے ظاہری علما کی طرح کبھی کسی کے عمل اور عادات پر اعتراض نہیں کیا، کبھی کسی کی برائی کو نمایاں نہیں کیا بلکہ آپ مدظلہ الاقدس کی نگاہ تو طالب کے اس جذبہ اور طلب پر ہوتی ہے جس جذبہ اور طلب سے وہ راہِ فقر پر چل رہا ہوتا ہے۔ آپ بتدریج اپنی نورانی صحبت کے ذریعے طالب کو اس کے نفس کی خامیوں سے نجات دلا دیتے ہیں، اس کے اندر حق و باطل کا فرق کرنے کی صلاحیت پیدا فرماتے ہیں، صحیح و غلط کا شعور عطا فرماتے ہیں۔

  4. آج کا انسان دن بھر رزق کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے لیکن رازق پر توکل نہیں کرتا، اللہ کو حاضر اور ناظر تومانتاہے لیکن گناہ کرتے ہوئے اپنے اس عقیدہ اور ایمان سے غافل ہو جاتا ہے۔

  5. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے متعلق فرمایا:
    ابوبکرؓ کی فضیلت نہ تو کثرتِ نماز کی وجہ سے ہے اور نہ ہی کثرتِ تلاوت و روزہ کی وجہ سے بلکہ ان کے دل میں قرار پکڑنے والی چیز کی وجہ سے ہے (جو کہ عشقِ رسولؐ ہے)۔

  6. دین تب تک سمجھ نہیں آتا جب تک وہ خود نہ سمجھائے جس کا دین ہے۔ (سلطان العاشقین)

  7. محترم قارئین! اب بھی وقت ہے۔ اگر حقیقی مسلمان بننا ہے تو تزکیۂ نفس کے مرحلہ سے گزرنا ہوگا تاکہ تمام اخلاقی برائیوں سے بھی نجات پا لی جائے اور آئینہ قلب کے پاکیزہ ہونے پر اللہ کی معرفت اور دیدار بھی نصیب ہو سکے۔

  8. دین مجو اندر کتب اے بے خبر
    علم و حکمت از کتب دیں از نظر

اپنا تبصرہ بھیجیں