حضور نبی اکرمؐ کی بشریت اور نورانیت Huzoor Nabi Akram s.a.w.w ki Bashariyyat aur Nooraaniyyat

5/5 - (14 votes)

حضور نبی اکرمؐ کی  بشریت اور نورانیت
 Huzoor Nabi Akram s.a.w.w ki Bashariyyat aur Nooraaniyyat

تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری (لاہور)

لاکھوں کروڑوں درود و سلام ہو خاتم النبییٖن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ اقدس پر جن کے وجودِ بابرکت سے دنیا روشن ہے، جن کا ذکر اللہ نے خود بلند کیا اور جن کی تشریف آوری کی خوشی خود اللہ نے عرشِ بالا پر منائی۔ یہ حقیقتِ محمدیہ ہی ہے جس کے فیض سے چاند، ستارے ،سیارے سب اپنے اپنے مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں، سورج روشنی و حرارت کا مرکز ہے، چرند پرند کے لب و لہجہ میں ذکر ِاللہ جاری ہے، زمین میں کششِ ثقل ہے اور انسان اشرف المخلوقات ہے۔ دین و دنیا میں کامیابی کا انحصار حقیقتِ محمدیہ پر کامل یقین پر ہے۔ جو حقیقتِ محمدیہ پر یقین نہیں رکھتا وہ گمراہ ہے۔ حقیقتِ محمدیہ آپؐ کی بشریت اور نورانیت کا اظہار ہے۔ آپؐ کی صفتِ بشریت کی شان بیان کرتے ہوئے ربّ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ  (سورۃ الکہف ۔ 110)
ترجمہ:فرما دیجیے! میں تو صرف(بخلقتِ ظاہری) بشرہونے میں تمہاری مثل ہوں (اس کے سوا اور تمہاری مجھ سے کیا مناسبت ہے! ذر ا غور کرو) میری طرف یہ وحی بھیجی گئی ہے کہ تمہارا معبود فقط معبودِ یکتا ہی ہے (بھلا تم میں یہ نوری استعداد کہاں ہے کہ تم پر کلامِ الٰہی اتر سکے)!

اس آیت کے پہلے حصہ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ  ’’میں تمہاری مثل بشر ہوں‘‘ کو لے کر عموماً بحث کی جاتی ہے کہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہماری طرح عام بشر تھے۔ اس بات کا جواب اللہ تعالیٰ نے خود قرآنِ کریم میں دے دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وہ افضل بشر اور انسانِ کامل ہیں جن پر وحی نازل ہوتی تھی۔ وحی کسی عام انسان پر نہیں بلکہ اللہ کے رسول پر نازل ہوتی تھی۔ آپؐ اللہ کے وہ رسول ہیں جن کے نور سے تمام ارواح کو پیدا کیا گیا۔ آپؐ کی ایک جہت بشریت ہے اور دوسری نورانیت۔ آپؐ علمی، عملی،اخلاقی،روحانی اور نورانی ہر لحاظ سے کامل تھے۔ آپؐ کو عام بشر سمجھنا یا کہنا سراسر گمراہی ہے۔ حدیث شریف میں بیان ہوا ہے:

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے’صومِ وصال ( افطار کیے بغیر مسلسل کئی دن کے روزے رکھنا)‘  رکھا توصحابہ کرام ؓنے بھی رکھا لیکن صحابہ کرامؓ کے لیے دشواری ہو گئی اس لئے آپؐ نے انہیں اس سے منع فرما دیا۔ صحابہ کرامؓ نے اس پر عرض کی کہ آپ ؐتو صومِ وصال رکھتے ہیں۔ اس پرآنحضرتؐ نے فرمایا: ’’میں تمہاری طرح نہیں ہوں میں تو برابر کھلایا پلایا جاتا ہوں‘‘۔ (صحیح بخاری۔ 1922)

اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ساری انسانیت کے لیے ہدایت بنا کر بھیجا اور جس لباس میں بھیجا وہ بشری تھا اور اس بشری لباس میں کیوں بھیجا، اس کی وجہ قرآنِ کریم میں موجود ہے:
قُلْ لَّوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَلَکًا رَّسُوْلًا    (سورۃبنی اسرائیل ۔ 95)
ترجمہ:فرما دیجیے!اگر زمین میں (انسانوں کی بجائے)فرشتے چلتے پھرتے سکونت پذیر ہوتے تو یقینا ہم (بھی) ان پر آسمان سے کسی فرشتہ کو رسول بنا کر اتارتے۔ 

کتاب ’شانِ مصطفیؐ بزبانِ مصطفیؐ‘ میں خوبصورتی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صفتِ بشریت کی شان بیان کی گئی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں اللہ نے آپؐ کواَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ فرمانے کا حکم اس لیے دیا کہ حسنِ یوسف ؑکو دیکھ کر عورتوں نے ان کی بشریت کا انکار کر دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو حضرت یوسف ؑکے بھی امام ہیں۔ آپؐ کا نام سن کر عرب کے مرد گردنیں کٹائیں گے اس لیے وہ کہیں آپؐ کو کچھ اور نہ کہنا شروع کر دیں لہٰذا آپ ؐفرما دیں اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ۔ 

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مردے زندہ کیے تو عیسائیوں نے انہیں خدا کہنا شروع کر دیا۔ اے حبیبؐ! آپؐ تو پتھروں اور درختوں میں جان ڈال دیں گے، کہیں لوگ آپؐ کے متعلق یہ نہ کہہ دیں اس لیے فرما دیں اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمرود سے مناظرہ کیا تو فرمایا اگر تو خدا ہے تو سورج مغرب سے نکال۔ لوگوں کے ذہن میں یہ بات آئی کہ شاید جو مغرب سے سورج نکالے اسے خدا کہا جا سکتا ہے تو اللہ نے فرمایا اے محبوب! آپؐ تو علیؓ کی نماز کے لیے مغرب سے سورج لکال دیں گے کہیں لوگ شک میں نہ پڑ جائیں لہٰذا کہہ دیںاَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ۔(شانِ مصطفیؐ بزبانِ مصطفیؐ)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک جگہ فرماتے ہیں اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ اور دوسری جگہ مومنین سے فرماتے ہیں ایکم مثلی ( تم میں میری مثل کون ہو سکتا ہے)۔ ایک آپ ؐکی شانِ عبدیت تھی اور دوسری ربوبیت۔
یہ دونوں رُخ یا جہتیں انسانِ کامل کی صفات ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جو سچی محبت کرتا ہے اس کے لیے انتہائی رنج کا باعث ہے کہ کوئی اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ آیت کو غلط معنی دے۔ آپ ؐ کی مثل کوئی کیسے ہو سکتا ہے!

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جسمِ اطہر کا سایہ نہ تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے آپؐ کا وجود مبارک اتنا نورانی اور لطیف تھا کہ سورج کی شعائیں گزر جاتیں۔ آپؐ کا نور آپؐ کی بشریت پر غالب آکر بشریت کو بھی نور بنا چکا تھا۔ حضور نبی اکرمؐ کے جسمِ اطہر پر کبھی مکھی نہیں بیٹھی تھی۔ آپؐ نے انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کر دئیے۔ سورج کو واپس موڑ دیا۔ آپؐ کی پوری زندگی اس بات کی دلیل ہے کہ آپؐ افضل البشر اور اللہ کے رسول ہیں۔

جس کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے نسبت حاصل ہو جائے وہ معتبر، پاکیزہ اور بلند رتبے والا ہو جاتا ہے۔ جس عورت کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے نسبت ہو گئی انہیں سب سے بہترین عورت اُم المومنین قرار دے دیا گیا۔ جس امت کو آپؐ سے نسبت ہو گئی وہ خیر القرون ہو گئی، جس کتاب کو حضورؐ سے نسبت ہو گئی وہ تمام کتابوں سے افضل۔ جب آپؐ کی نسبت ایک عام سی چیز کو افضل بنا دیتی ہے تو سرکارؐ کی اپنی ذات کی فضیلت کا اندازہ کون کر سکتا ہے؟ آپؐ کی بشریت کی مثال کوئی بشر کیسے دے سکتا ہے، ہماری بشریت کثافت والی، نبیؐ کی بشریت لطافت والی۔ ہماری بشریت بھٹکنے والی، حضورؐ کی بشریت راہِ راست پر لانے والی۔ ہماری بشریت کے پسینے سے بدبو پھیلے، حضورؐ کے پسینہ مبارک سے خوشبو پھیلے۔ بقول شاعر:

مثالِ مصطفیؐ کوئی پیغمبر ہو نہیں سکتا
ستارہ لاکھ چمکے مہر انور ہو نہیں سکتا

حقیقت محمدؐ دی پا کوئی نئیں سکدا
بشر عرش توں پار جا کوئی نئیں سکدا

مسلم شریف کی حدیث ہے حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
بیٹھ کر نماز پڑھنے سے آدھا ثواب ہے ۔
فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ حضور خود بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا ’’حضورؐ! ہمیں تو آپؐ نے فرمایا بیٹھ کر نماز پڑھنے سے آدھا ثواب ملتا ہے اور خود بیٹھ کر پڑھ رہے ہیں؟‘‘ فرمایا ہاں لیکن میں تم جیسا تو نہیں ہوں، چاہے کھڑے ہو کر پڑھوں یا بیٹھ کر، میرے ثواب میں کمی نہیں آتی۔‘‘

اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!آپؐ وتر پڑھنے سے پہلے ہی سو جاتے ہیں۔اس پر آپؐ نے فرمایا: عائشہؓ میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔ (صحیح بخاری ۔1147)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رسول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’ کیا تم یہی دیکھتے ہو کہ میرا منہ ادھر ہے؟ اللہ تعالیٰ کی قسم! مجھ سے تمہارے (دلوں کی حالت اور ان کا) خشوع و خضوع پوشیدہ ہیں نہ تمہارے (ظاہری حالت کے) رکوع، میں تمہیں اپنی پشت پیچھے سے بھی اس طرح دیکھتا ہوں جیسے اپنے سامنے سے دیکھتا ہوں۔‘‘ (یہ حدیث متفق علیہ ہے)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہر عالم میں مختلف لباس

عالمِ یاھوت:

اللہ تعالیٰ نے جب احدیت سے نکل کر کثرت میں ظہور کا ارادہ فرمایا تو تعینات میں نزول فرمایا۔ نزول کا سب سے پہلا درجہ اور تعین اوّل جسے ذات کا ظہورِ اوّل بھی کہتے ہیں جہاں ذاتِ احد نورِ محمدی کی صورت میں ظاہر ہوئی یعنی اس عالم میں اللہ تعالیٰ کی ذات حقیقتِ محمدیہ یا میم احمدی کا نقاب اوڑھ کر ظاہر ہوئی یہ عالمِ یاھوت ہے جہاں نورِ محمدی نورِ الٰہی سے ظاہر ہوا تھا۔ مندرجہ ذیل احادیث مبارکہ میں حقیقتِ محمدیہ کی طرف اشارہ ہے:
اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ 
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا کیا۔
اَنَا مِنْ نُوْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَکُلُّ خَلَائِقٍ مِّنْ نُّوْرِیْ 
ترجمہ:میں اللہ تعالیٰ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے۔
اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ رُوْحِیْ 
ترجمہ:سب سے پہلے اللہ نے میری روح کو پیدا فرمایا۔

قرآنِ کریم میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِیْنُ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ ط یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ (سورہ الفتح۔ 10)
ترجمہ: (اے نبیؐ!) جو لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ دراصل اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں اور ان لوگوں کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔

عالمِ لاھوت:

اس عالم میں نورِ محمدی روحِ قدسی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اصل روح، روحِ قدسی یا روحِ محمدؐ ہے جسے ہر عالم میں اس عالم کا لباس پہنا کر پہنچایا گیا۔ اس مرتبہ کے متعلق قرآنِ پاک میں ارشاد ہوا ہے:
وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِن رُّوْحِی (سورۃ الحجر ۔29)
ترجمہ:اور میں نے اس میں اپنی روح پھونکی۔
وَاَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہ  (سورۃ المجادلۃ۔22)
ترجمہ:ان کی مدد اپنی روح سے کی۔
نورِ محمد کو ہی اللہ کی روح کہنا حق ہے کہ روح ذات سے جدا ہو کر بھی جدا نہیں ہوتی اور نورِ محمد ،نورِ الٰہی سے جدا ہو کر بھی جدا نہیں۔

عالمِ جبروت:

روحِ قدسی جو غیر مخلوق نورِ الٰہی، نورِ محمدی ہے، اس غیر مخلوق روحِ قدسی کو جبروتی لباس پہنا کر روحِ سلطانی کے پردے کی صورت عالمِ جبروت میں اتارا گیا یعنی نورِ محمد کا عالمِ جبروت میں لباس روحِ سلطانی ہے۔

عالمِ ملکوت:

عالمِ ملکوت میں نورِ محمد،روحِ سیرانی یا روحِ روحانی کی صورت میں ظاہر ہوا۔

عالمِ ناسوت:

نورِ محمد جو پہلے روحِ قدسی کی صورت میں ظاہر ہوا، پھر روحِ سلطانی اور پھر روحِ سیرانی کی صورت میں ظاہر ہوا، عالم ِ ناسوت میں روحِ سیرانی، روحِ جسمانی یا حیوانی کا پرت ڈال کر عنصری جسمانی صورت میں مخلوق میں ظاہر ہوئی۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ ہر عالم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مختلف لباس ہیں اور عالمِ ناسوت میں آپؐ انسانِ کامل یا افضل البشر کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ انسانِ کامل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اللہ نے کتاب نازل کی، آپؐ کو اللہ نے خوشخبری سنانے والااور ہدایت کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا۔ جنہوں نے آپؐ کے صرف بشری لباس کو دیکھا اور کبھی آپؐ کی حقیقتِ محمدیہ سے واقف نہ ہوئے انہوں نے بشر کو دیکھا ،نور کو نہیں۔ ابو جہل نے آپؐ کے بشری لباس کو دیکھا اور منکر رہا جبکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے لباسِ محمدی میں نورِ الٰہی کو دیکھا اور سب سے پہلے ایمان لے آئے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ ط قَدْ جَآئَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْن  (سورۃ المائدہ ۔ 15)
ترجمہ:اے اہلِ کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارے(یہ) رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لیے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے درگزر (بھی) فرماتے ہیں۔ بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمدؐ) آگیا اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآنِ مجید)۔

جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صرف بشری لباس کو ہی دیکھتے ہیں نور کو نہیں، ان کے متعلق بھی قرآن نے واضح طور پر فرما دیا:
وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَآئَہُمُ الْہُدٰٓی اِلَّا اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوْلًا  (سور ۃ الاسرا۔ 94)
ترجمہ: اور (ان) لوگوں کو ایمان لانے سے اور کوئی چیز مانع نہیں ہوئی جبکہ ان کے پاس ہدایت (بھی) آ چکی تھی سوائے اس کے وہ کہنے لگے: اللہ نے (ایک )بشر کو رسول بنا کر بھیجاہے۔
قرآنِ کریم میں آپؐ کے لیے عبدہٗ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
عبدہٗ دو لفظوں سے مل کر بنا ہے، عبد اور ھو۔ باقی تمام انسان عبد یعنی عام انسان ہیں اور صرف انسانِ کامل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات عبدہٗ ہے یعنی عبد بھی اور ھو بھی۔

سورۃ الزمر آیت 36 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ط وَیُخَوِّفُوْنَکَ بِالَّذِیْنَ  مِنْ دُوْنِہٖ ط وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ھَادٍ  (سورۃ الزمر ۔36 )
ترجمہ: کیا اللہ اپنے عبدہٗ (مقرب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو کافی نہیں ہے؟ اور یہ(کفار) آپ کو اللہ کے سوا ان بتوں سے (جن کی یہ پوجا کرتے ہیں )ڈراتے ہیں ،اور جسے اللہ (اس کے قبولِ حق سے انکار کے باعث) گمراہ ٹھہرا دے تو اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے بھی آپؐ کے لیے اپنے عارفانہ کلام میں عبدہٗ کا لفظ استعمال کیا ہے اور شانِ عبدہٗ کو بھی بخوبی بیان کیا ہے۔

عبدہٗ از فہم تو بالاتر است
زاں کہ او ہم آدم و ہم جوہر است

ترجمہ: عبدہٗ تیری عقل و فہم سے بالاتر ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بشر بھی ہیں اور جوہر (نور) بھی۔

عبدہٗ صورت گر تقدیر ہا
اندر او ویرانہ ہا تعمیر ہا

ترجمہ:عبدہٗ تقدیر کا صورت گر ہے اور اس کے اندر ویرانے بھی ہیں اور تعمیرات بھی ہیں۔

عبدہٗ ہم جاں فزا ہم جاں ستاں
عبدہٗ ہم شیشہ ہم سنگ گراں

ترجمہ:عبدہٗ جان فزا بھی ہے اور جانِ ستاں بھی۔ شیشہ بھی ہے اور سنگ گرا ںبھی۔
 اس شعر میں قرآنِ پاک کی اس آیت مبارک کی طرف اشارہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بشیر(خوشخبری سنانے والا) اور نذیر (ڈرانے والا )بنا کر بھیجا۔

عبد دیگر عبدہٗ چیزے دگر
ما سراپا انتظار او منتظر

ترجمہ:عبد عام انسان ہے اور عبدہٗ اورہے۔ عبد اور عبدہٗ میں فرق یہ ہے کہ عبد خدا کی توجہ کا منتظر رہتا ہے جبکہ عبدہٗ کی شان یہ ہے کہ خود خدا یہ دیکھتا رہتا ہے کہ میرا عبدہٗ کیا چاہتا ہے۔

عبدہٗ با ابتدائے بے انتہا است
عبدہٗ رات صبح شام ما کجا است

ترجمہ: عبدہٗ کی ابتدا تو ہے لیکن اس کی انتہا نہیں ہے۔ عبدہٗ کی صبحیں و شامیں (زمانہ) ہماری طرح نہیں ہیں۔گویا حضور اکرمؐ کی ابتدا (تعین اوّل) تو ہے کہ آپؐ کے نور کا سب سے پہلے ظہور ہوا اور آپؐ چونکہ نورِ خدا کا ظہور ہیں اس لیے آپؐ نور ِحق کی طرح لا انتہا ہیں۔

مدعا پیدا نگردد زیں دو بیت
تا  نہ   بینی   از  مقام  مَا   رَمَیْتَ

ترجمہ: جب تک تو عبدہٗ کو مقامِ مَا   رَمَیْتَ سے نہ سمجھے گا تب تک حقیقتِ حال تجھ پر منکشف نہ ہوگی۔ جنگِ بدر میں آپؐ نے کفار کی طرف کنکریاں پھینکیں جس سے کفار کی فوج بھاگ کھڑی ہوئی۔ قرآنِ کریم میں اس واقعہ کو یوں بیان کیا گیا ہے:
وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی  (سورۃ الانفال۔ 17)
ترجمہ: (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!) یہ کنکریاں آپ نے نہیں بلکہ اللہ نے پھینکی ہیں۔

حقیقتِ محمدیہ حقیقتِ عبدہٗ ہے۔ عبدہٗ عبودیت اور ربوبیت کا اظہار ہے۔ علامہ ابنِ عربی انسانِ کامل کی اِسی شان عبدہٗ کے متعلق فرماتے ہیں:
انسانِ کامل کی حقیقت ربوبیت و عبودیت کی جامع ہے۔ ذات ایک ہے اس کی شانیں دو ہیں، ایک شان کا نام عبودیت ہے اور دوسری شان کا نام ربوبیت ہے۔ (فصوص الحکم و الایقان)

مقامِ عبدہٗ کے بارے میں’’مرآۃ العارفین ‘‘میں درج ہے:
جہاں عبد ربّ کی صفات سے متصف اور ربّ عبد کی صفات سے متصف ہے۔ عبد کے روپ میں ربّ ظاہر ہے اور ربّ کا روپ عبد سے اختیار کیا گیا ہے۔ اس مقام پر نہ عبد،عبد رہا ہے اور نہ ربّ، ربّ۔ بلکہ یہ مقامِ عبدہٗ ہے۔ (مرآۃ العارفین)

عبودیت سے مرادہے اعمالِ خیر محض اللہ کے لیے بجا لائے جائیں۔ ان میں جزا حاصل کرنے کی کوئی خواہش نہ ہو بلکہ عمل خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہو اور ربو بیت خاص راز ِربّ ہے جو فقرائے عارف باللہ کا نصیبہ ہے ۔یہ وہی مقام ہے جس کے متعلق قرآنِ کریم میں بیان ہوا ہے:
وَ مَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوٰی ط اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی  (سورۃ النجم۔ 4-3)
ترجمہ: (آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اپنی مرضی سے کلام نہیں کرتے بلکہ وہ وہی کہتے ہیں جو ان پر وحی کی جاتی ہے۔ 

قارئینِ کرام !حاصلِ بحث یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بشر کے روپ میں نور ہیں۔ آپؐ کا جسمِ اطہر تجلیاتِ نورانی کا مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے محبوب کو قرآنِ مجید میں کبھی سراجِ منیر کبھی النجم کبھی الشمس اور کبھی القمر کے نام سے یاد فرمایا ہے۔ یہ تمام تشبیہات آپؐ کی نورانیت کو ظاہر فرما رہی ہیں۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنی تصنیفِ لطیف ’’حقیقت ِمحمدیہ ‘‘میں لکھتے ہیں:
سرکارِ دو جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس عالمِ رنگ و بو میں انسانِ کامل کا لباس پہن کر تشریف لائے۔آپؐ صورت میں بشر ہیں اور حقیقت میں نور۔ بے عیب و پاک صاف، شفاف بشریت بھی بے مثل ہے اور اتنی لطیف ہے کہ آپؐ کا سایہ تک نہیں ہے۔ (حقیقتِ محمدیہ)

آپؐ کے چہرۂ انور سے نور دیکھا جاتا تھا۔ حضور نبی اکرمؐ کا جسمِ اطہر بھی نور، اولاد بھی نور ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کا لقب ’’ذوالنورین (دو نور والے)‘‘ اس لیے ہے کہ آپؓ کے نکاح میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دو صاحبزادیاں سیّدہ رقیہؓ اوراُمّ کلثومؓ یکے بعد دیگرے آئیں۔ بقول شاعر:

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا

حضرت جابر بن سمرہؓ کا بیان ہے ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ایک مرتبہ چاندنی رات میں دیکھا۔ میں ایک مرتبہ چاند کی طرف دیکھتا اور ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرۂ انور دیکھتا تو مجھے آپؐ کا چہرہ چاند سے بھی زیادہ خوبصورت نظر آتا۔‘‘ (سیرت ِمصطفیؐ۔568)

جس سے تاریک دل جگمگانے لگے
اس چمک والی رنگت پہ لاکھوں سلام

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیںحقیقتِ محمدیہ کی معرفت عطا فرمائے اور ماہِ ربیع الاوّل کی برکتوںکے صدقے ہمارے گناہوں کو بخش کر اپنے مقربین میں شامل کر لے۔ آمین

شعورِ آدمیت ناز کر اس ذات پر
تیری عظمت کا باعث ہے محمدؐ کا بشر ہونا

استفادہ کتب:
۱۔ مرآۃ العارفین:  تصنیفِ لطیف سیدّ الشہدا حضرت امام حسینؓ
۲۔ فصوص الحکم :  تصنیفِ لطیف شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربیؒ
۳۔حقیقتِ محمدیہ: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۴۔ شمس الفقرا:  ایضاً
۵۔حقیقت نورِ محمدی : تصنیف شیخ الاسلام علامہ مفتی سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی
۶۔شانِ مصطفیؐ بزبانِ مصطفیؐ: تالیف الحافظ القاری مولانا غلام حسن قادری

 

7 تبصرے “حضور نبی اکرمؐ کی بشریت اور نورانیت Huzoor Nabi Akram s.a.w.w ki Bashariyyat aur Nooraaniyyat

  1. مثالِ مصطفیؐ کوئی پیغمبر ہو نہیں سکتا
    ستارہ لاکھ چمکے مہر انور ہو نہیں سکتا

  2. مثالِ مصطفیؐ کوئی پیغمبر ہو نہیں سکتا
    ستارہ لاکھ چمکے مہر انور ہو نہیں سکتا
    حقیقت محمدؐ دی پا کوئی نئیں سکدا
    بشر عرش توں پار جا کوئی نئیں سکدا

  3. Ya Allah Punjtan Pak k wastay hum pe apna Karam farma 🤲 humaray gunah maaf farma 🤲🙏

اپنا تبصرہ بھیجیں