فضائلِ رمضان | Fazail e Ramzan


Rate this post

فضائلِ رمضان

تحریر:وقار احمد سروری قادری۔ لاہور

حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے : ’’رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ شعبان میرا اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔‘‘
رمضان اسلامی سال کا نواں (9) مہینہ ہے۔ لفظ رمضان ’رمض‘ سے مشتق ہے اور عربی زبان میں رمض کے معنی ’’جلانا‘‘ کے ہیں۔ یہ مہینہ مسلمانوں کے گناہوں کو جلا دینے والا مہینہ ہے اس لیے اس کا نام ’رمضان المبارک‘ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسی نسبت سے اس ماہِ مبارکہ کو اپنی امت کا مہینہ قرار دیا ہے کیونکہ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ اُمت ِ محمدی پر اپنی کروڑہا برکتیں اور رحمتیں نازل فرماتا ہے، بے شمار افراد کو بخشش کا پروانہ جاری کرتا ہے اور عبادات کا اجر و ثواب کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے نور و رحمت کی بارش ہو رہی ہے۔ جونہی رمضان المبارک کے چاند کا اعلان ہوتا ہے تمام اُمت ِ مسلمہ میں خوشی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں اور ربّ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اُس پاک ذات نے ہمیں ایمان کی حالت میں ایک مرتبہ پھر یہ عظمتوں والا مہینہ عطا کیا۔ چاروں طرف ایک ایسا روحانی ماحول پیدا ہو جاتا ہے کہ جس شخص نے سارا سال اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور دُوری میں گزارا ہو وہ بھی اپنے گناہوں اور ندامتوں کی گٹھڑی اُٹھائے اپنے ربّ کی بارگاہ میں طالب ِ رحمت و مغفرت ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس ماہِ مقدس کی نسبت سے اسے مایوس اور خالی ہاتھ نہیں لوٹایا جائے گا۔ غرض یہ کہ اس مہینے میں اسلامی معاشرہ نظم و ضبط، اخوت، مساوات، ہمدردی، سخاوت، رحمدلی، غم خواری اور صبرو شکرکا مظہر بن جاتا ہے۔
قارئین کرام ! ایسی بے شمار کتب موجود ہیں جن میں رمضان المبارک کے اجروثواب، سحر و افطار، نمازِ تراویح، شب ِقدر اور اعتکاف کے فضائل کے متعلق بہت مفید معلومات رقم کی گئی ہیں جو ہم بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے، سنتے اور بہت حد تک ان پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ جوں ہی یہ مقدس مہینہ رخصت ہوتا ہے ہم پھر پرانی ڈگر پر لوٹ آتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ مسلمان اس ایک مہینے میں ایک خاص ترتیب سے گزر کر باقی تمام سال کے لیے بھی روحانی و باطنی طور پر مضبوط ہو جائیں اور اپنے خالق ِ حقیقی کے قرب کا سلسلہ جو اس مہینے کے توسل سے شروع ہوا وہ آہستہ آہستہ مزید پروان چڑھتا جائے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج ہم نے اپنی تمام تر توجہ صرف ظاہری اجر و ثواب پر مرکوز کر دی ہے اور باطن سے یکسر بے خبر ہو گئے ہیں۔ اس ماہ میں نیکیاں اکٹھی کرنے کی دوڑ میں لگ کر یہ سوچتے ہی نہیں کہ یہ گنتی کے دن تو محض ایک تربیتی پروگرام ہے جس کو مستقل بنیادوں پر اپنی زندگیوں میں لاگوکرنے کے لیے ہمیں اس فلسفے کو سمجھنا ضروری ہے جس کے تحت اللہ ربّ العزت نے رمضان المبارک کو اتنی عظمت عطا کی۔

قرآن وحدیث میں ماہِ رمضان المبارک کی اہمیت

اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشادفرماتا ہے:
 ’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اللہ تعالیٰ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لیے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت عطا فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔ ‘‘ (سورۃ البقرہ ۔ 185)
مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کی عظمت قرآنِ مجید کا نزول اور روزہ کو قرار دیا ہے۔روایات کے مطابق تمام صحائف اور آسمانی کتب رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ہی نازل ہوئیں لہٰذا اس ماہِ مقدس کو کلامِ الٰہی سے خاص نسبت ہے مگریہاں اللہ پاک نے صرف قرآنِ مجید کا ذکر کرتے ہوئے رمضان کی وجہ ٔ فضیلت بیان کی۔ اسکی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ قرآن وہ واحد آسمانی کتاب ہے جو اپنے نزول کے چودہ سو سال بعد بھی من و عن اُسی حالت میں موجود ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی تھی کیونکہ اللہ پاک نے خود اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے:
’’بے شک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ (سورۃالحجر۔9)
رمضان المبارک کی فضیلت کی دوسری وجہ جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی وہ ہے روزہ۔روزہ دین ِ اسلام کا تیسرا بنیادی رکن ہے اور اسکی اہمیت کا اندازہ مذکورہ بالا آیت سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’تم میں سے جوکوئی ‘ اس مہینے کو پا لے تو اس کے روزے رکھے یعنی یہ حکم کسی خاص عمر، جنس یا طبقے کے لیے نہیں بلکہ تمام مسلمان مرد، عورتوں، جوان اور بوڑھوں غرض ہر کسی پر یکساں لاگو ہوتا ہے البتہ یہ اُس غفور الرحیم ذات کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہماری بشری کمزوریوں کے پیش ِ نظر رعایت دی یعنی بیماری اور سفر کی حالت میں روزہ نہ رکھنے کی چھوٹ دی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ اس چھوٹ کا مطلب قطعی طور پر یہ نہیں کہ روزہ معاف ہو گیا۔ نہیں نہیں! اللہ پاک فرماتا ہے کہ جو روزے قضا ہو گئے انکی گنتی غیر ِرمضان میں پوری کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ہماری ہی آسانی چاہتا ہے تاکہ ہم اس پاک پروردگار کی بڑائی بیان کریں اور اس کا شکر ادا کریں۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے کہ:
’’جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو بہشت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ شیاطین قید کردئیے جاتے ہیں اور ایک منادی کرنے والا پکارتا ہے اے طالب ِ خیر! جلد تیرا وقت ہے اور اے طالب ِ شر! ٹھہر جا کہ تیری جگہ نہیں۔‘‘
ایک طویل حدیث ِ مبارکہ میں رمضان‘قرآن اور روزے کی اہمیت کچھ یوں بیان کی گئی ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے شعبان کے آخری روز ہم کو خطبہ ارشاد فرمایا:
’’اے لوگو! ایک بہت بڑے مہینہ نے تم پر سایہ کیا ہے، اللہ نے اس کے روزوں کو فرض اور رات کے قیام کو نفل قرار دیا ہے۔ اس ماہ میں جو شخص کسی نیکی کے ساتھ اللہ کی طرف ’’قرب‘‘ چاہے اس کو اس قدر ثواب ملتا ہے کہ گویا اس نے فرض ادا کیا ۔ جس نے رمضان میں فرض ادا کیا اس کا ثواب اس قدر ہے گویا اس نے رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ستر فرض ادا کیے۔ وہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے‘ وہ مساوات‘ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ وہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے اور جو ایک روزہ دار کو روزہ افطار کرائے اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور اس کی گردن آگ سے آزاد کر دی جاتی ہے اور اس سے روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آتی۔‘‘
ہم نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! ہم میں سے ہر شخص روزہ افطار نہیں کرواسکتا۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی یہ ثواب عطا فرماتا ہے جو ایک گھونٹ دودھ‘ ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے کسی کا روزہ افطار کرواتا ہے۔ جو روزہ دار کو سیر ہو کر کھانا کھلائے اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض سے پانی پلائے گا‘ وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا۔ یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اوّل حصہ رحمت‘ درمیانہ حصہ بخشش اور آخری حصہ آگ سے آزادی ہے‘جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام (نوکر) کا بوجھ ہلکا کردے اللہ اس کو بخش دیتا ہے اور آگ سے آزاد کر دیتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)
اوپر بیان کی گئی احادیث اور قرآنی آیات سے رمضان المبارک اوراس کے روزے کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرنا چاہتا بلکہ ہر حال میں ہماری ہی بھلائی اس کا مقصود ہے۔ یہ تو ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم نے دین کو ظاہر پرستی کے شکنجے میں اس بری طرح جکڑ دیا ہے کہ ایک عام انسان یہ گمان کر بیٹھا ہے کہ دین علما کرام اور فارغ لوگوں کے لیے بنا ہے خاص کر ماڈرن تعلیم یافتہ طبقہ اس ظاہر پرستی سے تنگ آکر ایمان سے خالی زندگی گزارنا قدرے زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ کیا ہم نے اس بارے میں سوچنے کی زحمت کی کہ آخر اس ماہِ مقدس سے منسلک دو چیزوں یعنی قرآن اور روزہ میں کیا تعلق ہے ؟ کیا ہم نے کبھی غورکیا کہ آخر اس عبادت یعنی روزہ میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ اللہ تعالیٰ حکم فرما رہا ہے کہ روزہ ضرور رکھو، قضا تو کر سکتے ہو لیکن چھوڑ نہیں سکتے اور پھر قضا ادا کرنا بھی ضروری ہے چاہے روزہ رکھ کر یا پھر مسکین کو کھانا کھلا کر۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ روزے کی روح کیا ہے یعنی اس عبادت کو فرض کرنے کے پیچھے اللہ ربّ العزت کا کیا مقصد ہے؟ آئیے قرآن سے ہی ان سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:
’’اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جائو۔ ‘‘ ( البقرہ۔183)
اس آیت ِ مبارکہ میں روزے کی فرضیت کا مقصدمسلمانوں کو متقی یعنی تقویٰ والا بنانا ہے۔ ساتھ ہی اللہ پاک نے اس عبادت کی اہمیت بیان کرنے کے لیے یہ بھی فرما دیا کہ روزہ پچھلی اُمتوں پر بھی فرض تھا۔
لہٰذا اگر اس بات کو کچھ اس طرح کہا جائے کہ سابقہ اُمتوں کی طرح مسلمانوں پر بھی تقویٰ کا حصول فرض کیا گیا ہے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ روزے کا مقصد ہی ہمیں متقی بنانا ہے۔ قرآنِ مجید میں 236 سے زائد آیات میں مختلف انداز سے تقویٰ کا ذکر کیا گیا ہے۔یہاں کچھ مزید سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ تقویٰ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کیوں تقویٰ کے حصول پر اتنا زور دے رہا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی بالکل ابتدا میں ہی اس بات کا جواب رکھا ہے:
٭ ’’یہ(قرآن) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) کتاب تقویٰ والوں کو راہ دکھاتی ہے۔ ‘‘ (البقرہ۔ 2)
یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب سے ہدایت حاصل کرنے کو تقویٰ کے ساتھ مشروط کر دیا ہے یعنی اگر ایک شخص چاہتا ہے کہ اللہ کے پاک کلام کی روح تک پہنچے، اپنی زندگی کو اس کلام کے انوار و تجلیات سے روشن کرے تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ پہلے وہ تقویٰ اختیار کرے لیکن یہ تقویٰ کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے اورہمیں کس طرح پتہ چل سکے گا کہ کوئی شخص کس حد تک متقی ہے؟
ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تقویٰ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انگلی سے دل کی طرف اشارہ کرکے فرمایا تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔تقویٰ اصل میں قلب(باطن) کے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کا نام ہے۔ جس قدر کسی کا قلب اللہ تعالیٰ کے قریب ہوگا وہ اسی قدر متقی ہو گا۔قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’بے شک تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ مکرم (اور عزت والا) وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘ (سورۃ الحجرات۔13)
’’بے شک سب سے بہتر زادِ راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو ! میرا تقویٰ اختیار کرو۔‘‘ (سورۃ البقرہ۔ 197)
یعنی تقویٰ قربِ الٰہی کا نام ہے۔ یہ ایک باطنی کیفیت ہے جس کو کسی پیمانے سے تولا یا ناپا نہیں جا سکتا یعنی یہ سراسر اللہ اور اس کے بندے کے درمیان کامعاملہ ہے۔رہی بات یہ کہ تقویٰ کیسے حاصل کیا جائے تو اس جواب کے لیے پیچھے بیان کی گئی آیاتِ کریمہ کو ایک مرتبہ پھر اپنے ذہن میں لائیں کہ اللہ تعالیٰ نے روزے کو تقویٰ حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔روزے کی بدولت جوں جوں تقویٰ حاصل ہو گا قرآن سے ہدایت نصیب ہوگی اور اللہ کے بتائے ہوئے احکامات پر چل کر انسان آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا چلا جائے گا۔ پس روزہ انسان کو قربِ الٰہی میں لے جاتا ہے۔

روزہ سے تقویٰ کیسے حاصل ہوتا ہے؟

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھورحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
یاد رکھ کہ ابلیس لعنتی کو مرتبہ ٔ رحمت سے معزول کر کے مرتبہ ٔ لعنت ’’اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ‘‘ پر بھیجا گیا اور مقامِ علیین سے نکال کر سجین پر پھینک دیا گیا تو ابلیس، نفس اور دنیا تینوں نے اس بات پر اتفاق کر لیا اور ایک دوسرے سے معاہدہ کیا کہ اولادِ آدم کو ذِلّت اور ہلاکت کی طرف لے جائیں گے۔ابلیس نے کہا ’’میں اولادِ آدم کو اللہ کی اطاعت سے ہٹا کر معصیت کی طرف راغب کروں گا اور عبادت سے روگردانی کروا کر گناہ کی طرف مائل کروںگا۔‘‘
دنیا نے کہا ’’میں خود کو ان کی نظروں میں آراستہ کر کے انہیں اپنی طرف مائل کروں گی اور انہیں حرص اور بلا میں مبتلا کر کے ہلاک کر دوں گی اور اس طرح انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے سے روک دوں گی۔‘‘ 

نفس نے کہا ’’میں انہیں ہوا اور شہوت میں مبتلا کر کے دیوانہ بنا دوں گا اور انہیں نظر بازی میں مبتلا کر کے خراب اور گمراہ کردوں گا۔‘‘
طالب ِمولیٰ کو چاہیے کہ ان تینوں کو ان کے افعال سے پہچانے اور ان کے ناشائستہ کاموں کو چھوڑ دے۔ (عین الفقر)
مذکورہ بالا عبارت کسی وضاحت کی محتاج نہیں کہ شیطان مردود، نفس اور دنیا کس طرح انسان کو گمراہ کرکے اپنے ربّ کی بارگاہ میں رسوا کرنا چاہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب رمضا ن کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘ (بخاری شریف)
رمضان المبارک میں شیاطین تو قید کر دئیے جاتے ہیں لیکن نفس اور دنیا بہرحال اپنے تمام تر ہتھکنڈوں اور چالوں کے ساتھ قدرے زیادہ متحرک ہوجاتے ہیں۔ اللہ پاک نے شیطان کو قید کر کے ہمارے لیے آدھی مشکل آسان کر دی مگر باقی کا امتحان یعنی نفس اور دنیا سے بندہ مومن نے خود لڑنا ہے۔اللہ ربّ العزت کا کروڑ ہا شکر ہے کہ اس نے نفس کی تمام شہوات کی جڑ یعنی شہوتِ معدہ پر قابو پانے کے لیے روزے کی شکل میں ایک ایسا بہترین لائحہ عمل عطا کر دیا جس کے ذریعے مسلمان ایک مخصوص دورانیہ تک خود کو حلال اشیا سے بھی باز رکھتا ہے (کیونکہ روزہ یعنی ’صوم‘ کے معنی ہی ’’رکنے‘‘ اور ’’باز رہنے‘‘ کے ہیں) جس سے نفس آہستہ آہستہ کمزور ہو جاتا ہے اورروح کو تقویت نصیب ہوتی ہے ۔ نتیجتاً انسان بتدریج اللہ کے قرب کی منازل طے کرنا شروع کر دیتا ہے اور یہ کوشش تقویٰ کے حصول کی طرف پہلا قدم ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ صرف کھانے پینے کی خواہش سے انسان کیسے نفس کا اسیربن جاتا ہے۔ 

؎ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

درحقیقت اولادِ آدم کا سب سے مہلک مرض لذّتِ دہن یعنی کھانے پینے کی لذّت ہے۔ یہی مرض آدمؑ کو جنت سے نکلوانے کا باعث بنا اور اسی مرض کی بنا پر من و سلویٰ جیسی نعمت کا انکاری ہوا کہ ہم ایک ہی طرح کے کھانے کھا کر تنگ آگئے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے: ’’آدمی کا دشمن اس کا اپنا پیٹ ہے۔‘‘
حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’معدہ بدن کے لیے ایک حوض کی حیثیت رکھتا ہے‘ جس سے رگیں نکل کر سات اطراف کو جاتی ہیں‘ وہ سات نہروں کی مانند ہیں اور تمام خواہشات کا منبع بھی معدہ ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اگر جنت سے نکالا گیا تو اسی شہوت کی وجہ سے۔ اور پیٹ کی شہوت دوسری تمام شہوات اورخواہشات کی جڑ ہے۔ جب پیٹ کی شہوت ختم ہو جاتی ہے یعنی پیٹ بھر جاتا ہے تو عورت کی شہوت پیدا ہوتی ہے اور آدمی کی کوشش ہوتی ہے کہ بہت سی عورتیں ہوں جن سے صحبت کروں۔ معاملہ یہیں پر نہیں رُکتا کیونکہ آدمی کھانے اور جماع کی خواہش اس وقت تک پوری نہیں کر سکتا جب تک مال نہ ہو‘ تو اسی سبب سے مال کی حرص پیدا ہوتی ہے اور مال سوائے جاہ وحشمت (عزہ و جاہ) اور کاروبار کے حاصل نہیں ہوتا اور اس کے لیے لوگوں سے میل جول رکھنا پڑتا ہے تو یہیں سے غصہ‘ حسد ‘تکبر‘ریا ‘ بغض‘ کینہ وغیرہ پیدا ہوتے ہیں ۔ معدہ کا انسان پر حاوی ہونا تمام گناہو ں کی اصل ہے اور معدہ کوزیر کرناتمام نیکیوں کی اصل ہے۔ (احیاء العلوم جلد سوم)
حضرت سخی سلطان باھوؒ ’’امیرالکونین‘‘ میں فرماتے ہیں:

چوں معدہ بود خالی از طعام
درآن وقت معراج باشد تمام

ترجمہ: جس وقت پیٹ طعام سے خالی ہوتا ہے اس وقت (طالب کو) مکمل معراج نصیب ہوتی ہے۔
یہی حال ہمارا ہے کہ ہم نفس ،دنیا اور شیطان کے بچھائے جال کو سمجھ ہی نہیں پاتے اور پیٹ کا کنواں بھرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز کام کر گزرتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے معدہ کی خواہشات پر قابو پانے کی مشق سے قرب کی منازل کاآغاز کیا لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ روزہ صرف اور صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام ہے بلکہ ہر قسم کی برائی سے اپنے آپ کو بچانے کا نام روزہ ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اگر کوئی شخص(روزہ رکھ کر بھی) جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ ‘‘

رمضان المبارک کے دائمی اثرات

قارئین ِکرام ! شہوتِ معدہ ،شہوتِ جماع ،شہوتِ مال و زر،حرص، لالچ، بغض، کینہ، عداوت، غرور و تکبر، جھوٹ، غصہ، غیبت، خود پسندی نفس کی بہت سی چالوں میں سے چند ایک ہیں ۔ایک شہوتِ معدہ پرہی قابو پانا کس قدر مشکل ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ نے پہلے شیطان کو قید کیا پھرایک ایسا روحانی و باطنی ماحول ترتیب دیا جس کے تحت نفس اور دنیا کو مات دینا نسبتاً آسان ہو جائے۔ نفس کی ایک چال یعنی شہوتِ معدہ کو بے نقاب کر کے اللہ تعالیٰ نے ہم پر بہت بڑا فضل کیا ہے اور یہ ترغیب دی ہے کہ ہم اس آستین کے سانپ کو پہچانیں اور اس کا قلع قمع کر دیں۔حدیث شریف میں بیان کیا گیا ہے:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچا نا اس نے یقینا اپنے ربّ کو پہچانا۔
اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتا ہے:
اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ مبِالسُّوْٓئِ  (سورۃ یوسف۔53)
ترجمہ: بیشک نفس ِامارہ بُرائی کا امر کرتا ہے۔
لیکن جونہی شوال کا چاند طلوع ہوتا ہے شیطان پھر سے آزاد ہو جاتا ہے، روحانیت کی جو فضا اللہ پاک نے قائم کی تھی وہ بھی رمضان کے ساتھ ہی رخصت ہو جاتی ہے۔ نفس، دنیا ، شیطان تینوں مل کر انسان پر پہلے سے بھی زیادہ شدید حملے کرتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ ایک بندہ مومن نے رمضان المبارک میں اللہ کے قرب کی طرف جو پیش رفت کی ہے اسے اس کے مقام سے گرادیا جائے اور اگلا رمضان آنے سے پہلے اسے اللہ تعالیٰ سے اس قدر دورکر دیا جائے کہ اس پر دوزخ کی آگ لازم ہو جائے۔ لہٰذارمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو اس طرح سے سمجھاجا سکتا ہے کہ یہ ماہِ مقدس نفس کو زیر کرنے کے لیے ایک عارضی اور ابتدائی طبی امداد ہے ۔ کیا بہتر ہو کہ رمضان میں ہونے والی اللہ پاک کے فضل و کرم کی یہ بارش ہمیشہ کے لیے ہم پر یونہی برستی رہے اور ہم اپنے ربّ کے قرب کی منازل طے کرتے چلے جائیں۔رمضان المبارک سے دائمی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں بشرطیکہ نفس کی تمام تر بیماریوں کی تشخیص ہوجائے اور نفس کا مستقل علاج کیا جائے یعنی تزکیۂ نفس کیا جائے۔امراضِ نفس کی تشخیص کے لیے ایک ایسے معالج ایک ایسے مرشد کی ضرورت ہے جو نہ صرف اس ظالم چور کی مکاری اور چالوں سے واقف ہو بلکہ ہمارے نفس کا تزکیہ عین اُسی طرز پر کرے جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین کا تزکیۂ نفس فرماتے تھے لیکن اگر کوئی شخص یہ گمان کرے کہ وہ عبادت و ریاضت سے اپنے نفس کو زیر کر سکتا ہے اور اسے کسی راہبر،کسی مرشد کی ضرورت نہیں تو وہ سراسر غلطی پر ہے۔ حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

باجھ فقیراں کسے نہ ماریا باھُوؒ، ایہہ ظالم چور اندر دا ھُو

آپ رحمتہ اللہ علیہ مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
٭ پس مرشد کسے کہتے ہیں؟ جو دل کو زندہ کر دے اور نفس کو مار دے اور جب طالب پر جذب و غضب کی نگاہ ڈالے تو اس کے دل کو زندہ کر دے اور نفس کو مار دے ۔ مرشد اسے کہتے ہیں جو فقر میں اس درجہ کامل ہو کہ اس نے خود پر غیر ماسویٰ اللہ کو حرام کر رکھا ہو اور ازل سے ابد تک احرام باندھے ہوئے حاجی بے حجاب ہو۔ ایسا مرشد طبیب کی مثل ہوتا ہے اور طالب مریض کی مثل۔ طبیب جب کسی مریض کا علاج کرتا ہے تو اسے تلخ و شیریں دوائیں دیتا ہے اور مریض پر لازم ہوتا ہے کہ وہ یہ دوائیں کھائے تاکہ صحت یاب ہو سکے۔ (عین الفقر)
لہٰذا ایک مرشد کامل اکمل ہی وہ معالج ہے جو باطنی بیماریوں کا علاج اور نفس کا تزکیہ کر کے نفس کو نفس ِامّارہ سے نفس ِ مطمئنہ کے درجہ پر پہنچا سکتا ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کے سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام ہیں جو دنیا بھر میں بے شمار لوگوں کا تزکیۂ نفس کر کے انہیں نفس ، دنیا اور شیطان کی غلامی سے آزاد کرا کر معرفت ِ الٰہی سے مشرف کر چکے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے تحریک دعوتِ فقر کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کے توسل سے تزکیۂ نفس کا فیض بلا امتیا ز و بلا تفریق ساری دنیا میں جاری و ساری ہے۔ کتنے ہی غیر مسلم افراد نے آپ مدظلہ الاقدس کے دست ِ اقدس پر اسلام قبول کیا ہے۔اگر ہم رمضان المبارک کے فیوض و برکات سے دائمی استفادہ چاہتے ہیں توآئیں اس بات کا ارادہ کر یں کہ ہم نے اپنے ازلی دشمن شیطان اور اس کے ساتھی نفس اور دنیا کو ہر حال میں مات دینی ہے اور اپنے نفس کا تزکیہ کرواکر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخرو ہونا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرمایا:
فلاح پاگیا وہ جس (کے نفس) کا تزکیہ ہو گیا۔(سورۃ اعلیٰ ۔ 14)
وہ فلاح پاگیا جس نے (اپنے نفس کا) تزکیہ کر لیا۔(سورۃ الشمس ۔ 9)
جب اللہ تعالیٰ تزکیۂ نفس ہوجانے پر فلاح کی ضمانت دے رہا ہے تو اس کے بعد کوئی شک وشبہ یا حیل و حجت باقی نہیں رہ جاتی۔آئیے تحریک دعوتِ فقر میں شامل ہو کر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کے اس فیض سے مستفید ہوں اور دین و دنیا کی کامیابیاں اپنے نام کر لیں۔
استفادہ کتب:
عین الفقر :تصنیف ِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
امیر الکونین : ایضاً
حقیقت ِ روزہ : تصنیف ِ لطیف حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
نفس کے ناسور : ایضاً


اپنا تبصرہ بھیجیں