پرندوں کی ہجرت- Parindon ki Hijrat
حصہ اوّل تحریر: محترمہ امامہ سروری قادری
دنیا کی ابتدا سے ہی انسان ایک ایسی تلاش میں رہا ہے جہاں سکون ہو، سچ ہو، حق ہو۔ یہ تلاش دراصل روح کی ہے جو نور کی دنیا سے آ کر مٹی کے جسم میں قید کی گئی اور ازل سے اپنی اصل کی جانب واپس پلٹنے کو بیقرار رہتی ہے۔ مگر دنیا کی زنجیروں میں اُلجھ کر اپنا راستہ بھول جاتی ہے کیونکہ انسان کی ذات میں خیر اور شر کی ایک مستقل کشمکش جاری رہتی ہے۔ ایک طرف روح کا نور ہے جو اللہ کی طرف کھینچتا ہے اور دوسری طرف نفس کی تاریکی ہے جو دنیا کی لذتوں، غرور اور ہوس کی طرف مائل کرتی ہے۔
حضرت شیخ فریدالدین عطّارؒ کی شہرۂ آفاق فارسی تصنیف ’’منطق الطیر‘‘ (پرندوں کی ہجرت) اسی روحانی تلاش کا آئینہ ہے جس میں مختلف پرندوں کو انسان کی مختلف اخلاقی، نفسیاتی اور روحانی کیفیات کا مظہر بنایا گیا ہے۔ ہر پرندہ اپنی اپنی فطرت میں انسان کے اندر موجود جذبات اور نفس کی مختلف اشکال کی ترجمانی کرتا ہے۔
اس کتاب میں مختلف پرندے یہ طے کرتے ہیں کہ وہ اپنے سے برتر پرندے (سیمرغ) کو اپنا بادشاہ بنائیں گے اور پھر تمام پرندے ہدہد کی راہنمائی میں اس کی تلاش میں نکل جاتے ہیں اور ہر کوئی اپنی اپنی ہمت، لگن اور کوشش سے اس سفر سے گزرتا ہے لیکن کچھ پرندے ابتدا میں ہی دشوار راستوں کا سن کر اپنی اپنی مجبوریوں کا عذر پیش کرنے لگتے ہیں اور راہِ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہد ہد جسے تمام پرندوں نے اپنا مرشد بنایا ہوا تھا، اتنے مضبوط اور پرُ اثر دلائل سے ان کے عذر رَد کر دیتا ہے کہ ان کو اپنے اپنے عذر بہت بے معنی اور کمزور لگنے لگ جاتے ہیں۔
پرندوں کا راہنما ہدہد تمام پرندوں کو راہِ سیمرغ (اللہ کی معرفت) کے بارے میں خوب واضح کرتا ہے کہ بظاہر تو سیمرغ بہت دور ہے کہ آج تک کسی کی اس تک رسائی نہیں ہوئی اور اس تک جانے کے لیے بہت سے دشوار راستوں کا گزر ہے، بڑے بڑے بہادر بھی اس راستے پر یا تو واپس پلٹتے ہیں یا مر جاتے ہیں لیکن ساتھ میں یہ ترغیب بھی دیتا ہے کہ سیمرغ کی تلاش کے بغیر زندگی غیر مکمل اور ادھوری رہتی ہے اور سیمرغ کی ذات ہی تمام پرندوں کی تخلیق کا باعث ہے۔ تمام پرندے سیمرغ کے دیدار کے اشتیاق میں بے چین نظر آنے لگے لیکن جب ہدہد نے راستے کی دشواریوں کا ذکر کیا تو سب کے جوش ٹھنڈے پڑ گئے اور کچھ پرندوں نے کوئی نہ کوئی بہانہ پیش کر کے سیمرغ کی تلاش ختم کر دی۔
اسی طرح راہِ حق کی تلاش کے لیے ہم میں سے ہر کوئی تیار تو ہو جاتا ہے لیکن راہ میں ذرا سی مصیبت در پیش آتی ہے تو سارے دعوے ریت کے ٹیلے نظر آتے ہیں۔ اگر انسان کا عشق، لگن اور جدوجہد سچی ہو تو مرشد کی راہنمائی ہمہ وقت ساتھ ہوتی ہے جو طالب ِحق کو دشوار گزار راستوں سے نکال کر اللہ کا بندہ بنا دیتی ہے۔ انسان کے لیے اللہ کے دیدار اور اس کی طلب کے علاوہ ہر چیز بیکا ر ہے۔ انسان جگہ جگہ سکون تلاش کرتا ہے لیکن حقیقی سکون جس میں ہے اس کی تلاش میں نہیں نکلتا اور اگر نکل بھی جائے تو دنیاداری کی ذمہ داریوں کا عذر پیش کر کے اس راہ سے کنارہ کر لیتا ہے۔
انسانوں کے اندر بھی پرندوں کی فطرت کا کوئی نہ کوئی عنصر موجود ہے جو اُن کو راہ ِحق پر چلنے سے روکتا ہے۔ لہٰذا جب ہدہد نے سیمرغ کی تلاش اور راستے کا ذکر کیا تو بہت سے پرندوں نے عذر پیش کیا ذیل میں انہی کچھ پرندوں کا ذکر ہے۔
1۔ بلبل:
بلبل ایسا پرندہ ہے جس کی آواز شیریں، مزاج نازک اور دل محو ِ جمال ہے۔ لیکن وہ راہِ حق میں شامل ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہتی ہے:
’’میں گلاب کی محبت میں قید ہوں۔ اُس کی خوشبو، اُس کی لطافت، اُس کے رنگ نے مجھے ایسا دیوانہ بنا دیا ہے کہ میں کسی اور طرف دیکھ ہی نہیں سکتی۔‘‘
بلبل کا دل صرف گلاب کے جلوؤں میں لگتا ہے اور وہ اسی میں وفا تلاش کرتی ہے اور اس کی عاشق ہے۔ لیکن جواب میں ہدہد نے دلیل دی:
اے بلبل! توُ جس گلاب پر فریفتہ ہے، وہ کل مرجھا جائے گا۔ گلاب کی خوشبو عارضی ہے اور تیرا عشق ایک نازک دھاگے سے بندھا ہوا ہے۔ جسے توُ عشق سمجھ بیٹھی ہے وہ حسن کا ایک لمحاتی دھوکہ ہے۔ سیمرغ کا جمال اُس گلاب سے بڑھ کر ہے جو تجھے دکھائی دیتا ہے۔ تو اگر سچ میں عشق کی پیاسی ہے تو عارضی رنگ و خوشبو سے نکل اور اصل جمال کی تلاش کراور ایسی ذات سے عشق کر جو لازوال ہے تاکہ تیرا عشق بھی لازوال رہے۔
اگر ہم سب غور کریں تو ہم انسانوں کو بھی فطری طور پر اپنے والدین، بہن بھائی، اولاد اور دیگر رشتے داروں غرض ہر فانی محبت سے لگاؤ ہے اور اس فانی محبتوں کے لیے ہم ہر طرح کی جدوجہد کرتے ہیں کہ کہیں کوئی ہم سے ناراض نہ ہو جائے، کسی کا ہم سے تعلق نہ ٹوٹ جائے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو ہم اکیلے رہ جائیں گے لیکن ہم انسان بھول جاتے ہیں کہ اصل رشتہ انسان اور اللہ کا ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ اس کے ہوتے ہوئے کوئی بھی تنہا نہیں رہتا۔ اگر ہم میں سے کوئی راہِ حق کی جستجو کرتا ہے اور جب اپنے گھر والوں کی باری آتی ہے تو بلبل کی طرح عذر پیش کر کے اس راہ سے دور ہو جاتے ہیں۔ہم بھول جاتے ہیں کہ باطن ہی وہ راہ ہے جو انسان کو خود شناسی کی راہ پر لے جائے، نہ کہ وہ جو صرف ظاہری حسن میں کھو جائے۔
بلبل کی داستان ہمیں بتاتی ہے کہ عشق اگر صرف دیکھنے، سننے یا محسوس کرنے کا نام ہو تو وہ بے مقصد ہوتا ہے لیکن اگر عشق ایک راہ ہو خود شناسی تک پہنچانے والی، تو یہ روحانی پاکیزگی اور معرفت کا باعث بنتی ہے۔
2۔ طوطا:
طوطا ایک ایسا پرندہ ہے جو بظاہر خوبصورت، ذہین اور گفتگو کا ماہر ہے مگر حقیقت میں وہ روحانی گہرائی سے محروم ہے۔ جب ہُدہُد نے طوطے کو سیمرغ کی تلاش کے سفر کا کہا تو طوطے نے بڑی خود اعتمادی اور فخر سے عذر پیش کیا:
’’میں تو حضرت خضر ؑ کی مانند ہوں، میرا راستہ الگ ہے، مجھے کسی رہنما کی ضرورت نہیں۔‘‘
ہدہد نے طوطے کو جواب دیا ’’اگر توُ خضرؑ ہوتا تو پنجرے میں کیوں ہوتا؟ حضرت خضرؑ کو راہ دکھانے کا حکم ہے، توُ تو خود راہ چھوڑ کر بہانہ بنا رہا ہے۔ خضرؑ کا سفر اللہ کی طرف ہے، تیرا سفر پنجرے میں رکنے کا؟
اگر غور کیا جائے تو طوطا حضرت خضر علیہ السلام جیسا صرف اس لیے بننا چاہتا ہے تاکہ سفرِ حق سے بچ سکے۔ وہ اپنے قید خانے کو علم کا مقام سمجھتا ہے اور اپنی کم فہمی کو بصیرت کا نام دیتا ہے۔
یہ طوطا دراصل اُس انسان کی تمثیل ہے جو چند کتابیں پڑھ کر، چند الفاظ یاد کر کے اورچند جوشیلے جملے بول کر یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اب وہ کسی اور کے مشورے کا محتاج نہیں۔ وہ خود کو عارف، دانشور یا رہبر سمجھنے لگتا ہے حالانکہ اُس کی حقیقت صرف یہ ہے کہ وہ ابھی تک سنہری پنجرے سے نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ قید میں رہ کر آزادی کے دعوے کرتا ہے، جبکہ ظاہری رنگ و روپ، علمی القابات اور خود ساختہ فہم کے خول میں بند ہو چکا ہوتا ہے۔
طوطے کا یہ تکبر اور خود پسندی دراصل ہمارے معاشرے کی ایک بڑی حقیقت کو آئینہ دکھاتا ہے۔ لوگ مذہب، تصوف یا دنیاوی علم کو صرف اس لیے اپناتے ہیں تاکہ دوسروں پر برتری جتائی جا سکے نہ کہ خود کو بہتر بنانے کے لیے۔ وہ دین کو زینت بناتے ہیں، زادِ راہ نہیں۔ وہ اللہ کی راہ کے بجائے اپنی شخصیت کی نمائش کو راہِ نجات سمجھ بیٹھتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ جس طرح طوطا علم کا متلاشی نہیں، علم کا مدعی ہے وہ سفر سے بچنے کے لیے خود کو خضر ؑکا ہم رتبہ ظاہر کرتا ہے اسی طرح انسان جب روحانی سفر سے انکار کرتا ہے تو وہ باطنی قید میں پھنسا رہتا ہے چاہے دنیا میں کیسا بھی مقام رکھتا ہو۔ اصل رہائی، اصل علم، اصل خضر ؑوہ ہے جو انسان کو اپنی حقیقت کے عرفان تک پہنچائے۔
3۔مور:
مور جب ہُدہُد کی طرف سے سیمرغ (اللہ تعالیٰ کی ذات) کی تلاش کے سفر کی دعوت سنتا ہے تو وہ اپنے خوبصورت پروں کو پھیلاتے ہوئے نرمی سے انکار کر دیتا ہے۔
وہ کہتا ہے ’’میں جنت میں رہ چکا ہوں، وہاں کا نظارہ کر چکا ہوں، لیکن اپنی ایک لغزش کی وجہ سے اُس سے نکالا گیا۔ اب میری ساری تمنا یہ ہے کہ کسی طرح پھر اسی جنت میں واپس لوٹ جاؤں۔‘‘
مور اس بات پر قانع ہے کہ اُس کی زندگی کا اصل مقصد وہ کھویا ہوا جاہ و جلال واپس پانا ہے، اُس سے آگے کچھ نہیں۔ وہ دنیاوی رنگ و رونق، اپنی خوبصورتی اور پچھتاوے کے بوجھ میں اس قدر ڈوبا ہوا ہے کہ نئی راہ کی طرف قدم اٹھانے سے گریز کرتا ہے۔
ہدہد مور کو دلیل دیتا ہے ’’تو جنت میں رہا ضرور ہے مگر وہ تیرا اصل مقام نہیں تھا۔ اصل تو سیمرغ ہے جو اس جنت سے بھی بلندتر ہے۔ تُو ماضی کی غلطی پر شرمندہ ہے لیکن اُسے تھامے رکھنا ہی تیری نئی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اِسی طرح انسان اکثر اپنے ماضی میں کھو جاتا ہے۔ جب وہ کسی وقت نیک، پاکیزہ یا روحانیت کے قریب ہوتا ہے اور پھر کسی لغزش، گناہ یا دنیا کی چمک دمک کی وجہ سے اُس مقام سے دور ہو جاتا ہے اور ماضی کی اس روشنی کو ہی اپنی منزل سمجھنے لگتا ہے۔ وہ ساری زندگی صرف یہ سوچتا ہے کہ کاش وہ وقت واپس آ جائے، مگر یہ نہیں سمجھتا کہ اصل مقصد وہ نہیں جو پیچھے رہ گیا بلکہ وہ ہے جو آگے موجود ہے۔
انسان اگر صرف اپنی پرانی نیکیوں پر فخر کرے یا اپنے گناہوں پر حسرت کرتا رہے اور اس کیفیت میں کچھ نہ بدلے تو سچائی کی راہ سے دور ہو جاتا ہے۔ ایسے میں وہ نہ تو اپنے دل کو پاک کرتا ہے، نہ خدا کی طرف بڑھتا ہے بلکہ ایک خیالی ماضی میں قید ہو جاتا ہے۔ اصل کامیابی تب حاصل ہوتی ہے جب انسان اپنے حال پر توجہ دے، اپنے دل میں جھانکے، توبہ کرے اور سچی لگن کے ساتھ سچائی کی طرف سفر شروع کرے۔ جو انسان آج بھی خود کو بدلنے کی کوشش کرے، وہ کل کے ہر نقصان کو جیت میں بدل سکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ اسی کے متعلق فرماتے ہیں:
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا توُ نے؟
وہ کیا گردُوں تھا، توُ جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
4۔بطخ:
بطخ ایک ایسا پرندہ ہے جو پانی سے گہری محبت رکھتی ہے۔وہ ہمیشہ جھیل، ندی یا دلدل کے گرد بسیرا کرتی ہے اور اُسے اپنے سکون، طہارت اور نجات کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ جب ہُدہُد اُسے سیمرغ (اللہ کی معرفت) کے سفر کی دعوت دیتا ہے تو بطخ جواب دیتی ہے:
’’میں تو ہمیشہ پانی میں رہتی ہوں، پانی مجھے پاک کرتا ہے۔ میری فطرت ہی صفائی اور پاکیزگی سے جڑی ہوئی ہے۔ مجھے اس سفر کی ضرورت نہیں کیونکہ میں پہلے ہی پاک ہوں۔‘‘
ہُدہُد نرمی اور حکمت سے اُسے سمجھاتا ہے:
’’پانی صرف ظاہری گندگی کو دھو سکتا ہے لیکن دل کی میل، غرور اور نفس کا زنگ صرف سچے عشق اور تلاشِ حق سے ہی دور ہوتا ہے۔ اگر تُو اپنے آپ کو مکمل سمجھ کر بیٹھ جائے گی تو تُو کبھی حقیقت کے سمندر میں غوطہ زن نہیں ہو سکے گی۔‘‘
بطخ دراصل اُن لوگوں کی علامت ہے جو ظاہری عبادات، رسمی طہارت یا اپنی نیکیوں پر فخر کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پہلے ہی کامل ہیں، اُنہیں مزید تلاش یا قربِ الٰہی کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایسے لوگ صرف عبادت کے ظاہر پر بھروسہ کرتے ہیں اور دل کی سچائی، نیت کی پاکیزگی اور عاجزی کو بھول جاتے ہیں۔ ظاہری نیکی یا طہارت پر مغرور ہونا انسان کو رُوحانی ترقی سے روک دیتا ہے۔
اصل صفائی تو دل کی صفائی ہے اور وہ طلب، لگن، ہمت اور اس کے بعد مرشد کامل اکمل سے بیعت ہونے کے بعد ان کے تعلیمات پر عمل کرنے سے ملتی ہے۔جو شخص خود کو مکمل سمجھ کر بیٹھ جاتا ہے، وہ کبھی حق تک نہیں پہنچتا۔
5۔ باز:
باز ایک ایسا پرندہ ہے جو فطرتاًشاہی، طاقتور اور بلند اُڑان والا ہے۔ اور خود کو پرندوں کا بادشاہ سمجھتا ہے۔ جب ہُدہُد نے اُسے سیمرغ کی طرف سفر کی دعوت دی تو باز نے ایک فخریہ انداز میں کہا:
’’میں کسی عام پرندے کی طرح کیوں کسی اور کے پیچھے چلوں؟ میں تو شاہی ہاتھ پر بیٹھتا ہوں، بادشاہ مجھے اپنے ساتھ رکھتے ہیں، میری عزت ہے، میرا رتبہ ہے۔ مجھے اپنی اہمیت پر فخر ہے۔‘‘
ہدہد نے جواب دیتے ہوئے کہا:
’’توُ جس بادشاہ کے ہاتھ پر بیٹھتا ہے، وہ خود فانی ہے۔ وہ تخت بھی ایک دن مٹی ہو جائے گا اور وہ ہاتھ بھی۔ تیری سچی عزت تب ہے جب توُ سچ کے سامنے جھکنے کا ہنر سیکھے۔ غرور کی پرواز جتنی بھی اونچی ہو، انجام اُسی مٹی پر ہوتا ہے جہاں باقی سب گرتے ہیں۔‘‘
باز ہمارے اُس انسانی نفس کی نمائندگی کر رہا ہے جو عزت، طاقت، عہدے، شہرت یا کسی بڑے مقام پر فخر کرتا ہے اور یہی سمجھتا ہے کہ وہی سب کچھ ہے۔
ایسے لوگ اللہ کی تلاش میں کیونکر نکلیں؟ انہیں تو دنیا پہلے ہی سجدہ کر رہی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سچ کی تلاش عام لوگوں کا کام ہے، اُن کا نہیں۔ لیکن اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ طاقت، عزت، مرتبہ اور مقام کبھی بھی ہماری اصل پہچان نہیں ہو سکتے۔ اصل عظمت اُس انسان کی ہے جو اپنے ربّ کو پہچانے، اُس کے آگے جھکنے کا سلیقہ سیکھے اور اپنے غرور کو مٹا کر سچ کی تلاش میں نکلے۔
(حصہ دوم اگلے شمارہ میں)
Bht khoob likha h
Superb👍🏻
ایک بہت ہی خوبصورت اور معلوماتی مضمون
انسان کے لیے اللہ کے دیدار اور اس کی طلب کے علاوہ ہر چیز بیکا ر ہے۔ انسان جگہ جگہ سکون تلاش کرتا ہے لیکن حقیقی سکون جس میں ہے اس کی تلاش میں نہیں نکلتا اور اگر نکل بھی جائے تو دنیاداری کی ذمہ داریوں کا عذر پیش کر کے اس راہ سے کنارہ کر لیتا ہے۔
This is a thought Provoking article 👍👍👍
اصل عظمت اُس انسان کی ہے جو اپنے ربّ کو پہچانے، اُس کے آگے جھکنے کا سلیقہ سیکھے اور اپنے غرور کو مٹا کر سچ کی تلاش میں نکلے۔
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردُوں تھا، توُ جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
Ya Allah apna fazal farma 🤲
بہترین مضمون
BHT bhtareen Andaz m Likha h
اصل عظمت اُس انسان کی ہے جو اپنے ربّ کو پہچانے، اُس کے آگے جھکنے کا سلیقہ سیکھے اور اپنے غرور کو مٹا کر سچ کی تلاش میں نکلے۔
منفرد تحریر
عمدہ تحریر