Hayat-e-nabi

حیاتِ نبوی–Hayat-e-Nabvi

Spread the love

Rate this post

حیاتِ نبوی

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے کہ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ السلام ا بھی مٹی اور پانی کے درمیان تھے یعنی اُن کا خمیر تیار نہیں ہوا تھا جس سے اُن کے جسد کو بنایا جا سکے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس وقت سے نبی ہیں جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نور سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نور کو جدا کیا اور میم احمدی کا نقاب اوڑھ کر صورتِ احمدی اختیار کی اس لیے بشری ولادت سے قبل بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نبی تھے اور نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر نبی میں منتقل ہوتا رہا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم انبیا سابقین کے روپ میں کائنات میں موجود تھے۔ حالتِ بشریت میں ظہور کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ئنات میں ظاہری اور باطنی طور پر مو جود رہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال مبارک ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اب بھی کامل حیات کے ساتھ کائنات میں موجو د ہیں۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ’’رسول‘‘ کے طور پر دیکھا جائے تو کلمہ طیبہ’’لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘کا ترجمہ ذرا غورسے پڑھیے ۔۔۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اس کے رسول ہیں۔ اس کو ہم یوں لے سکتے ہیں کہ جو دور بھی گزر رہا ہو اُس کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رسول ہیں۔ جو گزر گیا اُس کے بھی رسول ہیں، جو گزر رہا ہے اس کے بھی رسول ہیں اور جو گزرے گا اس کے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رسول ہیں اور رسول وہ ہوتا ہے جو موجود ہو۔ اگر ہم حیاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منکر ہو جائیں تو عقیدہ ختمِ نبوت کے بھی منکر ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے جو کلمہ مسلمانوں کو عطا فرمایا اس کے الفاظ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ(اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد اللہ کے رسول ہیں)ہی اس حقیقت پر پختہ شہادت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوت قیامت تک اُسی طرح جاری و ساری رہے گی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیاتِ ظاہری میں تھی۔اب کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ ’’محمد( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)اللہ کے رسول تھے،‘‘ وہ یہی کہے گا کہ ’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ اگر کوئی ایسا نہ کہے تو وہ بالاتفاق کافر ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت کو ابدلآباد تک کے لیے مانا جائے۔ یہ بنیادی تقاضاءِ ایمان ہے کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ماضی میں رسول سمجھے جانے کے تصور کو سرے سے ختم کردیا اور ماضی کا صیغہ استعمال کرنے کی اجازت ہی نہیں دی۔ ختمِ نبوت کی حقیقت سے یہ واضح کردیا کہ دوسرے نبی آئے اور چلے گئے، چونکہ ان کی رسالت عارضی تھی اس لیے نئے نبی بھی آتے رہے مگر حضور خاتم النبیین و خاتم الرسل ہیں لہٰذا اب قیامت تک کوئی نیا نبی و رسول نہیں آئے گا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوت و رسالت ہر زمانے میں جاری ہے اور قیامت تک رہے گی ۔ اس لیے یہ عقیدہ رکھنا فرض ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اب بھی اسی طرح اللہ کے رسول ہیں جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے تھے، اسی طرح ہمارے لیے ہیں اور اسی طرح تا قیامِ قیامت بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے بھی ہوں گے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تریسٹھ (۶۳) برس تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہر کوئی سر کی آنکھوں سے دیکھ سکتا تھا مگر وصال مبارک کے بعد عاشقین و عارفین آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سِرّ کی آنکھوں سے دیکھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محفل میں حاضر ہوتے ہیں۔
اہلِ شعور حضرات کے لئے ایک اور مثال بیان کی جاتی ہے۔حیاتِ نبوی کو سمجھانے کے لئے صرف یہی مثال کافی ہے کسی دوسری مثال کی ضرورت نہیں۔
اللہ تعالیٰ شہدا کے بارے میں فرماتا ہے کہ انہیں مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم کو اُن کا شعور نہیں ۔ وہ اپنے ربّ کے پاس زندہ ہیں اور روزی پا رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انعام یافتہ گروہوں کا جو ذکر فر ما یا ہے ان میں شہدا کا گروہ تیسرا ہے ۔ سورہ النساء آیت 69 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے اُن کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین۔
اب اللہ تعالیٰ شہدا کے بارے میں تو فر مارہا ہے کہ وہ مردہ نہیں زندہ ہیں اور تم اُن کا شعور نہیں رکھتے اور وہ روزی پا رہے ہیں تو کیاپہلا گروہ جو انبیا کرام کا ہے او رشہدا سے کہیں زیادہ افضل ہے، زندہ نہیں ہو سکتا۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے معراج کی رات موسیٰ علیہ السلام کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور تمام انبیا کرام کے مسجد اقصیٰ میں امام بنے اور تمام انبیا کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ اگر وہ مردہ تھے تو نماز ادا کرنے کہاں سے آگئے؟ اب تمام انبیا زندہ ہیں ‘شہدا زندہ ہیں‘ تو حبیبِ خدا جن کے لئے یہ تمام کا ئنات تخلیق کی گئی اور جن کے سر پر خاتم النبیین کا سہرا سجا، جن کو امام الانبیا بنایا گیا کیا وہ زندہ نہیں ہیں ؟ کتنے بے عقل اور بے شعور اور جاہل لوگ ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (نعوذباللہ) حیات نہیں ہیں۔ کیا کہتے ہیں اس بارے میں وہ جو اہلِ شعور ہیں، نورِ بصیرت، زندہ دل اور علمِ حق رکھنے والے تو اس بات کو سمجھ سکتے ہیں مگر مردہ دل اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ وہ اہلِ شعور نہیں بے شعور ہیں۔
؂ یہ دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
اس راز کو عشق سے ہی پایا جا سکتا ہے۔
ز حضرت عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ اگر میں نو مرتبہ اس بات کی قسم کھاؤں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام شہید فی سبیل اللہ ہیں تو مجھے یہ بات اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں ایک مرتبہ ایسی قسم کھاؤں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام شہید فی سبیل اللہ نہیں ہیں کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نبی بھی ہیں اور شہید بھی ہیں۔(زرقانی جلد۸، خصائص کبریٰ جلد ۲ )
ز حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اَلْاَ نْبِیَآءُ اَحْیَاءٌ فِیْ قُبُوْرِھِمْ یُصَلُّوْنَ۔ (جامع صغیر سیو طی جلد1،خصائص کبریٰ جلد2)
ترجمہ: انبیاکرام علیہم السلام اپنے اپنے مزارات میں زندہ ہیں وہ نمازیں پڑھتے رہتے ہیں۔
ز حضرت ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ روایت فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَآءِ فَنَبِیُّ اللّٰہِ حَیٌّ یَرْزُقُ۔(ابنِ ماجہ۔مشکوٰۃ جلد 1)
ترجمہ:’’بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیا کے جسموں کو کھائے اللہ تعالیٰ کا ہر نبی قبر میں زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق دیا جاتا ہے۔‘‘ اور رزق زندہ کو دیا جاتا ہے مردہ کو نہیں۔
ز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اِ نَّ الْاَنْبِیَآءَ لَایَمُوْتُونَ وَاِنَّھُمْ یُصَلُّوْنَ وَیُحَجُّوْنَ فِیْ قُبُوْرِھِمْ رَاَنَّھُمْ اَحْیَآءٌ۔ (فیوض الحرمین۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی)
ترجمہ:بے شک انبیا فوت نہیں ہوتے اور بے شک انبیا اپنی قبروں میں نماز پڑھتے اور حج کرتے ہیں اور بے شک وہ زندہ ہیں۔
اس حدیث پاک میں نماز تو اپنی قبر میں ہی ادا کرنے کا بیان ہے لیکن حج کرنے کے لیے تو مکہ مکرمہ آنا پڑتا ہے اور یہ تو کوئی زندہ ہی کر سکتا ہے۔
ز ہم نماز میں، تشہد میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر سلام بھیجتے ہیں تو ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِِیُّ‘‘کہتے ہیں اور عربی میں ’’عَلَیْکَ ‘‘کا صیغہ سامنے موجود یعنی حاضر شخص کے لیے اور ’’علیہ‘‘ کا صیغہ غیر موجود شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جب ہم تشہد میں سلام پڑھتے ہیں تو اس عقیدہ کے ساتھ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حیات ہیں اور موجود ہیں بلکہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ کائنات کے ذرے ذرے میں موجود ہیں۔ اب جو لوگ حیاتِ نبوی کے منکر ہیں وہ ہمت اور کوشش کریں اور نماز میں صیغہ’’ عَلَیْکَ ‘‘کو’’ علیہ ‘‘میں بدل دیں پھر دیکھیں تماشا کیا ہوتا ہے۔ ان کو مرزائیوں کی طرح غیر مسلم قرار دلوانے کے لیے لوگ اُٹھ کھڑیں ہونگے۔
ز علامہ ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ فصوص الحکم میں فرماتے ہیں: ’’پس ازل سے ابد تک انسانِ کامل ایک ہی ہے اور وہ ذات صاحبِ لولاک سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات پاک ہے جو آدم علیہ السلام سے لے کر عیسیٰ علیہ السلام تک رسولوں، نبیوں اور خلفا کی صورت میں ظاہر ہوتی رہی ہے اور ختمِ نبوت کے بعد غوث، قطب، ابدال، اولیا اللہ کی صورت میں اعلیٰ قدر مراتب ظاہر ہوتی رہے گی۔ (صفحہ 165 شرح فصوص الحکم والایقان شرح محمد ریاض قادری)
بقول علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ
مومن نہیں جو صاحبِ لولاکؐ نہیں ہے
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمنہ صرف حیات ہیں بلکہ آج بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس اسی طرح موجود ہے جس طرح ظاہری حیات میں صحابہ کرامؓ کے ساتھ موجود تھی۔عاشق اور عارف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں اور فیض حاصل کرتے ہیں۔ دیدارِ حق تعالیٰ مجلسِ محمدی میں حاضری کے بعد حاصل ہوتاہے۔ حیاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور مجلسِ محمدی کے بارے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
ز ’’پس جو شخص حیات النبی کا منکر ہے وہ کس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا امتی ہو سکتا ہے وہ جو بھی ہے جھوٹا ہے وہ بے دین و منافق ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’جھوٹا آدمی میرا اُمتی نہیں ہے۔‘‘(کلید التوحید کلاں)
ز جسے حیات النبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم )کا اعتبار نہیں وہ ہر دو جہان میں ذلیل و خوار ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وہ شخص مردہ سمجھتا ہے جس کا دِل مردہ ہوا ور اس کا سرمایۂ ایمان و یقین شیطان نے لوٹ لیا ہو۔(کلید التوحید کلاں)
ز سن اگر کوئی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مردہ سمجھتا ہے اور حیات النبی کا انکار کر تا ہے تو اس کا ایمان سلب ہو جاتا ہے۔(عین الفقر باب پنجم)
علامہ اقبالؒ حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں فرماتے ہیں:۔
ز میرا عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم زندہ ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی ان کی صحبت سے اسی طرح مستفیض ہو سکتے ہیں جس طرح صحابہ کرام j ہوا کرتے تھے لیکن اس زمانے میں تو اس قسم کے عقائد کا اظہار بھی اکثر دماغوں پر ناگوار ہوگا اس واسطے خاموش رہتا ہوں۔ (خط بنام نیازالدین خاں۔فتراکِ رسول۔7)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھورحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ باطن میں دیدارِ الٰہی اور حضوری مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دو ایسے انتہائی مقام ہیں کہ ان سے بلند مقام باطن میں او ر کوئی نہیں ہے اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آج بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح صحابہ کرامؓ کے دور میں تھی۔ حضرت سخی سلطان باھُورحمتہ اللہ علیہ کی شاید ہی کوئی تصنیف ایسی ہو جس میں’’ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم‘‘ کا ذکر نہ کیا گیا ہو۔’’راہِ حق‘‘ میں یہ ایک ایسا مقام ہے جس میں طالبِ مولیٰ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضور ی سے مشرف ہو جاتا ہے اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کی تربیت فرماتے ہیں اور باطن میں اسے معرفتِ الٰہیہ کے مراتب طے کراتے ہیں۔
حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمد کے تصور سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘
اس عبارت کی شرح اس طرح ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے اسمِ اللہ ذات حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرہ مبارک تھا اور اسمِ محمد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات مبارک تھی۔اب حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ تک رسائی کا طریقہ صرف اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمد کا تصور ہے بشرطیکہ یہ وہاں سے حاصل ہو اہو جہاں پر اسے عطا کرنے کی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے باطنی طور پر اجازت ہو اور یہ بات طالب کو اسمِ اللہ ذات کے تصور کے پہلے دن ہی معلوم ہو جاتی ہے کہ اس نے جہاں سے اسمِ اللہ ذات یا اسمِ محمد حاصل کیا ہے وہ مرشدِ کامل ہی کی بارگاہ ہے۔
حضرت سخی سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’رُخِ مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) کی زیارت سے تمام مرادیں پوری ہو جاتی ہیں اور حضوری غرق فنا فی اللہ بھی نصیب ہو جاتی ہے۔‘‘(کلید التوحید کلاں)
جان لے اُمت پیروکارکو کہتے ہیں اور پیروکار وہ ہے جو قدم بقدم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقشِ قدم پر چل کر خود کو ان کی مجلس میں پہنچائے۔مجھے تعجب ہوتا ہے ان لوگوں پر جو راہِ حضوری نہیں جانتے لیکن نفس پرستی‘خود نمائی اور کبر و ہوا کے باعث عارفانِ باللہ سے طلب بھی نہیں کرتے۔ بھلا جو شخص نظرِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں منظور و حضور ہی نہیں وہ مومن‘ مسلمان‘ فقیر ‘ درویش ‘عالم فقیہہ‘ پیروکار اور اُمتی کیسے ہوسکتا ہے؟جان لے کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ کی حضوری ہدایت کی جڑ ہے اور یہ ہدایت بدایت (ابتدا‘بنیاد) میں ہے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’انتہا ابتدا کی طرف لو ٹ جانے کا نام ہے-‘‘ ظہورِحق کی ابتدا چونکہ نورِ محمدی کے ظہور سے ہوئی اور تمام مخلوق نو رِ محمدی سے ظہور پذیر ہوئی اس لئے ’’ابتدا‘‘ نورِ محمدی ہی ہے‘ لہٰذا ابتدا نورِ محمدی تک پہنچنا ہی انتہا ہے۔یہی مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری ہے اور یہی سِرِّ ہدایت ہے۔جو شخص اس کا قائل و طالب نہیں وہ گویا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اُمتی و پیروکار ہی نہیں۔(کلید التوحید کلاں)
معرفت خدائی بھیدوں میں سے ایک بھید ہے جو عارفوں کو محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے حاصل ہوتا ہے۔آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) کی مجلس کی حضور ی کے حالات یوں ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ظاہر میں نفسانی لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں تو اپنے نفسانی وجود کے ساتھ اُن سے گفتگو فرماتے ہیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم باطن میں روحانیوں سے ملاقات کرتے ہیں تو اپنے روحانی وجود کے ساتھ اُن سے ہم کلام ہوتے ہیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے لب مبارک ہلاتے ہیں تو اہلِ تحقیق عبرت و حیرت میں ڈوب جاتے ہیں کیونکہ نفسانی بندہ سمجھتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس سے مخاطب ہیں اور روحانی سمجھتا ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس سے ہم کلام ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ سے ہم کلام ہوتے ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے وجود میں نفس کو فنا کر رکھا ہے جس سے نفس کا یار شیطان بہت پریشان ہے۔ جیسا کہ حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ میں تیس سال سے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوں لیکن نفسانی لوگ سمجھتے ہیں کہ میں اُن سے ہم کلام ہوں اور روحانی سمجھتے ہیں کہ میں اُن سے مخاطب ہوں۔(کلید التوحید کلاں)
جان لے کہ باطن میں ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حاضر رہنے والا طالب اگر کسی دینی یا دنیوی کام کے لئے التماس کرتا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی درخواست منظور فرمالیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اصحابؓ اس کے لئے دعائے خیر فرمادیتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ کام نہیں ہوتا اس کی وجہ کیا ہے؟ اس طالب کو معلوم ہو نا چاہیے کہ ابھی وہ کمال کو نہیں پہنچا‘ ابھی وہ ترقی کر رہا ہے اور طلب کے مشکل مرحلے میں ہے اس لئے باطن میں اسے اس کی درخواست کا نعم البدل عطا کر دیا جاتا ہے جو اس کے لئے باعثِ فرحت ہوتا ہے۔ ترقی قرب کے اس مرتبے پر اسے مبارکباد ہو۔اگر طالب جاہل ہے یا مردار دنیا کا طالب ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلسِ خاص میں طلبِ دنیا کا سوال کر دیتا ہے تو اس نالائق کو اس مجلسِ خاص سے نکال دیا جاتا ہے یا اس کا مرتبہ اعلیٰ سلب کر لیا جاتا ہے۔ جس طالب کا ظاہر باطن ایک ہو جائے اور وہ یکجائی کے مقام پر قائم رہے اور اس کے درجات میں ترقی نہ ہو تو وہ توحید میں غرق ہوتا ہے اورتوحیدِ الٰہی ایسے ہی اہلِ توحید پر مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دروازہ کھولتی ہے۔(شمس العارفین)
روز و شب در طلبِ نبویؐ با حضور
مرد مرشد میرساند خاص نور
ہر کہ منکر میشود زیں خاص راہ
عاقبت کافر شود با روسیاہ
ترجمہ: دِن رات مجلسِ محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی حضوری کی طلب کر لیکن یاد رکھ اس خاص نور تک مرد مرشد ہی پہنچا سکتا ہے۔ جو کوئی اس خاص راہ کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہو کر روسیاہ ہوجاتا ہے۔(مجا لستہ النبیؐ)
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں فرماتے ہیں:
بہ مصطفیؐ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است
ترجمہ: تو محمد مصطفی (مجلسِ محمدی) تک خود کو پہنچا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی مکمل دین ہیں۔ اگر تو اُن(مجلسِ محمدی) تک نہیں پہنچتا تو تیرا سارا دین ابو لہب کا دین ہے۔
سلطان الفقرششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ مجلسِ محمدی کے بارے میں فرماتے ہیں:
ز باطن میں مجلسِ محمدی کی دائمی حضوری دوسرا بڑا مقام ہے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا چہرہ مبارک اسمِ اللہ ذات ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے اسمِ اللہ ذات حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ظاہری چہرہ مبارک تھا اس لئے ان کو اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمد کے تصور کی ضرورت پیش نہیں آئی۔لیکن اب مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے لئے اسمِ اللہ ذات یا اسمِ محمد کا تصور ضروری ہے بشرطیکہ یہ وہاں سے حاصل ہوا ہو جہاں پر اسے عطا کرنے کی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے باطنی طورپر اجازت ہو۔ جب اسمِ اللہ ذات یا اسمِ محمد کے نور سے طالب کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہچان ہوتی ہے تو اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے کہ جس نے مجھے دیکھا بیشک اس نے حق دیکھا کیونکہ شیطان میری شکل اختیار نہیں کرسکتا۔
پس ثابت ہوا کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حیات ہیں اور ہر زمانہ میں اس زمانہ کی شان کے مطابق ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر یہ بات تیری سمجھ میں نہیں آتی تو سورۃ رحمن کی آیت 29 ’’کُلَّ ےَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کر ہر حقیقت تجھ پر کھل جائے گی۔
(یہ مضمون سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی تصنیفِ مبارکہ ’’حقیقتِ محمدیہ‘‘ سے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے)


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں