امامِ مبین سلطان العاشقین Imam-e-Mubeen Sultan-ul-Ashiqeen

5/5 - (19 votes)

امامِ مبین سلطان العاشقین
Imam-e-Mubeen Sultan-ul-Ashiqeen

تحریر:  مسز انیلا یٰسین سروری قادری

امامِ مبین دو الفاظ امام اور مبین کا مرکب ہے۔ ’امام‘ سے مرادپیشوا، رہنما، رہبر اور راہ دکھانے والا۔ جبکہ’مبین‘ سے مرادہے واضح، روشن، ظاہر، جس میں کوئی ابہام نہ ہو ۔
بعض مفسرین نے ’’امامِ مبین‘‘ سے لوحِ محفوظ مراد لیا ہے جیسا کہ تفسیر ابن ِکثیر میں یوں درج ہے ’’ہر چیز کا مکمل اندراج اور حساب کتاب لوحِ محفوظ میں محفوظ ہے۔‘‘
فقرائے کاملین و اہل ِمعرفت کے مطابق ’’امامِ مبین‘‘ دراصل وہ ہستی ہے جو باطنی طور پر کائنات کے نظام کی نگرانی کر رہی ہے۔ یہ مقام انسانِ کامل یا امامِ وقت کا ہے۔ (حضرت ابنِ عربیؒ، کتاب: ’’الفتوحات المکیہ‘‘ جلد 3)

قرآنِ مجید میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
وَ کُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ  فِیْٓ  اِمَامٍ  مُّبِیْن ٍ (سورۃ یٰس۔ 12)
ترجمہ: اور ہر امر کو جمع کر رکھا ہے ہم نے امام مبین میں۔

سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام،امامِ زمانہ، انسانِ کامل، فقیر مالک الملکی، مرشد کامل اکمل، جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی مایہ ناز تصنیف مبارکہ ’’شمس الفقرا‘‘ میں درج ہے ’’اس آیت میں ’’امامِ مبین‘‘ سے مراد انسانِ کامل ہے اور اللہ نے اپنے ہر امر، حکم اور اپنی پیدا کردہ کل کائنات کو ایک لوحِ محفوظ جو کہ انسانِ کامل کا دل ہے، میں محفوظ کر رکھا ہے۔ انسانِ کامل کا دل وہ جگہ ہے جہاں انوارِ ذات نازل ہوتے ہیں اور اس کی وسعت کا بیان و اندازہ نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ حدیث نبویؐ ہے: قَلْبُ الْمُوْمِنِ عَرْشُ اللّٰہِ تَعَالٰی  ترجمہ:مومن کاقلب اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔

پس اہلِ فقر و تصوف کے نزدیک ’’امام ِمبین‘‘ سے مراد ظاہری کتاب یا امام نہیں بلکہ وہ واحد کامل اکمل ہستی ہے جو اللہ کی جانب سے انسانیت کی بھلائی کے لیے منتخب شدہ ہو۔ وہی بیک وقت نائبِ رسولؐ، خلیفتہ اللہ فی الارض، اسم و مسمیّٰ کی جامع صورت، کائنات کی تقدیرات کا عالم، احکام ِالٰہی کی تجلیات کا کامل مظہر اور رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ اس کی سب سے اعلیٰ ترین پہچان ’’انسانِ کامل‘‘ کے نام سے منسوب ہے جو کہ ہر دور میں فقط ایک ہی ہوتا ہے۔

حضرت عبدالکریم بن ابراہیم الجیلیؒ اپنی تصنیف ’’انسانِ کامل‘‘ میں لکھتے ہیں:
انسانِ کامل قطبِ عالم ہے جس کے گرد اوّل سے آخر تک وجود کے فلک گردش کرتے ہیں اور وہ جب وجود کی ابتدا ہوئی، اس وقت سے لے کر ابدالآباد تک ایک ہی شے ہے۔ پھر اس کے لیے رنگا رنگ لباس ہیں اور باعتبارِ لباس اس کا ایک نام رکھا جاتا ہے کہ دوسرے لباس کے اعتبار سے اس کا وہ نام نہیں رکھا جاتا۔ اس کا اصلی نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے۔ اس کی کنیت ابو القاسم، اس کا وصف عبد اللہ اور اس کا لقب شمس الدین ہے۔ پھر باعتبار دوسرے لباسوں کے اس کے نام ہیں۔ پھر ہر زمانہ میں اس کا ایک نام ہے جو اس زمانہ کے لائق ہوتا ہے۔ (شمس الفقرا)

اس حقیقت کو مزید وضاحت سے حضرت علامہ ابن ِعربیؒ ’’فصوص الحکم‘‘میں بیان فرماتے ہیں: 
ہر زمانہ میں آپؐ ازل سے لے کر ابد تک اپنا لباس بدلتے رہتے ہیں اور اکمل افراد کی صورت پر حضورؐ ہی جلوہ نما ہوتے ہیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
انسانِ کامل حضرت محمدؐہیں اور دیگر تمام فقرائے کاملین آپؐ کے وسیلے سے مراتب بمراتب (وصالِ الٰہی اور کاملیت کے) اس مقام پر پہنچے۔ (عین الفقر)
 پس انسانِ کامل کا وجود طلسمات اور اسم و مسمّٰی کا ایک گنج معمّہ ہوتا ہے۔(نورالہدیٰ کلاں)

امامِ زمانہ، قطب الاقطاب، شبیہِ غوث الاعظم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
سلسلہ سروری قادری میں جب طالب ھوُ میں فنا ہو کر فنافی ھوُ ہو جاتا ہے اور اس کے ظاہر و باطن میں ھو کے سوا کچھ نہیں رہتا تو یہ ہے مقامِ ’’ہمہ اوست در مغز و پوست‘‘ اور اسی مقام کا حامل ہوتا ہے سلسلہ سروری قادری کا امام۔ وہی امامِ زمانہ، انسانِ کامل، فقیر مالک الملکی، مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ اور وہی حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اس زمانے میں خلیفہ اور نائب ہوتا ہے۔ یعنی حقیقت ِ محمدیہؐ ہر زمانے میں آپؐ کے نائب، خلیفہ اور جانشین کی صورت میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔( شمس الفقرا)

جنہیں اللہ پاک خاص اپنے لیے چُن لیتا ہے ان کے خمیر میں بھی وہ اپنے عشق کا بیج ڈال دیتا ہے جو کہ اپنے زمانے میں اکمل صورت  میں ظاہر ہوتا ہے اور پھر اللہ اس کی وساطت سے ہی اپنا نظام چلاتا ہے۔

عصرِحاضر میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ذات ِاقدس ہی ’’امام ِمبین‘‘ کی جامع اکمل صورت ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس کی ذات و صفات اور اعلیٰ روحانی منصب و مقامِ ولایت کی خوبیاں لامحدود ہیں جن کو اس مختصر تحریر میں نہیں سمویا جاسکتا پس قارئین کے لیے نہایت مختصراً جمالی تعارف بیان کیا جا رہا ہے۔ صادق عاشق کے لیے ایک شرارہ ہی کافی ہے اور خود پسند کے لیے سمندر بھی محض ایک بوند کی مانند ہی ہے۔

مرشد کامل اکمل نورالہدیٰ

فرمان سلطان باھوؒ:

 مرشد کامل طالبِ اللہ کو تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعے معرفت و دیدار کا سبق دیتا ہے اور دنیا مردار سے بیزار کر کے ہزار بار توبہ کراتا ہے۔ مرشد کامل وہ ہے جو تصور اسمِ اللہ ذات سے معرفت ِدیدار منکشف کرتا ہے پھر اسمِ اللہ ذات میں لوٹ آتا ہے کیونکہ ابتدا اور انتہا کا کوئی مرتبہ بھی اسم ِاللہ ذات سے باہر نہیں اور نہ ہوگا۔ (نور الہدیٰ کلاں)

مرشد کامل اکمل وہ رہبر اور رہنما ہے جو نہ صرف اپنے مریدین کے ظاہر کو سنوارتا ہے بلکہ ان کے باطن، نفس، قلب اور روح کی اصلاح کر کے انہیں قربِ الٰہی اورمعرفت و دیدارِ حق تعالیٰ سے مشرف کرتا ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ کے مرتبہ پر فائز ہیں۔آپ مدظلہ الاقدس ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات اور اپنی نگاہِ کامل سے مریدین کے قلوب کو نورِ حق سے منور فرماتے ہیں اور انہیں مجلسِ محمدیؐ کی حضوری تک پہنچا دیتے ہیں جو کہ ’’امامِ مبین‘‘ کی پہچان ہے۔

علمِ لدنیّ

حضرت علامہ ابنِ عربیؒ فرماتے ہیں:
امامِ مبین علمِ الٰہی کا مظہر ہوتا ہے ۔وہ باطن کی گہرائیوں میں بھی حق کو پہچانتا ہے۔ (فصوص الحکم)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
تودونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر علیہ السلام) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے اپنا علمِ لدنیّ (یعنی اَسرار و معارف کا الہامی علم) سکھایا تھا۔ (سورۃالکہف۔65)

اللہ پاک اپنا علم اپنے خاص ہمراز کے قلب پر ہی ودیعت کرتا ہے۔ میرے ہادی مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے فقر و تصوف اور معرفت و حقیقت پر مایہ ناز کتب تحریر فرمائی ہیں جو کہ آپ مدظلہ الاقدس کی حاملِ علمِ کلی اور علمِ لدنیّ کا ثبوت ہیں۔ یہ کتب ایسے نایاب خزینہ کی مانند ہیں جن کے مطالعہ سے قاری کی نہ صرف ظاہری بلکہ باطنی حالت بھی یکسر تبدیل ہو جاتی ہے اور حقیقت کی راہیں اس پر منکشف ہو جاتی ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ مدظلہ الاقدس رازِ الٰہی کے امین،نائب ِرسولؐ اور امامِ مبین کے مرتبہ پر فائز ہیں۔

وارثِ فقرِمحمدیؐ

امامِ مبین کی روحانی حیثیت خلیفۂ رسولؐ اور نائبِ رسولؐ کی ہوتی ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس تمام روحانی سلاسل کے سردار سلسلہ سروری قادری کے موجودہ اکتیسویں شیخِ کامل ہیں۔ سلسلہ سروری قادری کی ابتدا سرورِ کائنات حضرت محمدؐ سے ہوئی جس میں آقا پاکؐ نے اپنا فخریعنی ورثۂ فقر منتقل فرمایا اور تا قیامت فقر کا یہ خزانہ اسی سلسلہ میں رہے گا۔ فقر کے متعلق آپؐ کا فرمان مبارک ہے’’ فقر میرا فخر ہے اور فخر مجھ سے ہے اور فقر ہی کی بدولت مجھے تمام انبیا و مرسلین پر فضیلت حاصل ہے۔‘‘ 

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ ورثہ فقر بابِ فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو منتقل فرمایا۔ اس طرح یہ سلسلہ براہِ راست حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت خواجہ حسن بصریؓ، سیدناغوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ،سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ اور پھر سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کے ذریعے سے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس تک پہنچتا ہے۔ خزانہ وہی تقسیم کرتا ہے جو اس کا امین یا مالک ہو۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے اپنی کاوشوں اور مسلسل انتھک جدوجہد سے فقر محمدیؐ کو نہ صرف کھول کربیان فرمایا بلکہ اس کو عملاً جاری بھی فرمایا جو صرف امامِ مبین کے مقام پر ہی ممکن ہے۔ پس سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی ذات مثلِ آفتاب ہے جس سے طالبِ حق اپنے قلوب کو نورِ فقرِمحمدیؐ سے منور کر رہے ہیں۔(نوٹ: تفصیلات کے لیے کتاب شمس الفقرا میں شجرہ سلسلہ سروری قادری کا مطالعہ کریں)

مظہر تجلیاتِ اسمِ اللہ ذات

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: جہاں فقر مکمل ہوتا ہے وہیں اللہ ہے۔ (عین الفقر)
یعنی امامِ مبین اسمِ اللہ ذات کا مظہر ِکامل ہوتا ہے۔سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فنافی ھوُ فقیر مالک الملکی کے منصب پر فائز ہیں۔ نورِ حق کی تجلیات ہمہ وقت آپ مدظلہ الاقدس کے اخلاق و کردار اور اعمال سے ظاہر ہوتی رہتی ہیں جس کا اہلِ عشق بغور مشاہدہ کرتے ہیں اور اپنے قلوب کو بھی نورِ الٰہی سے منور کرتے ہیں۔ یہی امامِ مبین کی پہچان ہے۔

 تیرے در پر پہنچ کر کیوں کوئی عارف نہ بن جائے
کہ اسمِ ذات میں عکسِ رُخ کامل نظر آئے

مرکزِ ہدایت

امامِ مبین ہر دور میں اللہ کی جانب سے انسانیت کی بھلائی کے لیے منتخب شدہ ہوتا ہے اور یہی انسانیت کی بھلائی کا مرکز ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اور ہر امر کو جمع کر رکھا ہے ہم نے امامِ مبین میں۔ (سورۃ یٰسین۔ 12)

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی پاکیزہ حیاتِ مبارکہ کا ایک ایک لمحہ انسانیت کی بھلائی کے لیے وقف ہے جس کا ثبوت نظام ِفقر کی تعلیمات کو پوری دنیا میں فروغ دینا،تعلیماتِ فقر کی نشرو اشاعت میں حیران کن اضافہ ہونا اور تمام تر ذرائع ابلاغ کو بروئے کار لاتے ہوئے جدید تقاضوں کے مطابق دنیا بھر کے متلاشیانِ حق تک پیغامِ فقر کو پہنچانا شامل ہے۔ بلاشبہ روز بروز معرفتِ حق تعالیٰ اور قربِ الٰہی کے حصول کے لیے متلاشیانِ حق کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کی دلیل ہے کہ موجودہ دور میں طالبانِ حق کے لیے فقرِ محمدیؐ کے حصول کا مرکز و محور صرف سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی ذات مبارکہ ہی ہے جو دورِ جدید میں انسانیت کی بھلائی کے لیے امامِ مبین کی پہچان ہے۔

باطن کا امام

امام ِمبین مرید کے اندر کو بدلتا ہے۔سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں: 

عارف کامل قادری بہر قدرتے قادر و بہر مقام حاضر

ترجمہ:عارف کامل قادری (صاحبِ مسمّٰی مرشد کامل سروری قادری) ہر قدرت پر قادر اور ہر مقام پر حاضر ہوتا ہے۔ (رسالہ روحی شریف)

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سروری قادری مرشد کامل اکمل ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس ہمہ وقت اپنے مریدوں کی ظاہری و باطنی نگہبانی اور رہنمائی فرماتے رہتے ہیں پھر چاہے مرید آپ مدظلہ الاقدس کی نگاہ کے سامنے بیٹھا ہو یا سات سمندر پار قیام پذیر ہو، وہ ہمیشہ آپ کی نگاہِ فیض اور مہربانی سے مستفید ہوتا ہے۔ آپ کی نگاہِ کامل مرید کے باطن کو نفس کے شر، شیطانی وسوسوں اور رکاوٹوں سے نجات دلا کر مجلسِ محمدیؐ کی حضوری کی نعمت عطا فرماتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت اور اعلیٰ روحانی تصرف کی بدولت لاتعداد مریدین کے باطن تسلیم و رضائے الٰہی، یقین ِکامل، توکل علی اللہ اور اخلاصِ نیت سے معمور ہوئے ہیں اور کثیر تعداد میں طالبانِ  مولیٰ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت اور بہت سے طالبانِ مولیٰ کو مجلسِ محمدیؐ کی دائمی حضوری نصیب ہوئی ہے۔

مزیدبرآں مشکل میں پھنسے بہت سے مریدین نے خواب، الہام، کشف اور قلبی واردات میں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی رہنمائی اور موجودگی کی شہادت بھی دی ہے۔ یہی امامِ مبین کی پہچان ہے۔ اس کا ثبوت کتاب ’’سلطان العاشقین‘‘ کے باب ’’مریدین کے مشاہدات اور تاثرات‘‘ میں درج ہے۔

مرتبۂ توحید

توحید کا مطلب صرف اللہ کو ایک ماننا نہیں بلکہ کامل توحید تو یہ ہے کہ بندہ غیر ما سویٰ اللہ سے فنا حاصل کر کے صرف اللہ واحد کا ہی ہو جائے یعنی اس کے اندر صرف اللہ ہی باقی رہ جائے باقی سب معدوم ہو جائے۔ توحید کا اعلیٰ ترین درجہ توحید ِذات ہے جس پر صرف امامِ مبین ہی فائز ہو سکتا ہے کیونکہ اس نے حق تعالیٰ کا مشاہدہ اور قربِ کامل حاصل کر لیا ہوتا ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی ذات، نگاہ، عمل الغرض زندگی کا ہر پہلو اس ذات کا مظہر ہے۔

آپ مدظلہ الاقدس کا مقام    لِیْ مَعَ اللّٰہ  ہے۔

آپ کی شان کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ  ہے۔ آپ کی ذات مبارک ان احادیث کے عین مطابق ہے:
اللہ کے چند بندے ایسے ہیں جو نہ نبی ہیں نہ شہید لیکن روزِ قیامت انبیا اور شہدا ان پر رشک کریں گے۔

اللہ تعالیٰ کے دوستوں کی یہ صفت ہوتی ہے کہ ان کی گفتار، سانس، لباس، رہائش یہاں تک کہ قدموں کی خاک اور وہ جگہ جہاں انہوں نے ایک دن یا ایک پل کے لیے قیام کیا ہو، میں برکتیں موجود ہوتی ہیں۔ (منہاج العابدین)

 آپ مدظلہ الاقدس نے ہمیشہ دنیا، نفس، شیطان اور لذتوں کو رَد کر کے ’’اللہ بس ما سویٰ اللہ ہوس‘‘ کے اصول کو اپنایا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی صحبت میں آنے والے عام سے عام مرید کا رُخ بھی اللہ کی جانب ہو جاتا ہے۔

لامحدود روحانی تصرف

عام انسان کی سوچ صرف ظاہری جسم،نفس اور محدود فہم تک رہتی ہے جبکہ امامِ مبین کا علم اور وساطت صرف اس ظاہری نظام تک محدود نہیں بلکہ یہ ہستی توکائنات کی تمام مخلوقات اور موجودات پر تصرف رکھتی ہے۔ امامِ مبین چونکہ نورِ محمدیؐ کا مظہر، علم ِلدنیّ اور امرِ الٰہی کا حامل ہوتا ہے اس لیے اس کا تصرف زمان و مکاں کی قید سے ماورا ہے۔

کتاب ’’شان سلطان العاشقین‘‘ میں درج ہے کہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا تصرف احاطۂ بیان سے بالاتر ہے۔ اپنے لاتعداد مریدین، خواہ انسانوں میں سے ہوں یا جنوں میں سے، کے بے شمار معاملات میں تصرف فرما کر اپنے طالب کے لیے خیر کا پہلو اور اس کے دشمن کے لیے خیر سے شر نکال لاتے ہیں۔ مزید برآں طالب کے بے شمار معاملات میں تصرف فرماتے ہیں پھر ہر معاملے میں تصرف کی بے شمار جہتیں ظاہر فرما کر طالب کو یقین ِمرشد سے نوازتے ہیں۔ (شان سلطان العاشقین)

مجددِ دین

’’مجدد‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں نئی زندگی دینے والا یا تازہ کرنے والا۔ اصطلاح میں مجدد سے مراد وہ ہستی ہے جو ہر صدی کے آغاز میں دینِ اسلام کو اس کی اصل روح یعنی قرآن و سنت، شریعت اور طریقت کے مطابق بدعات، فرقہ واریت اور مادی آلودگیوں سے پاک کر کے دوبارہ زندہ کرے۔

ہر دور میں دین کا مجدد امامِ مبین ہوتا ہے جو دین کو زمانے کے جدید تقاضوں کے مطابق انسانیت کی بھلائی کے لیے روشناس کرواتا ہے۔

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے تصور اسمِ اللہ ذات کی تعلیم کو، جو کہ صدیوں سے محدود تھی اسے عام، قابلِ فہم، قابلِ عمل اور روحانی ترقی کا ذریعہ بنا کر فقرِمحمدیؐ کی اصل روح کو زندہ فرمایا۔ آپ نے انسانیت کی باطنی اصلاح کے لیے خانقاہ سلطان العاشقین اور مسجدِ زہراؓ کا قیام فرمایا جہاں دنیا بھر سے بلاامتیاز رنگ و نسل ہر کوئی آکر آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت سے مستفید ہو کر تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کے مراحل طے کرسکتا ہے۔ مزیدبرآں آپ مدظلہ الاقدس نے انسانیت کو فرقہ واریت سے نکال کر وحدانیت، یگانگت اور باطنی وحدت کی طرف بلایا۔ آپ کی تعلیم اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس اور آپ کی تلقین فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہ     (سورۃ الذٰریٰت۔50) ترجمہ:’’پس دوڑو اللہ کی طرف‘‘ ہے جو کہ اسلام کی اصل روح ہے۔

شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت ہر مقام و جہت پر میرے مرشد کریم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی ذات جامع اکمل مکمل بے مثل و بے نظیر ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی تمام ترصفات، صفاتِ ربانی کی مکمل اور جامع مظہر ہیں۔ 

آپ کی بلند پایہ شانِ ولایت اور اعلیٰ روحانی مراتب میں کوئی آپ کے مثل نہیں۔ بلاشبہ آپ کی ذات اس حدیث ِقدسی کے مصداق ہے:
میرا بندہ جب زائد نوافل کے ذریعے میرے قریب ہو جاتا ہے تو میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پس میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے، میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔ (بخاری شریف۔ 963)

خلوت بیٹھوں، جلوت بیٹھوں، بات تمہاری افضل
 اتنے لفظ کہاں سے لاؤں، ایسے لفظ کہاں سے لاؤں
تن میں سوچا، من میں سوچا، ذات تمہاری افضل
جن سے لکھی جائیں گی صفات تمہاری افضل
جو کچھ پایا تم سے پایا، جو کچھ جانا تم کو جانا
 کتنا پایا یہ نہ جانوں، رب ہی جانے کتنی ہے بہتات تمہاری افضل
تم کو دیکھا تم کو جانا، جو کچھ جانا تم کو جانا
اپنی بس پہچان جہاں میں‘ ذات تمہاری افضل

استفادہ کتب:
۱۔شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔انسانِ کامل :  تصنیفِ لطیف حضرت عبدالکریم بن ابراہیم الجیلیؒ
۳۔فصوص الحکم:  تصنیفِ لطیف شیخ ِ اکبر محی الدین ابنِ عربیؒ
۴۔ شان سلطان العاشقین:  تصنیفِ لطیف سلطان محمد عبد اللہ اقبال سروری قادری
۵۔سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز

 

13 تبصرے “امامِ مبین سلطان العاشقین Imam-e-Mubeen Sultan-ul-Ashiqeen

  1. سلطان العاشقین محمد ننجیب الرحمٰن مد ذللھلاقدس زنداباد

  2. امامِ مبین دو الفاظ امام اور مبین کا مرکب ہے۔ ’امام‘ سے مرادپیشوا، رہنما، رہبر اور راہ دکھانے والا۔ جبکہ’مبین‘ سے مرادہے واضح، روشن، ظاہر، جس میں کوئی ابہام نہ ہو ۔

  3. حضرت علامہ ابنِ عربیؒ فرماتے ہیں:
    امامِ مبین علمِ الٰہی کا مظہر ہوتا ہے ۔وہ باطن کی گہرائیوں میں بھی حق کو پہچانتا ہے۔ (فصوص الحکم)

  4. خلوت بیٹھوں، جلوت بیٹھوں، بات تمہاری افضل
    اتنے لفظ کہاں سے لاؤں، ایسے لفظ کہاں سے لاؤں
    تن میں سوچا، من میں سوچا، ذات تمہاری افضل
    جن سے لکھی جائیں گی صفات تمہاری افضل
    جو کچھ پایا تم سے پایا، جو کچھ جانا تم کو جانا
    کتنا پایا یہ نہ جانوں، رب ہی جانے کتنی ہے بہتات تمہاری افضل
    تم کو دیکھا تم کو جانا، جو کچھ جانا تم کو جانا
    اپنی بس پہچان جہاں میں‘ ذات تمہاری افضل

  5. عصرِحاضر میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ذات ِاقدس ہی ’’امام ِمبین‘‘ کی جامع اکمل صورت ہے۔

  6. تیرے در پر پہنچ کر کیوں کوئی عارف نہ بن جائے
    کہ اسمِ ذات میں عکسِ رُخ کامل نظر آئے

  7. جو کچھ پایا تم سے پایا، جو کچھ جانا تم کو جانا
    کتنا پایا یہ نہ جانوں، رب ہی جانے کتنی ہے بہتات تمہاری افضل

  8. امامِ مبین ہر دور میں اللہ کی جانب سے انسانیت کی بھلائی کے لیے منتخب شدہ ہوتا ہے اور یہی انسانیت کی بھلائی کا مرکز ہوتا ہے

  9. امامِ مبین اسمِ اللہ ذات کا مظہر ِکامل ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں