بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین) Bazm-e-Sultan-Ul-Ashiqeen Malfuzat Sultan-Ul-Ashiqeen

4.1/5 - (23 votes)

بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین)
    Bazm-e-Sultan-Ul-Ashiqeen Malfuzat Sultan-Ul-Ashiqeen

    قسط نمبر 10                                                                            مرتب: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

یقین کی حقیقت

کسی نے پوچھا کہ فقر میں یقین کے نشیب و فراز بھی ہوتے ہیں؟ کیاطالب کا یقین بار بار آزمایا جاتا ہے؟ اور ایسے میں طالب کو کیا کرنا چاہیے؟

فرمایا: قرآن کی سورۃ الحجر کی آیت نمبر 99 میں ہے:
وَ اعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ 
ترجمہ: اوراپنے ربّ کی عبادت کرتے رہو یہاں تک کہ تمہیں یقینِ کامل نصیب ہو جائے۔

 تو یقین کا ایمان کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ یقین کے تین درجے ہیں۔ پہلا’’ علم الیقین‘‘ہے یعنی کہیں سے پڑھ کر،کسی سے سن کر آپ کو یقین ہو جائے۔ یہ یقین کاکم تر درجہ ہے۔دوسرا درجہ’’عین الیقین‘‘ہے۔ آنکھوں سے دیکھ کر یقین کرنا۔ اس میں بھی دھوکہ ہو سکتا ہے۔ یہ دوسرا درجہ ہے مثلاً آپ سامنے سڑک پر دیکھ رہے ہیں کہ پانی نظر آرہا ہے حالانکہ وہ پانی نہیں ہے مگر گرمی کی وجہ سے نظر آ رہا ہے۔ تیسرا ہے ’’حق الیقین‘‘ یعنی آپ کو اتنا یقینِ کامل ہو جائے کہ یقین سے کبھی ہٹ نہ پائیں۔ 

حضرت جنید بغدادیؒ کا قول ہے :
’’حق الیقین ‘‘وہ علم ہے جو انسان کو آنکھ کے ذریعے سے تحقیق کی صورت میں حاصل ہو اور وہ غیبی خبروں کا اس طرح مشاہدہ کرے جس طرح اپنی آنکھوں سے نظر آنے والی چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔‘‘

ان تینوں مراتب علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کو ایک مثال کے ذریعے سے سمجھیں۔ آگ جلاتی ہے لیکن آپ نے کبھی دیکھا نہیں۔ کوئی شخص آپ کو بتاتا ہے کہ اپنا ہاتھ آگ میں نہ لے جانا یہ جلاتی ہے۔ یہ علم الیقین ہے۔ اب اگر کوئی شخص اپناہاتھ آگ میں جلا کرآپ کو دکھا دے تو یہ عین الیقین ہے۔ اگر آپ خود آگ میں جل کر دیکھ لیں گے تو یہ حق الیقین ہے۔

طالب کو اللہ پاک پر یقین ہونا چاہیے کہ میں جو دعا کر رہا ہوں، جو مانگ رہا ہوں اللہ مجھے عطا کر دے گاکیونکہ وہ عطا کر سکتا ہے ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
جب تیرا ایمان یقین اور تیری معرفت علم بن جائے تو توُ خدائی کا رندہ بن جائے گا۔

’’کا رندہ‘‘ کہتے ہیں کام کرنے والے کو۔ مطلب ہوا کہ وہ اللہ کا کام کرنے والا بن جائے گا۔ جیسے حضرت خضر علیہ السلام کی مثال قرآن میں ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ اصل یقین یقینِ مصطفیؐ ہے اور اصل یقین یقینِ مرتضیٰؓ ہے۔(شمس العارفین)
 تو یقین تک جو پہنچنا ہے حق الیقین تک پہنچنے کا نام ہے۔ طالب کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کا مرشد پر کتنا یقین ہے، یہ ایک درجہ ہے۔ آپ کو اللہ کے رسولؐ پر کتنا یقین ہے، یہ یقین کا دوسرا درجہ ہے اور آپ کو اللہ پر کتنا یقین ہے، یہ یقین کا تیسرا درجہ ہے۔ کامل یقین تو معرفت کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے۔ 

یقین میں بار بار آزمایا جانا

جہاں تک بات ہے بار بار آزمائے جانے کی تو جب انسان کا یقین علم الیقین یا عین الیقین کے مرتبہ پر ہو تو کئی دفعہ مصیبت ایسی آ جاتی ہے کہ اس کا یقین ڈگمگا جاتاہے اور لوگوں کی طرف چلا جاتا ہے کہ یہ میری مدد کرے گا،یہ میرا مسئلہ حل کرے گا۔ لیکن حق الیقین والا کبھی نہیں ڈولتا جبکہ علم الیقین اور عین الیقین والے ڈول جاتے ہیں اور کسی نہ کسی مقام پر جا کر وہ یقین سے گر جاتے ہیں۔ کامل یقین والے کا کام کیسے ہوتا ہے اس کی مثال یہ ہے کہ آپ کو کوئی بیماری ہے۔ آپ کو اللہ پر یقین ہے کہ شفا اس نے دینی ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے:
وَ اِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِیْنِ  (سورۃالشعرائ۔80)
ترجمہ: اور جب میں بیمار ہوجاتاہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔

جب اللہ پاک نے آپ کوشفا دینی ہوگی تو ڈاکٹر صحیح Diagnose کر لے گا پھر صحیح دوائی بھی لکھ دے گا اور اگر اللہ نے شفا نہیں دینی ہو گی توڈاکٹرکو سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ آپ کو بیماری ہے کیا۔ اِسی طرح ایک سٹوڈنٹ محنت کرتا ہے لیکن فیل ہو جاتاہے، پھر دوسری بار محنت کرتا ہے اور فیل ہو جاتا ہے لیکن تیسری بار کامیاب ہو جاتا ہے۔ کامیابی اللہ ہی دیتا ہے جب بھی دے دے، حالانکہ ممکن ہے محنت پہلی بار زیادہ کی ہو۔

یقین سے ہی دعا قبول ہوتی ہے۔ اللہ پر یقین ہو توآپ کی دعاقبول ہوگی۔ اپنے مرشد پر یقین ہو گا تو مسئلے حل ہوں گے۔ اگر یقین نہ ہو تو مسئلہ کیا حل ہونا ہے، جو مرضی کوشش کرتے رہیں۔ 

تصوف کا مسئلہ اگرسمجھ نہ آئے!

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے فرمایا: یہ جو کتاب ہے نا ’’شمس الفقرا‘‘ تصوف کا کوئی بھی طالب، کوئی بھی مرید اس کو سرہانے رکھ کر سوئے تو کوئی بھی چیز جو اس کو سمجھ نہ آتی ہو، وہ سمجھ آ جائے گی کیونکہ کوئی بھی چیز اس سے باہر نہیں۔جو سوال ذہن میں آئے، اُس کا جواب اس میں موجود ہے۔ ہر چیز اس میں ہے۔ ہر مقام پر علیحدہ طریقے سے رہنمائی ہے۔ 

راز کی بات اہل کو بتانی چاہیے

فرمایا: راز کی بات صرف اہل کو بتانی چاہیے۔ نااہل کو بتانا راز کے ساتھ ناانصافی ہے اور اہل سے چھپانا، اہل کے ساتھ ناانصافی ہے۔ جیسے حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کو خواب بتا دیا تومشکل میں پھنس گئے۔ کوہِ طور پر اس (اللہ) نے اپنا راز کھولا تو وہ قائم نہ رہا۔ ہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ نااہل پر راز کھلتا نہیں اور اہل سے چھپتا نہیں۔ راز ہے ہی اہل پر افشا ہونے کے لیے۔ نااہل پر کھول دیا جائے تو وہ اپنا نقصان کر بیٹھتا ہے۔ راز اہل پر افشا کرنے کے لیے ہی تو مرشد کامل محرمِ راز ڈھونڈتا ہے۔

قطرہ کا سمندر میں ملنا

فرمایا: کامیابی یہ ہے کہ قطرہ سمندر میں مل جائے۔ کیونکہ جب قطرہ سمندر میں مل جاتا ہے پھر اس کو قطرہ نہیں کہا جا سکتا ہے پھر وہ سمندر کا حصہ بن جاتا ہے۔

 رضا

فرمایا: جب اللہ اپنے بندے سے راضی ہوتا ہے تو اسے توفیق بخشتا ہے کہ وہ اس سے راضی ہو جائے یعنی اللہ راضی ہو تو ہی بندہ راضی ہوتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ  (سورۃ البینہ۔8)
ترجمہ: اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے۔

اگر انسان غور کرے تو اس کے پاس راضی رہنے کے علاوہ کوئی اور  چارہ ہے ہی نہیں۔ اللہ فرماتا ہے:
ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے، ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے۔ پس اگر تم نے سپرد کر دیا اپنے آپ کو میری چاہت کے،تو میں وہ بھی تجھے دوں گا جو تیری چاہت ہے اور ہو گا وہی جو میری چاہت ہے۔ اور اگر تو نے نافرمانی کی اس کی جو میری چاہت ہے تو میں تھکا دوں گا تمہیں اس میں جو تیری چاہت ہے اور ہوگا تو پھر بھی وہی جو میری چاہت ہے۔

منافق زبان سے زیر کرتا ہے

فرمایا: منافق زبان سے ہی سامنے والے کو زیر کرتا ہے۔ ابنِ سبا کو دیکھ لیں وہ زبان کا ہی تیز تھا، اسی تیزی کی وجہ سے اس نے کتنا نقصان پہنچایا۔ اس وجہ سے کسی کی زبان پر نہ جائیں۔ سرفراز بزمی لکھتے ہیں:

اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ

اللہ اعمال نہیں نیت دیکھتا۔ اسی وجہ سے تو جب شیطان نے اللہ کی نافرمانی کی تو پوچھا تجھے کس چیز نے اس سے روکا۔ اس نے جواب دیا کہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ جائز نہیں حالانکہ اس کی نیت یہ تھی کہ میں اس سے بہتر ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ا س کی نیت کو دیکھتے ہوئے اسے اپنی بارگاہ سے نکال دیا۔
مسجدِضرار منافقین نے تعمیر کی تھی، کام تو بظاہر اچھا تھا لیکن نیت اچھی نہ تھی۔
وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا  (سورۃ توبہ۔107)
ترجمہ:اور(منافقین میں سے وہ بھی ہیں) جنہوں نے نقصان پہنچانے کے لئے مسجد بنائی۔

مرشد کی ناراضی اور شیطا ن کا دھوکہ

فرمایا: کئی دفعہ شیطان سالک کے اندر وسوسہ ڈالتا ہے کہ تیرا مرشد تجھ سے ناراض ہے۔ یہ وسوسہ ڈالتا رہتا ہے توکچھ طالب اس جال میں پھنس جاتے ہیں کہ مرشد ناراض ہے۔ جب طالب یقین کر لیتا ہے کہ اس کا مرشد اس سے ناراض ہے پھر وہ اندر سے مرشد سے دور ہو جاتاہے اور آہستہ آہستہ باہر(ظاہر) سے بھی دور ہو جاتا ہے۔ یہ شیطان کا جال ہے، اس سے طالب کو ہوشیار رہنا چاہیے۔مرشد ناراض نہیں ہوتابلکہ وہ تو ہادی ہوتا ہے۔ اگر ناراض ہو جائے تو ہدایت کاکام کیسے کر سکتاہے؟سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

جس ہادی کولوں ہدایت ناہیں، اوہ ہادی کی پھڑناں ھوُ

یعنی جس کے پاس ہدایت دینے کی طاقت نہ ہو تو ایسے ناقص کو مرشد تسلیم کرنے کا کیا فائدہ۔

فقر و تصوف میں مجاہدہ

کسی نے سوال کیا کہ کیا فقر میں کوئی ایسا مقام بھی ہے جس میں مجاہدہ  یا ڈیوٹی کی اہمیت کم ہو جاتی ہے یا اس کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے؟

فرمایا: ’’مجاہدہ‘‘ جدوجہد اور جہاد سے نکلا ہے اور مجاہدے کے بغیر مشاہدہ نہیں ملتا۔ اور آج کل آپ لوگوں نے اس کاآسان سا نام ’’ڈیوٹی‘‘رکھ لیاانگریزی میں۔اب مجاہدے کو ’’ڈیوٹی‘‘کہتے ہیں۔ مجاہدہ ہے اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنا،کوشش کرنا یا مرشد جیسے کہے ویسے کرنا۔ اس کے بہت سے طریقے ہیں۔ کسی کو کسی جگہ لگا دیا جاتا اور کسی کو کہیں۔ اس میں یہ ہے کہ خلوصِ نیت سے کرنا ہے، کسی نے دیکھا تو کر لیا نہ دیکھا تو نہ سہی۔ اس میں ہر چیز کو دیکھا جاتا ہے۔ 

 جہاں تک بات ہے کہ فقر میں کوئی مقام ایسا آتا ہے جہاں مجاہدہ ختم ہو جاتا ہے تو ہم پر تو ابھی ایسا مقام نہیں آیا۔ اگر کسی پر آتا ہے تو وہ پھر بہت آگے ہوگا۔۔۔ مجاہدہ تو زندگی کی آخری سانس تک کرنا پڑتا ہے۔ میں نے آپ سے کئی بار کہا ہے کہ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھ لیا کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال ہو گیا۔ گارنٹیاں صحابہ کرامؓ کے پاس ہیں، بڑی بڑی گارنٹیاں۔ عشرہ مبشرہ ہونے کی گارنٹی، غزوۂ بدر والے سب بخشے ہوئے ہیں اور گارنٹی دی کہ اگر ساری زندگی گناہ کرتے رہیں اللہ نے نہیں لکھنے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی گارنٹیاں ہیں۔۔۔ لیکن دیکھ لیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کی حالت کیا ہوتی تھی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ کی حالت کیا ہوتی تھی، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ کی حالت کیا ہوتی تھی، مولا علی کرم اللہ وجہہ کی حالت کیا ہوتی تھی۔ کبھی انہوں نے چھوڑا ہے مجاہدہ؟

 تو یہ کہنا کہ ایک مقام ہے جہاں مجاہدہ کی ضرورت نہیں تو یاد رکھیں! فقر و تصوف میں کوئی ایسا مقام نہیں۔ اگر ایسا مقام ہو تو ہم آرام سے گھر میں سو لیا کریں، ہمارے مرشد چلے گئے ہیں تو ہم گھر میں سو جاتے۔ ہم کیوں اپنی زندگی سکون سے نہیں گزارتے، اتنی تکلیفیں اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟

 انسان کی زندگی میں جدوجہد اور کوشش کبھی ختم نہیں ہوتی۔ آپ اپنی دنیاوی زندگی میں آخری سانس تک جدوجہد اور کوشش نہیں کرتے رہتے کہ دنیاوی زندگی بہتر ہو؟ توکیا نعوذ باللہ نعوذ باللہ! اللہ کی راہ آپ کی دنیاوی زندگی سے بھی گئی گزری ہے کہ آپ اس کے لیے کوشش ہی نہ کریں۔ اس لیے ایسا کوئی مقام نہیں۔

(جاری ہے)

 
 

11 تبصرے “بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین) Bazm-e-Sultan-Ul-Ashiqeen Malfuzat Sultan-Ul-Ashiqeen

  1. حضرت جنید بغدادیؒ کا قول ہے :
    ’’حق الیقین ‘‘وہ علم ہے جو انسان کو آنکھ کے ذریعے سے تحقیق کی صورت میں حاصل ہو اور وہ غیبی خبروں کا اس طرح مشاہدہ کرے جس طرح اپنی آنکھوں سے نظر آنے والی چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔‘‘

  2. شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
    جب تیرا ایمان یقین اور تیری معرفت علم بن جائے تو توُ خدائی کا رندہ بن جائے گا۔

  3. اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
    املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
    ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
    شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ

  4. اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
    املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
    ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
    شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ

اپنا تبصرہ بھیجیں